Viewing 4 posts - 1 through 4 (of 4 total)
  • Author
    Posts
  • Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1
    charts-Economyl

    لاہور:‌(روزنامہ دنیا) تحریک انصاف نے 100 روزہ ایجنڈے کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس معاشی ڈھانچے کی پختگی اور تعمیر کا پورا خاکہ اور تصور موجود ہے۔ جو کہ کسی ایک طبقے کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کی اقتصادیات کی بحالی کا منصوبہ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں اب تک قومی اسمبلی کے 4 اجلاس ہوئے اور 1 سینٹ کے ساتھ مشترکہ اجلاس ہوا۔ اس طرح کل 5 اجلاس ہوئے۔

    حکومت کا بنیادی کام قانون سازی جو صرف ایک اجلاس میں ہوئی۔ دوسرے اجلاس میں فنانس ایکٹ میں ترامیم کی گئیں اورانکم ٹیکس لگائے گئے۔ سالانہ 4 لاکھ سے 8 لاکھ تک آمدن والوں پر بھی 1 ہزار ٹیکس لگا دیا گیا جبکہ 8 لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدن پر 2 ہزار ٹیکس لگا دیا گیا۔ اس طرح عوامی حکومت کا آغاز عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافے سے کیا گیا۔ اس سے پہلے کم آمدنی رکھنے والے افراد پر کوئی ٹیکس نہیں تھا۔

    تحریک انصاف نے اپنے 100 روزہ ایجنڈے کے لئے جو اہداف طے کئے، ان پر کتنا عمل ہوا مندرجہ ذیل ہے۔
    1- نوجوانوں کے لئے روزگار کی فراہمی
    100 روزہ ایجنڈے کے مطابق پانچ برس کے دوران ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کے لئے ملکی سطح کی حکمت عملی سامنے لائے جانے کا اعلان کیا گیا۔ حکومت نے 4 لاکھ نوجوانوں کو ہنر مند تربیت دینے کا اعلان کیا۔ 1 کروڑ نوکریوں کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کر دی گئی۔ ٹاسک فورس میں شامل افراد کے بارے میں تفصیلات نہ منظر عام پر آئیں اورنہ ہی اس کی پیشرفت کے بارے میں مختلف محکموں کے افسران کو کوئی علم ہے۔ اس ٹاسک فورس کے رپورٹ جمع کرانے کے بعد ہی تعین ہو گا کہ کس طرح نوکریاں فراہم کی جائیں گی مگر دور دور تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
    پہلا اعلان وزیر ریلوے شیخ رشید نے 23 ہزارآسامیاں پر کرنے کے لیے کیا مگراس میں سے 2031 آسامیاں پر کرنے کی وزیراعظم نے منظوری دی۔ اس سلسلے میں آسامیوں کا اشتہار 17 نومبر 2018 کو دیا گیا۔ جس کے تحت بھرتیاں کی جائیں گی۔ مگراعلان کے برعکس 100 دنوں میں یہ نوکریاں بھی نہ دی جا سکیں گی۔
    2- پیداواری شعبے کی بحالی اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی تیزی سے ترقی کی راہ ہموار کرنا
    تحریک انصاف کے پہلے 100 روزہ پلان کے مطابق پاکستان کی پیداواری صنعت کو عالمی منڈی میں مقابلے کی اہلیت سے آراستہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جانا تھے۔ اس ضمن میں کوئی ٹاسک فورس بنائی گئی نہ ہی اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سے کسی قسم کی مشاورت کا عمل جاری ہوا۔ ایجنڈے میں برآمدات کو فروغ دینے کا دعویٰ کیا گیا مگر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی ٹاسک فورس نہ بنائی گئی اور تاحال چھوٹے اور درمیانی درجے کے کاروباری افراد خام مال کی مہنگائی سے پریشان ہیں۔ ان کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے جبکہ عوام کی قوت خرید میں کمی سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد فکرمند ہیں۔
    ان کی رائے میں اسی طرح کچھ عرصہ میں انہیں اپنے کاروبار بند کرنے پڑیں گے اور اس سے ان کے ہنرمند مزدور بے روزگار ہو جائیں گے۔ برآمدات پر چھوٹ دینے کا بھی ایجنڈے میں کہا گیا مگرکاروباری افراد کاروبار جاری رکھنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیںؕ برآمدات تو ان کے مطابق دیوانے کا خواب ہے۔ مزدوروں کی حفاظت کے لیے وفاقی سطح پر لیبر پالیسی متعارف کی جانی تھی مگر تا حال کوئی مسودہ نہیں پیش کیا گیا۔ چھوٹے کاروبار کے لیے نوجوانوں کوآسان شرائط پر قرضے کی سہولت دینے کااعلان کیا گیا تاہم قرضے دینے کا طریقہ کاراور دیگر امور پر واضع پالیسی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے یہ ابہام پیدا ہو گیا ہے کہ کن صنعتوں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس سلسلے میں نہ کوئی اشتہار جاری کیا گیا ہے نہ ہی معلوماتی سیمینار منعقد کیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے عام شہری کی اس سہولت تک رسائی اپنے آپ میں ایک جدوجہد ہے۔

    3- پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے لئے پالیسی
    100 روزہ ایجنڈے کے مطابق نجی شعبے کے تعاون سے پانچ برسوں میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کی جانے کا منصوبہ دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنا گھر پروگرام کے نام سے پراجیکٹ لگانے کااعلان کیا تھا۔ 17 رکنی ٹاسک فورس بنائی گئی۔ پروگرام شروع ہوتے ہی پہلا کام پراجیکٹ کا نام بدلنے کا کیا گیا۔ نیا پاکستان ہاوسنگ اتھارٹی بنائی گئی۔ جس میں عوام سے فارم جمع کرانے کا کہا گیا۔ شروع میں چند شہروں تک یہ پروگرام محیط تھا بعد میں توسیع کا اعلان کرتے ہوئے اسے پھیلایا گیا۔ بہاولپور کے ضلع میں انکشاف ہوا کہ فارم جمع کرانے کا نظام ہی نہیں۔ فیصل آباد میں 7 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔
    ذرائع کے مطابق فیصل آباد شہر میں حکومت کے پاس جگہ ہی نہیں جہاں گھر بنائے جا سکیں۔ صوبائی وزیر نے پنجاب ہاوسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم کیلئے دستیاب اراضی کی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی جس سے حکومتی دعووں کا پول کھل گیا ۔وفاقی سطح پر وزیراعظم کی نگرانی میں سب کمیٹیاں کراچی اور اسلام آباد کے لیے قائم کر دی گئی ہیں۔
    سب کمیٹیاں متعلقہ صوبے میں منصوبے کی مالیت، طریقہ کار، گھر کی فراہمی، گھروں کی قسطوں اور بینکوں کے معاملات کی نگرانی کریں گی۔ 100 دن پورے ہونے سے دو دن پہلے 5 ارب روپے بھی جاری کر دینے سے کوئی گھر بننے سے تو رہا۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی عوام کو 100 دن ایجنڈے کے نام پر تاحال خالی اعلانات ہی دیے۔
    4- سیاحت کا فروغ
    تحریک انصاف کے 100 دن کے ایجنڈے کے مطابق ملک میں موجود سیاحتی مقامات کو بہتر بنانے اور نئے مقامات کی تعمیر کے لیے نجی شعبے سے سرمایہ کاری کیلئے فریم ورک مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ نجی شعبے سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کا حکومت نے اعلان کیا تھا۔ حکومتی گیسٹ ہاوسز کو ہوٹلز میں تبدیل کر کے عام عوام کے لیے کھولے جانے کا اعلان ببانگ دہل کیا گیا۔ مگر کس ڈیپارٹمنٹ کے گیسٹ ہاوسز یا اس عمل میں کن عمارتوں کا انتخاب کیا گیا کوئی فہرست منظر عام پر نہیں آئی۔
    متعلقہ حکام اس قدم کے سوالات پر لاعلم تھے کہ کون سا مرد مومن ٹاسک فورس لے کر اس جہاد پر نکلا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کم از کم 4 نئے سیاحتی مقامات دریافت کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ مگر اس ضمن میں بھی کسی سرکاری افسر نے اس دعوے کے والی وارث کا دروازہ نہیں دکھایا جس سے 100 دنوں میں اس پر کیے جانے والی پیشرفت پر بات کی جا سکتی۔
    پنجاب ہائوس مری کو ہوٹل جبکہ گورنر ہاوس پشاوراور لاہور کو میوزیم میں تبدیل کیے جانے کی منظوری وزیراعظم نے دے دی۔ چند دن بعد انکشاف ہوا کہ گورنر ہائوس میں موجود دفاتر کے لیے کوئی نئی جگہ ڈھونڈنی پڑے گی۔ چمبہ ہائوس کو گورنر ہاوس میں تبدیل کرنے کی تجویز سامنے آئی۔ اب گورنر ہائوس کے اتنے بڑے سٹاف کے لیے تین کمروں کا چمبہ ہائوس چھوٹا پڑتا محسوس ہوا تو اس ارادے کو بھی ترک کر دیا گیا۔ گورنر ہائوس پنجاب کے ہی پلان میں ردو بدل کر کے مخصوص اوقات میں چند حصے عوام کے لیے کھول دیے گئے۔ ان حصوں کو بعد میں مزید محدود کر دیا۔
    اس طرح گورنر ہاوس کی تبدیلی کا ایجنڈا قصہ ماضی ہو گیا۔ اسی طرح اگر صوبائی سطح کا جائزہ لیں تو سندھ گورنر ہاوس کی بھی کہانی ایسی ہے۔ بلوچستان حکومت نے اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہ کی۔
    وزیرسیاحت خیبرپختونخوا نے حکومتی 100روزہ ایجنڈے کو بڑھاتے ہوئے 10 نئے سیاحتی مقامات دریافت کر کے آباد کرنے کا اعلان کر دیا۔ پہلے چار کی تلاش میں ہی ہم مارے مارے پھر رہے تھے۔ سہولت یہ ہوئی ہے کہ اس کے ساتھ سیاحتی پولیس فورس بنانے کا اعلان کیا گیا ہے جس دن وہ نظر آ گئے ان سے ہی ان مقامات کا پوچھ لیں گے۔ 100 دن تو پورے ہونے کو ہیں مگر یہ سہولیات کس طرح عوام تک پہنچیں گی یہ کسی عوامی نمائندے کو تاحال نہیں پتا۔ تحریک انصاف کو پتہ ہوتا کہ یہ کتنے دنوں میں ممکن ہے توغالباً ان کو 100 دن کے اہداف میں شامل نہ کرتے۔
    5- ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں اصلاحات
    100 روزہ ایجنڈے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ کا میرٹ پر تقرر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تقرر تو ہو گیا مگر تاحال نوٹس جاری ہونے کے علاوہ کوئی ٹیکس اصلاح متعارف نہیں ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کیلئے اصلاحاتی پروگرام متعارف کروانے کا اعلان کیا۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ماہر کو میرٹ پر تعینات کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اگر اصلاحات تحریک انصاف نے لانی تھیں۔
    معیشت کی بحالی اور قرضوں پر انحصار کم کرنے کیلے کاروبار دوست اور عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی لاگو کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مگر حالیہ لگائے گئے ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹیاں عوام و کاروبار دوست ہوں یا نہ ہوں مگر قرضوں پر انحصار نہ کم کر سکیں۔ پاکستان کو نہ صرف دوست ممالک سے مدد مانگنی پڑی بلکہ اس کے باوجود آئی ایم ایف کو مدد کے لیے درخواست جمع کرانا پڑی۔ جن سے معاملات طے پانے کے مراحل پر ہیں۔ فنانس بل لا کر ٹیکسز لگائے گئے اس کے ساتھ ساتھ درآمدات میں کمی لانے کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی۔ اس سے تجارتی خسارے میں کمی آئے نہ آئے مگر امید ضرور ہے۔
    ٹیکس کے متعلق عدالتوں میں کیسز کو جلد حل انجام تک پہنچایا جانے کا عزم کیا گیا مگر اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ایف بی آر سے ٹیکس پالیسی کا اختیار لے لیا گیا ہے۔ اس وقت ایف بی آر صرف ٹیکس اکھٹا کررہا ہے۔ پالیسی کی تشکیل کے لیے بورڈ بنا دیا گیا ہے۔ 100 دن پورے ہونے کو ہیں مگرکوئی تبدیلی نظر میں نہیں آرہی۔
    6- پاکستان کو کاروبار دوست ملک میں بدلنا
    پانچ برس میں پاکستان کو کاروبار کی عالمی درجہ بندی میں 147 سے 100 نمبر پر لانا فہرست میں شامل ہے مگرتحریک انصاف نے 100روزہ پلان میں بھی اسے ڈال دیا۔ پاکستان میں کاروبار کرنے کو آسان بنانا، سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنا، غیر ملکی پاکستانیوں کو پاکستانی معیشت کے دھارے میں لانا، برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں”کونسل آف بزنس لیڈرز” قائم کرنا مندرجہ بالا اہداف حاصل کرنے کی حکمت عملی مرتب کرنا مقصود تھا۔
    22 رکنی بزنس کونسل بن گئی ہے مگر کوئی پالیسی اس کی طرف سے وزیراعظم کو نہیں جمع کرائی گئی۔ اس پر فیڈرل چیمبر آف کامرس نے اعتراض بھی کیا ہے کہ اسے اس کونسل میں نمائندگی نہیں دی گئی۔ اگر تاجر برادری کی نمائندہ تنظیم اس عمل میں شامل نہیں تو بڑے پیمانے پر اس سے وابستہ لوگوں کے مسائل کون حل کرے گا۔

    ملک کو کاروبار دوست بنانے کے برعکس بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے فیکٹریوں اور کاروبار کرنے کے اخراجات مزید بڑھ گئے ہیں۔ انٹر نیشنل انجینئرنگ ٹریڈ فیئرمنعقد کرایا گیا۔ پاک چین بزنس ایکسپو کا اہتمام کیا گیا مگر پاکستانی اشیا نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ٹی ڈیپ کے ذرائع کے مطابق پاکستانی صنعتیں اب پہلے سے ابتر حالات میں ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کر نے کی دعوت دی گئی اور اعلانات کیے جاتے تھے کہ اربوں کی ریل پیل ہو جائے گی مگر بیرون ملک ترسیلات کے اعداد و شمار میں کوئی واضع فرق نہیں آیا۔ اب تک کوئی بڑی سرمایہ کاری عمل میں نہیں آئی۔ معاشی ماہرین کے مطابق اگر سٹاک ایکس چینج کے اعدادو شمار پر نظردوڑائی جائے تو بیرون ملک سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔
    7- ریاستی اداروں کی تنظیم نو
    تحریک انصاف نے “پاکستان ویلتھ فنڈ” کے قیام کے ذریعے ریاست کے زیر ملکیت اداروں میں انقلاب کی بنیاد رکھنے کااعلان کیا تھا۔ عوامی ملکیت کی صنعتیں وزارتوں سے الگ کر کے آزاد بورڈ آف گورنرز اور بہترین صلاحیتوں کے حامل منتظمین کے حوالے کی جانی تھیں مگر تاحال ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کی ابتدا ہنگامی طور پر ائیر لائن، ریلویز، توانائی پیدا کرنے والے ادارے اور تقسیم کار کمپنیاں سے کرنے کا عزم کیا گیا مگراکتفا دفتری اوقات کو صبح 8 سے شام 4 بجے کی بجائے صبح 9 بجے سے 5 بجے تبدیلی پر کیا گیا۔
    اس کے ساتھ وزیراعظم پاکستان نے تمام اعلیٰ شخصیات کے فرسٹ کلاس میں فضائی سفر پر پابندی کے ساتھ ساتھ خصوصی طیارے پر بھی قدغن لگائی مگر چند ہی دنوں میں اپنے احکامات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے خصوصی طیارے پر سعودیہ روانہ ہو گئے۔ وزارت خزانہ نے تمام افسرں کے سفری اخراجات بھی محدود کیے۔ ملاوٹ کرنے والے عناصر کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔ وزیراعظم کے عزم کی تکمیل کے لیے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں 19 ممبران پر مشتمل ٹاسک فورس بنائی گئی جو کہ اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی۔ 100 روز مکمل ہونے کو ہیں مگر رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا مکمل رپورٹ تو نہیں پیش ہو سکتی مگر جزوی دے دی جائے گی۔ یادرہے ڈاکٹر عشرت حسین جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی 11 رکنی “قومی کمیشن برائے حکومتی اصلاحات ” کی بھی سربراہی کے فرائض ادا کر چکے ہیں جس کے آخر میں صرف ایک رپورٹ شائع کی گئی اورعملی طور پر اصلاحات لانے کے ضمن میں کچھ نہ کیا گیا۔
    8- توانائی کے بحران کا خاتمہ
    تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد سستی بجلی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا مگر تین ماہ میں متعدد بار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ گردشی قرضے کے اسباب پر توجہ دیے جانے اور ریگولیٹری ریفارمز لا کر کرایہ پر چلنے والے ماڈل سے نجات کا دعویٰ کیا گیا۔ بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کی منظوری دی گئی۔ اس کے بعد ملک کے تمام حصوں میں بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید دو گیس کمپنیاں بنانے کی منظوری دے دی۔ اس کے باعث انتظامی طور پرموجودہ کمپنیوں پر بوجھ کم ہو جائے گا اور صارفین کو بہتر سروس ملے گی۔

    پنجاب کے دو ایل این جی پاور پلانٹس کی نجکاری کا فیصلہ لیا گیا۔ سعودی عرب سے ادھار تیل حاصل کیا گیا۔ گوادر میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر آئل سٹی بنانے پر اتفاق ہوا۔ اس بارے میں جب حکام سے پوچھا گیا تو تا حال کوئی پیش رفت نہ ہونے کا بتایا گیا۔ آئندہ 25 سالوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے انرجی پالیسی بنانے کا اعلان کیا گیا۔ بلوچستان میں 20 ہزار گھروں کے لیے ایک میٹر ریڈر ہے کا جاننے کے بعد وزیراعظم نے انتظامی طور پر بہتریاں لانے کے لیے یہ تجاویز مانگ لیں۔
    پنجاب کابینہ نے توانائی منصوبوں کے بارے میں جملہ امور کا جائزہ لینے اور قائداعظم سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کے پراجیکٹ سے متعلقہ امور طے کرنے کیلئے عبدالعلیم خان کی سربراہی میں کمیٹی بھی بنا دی۔
    9- پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو حقیقتاً انقلابی منصوبہ بنانا
    تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد پاک چین راہداری منصوبے کو انفراسٹرکچر پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ اقتصادی راہداری بنانے کا وعدہ کیا۔ چین کے ساتھ مل کر زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں ترقی کو یقینی بنایا جانا بھی 100 روزہ پلان کا حصہ تھا تاہم تاحال حکومت نے نیا ورکنگ گروپ بنایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ 2 فوکل پرسن مقرر کیے ہیں۔ وفاقی کابینہ کی سی پیک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا چیئرمین خسرو بختیار کو مقرر کیا گیا ہے۔
    10- شہریوں اور صنعت کاروں کی مالی وسائل تک رسائی میں اضافہ
    حکومت کے پہلے 100 دنوں میں عام شہریوں اور صنعتوں کی سرمائے تک رسائی کو آسان بنایا جانا تھا۔ قومی مالیاتی شراکت داری کی حکمت عملی کے نافذ کرنے میں اور ڈیجیٹل نظام سے بھرپور فائدہ اٹھایا جانا تھا۔ بچت کے کلچر کو فروغ دیتے ہوئے پاکستان کے بینکوں میں رکھے گئے سرمائے کو جی ڈی پی کے 50 فیصد تک لایا

    جانا تھا۔ بڑے منصوبوں کے لیے درکار سرمائے کی فراہمی کے لیے ایک نیا انفراسٹرکچر بینک بنانے کا عزم کیا گیا تھا۔

    poll

    • This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
    Shah G
    Participant
    Offline
    • Professional
    #2
    کارکردگی تسلی بخش ہے نواز و زرداری سے تو کہیں بہتر ہے
    .
    لیکن مزید بہتری کی گنجائش بھی ہے
    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #3
    آج نعیم بخاری نے وہ بات کھ دی جو سچ ہے کہ سو دنوں والی بات سیاسی تھی خان کو وقت دیں – یہ بات خان حکومت کو تسلیم کرنی چاہہے کہ یہ ایک سیاسی نہرا تھا الیکشن جیتنے کے لئے ورنہ سو دن کچھ نہیں ہوتے – جہاں تک تحلق ہے خان حکومت کی کارکردگی کا تو سو دن میں کچھ حاصل کرنا بہت مشکل ہے اس لئے ان پر تنقید کی بجاہے فلحال وقت دینا ہی مناسب ہے البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ حکومت کے فیصلوں سے نہ تجربے کاری نظر آتی ہے اور الله کرے یہ نہ تجربے کاری ہی ہو نہ اہلی نہ ہو – باقی حکومت نے خود نو جوانوں کی امیدیں اتنی بڑھاہیں تھی کہ اگر ان میں سے کچھ مایوس ہیں تو انہیں بھی خان کو جادوگر کے درجے سے واپس لا کر انسان کا درجہ دینا ہو گا – میری خان حکومت سے واحد امید یہ ہے کہ وہ ملک کو خود انحصاری کے راستے پر ڈالیں گے اس کے لئے ضروری نہیں کے پانچ سال میں قرضوں پر انحصار مکمل کاحتم ہو جائے مگر آمدنی اتنی ضرور بڑھ جائےکہ قرضوں پر انحصار پانچ سالوں میں آدھا رہ جاہے اور اس سے اگلے پانچ سالوں میں سی پیک اور آمدنی بڑھنے سے مکمل ختم ہو جاہے -کیا میری یہ امید بہت بڑی ہے ؟
    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #4
    سو دن کی حکومتی کارکردگی معروف شخصیات کی نظر میں

    لاہور: (احمد ندیم) تحریک انصاف کی حکومت کی سو دن کی کارکردگی کے حوالے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات نے اپنی رائے دی۔ ان شخصیات سے 4 نکات پر مشتمل سوالات پر بات کی گئی جن میں حکومت کی 100 دن کی کارکردگی، حکومت اپنے دعووں پر عمل کر سکی، حکومتی مقبولیت میں اضافہ ہوا یا کمی اور کیا حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، شامل ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں ان شخصیات نے اپنا تجزیہ کن الفاظ میں پیش کیا۔

    عارف حبیب (ماہرِ معاشیات )
    میرے خیال میں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی اوسط درجے کی رہی ہے۔ یہ اپنے دعوے تو پورے نہیں کر سکی مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت نے اپنے ابتدائی دن ماضی کی ادائیگیوں کے توازن میں گزارے ہیں اس لیے اپنے دعووں پر توجہ نہیں دے سکے۔ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے اور نئی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ حالات ایسے نظر نہیں آتے کہ حکومت کو کوئی خطرہ ہوسکتا ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کریگی۔
    معین الدین حیدر (تجزیہ کار)
    میں سمجھتا ہوں کہ ابتدائی سو دنوں میں تحریک انصاف کی کارکردگی بہتر نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تو ملک کو بڑے سخت قسم کے چیلنجز درپیش تھے۔ اس لیے تحریک انصاف اپنے دعوے بھی پورے نہیں کر سکی۔ ایک اور اہم وجہ یہ تھی کہ موجودہ حکومت کے پاس تجربے کی بھی کمی تھی۔ اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے انہیں گورننس اچھی کرنی ہو گی اور آبادی پر کنٹرول کرنا ہو گا۔ ان کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ یہ حکومت اپنی مدت پوری کر لے گی۔

    عقیل کریم ڈھیڈی( ماہر معاشیات )
    میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کی کارکردگی بہتر رہی ہے البتہ عوامی توقعات پر پورے نہیں اتر سکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت نے اپنی توجہ مکمل طور پر احتساب پر مرکوز کی ہوئی تھی اور اس احتساب سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے دوسری جماعتیں مار دھاڑ کا تاثر لے رہی ہیں۔ اس حکومتی ٹیم کے کپتان کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا لیکن ٹیم کے اراکین کو مسائل کا علم نہیں ہے۔ اس حکومت کی مقبولیت کا گراف گرا تو نہیں ہے البتہ اضافہ بھی نہیں ہوا۔ یہ حکومت اپنی مدت پوری کر لے گی مگر پانچ سال کے دوران اسے ہر لمحے اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش رہے گا کیونکہ یہ حکومت اتحاد پر قائم ہے۔
    جنرل (ر) نعیم لودھی ( تجزیہ کار)
    میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کی کارکردگی مناسب ہے تاہم صرف ابتدائی سو دنوں کی بنیاد پر کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔ ایسا کرنا حکومت کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ یہ حکومت اپنے دعوے پورے نہیں کر سکی ہے مگر دعوے پورے کرنے کے لیے اسے مزید وقت دینا چاہئے۔ یہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریگی مگر اس عرصے کے دوران مسلسل بے چینی و عدم توازن کا شکار رہے گی۔ تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
    جنرل (ر) خالد مقبول (تجزیہ کار)
    تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی توقع کے مطابق نہیں رہی، حکومت اپنی عوام کے امیدوں پر پورا نہیں اترسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معیشت کمزور تھی۔ لوگوں میں عدم برداشت اور شدت پسندی کا رجحان بھی زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس حکومت کو اپنی ٹیم کو بہتر بنانا ہو گا۔ ٹیم کا کپتان ٹھیک اور پرعزم ہے مگر ٹیم کے اراکین اپنے شعبوں کے قابل نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ متعلقہ شعبوں کے مسائل کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں۔ تمام تر مسائل، رکاوٹوں اور عالمی سطح پر سیاسی حالت میں تغیرات کے باوجود یہ حکومت اپنی مدت پوری کر لے گی۔
    ناصرہ جاوید (ماہر قانون)
    اگر عملی طور پر دیکھا جائے تو حکومت کچھ نہیں کرسکی ہے۔ البتہ اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے کہ کسی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے سو دن بہت کم ہیں۔ تحریک انصاف نے جو وعدے کیے تھے وہ انہوں نے ایک طویل منصوبہ بندی کے تحت کیے تھے کیونکہ کوئی بھی وعدہ ایسا نہیں تھا جو سو دن میں پورا ہوسکتا اس لیے وہ وعدے پورے بھی نہیں کر سکے۔ حکومت کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اگرچہ حکومت کے لیے حالات سخت ہیں اور آئندہ بھی سخت ہی نظر آتے ہیں اس کے باوجود حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر جائیگی۔ اس حوالے سے میں سمجھتی ہوں کہ حکومتی مدت پانچ سے کم کر کے چار سال کر دینی چاہئے۔
    جسٹس (ر) شائق عثمان (ماہر قانون)
    کسی بھی حکومت کی کارکردگی دیکھنے کیلئے سو دن انتہائی کم ہیں۔ کارکردگی کا اندازہ کم از کم پانچ یا چھ ماہ کی کارکردگی دیکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے ابھی تک حکومت اپنے دعوے پورے نہیں کر سکی ہے ۔ اس ساری صورتحال کے باوجود حکومت کے مقبولیت کے گراف میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کے پاس واضح اکثریت نہیں ہے اس لیے نہ تو حکومت کوئی قانون سازی کر سکے گی اور نہ ہی کوئی کارکردگی دکھا سکے گی البتہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر جائیگی۔ حکومت کو واضح اکثریت کے لیے مڈٹرم الیکشن کی جانب توجہ دینی چاہئے۔
    فرزانہ باری (سماجی کارکن)
    میں سمجھتی ہوں کہ ابتدائی سو دنوں کے حوالے سے اگر بات کی تو تحریک انصاف کی کارکردگی خراب رہی ہے۔ انتخابات سے قبل کیے جانے والے دعووں کو حکومت پورا نہیں کر سکی ہے۔ ماضی کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ جو بھی پارٹی حکومت میں آجاتی ہے اس کی مقبولیت کم ہوجاتی ہے اسی طرح تحریک انصاف کے بھی حکومت میں آنے کے بعد اس کی مقبولیت میں واضح طور پر کمی ہوئی ہے جس کا اندازہ ضمنی انتخابات سے کیا جاسکتا ہے۔ تمام مشکلات و رکاوٹوں کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت اپنی مدت پوری کر لے گی۔
    جنرل (ر) امجد شعیب ( تجزیہ کار)
    تحریک انصاف کی سو دنوں کی کارکردگی مکمل طور پر تسلی بخش ہے اور اس کی نظام میں بہتری کی رفتار انتہائی مناسب ہے۔ انتخابات سے قبل ابتدائی سو دنوں کے لیے تحریک انصاف کی حکومت نے جو دعوے کیے تھے ان میں سے بیشتر پورے کردیئے گئے ہیں جبکہ بہت سے دعووں پر ابتدائی کام شروع کر دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت بدستور قائم ہے اور عوام اب بھی تحریک انصاف کی حکومت پہ ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ حکومت عوامی حمایت سے اپنی مدت پوری کر لے گی۔
    ماریہ سلطان (تجزیہ کار)
    تحریک انصاف کی کارکردگی اس قدر تسلی بخش نہیں رہی جس قدر وعدے کیے گئے تھے اور جو مسائل انہیں باہر بیٹھ کر نظر نہیں آ رہے تھے حکومت میں آتے ہی ظر آنے لگ گئے اور انہیں سمجھ لگ گئی کہ یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ میری نظر میں تحریک انصاف نے دعوے زیادہ کر دیئے اور ان کو پورا کرنے کیلئے 100دن کافی نہیں تھے، انہیں چاہیے تھا کہ حقائق کو سامنے رکھ کر وعدے کرتے جبکہ انہوں نے سیاسی بیان ہی دیئے لیکن ان کو پورا کرنے کیلئے کسی حد تک کوشش ضرور کی ہے۔ دوسرا ان کو یہ بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ وہ وعدے کریں جو آسانی سے پورے کر سکیں کیونکہ انہوں نے پارلیمنٹ میں جا کر اپوزیشن کو جواب بھی دینا ہے اور عوام کی عدالت میں بھی جانا ہے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے آتے ہی عوام پر مہنگائی بم گرانا شروع کر دیئے جن کی عوام ان سے توقع نہیں کر رہی تھی۔ یہ حکومت مدت پوری کرتی ہے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن میں صرف اتنا کہوں گی کہ امید پر دنیا قائم ہے۔
    فاروق حسنات (تجزیہ کار)
    ساری دنیا میں دستور ہے کہ جو پہلی بار اقتدار میں آئے اس کو وقت دیا جاتا ہے اس لئے تحریک انصاف کی حکومت کو وقت دیا جانا چاہئے کیونکہ اب تک کی ان کی کارکردگی تسلی بخش اسلئے ہے کہ انہوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ایک غلطی کی ہے کہ انہوں نے عوام کے سامنے اپنے دعوئوں کا معیار بہت اونچا بنا لیا تھا جس کو پورا کرنا ان کے لئے مشکل ہو گیا۔ اب عوام بھی یہی چاہتی ہے کہ جو معیار تحریک انصاف نے خود ہی بتایا ہے اس کو پورا کرے اور اسی وجہ سے انہیں عوام کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کہیں کم ہوئی ہے تو کہیں بڑھی بھی ہے اس لئے میرے نزدیک ان کی مقبولیت پہلے کی طرح قائم ہے اور یہ حکومت اپنی مدت لازمی پوری کرے گی کیونکہ حزب اختلاف مجبوری کے تحت پانچ سال ان کے لازمی پورے کرائے گی۔
    بریگیڈیئرریٹائرڈ سید غضنفر علی (تجزیہ کار)
    میرے نزدیک اس حکومت کی کارکردگی تسلی بخش رہی ہے کیونکہ کوئی ایسی حکومت نہیں ہے جو تیس سال کا گند فوری طور پر صاف کر سکے۔ اس سے پہلے کسی بھی جماعت نے ایسا نہیں کیا۔ یہ حکومت کرپشن کے خاتمے کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے مگر اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سارے حکومتی اقدامات عوام کو ابھی تو مشکل اور کٹھن لگ رہے ہیں اصل میں یہ پاکستان کے فائدے میں ہیں۔
    تحریک انصاف نے جتنے بھی وعدے کیے تھے انہیں کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی مقبولیت کے گراف کو پرکھنا تھوڑا سا مشکل ہے کیونکہ مقبولیت عوام کی نظر کہیں زیادہ ہوئی ہے اور کہیں کم۔ اپوزیشن میں خاص طور پر مولانا فضل الرحمان چاہتے ہیں کہ حکومت مدت پوری نہ کرے جبکہ پیپلز پارٹی اس نظام کو ڈی ٹریک نہیں کرنا چاہتی۔ البتہ عمران خان کو سخت مزاحمت دے رہی ہے۔
    برگیڈئیر (ر) محمود شاہ (تجزیہ کار)
    تحریک انصاف کی کارکردگی قطعی تسلی بخش نہیں ہے اور میری نظر میں اپنے وعدے پورے کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف نے ابتدائی دنوں کے لیے بہت بڑے دعوے کر دیئے تھے۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح یہ حکومت کام کر رہی ہے یہ مستقبل میں اپنے دعوے پورے کر لے گی۔ دعوے پورے نہ کرنے کا معاملہ اپنی جگہ ہے مگر تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے قیام کے فوری بعد تمام معاملات تحریک انصاف نے عوام کے سامنے رکھ دئے تھے جس سے عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ موجودہ صورتحال میں واضح طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی مدت پوری کرلے گی۔
    لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود (تجزیہ کار)
    تحریک انصاف کی کارکردگی میرے خیال میں نہ بری قرار دی جا سکتی ہے اور نہ بہتر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجربہ نہ رکھنے والی ایک حکومت سے بہت زیادہ کام ابتدائی دنوں میں ہی کر لینے کی توقعات قائم کرنا زیادتی ہے۔ یہ حکومت اپنے ابتدائی دنوں کے لیے انتخابات سے قبل کیے گئے دعوے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت کے پاس تجربے کی کمی تھی۔ حکومت کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے اور لوگ مایوس ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی توجہ مہنگائی میں کمی کی جانب تھی جس پر تحریک انصاف نہ صرف عمل نہیں کر سکی بلکہ کسی بھی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ناگزیر ہو گیا۔ یہ حکومت اپنی مدت پوری کریگی کیونکہ دوسری جماعتوں کے لیے بھی حکومت بنانا ممکن نہیں ہو گا۔
    مزمل اسلم ( معاشی تجزیہ کار)
    مجموعی طور پر حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے، جو وعدے اور دعوے کیے گئے وہ پورے نہیں ہوسکے۔ دیکھا جائے تو وہ وعدے پورے ہونے کا امکان تھا بھی نہیں۔ کیونکہ نوے روز میں ملک کی حالت بدلنے کا صرف دعویٰ ہی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عوام چونکہ یہ سب نہیں دیکھتی اس لیے ان کیلئے ان وعدوں میں کشش ہوتی ہے۔ مہنگائی کا ایک طوفان ہے جو برپا ہو چکا ہے۔ تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، نت نئے ٹیکسز کا بوجھ نہ صرف کاروباری طبقے کیلئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا بلکہ عام آدمی کے لیے بھی شدید مشکلات کا باعث بنا۔ حکومت اب تک صرف آسرے دے رہی ہے کوئی ایسی واضح پالیسی اب تک سامنے نہیں آ سکی جو یہ اطمینان دے سکے کہ حالات بہتر ہوسکیں گے۔
    سیاسی جماعتوں کی مقبولیت انکے اقدامات کی محتاج ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے بلند وبانگ دعوے خود انکے لیے گڑھا بن گئے۔ ظاہر ہے وہ دعوے پورے کرنا ممکن نہیں تھا۔ نتیجہ عوام میں شدید مایوسی کی صورت میں نکلا۔ عوام کی نظر میں وہ حکومت اچھی ہے جو کم ازکم روٹی، کپڑا اور مکان جیسی سہولت انہیں دے سکے۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت نے یہ تینوں بنیادی چیزیں عوامی دسترس سے دور کر دیں۔ ایسے میں اگر مقبولیت کی بات کی جائے تو یقینا یہ ایک مذاق ہو گا۔ جس طرح کے اقدامات اس وقت حکومت کر رہی ہے وہ عوام کی نظر میں پسندیدہ نہیں۔ اور اس صورتحال کا دیگر سیاسی جماعتیں بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ خواہش تو یہی ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے لیکن ڈلیور نہ کرنے کی صورت میں ظاہر ہے کہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
    جبران ناصر (سماجی رہنما )
    تحریک انصاف کی کارکردگی بالکل بھی تسلی بخش نہیں۔ اگر چاند تاروں کا وعدہ کرو گے تو چاند تارے لا کر ہی وعدہ پورا کیا جاسکتا ہے۔ وعدہ تو انکا کوئی بھی فی الحال پورا ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ سو دن میں تو کسی چیز کا وعدہ پورا نہیں ہوسکتا۔ سو دن میں گورنر ہاؤس کا لان کھول دیا لیکن بلڈنگ نہیں کھولی۔ سو دن میں گراؤنڈ بریکنگ ہوسکتی ہے۔ شیلٹر بنانے تھے تمبو لگا دیے۔ سو دن میں صرف آغاز ہو سکتا ہے، کام نہیں ہو سکتا۔
    کامیاب ہونگے یا ناکام یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن دعوؤں کے تناظر میں یہ کہہ سکتے ہیں وہ وعدے پورے نہیں ہوئے۔ سعودی عرب اور چائنہ سے کیا معاملات ہوئے کیا فیور لی ابھی تک پارلیمنٹ میں شیئر نہیں کر سکے۔ خود مختاری کی بات کرتے تھے، کشکول توڑنے کی بات کرتے تھے۔ آپ کہتے تھے پولیس کو سیاسی دباؤ کی بھینٹ نہیں چڑھنے دینگے۔ لیکن ہم نے دیکھا کبھی ڈی پی او ہٹ جاتا ہے اور کبھی آئی جی۔ تحریک انصاف کی مقبولیت تیزی سے گھٹتی نظر آرہی ہے۔ مقبولیت کیلئے منصوبے اور وعدوں کا رنگ لانا ضروری ہے۔ اچھے یا برے ہیں لیکن ہماری دعا ہے کہ یہ حکومت مدت پوری کرے۔
    نذیر لغاری (سینئر صحافی/ تجزیہ نگار)
    یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے کارکردگی دکھانے کی کوشش کی لیکن اس کوشش میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ حکومت کے پاس کوئی طریقہ کار نہیں تھا، کوئی مینجمنٹ سکل نہیں تھی، نہ ہی حکومت کو یہ معلوم تھا کہ اسکے پاس وسائل کتنے اور مسائل کتنے ہیں، حکومت نے لمبے چوڑے دعوے اور وعدے کر لیے جو پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، کارکردگی کو تسلی بخش بالکل نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے کسی قسم کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہی نہیں ہے۔ کسی خاص شعبے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ نہ اقتصادی شعبے میں کوئی کامیابی ہوئی ہے نہ ہی تعلیم کے سلسلے میں کوئی کامیابی ملی ہے، نہ روزگار کے سلسلے میں، بلکہ حکومت نے کئی معاملات میں پسپائی اختیار کی ہے۔ لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے بہت سے معاملات پر۔ حکومت نے روزگار دینے کے بجائے روزگار لیا ہے۔
    جو لوگ چھوٹا موٹا کاروبار کررہے تھے وہ ختم کردیا گیا۔ ٹھیلے الٹا دیئے گئے۔ حکومت کے دعوے کسی منصوبہ بندی کے بغیر تھے اور ویسے ہی پورے کرنے کا کوئی سوال نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، تعلیم وصحت کی سہولتیں بہترکرنے کے وعدے کیے تھے لیکن کوئی پلاننگ نہیں تھی۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ چھ آٹھ ارب ڈالر کے میٹرو کے منصوبے شروع کیے گئے، اب جب یہ مکان بنانے جارہے ہیں جو 180 ارب ڈالر کے منصوبے ہیں تو وہ فنڈز کہاں سے آئیں گے۔ اس ضمن میں بھی کوئی پیشرفت نہیں ہے۔ حکومت کی مقبولیت وہ نہیں رہی جو الیکشن سے پہلے تھی لیکن کسی نہ کسی طرح یہ حکومت پانچ سال پورے کر جائے گی۔
    مظہر عباس (سینئر صحافی/ تجزیہ نگار)
    ایک طرح سے حکومت کی کارکردگی تسلی بخش ہے بھی اور نہیں بھی۔ ایک چیز مثبت ہے کہ سو دن میں میگا سکینڈل نہیں ہے لیکن گورننس کے حوالے سے اچھی کارکردگی نظرنہیں آتی۔ پنجاب میں ہونیوالے فیصلوں پر وزیراعظم کو بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی کا جس طرح وہ دفاع کر رہے ہیں وہ بنتا نہیں۔ پنجاب میں وہ اتحادیوں کے دباؤ میں نظرآتے ہیں۔ پولیس ریفارمز نہیں کر پا رہے۔ غیر سیاسی پولیس نظر نہیں آئے گی کیونکہ وہاں اندرونی مسائل بہت ہیں۔ عثمان بزدار ایک کمپرومائزڈ امیدوار کے طورپر لائے گئے ہیں۔ پنجاب میں کارکردگی میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ بہت سی جگہوں پر جیسے کفایت شعاری چاہے وہ سمبالک ہو لیکن پیغام اچھا جاتا ہے مثبت ہیں چاہے وزیراعظم ہاؤس میں نہ رہنا ہو۔ لیکن اسکا پیغام یہ ہے کہ زندگی سادگی سے گزارنی چاہیے۔
    لااینڈ آرڈر کے حوالے سے وزارت داخلہ کا قلمدان عمراں خان کو نہیں سنبھالنا چاہیے۔ وزیرداخلہ کی ضرورت ہے۔ اکنامک ریفارمز کے حوالے سے کمنٹ کرنا ابھی بہت جلدی ہے لیکن یہ احساس ہو گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر گزارا نہیں۔ کرپشن کے حوالے سے بیانیہ ہے کہ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ کارروائی صرف ایک پارٹی کیخلاف ہوتی ہے یا غیرجانبداری نظر آئے گی؟ نہیں نظر آئی تو صرف حکومت ہی نہیں نیب کو بھی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عمران خان کے دورے یقین دہانیوں کے لحاظ سے مثبت ہیں لیکن بہت سے ایسے معاہدے ہوئے ہیں جن کے نتائج شاید آگے چل کر نظر آئیں۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اپوزیشن کا رول کیسا ہے۔ جو تحریک انصاف نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے ادا کیا، خوش قسمتی سے پی ٹی آئی کو ویسی اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
    خارجہ پالیسی کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اقدامات بھی قابل تعریف ہیں۔ خاص طور پر کرتار پور بارڈر کھولنے کا قدم دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ ہم پرامن قوم ہیں اور ہمسایوں سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ سو دن کا ٹارگٹ جو مقرر کیا تھا وہ سمت کے تعین سے متعلق تھا۔ ہم اسے غلط نظر میں دیکھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتیس نومبر کے خطاب میں دی گئی تجاویز کو عملی شکل دیں گے یا نہیں۔ عملی اعلانات ہونے ہیں، یہ بنچ مارک انہوں نے خود طے کیا کہ سو دن میں ہم اپنی سمت کا تعین کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سمت کا تعین کس طرح کیا جائے گا۔ اب انہوں نے ان تمام چیزوں کا پلان دینا ہے۔ سو دن کی کارکردگی کسی بھی حکومت کو جج کرنے کیلئے کافی نہیں ہوتی۔ گیس، سی این جی، بجلی کی قیمتیں اوپر گئی ہیں۔ ڈالر کرائسز کھڑا ہوا۔ لوگ ان سے خوش نہیں ہیں۔ مہنگائی بڑھی ہے۔ اثر پڑا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ قربانی دیں تو لوگ بھی سوال کرتے ہیں کہ چوری ڈاکے کی وصولی عوام سے کیوں کی جارہی ہے۔
    ان فیصلوں سے ہوسکتا ہے کہ انکی مقبولیت جو پچیس جولائی کو تھی اس میں کمی آئے گی لیکن لوگ پھر بھی انہیں وقت دینا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ابھی بڑا احتجاج نہیں ہوا۔ اسکا ٹیسٹ اگلے سال بلدیاتی انتخابات میں ہو گا۔حکومت مدت پوری کرے گی، اور مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان کو اس حوالے سے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
    پروفیسر توصیف احمد (ماہر تعلیم )
    حکومت کی اب تک کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے، کیوں کہ حکومت سے قبل جو تبدیلی کے، کرپشن اور مہنگائی کے خاتمے کے نعرے لگاتے رہے وہ کہیں نظر نہیں آتے، گورننس کہیں نہیں ہے، کرپشن موجود ہے، عوام کو سہولیات کہیں نظر نہیں آتیں، پارلیمنٹ کوئی قانون نہیں بنا پائی سوائے بجٹ کے۔ حکومت غیر ضروری کاموں میں الجھ رہی ہے۔ حکومت نے جو دعوے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے، اسی لیے عمران خان نے یوٹرن فلسفہ پیش کیا تا کہ اپنے کیے وعدوں سے مکرنے کا جواز پیش کر سکیں، آج ہی خبر لگی ہے کہ لاہور میں میٹرو کے کرائے بڑھا دیئے گئے، شہباز شریف پر یہ الزامات لگاتے تھے کہ میٹرو پر کروڑوں روپے لگا دیے، انہوں نے عوام سے وہ سہولت بھی چھین لی اور میٹرو کے کرائے بڑھا رہے ہیں۔
    آپ کو تو چاہیے کہ آپ عوام کو سہولیات دیں۔ میرے خیال میں مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے، یہ واحد حکومت ہے کہ جو چاہتی ہے اسمبلی میں موپ رہے، اپوزیشن کو پروبوک کرتی ہے، وزیر اطلاعات کا سینیٹ میں جھگڑا کیا ہے۔ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی ۔
    صارم برنی (سماجی کارکن)
    میرا خیال ہے کہ کچھ کام ہوتا نظر آئے گا تو بتاسکتے ہیں کہ اچھا یا برا ہو رہا ہے۔ جب سے تبدیلی کا نعرے لگانے والے آئے ہیں اس دن سے ہر چیز تھم گئی ہے۔ چیزیں اوپر کے بجائے نیچے کی طرف جاتی نظر آ رہی ہیں۔ اسمبلی میں سوائے بدتمیزی اورایک دوسرے کی کردار کشی کے کچھ نہیں دکھائی دے رہا۔ جتنی بڑی باتیں کی ہیں کہ اگر پانچ سال نہیں پچاس سال بھی دیے جائیں تو نہیں کرسکتے۔ نوے دن میں کرپشن ختم کرنے کا وعدہ کرنے والے ارد گرد کے چار ڈرائیور ختم نہیں کرسکتے۔ پچاس لاکھ گھروں کی بات کرتے ہیں، پانچ سال میں پچاس ہزار گھر بھی نہیں بنا سکتے۔ میڈیا کی جنگ لڑ رہے ہیں وہی کرتے آئے ہیں وہی اب بھی فوکس ہے۔
    اچھے کاموں سے مقبولیت بڑھتی ہے۔ برے کاموں سے بدنامی ہوتی ہے۔ بدنامی کے زمرے میں تو یہ آرہے ہیں۔ مقبولیت نہیں کہہ سکتا۔ ملک میں چیزیں تبدیل کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ بہت جلد چلے جائیں گے۔ طاقت جیتتی ہے۔ غلط طریقے سے جیتنے والے ہمیشہ طاقت سے دبتے ہیں۔ اگر نوے دن کی طرح وقت آگے گزرتا ہے تو مدت پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہ چاہے سلیکٹڈ ہوکر آئے ہوں اگر اپنے دعوؤں کا پینتیس چالیس فیصد بھی پورا کرلیں تو اگلی دفعہ الیکٹڈ ہوکر آئیں گے۔
    تحریر: احمد ندیم

    http://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Pakistan/468178

Viewing 4 posts - 1 through 4 (of 4 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi