• This topic has 74 replies, 14 voices, and was last updated 4 years ago by Qarar.
Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 75 total)
  • Author
    Posts
  • Qarar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1
    سٹاک ہوم سنڈروم
    عالی مرتبت جناب اوریا مقبول جان کا ایک ٹویٹ پڑھنے کا موقع ملا جس میں جناب یہ فرماتے ہیں

    اوریا مقبول واحد انسان نہیں جو یہ سوچ رکھتا ہے پاکستان میں اور اس فورم پر بھی کافی پونہچی ہوئی ہستیاں یہ راۓ رکھتی ہیں کہ کرونا وائرس اللہ کا عذاب ہے جوکہ منکرین پر آیا ہے اور مسلمان اپنی نافرمانی کی وجہ سے اس کا نشانہ بن گئے ہیں اور یہ کہ انسان اپنی تمام تر ترقی کے باوجود الله کے معمولی سے جرثومے کے سامنے بے بس ہے

    میں ایک مثال استعمال کرتا ہوں ..فرض کیا کسی کا بیٹا ایک معمولی سی لڑائی میں قتل ہوجاتا ہے …اگر باپ کے سامنے قاتل کو لایا جاۓ تو وہ قاتل سے شدید نفرت کا اظہار کریں گے اور اسے پھانسی پر لٹکانے کا بھی مطالبہ کریں گے

    اب غور کیا جاۓ تو جس ماں کے بیٹا یا شوہر اس وائرس کی نظر ہوگیا ..یا کسی کا بھائی بہن ماں باپ اس دنیا سے چلے گئے ..اگر اس شخص کو یہ پتا چلے کہ اس کی پیاری ھستیوں کو اس دنیا سے رخصت کرنے میں اللہ کا بابرکت ہاتھ ہے تو انسانی رویہ یکسر مختلف ہوتا ہے …اللہ سے متنفر ہونا تو درکنار انسان مزید اللہ کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے …مزید نمازیں پڑھتا ہے ..روزے رکھتا ہے ..اپنے پچھڑنے والوں کی مغفرت کی دعائیں مانگتا ہے وغیرہ وغیرہ .. ایسا کیوں؟

    انیس سو تہتر میں سٹاک ہوم سنڈروم کی اصطلاح وجود میں آئی …سٹاک ہوم سویڈن میں …چار انسان ایک بینک ڈکیتی کے دوران یرغمال بنا لیے جاتے ہیں ..وہ مغوی رہا ہونے کے بعد ان ڈاکوؤں کے خلاف گواہ بننے سے نا صرف انکار کردیتے ہیں بلکہ میڈیا پر ان کا بھرپور دفاع کرتے بھی پائے جاتے ہیں
    سٹاک ہوم سنڈروم ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں مغوی ہوں یا ریپ کا شکار عورتیں ..وہ تمام لوگ اغوا کرنے والوں یا ریپ کرنے والوں کے لیے دل میں نرم گوشہ پیدا کرلیتے ہیں اور اکثر کے دل میں ظالم کے لیے پیار کا جذبہ بھی پیدا ہوجاتا ہے

    امریکی ایف بی ائی کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً آٹھ فیصد مظلوم افراد میں یہ رجحان پایا جاتا ہے ..لیکن ایسا محسوں نہیں ہوتا کہ پاکستان اور مسلم  دنیا میں شاید اٹھانوے فیصد اس موزی مرض کا شکار ہیں؟

    امریکا میں الله کے منکروں کی تعداد تقریباً دس فیصد ہے ..باقی یا تو چرچ مسجد یا کسی اور عبادت گاہ جاتے ہیں یا اللہ کے وجود کو مانتے ہیں …اٹلی کو دیکھ لیں …سارا ملک بند ہے حالانکہ پوپ کا ہیڈ کوارٹر روم میں ہے …اور کچھ سال پہلے میں اٹلی کی سیر کو گیا تو پوپ کا خطاب سننے کا موقع ملا ..کیا دنیا ہی  دنیا اس میدان  میں جمع تھی …اور تمام کے تمام توحید کے پیروکار (صرف پغمبر کا ہی فرق ہے) تو پھر کیا وجہ کہ منکرین کو سزا دینے کے لیے ..جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں …توحید کے پیروکاروں کا بھی صفایا کیا جارہا ہے؟

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    Qarar

    قرار جی

    چول نامہ پوسٹ کرنے کا بہت بہت شکریہ

    :bigsmile:

    امید ہے اب باقائدگی سے آپ کے چول نامے پڑھنے کو ملتے رہیں گے

    :lol: :hilar:

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    بہت سارے معاملات میں مذہب خاموش ہے اور بہت سارے سوالوں کے جواب میں الحاد کے پاس کوئی جواب نہیں، جیسے ملحدین کیلئے مذہب پرست لوگ قابل رحم ہیں اسی طرح مذہب پرست ملحدین کو قابل نفرت(قابلِ گردن زدنی ) سمجھتے ہیں۔

    میرے خیال میں خدا کی مرضی والا معاملہ سٹاک ہوم سنڈروم نہیں کہا جاسکتا ، ہوش سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں جب خدا کو خالق مان لیا تو اپنے کسی پیارے کے بچھڑ جانے کو کوئی سزا نہیں سمجھتا ۔

    ویسے قرار صاحب اس سینڈروم کا کوئی علاج بھی ہے یا یہ بھی کوئی قدیم کرونا ہی ہے؟؟

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    بہت سارے معاملات میں مذہب خاموش ہے اور بہت سارے سوالوں کے جواب میں الحاد کے پاس کوئی جواب نہیں، جیسے ملحدین کیلئے مذہب پرست لوگ قابل رحم ہیں اسی طرح مذہب پرست ملحدین کو قابل نفرت(قابلِ گردن زدنی ) سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں خدا کی مرضی والا معاملہ سٹاک ہوم سنڈروم نہیں کہا جاسکتا ، ہوش سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں جب خدا کو خالق مان لیا تو اپنے کسی پیارے کے بچھڑ جانے کو کوئی سزا نہیں سمجھتا ۔ ویسے قرار صاحب اس سینڈروم کا کوئی علاج بھی ہے یا یہ بھی کوئی قدیم کرونا ہی ہے؟؟

    عاطف بھائی

    مذہب پرست ملحدین کو قابل نفرت یا قابلِ گردن زدنی نہیں بلکہ قابل ترس سمجھتے ہیں

    بیچاروں کی ساری عمر مذھب اور خدا کے خلاف بکتے گزر جاتی ہے لیکن کسی ایک مسلمان کو بھی اس کے راستے سے بھٹکا نہیں سکے ہیں

    میں خود دس پندرہ سالوں سے انہی دو تین ملحدوں کو رنڈی رونا روتے سنتا آ رہا ہے لیکن اس عرصے میں ان میں ایک بھی نئے ملحد کا اضافہ نہیں ہوا ہے

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Qarar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #5
    بہت سارے معاملات میں مذہب خاموش ہے اور بہت سارے سوالوں کے جواب میں الحاد کے پاس کوئی جواب نہیں، جیسے ملحدین کیلئے مذہب پرست لوگ قابل رحم ہیں اسی طرح مذہب پرست ملحدین کو قابل نفرت(قابلِ گردن زدنی ) سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں خدا کی مرضی والا معاملہ سٹاک ہوم سنڈروم نہیں کہا جاسکتا ، ہوش سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں جب خدا کو خالق مان لیا تو اپنے کسی پیارے کے بچھڑ جانے کو کوئی سزا نہیں سمجھتا ۔ ویسے قرار صاحب اس سینڈروم کا کوئی علاج بھی ہے یا یہ بھی کوئی قدیم کرونا ہی ہے؟؟

    جناب بیماری بلکل قابل علاج ہے …صرف بالائی منزل کی کھڑکیاں اور روشن دان کھولنے پڑتے ہیں

    :bigthumb:

    Qarar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #6
    عاطف بھائی مذہب پرست ملحدین کو قابل نفرت یا قابلِ گردن زدنی نہیں بلکہ قابل ترس سمجھتے ہیں بیچاروں کی ساری عمر مذھب اور خدا کے خلاف بکتے گزر جاتی ہے لیکن کسی ایک مسلمان کو بھی اس کے راستے سے بھٹکا نہیں سکے ہیں میں خود دس پندرہ سالوں سے انہی دو تین ملحدوں کو رنڈی رونا روتے سنتا آ رہا ہے لیکن اس عرصے میں ان میں ایک بھی نئے ملحد کا اضافہ نہیں ہوا ہے

    عزت مآب باوا جی …ملا کی دوڑ مسجد تک …جب میں ایک کلٹ سے نکل آیا تو پھر انہی کی طرح تبلیغ کرکے انہی کی طرح بننے کا کیا فائدہ

    آپ ستر سال کے ہوکر بھی جھنجنوں سے کھیلتے رہیں مجھے کیا اعتراض ہے

    بلیک شیپ نے آپ کے بارے میں لکھا تھا کہ چونکہ آپ کا تعلق بنو فنڈوئین کے ساتھ ساتھ اس کی ذیلی شاخ بنو چ سے بھی ہے تو اس لیے آپ کا مرض لاعلاج ہے

    ہاہاہاہا

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7
    عزت مآب باوا جی …ملا کی دوڑ مسجد تک …جب میں ایک کلٹ سے نکل آیا تو پھر انہی کی طرح تبلیغ کرکے انہی کی طرح بننے کا کیا فائدہ آپ ستر سال کے ہوکر بھی جھنجنوں سے کھیلتے رہیں مجھے کیا اعتراض ہے بلیک شیپ نے آپ کے بارے میں لکھا تھا کہ چونکہ آپ کا تعلق بنو فنڈوئین کے ساتھ ساتھ اس کی ذیلی شاخ بنو چ سے بھی ہے تو اس لیے آپ کا مرض لاعلاج ہے ہاہاہاہا

    قرار جی

    اچھا ہوا کہ آپ مسلمانوں میں سے نکل گئے ہیں

    مسلمان تو خود چاہتے ہیں کہ ان کے اندر چھپا ہوا ابّا مسلم پتر کافروں کا سارا گند صاف ہو جائے

    :bigsmile: :lol: :hilar:

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #8

    میرے خیال میں پاکستانی قوم کے اس رویے کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک خوف اور دوسرا احساسِ عدم تحفظ۔ 

    فرض کریں ایک پسماندہ قسم کے معاشرے میں کسی بچے کو بچپن سے ہی مسلسل یہ بتایا جائے کہ ایک بہت بڑی خوفناک قسم کی بلا ہے، جس کے بڑے بڑے خونی دانت ہیں اور جو انسانوں اور جانوروں کا خون پیتی ہے اور بچے کو کہا جائے کہ وہ ہر دم تمہیں دیکھ رہی ہے، تم نے اس سے ڈرنا ہے، اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی اور اس سے محبت بھی کرنی ہے۔ تو لامحالہ طور پر ایسا بچہ جب بڑا ہوگا تو اس کے اندر اس بلا کیلئے ایک گہرا خوف ہوگا جس کو اس نے برین واشنگ کے نتیجے میں محبت کا نام دے رکھا ہوگا۔ وہ بچہ چونکہ پسماندہ معاشرے میں رہتا ہے، جہاں غربت بھی ہے، کسی بھی وقت بیماری بھی لگ سکتی ہے، اس کو آزادی فکر بھی میسر نہیں، اس کے ساتھ کچھ غلط ہوجائے تو ریاست بھی اس کا تحفظ نہیں کرتی تو ایسے میں وہ بچہ اس خوفناک ان دیکھی بلا کے خلاف کچھ سوچ کر یا کہہ کر اس کی دشمنی مول لینے سے ڈرتا ہے اور اس کے ساتھ محبت محبت کے نعرے مار کر چپکا رہتا ہے، کیونکہ بچپن کی برین واشنگ کے ذریعے اس کے ذہن میں یہ بات راسخ کی گئی ہے کہ اگر وہ اس بلا کا تابع فرمان رہے گا تو بچا رہے گا۔ اس شخص کے ساتھ اگر کچھ برا ہوبھی جائے تو بھی وہ اس بلا کے خلاف سوچنے کی ہمت نہیں کرے گا کہ کہیں وہ بلا بگڑ کر کچھ مزید برا نہ کردے۔۔ (عاطف صاحب کے بیان کردہ مشتاق احمد یوسفی کے اس لطیفے والی بات کہ نو مسلم شخص مسجد جاتے جاتے مندر پر بھی ماتھا ٹیک جاتا کہ کہیں بھگوان اس کا کوئی نقصان نہ کردے۔)۔ 

    یہ بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ پسماندہ معاشروں کے لوگ مذہب سے زیادہ جذباتی طور پر جڑے ہوتے ہیں، ایلیٹ کلاس کے لوگ چونکہ عدم تحفظ اور خوف کا اس قدر شکار نہیں ہوتے، اس لئے وہ مذہب کے ساتھ محض نام کا تعلق رکھتے ہیں اور ان کے اندر مذہب یا خدا کے تئیں وہ جذباتی شدت نظر نہیں آتی جو پسماندہ یا مڈل کلاس کے لوگوں میں ہوتی ہے۔ اسی طرح یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں کی مثال دی جاسکتی ہے، وہاں چونکہ لوگ معاشی طور پر آسودہ حال ہیں، ریاست ان کا تحفظ بھی کرتی ہے، ملاوٹ سے پاک فضا اور غذا کی وجہ سے بیماری کا بھی اتنا اندیشہ نہیں ہوتا، اس لئے وہ خوف اور عدم تحفظ کے احساس سے نکل آتے ہیں اور خدا کے متعلق جنونی رویہ اختیار نہیں کرتے۔۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اوریا مقبول جان جیسے لوگ جو خدا کا انکار کرنے والوں پر برہم ہوتے ہیں اور انہیں کاٹنے کو دوڑتے ہیں تو کیا واقعی انہیں خدا سے محبت ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے رویئے کا اظہار کرتے ہیں۔۔؟؟ یہاں پھر مجھے مذکورہ بالا بچے کی مثال دینی پڑے گی۔۔ فرض کریں اس بچے کو بچپن کی برین واشنگ کے دوران یہ بھی سکھایا جائے کہ وہ جو بہت بڑی خوفناک بلا ہے، وہ بڑی معمولی معمولی باتوں پر ناراض ہوجاتی ہے، اس لئے تم نے اس کا تحفظ بھی کرنا ہے، اگر کبھی کوئی اس کے خلاف کچھ کہے تو چاہے اپنی جان پر کھیل جاؤ، تم نے اس دشمنِ بلا کو سزا دینی ہے، وگرنہ وہ بلا تم سے ناراض ہوجائے گی اور تمہارا کچھ نہ کچھ نقصان ہوجائے گا۔۔ وہی خوف اور عدم تحفظ کا احساس پلس بچپن کی برین واشنگ جو اس کے لاشعور، تحت الشعور میں جاگزیں کردی گئی، اور نام اس کا محبت رکھا گیا، اس کے زیر اثر جب وہ کسی کو اس بلا کے بارے میں انکار کرتا یا اس کے خلاف کچھ کہتا دیکھے گا تو اس کے اندر غیر محسوس انداز میں یہ خوف بیدار ہوگا کہ بلا ناراض ہوجائے گی اور اس کا کچھ نقصان ہوجائے گا، پھر وہ جذباتی رویے کا اظہار کرتا ہے، اپنی طرف سے غصہ دکھاتا ہے، یوں وہ اپنی طرف سے بلا کو یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ دیکھو میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں اور تمہارے دشمنوں سے کتنی نفرت۔۔۔ مجھے کوئی نقصان مت پہنچانا۔ـ(سوچیے جب اس شخص کو یہ بھی سکھایا گیا ہو کہ اگر بلا تم سے خوش ہوئی تو تمہیں مرنے کے بعد کتنا بڑا انعام دے گی، تو اس کے جذبات میں مزید کتنی شدت آجائے گی۔)۔۔۔۔

    اگر ایسے برین واشڈ شخص کو مغربی معاشرے میں لے جاکر رکھا جائے اور اس کو خوف اور عدم تحفظ سے پاک اچھی زندگی دی جائے تو میرے خیال میں ایک خاص عرصے کے بعد جب اسے اس بات کا یقین ہوجائے گا کہ اب اسے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں، تو وہ اس بلا سے “محبت” کرنے سے بھی باز آجائے گا۔۔ (مستثنیات کی بات الگ ہے۔۔)۔

    پسِ تحریر۔۔۔ بلا والی مثال  قطعاً کسی خدا وغیرہ سے مماثلت نہ سمجھی جائے، اپنی بات کو واضح طور پر سمجھانے کیلئے اس مثال کا استعمال ناگزیر تھا۔ 

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9

    میرے خیال میں پاکستانی قوم کے اس رویے کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک خوف اور دوسرا احساسِ عدم تحفظ۔

    فرض کریں ایک پسماندہ قسم کے معاشرے میں کسی بچے کو بچپن سے ہی مسلسل یہ بتایا جائے کہ ایک بہت بڑی خوفناک قسم کی بلا ہے، جس کے بڑے بڑے خونی دانت ہیں اور جو انسانوں اور جانوروں کا خون پیتی ہے اور بچے کو کہا جائے کہ وہ ہر دم تمہیں دیکھ رہی ہے، تم نے اس سے ڈرنا ہے، اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی اور اس سے محبت بھی کرنی ہے۔ تو لامحالہ طور پر ایسا بچہ جب بڑا ہوگا تو اس کے اندر اس بلا کیلئے ایک گہرا خوف ہوگا جس کو اس نے برین واشنگ کے نتیجے میں محبت کا نام دے رکھا ہوگا۔ وہ بچہ چونکہ پسماندہ معاشرے میں رہتا ہے، جہاں غربت بھی ہے، کسی بھی وقت بیماری بھی لگ سکتی ہے، اس کو آزادی فکر بھی میسر نہیں، اس کے ساتھ کچھ غلط ہوجائے تو ریاست بھی اس کا تحفظ نہیں کرتی تو ایسے میں وہ بچہ اس خوفناک ان دیکھی بلا کے خلاف کچھ سوچ کر یا کہہ کر اس کی دشمنی مول لینے سے ڈرتا ہے اور اس کے ساتھ محبت محبت کے نعرے مار کر چپکا رہتا ہے، کیونکہ بچپن کی برین واشنگ کے ذریعے اس کے ذہن میں یہ بات راسخ کی گئی ہے کہ اگر وہ اس بلا کا تابع فرمان رہے گا تو بچا رہے گا۔ اس شخص کے ساتھ اگر کچھ برا ہوبھی جائے تو بھی وہ اس بلا کے خلاف سوچنے کی ہمت نہیں کرے گا کہ کہیں وہ بلا بگڑ کر کچھ مزید برا نہ کردے۔۔ (عاطف صاحب کے بیان کردہ مشتاق احمد یوسفی کے اس لطیفے والی بات کہ نو مسلم شخص مسجد جاتے جاتے مندر پر بھی ماتھا ٹیک جاتا کہ کہیں بھگوان اس کا کوئی نقصان نہ کردے۔)۔

    یہ بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ پسماندہ معاشروں کے لوگ مذہب سے زیادہ جذباتی طور پر جڑے ہوتے ہیں، ایلیٹ کلاس کے لوگ چونکہ عدم تحفظ اور خوف کا اس قدر شکار نہیں ہوتے، اس لئے وہ مذہب کے ساتھ محض نام کا تعلق رکھتے ہیں اور ان کے اندر مذہب یا خدا کے تئیں وہ جذباتی شدت نظر نہیں آتی جو پسماندہ یا مڈل کلاس کے لوگوں میں ہوتی ہے۔ اسی طرح یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں کی مثال دی جاسکتی ہے، وہاں چونکہ لوگ معاشی طور پر آسودہ حال ہیں، ریاست ان کا تحفظ بھی کرتی ہے، ملاوٹ سے پاک فضا اور غذا کی وجہ سے بیماری کا بھی اتنا اندیشہ نہیں ہوتا، اس لئے وہ خوف اور عدم تحفظ کے احساس سے نکل آتے ہیں اور خدا کے متعلق جنونی رویہ اختیار نہیں کرتے۔۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اوریا مقبول جان جیسے لوگ جو خدا کا انکار کرنے والوں پر برہم ہوتے ہیں اور انہیں کاٹنے کو دوڑتے ہیں تو کیا واقعی انہیں خدا سے محبت ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے رویئے کا اظہار کرتے ہیں۔۔؟؟ یہاں پھر مجھے مذکورہ بالا بچے کی مثال دینی پڑے گی۔۔ فرض کریں اس بچے کو بچپن کی برین واشنگ کے دوران یہ بھی سکھایا جائے کہ وہ جو بہت بڑی خوفناک بلا ہے، وہ بڑی معمولی معمولی باتوں پر ناراض ہوجاتی ہے، اس لئے تم نے اس کا تحفظ بھی کرنا ہے، اگر کبھی کوئی اس کے خلاف کچھ کہے تو چاہے اپنی جان پر کھیل جاؤ، تم نے اس دشمنِ بلا کو سزا دینی ہے، وگرنہ وہ بلا تم سے ناراض ہوجائے گی اور تمہارا کچھ نہ کچھ نقصان ہوجائے گا۔۔ وہی خوف اور عدم تحفظ کا احساس پلس بچپن کی برین واشنگ جو اس کے لاشعور، تحت الشعور میں جاگزیں کردی گئی، اور نام اس کا محبت رکھا گیا، اس کے زیر اثر جب وہ کسی کو اس بلا کے بارے میں انکار کرتا یا اس کے خلاف کچھ کہتا دیکھے گا تو اس کے اندر غیر محسوس انداز میں یہ خوف بیدار ہوگا کہ بلا ناراض ہوجائے گی اور اس کا کچھ نقصان ہوجائے گا، پھر وہ جذباتی رویے کا اظہار کرتا ہے، اپنی طرف سے غصہ دکھاتا ہے، یوں وہ اپنی طرف سے بلا کو یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ دیکھو میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں اور تمہارے دشمنوں سے کتنی نفرت۔۔۔ مجھے کوئی نقصان مت پہنچانا۔ـ(سوچیے جب اس شخص کو یہ بھی سکھایا گیا ہو کہ اگر بلا تم سے خوش ہوئی تو تمہیں مرنے کے بعد کتنا بڑا انعام دے گی، تو اس کے جذبات میں مزید کتنی شدت آجائے گی۔)۔۔۔۔

    اگر ایسے برین واشڈ شخص کو مغربی معاشرے میں لے جاکر رکھا جائے اور اس کو خوف اور عدم تحفظ سے پاک اچھی زندگی دی جائے تو میرے خیال میں ایک خاص عرصے کے بعد جب اسے اس بات کا یقین ہوجائے گا کہ اب اسے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں، تو وہ اس بلا سے “محبت” کرنے سے بھی باز آجائے گا۔۔ (مستثنیات کی بات الگ ہے۔۔)۔

    پسِ تحریر۔۔۔ بلا والی مثال قطعاً کسی خدا وغیرہ سے مماثلت نہ سمجھی جائے، اپنی بات کو واضح طور پر سمجھانے کیلئے اس مثال کا استعمال ناگزیر تھا۔

    کبھی کبھی آپ کی تحریریں مجھے کچھ ایسا سوچنے کو فراہم کردیتی ہیں جس سے بڑی اتھل پتھل مچ جاتی ہے۔ ابھی میرے ذہن میں خیال آیا کہ اگر خدا نے نقصان پہنچانا ہوتا تو وہ آپ جیسے گمراہ بدعقیدہ کو پہنچا چکا ہوتا۔

    نقصان تو آج میرے ذہن سے نکل گیا اب بس فائدے پہنچانے والی تھیوری غلط ثابت ہوئی تو میرے خاندان نے آپکو نہیں چھوڑنا۔ ویسے میں ذاتی طور پر خدا کے فائدے پہنچانے کا قائل ہوں ۔ یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10

    ۔

    فرض کریں ایک پسماندہ قسم کے معاشرے میں کسی بچے کو بچپن سے ہی مسلسل یہ بتایا جائے کہ ایک بہت بڑی خوفناک قسم کی بلا ہے، جس کے بڑے بڑے خونی دانت ہیں اور جو انسانوں اور جانوروں کا خون پیتی ہے اور بچے کو کہا جائے کہ وہ ہر دم تمہیں دیکھ رہی ہے، تم نے اس سے ڈرنا ہے، اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی اور اس سے محبت بھی کرنی ہے۔ 

    زندہ رود صا حب ۔۔۔۔

    بچپن کے خوف ڈر کے بارے آپ  کا تجرہ اور مشا ھدہ نہا یت غلط بنیا دوں پر کھڑا ہے ۔۔۔۔ بڑوں سے خو ف ۔۔۔۔ ھر معا شرے میں دلوا یا جاتا ہے ۔۔۔ تاکہ بچے کی ٹرینگ ہوسکے

    بچوں کو ۔۔۔ با پ  سے ڈرایا جاتا ہے کہ پڑھا ئی کرو ورنہ ابو ماریں گے ۔۔۔ بچوں کو ٹیچر سے ڈرایا جا تا ہے  کہ ہوم ورک کرو ورنہ پٹا ئی ہوگی ۔۔۔۔

    بچوں کو بچپن میں ڈرایا جانا ایک قدیم انسانی رویہ ہے ۔۔۔۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ وہ بہت کوئی بد قسمت بچہ تھا ۔۔۔۔ جس کا آپ نے زکر کیا جو بڑے ہوکر برین واش سمجھا گیا ۔۔۔

    حا لا نکہ صورت حال اس کے برعکس ہے ۔۔۔  میں لمبی چوڑی د لیلیں دینے کے بجا ئے آپ کو انسا نی رویوں کی کچھ مثا لیں پیش کرتا ہے ۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    مثال کے طور ۔۔۔ امریکہ کینیڈا میں ۔۔۔ بچے تو بچے ۔۔۔۔ پڑھے لکھے با ہوش ۔۔۔ انسان کو ۔۔۔ دن میں دس   بار ۔۔۔ بلا ۔۔۔۔۔  سے ڈرا یا جاتا ہے ۔۔۔۔

    لوگ جب بنک میں یا کسی بھی بڑے آفس میں جاب حا صل کرتے ہیں سب سے پہلے ان کو ۔۔۔۔  ڈرایا جاتا  ہے کہ ۔۔۔ ریسپیکٹ ورک پا لیس ۔۔۔ پر دستخظ کرو ۔۔۔

    کہ تم دوران ۔۔۔۔ ورک ۔۔۔ دوران جاب ۔۔۔ کسی عورت کسی لڑکی ۔۔۔۔ کو لا ئن وغیرہ نہیں مارو گے ۔۔۔۔ اور اگر تم نے کسی لڑکی کسی عورت کو فلرٹ کیا ۔۔۔ تو ۔۔۔ بلا تمہیں کھا لے گی ۔۔۔

    لوگ صبح گھر سے نکلتے ہیں سڑک پر لکھا ہوتا ۔۔۔ سپیڈ نہیں کرنی  ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ بلا ۔۔۔ تمہیں جرما نہ کردی گی ۔۔۔

    ڈاؤن ٹاؤن پہنچتے ہیں  تو لکھا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس جگہ گاڑی پارک  مت کرو ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ گاڑی اٹھا کر لے جا ئے گی ۔۔۔۔۔۔۔

    حکومت سے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کا خط آتا ہے ۔۔۔۔  جون سے پہلے پہلے ٹیکس فا ئل کردیں ورنہ ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔ آپ کو سا لم نگل لے گی ۔۔۔۔

    پھر بنک سے لیٹر آجا تا ہے ۔۔۔۔ کریڈ ٹ کارڈ کی پی منٹ ۔۔۔ ڈیو ڈیٹ  پر کرو ۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔  بلا ۔۔۔۔ تمہارے کریڈ ٹ کا بیڑہ غرق کردے گی ۔۔۔

    ھسپتال کے باھر لکھا ہوتا یہاں ۔۔۔ھارن بجا نا منع ہے  ۔۔ بجا نے والے کو ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ کے حوالے کردیا جائے گا ۔۔۔

    ۔۔۔

    مغرب میں ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کے خوف کا اثرو نفوز بیڈ روم سے شروع ہوکر ۔۔۔۔ جاب کی کرسی تک موجود رھتا ہے ۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    مغرب کے پڑھے لکھے ۔۔۔ انسانوں پر۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ اس طرح سائے کی طرح چمٹی ہوتی ہے کہ ۔۔۔۔

    کروڑوں انسان ۔۔۔ سڑک ۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔ لا ل بتی ۔۔۔۔ دیکھ ۔۔۔ کر رک جاتے ہیں ۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔ انسانوں کو بتا یا گیا ہے کہ ۔۔۔

    سڑک چوراھے پر ۔۔۔۔ لا ل بتی ۔۔۔۔ بلا کی ۔۔۔۔ بتی ہے ۔۔۔ اگر تم نے ۔۔۔ اس لال بتی پر بریک نہ لگا ئی تو ۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ تم ۔۔۔ کو زندہ سنگسار کرسکتی ہے ۔۔۔۔

    ۔۔۔

    اور لوگ ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ کے خوف سے ۔۔۔۔ لا ل بتی پر بریکیں لگا دیتے ہیں ۔۔۔۔

    پڑھے لکھے  بلا کے  خوف میں مبتال انسان  سارا دن ۔۔

    ۔ سڑک پر بلا کے خوف سے سپیڈنگ نہیں کرتے ۔۔۔ بلا کے خوف سے جاب پر فلرٹ نہیں کرتے ۔۔۔۔ بلا کے خوف سے ۔۔۔ مال میں عورت کو ھا تھ نہیں لگا تے ۔۔۔

    بلا کے خوف سے ۔۔۔ بیوی کو زبردستی نہیں کرتے ۔۔۔۔  بلکہ کچھ لوگ تو  بلا کے خوف سے ۔۔۔۔ جاب پر سیا ست پر با ت بھی نہیں کرتے

    کہتے ہیں میں پا لیٹس پر با ت نہیں کرتا کہیں بلا میری جاب نے ختم کردے ۔۔۔۔۔ سارا  دن ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کے خوف ڈر سے ۔۔۔۔ زندگی گزارنے کے بعد ۔۔۔۔ یہ سارے پھدو انسان کہتے ۔۔۔۔

    ۔۔۔۔ ھم چنگے والے شہری ہیں ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کی عزت کرتے ہیں ۔۔۔ بلا ۔۔۔جو حکم دیتی وہ حکم بجا لاتے ہیں ۔۔۔

    ھم بلا سے بہت خوش ہیں ۔۔۔ کما تے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ خرچتے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔ کھا تے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔

    رھتے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔ ہوٹلنگ کرتے ہین تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔ فلا ئی کرتے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔۔

    ورنہ ۔۔۔۔  بلا کی حکم عدو لی پر ۔۔۔۔  سوفیصد  ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔۔۔۔ ان ۔۔۔ انسان کی ۔۔۔۔ زند گی ۔۔۔ جیلوں اور عذا ب سے بھر دے گی ۔۔۔۔۔۔۔

    تومیری جان ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کے خوف کے بغیر تو ۔۔۔ مغر ب میں زند گی کا تصور ہی نہیں ہے ۔۔۔۔

    مجھے لگتا ہے ۔۔۔ بچپن میں جس نے بھی آپ کو  بلا کے بارے میں ڈرایا ۔۔۔۔ اس کو ڈرانے کا ۔۔۔ ول ۔۔۔۔ نہیں آتا تھا ۔۔۔

    ورنہ جو بچے بچپین میں بلا سے ڈرنا سیکھ جا تے ہیں ۔۔۔  وہ زند گی کی ایسنس کو سمجھ جا تے ہیں ۔۔۔۔

    اور مغر ب میں  بھی جو انسان ۔۔۔ بلا ۔۔۔ سے ڈرنا سیکھ لیتا ہے ۔۔۔ اور بلا سے ڈرتا رھتا ہے ۔۔۔ اور بلا کے حکم بجا لاتا رھتا ہے

    اس کو ۔۔۔۔۔   بہترین لاء ابا ئیڈ نگ سیٹیزن ۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ۔۔۔ ۔۔

    اورجو ۔۔۔ با غی ۔۔۔ بلا کو ٹیکس نہ دے ۔۔۔ بلا کو چیلنج کرے ۔۔۔ بلا کے احکاما ت سے انکاری ۔۔۔ بلا ۔۔۔ اس کو جیل میں قید کرد یتی ہے ۔۔۔

    مجھے حیرت ہے آپ بلاؤں سے نہیں ڈرتے اور ابھی ۔۔۔ جیل نہیں گئے  ۔۔۔۔

    پس تحریر ۔۔۔ مہربانی فرما کر ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کو ۔۔۔ طاقت حکومت ادارے وردی   پولیس نہ سمجھ لیجئے گا ۔۔۔۔ یہ صرف سمجھا نے کے لیئے ہے ۔۔

    ۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11
    چلیں اسی پر بات کرلیتے ہیں کہ جب کسی انسان کو خدا مارتا ہے تو بجاے ناراض ہونے کے ہم اس سے اور بھی پیار کا اظہار کرنے لگتے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں اور توبہ استغفار میں اضافہ کردیتے ہیں

    دارصل یہ انسانی رویہ قدرتی ہے اور انسان کو بنانے والا جانتا ہے اسی لئےقرآن میں فرمایا (خلاصہ آیت ) کہ انسان بہت ناشکرا ہے اور ایک ایسے انسان کی مثال دی جو سمندر میں طوفان کے اندر گھر جاتا ہے اور خدا کو پکارتا ہے کہ ایکبار بچا لو تو پھر ہمیشہ تمہارا تابعدار رہوں گا ، جب اللہ کی ذات کو اس پر رحم آجاتا ہے اور اسکو بچا لیتا ہے تو کنارے پر پنہچتے ہی وہ انسان دوبارہ خدا کو بھول جاتا ہے

    دراصل انسان کو خدا یاد ہی اس وقت آتا ہے جب اس پر کوی افتاد پڑتی ہے خوشی کے اوقات میں کون یاد کرتا ہے کہ موت بھی آنی ہے؟

    آج جب ترقی یافتہ دنیا کا غرور خاک میں مل رہا ہے جرمن کے وزیر خزانہ نے خودکشی کرلی ہے اور بہت سارے حکمرا ن سخت ترین سٹریس میں ہیں کہ انکے ملکوں کی اکانومی کیسے چلے گی تو اہل بصیرت کا خدا کی طرف رحجان خدبخود ہونا ہے خواہ ملحد کتنا بھی زور لگا لیں سوچنے سمجھنے والے اہل بصیرت ایسے مواقع پر خدا کی طرف جھکتے ہیں اور دنیا کو ایک جاے فانی سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں

    ایک اکانومی ہی تو تھی جس پر وہ ترقی یافتہ ہونے کے دعویدار تھے اب اگر اکانومی ہی تباہ ہوگئی تو اکڑنا کس بات پر؟

    کروڑوں ڈالر میں بکنے والے کھلاڑی اور اداکار ایک ماہ کے اندر اندر بے روزگار ہوگئے ہیں چھ ماہ میں کیا ہوگا یہ سوچنا بھی بہت خوفناک لگ رہا ہے

    اللہ تعالی فرماتا ہے

    عصر کے وقت کی قسم ۔ بے شک انسان خسارے میں ہے

    لیکن وہ لوگ (خسارے میں نہیں ہیں ) جو ایمان لاے اور نیک اعمال بجا لاتے رہے

    اور لوگوں کو صبر اور حق بات کی تلقین کرتے رہے

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #12
    زندہ رود صا حب ۔۔۔۔ بچپن کے خوف ڈر کے بارے آپ کا تجرہ اور مشا ھدہ نہا یت غلط بنیا دوں پر کھڑا ہے ۔۔۔۔ بڑوں سے خو ف ۔۔۔۔ ھر معا شرے میں دلوا یا جاتا ہے ۔۔۔ تاکہ بچے کی ٹرینگ ہوسکے بچوں کو ۔۔۔ با پ سے ڈرایا جاتا ہے کہ پڑھا ئی کرو ورنہ ابو ماریں گے ۔۔۔ بچوں کو ٹیچر سے ڈرایا جا تا ہے کہ ہوم ورک کرو ورنہ پٹا ئی ہوگی ۔۔۔۔ بچوں کو بچپن میں ڈرایا جانا ایک قدیم انسانی رویہ ہے ۔۔۔۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ وہ بہت کوئی بد قسمت بچہ تھا ۔۔۔۔ جس کا آپ نے زکر کیا جو بڑے ہوکر برین واش سمجھا گیا ۔۔۔ حا لا نکہ صورت حال اس کے برعکس ہے ۔۔۔ میں لمبی چوڑی د لیلیں دینے کے بجا ئے آپ کو انسا نی رویوں کی کچھ مثا لیں پیش کرتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثال کے طور ۔۔۔ امریکہ کینیڈا میں ۔۔۔ بچے تو بچے ۔۔۔۔ پڑھے لکھے با ہوش ۔۔۔ انسان کو ۔۔۔ دن میں دس بار ۔۔۔ بلا ۔۔۔۔۔ سے ڈرا یا جاتا ہے ۔۔۔۔ لوگ جب بنک میں یا کسی بھی بڑے آفس میں جاب حا صل کرتے ہیں سب سے پہلے ان کو ۔۔۔۔ ڈرایا جاتا ہے کہ ۔۔۔ ریسپیکٹ ورک پا لیس ۔۔۔ پر دستخظ کرو ۔۔۔ کہ تم دوران ۔۔۔۔ ورک ۔۔۔ دوران جاب ۔۔۔ کسی عورت کسی لڑکی ۔۔۔۔ کو لا ئن وغیرہ نہیں مارو گے ۔۔۔۔ اور اگر تم نے کسی لڑکی کسی عورت کو فلرٹ کیا ۔۔۔ تو ۔۔۔ بلا تمہیں کھا لے گی ۔۔۔ لوگ صبح گھر سے نکلتے ہیں سڑک پر لکھا ہوتا ۔۔۔ سپیڈ نہیں کرنی ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ بلا ۔۔۔ تمہیں جرما نہ کردی گی ۔۔۔ ڈاؤن ٹاؤن پہنچتے ہیں تو لکھا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس جگہ گاڑی پارک مت کرو ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ گاڑی اٹھا کر لے جا ئے گی ۔۔۔۔۔۔۔ حکومت سے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کا خط آتا ہے ۔۔۔۔ جون سے پہلے پہلے ٹیکس فا ئل کردیں ورنہ ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔ آپ کو سا لم نگل لے گی ۔۔۔۔ پھر بنک سے لیٹر آجا تا ہے ۔۔۔۔ کریڈ ٹ کارڈ کی پی منٹ ۔۔۔ ڈیو ڈیٹ پر کرو ۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ تمہارے کریڈ ٹ کا بیڑہ غرق کردے گی ۔۔۔ ھسپتال کے باھر لکھا ہوتا یہاں ۔۔۔ھارن بجا نا منع ہے ۔۔ بجا نے والے کو ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ کے حوالے کردیا جائے گا ۔۔۔ ۔۔۔ مغرب میں ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کے خوف کا اثرو نفوز بیڈ روم سے شروع ہوکر ۔۔۔۔ جاب کی کرسی تک موجود رھتا ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغرب کے پڑھے لکھے ۔۔۔ انسانوں پر۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ اس طرح سائے کی طرح چمٹی ہوتی ہے کہ ۔۔۔۔ کروڑوں انسان ۔۔۔ سڑک ۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔ لا ل بتی ۔۔۔۔ دیکھ ۔۔۔ کر رک جاتے ہیں ۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔ انسانوں کو بتا یا گیا ہے کہ ۔۔۔ سڑک چوراھے پر ۔۔۔۔ لا ل بتی ۔۔۔۔ بلا کی ۔۔۔۔ بتی ہے ۔۔۔ اگر تم نے ۔۔۔ اس لال بتی پر بریک نہ لگا ئی تو ۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ تم ۔۔۔ کو زندہ سنگسار کرسکتی ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔ اور لوگ ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ کے خوف سے ۔۔۔۔ لا ل بتی پر بریکیں لگا دیتے ہیں ۔۔۔۔ پڑھے لکھے بلا کے خوف میں مبتال انسان سارا دن ۔۔ ۔ سڑک پر بلا کے خوف سے سپیڈنگ نہیں کرتے ۔۔۔ بلا کے خوف سے جاب پر فلرٹ نہیں کرتے ۔۔۔۔ بلا کے خوف سے ۔۔۔ مال میں عورت کو ھا تھ نہیں لگا تے ۔۔۔ بلا کے خوف سے ۔۔۔ بیوی کو زبردستی نہیں کرتے ۔۔۔۔ بلکہ کچھ لوگ تو بلا کے خوف سے ۔۔۔۔ جاب پر سیا ست پر با ت بھی نہیں کرتے کہتے ہیں میں پا لیٹس پر با ت نہیں کرتا کہیں بلا میری جاب نے ختم کردے ۔۔۔۔۔ سارا دن ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کے خوف ڈر سے ۔۔۔۔ زندگی گزارنے کے بعد ۔۔۔۔ یہ سارے پھدو انسان کہتے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ھم چنگے والے شہری ہیں ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کی عزت کرتے ہیں ۔۔۔ بلا ۔۔۔جو حکم دیتی وہ حکم بجا لاتے ہیں ۔۔۔ ھم بلا سے بہت خوش ہیں ۔۔۔ کما تے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ خرچتے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔ کھا تے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔ رھتے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔ ہوٹلنگ کرتے ہین تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔ فلا ئی کرتے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔ بلا کی حکم عدو لی پر ۔۔۔۔ سوفیصد ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔۔۔۔ ان ۔۔۔ انسان کی ۔۔۔۔ زند گی ۔۔۔ جیلوں اور عذا ب سے بھر دے گی ۔۔۔۔۔۔۔ تومیری جان ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کے خوف کے بغیر تو ۔۔۔ مغر ب میں زند گی کا تصور ہی نہیں ہے ۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے ۔۔۔ بچپن میں جس نے بھی آپ کو بلا کے بارے میں ڈرایا ۔۔۔۔ اس کو ڈرانے کا ۔۔۔ ول ۔۔۔۔ نہیں آتا تھا ۔۔۔ ورنہ جو بچے بچپین میں بلا سے ڈرنا سیکھ جا تے ہیں ۔۔۔ وہ زند گی کی ایسنس کو سمجھ جا تے ہیں ۔۔۔۔ اور مغر ب میں بھی جو انسان ۔۔۔ بلا ۔۔۔ سے ڈرنا سیکھ لیتا ہے ۔۔۔ اور بلا سے ڈرتا رھتا ہے ۔۔۔ اور بلا کے حکم بجا لاتا رھتا ہے اس کو ۔۔۔۔۔ بہترین لاء ابا ئیڈ نگ سیٹیزن ۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ۔۔۔ ۔۔ اورجو ۔۔۔ با غی ۔۔۔ بلا کو ٹیکس نہ دے ۔۔۔ بلا کو چیلنج کرے ۔۔۔ بلا کے احکاما ت سے انکاری ۔۔۔ بلا ۔۔۔ اس کو جیل میں قید کرد یتی ہے ۔۔۔ مجھے حیرت ہے آپ بلاؤں سے نہیں ڈرتے اور ابھی ۔۔۔ جیل نہیں گئے ۔۔۔۔ پس تحریر ۔۔۔ مہربانی فرما کر ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کو ۔۔۔ طاقت حکومت ادارے وردی پولیس نہ سمجھ لیجئے گا ۔۔۔۔ یہ صرف سمجھا نے کے لیئے ہے ۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    گلٹی بہت عمدہ مثال دی ہے کہ ہمیں کہتے ہیں کہ خدا سے مت ڈرو خدا تمہیں دیکھ نہیں رہا ایسے ہی تمہاے والدین نے بچپن سے ڈرا ڈرا کر تمہارے اندر وہم ڈال دیا ہے  جو یورپ آکر بھی تمہارے اندر سے نہیں نکلتا مگر خود انکے سڑک پر لگے ہوے  کیمرے سے پد نکلتے ہیں، مجال ہے جو لال بتی کراس کرجائیں یا اسپیڈو میٹر مقررہ حد سے ایک درجہ بھی اوپر جاے

    :hilar:

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13
    کبھی کبھی آپ کی تحریریں مجھے کچھ ایسا سوچنے کو فراہم کردیتی ہیں جس سے بڑی اتھل پتھل مچ جاتی ہے۔ ابھی میرے ذہن میں خیال آیا کہ اگر خدا نے نقصان پہنچانا ہوتا تو وہ آپ جیسے گمراہ بدعقیدہ کو پہنچا چکا ہوتا۔ نقصان تو آج میرے ذہن سے نکل گیا اب بس فائدے پہنچانے والی تھیوری غلط ثابت ہوئی تو میرے خاندان نے آپکو نہیں چھوڑنا۔ ویسے میں ذاتی طور پر خدا کے فائدے پہنچانے کا قائل ہوں ۔ یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔

    عاطف بھای خدا کی باتیں خدا کی کتاب سے پڑھنی ضروری ہیں تاکہ غلطی نہ لگے میں نے تو یہ پڑھا ہے کہ خدا اپنے حقوق معاف کردے گا مگر مخلوق کے نہیں کیا آپ نے اس عورت کا نہیں پڑھا جو بدکار تھی مگر ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے کے صلے میں اس کی بخشش ہوگئی؟

    آج بھی جب تک یورپین قوموں میں انصاف ملتا رہے گا اور مخلوق کے ساتھ محبت کا سلوک ہوتا رہے گا یہ جتنا مرضی تباہ ہوجائیں ہم سے بہتر ہی رہیں گے، آج آسیہ جیسی لاکھوں مظلوم عورتوں  اور مردوں کو یورپ میں تحفظ ملتا ہے اور پھر کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ اس کی طرف دیکھ بھی جاے چاہے وہ فوجی حکمران ہو یا مذہبی ان سے پنگا لے کر کوی حکمران بھی قذافی یا صدام نہیں بننا چاہے گا  ان کی یہی نیکیاں ان کو طاقت دیتی جائیں گی اور ہمیں ہمارے ظلم وہ بھی دین کے نام پر کمزور کرتے رہیں گے

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #14
    کبھی کبھی آپ کی تحریریں مجھے کچھ ایسا سوچنے کو فراہم کردیتی ہیں جس سے بڑی اتھل پتھل مچ جاتی ہے۔ ابھی میرے ذہن میں خیال آیا کہ اگر خدا نے نقصان پہنچانا ہوتا تو وہ آپ جیسے گمراہ بدعقیدہ کو پہنچا چکا ہوتا۔ نقصان تو آج میرے ذہن سے نکل گیا اب بس فائدے پہنچانے والی تھیوری غلط ثابت ہوئی تو میرے خاندان نے آپکو نہیں چھوڑنا۔ ویسے میں ذاتی طور پر خدا کے فائدے پہنچانے کا قائل ہوں ۔ یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔

    مذہب میں خدا کا جو تصور ہے، وہ انسان نے چونکہ اپنی شبیہہ پر تراشا ہے، اس لئے اس نے اس میں انسانوں والی تمام صفات ڈال دی ہیں، یعنی معمولی باتوں پر غصہ ہونا یا پھر چھوٹی سی بات پر خوش ہوجانا، انا پرست ہونا کہ جو مجھے نہیں مانے گا وہ کافر ہے اس سے لڑو اور کافروں کو تو میں چھوڑوں گا نہیں کیونکہ وہ میری آیات کا انکار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعریف و تحسین کا بھوکا ہونا، پانچ وقت میرے گن گاؤ کہ اللہ تُو بڑا ہے، اللہ تُو بڑا ہے (اللہ اکبر)، وغیرہ وغیرہ، یہ وہ صفات ہیں جو انسان میں پائی جاتی ہیں، کامن سینس کی بات ہے اگر انسان یہ مان لے کہ اتنی بڑی کائنات اور انسان جانور سب ایک قوتِ واحدہ / خدا نے تخلیق کئے ہیں تو اس خدا کے ساتھ ایسی صفات منسوب کرنا ہی حد درجہ حماقت ہے، بھلا اتنی بڑی قوت اور طاقت کو کیا پڑی ہے کہ وہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ساتھ صرف اس لئے لڑنے پر اکسائے کہ وہ اس کے وجود کو نہیں مانتے یا پھر وہ کسی کو اس لئے نقصان پہنچائے کہ اس نے اس کو ماننے سے انکار کردیا یا اس کے متعلق بری رائے کا اظہار کیا۔۔ 

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #15
    زندہ رود صا حب ۔۔۔۔ بچپن کے خوف ڈر کے بارے آپ کا تجرہ اور مشا ھدہ نہا یت غلط بنیا دوں پر کھڑا ہے ۔۔۔۔ بڑوں سے خو ف ۔۔۔۔ ھر معا شرے میں دلوا یا جاتا ہے ۔۔۔ تاکہ بچے کی ٹرینگ ہوسکے بچوں کو ۔۔۔ با پ سے ڈرایا جاتا ہے کہ پڑھا ئی کرو ورنہ ابو ماریں گے ۔۔۔ بچوں کو ٹیچر سے ڈرایا جا تا ہے کہ ہوم ورک کرو ورنہ پٹا ئی ہوگی ۔۔۔۔ بچوں کو بچپن میں ڈرایا جانا ایک قدیم انسانی رویہ ہے ۔۔۔۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ وہ بہت کوئی بد قسمت بچہ تھا ۔۔۔۔ جس کا آپ نے زکر کیا جو بڑے ہوکر برین واش سمجھا گیا ۔۔۔ حا لا نکہ صورت حال اس کے برعکس ہے ۔۔۔ میں لمبی چوڑی د لیلیں دینے کے بجا ئے آپ کو انسا نی رویوں کی کچھ مثا لیں پیش کرتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثال کے طور ۔۔۔ امریکہ کینیڈا میں ۔۔۔ بچے تو بچے ۔۔۔۔ پڑھے لکھے با ہوش ۔۔۔ انسان کو ۔۔۔ دن میں دس بار ۔۔۔ بلا ۔۔۔۔۔ سے ڈرا یا جاتا ہے ۔۔۔۔ لوگ جب بنک میں یا کسی بھی بڑے آفس میں جاب حا صل کرتے ہیں سب سے پہلے ان کو ۔۔۔۔ ڈرایا جاتا ہے کہ ۔۔۔ ریسپیکٹ ورک پا لیس ۔۔۔ پر دستخظ کرو ۔۔۔ کہ تم دوران ۔۔۔۔ ورک ۔۔۔ دوران جاب ۔۔۔ کسی عورت کسی لڑکی ۔۔۔۔ کو لا ئن وغیرہ نہیں مارو گے ۔۔۔۔ اور اگر تم نے کسی لڑکی کسی عورت کو فلرٹ کیا ۔۔۔ تو ۔۔۔ بلا تمہیں کھا لے گی ۔۔۔ لوگ صبح گھر سے نکلتے ہیں سڑک پر لکھا ہوتا ۔۔۔ سپیڈ نہیں کرنی ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ بلا ۔۔۔ تمہیں جرما نہ کردی گی ۔۔۔ ڈاؤن ٹاؤن پہنچتے ہیں تو لکھا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس جگہ گاڑی پارک مت کرو ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ گاڑی اٹھا کر لے جا ئے گی ۔۔۔۔۔۔۔ حکومت سے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کا خط آتا ہے ۔۔۔۔ جون سے پہلے پہلے ٹیکس فا ئل کردیں ورنہ ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔ آپ کو سا لم نگل لے گی ۔۔۔۔ پھر بنک سے لیٹر آجا تا ہے ۔۔۔۔ کریڈ ٹ کارڈ کی پی منٹ ۔۔۔ ڈیو ڈیٹ پر کرو ۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ تمہارے کریڈ ٹ کا بیڑہ غرق کردے گی ۔۔۔ ھسپتال کے باھر لکھا ہوتا یہاں ۔۔۔ھارن بجا نا منع ہے ۔۔ بجا نے والے کو ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ کے حوالے کردیا جائے گا ۔۔۔ ۔۔۔ مغرب میں ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کے خوف کا اثرو نفوز بیڈ روم سے شروع ہوکر ۔۔۔۔ جاب کی کرسی تک موجود رھتا ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغرب کے پڑھے لکھے ۔۔۔ انسانوں پر۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ اس طرح سائے کی طرح چمٹی ہوتی ہے کہ ۔۔۔۔ کروڑوں انسان ۔۔۔ سڑک ۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔ لا ل بتی ۔۔۔۔ دیکھ ۔۔۔ کر رک جاتے ہیں ۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔ انسانوں کو بتا یا گیا ہے کہ ۔۔۔ سڑک چوراھے پر ۔۔۔۔ لا ل بتی ۔۔۔۔ بلا کی ۔۔۔۔ بتی ہے ۔۔۔ اگر تم نے ۔۔۔ اس لال بتی پر بریک نہ لگا ئی تو ۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ تم ۔۔۔ کو زندہ سنگسار کرسکتی ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔ اور لوگ ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔۔ کے خوف سے ۔۔۔۔ لا ل بتی پر بریکیں لگا دیتے ہیں ۔۔۔۔ پڑھے لکھے بلا کے خوف میں مبتال انسان سارا دن ۔۔ ۔ سڑک پر بلا کے خوف سے سپیڈنگ نہیں کرتے ۔۔۔ بلا کے خوف سے جاب پر فلرٹ نہیں کرتے ۔۔۔۔ بلا کے خوف سے ۔۔۔ مال میں عورت کو ھا تھ نہیں لگا تے ۔۔۔ بلا کے خوف سے ۔۔۔ بیوی کو زبردستی نہیں کرتے ۔۔۔۔ بلکہ کچھ لوگ تو بلا کے خوف سے ۔۔۔۔ جاب پر سیا ست پر با ت بھی نہیں کرتے کہتے ہیں میں پا لیٹس پر با ت نہیں کرتا کہیں بلا میری جاب نے ختم کردے ۔۔۔۔۔ سارا دن ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کے خوف ڈر سے ۔۔۔۔ زندگی گزارنے کے بعد ۔۔۔۔ یہ سارے پھدو انسان کہتے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ھم چنگے والے شہری ہیں ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کی عزت کرتے ہیں ۔۔۔ بلا ۔۔۔جو حکم دیتی وہ حکم بجا لاتے ہیں ۔۔۔ ھم بلا سے بہت خوش ہیں ۔۔۔ کما تے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ خرچتے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔ کھا تے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔ رھتے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔ ہوٹلنگ کرتے ہین تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔ فلا ئی کرتے ہیں تو بلا کو ٹیکس دیتے ہیں ۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔ بلا کی حکم عدو لی پر ۔۔۔۔ سوفیصد ۔۔۔۔ بلا ۔۔۔۔۔۔ ان ۔۔۔ انسان کی ۔۔۔۔ زند گی ۔۔۔ جیلوں اور عذا ب سے بھر دے گی ۔۔۔۔۔۔۔ تومیری جان ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کے خوف کے بغیر تو ۔۔۔ مغر ب میں زند گی کا تصور ہی نہیں ہے ۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے ۔۔۔ بچپن میں جس نے بھی آپ کو بلا کے بارے میں ڈرایا ۔۔۔۔ اس کو ڈرانے کا ۔۔۔ ول ۔۔۔۔ نہیں آتا تھا ۔۔۔ ورنہ جو بچے بچپین میں بلا سے ڈرنا سیکھ جا تے ہیں ۔۔۔ وہ زند گی کی ایسنس کو سمجھ جا تے ہیں ۔۔۔۔ اور مغر ب میں بھی جو انسان ۔۔۔ بلا ۔۔۔ سے ڈرنا سیکھ لیتا ہے ۔۔۔ اور بلا سے ڈرتا رھتا ہے ۔۔۔ اور بلا کے حکم بجا لاتا رھتا ہے اس کو ۔۔۔۔۔ بہترین لاء ابا ئیڈ نگ سیٹیزن ۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ۔۔۔ ۔۔ اورجو ۔۔۔ با غی ۔۔۔ بلا کو ٹیکس نہ دے ۔۔۔ بلا کو چیلنج کرے ۔۔۔ بلا کے احکاما ت سے انکاری ۔۔۔ بلا ۔۔۔ اس کو جیل میں قید کرد یتی ہے ۔۔۔ مجھے حیرت ہے آپ بلاؤں سے نہیں ڈرتے اور ابھی ۔۔۔ جیل نہیں گئے ۔۔۔۔ پس تحریر ۔۔۔ مہربانی فرما کر ۔۔۔ بلا ۔۔۔ کو ۔۔۔ طاقت حکومت ادارے وردی پولیس نہ سمجھ لیجئے گا ۔۔۔۔ یہ صرف سمجھا نے کے لیئے ہے ۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    گلٹی صاحب۔۔۔ قرار صاحب کا نکتہ یہ ہے کہ اگر آپ لوگ مانتے ہیں کہ خدا ہی بیماری لاکر انسانوں کو مار رہا ہے، کسی کے بچے کو ماررہا ہے، کسی کی ماں کو، کسی کے بھائی کو اور تڑپا تڑپا کر ماررہا ہے تو پھر آپ کو اس سے محبت کیوں ہے جو آپ کو تکلیف دیتا ہے؟  اس بیماری کو تو سٹاک ہوم سنڈروم کہا جاتا ہے کہ اپنے قاتل سے ہی محبت ہوجانا۔ میں نے اپنے تئیں مسلمانوں، خاص کر پاکستانی عوام کے اس رویے کی توجیہہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

    آپ نے کہا کہ بچوں کو باپ سے بھی ڈرایا جاتا ہے، ریاست کے قوانین کی پابندی پر بھی ڈرا کر مجبور کیا جاتا ہے۔۔ میری نظر میں یہ مذہبی برین واشنگ سے کافی مختلف باتیں ہیں۔ باپ سے ڈرایا جاتا ہے تو باپ سامنے موجود ہوتا ہے، کوئی ان دیکھی چیز نہیں ہوتا، جب باپ بچے سے پیار کرتا ہے اور اس کو ضرورت کی چیزیں لاکر دیتا ہے تو بچہ جان جاتا ہے کہ اس کو خوامخواہ ڈرایا جاتا ہے، اس کا ڈر دور ہوجاتا ہے۔  آپ نے ریاست اور ریاستی قوانین کی بات کی۔ یہاں بھی میں آپ کو مغربی معاشرے اور پسماندہ معاشرے کی مثال دیتا ہوں۔  مغرب میں شہری کو چونکہ پتا ہوتا ہے کہ ریاست اس کی محافظ ہے، کوئی فرد یا ادارہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا اگر کرے گا تو اس کے پاس اس زیادتی کے ازالے کے راستے ہیں، اس لئے وہ خوف یا عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ حکومت پر تنقید بھی کرسکتا ہے، وہ حکومت کے خلاف احتجاج بھی کرسکتا ہے، وہ حکومت کو برا بھلا بھی کہہ سکتا ہے۔

    دوسری طرف آپ ذرا پاکستان اور ہندوستان کے ماضی کے جاگیردارانہ دور کے ایک گاؤں کی مثال لیجئے جس میں ایک سردار اور جاگیردار پورے گاؤں کے لوگوں کی زندگیوں کا مالک ہے، وہ چاہے تو ان کو اپنے گاؤں سے نکال دے، چاہے تو انہیں مارے پیٹے، چاہے تو ان کا دانہ پانی بند کردے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس گاؤں کے سبھی لوگ اپنے سردار کے آگے جھکتے ہیں، اس کی مالا جپتے ہیں، اس کے خلاف کوئی بات کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، اس کو اپنا مائی باپ کہتے ہیں، بھلے وہ ان کے ساتھ جتنا مرضی سلوک کرے۔۔ یہ نتیجہ ہے اس خوف اور عدم تحفظ کے احساس کا جو وہاں ان پر مسلط ہے۔۔ہندوستان کی کئی پرانی فلمیں ہیں جن میں ایسے جاگیردارانہ نظام میں دبے لوگوں کو دکھایا گیا ہے جو اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کے ہی اسیر ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی ان کو اس جبر سے آزاد بھی کرانا چاہے تو وہ تیار نہیں ہوتے۔۔

    مذہب کی واردات بھی بالکل ایسی ہی ہے، انسان کو بچپن سے خدا سے ڈرا ڈرا کر اسے ان دیکھے خوف کے حصار میں جکڑ دیا جاتا ہے، اوپر سے اگر اس کے معاشی حالات دگرگوں ہوں اور وہ غیر محفوظ معاشرے میں رہتا ہو، تو پھر اس کا خوف اور عدم تحفظ کا احساس اسے مزید خدا سے چمٹنے سے مجبور کردیتا ہے اور وہ ہر وقت اس خدا کو خوش کرنے میں لگا رہتا ہے، اس کے ساتھ جب بھی کچھ برا ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ خدا اس سے ناراض ہے ، میں ایک ایسی خاتون کو جانتا ہوں، جس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، ایک خاوند تھا، ہنسی خوشی وہ رہتے تھے، پہلے اس کا خاوند فوت ہوا، پھر دو سال بعد جوان بیٹا، پھر دوسرا بیٹا۔۔ اب وہ خاتون اتنی مذہبی ہوچکی ہیں کہ ہر وقت خدا سے معافیاں مانگتی رہتی ہے، نمازیں پڑھتی ہے، اپنے خدا کے قہر سے بچنے کیلئے اس سے “محبت” کا اظہار کرتی ہے۔ یہ ہے  خوف اور عدم تحفظ کا احساس۔ اسے لگتا ہے کہ اگر وہ خدا کو خوش رکھے تو شاید وہ اس کے مزید عتاب سے بچ جائے۔۔

    جہاں تک آپ کی یہ دلیل کہ بلا کا خوف لوگوں کو برے کاموں سے باز رکھنے کیلئے ضروری ہے تو میں اس بات سے کسی حد تک متفق ہوں کہ اگر لوگوں کو اخلاقی برائیوں سے روکنے کیلئے کسی بلا وغیرہ کا مناسب مقدار میں خوف دلایا جائے تو یہ کوئی بری بات نہیں، اور شاید زیادہ نہ سہی تو کہیں ایک آدھ پرسنٹ یہ فارمولا شاید کام کرجائے۔۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مذہب میں جس بلا کا خوف دکھایا جاتا ہے، وہ اخلاقی برائیوں سے روکنے کیلئے کم اور دوسروں سے نفرت کرنے اور اس بلا کے نام کے تحفظ ، اس کو توہین اور اہانت سے بچانے کیلئے زیادہ دکھایا جاتا ہے۔ اسی لئے لوگ مذہب کے نام پر اخلاقی برائیوں سے باز تو نہیں آتے، ہاں خدا کے نام پر لڑنے مرنے، کافروں کو بددعائیں دینے اور خدا کو نہ ماننے والوں کی گردن کاٹنے کیلئے ہر دم تیار نظر آتے ہیں۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #16
     اسی لئےقرآن میں فرمایا (خلاصہ آیت ) کہ انسان بہت ناشکرا ہے

    میں نے کئی جگہ قرآن میں یہ پڑھا ہے کہ “اللہ میاں” کبھی انسان کو ناشکرا کہتا ہے، کبھی بے صبرا کہتا ہے، ایک طرف تو  “اللہ میاں” کہتا ہے کہ انسان کو میں نے بنایا ہے، دوسری طرف وہ اپنی ہی بنائی ہوئی چیز کی خامیاں بھی نکالتا ہے۔۔۔ اگر انسان کو “اللہ میاں” نے ہی بنایا ہے تو انسان کے ناشکرے اور بے صبرے ہونے کا الزام بھی تو “اللہ میاں” پر جاتا ہے۔۔

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #17

    میں نے کئی جگہ قرآن میں یہ پڑھا ہے کہ “اللہ میاں” کبھی انسان کو ناشکرا کہتا ہے، کبھی بے صبرا کہتا ہے، ایک طرف تو “اللہ میاں” کہتا ہے کہ انسان کو میں نے بنایا ہے، دوسری طرف وہ اپنی ہی بنائی ہوئی چیز کی خامیاں بھی نکالتا ہے۔۔۔ اگر انسان کو “اللہ میاں” نے ہی بنایا ہے تو انسان کے ناشکرے اور بے صبرے ہونے کا الزام بھی تو “اللہ میاں” پر جاتا ہے۔۔

    اللہ میاں نے یہ بھی بتایا کہ انسان کو شعور و عقل دی جو کسی اور جاندار کو نہیں دی یعنی انسان اپنا اچھا برا خود سوچ سکتا ہے، جب کسی میں اچھے اور برے راستے کی تمیز کرنی آتی ہو تو برے راستے پر جانے کی ذمہ داری بھی اس کی اپنی ہوگی

    کاریں بنانے والی کمپنیاں ہر ماڈل کی ہزاروں کاریں بناتی ہیں  مگر ان میں دو چار ضرور پرابلم کرتی ہیں جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ چلانے والا اناڑی تھا جو ٹوٹے پھوٹے راستوں پر گاڑی کو تیز بھگاتا رہا اور ٹائم پر اس کا آیل چینج نہیں کروایا، ٹائر نہیں بدلواے، کولنگ کیلئے انجن پانی نہیں ڈالا حتی کہ ڈھلوان پر پارک کرنے  کے بعد ہینڈ بریک نہیں لگای، اس کے بعد اگر گاڑی چلتے چلتے بند ہوجاے یا دھلوان سے لڑھک جاے تو قصور کس کا ہوگا کمپنی کا یا کار چلانے والے کا؟

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #18
    کرونا الله کا عذاب نہ سہی اس کی طرف سے بھیجے گئے ایک چھوٹے سے کیڑے کے کمالات ہیں جنہوں نے سائنس کو چاروں شانے چٹ کر دیا ہے – جو ابرا کے ہاتھیوں
    کے لشکر پر ابابیلوں کے کنکر کے حملے پر ہنستے تھے اب یہ نہ نظر آنے والی مخلوق بھی دیکھ لو جس نے تمھیں اندھا کر دیا ہے بے شک الله چاہے تو پل میں تمھیں نیست و نبوت کر دے اور چاہے تو مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رکھے – اب اللہ کا مذاق نہ اڑاؤ اپنی آنکھ سے دیکھ کر ورنہ جواب دو اس چھوٹی سی مخلوق کا بنانے والا کون ہے ؟
    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #19

    میں نے کئی جگہ قرآن میں یہ پڑھا ہے کہ “اللہ میاں” کبھی انسان کو ناشکرا کہتا ہے، کبھی بے صبرا کہتا ہے، ایک طرف تو “اللہ میاں” کہتا ہے کہ انسان کو میں نے بنایا ہے، دوسری طرف وہ اپنی ہی بنائی ہوئی چیز کی خامیاں بھی نکالتا ہے۔۔۔ اگر انسان کو “اللہ میاں” نے ہی بنایا ہے تو انسان کے ناشکرے اور بے صبرے ہونے کا الزام بھی تو “اللہ میاں” پر جاتا ہے۔۔

    Does anyone have a logical answer to this point??

    Why have we been given an option to Disobey by our creator ?

    Zed
    Participant
    Offline
    • Professional
    #20
    کرونا الله کا عذاب نہ سہی اس کی طرف سے بھیجے گئے ایک چھوٹے سے کیڑے کے کمالات ہیں جنہوں نے سائنس کو چاروں شانے چٹ کر دیا ہے – جو ابرا کے ہاتھیوں کے لشکر پر ابابیلوں کے کنکر کے حملے پر ہنستے تھے اب یہ نہ نظر آنے والی مخلوق بھی دیکھ لو جس نے تمھیں اندھا کر دیا ہے بے شک الله چاہے تو پل میں تمھیں نیست و نبوت کر دے اور چاہے تو مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رکھے – اب اللہ کا مذاق نہ اڑاؤ اپنی آنکھ سے دیکھ کر ورنہ جواب دو اس چھوٹی سی مخلوق کا بنانے والا کون ہے ؟

    What are you smoking these days?

    Science has shut down the holy of the holiest, Corona has exposed the reality of religion to masses. If you want to listen to your God than go for Ummrah, go visit religious shrines, go visit all the Dargahs, attend Tableeghi Jalsa, but if you want to listen to Science than sit at home in quarantine. Seems like most of humanity’s faith now is in Science and God is now on the back burner.

    One group of fundoos claim that this is a part of biological warfare of either Jews, Americans or China and the other group says this is an Azab of Allah for atrocities against Muslims, which one is it? :facepalm:

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 75 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi