Thread: عدل قبل از ریٹائرمنٹ
- This topic has 53 replies, 11 voices, and was last updated 5 years, 4 months ago by Shah G.
-
AuthorPosts
-
7 Nov, 2018 at 1:00 pm #1عدل قبل از ریٹائرمنٹ
تحریر: مطیع اللہ جانجی ہاں بے شرمی اور اخلاقی بزدلی ہمارا قومی اثاثہ بنتی جا رہی ھے- منگل کو شریف خاندان کی سزاؤں کی معطلی کے خلاف نیب کی سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت میں جو کچھ ہوا اس سے پوری قوم کا سر شرم سے جھک جانا چاہئیے- پاکستان کی اعلی ترین عدالت کے سربراہ کا بھری عدالت میں جو رویہ دیکھنے کو ملا اس نے ساتھی ججوں کو بھی مجبور کر دیا کہ بہانے سے کاروائی ملتوی کرائی جائے- چیف جسٹس ثاقب نثار نے نہ صرف شریف خاندان کے اس کیس سے اپنے ذاتی جذباتی لگاؤ کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے ریمارکس سے اسلام آباد ہائی کورٹ، اسکے ججوں اور انکے فیصلے کو بھی سر عام تضحیک کا نشانہ بنایا- انکے اس غیر معمولی طور پر پہلے سے زیادہ جارحانہ روئیے کے سامنے ساتھی ججز اور وکلاء بے بسی اور پریشانی کی تصویر بنے نظر آئے- نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب کے پراسیکیوٹر اکرم قریشی دونوں نے ایک موقعے پر مشورہ دیا کہ چیف جسٹس کو اپنی صحت کی خاطر کچھ دن آرام کرنا چاہئیے تھا-
ایک دن پہلے اینجوپلاسٹی کروانے اور ملک میں امراض قلب کے سینئیر ترین ڈاکٹر جنرل کیانی اور ساتھی ججوں کے مشورے کے بھی برخلاف چیف جسٹس کا منگل کے روز ایک ڈاکٹر اور ویل چیئر سمیت سپریم کورٹ پہنچ جانا اور پھر محض شریف خاندان کے خلاف نیب اپیلوں کی سماعت کرنا انتہائی نامناسب اقدام تھا- منصف اعظم نے کمرہ عدالت میں از خود انکشاف کیا کہ انکے لیئے ایک ڈاکٹر کمرہ عدالت سے متصل دوسرے کمرے میں “ہنگامی صورت حال” سے نمٹنے تیار بیٹھا ھے اور یہ کہ جنرل کیانی نے بھی انہیں کام سے روکا ھے- حیرانی کی بات یہ تھی کہ سماعت کے دوران دو ساتھی ججز ایسے محتاط اور خاموش تھے جیسے کہ ڈاکٹر چیف جسٹس نہیں بلکہ انکے لیئے بلایا گیا تھا- سماعت کے دوران چیف جسٹس نے تابڑ توڑ ریمارکس دئیے اور ایک موقعے پر جب نواز شریف کے وکیل ایڈوکیٹ خواجہ حارث نے بات مکمل کرنے کی اجازت چاہی تو چیف صاحب جذباتی انداز میں بولے “خواجہ صاحب یہ سول کورٹ یا ہائی کورٹ نہیں ہے، یہ سپریم کورٹ ہے جہاں جج دلائل میں مداخلت کر سکتے ہیں اور آپکو پہلے جج کی بات سننی ہو گی۔” سماعت کے دوران معزز چیف جسٹس کا بار بار گلا خشک ہوا اور انہوں نے کئی مرتبہ پانی کا گلاس منہ سے لگا لیا- دوران سماعت چیف جسٹس نے ایسے ایسے ریمارکس دئیے کہ جو وزیر اطلاعات فواد چودھری یا عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر پریس کانفرنسوں میں دیتے رہے ہیں- ایسا کرتے ہوئے انہوں نے نہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ بلکہ سپریم کورٹ کے ساتھی ججوں کے کردار پر بھی سوال اٹھا دئیے- فرمایا کہ پاناما سکینڈل میں سپریم کورٹ کے ججوں نے معاملہ احتساب عدالت میں بھیج کر شریف خاندان پر مہربانی کی کیونکہ انکی ہمیشہ سے یہ رائے رہی ھے کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں ہی کر دینا چاہئیے تھا- ایسے بیان سے ایک چیف جسٹس نے اپنے ساتھی ججوں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الا حسن کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور انکے کردار پر سوال اٹھا دیا ہے۔ آیا ان تین ججوں نے پاناما کیس احتساب عدالت بھیج کر شریف خاندان پر ذاتی مہربانی کی کہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا ؟ پھر یہ کہنا کہ اگر میں (بنچ پر) ہوتا تو سپریم کورٹ میں ہی فیصلہ کر دینا تھا- ایسے بیانات نہ صرف یہ کہ چیف جسٹس کے عہدے کے شایان شان نہیں بلکہ اعلی عدلیہ کہ ججوں کے ضابطہ اخلاق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہیں- ضابطہ اخلاق میں یہ واضح طور پر لکھا ھے کہ ججز حضرات ساتھی ججوں سے متعلق کوئی بات کرتے ہوئے احترام کا اور محتاط رویہ اختیار کرینگے- اس کے برخلاف چیف جسٹس نے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ کا بھی نام لیئے بغیر ان پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے فقہ قانون
(jurisprudence)
یعنی عدالتی فیصلوں کے ذریعہ طے شدہ قانونی معاملات کو تباہ کر کے رکھ دیا ھے- جسٹس من اللہ نے وہ فیصلہ تحریر کیا تھا جس میں انہوں نے شریف خاندان کو دی گئی جیل اور جرمانے کی سزاؤں کو معطل کر دیا تھا- باوجود اسکے کہ اس فیصلے میں بار بار کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ صرف ضمانت پر رہائی کی حد تک ہے اور اصل کیس کے شواہد سے متعلق حتمی رائے نہیں اور اس حوالے سے اپیلیں ابھی بھی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں چیف جسٹس انتہائی غصے میں نظر آ رہے تھے- خواجہ حارث نے اس سماعت میں صرف سزاؤں کی عارضی معطلی کے قانونی جواز پر بحث کرنا تھی- ابھی انہوں نے باقاعدہ طور پر اپنے دلائل شروع بھی نہیں کیئے تھے کہ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس سے شریف خاندان پر لگے پاناما الزامات پر براہ راست سوال کرنے شروع کر دئیے- یوں لگ رہا تھا کہ وہ نہ صرف سزاؤں کو بحال کر کے شریف خاندان کو دوبارہ جیل بھیج رہے ہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اپیلوں کا حتمی فیصلہ بھی وہ اسی وقت سنا دیں گے- معاملہ صرف اتنا تھا کہ کیا ہائی کورٹ کی طرف سے سزاؤں کی عارضی معطلی اور دی گئی عارضی ضمانت کا کوئی ہلکا پھلکا سا قانونی جواز بنتا ھے؟ مگر چیف صاحب نے جذباتی انداز میں خواجہ حارث سے فواد چودھری کا پسندیدہ سوال پوچھ لیا کہ بتائیں لندن جائداد کس کی ھے۔ اس مرحلے پر جب اسلام آباد ہائی کورٹ اس سوال کے احتساب عدالت کے فیصلے میں تلاش کردہ جواب کی قانونی حیثیت کا جائزہ لی رہی ھے تو ایک چیف جسٹس کا سزاؤں کی محض عارضی معطلی کا جائزہ لیتے ہوئے ایسا براہ راست سوالکرنا از خود اس نام نہاد “فقہ قانون” کی عصمت دری سے کم نہیں- اس ساری شرمناک عدالتی سماعت کے بعد سینئیر وکلاُحضرات زیر لب مسگراتے باہر آئے تو اخلاقی بزدلی کا یہ عالم تھا کہ آف آ ریکارڈ تمام کاروائی پر افسوس کا اظہار کیا۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ یہ سب کچھ کھلی عدالت میں ملک کے نامور وکلا کی نظروں کے سامنے ہوتا رہا- فقہ قانون اور قانون کے نام پر انہی دونوں کے ساتھ جوکمرہ عدالت میں ہوا بڑے بڑے قانون دان اس پر خاموش تماشائی بنے رہے- حتی کہ خواجہ حارث جیسا وکیل بھی قانون کو قربان کر کے اپنی وکالت بچاتا نظر آیا- شاید بندر کے ہاتھ استرے سے اپنی گردن بچانا ہی فرض ہوتا ھے دوسروں کی نہیں۔چیف جسٹس کے پریس کانفرنس نما جارحانہ اور غیرُمناسب ریمارکس کی وجہ سب کو پتہ ھے- “واٹس ایپ گروپ” نے گزشتہ سویلین حکومت اور جمہوریت کا ایک سال سے زائد عرصہ جو سپریم کورٹ میں پاناما سلینڈل کے نام پر میڈیا ٹرائل کیا تھا اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک عارضی مگر دلائل سے بھرپور ضمانت کے فیصلے نے ہی اس کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی- گارڈ فادر اور سیسیلین مافیا جیسے القابات کے ذریعے سیاسی حکومت اور سیاست کو ذلیل کرنے والوں کے منہ پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک ذوردار طمانچہ ھے- لوگ پوچھتے ہیں کہ خلائی مخلوق اور عدالت عظمی پچھلے کئی سال سے مل کرایک منتخب حکومت اور ایک سیاسی جماعت کے احتساب کی جس دیگ کو ہلکی آنچ پر پکا رہے تھے اس میں سے کیوں کچھ نہیں نکلا؟
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان عوامی شکوک و شبہات کو اپنے یمارکس کے ذریعے رد کرنے کی ایک نحیف کوشش کی ہے- اور جب سارے میڈیا میں پاناما سکینڈل پر سپریم کورٹ کا اداراتی موقف ٹی وی ٹکروں اور ہیڈ لائنوں کی صورت چھپ گیا تو خواجہ حارث کا جوابی موقف اور جوابی ٹی وی ٹکر و ہیڈ لائنیں آنے سے پہلے ہی سماعت ملتوی کر دی گئی- آج اخبارات میں بھی سپریم کورٹ کا پاناما سکینڈل میں یکطرفہ اداراتی موقف چھپا ہے- نجانے کیوں معزز چیف جسٹس بستر مرگ (اللہ صحت دے) سے اٹھ کر شریف خاندان کا ہی کیس سننے سپریم کورٹ پہنچے- کیا ضروری ھے کہ پاناما کا کیس انکی ریٹائرمنٹ سے پہلے آخری حد یعنی نظر ثانی تک مخصوص حتمی فیصلے کی بھینٹ ہی چڑے؟ یوں لگتا ھے کہ شریف خاندان کی ضمانت منسوخ نہ بھی ہوئی تو تو اسلام ہائی کورٹ کو اصل اپیلوں کا فیصلہ مخصوص وقت سے پہلے کرنے کا کہا جائے گا جسکی کوئی ہائی کورٹ قانونا پابند نہیں ہوتی- جو نئی “فقہ قانون” جنم لے رہی ھے تو یہ بھی بعید نہیں کہ اگر مخصوص وقت سے پہلے اصل اسلام آباد ہائی کورٹ کی اپیلوں کا فیصلہ نہ ہوا تو اسکے بعد شریف خاندان کی ضمانت کو منسوخ تصور کیا جائے- بظاہر اٹھاراں جنوری سے پہلے نیب یا شریف خاندان کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل (دس دنوں میں) دائر کرنا اور اسکا چیف جسٹس کی عدالت میں ہی سماعت و فیصلہ ہونا ضروری دکھائی دے رہا ھے- سپریم کورٹ کے تاریخی پاناما ٹرائل یا میڈیا ٹرائل اور فیصلوں کی عزت جو داؤ پر لگی ھے- اور چیف جسٹس ریٹائر ہو گئے تو جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجازالحسن ویسے ہی وہ اپیلیں نہیں سن سکتے اور اگر چیف صاحب بھی ریٹائر ہو گئے تو معاملہ غیر یقینی صورت حال اختیار کر سکتا ہے- جب تک نظر ثانی کو مرحلہ باقی رہے گا تب تک ن لیگ کی سانسیں برقرار رہیں گی- اقامہ کو ہتھیار شاید ایسی ہی غیر یقینی صورت حال سے بچنے کیلیئے بروقت استعمال کر لیا گیا تھا- جو بھی ایک چیف کے ریٹائر ہونے سے کوئی زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا- مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ فرق تو شاید دوسرے چیف کی ریٹائرمنٹ سے بھی نہیں پڑتا-عدل قبل از ریٹائرمنٹتحریر: مطیع اللہ جان جی ہاں بے شرمی اور اخلاقی بزدلی ہمارا قومی اثاثہ بنتی جا رہی ھے- منگل کو…
Posted by Matiullah Jan on Tuesday, November 6, 2018
- This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
- local_florist 2 thumb_up 6
- local_florist GeoG, JMP thanked this post
- thumb_up Bawa, Jack Sparrow, صحرائی, Muhammad Hafeez, shami11, Atif Qazi liked this post
7 Nov, 2018 at 1:09 pm #2باوا جی .. مطیع اللہ جان نے اصل منصوبے کی طرف بلک ٹھیک نشاندہی کی ہے کہ بابا رحمتہ بستر مرگ سے اٹھ کر بھی یہ کیس سننے کیوں آیا ہے .. یہ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے پہلے سزاؤں کی اپیل پر بھی فیصلے دینے تک چیف جسٹس رہنا چاہتا ہے تا کہ شریف خاندان کے لئے کوئی اور راستہ باقی نہ بچے .. سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز جیسے مدبر جج موجود ہیں اور فیصلوں کی اپیل پر وہ جج حضرات جنہوں نے بابے کے ساتھ بیٹھ کر بغض سے بھرے فیصلے دیے دوبارہ اپیل نہیں سن سکتے .. صریح طور پر دوسرے ججز حضرات اپیلیں سنیں گے اور اگر اس بینچ میں جسٹس فائز موجود ہوئے تو نیب اور بابے کی وہ پتلون اترنی ہے کہ انشاء الله دنیا دیکھے گی .. سارا کیس ہی یہ ہے کہ یہ بغض سے بھرا شخص شریف خاندان سے اپنی نفرت کے عیوض انصاف کے قتل کرنے پر تلا ہوا ہے ..- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
- thumb_up 7
- thumb_up Bawa, GeoG, Jack Sparrow, صحرائی, Muhammad Hafeez, shami11, Atif Qazi liked this post
7 Nov, 2018 at 1:35 pm #3نعیم بھائی جیمجھے تو اسی وقت پتہ چل گیا تھا جب اس نے کیس اپنی سربراہی میں سننے کا فیصلہ کیا تھا
یہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش کر رہا ہے اور ایسے لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد سڑکوں پر کتے کی موت مرے پڑے ہوتے ہیں
- thumb_up 5
- thumb_up Malik495, GeoG, صحرائی, Muhammad Hafeez, Atif Qazi liked this post
7 Nov, 2018 at 1:38 pm #4یہ وہی چ جسٹس ہے جس کے بیوی بچے سپریم کورٹ کی گیلری میں بیٹھے خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے جب اس نے عمران خان کو صادق اور امین کا سرٹیفیکیٹ دیا تھااسکی فیملی کو پہلے ہی پتہ تھا کہ چ جسٹس آج کیا فیصلہ دینے جا رہا ہے
7 Nov, 2018 at 1:42 pm #5آج کی کاروائی پر شکریہ ادا کرنے والے پہنچ گئے ہیں
اگر نواز شریف کی حکومت میں کوئی وزیر اسکے گھر جاتا تو یہ سپریم کورٹ میں بیٹھکر پورا زور لگا کر پاگل کتے کی طرح بھونکتا
فیصل واوڈا کی چیف جسٹس ثاقب نثار کے گھر آمد،عیادت کی اور گلدستہ بھی پیش کیاhttps://t.co/O9Hk91B80o#FaisalVawda #ChiefJustice #SaqibNisar #House @FaisalVawdaPTI @PTIofficial @pid_gov @MoIB_Official pic.twitter.com/Bm5HtJOdod
— Daily Nawa-i-Waqt (@Nawaiwaqt_) November 7, 2018
7 Nov, 2018 at 1:45 pm #6کیا احتساب عدالت کے فیصلے مفروضوں پر ہوتے ہیں؟؟کیا سپریم کورٹ اثاثے کی تعریف انٹرنیٹ سے ڈھونڈ کر نااہل کرتی ہے؟؟کیا گوگل کرکے فیصلے دیے جاتے ہیں؟؟کیا نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیتے ہو آٹھ سو صفحات لکھے جاتے ہیں؟؟کیا ایک خاندان کے خلاف کیسز پر نگران جج تعینات کیے جاتے ہیں؟؟ https://t.co/85ovh1m8D6
— Zeeshan Khan Niazi (@niyazee26) November 6, 2018
7 Nov, 2018 at 1:47 pm #7نوازشریف کو ضمانت نہیں دوں گا
ثاقب نثار
سر آپ قوانین کے مطابق فیصلہ کریں
خواجہ حارث
قوانین وہ ھے جو میرا دل کرے
ثاقب نثار— Mian javed Latif MNA (@javedlatifMNA) November 6, 2018
7 Nov, 2018 at 2:11 pm #8دراصل نواز اور مریم اسٹبلشمنٹ کا این آر او قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیںاسٹبلشمنٹ نے اپنا پتا شو کیا ہے اگر ہمارا معاہدہ نہیں مانا تو اپنا پاگل کتا تم پر چھوڑ دیں گے
7 Nov, 2018 at 2:25 pm #9آج میں نے دوبارہ ستر سالہ پٹواری کو چھیڑا کہ لگدا اے ایہہ ایناں نوں فیر تن دیں گے
.
پٹواری جی تڑپ کر بولے ایڈھے ایہہ چنگے نیں تے زرداری نوں کیوں نئی پھڑدے
.
ایک حقیقت ہے کہ پٹواری چاہے جس مرضی قسم کا ہو اس کی نون لیگ سے محبت ایک جیسی ہوتی ہے- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
7 Nov, 2018 at 3:23 pm #11ثاقب نثار کا کت خانہ بند ہونے والا ہے دو مہینے تک ، تب تک عوام اناس اپنے آپ کو اس کی پہنچ سے دور رکھے
احتیاطی تدابیر کی صورت اپنے آپ کو تحریک لبیک کا کارکن شو کریں
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
- mood 7
- mood Jack Sparrow, GeoG, brethawk, Muhammad Hafeez, PML-N, Malik495, Atif Qazi react this post
7 Nov, 2018 at 4:30 pm #13آج میں نے دوبارہ ستر سالہ پٹواری کو چھیڑا کہ لگدا اے ایہہ ایناں نوں فیر تن دیں گے . پٹواری جی تڑپ کر بولے ایڈھے ایہہ چنگے نیں تے زرداری نوں کیوں نئی پھڑدے . ایک حقیقت ہے کہ پٹواری چاہے جس مرضی قسم کا ہو اس کی نون لیگ سے محبت ایک جیسی ہوتی ہےشاہ جی او کوئی چنگا پٹواری ہونا اے – نیی تے سوال تے ے بندا سی کہ حرامدی اولاد والے نوں پیر منن والے کیرے گناواں سی سزا بھگتن ڈے نیں
7 Nov, 2018 at 4:38 pm #14آج میں نے دوبارہ ستر سالہ پٹواری کو چھیڑا کہ لگدا اے ایہہ ایناں نوں فیر تن دیں گے . پٹواری جی تڑپ کر بولے ایڈھے ایہہ چنگے نیں تے زرداری نوں کیوں نئی پھڑدے . ایک حقیقت ہے کہ پٹواری چاہے جس مرضی قسم کا ہو اس کی نون لیگ سے محبت ایک جیسی ہوتی ہےاس جج کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے ، جس کے سامنے لگے کیس کی پہلی پیشی پر ہی بچے بچے تک کو اندازہ ہوجائے کہ یہ کیا فیصلہ دے گا
7 Nov, 2018 at 4:39 pm #15ثاقب نثار کا کت خانہ بند ہونے والا ہے دو مہینے تک ، تب تک عوام اناس اپنے آپ کو اس کی پہنچ سے دور رکھے
احتیاطی تدابیر کی صورت اپنے آپ کو تحریک لبیک کا کارکن شو کریں
7 Nov, 2018 at 4:42 pm #16ثاقب نثار کا کت خانہ بند ہونے والا ہے دو مہینے تک ، تب تک عوام اناس اپنے آپ کو اس کی پہنچ سے دور رکھے
احتیاطی تدابیر کی صورت اپنے آپ کو تحریک لبیک کا کارکن شو کریں
ہنوز دلی دور است
اُس سے قبل یہ آل شریف کا پکا بندوبست کر جائے گا۔
بھٹو کی پھانسی اور شرفو کو تین سال کا چیف ایڈمنسٹریٹر کے فیصلےکی بعد جوڈیشری کے ماتھے پر اک اور جھومر لٹکا کر جائے گا۔
7 Nov, 2018 at 4:45 pm #17شاہ جی او کوئی چنگا پٹواری ہونا اے – نیی تے سوال تے ے بندا سی کہ حرامدی اولاد والے نوں پیر منن والے کیرے گناواں سی سزا بھگتن ڈے نیںاس نے پوچھا تھا میں نے کہا لاؤ چار گواہ ! اور وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا
.7 Nov, 2018 at 4:48 pm #18اس جج کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے ، جس کے سامنے لگے کیس کی پہلی پیشی پر ہی بچے بچے تک کو اندازہ ہوجائے کہ یہ کیا فیصلہ دے گاماتم تو وہ کریں جن کا نواز شریف کے حرام مال میں کچھ حصہ ہے
.
اب بھی وقت ہے نواز شریف کے حرام مال کا دفاع کرنا چھوڑ دو- mood 1
- mood Muhammad Hafeez react this post
7 Nov, 2018 at 5:05 pm #19اس نے پوچھا تھا میں نے کہا لاؤ چار گواہ ! اور وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا .شاہ جی نکل آؤ پتھر دے زمانے توں اک آدھا اپنے سر وچ مار کے
اے جیرے عمران نوں ہفتہ پیلے پھانسی ہوئی اے – اودھے چار گواہ مل گیے سن ؟؟
- thumb_up 3
- thumb_up Atif Qazi, صحرائی, Muhammad Hafeez liked this post
7 Nov, 2018 at 5:53 pm #20شاہ جی نکل آؤ پتھر دے زمانے توں اک آدھا اپنے سر وچ مار کےبھا جی ! اسی مسلمان ای چنگے
اے جیرے عمران نوں ہفتہ پیلے پھانسی ہوئی اے – اودھے چار گواہ مل گیے سن ؟؟
ایہہ مسلمان ملک دا اندرونی معملا اے ، ذہن تے زیادہ زور نہ پاؤ . پاکستان دی عدالتے جاؤ جے ہمت اے جے
.
مزید ایک بات کا خیال رکھا کریں کہ اگر قیامت ، ثواب ، عذاب وغیرہ کی بات چھیڑیں تو پھر اپنے مغربی قوانین کا ذکر نہ کیا کریں -
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.