Viewing 3 posts - 1 through 3 (of 3 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ ’لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ کی اتھارٹی کی مدت ختم ہو گئی ہے لیکن وہ آج بھی میرے لیے بہت کار آمد ثابت ہو رہے ہیں۔ میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں جس طرح وہ آج بھی ہماری مدد کررہے ہیں۔
    بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیر نے سی پیک اتھارٹی اور گلگت بلتستان کے انتخاب کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی۔
    وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ ’لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ کی اتھارٹی کی مدت ختم ہو گئی ہے لیکن وہ آج بھی میرے لیے بہت کار آمد ثابت ہو رہے ہیں۔ میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں جس طرح وہ آج بھی ہماری مدد کررہے ہیں۔
    بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں اسد عمر نے کہا کہ ’تاحال عاصم باجوہ کو نہ تو کوئی معاوضہ مل رہا ہے اور نہ ہی وہ کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اور امید یہ ہے کہ جس وقت یہ (سی پیک) بِل پاس ہو جائے گا اور دوبارہ اتھارٹی بن جائے گی، تو کم از کم میری تو چوائس یہی ہو گی۔
    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب تک کی کارکردگی کی بنیاد پر عاصم باجوہ ایک نہایت ہی عمدہ امیدوار ثابت ہوں گے۔
    یاد رہے اس سے قبل ستمبر میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات کے عہدے سے استعفی دے دیا تھا جس کو وزیرِ اعظم نے قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر 12 اکتوبر کو لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ نے دوبارہ اس عہدے سے استعفی دیا جس کو قبول کر لیا گیا تھا۔
    جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری اتھارٹی کے چییرمین کے طور پر انھوں نے کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے عہدے کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بارہا چیلنج کیا ہے۔
    عاصم باجوہ کا یہ فیصلہ صحافی احمد نورانی کی اگست میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ان پر مبینہ طور پر دنیا بھر میں مختلف اثاثوں کے بارے میں تفصیلات ظاہر نہ کرنے کے الزامات کے بعد سامنے آیا۔ جس پر عاصم باجوہ نے وضاحت دیتے ہوئے ان الزامات کی تفصیلی تردید بھی کی۔
    اس بارے میں وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ ’پہلے تو سیاست میں ایسا کوئی شخص نہیں بچا جس پر الزامات نہ لگے ہوں۔ ان پر لگائے گئے الزامات کا تعلق سی پیک سے نہیں ہے۔ انھوں نے تمام تر الزامات کے جواب دیے ہیں۔ میں اس میں نہیں جانا چاہوں گا کہ یہ الزامات صحیح ہیں یا نہیں، لیکن عاصم باجوہ نے ان کے جواب دیے ہیں۔

    سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین کون ہے؟

    اگر دو روز پیچھے جائیں تو قومی اسمبلی کے ایک پارلیمانی پینل نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے منسلک وزارت برائے منصوبہ بندی سے اس اتھارٹی کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے۔ اس بریفنگ کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ تاحال سی پیک اتھارٹی کا کوئی چیئرمین نہیں ہے۔
    جبکہ اسی سے منسلک ترمیمی بِل (چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور امینڈمنٹ بِل 2020) کو اس وقت تک ملتوی کر دیا ہے جب تک حکومت سی پیک اتھارٹی کی قانونی حیثیت کو واضح طور پر بیان نہ کر دے۔
    اس بارے میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ ’میں پہلے تو یہ وضاحت کردوں کہ سی پیک کا کام نہیں رکا ہے۔ سی پیک کے کام کی ذمہ داری میرے پاس تھی، ہے اور رہے گی۔ سی پیک اتھارٹی ہو یا نہ ہو کام چل رہا ہے اور اس میں پہلے سے اور تیزی آئی ہے۔
    انھوں نے مزید کہا کہ ’سی پیک آرڈیننس کی مدت ختم ہو گئی تھی۔ اور ایک نئے بِل پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ لیکن ایک ترمیمی مسودے پر اب بھی بحث جاری ہے۔ میری سمجھ یہ ہے کہ اگلی بریفنگ تک قائمہ کمیٹی اس بِل کو ترامیم کرنے کے بعد پاس کر دے گی۔ جس کے بعد وہ اسمبلی میں ووٹ کرنے کے لیے لایا جائے گا۔
    سی پیک اتھارٹی ٹیم کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’یہ وزارتِ منصوبہ بندی کا پراجیکٹ ہے جس کے تحت سی پیک کی ٹیم بنی تھی۔ وہ ہی ٹیم کام کر رہی ہے۔ تو اس ٹیم کی فنڈنگ وزارت برائے منصوبہ بندی سے آتی ہے اس کا سی پیک سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سی پیک اتھارٹی ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ ٹیم پہلے سے اپنی جگہ موجود ہے۔
    یاد رہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کے آتے ہی سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے ذریعے سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل کو معینہ مدت میں یقینی بنایا جا سکے۔ اس اتھارٹی کا بنیادی کام فیسلیٹیشن، کوآرڈینیشن اور مانیٹرنگ ہے۔
    واضح رہے کہ چین کے ساتھ پاکستان نے سی پیک معاہدہ مسلم لیگ نواز کی گزشتہ دورِ حکومت میں کیا تھا۔ مگر سی پیک اتھارٹی جیسے ادارے کو ان معاہدوں کی نگرانی نہیں دی گئی تھی۔ تاہم اس آرڈیننس کی مدت پوری ہونے کے بعد اب اس اتھارٹی کو قانونی جواز بخشنے کے لیے موجودہ حکومت قانون سازی کر رہی ہے۔

    گلگت بلتستان کا انتخاب

    گلگت بلتستان کے انتخاب کے بارے میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس کو اگلے عام انتخابات کی بنیاد کہنا مناسب نہیں ہو گا۔’ یہ تو اس کے زیادہ معنی نکالنے والی بات ہو جائے گی۔ گلگت بلتستان کا انتخاب ایک اہم الیکشن ہے اور ہر پارٹی کی خواہش ہے کہ وہاں سے بہتر نتیجہ آئے۔ لیکن اس کو یہ کہنا کہ یہ اگلے عام انتخابات کی بنیاد بنے گا میرے خیال میں یہ مناسب نہیں ہو گا۔
    یاد رہے کہ پاکستان کے شمالی خطے گلگت بلتستان میں 15 نومبر کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں گلگت بلتستان کے عوام ان انتخابات کے ذریعے مقامی نمائندوں کو اقتدار میں لانے کے خواہش مند ہیں تاکہ علاقے کی صحیح معنوں میں نمائندگی ہو سکے۔
    اسی دوڑ میں پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔
    حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جماعت کی انتخابی مہم کا آغاز ا سکردو سے کیا اور وہ اب تک کئی دیگر اضلاع اور شہروں میں جا چکے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف بھی گذشتہ چند دنوں سے اس خطے میں انتخابی مہم کے لیے موجود ہیں۔
    بی بی سی کو دیے گئے حالیہ انٹرویوز میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے کارکنان کو توڑنے کی اور گلگت بلتستان انتخابات میں دھاندلی کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

    سیاسی اتحاد اور خواتین ووٹر

    ان انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سیاسی اتحاد پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہمارا بنیادی اتحاد تو مذہبی جماعت بین المسلمین کے ساتھ تھا۔ خطے کی 22 نشستوں کے لیے ہمارے امیدوار انتخاب لڑیں گے جبکہ دو نشتوں سے بین المسلمین کے امیدوار میدان میں اترے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ آزاد امیدواروں کے ساتھ بھی بات چیت ہوئی ہے۔ باقی کسی بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ تو اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
    جبکہ دوسری جانب انھوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ سروے میں پاکستان تحریکِ انصاف انتخابی مہم دیگر سیاسی جماعتوں سے کافی آگے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’تو ہمیں امید ہے کہ اچھی خبر آئے گی۔
    انتخابات کے دوران ایک بات یہ بھی سننے میں آئی کہ گلگت بلتستان ضلع تانگیر میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ان خواتین کے تحفظ اور انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے متعلق وفاقی حکومت کیا کررہی ہے؟
    اس سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ ’یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ تو جو بھی روک رہا ہے وہ غیر قانونی اور غیر آئینی بات کر رہا ہے۔ اور اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54931864

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    یہ بھی درست ہے کہ پاکستان میں میگا پراجیکٹس فوج کی مدد کے بغیر مکمل نہیں ہوپاتے یا پھر ان کے پیچھے شہباز شریف جیسا بندہ ہو
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    یہ بھی درست ہے کہ پاکستان میں میگا پراجیکٹس فوج کی مدد کے بغیر مکمل نہیں ہوپاتے یا پھر ان کے پیچھے شہباز شریف جیسا بندہ ہو

    میری ۲۵ ارب کی ٹی ٹیاں لگ رہی ہوں تو میں تو ہر چک اور گاؤں میں بھی انڈر پاس اور موٹر وے بنوا دوں اور روزانہ لمبے بوٹ پہن کر ان پنڈوں کے چھپڑوں میں پھرتا نظر آؤں۔ میرے کونسا ابا کے پیسے لگنے تھے۔ شہباز شریف تو پبلک ٹائلٹس اور سکینگ مشین والے کمروں پر اپنی تصویریں لگاتا تھا جبکہ میں تو پنجاب کے ہر درخت سے اپنی تصویرلٹکواؤں۔ کوئی سمجھ آئی یا رضا سے کہوں کہ سمجھائے؟

Viewing 3 posts - 1 through 3 (of 3 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi