Viewing 3 posts - 1 through 3 (of 3 total)
  • Author
    Posts
  • Democrat
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #1

    میں اس کالم سے مکمل متفق تو نہیں ہوں کیونکہ میری رائے میں نواز حکومت لوگوں کی بنیادی ضروریات بجلی ،تعلیم اور صحت کے پروگرام شروع کرنے میں ناکام رہی ہے یا انہوں نے تاخیر برتی ہے لیکن میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کے نواز شریف کے دور میں پاکستان کی سیاسی اور معاشی سمت درست ہوئی ہے اور ارتقا کا عمل آہستہ لیکن جاری ساری ہےمیں اس بات پر بھی پختہ یقین رکھتا ہوں کے وزیر اعظم کو ہٹانے کا حق صرف منتخب پارلیمنٹ کو ہے جوعوام کے ووٹوں سے تشکیل پاتی ہے اور دستور پاکستان میں اس عمل کے حوالے سے کوئی شک شبہ نہیںنواز شریف کو اپنی آئینی مدت ہر صورت پوری کرنی چاہئیے اور کسی ادارے بشمول سپریم کورٹ کو یہ حق نہیں کے وہ عوامی نمائندگان کو اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر ذلیل خوار کرےہم یہ نظارے اور انصاف کے دوغلے پیمانے دیکھ چکے ہیں ،ہم ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس ظالمانہ انصاف کا مزہ چکھتے ہوۓ نظارہ کر چکے ہیں ،ہم اس دوہرے انصاف کی جھلک بھی دیکھ چکے ہیں جس میں ایک فوجی بھگوڑے کو ملک سے بھگانے میں عدلیہ اور فوج نے اہم کردار ادا کیا تھا , یہ ٩٠ کی دہائی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کا دور ہے کسی قسم کی غیر آئینی حرکت پاکستان کو ٥٠ سال پیچھے دھکیل دے گی بلکہ قومی اداروں پر قوم کا رہا سہا اعتماد بھی ختم کرنے کی باعث ہو گیہمیں یہ بات بھی تسلیم کرنی ہو گی کے کسی بھی سویلین وزیر اعظم کو کبھی پاکستان میں آزادی سے کام نہیں کرنے دیا گیا بلکہ ہمیشہ محلاتی سازشوں ،پس پردہ فوجی ریشہ دوانیوں سے حکومت وقت کو معذور کیا جاتا رہا ہے اسکے لئے کبھی تانگہ پارٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں تو کبھی میڈیا میں اپنے کارندوں کو استعمال میں لا کر سیاستدانوں پر تبرا کیا جاتا ہےلیکن یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کے اگر ایک سویلین وزیر اعظم کو فوج اور عدلیہ آزادی سے اپنے منشور پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دیتی یا حیلے بہانوں سے رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے تو وزیر اعظم کو قوم کو اعتماد میں لینا چاہئیے اسے وجوہات اور مشکلات کا ذکر کرنا چاہیے تاکہ قوم کو اصل حقیقت کا ادراک ہو اور اگر پھر بھی اسٹیبلشمنٹ باز نہیں آتی تو استعفیٰ انکے منہ پر مار کر اپنی جان چھڑا لینی چاہئیے

    EasyGo
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #2
    @opکالم ٹی سی والی کیٹگری کا ہےمگر آپکی باتوں سے اتفاق ہےاسی طرح کا ایک اور کالم ملاحضہ فرمائیںhttps://jang.com.pk/print/337436-wazir-e-azam-jhoot-bol-rahay-hainوزیر اعظم جھوٹ بول رہے ہیںجے آئی ٹی کا کھیل اپنے عروج پر ہے۔ابتدامیں جسے ایک روایتی انکوائری تصور کیا جا رہا تھا اب اسکے ہاتھوں میں نظام کی لگام آگئی ہے۔ بساط کے سارے مہرے ایک ہی چال چل رہے ہیں۔ شاہ کو شکست دینا مقصد بن گیا ہے۔ اس مقصد میں گھوڑے، پیادے اور وزیر سب شامل ہو گئے ہیں ۔جے آئی ٹی کی غیر جانبداری روز بہ روزمشکوک ہوتی جا رہی ہے۔ وٹس ایپ کال سے جس بد گمانی کا آغاز ہوا اب اس کے مزید جانبدارانہ پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ خفیہ طاقتیں پھر میدان میں اتر گئی ہیں۔ بہت سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔کچھ اس جے آئی ٹی کوجمہوریت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیںاور کچھ اس کے توسط سے سچ کا بول بالا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ابھی تک جو کچھ ہوا ہے اس کو ایک نظر دیکھ کر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔اس جے آئی ٹی کی ساکھ کو پہلی زک اس وقت پہنچی جب وٹس ایپ کال والی خبر منظر عام پر آئی۔ یہ بات درست ہے کہ ممبران کا انتخاب بنچ کا استحقاق ہے۔ اس کیلئے ایک عدالتی خط سے بھی کام لیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کارروائی سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے خفیہ ہتھکنڈے اختیار کئے گئے۔جس نے معاملے کو ابتدا سے ہی مشکوک کر دیا۔ان ممبران کے انتخاب کیلئے کون ہے جو مثبت اور منفی رپورٹیں دے رہا ہے؟سلیکشن کا معیار کیا ہے؟انتخاب کون کر رہاہے اور منتخب لوگوں کو کیسے چنا جا رہاہے ؟ اس بارے میں بہت سے سوال اٹھے مگر کوئی بھی جواب دینے سے قاصر ہے۔ یہ سوال بھی اٹھا کہ صرف ایسے لوگوں کا انتخاب کیوں کیا گیا جو پہلے ہی انہی معاملات کی انکوائریوں میں اپنی جانبدارانہ رائے دے چکے ہیں۔ سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کے ممبر کی جانبداری انکی اینٹی نواز سوچ سے عیاں ہے مزید براں انکی اہلیہ پی ٹی آئی کی سرگرم کارکن ہیں اور فیس بک پر اپنے زریں خیالات کاا ظہار بھی کر چکی ہیں۔ایک سوال یہ بھی سامنے آیا کہ جس لہجے میں جے آئی ٹی کے ممبران گواہان سے گفتگو کر رہے ہیں وہ اس جے آئی ٹی کے دائرہ کار میں نہیں ۔ جے آئی ٹی کے ممبران کے پاس صرف ثبوت جمع کرنے کا اختیار ہے لیکن لہجہ مجرمان کی تفتیش کا اختیار کیا جا رہا ہے۔ کسی کی تضحیک کرنے کا اختیار