Viewing 20 posts - 1,581 through 1,600 (of 4,005 total)
  • Author
    Posts
  • نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #637

    انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

    اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

    شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا

    پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا

    اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا

    اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا

    اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا

    جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے

    دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا

    بہت دفعہ  لگانا چاہا ..جانے کیا چیز روک دیتی تھی.https://www.youtube.com/watch?v=I1roLYDDUAw

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #638

    کیا عشق تھا جو باعث رسوائی بن گیایارو تمام شہر تماشائی بن گیا

    بن مانگے مل گئے مری آنکھوں کو رت جگےمیں جب سے ایک چاند کا شیدائی بن گیا

    دیکھا جو اس کا دست حنائی قریب سےاحساس گونجتی ہوئی شہنائی بن گیا

    برہم ہوا تھا میری کسی بات پر کوئیوہ حادثہ ہی وجہ شناسائی بن گیا

    پایا نہ جب کسی میں بھی آوارگی کا شوقصحرا سمٹ کے گوشۂ تنہائی بن گیا

    تھا بے قرار وہ مرے آنے سے پیشتردیکھا مجھے تو پیکر دانائی بن گیا

    کرتا رہا جو روز مجھے اس سے بدگماںوہ شخص بھی اب اس کا تمنائی بن گیا

    وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔپھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا

    قتیل شفائی صاحب

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #639

    میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتانئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا

    نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائےنئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا

    وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مراکسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا

    وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھےکہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا

    جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوںیہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا

    کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میںتمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا

    کیفی اعظمی صاحب

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #640

    رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

    کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ

    پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ

    کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

    اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ

    اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ

    مرحوم احمد فراز صاحب

    https://www.youtube.com/watch?v=wRG2XJcmhDc

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #641
    بہت دفعہ لگانا چاہا ..جانے کیا چیز روک دیتی تھی .

    جانے کیا

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #642

    عمر گزرے گی امتحان میں کیاداغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

    میری ہر بات بے اثر ہی رہینقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

    مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیںیہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

    اپنی محرومیاں چھپاتے ہیںہم غریبوں کی آن بان میں کیا

    خود کو جانا جدا زمانے سے آ گیا تھا مرے گمان میں کیا

    شام ہی سے دکان دید ہے بندنہیں نقصان تک دکان میں کیا

    اے مرے صبح و شام دل کی شفقتو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میںآبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیاآ رہا ہے مرے گمان میں کیا

    دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہتخود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا

    وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھےاب بھی ہوں میں تری امان میں کیا

    یوں جو تکتا ہے آسمان کو توکوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

    ہے نسیم بہار گرد آلودخاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا

    یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا 

    جون ایلا صاحب

    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #643
    ہم کس سے کہیں اے جان وفاکچھ ایسے گھاؤ بھی ہوتے ہیں جنھیں زخمی آپ نہیں دھوتےبن روئے آنسو کی طرح سینے میں چھپا کر رکھتے ہیںاور ساری عمر نہیں روتےنیندیں بھی مہیا ہوتی ہیں ، سپنے بھی دور نہیں ہوتےکیوں پھر بھی جاگتے رہتے ہیں ، کیوں ساری رات نہیں سوتےاب کس سے کہیں اے جان وفا ، یہ اہل وفاکس آگ میں جلتے رہتے ہیں ، کیوں بجھ کر راکھ نہیں ہوتےامجد اسلام امجد
    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #644
    جانے کیا

    نہیں جانتی

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #645

    نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیےوہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

    جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئیان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے

    وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے 

    اب شہر میں اس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیںایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے

    مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضاان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے

    ناصر کاظمی صاحب

    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #645

    عمر گزرے گی امتحان میں کیا داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

    میری ہر بات بے اثر ہی رہی نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

    مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

    اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں ہم غریبوں کی آن بان میں کیا

    خود کو جانا جدا زمانے سے آ گیا تھا مرے گمان میں کیا

    شام ہی سے دکان دید ہے بند نہیں نقصان تک دکان میں کیا

    اے مرے صبح و شام دل کی شفق تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا آ رہا ہے مرے گمان میں کیا

    دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا

    وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا

    یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

    ہے نسیم بہار گرد آلود خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا

    یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

    جون ایلا صاحب

    میری ہر بات بے اثر ہی رہینقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #647
    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #648

    او میرے مصروف خدااپنی دنیا دیکھ ذرا

    اتنی خلقت کے ہوتےشہروں میں ہے سناٹا

    جھونپڑی والوں کی تقدیربجھا بجھا سا ایک دیا

    خاک اڑاتے ہیں دن راتمیلوں پھیل گئے صحرا

    زاغ و زغن کی چیخوں سےسونا جنگل گونج اٹھا

    سورج سر پہ آ پہنچاگرمی ہے یا روز جزا

    پیاسی دھرتی جلتی ہےسوکھ گئے بہتے دریا

    فصلیں جل کر راکھ ہوئیںنگری نگری کال پڑا

    ناصر کاظمی صاحب

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #649

    س کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگاوہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا

    اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا

    پیاس جس نہر سے ٹکرائی وہ بنجر نکلیجس کو پیچھے کہیں چھوڑ آئے وہ دریا ہوگا

    مرے بارے میں کوئی رائے تو ہوگی اس کیاس نے مجھ کو بھی کبھی توڑ کے دیکھا ہوگا

    ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریکجس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا

    ندا فاضلی صاحب

    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #650

    س کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا

    اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا

    پیاس جس نہر سے ٹکرائی وہ بنجر نکلی جس کو پیچھے کہیں چھوڑ آئے وہ دریا ہوگا

    مرے بارے میں کوئی رائے تو ہوگی اس کی اس نے مجھ کو بھی کبھی توڑ کے دیکھا ہوگا

    ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا

    ندا فاضلی صاحب

    ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریکجس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #829
    ایک خوبصورت غزلhttps://youtu.be/OlKHB8ExZo8
    Musician
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #651
    Nadaan aur JMPبہت خوب، بہت خوبآپ دوںوں نے آج  صحیح  معنوں میں شعر  و نغمہ کی محفل سجائی ہےکیا ذوق ہے !
    Musician
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #652
    ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا

    ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہےاپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملاhttps://www.youtube.com/watch?v=8_Oz4zwK11A

    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #653
    اب کہ سفر اور تھا ، اور ہی کچھ سراب تھےدشت طلب میں جا بجا ، سنگ گراں خواب تھےاب کے برس بہار  کی ، رت  بھی تھی انتظار کیلہجوں میں سیل درد تھا ، آنکھوں میں اضطراب تھےخوابوں کے چاند  ڈھل  گئے ، تاروں کے دم نکل گئےپھولوں کے ہاتھ جل گئے ، کیسے یہ آفتاب تھےسیل کی رہگزر ہوئے ، ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئےکیسی عجیب پیاس تھی ، کیسے عجب سحاب تھےعمر اسی تضاد میں  ،  رزق غبار ہو گئیجسم تھا اور عذاب تھے ، آنکھیں تھیں اور خواب تھےصبح ہوئی تو شہر کے ، شور میں یوں بکھر گئےجیسے وہ آدمی نہ تھے ، نقش و نگار آب  تھےآنکھوں میں خون بھر گئے ، رستوں میں ہی بکھر گئےآنے سے قبل مر گئے  ،  ایسے بھی انقلاب تھےساتھ وہ ایک رات کا ، چشم زدن کی بات تھیپھر نہ وہ التفات تھا  ،  پھر نہ وہ اجتناب تھےربط کی بات اور ہے ، ضبط کی بات اور ہےیہ جو فشار خاک ہے ، اس میں کبھی گلاب تھےابر برس کے کھل گئے ، جی کے غبار دھل گئےآنکھ میں رونما ہوئے ، شہر جو زیر آب  تھے
    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #654
    Musician
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #655

    آنکھ میں رونما ہوئے ، شہر جو زیر آب  تھےاور دوسری طرف یہ ہےہاں میری آنکھ نم نہیںجب بھی سنا آنکھ ہمیشہ نم ہوئیموت اگرچے موت ہےموت سے زیست کم نہیںhttps://www.youtube.com/watch?v=H9xaqON0sXE

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
Viewing 20 posts - 1,581 through 1,600 (of 4,005 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi