Viewing 4 posts - 1 through 4 (of 4 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    حکومت سندھ نے لیاری گینگ وار اور لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کی جوائنٹ انویسٹی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ جاری کردی جس میں ملزم نے سیاسی و لسانی بنیادوں پر 198 افراد کے قتل کا اعتراف کیا گیا ہے۔
    سندھ حکومت نے عذیر بلوچ، نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹس جاری کر دیں۔
    حکومت سندھ کی جانب سے پیر کو جاری کی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزم مختلف مجرمانہ واقعات میں ملوث ہونے کے باعث 2006 سے 2008 تک کراچی سینٹرل جیل میں قید رہا جبکہ ملزم جون 2013 میں کراچی سے براستہ ایران دبئی فرار ہو گیا تھا۔
    رپورٹ کے مطابق وہ ایک نامعلوم راستے سے کراچی واپس آئے لیکن کراچی سے بلوچستان میں داخل ہوتے ہوئے 30 جنوری 2016 کو پاکستان رینجرز نے گرفتار کر لیا تھا۔

    باپ کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے گینگ وار میں شمولیت

    اس حوالے سے مزید بتایا کہ 2001 میں لیاری ناظم کا الیکشن ہارنے والے سردار عذیر جان بلوچ کے والد فیض بلوچ، جو ٹرانسپورٹ کا کام کرتے تھے اور انہیں 2003 میں ارشد پپو کے والد نے قتل کر دیا تھا اور اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے وہ رحمٰن ڈکیت گروپ میں شامل ہوئے تھے۔
    رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2003 میں انہیں سجاول سے چوہدری اسلم نے گرفتار کیا تھا لیکن انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا اور بعد میں انہیں مفرور قرار دے دیا گیا۔

    گینگ کی سربراہی اور پولیس آپریشن

    جے آئی ٹی کے مطابق 2008 میں پولیس مقابلے میں رحمٰن ڈکیٹ کی موت کے بعد عذیر بلوچ نے گینگ کو سنبھالا اور پیپلز امن کمیٹی کا آغاز کیا اور اسی جماعت کے زیر سایہ لیاری میں مجرمانہ سرگرمیاں اور ارشد پپو اور غفار ذکری گروپ کے خلاف گینگ وار کا سلسلہ جاری رکھا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے علاقے میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ٹارگٹ کلرز کو بھی مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
    ٢٠١٢ میں پولیس نے لیاری میں پیپلز امن کمیٹی کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا لیکن اس میں پولیس کو نفری کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور پیپلز امن کمیٹی کی مسلح مزاحمت کے باعث وہ لیاری میں داخل بھی نہیں ہو سکی تھی اور چیل چوک تک محدود رہی۔
    یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دور میں پیپلز امن کمیٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن ایک دوسرے کے حامیوں کو قتل کر رہے تھے جبکہ ایم کیو ایم کے حمایت یافتہ ارشد پپو اور غفار ذکری گروپ سے ان کی بلاتعطل گینگ وار بھی جاری تھی۔

    لیاری کا بے تاج بادشاہ

    رپورٹ میں کہا گیا کہ مارچ 2013 میں ارشد پپو کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے کے بعد عذیر بلوچ لیاری کے بے تاج بادشاہ بن گئے تھے تاہم اس کے بعد لیاری امن کمیٹی اندرونی اختلافات سے دوچار ہو گئی اور بالآخر ستمبر 2013 میں کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد وہ بیرون ملک فرار ہو گئے۔
    ملزم نے انکشاف کیا کہ 2010 میں انہوں نے مختلف گینگسٹر گروپوں کو اپنے حریفوں کو قتل کرنے کا حکم دیا جن کی کل تعداد 158 بنتی ہے۔
    198
    افراد کا قتل اور شیر شاہ کباڑی مارکیٹ واقعہ

    دوران تفتیش ملزم نے 198 افراد کو سیاسی و لسانی بنیادوں اور گینگ وار میں قتل کرنے کا اعتراف کیا اور 2006 میں اسے گرفتار بھی کیا گیا تھا جہاں ملزم کا 7 مقدمات میں چالان منظور کیا گیا اور وہ 10 ماہ تک جیل میں رہے، ملزم کو ضمانت پر رہا کردیا گیا لیکن پیشی پر عدم حاضری کے باعث عذیر بلوچ کو اشتہاری قرار دے دیا گیا۔
    ملزم نے تفتیش میں قبول کیا کہ 19 اکتوبر 2010 کو ان کے کارکنوں نے ایک سیاسی جماعت کی حمایت اور مذکورہ پارٹی کو بھتہ دینے پر شیرشاہ کباڑی مارکیٹ میں 11 افراد کو لسانی بنیادوں پر قتل کیا تھا۔

    پولیس میں اثرورسوخ

    اس کے علاوہ ملزم نے پولیس اہلکاروں، سیاسی حریفوں، ارشد پپو سمیت گینگ وار میں اپنے مخالفین اور دیگر کے قتل کا بھی اعتراف کیا جبکہ 2012 کے پولیس آپریشن میں مسلح مزاحمت کے احکامات دینے کے الزامات بھی تسلیم کیے جبکہ پولیس اسٹیشنز پر بھی متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔
    ملزم نے تسلیم کیا کہ وہ پولیس میں بھی انتہائی اثرورسوخ کا حامل ہے اور اس نے اعتراف کیا کہ 2011 سے 2012 کے دوران متعدد ایس پی اور ایس ایچ اوز کی من مانے تھانوں میں تقرریاں کروائیں۔
    جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملزم نے بھتہ وصولی، گینگسٹر کے ذریعے اپنے حصے کی وصولی اور دیگر مقامات سے بزور طاقت لوگوں سے رقم وصول کرنے کا بھی اعتراف کیا۔
    ملزم کی پاکستان اور بیرون ملک بڑی تعداد میں جائیدادیں بھی موجود ہے جو اس نے اپنی بیوی اور دیگر رشتے داروں کے ناموں سے لیں جبکہ ملزم نے غیرقانونی ہتھیاروں کی خریداری اور ان کی گینگسٹرز میں تقسیم کا بھی اعتراف کیا۔

    جعلی برتھ سرٹیفکیٹ

    ملزم نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس کی عائشہ نامی ایک خالہ مستقل ایران میں مقیم اور پاکستان اور ایران کی دوہری شہریت کی حامل ہیں۔
    مذکورہ خاتون نے 1980 میں بیٹے کی موت کے بعد اسی کے نام سے عذیر بلوچ کا جعلی برتھ سرٹیفکیٹ بنوایا کیونکہ ماضی میں تصویر ضروری نہیں تھی اس لیے ملزم باآسانی اسے اپنے شناختی کارڈ کے طور پر استعمال کرنے میں کامیاب رہے۔
    اس کے علاوہ ملزم نے جعلی ایرانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانے کا بھی اعتراف کیا۔

    لسانی و سیاسی بنیادوں پر قتل

    جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ نے اپنی فائنڈنگز میں کہا کہ ملزم بڑی تعداد میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اور لسانی بنیادوں پر لوگوں کو قتل کرنے میں ملوث ہے جبکہ ملزم پر پولیس اور رینجرز اہلکاروں کے قتل کا بھی الزام ہے۔
    ملزم 50 سے زائد کیسز میں مفرور ہے جن میں بالواسطہ اور بلاواسطہ ملوث ہے جبکہ اس کی پاکستان اور دبئی میں بلیک منی سے بنائی گئی بڑی تعداد میں جائیدادیں بھی موجود ہیں۔
    جے آئی ٹی میں کہا گیا کہ ملزم نے پیپلز امن کمیٹی سے شہر میں خوف و ہراس قائم کیا جبکہ وہ ملک کے خلاف جاسوسی اور ایرانی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان کے راز بھی فراہم کرتا رہا۔
    ملزم زمینوں پر قبضے، بھتہ خوری، چائنا کٹنگ اور منشیات کی اسمگلنگ میں بھی ملوث رہا۔
    خیال رہے کہ 30 جون کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر بحری امور علی زیدی ایوان میں عذیر بلوچ کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ لے کر آئے تھے اور انہوں نے ایک ایک فرد کا نام لے کر بتایا تھا کہ اس میں کون کون ملوث تھا۔
    انہوں نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی میں مرادعلی شاہ کا نام ہے، جے آئی ٹی میں لکھا ہے کہ ایان علی کے ساتھ مشتاق نے بیرون ملک 88 ٹرپ لگائے۔
    اس موقع پر پیپلز پارٹی کے کچھ اراکین غصے میں آ گئے تھے لیکن نوید قمر ان اراکین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کر رہے تھے اور اسی وجہ سے اسپیکر نے انہیں کہا کہ آپ بات کریں۔
    نوید قمر کا کہنا تھا کہ یہ رویہ مناسب نہیں ہے اور اگر عبدالقادر پٹیل کا نام لیا ہے تو وہ ہی اس کی وضاحت کریں گے۔
    قومی اسمبلی میں علی زیدی کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا تھا کہ یہ جو منسٹر آف پورٹس اینڈ شپنگ کا رویہ رہا ہے تو کیا یہ اس ہاؤس کی عزت بڑھا رہے ہیں۔
    تین جولائی کو ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے عذیر بلوچ، نثار مورائی اور بلدیہ ٹاؤن کیسز کی جے آئی ٹی کی رپورٹس کو پبلک کرنے کا اعلان کیا تھا۔
    ہفتے کو وزیر تعلیم سندھ سعید غنی اور پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے مطالبہ کیا تھا کہ قومی اسمبلی میں جھوٹی اور من گھڑت جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی پر الزام لگانے والے وفاقی وزیر علی زیدی کو حقیقی جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد معافی مانگنی چاہیے۔
    اس سے قبل 28 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما کی سانحہ بلدیہ فیکٹری، لیاری کے گینگسٹر عذیر جان بلوچ اور فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی (ایف سی ایس) کے سابق چیئرمین نثار مورائی کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی 3 رپورٹس کو منظر عام پر لانے کی درخواست منظور کرلی تھی۔
    یاد رہے کہ عذیر بلوچ کو پاکستان رینجرز سندھ کی جانب سے ابتدائی طور پر 90 روز کی حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا اور پھر جنوری 2016 میں ان کی پراسرار گرفتاری کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔
    جس کے بعد اپریل 2017 میں فوج نے اعلان کیاتھا کہ ‘جاسوسی’ کے الزامات پر انہوں نے عزیر بلوچ کی حراست میں لے لیا ہے۔
    یاد رہے کہ عذیر بلوچ انسداد دہشت گردی اور سیشن عدالتوں میں اپنے حریف ارشد پپو کے بہیمانہ قتل سمیت 50 سے زائد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

    https://www.dawnnews.tv/news/1136232/

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    شہر کراچی میں ہونے ان  ہولناک د ھشت گردانہ ۔۔۔۔ وارداتوں کے ۔۔۔۔ جرم میں ۔۔۔۔

    کیا اس وقت کے ۔۔۔۔  ڈی جی رینجرز کو ۔۔۔۔ سزائے موت نہیں  دے دینی چا ھیے ۔۔۔۔۔۔

    Aamir Siddique
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    شہر کراچی میں ہونے ان ہولناک د ھشت گردانہ ۔۔۔۔ وارداتوں کے ۔۔۔۔ جرم میں ۔۔۔۔ کیا اس وقت کے ۔۔۔۔ ڈی جی رینجرز کو ۔۔۔۔ سزائے موت نہیں دے دینی چا ھیے ۔۔۔۔۔۔

    نہیں

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #4

Viewing 4 posts - 1 through 4 (of 4 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi