Viewing 1 post (of 1 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    حاتم جنگلوں اور صحراؤں میں مارا مارا پھر رہا تھا
    شہزادی حسن بانو کے پہلے سوال نے ہی اسے چکرا کے رکھ دیا تھا- سوال اتنا مشکل تھا کہ اگر کلیة الفنون کے طلبا سے بھی پوچھا جاتا تو کتابیں چھوڑ راہِ فرار اختیار کرتے
    اس مردِ قلندر کی خبر لاؤ ، جو یہ نعرہ الاپتا ہے کہ
    ایک بار دیکھا ہے ، دوسری بار دیکھنے کی حسرت نہیں
    حاتم کسی دیس میں جا نکلا اور بھیس بدل کے ایک سرائے میں جا ٹھہرا- وہاں ہر قوم ، ہر ملّت ، اور ہر جمیعت کے لوگ برابر چارپائیاں توڑتے تھے- اس نے دیس بہ دیس کے مسافران سے معانقہ کیا اور ہر ایک کے تئیں اس مردِ حُر کا پتا دریافت کیا
    کوئ بھی مسافر نہ تو کسی ایسے شخص کی خبر رکھتا تھا ، نہ ہی اس نظریہ کی صداقت پہ یقین رکھتا تھا کہ ایک بار دیکھا ہے ، دوسری بار دیکھنے کی حسرت “نہیں” ہے
    ہر ایک کا خیال تھا کہ خاطر جمعی کے واسطے چشمِ دید کو ایک موقع مزید ملنا ضروری ہے- جلوہِ حُسن عیاں ہو اور پلک ایک جھلک پہ بند ہو جاوے؟ نگاہِ شوق پلٹ کر خبر نہ لیوے؟ ایں خیال است و محال است و جنوں
    وہ ایک فروش گاہ جا نکلا جہاں کھوّے سے کھوّا چھلتا تھا- نگاہ اس کی دو شریف زادیوں پہ پڑی کہ بازار میں چلتی اور ہر اک دوکان پہ رکتی تھیں- بواسطہ تجربہ کے وہ ان نقاب پوشنوں کے تعاقب میں چلا اور مشاہدہ ، بازار میں کھڑے مردانِ باصفا کا کیا- ہر ایک کی لالٹینوں کا رخ ان حوّا زادیوں کی جانب تھا اور کسی کو بھی آنکھ جھپکنے کی تاب نہ تھی- غرض کہ سوائے مادر زاد اندھوں کے ، ہر کوئ انہیں دیکھتا ، بار بار دیکھتا اور دیوانہ وار دیکھتا تھا
    حاتم غمگین ہوا اور ایک قہوہ خانہ میں پناہ گزین ہوا- فنجان قہوے کا منگوایا اور دیوانہ وار چڑھایا- ناگاہ بازار میں شور قیامت کا اُٹھا اور لوگ قہوہ خانہ سے باہر بھاگے- حاتم فنجان چھوڑ باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ کچھ فدائی ایک سودائی کی ٹھکائی میں مصروف ہیں- وہ صلح صفائی کے واسطے آگے بڑھا اور بولا ٹھہر جاؤ بھائیو، پہلے یہ تو بتاؤ اس دیوانے کا آخر قصوُر کیا ہے؟
    لوگ اس پراگندہ طبع کو چھوڑ حاتم کی پزیرائ کو بڑھے- اس نے فوراً قومی شناخت نامہ نکالا اور کہا ، نامِ نامی میرا حاتم ہے – مُلکِ خراسان کا پٹواری ہوں اور زمینِ سرکاری کی نجکاری کے واسطے نکلا ہوں
    یہ سن کر لوگ آداب و تسلیمات کو جھکے- حاتم نے کہا یہ کیا شقاوت ہے کہ تم لوگ بھرے بازار میں ایک مجنوُن کی مرمّت کرتے ہو؟
    ان میں سے ایک بولا، یہ ناہنجار بداطوار، شریف زادیوں کو پریشان کرتا ہے- عورت کو دیکھ آپے سے باہر ہو جاتا ہے
    دوسرا بولا، نعلینِ زنانہ اس رسوائے زمانہ کی مرغوب غذا ہے- مردانِ باوقار کی طرح سینے پہ کھاوے تو چَس بھی آوے ، یہ ناہنجار ہمیشہ پیٹھ پہ کھاتا ہے
    تیسرے نے کہا ، یہ میرے ریستوران میں ناؤ نوش کرتا تھا- ناگاہ ایک بھکارن ، جواں صورت ، وہاں چلی آئی- یہ اسے دیکھ برہم ہوا- پھر طباق ، رکابی ، بادیہ اور طشتری اٹھا کر دور پھینکی- آبخورہ الٹا دیا اور بجھرے صراحیاں توڑ دیں- طعام بخش، سینی ، سرپوش اور خوان پوش سب بکھیر دیے- پھر کف گیر اٹھا اس بھکارن کے سر ہوا- وہ غریب تو جان بچا کر بھاگ گئی ، مگر سو روپے کا نقصان میرا ہوا
    پھر ایک گھڑ سوار ، صاحبِ جاہ و جلال مجمع کو چیرتا ، اسپِ تازی کو ایڑ لگاتا سامنے آیا اور بولا ، اے حاتم ، اتنا زود رحم مت بن- جو کچھ وبال اس بدحال پہ آیا ، اس کے اعمال کا نتیجہ ہے – اگر اس شخص کی حقیقت تجھ پہ آشکار ہو جاوے تو اپنی کھڑاویں اتار اس کے سر میں مارے
    حاتم نے کہا اے بزرگِ محترم اگر ہو سکے تو داستاں اس پریشاں کی مجھ پہ عیاں کیجئے- ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئ بات میرے کام کی پنہاں ہو اور مہم میری آساں ہو جاوے
    وہ بزرگ بولا ، اس لعین نے ایک بنجارن سے عشق لڑایا- باپ کا کُل ترکہ داؤ پہ لگایا- چھ بھینسیں راس نیلی ، بیچ بٹا کر اس پکھّی واسن پہ خرچ کر دیں- عشق میں گھربار اور کاروبار تباہ کر کے بیٹھ رہا- اب یہ نابکار ، ہر پرائ عورت کو دیکھ نعرہ لگاتا ہے ، ایک بار دیکھا ہے دوسری بار دیکھنے کی حسرت نہیں ہے
    حاتم کے مونہہ سے نکلا واہ سبحان اللہ، یہی تو وہ قلاش ہے ، جس کی مُجھے تلاش ہے- اس جوان کی مدارت اگر ہو چکی تو میرے حوالے فرما دیجئے- شاید کہ اس بدبخت کی سرگزشت مجھے پسند آوے اور گتّھی میرے سوال کی بھی سلجھ جاوے
    غرض کہ حاتم اس مجنون کو بہلا پھسلا اپنے ساتھ سرائے میں لے آیا- حمام کرایا اور لباسِ معقول پہنایا- خاصہ حلوہ نان کا منگوایا، خود بھی کھایا اسے بھی کھلایا- دو چار روز بعد وہ جوانِ شکیل ہوش میں آیا تو مسندِ اصیل پہ بٹھایا اور کہا
    اے اجنبی ، جو کچھ تم پہ گزری ، احوال اس کا نپٹ بیان کر تا کہ اوروں کے واسطے باعثِ عبرت ٹھہرے اور کام میرا بھی سنور جاوے
    اس نوجوان نے ایک آہِ سرد بھری اور اپنا احوال یوں سنانے لگا

    قصّہ مُختار ابنِ پنسار

    اے حاتم سُن ، یہ فقیر ، نامِ نامی مُختار ، تحصیل بھلوال کا باشندہ ہے ، لوگ جہاں کے بھولے بھالے اور کِنّو و موسمّی کی طرح خوبصورت ہیں- صاف دِلی اور سادہ مزاجی جن کی چہار دانگ عالم مشہور ہے
    باپ اس دلّق پوش کا طبیب نامِ نامی اور مشہور پنساری تھا- بطور معالجِ یونانی ، سودائے رنگا رنگ ، جو کارِ پنسار میں درکار ہوتے ہیں دکان پہ دستیاب تھے- دیوار گیر طاقچوں میں ہمہ قسم سفوف، جڑی بوٹیاں، کشتے ، اور معجونات سجے ہوئے تھے اور شہد کے کنستر بھرے ہوئے تھے
    یہ فقیر بچپن سے ہی قبلہ گاہی کا دستِ یار اور معاونِ کاروبار تھا- تعلیم کے ساتھ ساتھ جو وقت میّسر آتا دواخانہ کی نظر ہو جاتا- اکلوتا پسر ہونے کے سبب ماں باپ کی آنکھ کا تارا اور بڑھاپے کا واحد سہارا تھا- وہ مجھے دیکھ دیکھ جیتے اور میری خوبیوں پہ ناز کرتے تھے- میں بھی اپنے تئیں ہمیشہ ان کی امید پہ پورا اترتا اور انہیں مطمئن و مسرور رکھنے کی کوشش کرتا تھا
    قبلہ گاہی کا پنسار کے ساتھ ساتھ دودھ کا بھی کاروبار تھا- ہماری ملکیّت میں چھ راس نیلی بھنسیں تھیں ، نگہداشت جن کی امّاں کے سپرد تھی- بھینسوں کےلئے الگ ایک احاطہ گھر کے قریب مختص تھا- ایک ملازم با اِسم پھتّو ، ان کے چارے پہ متعیّن تھا
    زندگی بڑی آب و تاب سے گزر رہی تھی اور شاید گزر بھی جاتی اگر نورن میری زندگی میں نہ آتی
    میاں مقیم موڑ پر چند خانہ بدوش اپنی عارضی جھگیوں میں مقیم تھے
    مرد ان کے دن بھر سوئے رہتے تاش کھیلتے ، یا بھیک مانگتے- عورتیں ان کی صبح صادق سے بھی پہلے کام دھندے پہ نکل جاتیں- کوئ ان میں سے چوڑیاں بیچتی کوئ گھّگو گھوڑے- کوئی پرانے کھنڈرات سے اینٹیں اُکھاڑ کام میں لاتی- کوئی جھاڑ جھنکار سے شہد اتار بازار میں لے آتی- بچے ان کے اِدھر اُدھر گلیوں میں بھاگتے دوڑتے یا کوڑا کباڑ اکٹھا کیا کرتے تھے
    انہی عورتوں میں سے ایک نورن تھی جو جنگلات کا خالص شہد بیچنے ہمارے پنسار خانہ پہ اکثر تشریف لایا کرتی تھی- تیکھے اور پرکشش نین نقوش والی نورن کو دیکھ مجھ گناہ گار بندے کو بھی خدا یاد آ جاتا- سو جب بھی نظر پڑتی ، فوراً نگاہ جھکا لیتا- یوں نیکی مفت کی ملتی اور ایمان روز بروز بڑھتا ہی چلا جاتا- بقول قتیل شفائی کہ

    وہ جن کو دیکھ کے دل میں خدا کی یاد آئے
    ہم ان بتوں کا بڑا احترم کرتے ہیں

    میرے بڑھتے ہوئے ایمان کو دیکھ قبلہ گاہی نے اس کافرہ کے شہد کو “اسلامی شہد” کا نام دے دیا اور نیکوکار دھڑا دھڑ اسے خریدنے لگے

    بشکریہ ……. ظفر اقبال محمّد

    https://www.facebook.com/photo.php?fbid=2788343188090402&set=a.1509669302624470&type=3

Viewing 1 post (of 1 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi