Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 37 total)
  • Author
    Posts
  • Athar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1

    اگر پی ٹی آئی جمہوری پارٹی ہوتی تو کیا اُس کا”وزیر قانون” ایک جنرل کی وکالت کے لیئے استعفیٰ دے کر مشرف کا وکیل بن سکتا تھا؟اگر پی ٹی ائی جمہوری پارٹی ہوتی تو کیا وہ سزا یافہ جنرل کا کیس لڑنے والے وکیل کو دوبارہ اپنا “وزیر قانون”بنا سکتی تھی؟اگر پی ٹی آئی جمہوری پارٹی ہوتی تو کیا مشرف کے خلاف وفاق کے حق میں آنے والے فیصلے کے خلاف وکیل بننے والے فروغ نسیم کو اپنا وزیر قانون بنا سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پی ٹی آئی  انگلی والوں کی بغل بچہ پارٹی ہے اُنہوں نے وزیر اعظم کو انگلی پر بٹھا رکھا ہے اور وزیر اعظم انگل کے مزے لے رہا ہے بس

    اہلیان پی ٹی آئی کے سنجیدہ افراد کے لیئے لمحہ فکریہ  اگر وہ جمہوری سوچ رکھتے ہیں۔

    • This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    اطہر بھیا

    فروغ نسیم کا پی ٹی آئی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے

    یہ فوجیوں کا بوٹ چاٹنے والا بندہ ہے اور انکی ہی نمائندگی کرتا ہے

    یہ دور حاضرہ کا شریف الدین پیر زادہ ہے

    اس کی پوری تاریخ بوٹ چاٹنے سے بھری پڑی یے

    Athar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #3
    اطہر بھیا فروغ نسیم کا پی ٹی آئی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے یہ فوجیوں کا بوٹ چاٹنے والا بندہ ہے اور انکی ہی نمائندگی کرتا ہے یہ دور حاضرہ کا شریف الدین پیر زادہ ہے اس کی پوری تاریخ بوٹ چاٹنے سے بھری پڑی یے

    سر جی بات تو یہ ہے کہ وہ اس وقت نیازی کی ناک کا بال ہے

    نیازی قوم یوط کا سربراہ ہے

    قوم یوط بغض نواز میں مبتلا ہے

    اور نواز کو نیازی سے بہتر سمجھنے والے اتنی جمہوری سوچ تو رکھتے ہیں کہ جنرل کا وکیل بننے والے کے وزیر اعظم کو “دور فٹے منہ”کہہ سکیں۔

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    سر جی بات تو یہ ہے کہ وہ اس وقت نیازی کی ناک کا بال ہے نیازی قوم یوط کا سربراہ ہے قوم یوط بغض نواز میں مبتلا ہے اور نواز کو نیازی سے بہتر سمجھنے والے اتنی جمہوری سوچ تو رکھتے ہیں کہ جنرل کا وکیل بننے والے کے وزیر اعظم کو “دور فٹے منہ”کہہ سکیں۔

    اطہر بھیا

    ہمیں یوتھیوں اور بوٹ چاٹئیوں کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے

    ہر یوتھیا بوٹ چاٹیا ہوتا ہے لیکن ہر بوٹ چاٹیا یوتھیا نہیں ہوتا ہے

    اسوقت یوتھئیے اور بوٹ چاٹئیے اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت ایک ہی پیج پر ہیں اور ایک دوسرے کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں

    کل جب فوج عمران خان کو حکومت سے نکالے گی تو بوٹ چاٹئیے فوج کے اشارے پر عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر اس کی مخالفت شروع کر دیں گے لیکن یوتھئیے چھتر کھا کر بھی فوج کی مخالفت نہیں کریں گے

    عمران خان کو حکومت سے نکالنے کا کیس اگر عدالت میں جائے گا تو یہی فروغ نسیم عمران خان کی مخالفت میں عدالت میں پیش ہوگا

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Muhammad Hafeez
    Participant
    Offline
    • Professional
    #5
    یہ ایم قیو ایم کے ٹکٹ پر منتخب ہوا جبکہ ایم قیو ایم بھی اسے اون کرنے کو تیار نہیں اور انہوں نے کہا کہ یہ “ان” کے کوٹے پر وزیر ہے
    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    پی ٹی آئی کے پاس کوئی بھی کام کا وکیل نہی ہے ؟

    کل ایک پی ٹی آئی والے بھائی سے اس کا ذکر کیا تھا ، ان کا کہنا ہے آئین میں اس کی کوئی مما نعت نہی ہے

    Athar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #7
    پی ٹی آئی کے پاس کوئی بھی کام کا وکیل نہی ہے ؟ کل ایک پی ٹی آئی والے بھائی سے اس کا ذکر کیا تھا ، ان کا کہنا ہے آئین میں اس کی کوئی مما نعت نہی ہے

    اسی وجہ سے تو اہلیان سیاہ ست بے غیرتگی بھی کھل کر کرتے ہیں

    کیونکہ “آئین میں” اس کی بھی ممانعت نہیں۔

    Athar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #8
    اطہر بھیا ہمیں یوتھیوں اور بوٹ چاٹئیوں کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ہر یوتھیا بوٹ چاٹیا ہوتا ہے لیکن ہر بوٹ چاٹیا یوتھیا نہیں ہوتا ہے اسوقت یوتھئیے اور بوٹ چاٹئیے اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت ایک ہی پیج پر ہیں اور ایک دوسرے کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں کل جب فوج عمران خان کو حکومت سے نکالے گی تو بوٹ چاٹئیے فوج کے اشارے پر عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر اس کی مخالفت شروع کر دیں گے لیکن یوتھئیے چھتر کھا کر بھی فوج کی مخالفت نہیں کریں گے عمران خان کو حکومت سے نکالنے کا کیس اگر عدالت میں جائے گا تو یہی فروغ نسیم عمران خان کی مخالفت میں عدالت میں پیش ہوگا

    یہ بات آپ نے خوب کی یہ نیازی کے خلاف بھی وکیل ہوگا

    ہاں یہ بات بھی ہے اس وقت قوم یوط اور “اور بوٹ پنڈت”دونوں الگ الگ قسم کے پجاری ہیں

    مجھے افسوس ہوتا ہےکہ جب بے نظیر صاحبہ پاکستان آئی تھیں تو میں اپنے گھر والوں کی وجہ سے اسلامی جمہوری اتحاد کا حامی تھا(ابھی دسویں پاس نہں کی تھی(۔

    لیکن اگر مجھے اُس وقت زرا بی سیاسی بلوغت ہوتی تو میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حامی نہیں ہوسکتا تھا

    کسی بھی جنرل کی حمائت یا اُس کی چھتری تلے کام کرنے والے فرد کو “ووٹ”کیسے دیا جاسکتا ہے؟

    کاش اس سوال کا جواب اس وقت کے “باشعور”اہلیان پی ٹی آنز دے سکتے۔

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9
    یہ بات آپ نے خوب کی یہ نیازی کے خلاف بھی وکیل ہوگا ہاں یہ بات بھی ہے اس وقت قوم یوط اور “اور بوٹ پنڈت”دونوں الگ الگ قسم کے پجاری ہیں مجھے افسوس ہوتا ہےکہ جب بے نظیر صاحبہ پاکستان آئی تھیں تو میں اپنے گھر والوں کی وجہ سے اسلامی جمہوری اتحاد کا حامی تھا(ابھی دسویں پاس نہں کی تھی(۔ لیکن اگر مجھے اُس وقت زرا بی سیاسی بلوغت ہوتی تو میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حامی نہیں ہوسکتا تھا کسی بھی جنرل کی حمائت یا اُس کی چھتری تلے کام کرنے والے فرد کو “ووٹ”کیسے دیا جاسکتا ہے؟ کاش اس سوال کا جواب اس وقت کے “باشعور”اہلیان پی ٹی آنز دے سکتے۔

    کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو سیاسی طور پر بالغ تھی؟

    دو بار فوج سے ڈنگ کھانے کے بعد جب فوج نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا تو اس نے بغض نواز شریف میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کو درست قرار دیا

    جن وجوہات کی بنا پر اس نے مارشل لاء کو جائز قرار دیا وہ وجوہات تو اس کے اپنے باپ کے خلاف فوج کے مارشل لاء کے نفاذ کے وقت بھی موجود تھیں گویا اس نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کی حمایت کرکے خود اپنے باپ کے منہ پر تھپڑ دے مارا

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #10
    کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو سیاسی طور پر بالغ تھی؟ دو بار فوج سے ڈنگ کھانے کے بعد جب فوج نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا تو اس نے بغض نواز شریف میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کو درست قرار دیا جن وجوہات کی بنا پر اس نے مارشل لاء کو جائز قرار دیا وہ وجوہات تو اس کے اپنے باپ کے خلاف فوج کے مارشل لاء کے نفاذ کے وقت بھی موجود تھیں گویا اس نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کی حمایت کرکے خود اپنے باپ کے منہ پر تھپڑ دے مارا

    باوہ جی، جسطرح آپ جنرلوں کی پتلون کے ٹانکوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے اسی طرح سیاستدانوں کے بڑھتے ہوئے شکم کی تہوں کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ اگر یہ بدبخت کسی قابل ہوتے تو اس طرح بوٹوں کی نوکوں پر نہ ہوتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قوم کے نصیب میں گارے کی مٹی اور جعلی سمینٹ ہی آیا ہے ، نہ انہیں شعور ہے نہ پرواہ ۔

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11

    باوہ جی، جسطرح آپ جنرلوں کی پتلون کے ٹانکوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے اسی طرح سیاستدانوں کے بڑھتے ہوئے شکم کی تہوں کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ اگر یہ بدبخت کسی قابل ہوتے تو اس طرح بوٹوں کی نوکوں پر نہ ہوتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قوم کے نصیب میں گارے کی مٹی اور جعلی سمینٹ ہی آیا ہے ، نہ انہیں شعور ہے نہ پرواہ ۔

    زیدی بھائی، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں

    ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی نہ سوچ جمہوری ہے، نہ ہی طرز عمل اور نہ ہی یہ جمہوری اداروں کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں. وہ وقت اور حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں. جب خود کو کمزور اور نرغے میں محسوس کرتے ہیں تو اسٹبلشمنٹ کے آگے جھک جاتے ہیں اور جب تھوڑی طاقت آتی ہے تو جمہوریت پسند بن جاتے ہیں. وہ  اپنے ذاتی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر عوام کے حقوق، جمہوریت، پارلیمنٹ، آئین و قانون اور ووٹ کے تقدس کی بالادستی کی جنگ نہیں لڑتے ہیں. اگر کبھی کوئی سیاست دان فوج کی غلامی کا طوق گلے سے اتارنے کی کوشش کرتا ہے تو فوج کی طرف سے اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور میڈیا، عدلیہ، فوجی و سول ایجنسیوں اور دیگر تحقیقاتی و احتسابی اداروں کے ذریعے ذلیل و رسوا کرکے دوبارہ اسے بوٹ چاٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے. کسی کو حکومت میں لانے اور رخصت کرنے کے فیصلے ملک پر قابض فوج ہی کرتی ہے

    ایک آزاد و خود مختار جمہوری ملک میں تو سول حکومت اچھی کارکردگی دکھا کر اور عوام کی خدمت کرکے دوبارہ حکومت میں آ سکتی ہے لیکن فوج کے زیر تسلط ملکوں میں فوج کو کسی اچھی کارکردگی دکھانے والی سول حکومت سے کھرک شروع ہو جاتی ہے. پہلے وہ سول حکومت کے خلاف پس پردہ رہ کر سازشیں کرتی ہے اور پھر موقع ملنے پر کھلم کھلا بد معاشی کرنے پر اتر آتی ہے. ایسی حکومت کو عوام کی خدمت کرنے کے باوجود مارشل لاء لگا کر رخصت کر دیا جاتا ہے یا دوبارہ حکومت میں آنے سے روکا جاتا ہے. ملک کی کسی عدالت اور کسی ادارے کی اتنی جرات نہیں ہوتی ہے جو فوجیوں کی بد معاشی کے سامنے کھڑے ہو سکیں

    فوج کی بدمعاشی کی وجہ سے ملک سے نظریاتی سیاست, آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تصور ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ سیاست میں بوٹ چاٹنے کے نظریے نے لے لی ہے. حکومت حاصل کرنے کی خاطر سیاست دانوں میں بوٹ چاٹنے میں سبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے. اس وقت ملک کا ہر سیاست دان حکومت ملنے کی شرط پر بکنے اور بوٹ چاٹنے پر تیار بیٹھا ہے. ہر سیاست دان دوسرے سیاست دان سے بہتر بوٹ چاٹنے کا دعویدار ہے

    فوج سیاست زدہ ہونے کی وجہ سے دفاعی لحاظ سے خصی ہو چکی ہے. فوجی بھارت کے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لینے پر کشمیر میں جا کر لڑنے مرنے کی بجائے چھاونیوں میں مجرے کروا کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور یوم سیاہ منا رہے ہیں

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #12
    زیدی بھائی، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی نہ سوچ جمہوری ہے، نہ ہی طرز عمل اور نہ ہی یہ جمہوری اداروں کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں. وہ وقت اور حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں. جب خود کو کمزور اور نرغے میں محسوس کرتے ہیں تو اسٹبلشمنٹ کے آگے جھک جاتے ہیں اور جب تھوڑی طاقت آتی ہے تو جمہوریت پسند بن جاتے ہیں. وہ اپنے ذاتی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر عوام کے حقوق، جمہوریت، پارلیمنٹ، آئین و قانون اور ووٹ کے تقدس کی بالادستی کی جنگ نہیں لڑتے ہیں. اگر کبھی کوئی سیاست دان فوج کی غلامی کا طوق گلے سے اتارنے کی کوشش کرتا ہے تو فوج کی طرف سے اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور میڈیا، عدلیہ، فوجی و سول ایجنسیوں اور دیگر تحقیقاتی و احتسابی اداروں کے ذریعے ذلیل و رسوا کرکے دوبارہ اسے بوٹ چاٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے. کسی کو حکومت میں لانے اور رخصت کرنے کے فیصلے ملک پر قابض فوج ہی کرتی ہے ایک آزاد و خود مختار جمہوری ملک میں تو سول حکومت اچھی کارکردگی دکھا کر اور عوام کی خدمت کرکے دوبارہ حکومت میں آ سکتی ہے لیکن فوج کے زیر تسلط ملکوں میں فوج کو کسی اچھی کارکردگی دکھانے والی سول حکومت سے کھرک شروع ہو جاتی ہے. پہلے وہ سول حکومت کے خلاف پس پردہ رہ کر سازشیں کرتی ہے اور پھر موقع ملنے پر کھلم کھلا بد معاشی کرنے پر اتر آتی ہے. ایسی حکومت کو عوام کی خدمت کرنے کے باوجود مارشل لاء لگا کر رخصت کر دیا جاتا ہے یا دوبارہ حکومت میں آنے سے روکا جاتا ہے. ملک کی کسی عدالت اور کسی ادارے کی اتنی جرات نہیں ہوتی ہے جو فوجیوں کی بد معاشی کے سامنے کھڑے ہو سکیں فوج کی بدمعاشی کی وجہ سے ملک سے نظریاتی سیاست, آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تصور ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ سیاست میں بوٹ چاٹنے کے نظریے نے لے لی ہے. حکومت حاصل کرنے کی خاطر سیاست دانوں میں بوٹ چاٹنے میں سبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے. اس وقت ملک کا ہر سیاست دان حکومت ملنے کی شرط پر بکنے اور بوٹ چاٹنے پر تیار بیٹھا ہے. ہر سیاست دان دوسرے سیاست دان سے بہتر بوٹ چاٹنے کا دعویدار ہے فوج سیاست زدہ ہونے کی وجہ سے دفاعی لحاظ سے خصی ہو چکی ہے. فوجی بھارت کے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لینے پر کشمیر میں جا کر لڑنے مرنے کی بجائے چھاونیوں میں مجرے کروا کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور یوم سیاہ منا رہے ہیں

    یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ معتدد قووتیں جو اس ملک کو مثالی ملک بنانے اور لوگوں کی زندگیاں بدلنے کی سعی کے بجائے اپنی بونوں جیسی حرکتوں سے اپنے حصے کے کیک کی کوشش میں جتے ہوئے ہیں ۔

    آج اس ملک کو بنے ستر سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر جس حرص اور طمع کی لالچ جس کی بنیاد آغاز میں ہی پڑگئ تھی، اس میں رتہ برابر کمی دیکھی نہیں گئیں ۔ کونسا ایسا کام ہے جو ان سب صاحب اقتدار اور صاحب ثروت لوگوں نے اس ملک سے کھلواڑ کرنے میں بخشا ہے ۔
    باوا جی، جب تک اس ملک کے لوگ ، بہت سے جنرلوں ، کچھ ججوں اور چند جدی پشتی بوٹ چوپیے سیاستدانوں کو کھلے عام لیمپ پوسٹ سے انکے خصوں کے بل نہیں لٹکاتے اور ہفتوں لٹکا نہیں رہنے دیتے ، کسی بھی بھلائ کی تمنا رکھنا فضول ہے ۔

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13
    اوپر کی ساری بحث کا نچوڑ تو یہ نکلتا ہے کہ بھٹو، بے نظیر، نوازشریف،چوہردی برادران، وٹوانے، ٹوانے، نون، دولتانے اور دیوانے ، سب کے سب بوٹ چاٹ کر حکومت لے پاتے ہیں ہیں، بوٹ چاٹ کر اپنا پیریڈ بمشکل پورا کرتے ہیں

    اگر یہی صورتحال ہے تو پھر میں ان سیاستدانوں میں سے کسی ایک کی بھی حمایت کیوں کروں گا؟

    ان سب کو سیاست میں آنا ہی نہیں چاہئے اور فوج کو کہنا چاہئے کہ خود سنبھالو یا ہمیں سنبھالنے دو

    اس سارے مسئلے کا حال کوی نہیں جیسے کشمیر کا حل کوی نہیں

    فوج کے پاس سیاستدانوں کی عدم دستیابی کا حل جماعت اسلامی اور دیگر مزہبی جماعتوں کی صورت موجود ہے جس کے تجربات سرحد اور بلوچستان میں ناکامیابی کے ساتھ کئے جاچکے ہیں

    میرے نزدیک اس کا حل یہی ہے کہ انگریز کو دوبارہ دعوت اقتدار دی جاے

    اگر سارے دوست ایگری ہوں تو لکھیں میں لندن میں ہونے کی وجہ سے زیادہ آسانی سے ملکہ کے ساتھ ڈسکس کرسکتا ہوں

    :thinking:

    نوٹ۔ شامی پر بھروسہ نہ کیا جاے وہ ملکہ کا ویسے ہی وفادار ہے جیسے ماونٹ بیٹن تھا

    Athar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #14
    کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو سیاسی طور پر بالغ تھی؟ دو بار فوج سے ڈنگ کھانے کے بعد جب فوج نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا تو اس نے بغض نواز شریف میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کو درست قرار دیا جن وجوہات کی بنا پر اس نے مارشل لاء کو جائز قرار دیا وہ وجوہات تو اس کے اپنے باپ کے خلاف فوج کے مارشل لاء کے نفاذ کے وقت بھی موجود تھیں گویا اس نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کی حمایت کرکے خود اپنے باپ کے منہ پر تھپڑ دے مارا

    بھائی جی میں نے عرض کی کہ جب بی بی صاحبہ پاکستان آئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شائد 86،87کی بات ہے

    جب الیکنش ہوئی 1988میں تب میں نے میٹرک بھی نہیں کیا ہوا تھا

    لیکن اگر سیاسی بلوغت ہوتی تو میں جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی کی حمائت کرتا بجائے نواز شریف کے اسلامی جمہوری اتحاد کے

    سو بی بی کا کیا کردار رہا وہ بعد میں کیا کرتی رہیں اس سے قطع نظر اُن حالات میں کہ جب ایک جانب پھانسی چڑھا دینے والے جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی اور دوسری جانب ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے حمائیتوں میں فیصلہ کرنا ہوتا تو

    میری پہلی چوائس بی بی صاحبہ ہوتیں

    لیکن آج کی قوم یوط میں نہ جمہوری سوچ ہے نہ سیاسی بلوغت جو بچونگڑے شرفو گدھے کے دور میں شعور کی منزل کو پہنچے اُن کے زہنوں میں صرف اور صرف نواز بغض پالا گیا اُن کی تربیت صرف نواز مخالفت کی گئی اُسی کے زیر اثر “زومبی”بنے عقل و شعور سے عاری ہوکر نیازی متوالے بنے پھرتے ہیں۔

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #15
    بھائی جی میں نے عرض کی کہ جب بی بی صاحبہ پاکستان آئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شائد 86،87کی بات ہے جب الیکنش ہوئی 1988میں تب میں نے میٹرک بھی نہیں کیا ہوا تھا لیکن اگر سیاسی بلوغت ہوتی تو میں جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی کی حمائت کرتا بجائے نواز شریف کے اسلامی جمہوری اتحاد کے سو بی بی کا کیا کردار رہا وہ بعد میں کیا کرتی رہیں اس سے قطع نظر اُن حالات میں کہ جب ایک جانب پھانسی چڑھا دینے والے جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی اور دوسری جانب ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے حمائیتوں میں فیصلہ کرنا ہوتا تو میری پہلی چوائس بی بی صاحبہ ہوتیں لیکن آج کی قوم یوط میں نہ جمہوری سوچ ہے نہ سیاسی بلوغت جو بچونگڑے شرفو گدھے کے دور میں شعور کی منزل کو پہنچے اُن کے زہنوں میں صرف اور صرف نواز بغض پالا گیا اُن کی تربیت صرف نواز مخالفت کی گئی اُسی کے زیر اثر “زومبی”بنے عقل و شعور سے عاری ہوکر نیازی متوالے بنے پھرتے ہیں۔

    اطہر بھیا

    کونسے جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی؟

    ذرا میری رہنمائی فرما دیں کہ یہ جمہوری وزیر اعظم کس الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعظم منتخب ہوا تھا اور اسے اس الیکشن میں کتنی سیٹیں اور کتنے فیصد ووٹ ملے تھے؟

    اس الیکشن کے نتائج کے مطابق کونسی پارٹی الیکشن جیتی تھی اور اس نام نہاد جمہوری وزیر اعظم نے کیا اس الیکشن جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے کی حمایت کی تھی یا فوجیوں سے ساز باز کرکے اسے اقتدار منتقل کرنے میں رکاوٹ بنا تھا؟

    کیا آپکے اس جمہوری وزیر اعظم نے الیکشن کے نتائج کے مطابق جیتنے والی پارٹی کے لیڈر کا وزیر اعظم بننے کا حق اقتدار تسلیم کر لیا تھا یا خود وزیر اعظم بننے کی لالچ میں ملک ٹوٹنا گوارہ کر لیا تھا؟

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #16
    اطہر بھیا ہمیں یوتھیوں اور بوٹ چاٹئیوں کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ہر یوتھیا بوٹ چاٹیا ہوتا ہے لیکن ہر بوٹ چاٹیا یوتھیا نہیں ہوتا ہے اسوقت یوتھئیے اور بوٹ چاٹئیے اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت ایک ہی پیج پر ہیں اور ایک دوسرے کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں کل جب فوج عمران خان کو حکومت سے نکالے گی تو بوٹ چاٹئیے فوج کے اشارے پر عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر اس کی مخالفت شروع کر دیں گے لیکن یوتھئیے چھتر کھا کر بھی فوج کی مخالفت نہیں کریں گے عمران خان کو حکومت سے نکالنے کا کیس اگر عدالت میں جائے گا تو یہی فروغ نسیم عمران خان کی مخالفت میں عدالت میں پیش ہوگا

    باوا بھائی اگر فوج خان کے خلاف ہوئی تو خان کے حامی دو حصوں میں بٹ جائیں گے – جو بوٹ چاٹنے والے ہیں وہ خان کو چھوڑ دیں گے مگر جو خان کے پکے حامی ہیں وہ فوج کے خلاف پوسٹیں لگانا شروع ہو جائیں گے – ایسا ہی محاملہ نون کے ساتھ بھی ہوا تھا – ابتدا میں سب بوٹ چاٹنے والے اور نواز کے جانباز نواز کے ساتھ تھے مگر نواز کے فوج کے خلاف ہوتے ہی کچھ بوٹ چاٹنے والے خان کی پارٹی میں چلے گئے – نواز کی پارٹی میں دو گروپ ہیں ایک فوج کے حق والا شہباز گروپ اور دوسرا مزاحمتی گروپ نواز والا اسلئے نون لیگ کبھی ایک چولہ پہن لیتی ہے اور کبھی دوسرا – یہ سہولت خان کو میسر نہیں ہو گی کیونکے ان کی پارٹی ون مین ہے اگر خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ سٹانز لیتا ہے تو چاہنے والوں کو اس طرف ہی جانا ہو گا اور بوٹ کے سچے پیروکار پارٹی چھوڑ دینگے – میں سمجھتا ہوں جب تک کوئی پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ لائن کم از کم ایک بار نہیں اپناتی وہ مکمل اور دیر تک چلنے والی پارٹی نہیں بن سکتی -یہ قدر دونوں لمبے عرصے تک چلنے والی نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں مشترک ہے – دونوں مختلف ادوار میں اینٹی اور پرو اسٹیبلشمنٹ رہی ہیں – یہ بھی ممکن ہے اقتدار جانے کے بحد بھی امید پر دنیا قائم ہے سوچ کر خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ لائن نہ لے – ویسے خان جتنا پھٹو ہے مجھے نہیں لگتا وہ کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو گا –

    Athar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #17
    زیدی بھائی، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی نہ سوچ جمہوری ہے، نہ ہی طرز عمل اور نہ ہی یہ جمہوری اداروں کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں. وہ وقت اور حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں. جب خود کو کمزور اور نرغے میں محسوس کرتے ہیں تو اسٹبلشمنٹ کے آگے جھک جاتے ہیں اور جب تھوڑی طاقت آتی ہے تو جمہوریت پسند بن جاتے ہیں. وہ اپنے ذاتی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر عوام کے حقوق، جمہوریت، پارلیمنٹ، آئین و قانون اور ووٹ کے تقدس کی بالادستی کی جنگ نہیں لڑتے ہیں. اگر کبھی کوئی سیاست دان فوج کی غلامی کا طوق گلے سے اتارنے کی کوشش کرتا ہے تو فوج کی طرف سے اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور میڈیا، عدلیہ، فوجی و سول ایجنسیوں اور دیگر تحقیقاتی و احتسابی اداروں کے ذریعے ذلیل و رسوا کرکے دوبارہ اسے بوٹ چاٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے. کسی کو حکومت میں لانے اور رخصت کرنے کے فیصلے ملک پر قابض فوج ہی کرتی ہے ایک آزاد و خود مختار جمہوری ملک میں تو سول حکومت اچھی کارکردگی دکھا کر اور عوام کی خدمت کرکے دوبارہ حکومت میں آ سکتی ہے لیکن فوج کے زیر تسلط ملکوں میں فوج کو کسی اچھی کارکردگی دکھانے والی سول حکومت سے کھرک شروع ہو جاتی ہے. پہلے وہ سول حکومت کے خلاف پس پردہ رہ کر سازشیں کرتی ہے اور پھر موقع ملنے پر کھلم کھلا بد معاشی کرنے پر اتر آتی ہے. ایسی حکومت کو عوام کی خدمت کرنے کے باوجود مارشل لاء لگا کر رخصت کر دیا جاتا ہے یا دوبارہ حکومت میں آنے سے روکا جاتا ہے. ملک کی کسی عدالت اور کسی ادارے کی اتنی جرات نہیں ہوتی ہے جو فوجیوں کی بد معاشی کے سامنے کھڑے ہو سکیں فوج کی بدمعاشی کی وجہ سے ملک سے نظریاتی سیاست, آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تصور ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ سیاست میں بوٹ چاٹنے کے نظریے نے لے لی ہے. حکومت حاصل کرنے کی خاطر سیاست دانوں میں بوٹ چاٹنے میں سبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے. اس وقت ملک کا ہر سیاست دان حکومت ملنے کی شرط پر بکنے اور بوٹ چاٹنے پر تیار بیٹھا ہے. ہر سیاست دان دوسرے سیاست دان سے بہتر بوٹ چاٹنے کا دعویدار ہے فوج سیاست زدہ ہونے کی وجہ سے دفاعی لحاظ سے خصی ہو چکی ہے. فوجی بھارت کے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لینے پر کشمیر میں جا کر لڑنے مرنے کی بجائے چھاونیوں میں مجرے کروا کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور یوم سیاہ منا رہے ہیں

    Zaidi Believer12

    زیدی بھائی اور بلیور بھائی وہ مثال تو آپ نے سنی ہوگی “اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا

    اس کی یک نہ شد دو شد مثالیں ہمارے سامنے ہیں

    جس کا باوا بھائی نے بھی اپنی تحریر میں زکر کیا ہے

    ایک ذوالفقار علی بھٹو جس نے آئیں دیا،،شرمندہ فوجیوں کی واپسی ممکن بنائی،ایٹم بم کی تیاری شروع کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن جب فوج نے چاہا  اُسے پھانسی چڑھا دیا نہ عدلیہ نے اپنا کردار ادا کیا نہ سول اداروں نے نہ اپوزیشن جمہوری پارٹیوں نے ناں ہی عوام نے اور دوسری مثال نواز شریف جس نے ایٹم بم کا دھماکہ کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھنسے ہوئے فوجیوں کی واپسی ممکن بنائی ملک کو نئی ڈگر پر لے کر چلنے کی سعی کی

    لیکن ہوا پھر بھی وہی جب فوج نے اُسے ملک بدر کیا نہ اُس وقت عدلیہ نے اپنا کردار ادا کیا نہ سول اداروں نے نہ عوام نے اور نہ ہی اپوزیشن جمہوری جماعتوں نے لہذا اس تناظر میں دیکھا جائے تو فوج کا بوٹ چاٹنا مجبوری ہوگیا اس تناظر میں دیکھا جائے تو “نیاز ی کی سیاست زندہ باد”

    نیازی نے سیکھ لیا کہ بوٹ کے تلوے چاٹنا ہی حکمرانی ہے بوٹ صاف کرنا ہی زندگی ہے

    اپنے وقت میں نواز نے بھی بوٹ چاٹے ،نیازی بھی بوٹ چاٹ رہا ہے

    فرق ان دونوں میں صرف اتنا ہے کہ

    نواز بوٹ کا “اپر”چاٹتا ہے اور کبھی کبھی بوٹ والے کی پنڈلی کو پڑ جاتا ہے

    مگر نیازی بوٹ کا “تلوا”چاٹ رہا ہے چاٹتے چاٹے یا تو “ٹوہ پر آجات اہے یا ایڑھی کے نیچے”بس اس سے زیادہ نیازی کی دوڑ نہیں۔

    Athar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #18
    اطہر بھیا کونسے جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی؟ ذرا میری رہنمائی فرما دیں کہ یہ جمہوری وزیر اعظم کس الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعظم منتخب ہوا تھا اور اسے اس الیکشن میں کتنی سیٹیں اور کتنے فیصد ووٹ ملے تھے؟ اس الیکشن کے نتائج کے مطابق کونسی پارٹی الیکشن جیتی تھی اور اس نام نہاد جمہوری وزیر اعظم نے کیا اس الیکشن جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے کی حمایت کی تھی یا فوجیوں سے ساز باز کرکے اسے اقتدار منتقل کرنے میں رکاوٹ بنا تھا؟ کیا آپکے اس جمہوری وزیر اعظم نے الیکشن کے نتائج کے مطابق جیتنے والی پارٹی کے لیڈر کا وزیر اعظم بننے کا حق اقتدار تسلیم کر لیا تھا یا خود وزیر اعظم بننے کی لالچ میں ملک ٹوٹنا گوارہ کر لیا تھا؟

    بات کو طول دینے کے لیئے چاہے جتنی مرضی طوالت دے لیں لیکن اب ہم جس پاکستان میں رہتے ہیں اُس کا وہ پہلا منتخب وزیر اعظم تھا۔

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #19
    بات کو طول دینے کے لیئے چاہے جتنی مرضی طوالت دے لیں لیکن اب ہم جس پاکستان میں رہتے ہیں اُس کا وہ پہلا منتخب وزیر اعظم تھا۔

    اطہر بھیا

    یہی تو میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ اس نام نہاد جمہوری وزیر اعظم کو عوام نے کس الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعظم منتخب کیا تھا؟ اس الیکشن میں اسے کتنی سیٹیں اور کتنے فیصد ووٹ ملے تھے؟ اس الیکشن کے نتائج کے مطابق کونسی پارٹی الیکشن جیتی تھی؟

    میرے سوالوں کے جواب گول نہ کریں، میں آپکی تاریخ سیدھی کر رہا ہوں

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #20

    یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ معتدد قووتیں جو اس ملک کو مثالی ملک بنانے اور لوگوں کی زندگیاں بدلنے کی سعی کے بجائے اپنی بونوں جیسی حرکتوں سے اپنے حصے کے کیک کی کوشش میں جتے ہوئے ہیں ۔

    آج اس ملک کو بنے ستر سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر جس حرص اور طمع کی لالچ جس کی بنیاد آغاز میں ہی پڑگئ تھی، اس میں رتہ برابر کمی دیکھی نہیں گئیں ۔ کونسا ایسا کام ہے جو ان سب صاحب اقتدار اور صاحب ثروت لوگوں نے اس ملک سے کھلواڑ کرنے میں بخشا ہے ۔ باوا جی، جب تک اس ملک کے لوگ ، بہت سے جنرلوں ، کچھ ججوں اور چند جدی پشتی بوٹ چوپیے سیاستدانوں کو کھلے عام لیمپ پوسٹ سے انکے خصوں کے بل نہیں لٹکاتے اور ہفتوں لٹکا نہیں رہنے دیتے ، کسی بھی بھلائ کی تمنا رکھنا فضول ہے ۔

    اوپر کی ساری بحث کا نچوڑ تو یہ نکلتا ہے کہ بھٹو، بے نظیر، نوازشریف،چوہردی برادران، وٹوانے، ٹوانے، نون، دولتانے اور دیوانے ، سب کے سب بوٹ چاٹ کر حکومت لے پاتے ہیں ہیں، بوٹ چاٹ کر اپنا پیریڈ بمشکل پورا کرتے ہیں اگر یہی صورتحال ہے تو پھر میں ان سیاستدانوں میں سے کسی ایک کی بھی حمایت کیوں کروں گا؟ ان سب کو سیاست میں آنا ہی نہیں چاہئے اور فوج کو کہنا چاہئے کہ خود سنبھالو یا ہمیں سنبھالنے دو اس سارے مسئلے کا حال کوی نہیں جیسے کشمیر کا حل کوی نہیں فوج کے پاس سیاستدانوں کی عدم دستیابی کا حل جماعت اسلامی اور دیگر مزہبی جماعتوں کی صورت موجود ہے جس کے تجربات سرحد اور بلوچستان میں ناکامیابی کے ساتھ کئے جاچکے ہیں میرے نزدیک اس کا حل یہی ہے کہ انگریز کو دوبارہ دعوت اقتدار دی جاے اگر سارے دوست ایگری ہوں تو لکھیں میں لندن میں ہونے کی وجہ سے زیادہ آسانی سے ملکہ کے ساتھ ڈسکس کرسکتا ہوں :thinking: نوٹ۔ شامی پر بھروسہ نہ کیا جاے وہ ملکہ کا ویسے ہی وفادار ہے جیسے ماونٹ بیٹن تھا

    آپ دونوں سیانے آدمی ہیں اور آپکی باتوں سے کافی حد تک اتفاق بھی کرتا ہوں لیکن مجھے کچھ سوالوں کا جواب دیں

    اگر ہاکی کے سٹیڈیم میں دو ٹیمیں کھیل رہی ہوں اور مخالف ٹیم پر گول کرنے کیلیے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہوں. اس دوران کچھ پاگل کتے سٹیڈیم میں گھس آئیں، کھیل میں رکاوٹ ڈالنا اور کھلاڑیوں کو کاٹنا اور زخمی کرنا شروع کر دیں حتی کہ کھلاڑیوں کو سٹیڈیم سے نکال کر کھیل کو بند کر دیں تو کیا آپ کھیل خراب کرنے کا الزام کتوں کو دیں گے یا کھلاڑیوں کو؟

    ممکن نے کچھ دفاعی کھلاڑی گول روکنے کی کوشش میں اور کچھ حملہ آور کھلاڑی گول کرنے کی کوشش میں فاول بھی کھیل رہے ہوں لیکن کھیل کے تو اصول واضح ہیں اور ان فاول کھیلنے والے کھلاڑیوں کو سزا دینا ریفری کا کام ہے. کیا کتوں کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ چند کھلاریوں کے فاول کھیلنے کو بہانہ بنا کر سٹیڈیم میں گھس آئیں، کھلاریوں کو کاٹنا شروع کر دیں اور کھیل کو عملا بند کر دیں؟

    کیا کھیل کو جاری رکھنے اور کھلاڑیوں کی کارکردگی جانچنے کیلیے ضروری نہیں ہے کہ کتوں کو سٹیڈیم سے باہر نکالا جائے تاکہ کھلاڑی کسی پاگل کتے کے کاٹنے کے خوف سے آزاد ہو کر اپنی کارکردگی دکھا سکیں؟

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 37 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi