Viewing 20 posts - 181 through 200 (of 254 total)
  • Author
    Posts
  • Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #181
    لگتا یے بانگ درا کی سختی آئی ہوئی ہے ۔۔علامہ اقبال قبر میں سوچ رہے ہونگے کاش میں طبعی موت کی بجائے زندہ رود کا گلا گھونٹ کے پھانسی پر چڑ جاتا ۔۔۔ :lol:

    رضا بھائی

    تمام فکری بیواؤں میں ایک چیز مشترک ہے، جس کے نام کا سیاپا شروع کر دیں پھر دس دس سال اسکا پیچھا نہیں چھوٹی ہیں

    ایک فکری بیوہ نے چول نامہ لکھنا شروع کیا تو وہ چول نامہ ہی لکھتی جا رہی ہے. ایک فکری بیوہ نے علامہ اقبال کے نام کا سیاپا شروع کیا تو وہ دن رات علامہ اقبال کے نام کا سیاپا ہی کیۓ جا رہی ہے اور ایک کالی دم والی فکری بیوہ پچھلے دس سال سے ہر فورم پر اٹھتی بیٹھتی میرا نام لے لے کر سیاپا کرتی نظر آتی ہے

    :hilar: :hilar:   :hilar:

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #182
    ویسے آپنے علامہ اقبال صاحب نے ساری کتابیں فارسی میں کیوں لکھی ہیں ۔۔۔ میرا دوست کہتا تھا ۔ایک سعودی عرب کا شاہ فصل۔۔اور علامہ اقبال ہماری زندگی عذاب بنا گئے ہیں ۔۔۔ جب دیکھو شاہ فیصل کب پیدا ہوا کیوں پیدا ہوا ۔۔۔سالے جن ملکوں میں پیدا ہوئے ان کو اتنی فکر نہیں جتنی ہم کو یے ۔۔اور رے نام علامہ صاحب کو اتنے مشکل الفاظ لکھ گئے ہیں پزھو جبڑا درد کرنے لگتا ہے ۔۔سوچو تو دماغ کی دہی بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا تو فیر اس کا کیا حل تلاش کیا جائے ۔۔۔میں نے پوچھا ۔۔۔۔ کہتا یے توں ہم سے سیانا یے اور تنظیم کا لیڈر بھی ۔توں بتا ۔۔۔۔۔ اچھا ۔۔جگر چل پھر کسی اور سکول میں داخلہ لیتے ہیں ۔۔ہم نے ایک عزم کے ساتھ بستے اٹھائے اور سکول سے نکل لیے

    آپ بستہ اٹھا کر نکل تو لئے، مگر اگلے سکول جا کر آپ کو پتا چلا ہوگا کہ آسیب کی طرح علامہ صاحب بھی آپ کا پیچھا کرتے کرتے وہاں پہنچ گئے۔۔ ویسے علامہ صاحب کی شاعری تو کافی خشک ہے، مگر خود وہ کبھی کافی رنگین مزاج رہے، عطیہ فیضی نامی خاتون  کے ساتھ پریم کا جھولا بھی جھولتے رہے۔۔۔ امیر نامی ایک طوائف بھی اقبال کی محبوبہ کے رتبے پر فائز رہی،  جس کا قصہ شورش کاشمیری نے لکھا ہے۔۔ یہ یاد رکھیے کہ شورش کاشمیری اقبال کا بھگت تھا۔۔۔ مزید تفصیل پڑھنی ہوتو مستنصر حسین تارڑ کی زبانی یہاں پڑھ سکتے ہیں۔۔۔

    http://www.humsub.com.pk/31037/mustansar-hussain-tarar-15/

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #183

    آپ بستہ اٹھا کر نکل تو لئے، مگر اگلے سکول جا کر آپ کو پتا چلا ہوگا کہ آسیب کی طرح علامہ صاحب بھی آپ کا پیچھا کرتے کرتے وہاں پہنچ گئے۔۔ ویسے علامہ صاحب کی شاعری تو کافی خشک ہے، مگر خود وہ کبھی کافی رنگین مزاج رہے، عطیہ فیضی نامی خاتون کے ساتھ پریم کا جھولا بھی جھولتے رہے۔۔۔ امیر نامی ایک طوائف بھی اقبال کی محبوبہ کے رتبے پر فائز رہی، جس کا قصہ شورش کاشمیری نے لکھا ہے۔۔ یہ یاد رکھیے کہ شورش کاشمیری اقبال کا بھگت تھا۔۔۔ مزید تفصیل پڑھنی ہوتو مستنصر حسین تارڑ کی زبانی یہاں پڑھ سکتے ہیں۔۔۔ http://www.humsub.com.pk/31037/mustansar-hussain-tarar-15/

    لگتا ہے علامہ اقبال سے دل کھٹا  کروا ۔کے ہی دم ۔لو گے ۔۔میں تو پہلے ان شعرا حضرات کا فین نہیں ہوں چنگے بھلے پڑھ کر بجائے یہ کوئی میڈیسن ۔۔۔یا کوئی  ایسی چیز ایجاد کرتے جس سے انسانیت کو کوئی فائدہ ہوتا ۔۔۔پر کتھوں۔۔۔

    الٹے یہ قوم کو  خلا میں گھورنے پر لگا گئے ہیں ۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    casanova
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #184

    جنابِ والا، بنو فنڈوئین ازل سے غلط فہمی کا شکار ہیں، وہ ہمیشہ خیالی دنیا میں جیتے ہیں، آپ کو پہلے مجھے یہ پوچھنا چاہیئے تھا کہ بنو فنڈوئین کا جزیرہ میں نے کیوں چھوڑ دیا، چلیے آپ نہیں پوچھتے تو میں خود ہی بتا دیتا ہوں، بنو فنڈوئین کے جزیرے پرکیا بتاؤں کیسی مخلوق پائی جاتی تھی، نہ ہم ان کو انسان کہہ سکتے ہیں، نہ حیوان، ان کے سروں پر کھوپڑیاں تو تھیں، پر اس پر تالے لگے ہوئے تھے،، تالوں پر لگا زنگ اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ عرصہ دراز سے ان لوگوں نے اوپری منزل کا استعمال بند کردیا تھا، ان کے ہاں جیسے ہی کوئی بچہ پیدا ہوتا ، اس کی کھوپڑی پر چھوٹا سا تالا لگا دیتا جاتا، پورا جزیرہ ایسی مخلوق سے بھرا ہوا تھا،ہاں جزیرے پر اکا دکا انسان بھی تھے، بنو فنڈوئین کا نظریاتی اثاثہ بھی بڑا عجیب و غریب تھا، وہ اپنے اجداد کے بہنوں کے ساتھ جنسی وظیفے کو سرمایہ افتخار سمجھتے تھے اور سینہ تان کا اس کا اظہار و دفاع کرتے پائے جاتے۔۔۔ اور کیا بتاؤں،بس اسی پر اکتفا کیجئے۔۔۔۔ چاہوں تو اور بھی بہت کچھ بتا سکتا ہوں، پر یہاں بہت سوں سے برداشت نہیں ہوگا۔۔۔ ایک بار پھر حضرتِ میا خلیفہ کے فن کے پرستار حضرتِ اقبال یاد آرہے ہیں، حضرت اقبال کے الفاظ میں۔۔۔

    اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں۔۔۔ مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ۔۔۔

    جناب آپ جب ان آسیب زدہ جزیروں کو چھوڑ چکے تو پھر ملامتی کرتب دکھانے کا کیا فائدہ۔۔ ابھی آپ اپنے یوٹوپئین مرغزاروں کا نقشہ کھینچئے۔سنا ہے وہاں چوپائے اور دوپائے اپنی فطری مستیوں کے سنگ ہچکولے کھاتے پھرتے ہیں۔ زمانے کے مذاہب اوران میں مقید واعظ نے جو آپکے فنون چوکڑیہ پر قدغنیں لگا رکھی تھیں انہیں خاک بود کرکے، ٹہنی ٹہنی “جشنِ دُڑکی” منایا جا رہا ہے ۔اب جو نظارے آپکے رقص پا ہیں ان کی خبر مل جائے تو شائد دانش گردی کے نئے دھاگوں کا ساماں میسر ا جائے گا۔ تو جناب اپنے تخیل کی چوکڑی مارئیے اور کھینچئے نقشہ

    casanova
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #185
    لگتا ہے علامہ اقبال سے دل کھٹا کروا ۔کے ہی دم ۔لو گے ۔۔میں تو پہلے ان شعرا حضرات کا فین نہیں ہوں چنگے بھلے پڑھ کر بجائے یہ کوئی میڈیسن ۔۔۔یا کوئی ایسی چیز ایجاد کرتے جس سے انسانیت کو کوئی فائدہ ہوتا ۔۔۔پر کتھوں۔۔۔ الٹے یہ قوم کو خلا میں گھورنے پر لگا گئے ہیں ۔۔۔۔

    سلیم صاحب آخر زندہ رُؤد صاحب نے آپ کو اپنی دلفریبی کے جال میں پھنسا ہی لیا۔ اب یہ آپ کو اپنی لیبارٹری لے جائیں گے اور کچھ نہ کچھ ایجاد کروا کے ہی واپس پلٹائیں گے۔ پچھلے سال یہ ایسے ہی ایک ریڈ انڈین کو اپنی لیب میں لے گئے تھے اور باہمی التفات کا کرشمہ دکھا کر ایک عدد ” کالی پئیڈ”ایجاد کرکے ہی باہر آئے تھے۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #186
    یہ تحریک لبیک کے مجاہد ہو ہی سکتے ہیں ، اگر ہمارے قائد جناب ڈاکٹر معظم محمود خان نیازی کے حکم پر ریلی نکلتی تورینجرز والے خود اس میں شامل ہوتے

    :serious:

    دیکھ لیں، اس میں شامی الیون بھی ہے، وہ جو رینجرز کے ڈنڈے کے آگے تیر کی طرح سیدھا ہوکر دگڑم دگڑم بھاگ رہا ہے، اس لئے یہ ویڈیو نہیں بتارہا تھا۔۔

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #187
    باوا جی – آپ بھی تو آتے جاتے ان کی پوچھل پر پاؤں رکھ جاتے ہیں

    رضا بھائی تمام فکری بیواؤں میں ایک چیز مشترک ہے، جس کے نام کا سیاپا شروع کر دیں پھر دس دس سال اسکا پیچھا نہیں چھوٹی ہیں ایک فکری بیوہ نے چول نامہ لکھنا شروع کیا تو وہ چول نامہ ہی لکھتی جا رہی ہے. ایک فکری بیوہ نے علامہ اقبال کے نام کا سیاپا شروع کیا تو وہ دن رات علامہ اقبال کے نام کا سیاپا ہی کیۓ جا رہی ہے اور ایک کالی دم والی فکری بیوہ پچھلے دس سال سے ہر فورم پر اٹھتی بیٹھتی میرا نام لے لے کر سیاپا کرتی نظر آتی ہے :hilar: :hilar: :hilar:
    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #188
    زندہ رود پر یہ کفیت اس وقت طاری ہوتی ہیں ، جب یہ کسی شادی یا ولیمے کا فنکشن اتٹنڈ کر کے آتے ہیں ، تمام لوگ مرغن غذائوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں اور یہ کونے میں کھڑے چٹنی اور دہی سے نان کھاتے نظر آتے ہیں

    زندہ رُود صاحب! آپکی تخلیقی صلاحیتیوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے جیسے کسی چائینہ کے ہنومان کے ہاتھ میں اُسترا آگیا ہو۔آپ کی لفاظیت میں چھپے نِشتروں سے زمانہ آگاہی حاصل کر چکا۔ اب ذرا اس دانش کدے میں، آپ اپنے عمرانی و وجدانی اوصاف کا بھی ذکر کر دیجیئے۔وہ کونسے ارتقائی و جنیاتی عوامل تھے جن کا احساس پاتے ہی آپ نے “پلانٹ آف ایپس” میں مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا ذرااپنی سوانح ٹُکوسلی کا بھی تھوڑا خلاصہ بیان کیجئے۔ اچھے بھلے جنگلوں میں اچھلتے کودتے، کھوتوں کو زیرِ ناف چومتے، آپ یہ انسانوں میں کیسے آ ٹپکے؟ حضورِوالا! اب ذرہ مایا خلیفہ کی عزت افزائی چھوڑئیے اور اپنی منکی تولیدہ کے ارتقائی چسکوں پر بھی روشنی ڈالئے۔
    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #189
    سلیم صاحب آخر زندہ رُؤد صاحب نے آپ کو اپنی دلفریبی کے جال میں پھنسا ہی لیا۔ اب یہ آپ کو اپنی لیبارٹری لے جائیں گے اور کچھ نہ کچھ ایجاد کروا کے ہی واپس پلٹائیں گے۔ پچھلے سال یہ ایسے ہی ایک ریڈ انڈین کو اپنی لیب میں لے گئے تھے اور باہمی التفات کا کرشمہ دکھا کر ایک عدد ” کالی پئیڈ”ایجاد کرکے ہی باہر آئے تھے۔

    مجھے ایک شعر یاد آرہا ہے ۔۔

    مانا کہہ تغافل نہیں کرو گے تم لیکن

    ِخاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک ۔

    کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ وارننگ ۔جیسی خبرداری پہلے کر دیتے تو میں مقتل گاہ کی طرف بڑھتے قدم روک لیتا ۔۔۔۔۔

    اب لیب سے پئید نکلے یا ۔بھیڑیا ۔۔۔۔۔زندہ رود سے زیادہ میرے آپنے خیالات  بھی ہیں ۔۔جو مجھے لیب کی طرف لیے جارے ہئں

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #190

    اگر بانگیں دینے کے جرم پر ہی آپ بے چاری مرغی کر تل کر کھا جاتے ہیں، تو میرے ارد گرد تو پچاسیوں مولوی دن رات بانگیں دیتے رہتے ہیں، لگتا ہے اب ان سے چھٹکارا پانے کے لئے بھی مجھے یہی ترکیب استعمال کرنی پڑے گی۔۔۔

    ملا کی اذان اور، ککڑ کی بانگاں اور

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #191

    آپ بستہ اٹھا کر نکل تو لئے، مگر اگلے سکول جا کر آپ کو پتا چلا ہوگا کہ آسیب کی طرح علامہ صاحب بھی آپ کا پیچھا کرتے کرتے وہاں پہنچ گئے۔۔ ویسے علامہ صاحب کی شاعری تو کافی خشک ہے، مگر خود وہ کبھی کافی رنگین مزاج رہے، عطیہ فیضی نامی خاتون کے ساتھ پریم کا جھولا بھی جھولتے رہے۔۔۔ امیر نامی ایک طوائف بھی اقبال کی محبوبہ کے رتبے پر فائز رہی، جس کا قصہ شورش کاشمیری نے لکھا ہے۔۔ یہ یاد رکھیے کہ شورش کاشمیری اقبال کا بھگت تھا۔۔۔ مزید تفصیل پڑھنی ہوتو مستنصر حسین تارڑ کی زبانی یہاں پڑھ سکتے ہیں۔۔۔ http://www.humsub.com.pk/31037/mustansar-hussain-tarar-15/

    مجھے طوائف کے کوٹھے پر قتل والی کہانی کا انتظار ہے

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #192
    جناب آپ جب ان آسیب زدہ جزیروں کو چھوڑ چکے تو پھر ملامتی کرتب دکھانے کا کیا فائدہ۔۔ ابھی آپ اپنے یوٹوپئین مرغزاروں کا نقشہ کھینچئے۔سنا ہے وہاں چوپائے اور دوپائے اپنی فطری مستیوں کے سنگ ہچکولے کھاتے پھرتے ہیں۔ زمانے کے مذاہب اوران میں مقید واعظ نے جو آپکے فنون چوکڑیہ پر قدغنیں لگا رکھی تھیں انہیں خاک بود کرکے، ٹہنی ٹہنی “جشنِ دُڑکی” منایا جا رہا ہے ۔اب جو نظارے آپکے رقص پا ہیں ان کی خبر مل جائے تو شائد دانش گردی کے نئے دھاگوں کا ساماں میسر ا جائے گا۔ تو جناب اپنے تخیل کی چوکڑی مارئیے اور کھینچئے نقشہ

    جنابِ من!۔۔۔ ذرا دھیرج رکھیے، آپ کی تشنگی اورخلائے ذات کو پوری طرح بھرا جائے گا، مگرتحمل، صبر اور برداشت شرط ہے۔۔ داستان طویل ہے اور وقت کی بھی کمی نہیں، ماضی نہیں جانیں گے تو حال کا نقشہ پورا کیسا ہوگا، مکمل تصویر آپ کے سامنے کیسے آئے گی۔۔ اس لئے جزیرہ فنڈوئین کا حال جاننا آپ کیلئے نہایت ضروری ہے۔۔۔

    ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جزیرہ فنڈوئین پر انسان اور حیوان کی درمیانی مخلوق رہتی تھی، وہ فطری طور پر دوپائے تھے، مگر صدیوں تک وہ انسان سے حیوان کے درجے پر گرکر چوپایوں کی طرح چلتے رہے، وہ ان کی فطرت ثانیہ بن گئی، کبھی کبھی فطرت انہیں کچوکے لگاتی اور وہ اپنی اصل کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتے، مگر جیسے ہی وہ دوپایوں پر چلتے، اردگردچلنے والے چوپائے شور مچادیتے اور مار مار کران کو دوبارہ واپس چوپائے بنادیتے، یہ کھیل آج کل سے نہیں، دو چار مہینوں سے نہیں، سینکڑوں سالوں سے جاری تھا، وہ سرجھکائے یونہی جئے جارہے تھے، اگرچہ انہیں کوئی نام دینا مشکل، مگر اپنی ہیئت کذائی کے اعتبار سے انہیں بھیڑ کہہ لیتے ہیں، وہ تابع فرمان بھیڑیں جن کے سروں پر پیدا ہوتے ہی خول پہنا دیا جاتا، اگلے پاؤں جھکا کر ٹانگوں میں بدل دیئے جاتے، دن بھر سرجھکائے ادھر ادھر گھاس پھوس کی تلاش میں بھٹکتیں ، درندوں سے بچ بچا کر تالاب سے پانی پیتیں اور پھر منہ اوپر کرکے خلا میں گھورتے ہوئے کسی انجانی ہستی کا شکر بجالاتیں۔۔

    برسوں پہلے ان میں سے ایک بھیڑ نے جو کبھی کبھار چھپ چھپا کر اپنی اصل کی طرف لوٹتی، سر سے خول اتار کر ایک طرف رکھتی اور تنہا دو پاؤں پر چلنے کی کوشش کرتی، کبھی چل پاتی اور کبھی لڑکھڑا کر گر پڑتی، جنم سےخول چڑھائے رکھنے کی وجہ سے گو سر چھوٹا ہوگیا تھا، پر جب بھی خول اتارتی، دماغ کی مدھم سی بتی جل اٹھتی اور اوپری خانے میں کچھ حرکت سی محسوس ہوتی۔۔۔ ان خطرناک حرکتوں نے جیسا کہ پہلے ہی متوقع تھا، اسے بھیانک مصیبت میں ڈال دیا۔۔ ہوا یوں کہ بھیڑوں کے غول کے ساتھ چرتے چرتے، ایک دن اس پر ایسی سرمستی طاری ہوئی کہ اس نے سر اٹھایا، خول اتار کر ایک طرف رکھا اور کہنے لگی، آخرکیوں ہم اس عذاب میں مبتلا ہیں، ہم وہ نہیں جو بنادیئے گئے ہیں، ہمارے اندر ایک چیز ایسی ہے جو ہمیں باقی سب سے ممتاز بناتی ہے، وہ ہے ہمارا اوپری خانہ، جس کو ہم نے ہمیشہ سے خول میں بند کرکے تالا لگا رکھا ہے، یہ سب سے کام کی چیز ہے، میں نے محسوس کیا ہے، بہت بار محسوس کیا ہے، جب میں اپنا خول اتار کر ایک طرف رکھ دیتی ہوں تو اوپر بتی جلتی ہے، میرا تن بدن روشن ہوجاتا ہے، چاروں طرف چھایا اندھیرا دور ہونے لگتا ہے، میں خود کو کچھ اور ہی محسوس کرتی ہوں، یہ بہت نایاب چیز ہے، ہم نے اس کو آخر کیوں اور کس کے کہنے پر تالے میں بند کررکھا ہے، میں سوچتی ہوں اگر یہ خول چڑھانے کی وجہ سے چھوٹی نہ رہ گئی ہوتی تو پھر اس کی روشنی کتنی ہوتی، آخر ایسا کیوں۔۔۔؟؟

    اس باغی قسم کی بھیڑ کی یہ باتیں سن کر اردگرد کی بھیڑوں میں غصےکی لہر دوڑ گئی، اس کو جرات کیسے ہوئی اپنا خول اتارنے کی، وہ اس کی طرف مارنے کے لئے جھپٹیں، اس سے قبل کے وہ اس کا تیا پانچہ کردیتیں، ایک بوڑھی بھیڑ آگے بڑھی اور سب کو روک دیا۔۔

    بوڑھی بھیڑ تھوڑی دیر چپ چاپ کھڑی رہی، پھر یوں گویا ہوئی ّ، “اے جزیرہ بنو فنڈوئین کی فنڈو بھیڑو!۔۔ اس کو مت مارو۔ اس نے جو سوال پوچھا ہے، اس کا جواب اسے ہی نہیں، تم سب کو ملنا چاہیے، تم سب کو اپنی تاریخ سے واقف ہونا چاہیئے۔۔”۔

    مگر ہم بہت خوش ہیں، ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔۔ باغی بھیڑ کے علاوہ باقی سب بھیڑیں یک زبان ہوکر چلائیں۔

    بوڑھی بھیڑ نے کہا۔۔ نہیں،ہوسکتا ہے کل کو کوئی اور بھیڑ باغی ہوجائے، تم سب کیلئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ تمہارے لئے یہ خول اور چارپایوں پر چلنا کتنا ضروری ہے۔ یہ کہہ کر بوڑھی بھیڑ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی قدرے اونچی جگہ پر جا بیٹھی اور سانس درست کرنے لگی، اس نے دور تک پھیلی ہوئی بھیڑوں کے مجمعے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور کہنا شروع کیا۔

    ۔ اے جزیرہ فنڈوستان کی بے کار بھیڑو۔۔۔ سینکڑوں سالوں پہلے کی بات ہے، دور بہت دور۔۔ ہمارے آباؤ اجداد آباد تھے، وہ دو پیروں پر چلتے تھے، ان کے سروں پر خول بھی نہیں چڑھے ہوئے تھے، وہ کھلی فضا میں سانس لیتے، اپنے اوپری خانے کی روشنی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ، دل کھول کر ہنستے ، چشموں سے چمکتا ہوا پانی پیتے، درختوں سے پھل توڑ کر کھاتے، اور ہنسی خوش زندگی گزارتے تھے۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ۔۔(جاری ہے)۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #193
    مجھے طوائف کے کوٹھے پر قتل والی کہانی کا انتظار ہے

    افسوس کہ آپ کا انتظار انتظار ہی رہے گا کیونکہ یہ واردات ہونے سے پہلے ہی امیر طوائف کی والدہ نے حضرتِ اقبال کو کوٹھے پر آنے سے روک دیا تھا، یہ کہہ کر کہ شاعر زیادہ نفع بخش نہیں ہوتا۔۔۔ حوالے اور تفصیل کے لئے دیکھیے۔۔۔۔

    http://www.humsub.com.pk/31037/mustansar-hussain-tarar-15/

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    اَتھرا
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #194

    افسوس کہ آپ کا انتظار انتظار ہی رہے گا کیونکہ یہ واردات ہونے سے پہلے ہی امیر طوائف کی والدہ نے حضرتِ اقبال کو کوٹھے پر آنے سے روک دیا تھا، یہ کہہ کر کہ شاعر زیادہ نفع بخش نہیں ہوتا۔۔۔ حوالے اور تفصیل کے لئے دیکھیے۔۔۔۔ http://www.humsub.com.pk/31037/mustansar-hussain-tarar-15/

    چلیں شکر ہے داستان لذتِ دہن و بدن تک ہی ختم ہو گئی ورنہ تو آپ کی قبیل کے بہت ساروں نے کشت و خون بھی اس کاک ٹیل میں شامل کر رکھا تھا

    :bigsmile:

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #195

    جنابِ من!۔۔۔ ذرا دھیرج رکھیے، آپ کی تشنگی اورخلائے ذات کو پوری طرح بھرا جائے گا، مگرتحمل، صبر اور برداشت شرط ہے۔۔ داستان طویل ہے اور وقت کی بھی کمی نہیں، ماضی نہیں جانیں گے تو حال کا نقشہ پورا کیسا ہوگا، مکمل تصویر آپ کے سامنے کیسے آئے گی۔۔ اس لئے جزیرہ فنڈوئین کا حال جاننا آپ کیلئے نہایت ضروری ہے۔۔۔

    ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جزیرہ فنڈوئین پر انسان اور حیوان کی درمیانی مخلوق رہتی تھی، وہ فطری طور پر دوپائے تھے، مگر صدیوں تک وہ انسان سے حیوان کے درجے پر گرکر چوپایوں کی طرح چلتے رہے، وہ ان کی فطرت ثانیہ بن گئی، کبھی کبھی فطرت انہیں کچوکے لگاتی اور وہ اپنی اصل کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتے، مگر جیسے ہی وہ دوپایوں پر چلتے، اردگردچلنے والے چوپائے شور مچادیتے اور مار مار کران کو دوبارہ واپس چوپائے بنادیتے، یہ کھیل آج کل سے نہیں، دو چار مہینوں سے نہیں، سینکڑوں سالوں سے جاری تھا، وہ سرجھکائے یونہی جئے جارہے تھے، اگرچہ انہیں کوئی نام دینا مشکل، مگر اپنی ہیئت کذائی کے اعتبار سے انہیں بھیڑ کہہ لیتے ہیں، وہ تابع فرمان بھیڑیں جن کے سروں پر پیدا ہوتے ہی خول پہنا دیا جاتا، اگلے پاؤں جھکا کر ٹانگوں میں بدل دیئے جاتے، دن بھر سرجھکائے ادھر ادھر گھاس پھوس کی تلاش میں بھٹکتیں ، درندوں سے بچ بچا کر تالاب سے پانی پیتیں اور پھر منہ اوپر کرکے خلا میں گھورتے ہوئے کسی انجانی ہستی کا شکر بجالاتیں۔۔

    برسوں پہلے ان میں سے ایک بھیڑ نے جو کبھی کبھار چھپ چھپا کر اپنی اصل کی طرف لوٹتی، سر سے خول اتار کر ایک طرف رکھتی اور تنہا دو پاؤں پر چلنے کی کوشش کرتی، کبھی چل پاتی اور کبھی لڑکھڑا کر گر پڑتی، جنم سےخول چڑھائے رکھنے کی وجہ سے گو سر چھوٹا ہوگیا تھا، پر جب بھی خول اتارتی، دماغ کی مدھم سی بتی جل اٹھتی اور اوپری خانے میں کچھ حرکت سی محسوس ہوتی۔۔۔ ان خطرناک حرکتوں نے جیسا کہ پہلے ہی متوقع تھا، اسے بھیانک مصیبت میں ڈال دیا۔۔ ہوا یوں کہ بھیڑوں کے غول کے ساتھ چرتے چرتے، ایک دن اس پر ایسی سرمستی طاری ہوئی کہ اس نے سر اٹھایا، خول اتار کر ایک طرف رکھا اور کہنے لگی، آخرکیوں ہم اس عذاب میں مبتلا ہیں، ہم وہ نہیں جو بنادیئے گئے ہیں، ہمارے اندر ایک چیز ایسی ہے جو ہمیں باقی سب سے ممتاز بناتی ہے، وہ ہے ہمارا اوپری خانہ، جس کو ہم نے ہمیشہ سے خول میں بند کرکے تالا لگا رکھا ہے، یہ سب سے کام کی چیز ہے، میں نے محسوس کیا ہے، بہت بار محسوس کیا ہے، جب میں اپنا خول اتار کر ایک طرف رکھ دیتی ہوں تو اوپر بتی جلتی ہے، میرا تن بدن روشن ہوجاتا ہے، چاروں طرف چھایا اندھیرا دور ہونے لگتا ہے، میں خود کو کچھ اور ہی محسوس کرتی ہوں، یہ بہت نایاب چیز ہے، ہم نے اس کو آخر کیوں اور کس کے کہنے پر تالے میں بند کررکھا ہے، میں سوچتی ہوں اگر یہ خول چڑھانے کی وجہ سے چھوٹی نہ رہ گئی ہوتی تو پھر اس کی روشنی کتنی ہوتی، آخر ایسا کیوں۔۔۔؟؟

    اس باغی قسم کی بھیڑ کی یہ باتیں سن کر اردگرد کی بھیڑوں میں غصےکی لہر دوڑ گئی، اس کو جرات کیسے ہوئی اپنا خول اتارنے کی، وہ اس کی طرف مارنے کے لئے جھپٹیں، اس سے قبل کے وہ اس کا تیا پانچہ کردیتیں، ایک بوڑھی بھیڑ آگے بڑھی اور سب کو روک دیا۔۔

    بوڑھی بھیڑ تھوڑی دیر چپ چاپ کھڑی رہی، پھر یوں گویا ہوئی ّ، “اے جزیرہ بنو فنڈوئین کی فنڈو بھیڑو!۔۔ اس کو مت مارو۔ اس نے جو سوال پوچھا ہے، اس کا جواب اسے ہی نہیں، تم سب کو ملنا چاہیے، تم سب کو اپنی تاریخ سے واقف ہونا چاہیئے۔۔”۔

    مگر ہم بہت خوش ہیں، ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔۔ باغی بھیڑ کے علاوہ باقی سب بھیڑیں یک زبان ہوکر چلائیں۔

    بوڑھی بھیڑ نے کہا۔۔ نہیں،ہوسکتا ہے کل کو کوئی اور بھیڑ باغی ہوجائے، تم سب کیلئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ تمہارے لئے یہ خول اور چارپایوں پر چلنا کتنا ضروری ہے۔ یہ کہہ کر بوڑھی بھیڑ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی قدرے اونچی جگہ پر جا بیٹھی اور سانس درست کرنے لگی، اس نے دور تک پھیلی ہوئی بھیڑوں کے مجمعے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور کہنا شروع کیا۔

    ۔ اے جزیرہ فنڈوستان کی بے کار بھیڑو۔۔۔ سینکڑوں سالوں پہلے کی بات ہے، دور بہت دور۔۔ ہمارے آباؤ اجداد آباد تھے، وہ دو پیروں پر چلتے تھے، ان کے سروں پر خول بھی نہیں چڑھے ہوئے تھے، وہ کھلی فضا میں سانس لیتے، اپنے اوپری خانے کی روشنی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ، دل کھول کر ہنستے ، چشموں سے چمکتا ہوا پانی پیتے، درختوں سے پھل توڑ کر کھاتے، اور ہنسی خوش زندگی گزارتے تھے۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ۔۔(جاری ہے)۔۔

    اب بھیڑوں میں تو پیغمبر نہیں ہوتے ورنہ وہ باغی بھیڑ ہی پیغمبر تھی جس نے کہا اتار پھینکو یہ جاہلیت کا خول

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #196
    اب بھیڑوں میں تو پیغمبر نہیں ہوتے ورنہ وہ باغی بھیڑ ہی پیغمبر تھی جس نے کہا اتار پھینکو یہ جاہلیت کا خول

    ویسے بھیڑ کو پیغمبر بننے کی ضرورت کیا آن پڑی تھی؟

    :bigsmile:

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #197
    ویسے بھیڑ کو پیغمبر بننے کی ضرورت کیا آن پڑی تھی؟ :bigsmile:

    سر ان کی کہانی کے تناظر میں کہا ہے۔ نعوذباللہ مقصد کوئی تضحیک نہی

    Gulraiz
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #198
    زندہ رُود صاحب! آپکی تخلیقی صلاحیتیوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے جیسے کسی چائینہ کے ہنومان کے ہاتھ میں اُسترا آگیا ہو۔آپ کی لفاظیت میں چھپے نِشتروں سے زمانہ آگاہی حاصل کر چکا۔ اب ذرا اس دانش کدے میں، آپ اپنے عمرانی و وجدانی اوصاف کا بھی ذکر کر دیجیئے۔وہ کونسے ارتقائی و جنیاتی عوامل تھے جن کا احساس پاتے ہی آپ نے “پلانٹ آف ایپس” میں مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا ذرااپنی سوانح ٹُکوسلی کا بھی تھوڑا خلاصہ بیان کیجئے۔ اچھے بھلے جنگلوں میں اچھلتے کودتے، کھوتوں کو زیرِ ناف چومتے، آپ یہ انسانوں میں کیسے آ ٹپکے؟ حضورِوالا! اب ذرہ مایا خلیفہ کی عزت افزائی چھوڑئیے اور اپنی منکی تولیدہ کے ارتقائی چسکوں پر بھی روشنی ڈالئے۔

    |پیر و مرشد

    آپ اس کھوتستان میں سپرنووا بنکر وارد ہوئے ہیں
    |
    یہ کھوتستان میں اسلئیے اگیا کیونکہ اسے پتہ چلا تھا کہ یہاں کھوتے بکثرت پائے جاتے ہیں ، اگر یہ یہاں سے چلا گیا تو فلم کا مزہ کرکرا ہوجائیگا اسلئیے اسپر ہاتھہ تھوڑا ہولا رکھیں
    \
    حضرت ، یہ توتلا ہے ، اس سے ذرا ہوشیار رہیں کہ ہر ایک کو کچا چبانے کی خلائی دہمکیاں دیتا ہے ، اسلئیے اس سے ذرا دور دور ہی رہیں ، کہاں آپ پارس اور کہاں یہ توتلا

    کیوں بے توتلے صحیص لکہا

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #199

    گزشتہ سے پیوستہ۔۔

    ۔۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ ایک دن ان کے بیچ کا ہی ایک آدمی جو باقیوں سے زیادہ چالاک اور شاطر تھا، کھڑا ہو اور سب کو زور زور سے پکارنے لگا، سب اس کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے، وہ ایک لمبے قد اور بھاری بھرکم جسم کا آدمی تھا۔ لوگ پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے تو وہ بلند آواز سے تقریر کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔

    ۔۔اے لوگو!۔۔ کیا تم جانتے ہو، تم کہاں سے آئے، تم اس دھرتی پر کیوں خوار ہورہے ہو، تم نے کہاں چلے جانا ہے، یہ زمین، یہ سورج، یہ لہلہاتے کھیت، شور مچاتی ہوائیں، برستے بادل، یہ بے کراں سمندر، دھرتی کا سینہ چیر کر بہنے والے دریا، یہ رات کی ہیبت ناک تاریکی، اندھیری راتوں میں راہ دکھانے والے ستارے، یہ سب کس کی کرامات ہیں، کیا تم جانتے ہو۔۔؟؟ اس نے گلا پھاڑ کر زور دور آواز سے پوچھا۔۔

    ۔۔ نہیں، ہم نہیں جانتے۔۔ پورا مجمع یک زبان ہوکر چلایا، سب اس کی خوش گفتاری کے سحر میں گرفتار، بڑی توجہ سے اس کی تقریر سن رہے تھے۔۔ وہ بھاری بھرکم شخص مجمع کی جواب سے مطمئن ہوکر پھر سے بولنے لگا۔۔۔

    ۔۔ یہ ایک سربستہ راز ہے، جو میں آج تم سب کے سامنے کھولنے والا ہوں، سنو۔۔ غور سے میری بات سنو۔۔۔ یہاں سے کوسوں دور، اتنا دور کہ چلتے جاؤ تو راستہ کبھی ختم نہ ہو، پہاڑوں سے بھی آگے، ریگستانوں اور سمندروں سے بھی آگے، بادلوں سے پرے، چمکتے سورج کے پار ایک بہت بڑا جزیرہ ہے، ہمارے جزیرے سے کہیں بڑا، اس میں ایک بہت عالیشان تخت بچھا ہوا ہے، جس کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں، اس کی بلندی آسمان کو چھوتی ہے اور اس کی وسعت سمندروں کو شرمسار کرتی ہے، اس کے دونوں اطرف بڑے بڑے پروں والے غلام جن کے قد اتنے بڑے ہیں کہ سر نظر ہی نہیں آتے، مور پنکھ لئے ہر وقت اپنا فریضہ سرانجام دیتے رہتے ہیں۔۔ اس تخت پر ایک بہت بڑی ہستی جلوہ افروز ہے، اس کے پورے بدن سے سونے جیسی شعائیں نکلتی ہیں، انہی شعاعوں سے سورج روشنی لیتا ہے، اس کے بدن پر صرف ایک لنگوٹ ہے، اس کے چہرے پر ہر وقت کرختگی چھائی رہتی ہے، اس کے جسم کی وسعت لا محدود ہے، اس کے ہاتھ اتنے بڑے ہیں کہ سورج کو مٹھی میں بند کرلے، اس کے داہنے ہاتھ میں ایک بہت بڑا ٹوکہ ہے جس سے ہر وقت خون ٹپکتا رہتا ہے، کیونکہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی کی گردن کاٹ رہا ہوتا ہے، اس ہیبت ناک، پرشکوہ ہستی کا نام بدرا قصائی ہے۔۔۔

    ۔۔یہ کہہ کر وہ شخص لمحہ بھر سانس لینے کو روکا۔۔ وہ گہری نظروں سے مجمع کا جائزہ لے رہا تھا۔۔ مجمع انتہائی دلچسپی اور کسی قدر خوف کے عالم میں سانس روکے اس کی تقریر سن رہا تھا، یہ صورتِ حال اس شخص کیلئے نہایت اطمینان بخش تھی۔۔ وہ شخص پھر گویا ہوا۔۔

    ۔۔تو اے لوگو۔۔ تم نہیں جانتے بدرا قصائی کیسی بے انتہا طاقتوں کا مالک ہے، اس کی شکتی بے مثال ہے،اس کا اختیار لا محدود ہے، وہ یکتا ہے، اس جیسا دانا کوئی نہیں، اس جیسا عالی شان کوئی نہیں، وہ بلند ہے عظیم ہے، پوری کائنات اس کے آنکھ کے اشارے سے چلتی ہے، وہ سورج کو روشنی دیتا ہے، وہ بادلوں کو پانی اور ہواؤں کو سرمستی بخشتا ہے، وہ زمین کو زرخیزی دیتا ہے تاکہ تم زمین میں بیج ڈالو اور اس سے فصل اگے، وہ دریاؤں کو روانی اور سمندروں کو طغیانی عطا کرتا ہے، اس کے سامنے کسی کا بس نہیں، کسی کی مجال نہیں کہ سر تو کیا آنکھ بھی اٹھائے، وہ حاکموں کا حاکم اور مالکوں کا مالک ہے۔۔ اے لوگو۔۔۔ تم نہیں جانتے وہ کیا ہے، کیونکہ تم نے اسے نہیں دیکھا، میں نے دیکھا ہے، میں نے دیکھا ہے اور اسی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے۔۔ اے لوگو۔۔ میں بدرے قصائی کا خاص آدمی ہوں، اس نے مجھے خصوصی پیغام دے کر تمہاری طرف بھیجا ہے۔۔۔

    ۔۔اتنا کہہ کر وہ شخص خاموش ہوا اور لوگوں کے ردعمل کا جائزہ لینے لگا۔۔ مجمع میں اس کی یہ بات سن کر بھنبھناہٹ شروع ہوگئی، لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے، پورے مجمع میں بے چینی پھیل گئی، لوگوں کے سروں پر لگی ہوئی بتی یک دم تیز ہوگئی، پورا ماحول روشنی سے نہا گیا، ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔۔۔

    ۔۔پھر اچانک مجمع سے ایک شخص اٹھا، جس کے سر پر کافی بڑی بتی لگی ہوئی تھی، وہ بولا۔۔۔ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ بدرا قصائی واقعی ہے اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اسی نے تمہیں بھیجا ہے۔۔؟ یہ سوال سن کر بدرے قصائی کا مبینہ نمائندہ سر ہلانے لگا اور بولا۔۔

    ۔۔اےلوگو۔۔ ذرا اپنا سر اٹھاؤ اور اپنے پیچھے کھڑے اس ہیبت ناک پہاڑ کو دیکھو، کیا ہم میں سے کسی کی بھی یہ اوقات ہے کہ اتنے بڑے پہاڑ کو ہم یوں زمین پر گاڑ سکیں، ذرا اوپر سورج کی طرف دیکھو، یہ کتنا بڑا ہے، اس کی روشنی سے پوری کائنات روشن ہوتی ہے، ذرا سوچو، کیا یہ یونہی اپنے آپ بن گیا، اس کو کس نے بنایا؟ اور سوچو۔ جب تم زمین میں بیج ڈالتے ہو، وہ ننھا سا بیج جس کو ہتھیلی میں بھینچ دو تو مَسلا جاتا ہے، اس کو جب تم زمین میں ڈالتے ہو تو کیسی عالی شان فصل پیدا ہوتی ہے، کیسا تنو مند درخت نکل کر تم کو چھاؤں اور پھل دیتا ہے، کیا تم اپنے سر پر لگی ہوئی بتی کو استعمال نہیں کرتے۔۔ ذرا سوچو، یہ سب کون کرتا ہے، زمین سے اتنا بڑا درخت کون نکالتا ہے، جب تمہاری فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو بادل لا کر کون پانی برساتا ہے اور جب تم بیمار ہوتے ہو، بیماری تمہیں لاچار اور بے بس کردیتی ہے، تو وہ کون  ہے جو تمہیں تندرست اور بھلا چنگا کردیتا ہے، یہ اتنے بڑے بڑے دریا جو انسان کو تنکے کی طرح بہا لے جائیں، انہیں کون رواں دواں رکھتا ہے، یہ سمندر جو شروع ہوتا ہے تو ختم ہی نہیں ہوتا، اس کو کس نے بنایا۔ اور پھر تم اپنے وجود پر غور کرو، تم کہاں سے آئے، تمہاری آنکھ کیسے دیکھتی ہے، تمہاری ناک کیسے سونگھتی ہے، تم یوں دو پیروں پر کھڑے ہوکر کیسے چل لیتے ہو، یہ تمہارے سر پر لگا ہوا روشن چراغ کیسے تمہاری رہنمائی کرتا ہے، یہ سب کس نے بنایا ہے، کیسے بنایا ہے، کیا یہ سب اپنے آپ ہوگیا۔؟نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔۔ یہ سب بدرے قصائی نے بنایا ہے، بدرا قصائی تمہاری ایک ایک رگ، اور نس کا معمار ہے، یہ سورج یہ ستارے، یہ پہاڑ، یہ مرغزار سب اسی کی جلوہ نمائی ہے۔۔۔۔

    ۔۔تقریر گو نے ایک ماہر شعبدہ باز کی طرح مجمع کو اپنے بس میں کرلیا تھا، اب لوگوں کا ہجوم شش و پنج میں پڑگیا تھا۔۔۔ پھر سے سرگوشیاں اور کھسر پھسر شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔

    ۔۔ (جاری ہے)۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #200
    چلیں شکر ہے داستان لذتِ دہن و بدن تک ہی ختم ہو گئی ورنہ تو آپ کی قبیل کے بہت ساروں نے کشت و خون بھی اس کاک ٹیل میں شامل کر رکھا تھا :bigsmile:

    ارے چھوڑیے جناب۔۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔ اقبال کی پوری شاعری جنگ و جدل سے بھری ہوئی ہے، انہوں نے ہر دشت میں تلوار اٹھا کر گھوڑے دوڑادیئے، اور امیر طوائف کی ماں کی ذرا سی بات پر چپکے ہوکر بیٹھ رہے۔۔ ہمیں اقبال سے یہ توقع نہ تھی۔۔ ہمیں تو اقبال سے یہ توقع تھی کہ وہ زن سے اپنی میان سے تلوار نکالتے اور اپنی محبوبہ امیر طوائف کی ماں کا سر قلم کردیتے اور امیر طوائف کو گھوڑے پر بٹھا کر اپنے حجرے میں لے آتے۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔

Viewing 20 posts - 181 through 200 (of 254 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi