Thread: عمران کا قوم سے خطاب
- This topic has 253 replies, 21 voices, and was last updated 5 years, 6 months ago by Bawa.
-
AuthorPosts
-
13 Sep, 2018 at 11:30 am #201
|پیر و مرشد
آپ اس کھوتستان میں سپرنووا بنکر وارد ہوئے ہیں | یہ کھوتستان میں اسلئیے اگیا کیونکہ اسے پتہ چلا تھا کہ یہاں کھوتے بکثرت پائے جاتے ہیں ، اگر یہ یہاں سے چلا گیا تو فلم کا مزہ کرکرا ہوجائیگا اسلئیے اسپر ہاتھہ تھوڑا ہولا رکھیں \ حضرت ، یہ توتلا ہے ، اس سے ذرا ہوشیار رہیں کہ ہر ایک کو کچا چبانے کی خلائی دہمکیاں دیتا ہے ، اسلئیے اس سے ذرا دور دور ہی رہیں ، کہاں آپ پارس اور کہاں یہ توتلا
کیوں بے توتلے صحیص لکہا
گلو توتلے۔۔ تو اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا، ہر کسی کو اپنے مطلب کیلئے گھیرنے نکل پڑتا ہے، ابے اپنے منہ کی حالت دیکھ، پہلے ہی پتیلا ہوگیا ہے، اب یہ مزید مار نہیں جھیل سکتا۔۔۔ اس پر رحم کر۔۔۔
- mood 2
- mood SaleemRaza, Gulraiz react this post
13 Sep, 2018 at 3:33 pm #202۔۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ ایک دن ہمارے بیچ کا ہی ایک آدمی جو باقیوں سے زیادہ چالاک اور شاطر تھا، کھڑا ہو اور سب کو زور زور سے پکارنے لگا، سب اس کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے، وہ ایک لمبے قد اور بھاری بھرکم جسم کا آدمی تھا۔ لوگ پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے تو وہ بلند آواز سے تقریر کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔
۔۔اے لوگو!۔۔ کیا تم جانتے ہو، تم کہاں سے آئے، تم اس دھرتی پر کیوں خوار ہورہے ہو، تم نے کہاں چلے جانا ہے، یہ زمین، یہ سورج، یہ لہلہاتے کھیت، شور مچاتی ہوائیں، برستے بادل، یہ بے کراں سمندر، دھرتی کا سینہ چیر کر بہنے والے دریا، یہ رات کی ہیبت ناک تاریکی، اندھیری راتوں میں راہ دکھانے والے ستارے، یہ سب کس کی کرامات ہیں، کیا تم جانتے ہو۔۔؟؟ اس نے گلا پھاڑ کر زور دور آواز سے پوچھا۔۔
۔۔ نہیں، ہم نہیں جانتے۔۔ پورا مجمع یک زبان ہوکر چلایا، سب اس کی خوش گفتاری کے سحر میں گرفتار، بڑی توجہ سے اس کی تقریر سن رہے تھے۔۔ وہ بھاری بھرکم شخص مجمع کی جواب سے مطمئن ہوکر پھر سے بولنے لگا۔۔۔
۔۔ یہ ایک سربستہ راز ہے، جو میں آج تم سب کے سامنے کھولنے والا ہوں، سنو۔۔ غور سے میری بات سنو۔۔۔ یہاں سے کوسوں دور، اتنا دور کہ چلتے جاؤ تو راستہ کبھی ختم نہ ہو، پہاڑوں سے بھی آگے، ریگستانوں اور سمندروں سے بھی آگے، بادلوں سے پرے، چمکتے سورج کے پار ایک بہت بڑا جزیرہ ہے، ہمارے جزیرے سے کہیں بڑا، اس میں ایک بہت عالیشان تخت بچھا ہوا ہے، جس کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں، اس کی بلندی آسمان کو چھوتی ہے اور اس کی وسعت سمندروں کو شرمسار کرتی ہے، اس کے دونوں اطرف بڑے بڑے پروں والے غلام جن کے قد اتنے بڑے ہیں کہ سر نظر ہی نہیں آتے، مور پنکھ لئے ہر وقت اپنا فریضہ سرانجام دیتے رہتے ہیں۔۔ اس تخت پر ایک بہت بڑی ہستی جلوہ افروز ہے، اس کے پورے بدن سے سونے جیسی شعائیں نکلتی ہیں، انہی شعاعوں سے سورج روشنی لیتا ہے، اس کے بدن پر صرف ایک لنگوٹ ہے، اس کے چہرے پر ہر وقت کرختگی چھائی رہتی ہے، اس کے جسم کی وسعت لا محدود ہے، اس کے ہاتھ اتنے بڑے ہیں کہ سورج کو مٹھی میں بند کرلے، اس کے داہنے ہاتھ میں ایک بہت بڑا ٹوکہ ہے جس سے ہر وقت خون ٹپکتا رہتا ہے، کیونکہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی کی گردن کاٹ رہا ہوتا ہے، اس ہیبت ناک، پرشکوہ ہستی کا نام بدرا قصائی ہے۔۔۔
۔۔یہ کہہ کر وہ شخص لمحہ بھر سانس لینے کو روکا۔۔ وہ گہری نظروں سے مجمع کا جائزہ لے رہا تھا۔۔ مجمع انتہائی دلچسپی اور کسی قدر خوف کے عالم میں سانس روکے اس کی تقریر سن رہا تھا، یہ صورتِ حال اس شخص کیلئے نہایت اطمینان بخش تھی۔۔ وہ شخص پھر گویا ہوا۔۔
۔۔تو اے لوگو۔۔ تم نہیں جانتے بدرا قصائی کیسی بے انتہا طاقتوں کا مالک ہے، اس کی شکتی بے مثال ہے،اس کا اختیار لا محدود ہے، وہ یکتا ہے، اس جیسا دانا کوئی نہیں، اس جیسا عالی شان کوئی نہیں، وہ بلند ہے عظیم ہے، پوری کائنات اس کے آنکھ کے اشارے سے چلتی ہے، وہ سورج کو روشنی دیتا ہے، وہ بادلوں کو پانی اور ہواؤں کو سرمستی بخشتا ہے، وہ زمین کو زرخیزی دیتا ہے تاکہ تم زمین میں بیج ڈالو اور اس سے فصل اگے، وہ دریاؤں کو روانی اور سمندروں کو طغیانی عطا کرتا ہے، اس کے سامنے کسی کا بس نہیں، کسی کی مجال نہیں کہ سر تو کیا آنکھ بھی اٹھائے، وہ حاکموں کا حاکم اور مالکوں کا مالک ہے۔۔ اے لوگو۔۔۔ تم نہیں جانتے وہ کیا ہے، کیونکہ تم نے اسے نہیں دیکھا، میں نے دیکھا ہے، میں نے دیکھا ہے اور اسی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے۔۔ اے لوگو۔۔ میں بدرے قصائی کا خاص آدمی ہوں، اس نے مجھے خصوصی پیغام دے کر تمہاری طرف بھیجا ہے۔۔۔
۔۔اتنا کہہ کر وہ شخص خاموش ہوا اور لوگوں کے ردعمل کا جائزہ لینے لگا۔۔ مجمع میں اس کی یہ بات سن کر بھنبھناہٹ شروع ہوگئی، لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے، پورے مجمع میں بے چینی پھیل گئی، لوگوں کے سروں پر لگی ہوئی بتی یک دم تیز ہوگئی، پورا ماحول روشنی سے نہا گیا، ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔۔۔
۔۔پھر اچانک مجمع سے ایک شخص اٹھا، جس کے سر پر کافی بڑی بتی لگی ہوئی تھی، وہ بولا۔۔۔ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ بدرا قصائی واقعی ہے اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس نے تمہیں بھیجا ہے۔۔؟ یہ سوال سن کر بدرے قصائی کا مبینہ نمائندہ سر ہلانے لگا اور بولا۔۔
۔۔اےلوگو۔۔ ذرا اپنا سر اٹھاؤ اور اپنے پیچھے کھڑے اس ہیبت ناک پہاڑ کو دیکھو، کیا ہم میں سے کسی کی بھی یہ اوقات ہے کہ اتنے بڑے پہاڑ کو ہم یوں زمین پر گاڑ سکیں، ذرا اوپر سورج کی طرف دیکھو، یہ کتنا بڑا ہے، اس کی روشنی سے پوری کائنات روشن ہوتی ہے، ذرا سوچو، کیا یہ یونہی اپنے آپ بن گیا، اس کو کس نے بنایا؟ اور سوچو۔ جب تم زمین میں بیج ڈالتے ہو، وہ ننھا سا بیج جس کو ہتھیلی میں بھینچ دو تو مَسلا جاتا ہے، اس کو جب تم زمین میں ڈالتے ہو تو کیسی عالی شان فصل پیدا ہوتی ہے، کیسا تنو مند درخت نکل کر تم کو چھاؤں اور پھل دیتا ہے، کیا تم اپنے سر پر لگی ہوئی بتی کو استعمال نہیں کرتے۔۔ ذرا سوچو، یہ سب کون کرتا ہے، زمین سے اتنا بڑا درخت کون نکالتا ہے، جب تمہاری فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو بادل لا کر کون پانی برساتا ہے اور جب تم بیمار ہوتے ہو، بیماری تمہیں لاچار اور بے بس کردیتی ہے، تو وہ کون ہے جو تمہیں تندرست اور بھلا چنگا کردیتا ہے، یہ اتنے بڑے بڑے دریا جو انسان کو تنکے کی طرح بہا لے جائیں، انہیں کون رواں دواں رکھتا ہے، یہ سمندر جو شروع ہوتا ہے تو ختم ہی نہیں ہوتا، اس کو کس نے بنایا۔ اور پھر تم اپنے وجود پر غور کرو، تم کہاں سے آئے، تمہاری آنکھ کیسے دیکھتی ہے، تمہاری ناک کیسے سونگھتی ہے، تم یوں دو پیروں پر کھڑے ہوکر کیسے چل لیتے ہو، یہ تمہارے سر پر لگا ہوا روشن چراغ کیسے تمہاری رہنمائی کرتا ہے، یہ سب کس نے بنایا ہے، کیسے بنایا ہے، کیا یہ سب اپنے آپ ہوگیا۔؟نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔۔ یہ سب بدرے قصائی نے بنایا ہے، بدرا قصائی تمہاری ایک ایک رگ، اور نس کا معمار ہے، یہ سورج یہ ستارے، یہ پہاڑ، یہ مرغزار سب اسی کی جلوہ نمائی ہے۔۔۔۔
۔۔تقریر گو نے ایک ماہر شعبدہ باز کی طرح مجمع کو اپنے بس میں کرلیا تھا، اب لوگوں کا ہجوم شش و پنج میں پڑگیا تھا۔۔۔ پھر سے سرگوشیاں اور کھسر پھسر شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔
۔۔ (جاری ہے)۔۔
آپکی یہ تحریر ۔۔۔ایم ۔اے ۔راحت ۔۔۔۔کی کہانی صدیوں کا بیٹا سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہے ۔۔اس میں تھوڑی ۔۔دل پشوری ڈالیں ۔۔۔تاکہ پڑھتے وقت خشکی محسوس نہ ہو ۔۔۔۔۔۔
- mood 1
- mood Zinda Rood react this post
13 Sep, 2018 at 6:45 pm #203آپکی یہ تحریر ۔۔۔ایم ۔اے ۔راحت ۔۔۔۔کی کہانی صدیوں کا بیٹا سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہے ۔۔اس میں تھوڑی ۔۔دل پشوری ڈالیں ۔۔۔تاکہ پڑھتے وقت خشکی محسوس نہ ہو ۔۔۔۔۔۔دل پشوری ڈال تو دوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدرا قصائی نہیں مانے گا ۔۔۔
13 Sep, 2018 at 10:07 pm #204ارے چھوڑیے جناب۔۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔ اقبال کی پوری شاعری جنگ و جدل سے بھری ہوئی ہے، انہوں نے ہر دشت میں تلوار اٹھا کر گھوڑے دوڑادیئے، اور امیر طوائف کی ماں کی ذرا سی بات پر چپکے ہوکر بیٹھ رہے۔۔ ہمیں اقبال سے یہ توقع نہ تھی۔۔ ہمیں تو اقبال سے یہ توقع تھی کہ وہ زن سے اپنی میان سے تلوار نکالتے اور اپنی محبوبہ امیر طوائف کی ماں کا سر قلم کردیتے اور امیر طوائف کو گھوڑے پر بٹھا کر اپنے حجرے میں لے آتے۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔
نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اقبال تو اہنی فطرت میں کافی بھلا مانس بندا تھا یہ تو آپ کی قبیل ہے جو اس کو دن رات بالا ثانت کرنے کے چکر میں ہلکان ہے
اور آپکے دیکھنے کے انداز سے بھی وہ اپنی فطرت میں سچا ہی نظر آتا ہے کیونکہ وہ بے تیغ لڑ رہا تھا، لیکن لگتا ہے یا تو آپ بھینگے ہو گئے ہیں یا جناب ہی کے الفاظ میں اوپر والی منزل کی بتی دائمی فیوز ہے
13 Sep, 2018 at 10:11 pm #205۔۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ ایک دن ان کے بیچ کا ہی ایک آدمی جو باقیوں سے زیادہ چالاک اور شاطر تھا، کھڑا ہو اور سب کو زور زور سے پکارنے لگا، سب اس کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے، وہ ایک لمبے قد اور بھاری بھرکم جسم کا آدمی تھا۔ لوگ پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے تو وہ بلند آواز سے تقریر کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔
۔۔اے لوگو!۔۔ کیا تم جانتے ہو، تم کہاں سے آئے، تم اس دھرتی پر کیوں خوار ہورہے ہو، تم نے کہاں چلے جانا ہے، یہ زمین، یہ سورج، یہ لہلہاتے کھیت، شور مچاتی ہوائیں، برستے بادل، یہ بے کراں سمندر، دھرتی کا سینہ چیر کر بہنے والے دریا، یہ رات کی ہیبت ناک تاریکی، اندھیری راتوں میں راہ دکھانے والے ستارے، یہ سب کس کی کرامات ہیں، کیا تم جانتے ہو۔۔؟؟ اس نے گلا پھاڑ کر زور دور آواز سے پوچھا۔۔
۔۔ نہیں، ہم نہیں جانتے۔۔ پورا مجمع یک زبان ہوکر چلایا، سب اس کی خوش گفتاری کے سحر میں گرفتار، بڑی توجہ سے اس کی تقریر سن رہے تھے۔۔ وہ بھاری بھرکم شخص مجمع کی جواب سے مطمئن ہوکر پھر سے بولنے لگا۔۔۔
۔۔ یہ ایک سربستہ راز ہے، جو میں آج تم سب کے سامنے کھولنے والا ہوں، سنو۔۔ غور سے میری بات سنو۔۔۔ یہاں سے کوسوں دور، اتنا دور کہ چلتے جاؤ تو راستہ کبھی ختم نہ ہو، پہاڑوں سے بھی آگے، ریگستانوں اور سمندروں سے بھی آگے، بادلوں سے پرے، چمکتے سورج کے پار ایک بہت بڑا جزیرہ ہے، ہمارے جزیرے سے کہیں بڑا، اس میں ایک بہت عالیشان تخت بچھا ہوا ہے، جس کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں، اس کی بلندی آسمان کو چھوتی ہے اور اس کی وسعت سمندروں کو شرمسار کرتی ہے، اس کے دونوں اطرف بڑے بڑے پروں والے غلام جن کے قد اتنے بڑے ہیں کہ سر نظر ہی نہیں آتے، مور پنکھ لئے ہر وقت اپنا فریضہ سرانجام دیتے رہتے ہیں۔۔ اس تخت پر ایک بہت بڑی ہستی جلوہ افروز ہے، اس کے پورے بدن سے سونے جیسی شعائیں نکلتی ہیں، انہی شعاعوں سے سورج روشنی لیتا ہے، اس کے بدن پر صرف ایک لنگوٹ ہے، اس کے چہرے پر ہر وقت کرختگی چھائی رہتی ہے، اس کے جسم کی وسعت لا محدود ہے، اس کے ہاتھ اتنے بڑے ہیں کہ سورج کو مٹھی میں بند کرلے، اس کے داہنے ہاتھ میں ایک بہت بڑا ٹوکہ ہے جس سے ہر وقت خون ٹپکتا رہتا ہے، کیونکہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی کی گردن کاٹ رہا ہوتا ہے، اس ہیبت ناک، پرشکوہ ہستی کا نام بدرا قصائی ہے۔۔۔
۔۔یہ کہہ کر وہ شخص لمحہ بھر سانس لینے کو روکا۔۔ وہ گہری نظروں سے مجمع کا جائزہ لے رہا تھا۔۔ مجمع انتہائی دلچسپی اور کسی قدر خوف کے عالم میں سانس روکے اس کی تقریر سن رہا تھا، یہ صورتِ حال اس شخص کیلئے نہایت اطمینان بخش تھی۔۔ وہ شخص پھر گویا ہوا۔۔
۔۔تو اے لوگو۔۔ تم نہیں جانتے بدرا قصائی کیسی بے انتہا طاقتوں کا مالک ہے، اس کی شکتی بے مثال ہے،اس کا اختیار لا محدود ہے، وہ یکتا ہے، اس جیسا دانا کوئی نہیں، اس جیسا عالی شان کوئی نہیں، وہ بلند ہے عظیم ہے، پوری کائنات اس کے آنکھ کے اشارے سے چلتی ہے، وہ سورج کو روشنی دیتا ہے، وہ بادلوں کو پانی اور ہواؤں کو سرمستی بخشتا ہے، وہ زمین کو زرخیزی دیتا ہے تاکہ تم زمین میں بیج ڈالو اور اس سے فصل اگے، وہ دریاؤں کو روانی اور سمندروں کو طغیانی عطا کرتا ہے، اس کے سامنے کسی کا بس نہیں، کسی کی مجال نہیں کہ سر تو کیا آنکھ بھی اٹھائے، وہ حاکموں کا حاکم اور مالکوں کا مالک ہے۔۔ اے لوگو۔۔۔ تم نہیں جانتے وہ کیا ہے، کیونکہ تم نے اسے نہیں دیکھا، میں نے دیکھا ہے، میں نے دیکھا ہے اور اسی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے۔۔ اے لوگو۔۔ میں بدرے قصائی کا خاص آدمی ہوں، اس نے مجھے خصوصی پیغام دے کر تمہاری طرف بھیجا ہے۔۔۔
۔۔اتنا کہہ کر وہ شخص خاموش ہوا اور لوگوں کے ردعمل کا جائزہ لینے لگا۔۔ مجمع میں اس کی یہ بات سن کر بھنبھناہٹ شروع ہوگئی، لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے، پورے مجمع میں بے چینی پھیل گئی، لوگوں کے سروں پر لگی ہوئی بتی یک دم تیز ہوگئی، پورا ماحول روشنی سے نہا گیا، ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔۔۔
۔۔پھر اچانک مجمع سے ایک شخص اٹھا، جس کے سر پر کافی بڑی بتی لگی ہوئی تھی، وہ بولا۔۔۔ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ بدرا قصائی واقعی ہے اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اسی نے تمہیں بھیجا ہے۔۔؟ یہ سوال سن کر بدرے قصائی کا مبینہ نمائندہ سر ہلانے لگا اور بولا۔۔
۔۔اےلوگو۔۔ ذرا اپنا سر اٹھاؤ اور اپنے پیچھے کھڑے اس ہیبت ناک پہاڑ کو دیکھو، کیا ہم میں سے کسی کی بھی یہ اوقات ہے کہ اتنے بڑے پہاڑ کو ہم یوں زمین پر گاڑ سکیں، ذرا اوپر سورج کی طرف دیکھو، یہ کتنا بڑا ہے، اس کی روشنی سے پوری کائنات روشن ہوتی ہے، ذرا سوچو، کیا یہ یونہی اپنے آپ بن گیا، اس کو کس نے بنایا؟ اور سوچو۔ جب تم زمین میں بیج ڈالتے ہو، وہ ننھا سا بیج جس کو ہتھیلی میں بھینچ دو تو مَسلا جاتا ہے، اس کو جب تم زمین میں ڈالتے ہو تو کیسی عالی شان فصل پیدا ہوتی ہے، کیسا تنو مند درخت نکل کر تم کو چھاؤں اور پھل دیتا ہے، کیا تم اپنے سر پر لگی ہوئی بتی کو استعمال نہیں کرتے۔۔ ذرا سوچو، یہ سب کون کرتا ہے، زمین سے اتنا بڑا درخت کون نکالتا ہے، جب تمہاری فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو بادل لا کر کون پانی برساتا ہے اور جب تم بیمار ہوتے ہو، بیماری تمہیں لاچار اور بے بس کردیتی ہے، تو وہ کون ہے جو تمہیں تندرست اور بھلا چنگا کردیتا ہے، یہ اتنے بڑے بڑے دریا جو انسان کو تنکے کی طرح بہا لے جائیں، انہیں کون رواں دواں رکھتا ہے، یہ سمندر جو شروع ہوتا ہے تو ختم ہی نہیں ہوتا، اس کو کس نے بنایا۔ اور پھر تم اپنے وجود پر غور کرو، تم کہاں سے آئے، تمہاری آنکھ کیسے دیکھتی ہے، تمہاری ناک کیسے سونگھتی ہے، تم یوں دو پیروں پر کھڑے ہوکر کیسے چل لیتے ہو، یہ تمہارے سر پر لگا ہوا روشن چراغ کیسے تمہاری رہنمائی کرتا ہے، یہ سب کس نے بنایا ہے، کیسے بنایا ہے، کیا یہ سب اپنے آپ ہوگیا۔؟نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔۔ یہ سب بدرے قصائی نے بنایا ہے، بدرا قصائی تمہاری ایک ایک رگ، اور نس کا معمار ہے، یہ سورج یہ ستارے، یہ پہاڑ، یہ مرغزار سب اسی کی جلوہ نمائی ہے۔۔۔۔
۔۔تقریر گو نے ایک ماہر شعبدہ باز کی طرح مجمع کو اپنے بس میں کرلیا تھا، اب لوگوں کا ہجوم شش و پنج میں پڑگیا تھا۔۔۔ پھر سے سرگوشیاں اور کھسر پھسر شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔
۔۔ (جاری ہے)۔۔
پائی جی آپ کہیں اعوان باہی کے وڈھے بائی تو نہیں ہیں؟؟
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
- mood 1
- mood Zinda Rood react this post
14 Sep, 2018 at 2:11 am #206،
، ، اس ہیبت ناک، پرشکوہ ہستی کا نام بدرا قصائی ہے۔۔۔
اس نے مجھے خصوصی پیغام دے کر تمہاری طرف بھیجا ہے۔۔۔
۔۔اتنا کہہ کر وہ شخص خاموش ہوا اور لوگوں کے ردعمل کا جائزہ لینے لگا۔۔ مجمع میں اس کی یہ بات سن کر بھنبھناہٹ شروع ہوگئی، لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے، پورے مجمع میں بے چینی پھیل گئی، لوگوں کے سروں پر لگی ہوئی بتی یک دم تیز ہوگئی، پورا ماحول روشنی سے نہا گیا، ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔۔۔
۔۔پھر اچانک مجمع سے ایک شخص اٹھا، جس کے سر پر کافی بڑی بتی لگی ہوئی تھی، وہ بولا۔۔۔ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ بدرا قصائی واقعی ہے اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اسی نے تمہیں بھیجا ہے۔۔؟ یہ سوال سن کر بدرے قصائی کا مبینہ نمائندہ سر ہلانے لگا اور بولا۔۔
۔۔اےلوگو۔۔ ذرا اپنا سر اٹھاؤ اور اپنے پیچھے کھڑے اس ہیبت ناک پہاڑ کو دیکھو، کیا ہم میں سے کسی کی بھی یہ اوقات ہے کہ اتنے بڑے پہاڑ کو ہم یوں زمین پر گاڑ سکیں، ذرا اوپر سورج کی طرف دیکھو، یہ کتنا بڑا ہے، اس کی روشنی سے پوری کائنات روشن ہوتی ہے، ذرا سوچو، کیا یہ یونہی اپنے آپ بن گیا، اس کو کس نے بنایا؟ اور سوچو۔ جب تم زمین میں بیج ڈالتے ہو، وہ ننھا سا بیج جس کو ہتھیلی میں بھینچ دو تو مَسلا جاتا ہے، اس کو جب تم زمین میں ڈالتے ہو تو کیسی عالی شان فصل پیدا ہوتی ہے، کیسا تنو مند درخت نکل کر تم کو چھاؤں اور پھل دیتا ہے، کیا تم اپنے سر پر لگی ہوئی بتی کو استعمال نہیں کرتے۔۔ ذرا سوچو، یہ سب کون کرتا ہے، زمین سے اتنا بڑا درخت کون نکالتا ہے، جب تمہاری فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو بادل لا کر کون پانی برساتا ہے اور جب تم بیمار ہوتے ہو، بیماری تمہیں لاچار اور بے بس کردیتی ہے، تو وہ کون ہے جو تمہیں تندرست اور بھلا چنگا کردیتا ہے، یہ اتنے بڑے بڑے دریا جو انسان کو تنکے کی طرح بہا لے جائیں، انہیں کون رواں دواں رکھتا ہے، یہ سمندر جو شروع ہوتا ہے تو ختم ہی نہیں ہوتا، اس کو کس نے بنایا۔ اور پھر تم اپنے وجود پر غور کرو، تم کہاں سے آئے، تمہاری آنکھ کیسے دیکھتی ہے، تمہاری ناک کیسے سونگھتی ہے، تم یوں دو پیروں پر کھڑے ہوکر کیسے چل لیتے ہو، یہ تمہارے سر پر لگا ہوا روشن چراغ کیسے تمہاری رہنمائی کرتا ہے، یہ سب کس نے بنایا ہے، کیسے بنایا ہے، کیا یہ سب اپنے آپ ہوگیا۔؟نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔۔ یہ سب بدرے قصائی نے بنایا ہے، بدرا قصائی تمہاری ایک ایک رگ، اور نس کا معمار ہے، یہ سورج یہ ستارے، یہ پہاڑ، یہ مرغزار سب اسی کی جلوہ نمائی ہے۔۔۔۔
۔۔تقریر گو نے ایک ماہر شعبدہ باز کی طرح مجمع کو اپنے بس میں کرلیا تھا، اب لوگوں کا ہجوم شش و پنج میں پڑگیا تھا۔۔۔ پھر سے سرگوشیاں اور کھسر پھسر شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔
۔۔ (جاری ہے)۔۔
زندہ رود صاحب ……آپ کی تحریر میں کیا بلا کا تجسس اور سسپنس تھا …میں نے کچھ اندازے لگاۓ تھے کہ یہ ہیبت ناک اور پرشکوہ ہستی کیسی ہوگی مگر میرے تخیل کی پرواز محدود نکلی …پردہ اٹھا تو بدرا قصائی نکل آیا …واہ واہ زبردست
کیا آپ کی “فرضی کہانی“ میں بدرا قصائی سے ایک عام انسان کی ملاقات ہونے کا کوئی میکانزم بھی ہے یا صرف کچھ لمبے قد کے خاص بندے ہی بدرے قصائی کی زیارت کر سکتے ہیں؟
اگر موقع ملے تو آپ بدرے قصائی کی کچھ اضافی خصوصیات کا بھی ذکر کریں ….مجھے شک ہے کہ بدرا قصائی بہت خوشامد پسند بھی ہے جب تک دن رات سر پٹخ پٹخ کر اس کی خوشامد اور تعریف نہیں ہوتی اسے مزہ نہیں آتا
- thumb_up 1
- thumb_up Zinda Rood liked this post
14 Sep, 2018 at 3:30 am #207دل پشوری ڈال تو دوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدرا قصائی نہیں مانے گا ۔۔۔
مطلب ۔۔۔ بدرے قصا ئی ۔۔۔۔ سے بھی پھٹتی ہے آپ کی ۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پھٹتی ہے ۔۔۔۔ تو د نیا میں کیا ۔۔۔۔۔ امب ۔۔۔۔ لینے آئے تھے ۔۔۔۔۔
14 Sep, 2018 at 3:32 am #208؟ اگر موقع ملے تو آپ بدرے قصائی کی کچھ اضافی خصوصیات کا بھی ذکر کریں ….مجھے شک ہے کہ بدرا قصائی بہت خوشامد پسند بھی ہے جب تک دن رات سر پٹخ پٹخ کر اس کی خوشامد اور تعریف نہیں ہوتی اسے مزہ نہیں آتا
اگر اس نے بدرے قصائی کے خصو صیات نہ بتا ئیں تو ۔۔۔۔ میرے سے پوچھ لیجئے گا ۔۔۔۔۔ میں بدرے قصائی کے ۔۔۔ خصوصیات بیان کردوں گا ۔۔۔۔
14 Sep, 2018 at 9:55 am #209نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اقبال تو اہنی فطرت میں کافی بھلا مانس بندا تھا یہ تو آپ کی قبیل ہے جو اس کو دن رات بالا ثانت کرنے کے چکر میں ہلکان ہے اور آپکے دیکھنے کے انداز سے بھی وہ اپنی فطرت میں سچا ہی نظر آتا ہے کیونکہ وہ بے تیغ لڑ رہا تھا، لیکن لگتا ہے یا تو آپ بھینگے ہو گئے ہیں یا جناب ہی کے الفاظ میں اوپر والی منزل کی بتی دائمی فیوز ہےاقبال کے اس رویے کو سادہ الفاظ میں قول و فعل کا تضاد کہتے ہیں جناب۔۔۔
14 Sep, 2018 at 9:56 am #210پائی جی آپ کہیں اعوان باہی کے وڈھے بائی تو نہیں ہیں؟؟اس حسنِ ظن کی وجہ۔۔؟؟
14 Sep, 2018 at 9:57 am #211زندہ رود صاحب ……آپ کی تحریر میں کیا بلا کا تجسس اور سسپنس تھا …میں نے کچھ اندازے لگاۓ تھے کہ یہ ہیبت ناک اور پرشکوہ ہستی کیسی ہوگی مگر میرے تخیل کی پرواز محدود نکلی …پردہ اٹھا تو بدرا قصائی نکل آیا …واہ واہ زبردست کیا آپ کی “فرضی کہانی“ میں بدرا قصائی سے ایک عام انسان کی ملاقات ہونے کا کوئی میکانزم بھی ہے یا صرف کچھ لمبے قد کے خاص بندے ہی بدرے قصائی کی زیارت کر سکتے ہیں؟ اگر موقع ملے تو آپ بدرے قصائی کی کچھ اضافی خصوصیات کا بھی ذکر کریں ….مجھے شک ہے کہ بدرا قصائی بہت خوشامد پسند بھی ہے جب تک دن رات سر پٹخ پٹخ کر اس کی خوشامد اور تعریف نہیں ہوتی اسے مزہ نہیں آتاقرار صاحب۔۔۔ آپ فکر نہ کیجئے، یہ بدرا قصائی ڈھیر ساری “خوبیوں” سے مالا مال ہے اور اس کی تمام “خوبیوں” کا تفصیل سے ذکر ہوگا۔۔۔ آپ بس آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔۔۔
14 Sep, 2018 at 9:59 am #212مطلب ۔۔۔ بدرے قصا ئی ۔۔۔۔ سے بھی پھٹتی ہے آپ کی ۔۔۔۔۔۔۔ سب سے پھٹتی ہے ۔۔۔۔ تو د نیا میں کیا ۔۔۔۔۔ امب ۔۔۔۔ لینے آئے تھے ۔۔۔۔۔گلٹی ابھی تیرے سامنے بدرے قصائی کی پوری تصویر آئی کہاں ہے، جب آئے گی تو تیری بھی ضرور پھٹے گی۔۔ بدرا قصائی ہے ہی ایسا۔۔۔
14 Sep, 2018 at 10:00 am #213اس حسنِ ظن کی وجہ۔۔؟؟
لگتا ہے پکے مومنوں کی طرح آپ کو بھی پارسائی کا زعم ہے
بائی جی ایہہ حُسنِ ظن نئیں، حُسنِ سُوء تھا
کیونکہ اعوان پائی گرادن تو ممبران بارے سنجیدہ و سمجھدار کی کرتے ہیں لیکن اصل میں وہ سمجھتے ان کو چ ہیں
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
- mood 2
- mood Zinda Rood, Ghost Protocol react this post
14 Sep, 2018 at 10:02 am #214مطلب ۔۔۔ بدرے قصا ئی ۔۔۔۔ سے بھی پھٹتی ہے آپ کی ۔۔۔۔۔۔۔ سب سے پھٹتی ہے ۔۔۔۔ تو د نیا میں کیا ۔۔۔۔۔ امب ۔۔۔۔ لینے آئے تھے ۔۔۔۔۔امبے نہیں کھمبے لینے آئے ہیں یہ ،،،،،،،ہاہاہاہاہا
14 Sep, 2018 at 10:03 am #215اقبال کے اس رویے کو سادہ الفاظ میں قول و فعل کا تضاد کہتے ہیں جناب۔۔۔
وہ کیسے؟ کیا بالا صاحب کا مصرعہ نہیں ہے کہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ؎
یہ سپاہی وہی ممتاز مفتی والا ہے
14 Sep, 2018 at 10:05 am #216اس حسنِ ظن کی وجہ۔۔؟؟
ابے توتلے اردو تو سیکہہ لے
|
حسن ززن ہوتا ہے ، حسن ظن نہیں ،،،، زن حسین ہوتی ہے یا ظن14 Sep, 2018 at 10:06 am #217وہ کیسے؟ کیا بالا صاحب کا مصرعہ نہیں ہے کہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ؎ یہ سپاہی وہی ممتاز مفتی والا ہےاقبال تو بے تیغ چھوڑیے لڑا ہی نہیں، سچ کہا یہ ممتاز مفتی والا ٹین کا سپاہی ہے۔۔۔
14 Sep, 2018 at 10:08 am #218ابے توتلے اردو تو سیکہہ لے | حسن ززن ہوتا ہے ، حسن ظن نہیں ،،،، زن حسین ہوتی ہے یا ظن
گلو توتلے ، ہر زن حسین نہیں ہوتی، کوئی کوئی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14 Sep, 2018 at 10:12 am #219گلو توتلے ، ہر زن حسین نہیں ہوتی، کوئی کوئی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجہے پتہ ہے تیرے لئیے کونسی عورت حسین ہوتی ہے ،،،،،،،ہاہاہاہاہا
14 Sep, 2018 at 10:17 am #220اقبال تو بے تیغ چھوڑیے لڑا ہی نہیں، سچ کہا یہ ممتاز مفتی والا ٹین کا سپاہی ہے۔۔۔
ابے توتلے
تجہے اقبال کی تلوار کا کیا پتہ ، ہٹلر کون تھا ، اقبال کی تلوار کا ٹکڑہ -
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.