- This topic has 67 replies, 10 voices, and was last updated 4 years, 1 month ago by Salman.
-
AuthorPosts
-
28 Feb, 2020 at 4:45 pm #41
There are numerous examples for instance work place. A namahram woman and man cannot work together according to Islam. Islam provides a rather interesting solution for this problem, a male coworker can suckle the breast of his female co workers and ingest their breast milk so that they become his mahram.
A muslim has to pray five times a day, this is impossible in a modern day society where productivity at work is really important. And also the Jummah prayer, that is another time off needed unnecessarily.
The children’s education is another big issue for Muslims, you can’t send them to regular schools where they will learn evolution, critical thinking, etc. which is completely forbidden in Islam.
Most of these things are our culture and not Islamic or these are added by backward Mullas. I don’t find any quote from Quran which says that male/female cannot work together. There are lot of work breaks even in non-Islamic countries; why cannot a Muslim can say one or maximum two prayers in office? You cannot send your children to regular school is another myth which I believe has nothing to do with Islam. Islam is changing with time and people no more Liston to backward Mullah and rather do their research themselves and can can find better solutions.
28 Feb, 2020 at 7:35 pm #42Islam is changing with timeالْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ ۔۔۔۔۔ سورة المائدة ۔۔۔ آیت ۳
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہےآخر کیسے اسلام وقت کے ساتھ تبدیل ہو کر بھی وہی اسلام ہوسکتا ہے جس دینِ اسلام کو نبی نے حجتہ الوداع کے موقع پر مکمل کیا تھا۔۔۔۔۔
زمانے کے ساتھ تبدیل ہوجانے والے نئے اسلام کو کیا نام دیا جائے۔۔۔۔۔
اسلام رِی لوڈِڈ۔۔۔۔۔ اسلام ڈبل رِی لوڈِڈ۔۔۔۔۔ اسلام اب نئے اعوانی فلیور میں۔۔۔۔۔۔ یا کچھ اور۔۔۔۔۔
29 Feb, 2020 at 5:18 pm #43آخر کیسے اسلام وقت کے ساتھ تبدیل ہو کر بھی وہی اسلام ہوسکتا ہے جس دینِ اسلام کو نبی نے حجتہ الوداع کے موقع پر مکمل کیا تھا۔۔۔۔۔ زمانے کے ساتھ تبدیل ہوجانے والے نئے اسلام کو کیا نام دیا جائے۔۔۔۔۔ اسلام رِی لوڈِڈ۔۔۔۔۔ اسلام ڈبل رِی لوڈِڈ۔۔۔۔۔ اسلام اب نئے اعوانی فلیور میں۔۔۔۔۔۔ یا کچھ اور۔۔۔۔۔آ گئے آپ اپنے پسندیدہ موضوح کی بو سونگھتے -اس کے علاوہ بھی کسی موضوح پر گفتگو کر لیا کریں – ہر چیز اپنے زمانے کے حساب سے ہوتی ہے بے شک اسلام قیامت تک کے لئے ہے مگر کچھ نئے مسائل نئے زمانے کے حساب سے بھی آتے ہیں – ملا نے اسلام کو بیکورڈ بنا رکھا تھا اب روشن خیال پڑھے لکھے لوگوں کا مذہب پر روشنی ڈالنا اسے نئے زمانے سے ہم آہنگ بنا رہا ہے – آپ بھی لا دین ہونے سے پہلے میرا خیال ہے غامدی صاحب کے فین تھے مگر پھر جانے کیا ہوا جو آپ شیطانی ٹولے میں شامل ہو گئے -کبھی اس بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے ممکن ہے ہم میں سے کوئی آپ کی بد گمانی دور کر سکیں –
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
- mood 1
- mood Guilty react this post
1 Mar, 2020 at 4:54 am #44میری راۓ اسلام اور مسلمانوں کے خدا کے حوالے سے نہیں ہے کیونکہ اسلام اور مسلمانوں کے خدا کے حوالے سے راۓ دینا کی نہ تو میری حثیت ہے، نہ قابلیت، نہ اہلیت ، نہ ہی مجھ میں حوصلہ ہے، نہ ہی مجھے اس کی ضرورت ہے . اسی طرح باقی الہامی اور کافرانہ مذھب کے حوالے سے بھی کچھ کہنا مشکل ہے کے مجھے مذاہب کا کوئی خاص علم نہیں ہے ‘
مذہب کے حوالے سے میری عمومی راۓ یہ ہے کے یہ انسانوں کی ایجاد ہے جو بہت مواقع پر کام آتی ہے کبھی اپنے خوف کو چھپانے کے لئے ، کبھی بہانہ کے طور پر ، کبھی طاقت حاصل کرنے کے لئے ، کبھی خود کو افضل بنانے کے لئے ، کبھی دلیل نہ ہونے پر ، کبھی دل کو تسلی دینے کے لئے ، کبھی خواب دیکھنے کے لئے اور اسی طرح بہت ساری چیزوں کے لئے .
مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئ کہ دنیا میں اتنے مذاہب کیوں ہیں اور خاص طور پر اگر کوئی ایک معبود ہے
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کے معبود کے اپنے تراشے ہوے انسان تکلیف کیوں سہتے ہیں
مجھے آج تک سمجھ نہیں آئ کے اگر کوئی چیز معبود کے حکم کے بغیر حل تک نہیں سکتی تو انسان دوسرے انسان کے خلاف کیوں ظلم ڈھاتا ہے
اور اتنے سرے محترم مذہبی اکابرین اور عالم ایک دوسرے کے اتنے خلاف کیوں ہوتے ہیں اور انکی راۓ متضاد کیوں ہوتی ہےاگر کبھی مذہبی سوالوں کا کوئی پر دلیل جواب ملے تو مجھے بھی اگاہ کیجیے گا
ہاں میں اس بات کا بھی قائل ہوں کے اگر کوئی کسی معبود پر یقین رکھتا ہے تو اسکو پورا حق ہے کے وہ اپنی مرضی سے کسی بھی معبود پر یقین رکھے . البتہ میرے خیال میں کسی کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی اور پر اپنی راۓ تھوپے
- local_florist 1 thumb_up 1
- local_florist Salman thanked this post
- thumb_up Zinda Rood liked this post
1 Mar, 2020 at 4:55 am #45نہیں، چوہدری صاب، اس نے جواب نہیں دیا بلکہ پوری تحریر میں یہی ایک جملہ ہے جو اس نے بطور دلیل یوز کیا ہے باقی تو ساری بھڑاس ہے اسلئے میں نے صرف اسی پر کمنٹ کیا خدا اور مذہب الگ الگ تصورات ہیں خدا عقل سے ماوراء ایک تصور ہے جس کے وجود یا عدم کی مادی دلیل مومن منکر دونوں کے پاس نہیں ہے مومن کیلئے یہ ایک احساس ہے جو بہت سوں کیلئے یقین کی شکل اختیار کر لیتا ہے مذہب چاہے آسمانی ہو یا زمینی، وجودِ خدا کے اقرار پر قائم ہوتا ہے اب ایک شخص کے اندر اگر ایک احساس ہی گم یا کم ہے تو وہ اس احساس پر کھڑی ہونے والی عمارت یا نظام کو کیسے اپریشی ایٹ کر سکتا ہے؟Salman sahib
محترم سلمان صاحب
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں شاید آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ مذہب اور خدا دو الگ الگ چیزیں ہو سکتی ہیں .
اگر میں درست سمجھا ہوں تو آپکی بات نے اس موضوع کو ایک نیا رخ دیا ہے
ایسا ممکن ہو سکتا ہے اور نہیں بھی .
بات پھر وہی آ جاتی ہے کے اگر خدا اور مذہب الگ ہو سکتے ہیں تو مذہب کس نے بنایا ہے اور کیوں
- thumb_up 1
- thumb_up Zinda Rood liked this post
3 Mar, 2020 at 4:16 am #46مذہبی لغت میں بیلیور یا مومن کے لفظ کا جو مفہوم ہے، وہ ڈی اسٹ سے قطعی مختلف ہے۔۔ خیر چلیے ہم ٹرمنالوجیز کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ میری نظر میں اگر مذہب کو الگ کردیا جائے تو خدا کے وجود کا کوئی ایسا تصور یا مفہوم نہیں بچتا جو انسانی زندگی پر کسی بھی طرح اثر انداز ہوسکے۔۔میں آپ سے سوال پوچھتا ہوں کہ ایک شخص جو مذاہب کو نہ مانتا ہو، مگر خدا کو مانتا ہو، کیا وہ اپنی زندگی گزارنے میں ویسے ہی آزاد نہیں ہے جیسے ایک منکرِ خدا۔۔؟ کیونکہ ضابطہ حیات یا گائیڈ لائنز صرف مذہب دیتا ہے، مذہب کو الگ کردیا تو کسی انسان کیلئے کوئی گائیڈ لائن نہیں، بھلے آپ خدا کو مانتے رہو۔ آپ اپنی زندگی اپنے رولز کے حساب سے گزارنے میں آزاد ہو۔۔ مزید برآں بغیر مذہب کے خدا کے وجود پر ایمان رکھنے والا شخص کسی قسم کی خدائی جوابدہی سے بھی خود کو بری الذمہ سمجھنے میں بعینہ ایک منکرِ خدا کی طرح حق بجانب ہے، کیونکہ جب کوئی ضابطہ حیات ہی نہیں دیا، کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا تو جواب دہی کا کیا سوال۔۔۔
میرے دھیان گیان میں اس مُدّے کو لے کر تھوڑا فرق ہے اسلئے آپ کے پرشن کا اُتّر ہے نہیں
سنجیدہ مذہب کالی بھیڑوں کا مسئلہ ہے سفید کا نہیں۔ اور مفروضہ یہ کہ وہ اس سمسّیا پر عقل اور منطق کا اطلاق کرتی ہیں
اس مفروضے کی بنیاد پر جب کالی بھیڑ کی سوچ کا سفر شروع ہوتا ہے تو پھر پہلے قدم کے طور پر وہ وجہ تخلیق کائنات ڈھونڈتی ہے یا سپیکولیٹ کرتی ہے تو اس طرح سلسلہ چل نکلتا ہے
پھر ایک باقاعدہ مذہب کیوں یا کیسے وجود میں آتا ہے وہ ایک انتر مُدّا ہے
3 Mar, 2020 at 5:57 am #47Salman sahibمحترم سلمان صاحب
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں شاید آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ مذہب اور خدا دو الگ الگ چیزیں ہو سکتی ہیں .
اگر میں درست سمجھا ہوں تو آپکی بات نے اس موضوع کو ایک نیا رخ دیا ہے
ایسا ممکن ہو سکتا ہے اور نہیں بھی .
بات پھر وہی آ جاتی ہے کے اگر خدا اور مذہب الگ ہو سکتے ہیں تو مذہب کس نے بنایا ہے اور کیوں
معزز و محترم پیرِ دانشکردی جناب جے ایم پی صاحب دامت برکاتہ العالیہ العظمی
امید ہے مزاج بخیر ہونگے
آپکے مخمصے کو لیکر میری دلچسپی کا مرکز ہے کہ کیوں نہیں؟؟
میرے دھیان گیان میں مذہب اولوالعزم نے بنایا ان میں چارلتان بھی تھے مفت بر اور مفاد پرست بھی اور مخلص مصلح بھی
اتنے سے آگے میرے پر جلتے ہیں
جنہیں اس سلسلے میں زیادہ کھد بدھ ہے انہیں سوچنا یا پڑھنا چاہیے کہ ہومو سیپئینز میں جبلتوں کا رتقاء کیسے ہوا خاص طور پر روحانی یا مذہبی جبلت کا
- local_florist 1
- local_florist JMP thanked this post
3 Mar, 2020 at 7:14 am #48مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئ کہ دنیا میں اتنے مذاہب کیوں ہیں اور خاص طور پر اگر کوئی ایک معبود ہے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کے معبود کے اپنے تراشے ہوے انسان تکلیف کیوں سہتے ہیں مجھے آج تک سمجھ نہیں آئ کے اگر کوئی چیز معبود کے حکم کے بغیر حل تک نہیں سکتی تو انسان دوسرے انسان کے خلاف کیوں ظلم ڈھاتا ہے اور اتنے سرے محترم مذہبی اکابرین اور عالم ایک دوسرے کے اتنے خلاف کیوں ہوتے ہیں اور انکی راۓ متضاد کیوں ہوتی ہے
۔
کیا آپ کو آج تک یہ سمجھ آئی ہے ۔۔۔۔ یا آپ نے سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ۔۔۔۔۔ آپ کو یا ھر انسان کو ۔۔۔ روزآنہ ۔۔۔۔ واش روم ۔۔۔ میں پا جا مہ کیوں اتار نا پڑ تا ہے ۔۔۔ ۔۔
اور کیوں بد بو اور گند گی کے عمل سے گزرنا پڑ تا ہے ۔۔۔۔۔ آپ یا تمام انسان روز آنہ گند مچا نے کے اس عمل ۔۔۔۔ کو اپنے جسم سے ختم کیوں نہیں کرسکتے ۔۔۔۔
۔۔۔۔ وہ اس لیئے کہ انسان چا ھے با د شاہ بن جائے یا شہنشاہ ۔۔۔۔ اس کو واش روم ۔۔۔۔ کے بد بو دار ۔۔۔ عمل گزرنا ہی پڑے گا ۔۔۔۔
نہ چا ھتے ہوئے بھی انسان کو ایسی تیکلیف سے روزآنہ ۔۔۔۔ گزرنا پڑے گا ۔۔۔۔ یہی انسا نی زند گی کا ڈیزا ئین ہے ۔۔
تاکہ انسان کو اپنی اوقات پتہ رھے کہ ۔۔۔ وہ با د شاہ ۔۔۔ افلا طون ہوگا کہیں کا ۔۔۔ لیکن گند مچا نے کے لیئے روز ۔۔۔ پا جا مہ اتار نا پڑے گا ۔۔۔ یہ اس کی اوقات ہے ۔۔
یہ مشکل نا پسند یدہ عمل انسانی زند گی کا ڈیزا ئین ہے اس کے بغیر انسا نی زند گی ممکن نہیں ۔۔۔۔۔۔
اسی طریقے سے انسان کی زند گی میں ۔۔۔۔ تکلیفا ت ۔۔۔۔ جا ن بوجھ کر ڈیز ائین کی گئی ہیں ۔۔۔۔۔
مذ ھب اور کفر ۔۔۔ ڈیز ائین کیئے گئے ہیں ۔۔۔۔ انسا ن کو تکلیف اور امتحان سے گزارنے کے لیئے ۔۔۔۔۔
کو ئی چا ھے نہ چا ھے ۔۔۔۔ اس کو اس دنیا میں ۔۔۔۔ ان تمام تکلیفا ت سے گزرنا ہی ہوگا ۔۔۔۔۔ تکلیفا ت کے بغیر انسان کی زند گی ممکن نہیں ہے ۔۔
۔۔۔۔
مبا دہ کہ وہ جنت میں پہنچ جائے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
3 Mar, 2020 at 9:42 am #49JMPمیرے خیال میں اتنے مدلل نکات کے پیش نظر آپ کو بیعت کر ہی لینی چاہیے۔
- mood 3
- mood Zinda Rood, Salman, Guilty react this post
3 Mar, 2020 at 8:47 pm #50میرے دھیان گیان میں اس مُدّے کو لے کر تھوڑا فرق ہے اسلئے آپ کے پرشن کا اُتّر ہے نہیں سنجیدہ مذہب کالی بھیڑوں کا مسئلہ ہے سفید کا نہیں۔ اور مفروضہ یہ کہ وہ اس سمسّیا پر عقل اور منطق کا اطلاق کرتی ہیں اس مفروضے کی بنیاد پر جب کالی بھیڑ کی سوچ کا سفر شروع ہوتا ہے تو پھر پہلے قدم کے طور پر وہ وجہ تخلیق کائنات ڈھونڈتی ہے یا سپیکولیٹ کرتی ہے تو اس طرح سلسلہ چل نکلتا ہے پھر ایک باقاعدہ مذہب کیوں یا کیسے وجود میں آتا ہے وہ ایک انتر مُدّا ہےجنہیں اس سلسلے میں زیادہ کھد بدھ ہے انہیں سوچنا یا پڑھنا چاہیے کہ ہومو سیپئینز میں جبلتوں کا رتقاء کیسے ہوا خاص طور پر روحانی یا مذہبی جبلت کا
مجھے آپ کی گفتگو سے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے آپ مذہب کو داخلی واردات مانتے ہیں، اگر میرا گمان درست ہے تو آپ اس کو مروجہ مذاہب سے کس طرح مربوط کرتے ہیں؟ اگر نہیں کرتے تو آپ کے پاس کونسا پیمانہ ہے جو آپ کو غلط اور درست میں تمیز دیتا ہے؟ ۔ کیونکہ بہرحال جوابدہی کے احساس کیلئے آپ کے پاس ایک پیمانہ ایک گائیڈ لائن ہونا ضروری ہے۔۔
- thumb_up 1
- thumb_up Salman liked this post
3 Mar, 2020 at 8:49 pm #51JMP میرے خیال میں اتنے مدلل نکات کے پیش نظر آپ کو بیعت کر ہی لینی چاہیے۔گلٹی خدا کے وجود کیلئے “پاجامہ اتار کر پاخانہ کرنے” جیسے جو دلائل دے رہا ہے، اگر خدا سچ میں ہوتا تو نیچے آکر گلٹی کی بہت ٹھکائی کرتا۔ ۔۔
4 Mar, 2020 at 2:46 am #52گلٹی خدا کے وجود کیلئے “پاجامہ اتار کر پاخانہ کرنے” جیسے جو دلائل دے رہا ہے، اگر خدا سچ میں ہوتا تو نیچے آکر گلٹی کی بہت ٹھکائی کرتا۔ ۔۔
ٹُھکائی تو خیر اس کی طبیعت سے اور فسٹ کلاس ہو رہی ہے لیکن جب سے اس نے اپنے اندر کا کنجر دریافت کیا ہے اسے یہ ٹھکائی فیل کم کم ہوتی ہے
- mood 1
- mood Zinda Rood react this post
4 Mar, 2020 at 3:04 am #53مجھے آپ کی گفتگو سے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے آپ مذہب کو داخلی واردات مانتے ہیں، اگر میرا گمان درست ہے تو آپ اس کو مروجہ مذاہب سے کس طرح مربوط کرتے ہیں؟ اگر نہیں کرتے تو آپ کے پاس کونسا پیمانہ ہے جو آپ کو غلط اور درست میں تمیز دیتا ہے؟ ۔ کیونکہ بہرحال جوابدہی کے احساس کیلئے آپ کے پاس ایک پیمانہ ایک گائیڈ لائن ہونا ضروری ہے۔۔
داخل خارج الگ الگ کچھ بھی نہیں ہیں، وہی ان پٹ والا مسئلہ
داخل میں صرف پروسیسر اور جبلت ہیں جو کسی میں اسٹرونگ اور کسی میں کمزور ہو سکتی ہیں
خارج کا فریم آف ریفرنس اور ان پٹ کی رنگا رنگی اور انسانی تعاملات (انٹرایکشنز) نہ ہوں تو پروسیسر کتنا ہی اسٹرونگ کیوں نہ ہو کچھ نہیں کر سکتا
پیمانے کے دو پہلو ہیں ایک عمومی دوسرا خصوصی
عمومی پیمانہ کتابوں میں، تفسیروں اور بیانیوں میں ایگزسٹ کرتا ہے جس کی عملی ویلیو اکثریت کیلئے صفر کے آس پاس ہوتی ہے
خصوصی پیمانہ اکثریت کا بڑی ذاتی قسم کی چیز ہوتی ہے بولے تو مذہب کے اندر ایک ذاتی سا مذہب، جو روز مرہ کیلئے غلط صحیح کی گائیڈ لائن۔ یہ میری سمجھ ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے لیکن ہے یہی سچ یا حقیقت
مومنوں کو چاہیے کہ اعتقاد اور عمل میں دوئی چھوڑیں اور زندگی کو سادہ سادہ رکھیں
4 Mar, 2020 at 6:07 am #54ٹُھکائی تو خیر اس کی طبیعت سے اور فسٹ کلاس ہو رہی ہے لیکن جب سے اس نے اپنے اندر کا کنجر دریافت کیا ہے اسے یہ ٹھکائی فیل کم کم ہوتی ہے۔
چل چل کام کر اپنا بڑے دیکھے تیرے جیسے ۔۔۔۔ با ل ٹھا کرے کا ایل ۔۔۔۔۔۔۔ ایک کراچی والے سے تعصب کی آگ میں جلتا رھتا ہے ۔۔۔
تیرے جیسوں کے لیئے میرے پاس سپشیل کلا م بھی موجود ہے ۔۔۔۔ جو تونے کبھی سنا ہوگا نہ کبھی دیکھا ہوگا ۔۔۔۔
خارش تیری مکمل رفع کردی جائے گی ۔۔۔
۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4 Mar, 2020 at 5:52 pm #55داخل خارج الگ الگ کچھ بھی نہیں ہیں، وہی ان پٹ والا مسئلہ داخل میں صرف پروسیسر اور جبلت ہیں جو کسی میں اسٹرونگ اور کسی میں کمزور ہو سکتی ہیں خارج کا فریم آف ریفرنس اور ان پٹ کی رنگا رنگی اور انسانی تعاملات (انٹرایکشنز) نہ ہوں تو پروسیسر کتنا ہی اسٹرونگ کیوں نہ ہو کچھ نہیں کر سکتا پیمانے کے دو پہلو ہیں ایک عمومی دوسرا خصوصی عمومی پیمانہ کتابوں میں، تفسیروں اور بیانیوں میں ایگزسٹ کرتا ہے جس کی عملی ویلیو اکثریت کیلئے صفر کے آس پاس ہوتی ہے خصوصی پیمانہ اکثریت کا بڑی ذاتی قسم کی چیز ہوتی ہے بولے تو مذہب کے اندر ایک ذاتی سا مذہب، جو روز مرہ کیلئے غلط صحیح کی گائیڈ لائن۔ یہ میری سمجھ ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے لیکن ہے یہی سچ یا حقیقت مومنوں کو چاہیے کہ اعتقاد اور عمل میں دوئی چھوڑیں اور زندگی کو سادہ سادہ رکھیںمیرا بنیادی نکتہ چونکہ یہ ہے کہ مذہب کے بغیر آپ خدا کے تصور کو مان بھی لیں تو بھی زندگی پر خدا کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لئے میں وقتی طور پر خارج کے ایک حصے (مذہب) کو داخل سے الگ کرکے دیکھنا / دکھانا چاہتا ہوں۔ داخل میں انسانی جبلت ہے اور خارج میں مذہب اور سماج۔۔ جہاں تک میری فکر اور مشاہدہ ہے انسان داخلی طور پر صحیح اور غلط جیسی کسی چیز سے واقف نہیں ہے، یہ گائیڈ لائن وہ اپنے ادراک کو استعمال کرتے ہوئے خارج سے کشید کرتا ہے، یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ وضع کرتا ہے۔ جو چیز انسانی سماج کیلئے سودمند ہوتی ہے اسے صحیح اور نقصان دہ کو غلط کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے اور بدلتے زمانوں اور معاشروں کے ساتھ صحیح اور غلط کے پیمانے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ انسانی تاریخ اور تہذیبوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صحیح اور غلط کا کوئی حتمی / آفاقی پیمانہ نہیں ہے۔۔ (چونکہ میں خدا کے تصور کو مذہب سے الگ کرکے دیکھ رہا ہوں، اس لئے یہاں میں مذہب کے قائم کردہ صحیح غلط کے پیمانوں کو زیربحث نہیں لاتا۔ آپ نے جو عمومی اور خصوصی پیمانے گنوائے ہیں وہ بھی مذہب یا مذہبی فکر سے کشید ہیں)۔۔ جب صحیح غلط کا کوئی حتمی پیمانہ نہیں ہے تو محض خدا کا تصور مان لینے سے آپ کے پاس کوئی بھی گائیڈ لائن نہیں آجاتی اور آپ کلی طور پر انسان کے وضع کردہ صحیح غلط کے (بدلتے) پیمانوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، ایسے میں آپ کس پیمانے کے تحت خود کو خدائی جدابدہی کے احساس سے لبریز کرسکتے ہیں؟۔ آخرکار آپ کو رہنمائی کیلئے کسی نہ کسی مذہب / مذہبی فکر کی طرف رجوع کرنا ہوگا ، اور جب آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بغیر مذہب کے خدا کے تصور کا انسانی زندگی پر کوئی اثر نہیں۔۔
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
5 Mar, 2020 at 5:35 am #56میرا بنیادی نکتہ چونکہ یہ ہے کہ مذہب کے بغیر آپ خدا کے تصور کو مان بھی لیں تو بھی زندگی پر خدا کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لئے میں وقتی طور پر خارج کے ایک حصے (مذہب) کو داخل سے الگ کرکے دیکھنا / دکھانا چاہتا ہوں۔ داخل میں انسانی جبلت ہے اور خارج میں مذہب اور سماج۔۔ جہاں تک میری فکر اور مشاہدہ ہے انسان داخلی طور پر صحیح اور غلط جیسی کسی چیز سے واقف نہیں ہے، یہ گائیڈ لائن وہ اپنے ادراک کو استعمال کرتے ہوئے خارج سے کشید کرتا ہے، یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ وضع کرتا ہے۔ جو چیز انسانی سماج کیلئے سودمند ہوتی ہے اسے صحیح اور نقصان دہ کو غلط کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے اور بدلتے زمانوں اور معاشروں کے ساتھ صحیح اور غلط کے پیمانے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ انسانی تاریخ اور تہذیبوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صحیح اور غلط کا کوئی حتمی / آفاقی پیمانہ نہیں ہے۔۔ (چونکہ میں خدا کے تصور کو مذہب سے الگ کرکے دیکھ رہا ہوں، اس لئے یہاں میں مذہب کے قائم کردہ صحیح غلط کے پیمانوں کو زیربحث نہیں لاتا۔ آپ نے جو عمومی اور خصوصی پیمانے گنوائے ہیں وہ بھی مذہب یا مذہبی فکر سے کشید ہیں)۔۔ جب صحیح غلط کا کوئی حتمی پیمانہ نہیں ہے تو محض خدا کا تصور مان لینے سے آپ کے پاس کوئی بھی گائیڈ لائن نہیں آجاتی اور آپ کلی طور پر انسان کے وضع کردہ صحیح غلط کے (بدلتے) پیمانوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، ایسے میں آپ کس پیمانے کے تحت خود کو خدائی جدابدہی کے احساس سے لبریز کرسکتے ہیں؟۔ آخرکار آپ کو رہنمائی کیلئے کسی نہ کسی مذہب / مذہبی فکر کی طرف رجوع کرنا ہوگا ، اور جب آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بغیر مذہب کے خدا کے تصور کا انسانی زندگی پر کوئی اثر نہیں۔۔
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ عقائد کے بنیادی اختلاف کی وجہ سے ایک مومن اور منکر کا مکالمہ بنتا ہی نہیں، اور وہی صورت ہمں پیش آ رہی ہے گو کہ آپ کا ظن اور بیان ہے کہ آپ اس راہ سے گذر چکے ہیں
پھر دوہرا دیتا ہوں کہ کوئی وجودِ خدا کا اقرار کرنا ہی کیوں چاہے گا اگر وہ خدا کو زندگی کا خالق نہیں مانتا اور خود کو اس کے آگے جوابدہ نہیں سمجھتا؟؟ یہی نقطہ کالی بھیڑ کی تمثیل کے ذریعے پہلےعرض کر چکا ہوں
میرے خیال میں میرا اور آپ کا تناظر کا فرق ہے آپ یعنی ایک منکر تصورِ خدا کو ایک سیکولر معاشرتی ارتقاء سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں جبکہ میں ایک مومن اس کو موسٹ فنڈامنٹل تھنگ یعنی انسانی جبلتوں سے جوڑتا ہوں
جہاں تک میری فکر اور مشاہدہ ہے انسان داخلی طور پر صحیح اور غلط جیسی کسی چیز سے واقف نہیں ہے
جو چیز انسانی سماج کیلئے سودمند ہوتی ہے اسے صحیح اور نقصان دہ کو غلط کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے اور بدلتے زمانوں اور معاشروں کے ساتھ صحیح اور غلط کے پیمانے بھی بدلتے رہتے ہیں۔
انسانی تاریخ اور تہذیبوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صحیح اور غلط کا کوئی حتمی / آفاقی پیمانہ نہیں ہے۔۔
آپ نے شائد میسلو کی نیڈز تھیوری کاحوالہ بھی دیا تھا اگر آپ ایثار، قربانی، فلاح (مثلاً اپنے بچے کیلئے ماں کی محبت) کی آفاقی جبلت کا ہی جائزہ لے لیں اور اس جبلت کی روشنی اپنی اس پوسٹ کا تجزیہ کریں تو شائد آپ کو بہت سارے مغالطے خود ہی نظر آ جائیں
۔ آخرکار آپ کو رہنمائی کیلئے کسی نہ کسی مذہب / مذہبی فکر کی طرف رجوع کرنا ہوگا ، اور جب آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بغیر مذہب کے خدا کے تصور کا انسانی زندگی پر کوئی اثر نہیں۔۔
آپ کے ان جملوں سے میں کسی حد تک متفق ہوں مذہب تصورِ وجودِ خد کا ایک فطری منطقی نتیجہ (نیچرل کرولری) ہے لیکن فی زمانہ مذہب اور روحانیت میں فرق کیا جا رہا ہے اور جب تصورِ وجودِ خد کا ارتقاء شروع ہوا تب بھی ایسا ہی تھا پہلے خدا پھر روحانیت پھر ایک باقاعدہ مذہب
آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے اب تک مطالعے اور فکر نے کوئی ایسی شئے، نقطہ، نظریہ یا فلسفہ دریافت کیا ہے جو اب تک کی انسانی فکر سے اوجھل تھا؟ اگر ایسا ہے تو مجھے اس کی نوعیت یا تفصیل جاننے میں دلچسپی ہے
5 Mar, 2020 at 12:03 pm #57پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ عقائد کے بنیادی اختلاف کی وجہ سے ایک مومن اور منکر کا مکالمہ بنتا ہی نہیں، اور وہی صورت ہمں پیش آ رہی ہے گو کہ آپ کا ظن اور بیان ہے کہ آپ اس راہ سے گذر چکے ہیں پھر دوہرا دیتا ہوں کہ کوئی وجودِ خدا کا اقرار کرنا ہی کیوں چاہے گا اگر وہ خدا کو زندگی کا خالق نہیں مانتا اور خود کو اس کے آگے جوابدہ نہیں سمجھتا؟؟ یہی نقطہ کالی بھیڑ کی تمثیل کے ذریعے پہلےعرض کر چکا ہوں میرے خیال میں میرا اور آپ کا تناظر کا فرق ہے آپ یعنی ایک منکر تصورِ خدا کو ایک سیکولر معاشرتی ارتقاء سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں جبکہ میں ایک مومن اس کو موسٹ فنڈامنٹل تھنگ یعنی انسانی جبلتوں سے جوڑتا ہوں آپ نے شائد میسلو کی نیڈز تھیوری کاحوالہ بھی دیا تھا اگر آپ ایثار، قربانی، فلاح (مثلاً اپنے بچے کیلئے ماں کی محبت) کی آفاقی جبلت کا ہی جائزہ لے لیں اور اس جبلت کی روشنی اپنی اس پوسٹ کا تجزیہ کریں تو شائد آپ کو بہت سارے مغالطے خود ہی نظر آ جائیں آپ کے ان جملوں سے میں کسی حد تک متفق ہوں مذہب تصورِ وجودِ خد کا ایک فطری منطقی نتیجہ (نیچرل کرولری) ہے لیکن فی زمانہ مذہب اور روحانیت میں فرق کیا جا رہا ہے اور جب تصورِ وجودِ خد کا ارتقاء شروع ہوا تب بھی ایسا ہی تھا پہلے خدا پھر روحانیت پھر ایک باقاعدہ مذہب۔۔آپ جب مومن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس سے کیا مراد لیتے ہیں، میرے خیال میں مومن ایک مذہبی اصطلاح ہے اور یہ کسی ایسے شخص کیلئے استعمال نہیں کی جاسکتی جو خدا کے وجود کا تو قائل ہو، مگر مذاہب کی الوہیت کا منکر ہو۔۔
میں ایک بار پھر واضح کردوں کہ میں ایک ایسے شخص کی بات کررہا ہوں جو خدا کو کائنات اور زندگی کا خالق مانتا ہے، مگر وہ کارِدنیا میں خدا کی کوئی مداخلت محسوس نہیں کرتا، ایسے شخص کو خدا کا منکر تو نہیں کہا جاسکتا۔ ہماری بحث کا نکتہ یہ ہے کہ کیا ایسا شخص کسی خدائی جوابدہی کے زیرِ بار ہے یا نہیں؟ جوابدہی کے احساس کیلئے ایک بہت اہم اور لازمی عنصر ہے ہدایت نامہ / صحیح غلط میں امتیاز کا پیمانہ جو میری رائے کے مطابق انسانی جبلت میں نہیں گڑا ہوا۔ آپ نے ایثار، قربانی، فلاح کی بات، ماں کی بچے سے محبت کی مثال دیتے ہوئے، ان میں سے ماں کی بچے سے محبت صرف ایسا جذبہ ہے جس کو جبلت کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ نہ صرف انسان میں بلکہ حیوان میں بھی ویسے ہی پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایثار ، قربانی اور فلاح کے جو عمومی تصورات ہیں، وہ ہمارے معاشرتی ارتقا کی دین ہیں، چاہے تو چھیل کر دیکھ لیجئے۔۔۔
اب میں اپنے نکتے کو واضح کرنے کیلئے آپ کے سامنے ایک سادہ سی مثال پیش کرتا ہوں۔ فرض کریں تین ایسے اشخاص ہیں جو ڈی اسٹ ہیں، یعنی خدا کے خالق ہونے کے قائل ہیں، وہ یہ مانتے ہیں کہ خدا کائنات کو کچھ اصول و قوانین کے تحت بنا کر الگ ہوگیا ہے اور اب وہ کائنات انہی اصول و قوانین کے تحت چل رہی ہے اور خدا نظامِ کائنات میں مداخلت نہیں کرتا۔۔
ان میں سے پہلا شخص جانوروں کے گوشت کھانے کو درست سمجھتا ہے، اس کا استدلال ہے کہ جانوروں کو مار کر، ذبح کرکے ان کا گوشت کھانا اس کے نزدیک کوئی بری بات نہیں ہے۔۔
دوسرا شخص آدم خور ہے، وہ جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کا گوشت کھانا بھی درست سمجھتا ہے، اس کا استدلال یہ ہے کہ انسان اور جانور دونوں جاندار ہیں، اگر ایک جاندار کا گوشت کھانے میں کوئی ہرج نہیں تو دوسرے جاندار کا گوشت کھانا بھی درست ہے۔۔
تیسرا شخص ویجیٹرین ہے، وہ گوشت کھانے کے خلاف ہے، اس کا استدلال ہے کہ کسی بھی جاندار کو تکلیف نہیں پہنچانی چاہیے۔۔
اب آپ مجھے بتائیے کہ آپ کے پاس کوئی ایسا آفاقی جبلی پیمانہ ہے جس کے تحت آپ ان تینوں (یا تینوں میں سے کسی ایک کے) فعل کو درست یا غلط قرار دے سکیں۔۔؟؟؟
آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے اب تک مطالعے اور فکر نے کوئی ایسی شئے، نقطہ، نظریہ یا فلسفہ دریافت کیا ہے جو اب تک کی انسانی فکر سے اوجھل تھا؟ اگر ایسا ہے تو مجھے اس کی نوعیت یا تفصیل جاننے میں دلچسپی ہے
ابھی تک تو میں خود اپنی حقیقت نہیں کھوج پایا تو کوئی نئی شے کیسے ڈھونڈ پاؤں گا۔۔۔ بہرحال سفر جاری ہے۔۔۔
6 Mar, 2020 at 4:43 am #58آپ جب مومن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس سے کیا مراد لیتے ہیں، میرے خیال میں مومن ایک مذہبی اصطلاح ہے اور یہ کسی ایسے شخص کیلئے استعمال نہیں کی جاسکتی جو خدا کے وجود کا تو قائل ہو، مگر مذاہب کی الوہیت کا منکر ہو۔۔
انگریزی میں بیلیور اور اردو میں ایمان یقین والا یعنی مومن، جو وجود خدا (ایک ایسا تصور جو ساری روحانیت، سب مذاہب کی بنیاد ہے) کا اقرار کرتا ہے
میں ایک بار پھر واضح کردوں کہ میں ایک ایسے شخص کی بات کررہا ہوں جو خدا کو کائنات اور زندگی کا خالق مانتا ہے، مگر وہ کارِدنیا میں خدا کی کوئی مداخلت محسوس نہیں کرتا، ایسے شخص کو خدا کا منکر تو نہیں کہا جاسکتا۔
ایک مومن کیلئے عقلی منطقی طور پر قبول کرنا مشکل ہے کہ خالق کی کوئی تخلیق بیکار، بغیر مطلب یا بلا مقصد ہے
نظریہ ارتقاء کا ذکر آتے ہی مذہبی لوگ حساسیت یا عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ میرے نزدیک یہ خدائی ڈیزائن کی کلید ہے عقل و منطق یہ کہتے ہیں کہ مادے کی فطرت اور انسانی جبلت کے اندررکھی گئی اس کلید کی بنیاد پر خدا کو شائد مداخلت کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی۔ سائنسی اندازِفکر (سائنٹفک میتھڈ) اس پر گواہ ہے
ہماری بحث کا نکتہ یہ ہے کہ کیا ایسا شخص کسی خدائی جوابدہی کے زیرِ بار ہے یا نہیں؟ جوابدہی کے احساس کیلئے ایک بہت اہم اور لازمی عنصر ہے ہدایت نامہ / صحیح غلط میں امتیاز کا پیمانہ جو میری رائے کے مطابق انسانی جبلت میں نہیں گڑا ہوا۔ آپ نے ایثار، قربانی، فلاح کی بات، ماں کی بچے سے محبت کی مثال دیتے ہوئے، ان میں سے ماں کی بچے سے محبت صرف ایسا جذبہ ہے جس کو جبلت کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ نہ صرف انسان میں بلکہ حیوان میں بھی ویسے ہی پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایثار ، قربانی اور فلاح کے جو عمومی تصورات ہیں، وہ ہمارے معاشرتی ارتقا کی دین ہیں، چاہے تو چھیل کر دیکھ لیجئے۔۔۔
فرق ہے جواب طلبی اور احساسِ جوابدہی میں، مومن خود کو بعد الذکرکے تابع محسوس کرتا ہے
اب میں اپنے نکتے کو واضح کرنے کیلئے آپ کے سامنے ایک سادہ سی مثال پیش کرتا ہوں۔ فرض کریں تین ایسے اشخاص ہیں جو ڈی اسٹ ہیں، یعنی خدا کے خالق ہونے کے قائل ہیں، وہ یہ مانتے ہیں کہ خدا کائنات کو کچھ اصول و قوانین کے تحت بنا کر الگ ہوگیا ہے اور اب وہ کائنات انہی اصول و قوانین کے تحت چل رہی ہے اور خدا نظامِ کائنات میں مداخلت نہیں کرتا۔۔
ان میں سے پہلا شخص جانوروں کے گوشت کھانے کو درست سمجھتا ہے، اس کا استدلال ہے کہ جانوروں کو مار کر، ذبح کرکے ان کا گوشت کھانا اس کے نزدیک کوئی بری بات نہیں ہے۔۔
اسٹیٹسٹیکلی سگنیفیکینٹ
دوسرا شخص آدم خور ہے، وہ جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کا گوشت کھانا بھی درست سمجھتا ہے، اس کا استدلال یہ ہے کہ انسان اور جانور دونوں جاندار ہیں، اگر ایک جاندار کا گوشت کھانے میں کوئی ہرج نہیں تو دوسرے جاندار کا گوشت کھانا بھی درست ہے۔۔
اسٹیٹسٹیکلی اِن سگنیفیکینٹ
تیسرا شخص ویجیٹرین ہے، وہ گوشت کھانے کے خلاف ہے، اس کا استدلال ہے کہ کسی بھی جاندار کو تکلیف نہیں پہنچانی چاہیے۔۔
اسٹیٹسٹیکلی اِن سگنیفیکینٹ
اب آپ مجھے بتائیے کہ آپ کے پاس کوئی ایسا آفاقی جبلی پیمانہ ہے جس کے تحت آپ ان تینوں (یا تینوں میں سے کسی ایک کے) فعل کو درست یا غلط قرار دے سکیں۔۔؟؟؟
سائینسی اندازِ فکر
ابھی تک تو میں خود اپنی حقیقت نہیں کھوج پایا تو کوئی نئی شے کیسے ڈھونڈ پاؤں گا۔۔۔ بہرحال سفر جاری ہے۔۔۔
پھر آپ کے بیانات، تحریروں اور آراء میں اتنا تیقن کیسے آ جاتا ہے؟؟
آخر میں ۔ ۔ ۔۔ ۔ دیکھیں جناب، نہ میں کوئی مفسّر ہوں نا ہی کوئی محدث ۔۔ ۔ اور نا ہی آپ جتنا فلسفہ پڑھا ہے ۔ ۔۔ ۔ ہاں، سوچ وچار کی توفیق ضرور ہوئی ہے جس کی وجہ سے ایک خالق کے ہونے اور خالق کی قدرت پر یقین پکا ہے
اس طرح کی بحث کرنے والے میں اور آپ کوئی پہلے اشخاص نہیں ہیں یہ ابحاث جب سے انسان نے سوچنا شروع کیا ہے تب سے چل رہے ہیں اور ازل تک چلتے رہیں گے اور اب تو ان سے کچھ نکلنا بھی بند ہو گیا ہے اسی لئے میں نے آپ سے وہ سوال کیا تھا
اسلئے میں تو سامنے والے کو یہ شعر سنا کر دوڑ لگا دیتا ہوں کیونکہ میں فورم پر کسی اور کام کیلئے آیا تھا
سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
- mood 3
- mood Bawa, Zinda Rood, casanova react this post
6 Mar, 2020 at 5:25 pm #60پھر آپ کے بیانات، تحریروں اور آراء میں اتنا تیقن کیسے آ جاتا ہے؟؟کوشش تو کرتا ہوں کہ اظہار میں تیقن نہ آئے، پھر بھی جھلک ہی آتا ہے، شاید مذہبی چھاپ ابھی پوری طرح سے اتر نہیں پائی، کیونکہ تیقن تو مذہب کی دین ہے، سائنس گمان اور قیاس جبکہ فلسفہ شبہات اور یقین و بے یقینی میں کشمکش کا نام ہے۔
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.