Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 113 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    ریپ کے بعد قتل کی گئی 6 سالہ زینب کے والد نے دعویٰ کیا کہ تحقیقاتی ادارے عمران کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے تھے اور انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی مدد سے مشتبہ قاتل کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔جمعرات کو وکیل آفتاب احمد باجوہ کے ہمراہ روڈ کوٹ میں پریس کانفرنس کے دوران زینب کے والد محمد امین نے یہ دعویٰ کیا، جبکہ اپنے اسی دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے انہوں نے مشتبہ ملزم کی وہ تصویر بھی دکھائی جس میں ملزم صوفے پر بیٹھا دکھائی دے رہا ہے۔مقتولہ کے والد کے مطابق ملزم کی یہ تصویر ان کے بھائی کے گھر کی ہے جہاں لانے کے بعد اسے پولیس کے حوالے کیا گیا۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 5 جنوری کو زینب کے غائب ہونے کے بعد سے ہم اصرار کر رہے تھے کہ عمران ہی مجرم ہے لیکن پولیس ہماری نظر انداز کرتی رہی۔محمد امین نے کہا کہ لاہور میں وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس سے قبل وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے ان سے کہا کہ وہ انصاف کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہ کریں۔محمد امین نے بتایا کہ انہوں نے اور ان کے اہل خانہ نے عمران کو دو مرتبہ پکڑا لیکن پولیس نے اسے رہا کردیا۔مقتولہ زینب کے والد نے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد ہم نے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ کو کہا کہ وہ مشتبہ ملزم کو گرفتار کریں اور پھر ہم نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ جس سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کو دیکھا گیا، وہ بھی زینب کے رشتے داروں نے ہی حاصل کی تھی۔وکیل آفتاب باجوہ نے وزیرِاعلیٰ کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری پر جے آئی ٹی ارکان کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں تو ملزم کو زینب کے اہل خانہ نے گرفتار کرایا تھا۔انہوں نے کہا کہ محمد امین وزیرِاعلیٰ کی پریس کانفرنس میں متعدد مطالبات کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے مائیک بند کر دیئے گئے تھے۔اس سے قبل ایک اور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محمد امین نے زینب اور قصور کے دیگر متاثرین کے لیے بنائی گئی ایکشن کمیٹی سے 11 مطالبات کیے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت نے زینب کے اہل خانہ کی کسی بھی قسم کی مالی مدد کی یا اگر اہل خانہ نے انصاف کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ کیا ہے تو اسے عوام کے سامنے لایا جائے۔انہوں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کو بھی عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔محمد امین نے شفاف تحقیقات اور مجرم کی سرعام پھانسی کے ساتھ ساتھ دیگر متاثرین کے لیے انصاف، کچھ جامعات یا بچوں کے پارک کے نام زینب کے نام پر کرنے، ضلع میں ایماندار اور پیشہ ورانہ پولیس افسران کی تقرری اور مستقبل میں اس طرح کے حادثات سے بچاؤ کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ مقامی رکن اسمبلی کو کہا جائے کہ وہ تمام متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو ریلیف فراہم کریں تاکہ مستقبل میں امن و امان کی خراب صورتحال سے بچا جا سکے۔اس موقع پر محمد امین نے دھمکی بھی دی کہ اگر پولیس نے بقیہ مشتبہ افراد کو رہا نہ کیا تو وہ جمعے کو احتجاجی دھرنا دیں گے اور اس وقت تک تحقیقات کا حصہ نہیں بنیں گے جب تک دیگر مشتبہ افراد کو رہا نہیں کیا جاتا۔واضح رہے کہ عمران کی گرفتاری کے بعد پولیس نے مقدمے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے الزام میں قاری سہیل احمد سمیت مزید چار مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا۔تاہم دوسری جانب ڈی پی او قصور کے ترجمان محمد ساجد نے مقامی میڈیا کو واٹس ایپ کے ذریعے آگاہ کیا کہ پولیس کی حراست میں کوئی بھی مشتبہ فرد نہیں۔رات گئے ہونے والی پیشرفت کے مطابق پولیس نے قاری سہیل احمد کو رہا کردیا تھا جنہوں نے بعد میں رپورٹرز کو بتایا کہ پولیس نے دوران حراست ان کے موبائل فون ڈیٹا اور کال ریکارڈ کا معائنہ کیا اور مشتبہ ملزم سے ان کے تعلقات کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کی۔

    https://www.dawnnews.tv/news/1072240/

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #2

    nayab
    Participant
    Offline
    • Professional
    #3

    محمد امین نے بتایا کہ انہوں نے اور ان کے اہل خانہ نے عمران کو دو مرتبہ پکڑا لیکن پولیس نے اسے رہا کردیا۔

    مقتولہ زینب کے والد نے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد ہم نے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ کو کہا کہ وہ مشتبہ ملزم کو گرفتار کریں اور پھر ہم نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ جس سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کو دیکھا گیا، وہ بھی زینب کے رشتے داروں نے ہی حاصل کی تھی۔

     وکیل آفتاب باجوہ نے وزیرِاعلیٰ کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری پر جے آئی ٹی ارکان کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں تو ملزم کو زینبکے اہل خانہ نے گرفتار کرایا تھا۔ 

    Qatil tu pakra gaya… abb qatil kay sar e amm phansi kaa mutalba karna chaiy tha ???

    Kiya jo kuch abb samnny araha hai tu keiya Zainab ka pab press conference mein yeah sab kehna cha raha tha kay Imran ko iss kay ele khana nay pakarwaya hai???

    kiya Rana Sana issi liay inn ko samjha raha tha kay kiya kehna hai or kiya nahi???

    Magar Tab tu yeah JIT, Police, Govt etc etc ka shukar guzar tha???

    Uss waqat  media mein kiun nahi laay yeah sab kuchjab media kay representatives khud ja ja kar inn say baat kar rahay thay ???

    Tu pher abb yeah log kiya chaty hain???

    Awal tu yeah lag raha tha kay iss case pe log apni siasat chamka rahay hain???

    Magar iss kay pab ka appni masoom bachi kaay qatil ko pakarwany or saza delwany kay elawa bhi koi demand sammny asakta …

    kiya interest hai abb???

      

    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #4

    محمد امین نے بتایا کہ انہوں نے اور ان کے اہل خانہ نے عمران کو دو مرتبہ پکڑا لیکن پولیس نے اسے رہا کردیا۔

    مقتولہ زینب کے والد نے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد ہم نے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ کو کہا کہ وہ مشتبہ ملزم کو گرفتار کریں اور پھر ہم نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ جس سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کو دیکھا گیا، وہ بھی زینب کے رشتے داروں نے ہی حاصل کی تھی۔

    وکیل آفتاب باجوہ نے وزیرِاعلیٰ کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری پر جے آئی ٹی ارکان کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں تو ملزم کو زینبکے اہل خانہ نے گرفتار کرایا تھا۔

    Qatil tu pakra gaya… abb qatil kay sar e amm phansi kaa mutalba karna chaiy tha ???

    Kiya jo kuch abb samnny araha hai tu keiya Zainab ka pab press conference mein yeah sab kehna cha raha tha kay Imran ko iss kay ele khana nay pakarwaya hai???

    kiya Rana Sana issi liay inn ko samjha raha tha kay kiya kehna hai or kiya nahi???

    Magar Tab tu yeah JIT, Police, Govt etc etc ka shukar guzar tha???

    Uss waqat media mein kiun nahi laay yeah sab kuchjab media kay representatives khud ja ja kar inn say baat kar rahay thay ???

    Tu pher abb yeah log kiya chaty hain???

    Awal tu yeah lag raha tha kay iss case pe log apni siasat chamka rahay hain???

    Magar iss kay pab ka appni masoom bachi kaay qatil ko pakarwany or saza delwany kay elawa bhi koi demand sammny asakta …

    kiya interest hai abb???

    یہ میڈیا کی قلابازیاں ہیں۔ایک باپ کو وِلن بنایا جا رہا ہے۔یہ بندہ محبوط الحواس دِکھنے کی حد تک سادہ لوح ہے۔جہاں تک پولیس کی کارگردی کا سوال ہے تو وہ دو سوالات کے گِرد گھومتی ہےجو یہ شکایت کنندہ سے ضرور کرتے ہیں۔ تمہیں کِس پر شک ہے اور دوسرا سوال یہ کہ تمہاری کِس کِس سے دُشمنی ہے۔

    ہمیں ایک بے کس اور مظلوم پر بے جا شک نہیں کرنا چاہیے اور یہ نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ میڈیا اور پولیس بہت حد تک شیطان کے چیلیے بھی ثابت ہوتے رہے ہیں۔

    nayab
    Participant
    Offline
    • Professional
    #5

    یہ میڈیا کی قلابازیاں ہیں۔ایک باپ کو وِلن بنایا جا رہا ہے۔یہ بندہ محبوط الحواس دِکھنے کی حد تک سادہ لوح ہے۔جہاں تک پولیس کی کارگردی کا سوال ہے تو وہ دو سوالات کے گِرد گھومتی ہےجو یہ شکایت کنندہ سے ضرور کرتے ہیں۔ تمہیں کِس پر شک ہے اور دوسرا سوال یہ کہ تمہاری کِس کِس سے دُشمنی ہے۔

    ہمیں ایک بے کس اور مظلوم پر بے جا شک نہیں کرنا چاہیے اور یہ نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ میڈیا اور پولیس بہت حد تک شیطان کے چیلیے بھی ثابت ہوتے رہے ہیں۔

    App nay bilkul theak farmaya actually awam tu usi ko notice karti hai ziada ko media batati hai,,,

    magar mera tu khayal hai kay jab qatil pakarh mein agaya hai tu inn ko media ko koee bhi statement  denay ki kiya zarurat abb case qanon kay hath mein hai or qatil bhi,,, jo athraf e juram bhi kar chuka,,, saza tu ussy abb har haal mein milni hai… 

    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #6

    App nay bilkul theak farmaya actually awam tu usi ko notice karti hai ziada ko media batati hai,,,

    magar mera tu khayal hai kay jab qatil pakarh mein agaya hai tu inn ko media ko koee bhi statement denay ki kiya zarurat abb case qanon kay hath mein hai or qatil bhi,,, jo athraf e juram bhi kar chuka,,, saza tu ussy abb har haal mein milni hai…

    میری بہن، اِسی لیے تو سمجھا جاتا ہے کہ میڈیابے لگام ہو چُکا ہے کیونکہ اِس  کو آزادی راس نہیں آئی۔

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7
    ۔۔ زینب کا باپ ۔۔۔ سول انتظامیہ سے مسلسل  سیاست میں مصروف ہے کہ ۔۔۔۔۔ اب دو دن کے بعد نیا کٹا کھولا ہے کہ ۔۔۔ سول انتظامیہ نے قاتل نہیں پکڑا ۔۔۔۔ اس نے اور اس  کی بیوی نے گلی میں سے خود ہی پکڑا ہے ۔۔قاتل کے فورینزک ڈی این اے ۔۔۔ ٹیسٹ بھی ۔۔۔۔۔ زینب کے باپ اور ماں ۔۔۔ نے گھر کے صحن میں بیٹھ کر کیئے تھے ۔۔۔۔اور جس گاڑی میں ۔۔۔۔ قاتل کو حوالات لے جا یا گیا ۔۔۔۔ وہ گاڑی بھی ۔۔۔۔ یہ بے غیرت خود ہی کرائے پر لایا تھا ۔۔۔۔اور جہاں قاتل سے اس وقت تفتیش ہورھی ہے ۔۔۔۔ وہ بھی یہ خود ہی کررھا ہے ۔۔۔۔۔پولیس کی دن رات کی  تگ و دو۔۔۔ ۔۔۔ سول انتظامیہ فورینزک لیب کی پھرتیاں  ۔۔۔۔ شہباز شریف  کا زاتی پریشر ۔۔۔۔ میڈیا کی چوبیس گھنٹے کی لائیو کوریج  ۔۔۔۔ پوری قوم کی مکمل غم گساری حمایت اور سپورٹ  ۔۔۔۔ اس بے غیرت کے منہ سے ایک لفظ ۔۔۔۔ تحسین کا نہیں نکلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بے غیرت ۔۔۔۔ سول انتظامیہ سے اپوزیشن مقابلہ بازی  میں مصروف ہے ۔۔۔۔۔۔۔میرا خیال اس کو کسی سیاسی پارٹی نے  گارنٹی کردی ہے ۔۔۔۔  قصور سے اس کی سیٹ پکی ہے  ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #8
    براے مہربانی اس جھوٹے بندے کی کسی بات پر توجہ نہ دی جاے، جہاں تک میں نے اس کیس کو فالو کیا ہے درجنوں نیوز چینلز اور پیپرز سے دیکھا ہے، اس نے سو کے قریب جھوٹ بولے ہیں، ایک طرف یہ کہہ رہا تھا کہ عمران علی کو یہ جانتا ہی نہیں تو رشتہ دار کیسے جبکہ ملزم نے کہا کہ وہ ان کا رشتہ دار ہے، بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے گھر روز کا آنا جانا ھے اور زینب پہلی بار اس کے ساتھ باہر نہیں گئی تھی بار بار جاتی رہی ہے، تب اس مخبوط الحواس کا بیان آیا کہ ملزم اس کے تمام بچوں کو جانتا ہوگا کیونکہ وہ محلے دار تھا، یہ ہر روز صبح شام ایک بیان ضرور دیتا تھا کہ مجرم ہمارا رشتہ دار نہیں ہے، گویا یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اگر پولیس نے ہمارا کوی بندہ پکڑا تو ہم احتجاج کریں گے، اس نے کتنے ہی بندے تفتیش سے باہر کرواے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ عمران علی کو بھی اسی کی فیملی کے دباو پر چھوڑا گیا تھایہ کہہ رہے ہیں کہ ملزم نے بچی کو اپنے گھر رکھا حالانکہ ملزم کے گھر دو کمروں میں نو بندے گھسے ہوے ہیں وہان تین دن زینب کو کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ اوپر سے ملزم عمران کے گھر والے خود اس کو پھانسی دینے کا کہہ رہے ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے زینب کی لاش گھر میں چھپاے رکھی، زینب کے باپ کی ویلیو بس اتنی ہے کہ یہ مطلوم زینب کا باپ ہے ورنہ اس کو اپنی معصوم بیٹی سے غفلت برتنے اور اسے شیطانوں کے آگے نہتا پھینک کر جانے کی وجہ سے قید ہونی چاہئے
    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9
    براے مہربانی اس جھوٹے بندے کی کسی بات پر توجہ نہ دی جاے، جہاں تک میں نے اس کیس کو فالو کیا ہے درجنوں نیوز چینلز اور پیپرز سے دیکھا ہے، اس نے سو کے قریب جھوٹ بولے ہیں،

    میرا خیال یہ ہے ۔۔۔۔ کہ زینب کی فیملی  کو فوری ۔۔۔ معلوم ہوگیا تھا کہ قاتل کون ہے ۔۔۔۔ اتنا بچہ کوئی نہیں ہوتا ۔۔ جو گھر میں آنے والے مشٹنڈے کو ویڈیو میں نہ پہچان سکے ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن ان کو کسی نے یہ پھونک دے رکھی تھی کہ ۔۔۔ کیس کو لمبا لٹکاو ۔۔۔۔ اور اس کیس پر ۔۔۔ شہباز شریف کو  زیادہ سے زیادہ سے گندہ کرو ۔۔۔۔تم بھی لیڈر بن جاو گے ۔۔۔ اور ۔۔۔ قصور میں ن لیگ بھی ۔۔۔ ناکام ہوگی ۔۔۔۔زینب کا باپ اسی ایجنڈے پر کام کررھا تھا ۔۔۔۔ اور قاتل کو دو ھفتے تک نہ پہچانا ۔۔۔۔اور  خلاف توقع ۔۔۔۔ جب قاتل پکڑا گیا تب  بھی اس نے لیڈری قائم رکھی ہوئی  ہے ۔۔۔ اور کہتا ہے ۔۔۔ قاتل کو ھم نے پکڑا ہے ۔۔۔۔۔پھر کہتا ہے ۔۔۔۔ میرے مطا لبے ہیں کبھی کہتا ہے ۔۔۔ قاتل کو سرے عام پھا نسی دی جائے کبھی کہتا ہے ۔۔۔۔ قاتل سے ملاقات کروائی جائے ۔۔کبھی کہتا ہے ۔۔ آرمی چیف  ۔۔۔ چیف جسٹس  ۔۔۔ اور ۔۔۔ کور کمانڈروں ۔۔۔۔   سے ملنا ہے ۔۔۔۔یہ شخص متواتر  بیان بازی سے مسلسل میڈیا میں رھنے کے چکر میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #10

    شاید ہر کوئی جو کچھ کہہ رہا ہے وہ سب کچھ سچ ہے اور اگر نہیں تو .؟

    اور اگر سچ بھی ہے تو اس معصوم بچی کی خاطر جس نے وہ کچھ برداشت کیا جو ہم میں سے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ، کیا اس موضوع پر ہر کسی کو چاہے وہ شہباز شریف صاحب ہوں، یا زینب کے والد، یا زینب کے والد کو مبینہ طور پر اکسانے والے ہوں یا کوئی اور ہو رگڑا لگانے سے اس معصوم بچی کی روح کو کوئی قرار مل سکے گا ؟

    زینب ہم سب میں سے کسی کی بیٹی، کسی کی پوتی، کسی کی نواسی، کسی کی بھانجی، کسی کی بھتیجی کی شکل میں موجود ہے. کیا ہم ااپنی بیٹی، پوتی، نواسی، بھتیجی، بھانجی کی اس سفاکانہ موت پر بھی اسی طرح سیاست اور اپنی سیاسی وفاداریوں اور سیاسی مخالفت کو چمکاتے رہیں گے.

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11
    میرا خیال یہ ہے ۔۔۔۔ کہ زینب کی فیملی کو فوری ۔۔۔ معلوم ہوگیا تھا کہ قاتل کون ہے ۔۔۔۔ اتنا بچہ کوئی نہیں ہوتا ۔۔ جو گھر میں آنے والے مشٹنڈے کو ویڈیو میں نہ پہچان سکے ۔۔۔ ۔ ۔۔ لیکن ان کو کسی نے یہ پھونک دے رکھی تھی کہ ۔۔۔ کیس کو لمبا لٹکاو ۔۔۔۔ اور اس کیس پر ۔۔۔ شہباز شریف کو زیادہ سے زیادہ سے گندہ کرو ۔۔۔۔ تم بھی لیڈر بن جاو گے ۔۔۔ اور ۔۔۔ قصور میں ن لیگ بھی ۔۔۔ ناکام ہوگی ۔۔۔۔ زینب کا باپ اسی ایجنڈے پر کام کررھا تھا ۔۔۔۔ اور قاتل کو دو ھفتے تک نہ پہچانا ۔۔۔۔ اور خلاف توقع ۔۔۔۔ جب قاتل پکڑا گیا تب بھی اس نے لیڈری قائم رکھی ہوئی ہے ۔۔۔ اور کہتا ہے ۔۔۔ قاتل کو ھم نے پکڑا ہے ۔۔۔۔۔ پھر کہتا ہے ۔۔۔۔ میرے مطا لبے ہیں کبھی کہتا ہے ۔۔۔ قاتل کو سرے عام پھا نسی دی جائے کبھی کہتا ہے ۔۔۔۔ قاتل سے ملاقات کروائی جائے ۔۔ کبھی کہتا ہے ۔۔ آرمی چیف ۔۔۔ چیف جسٹس ۔۔۔ اور ۔۔۔ کور کمانڈروں ۔۔۔۔ سے ملنا ہے ۔۔۔۔ یہ شخص متواتر بیان بازی سے مسلسل میڈیا میں رھنے کے چکر میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

    جولاہوں والی تمام خصوصیات موصوف میں بدرجہ اتم موجود ہیں، افسوس کہ آج جس بندے کی داڑھی ہو سمجھیں کہ معاشرے میں برابر کی تکریم پانے کیلئے اس نے ایک عام سا راستہ اختیار کیا ہے کہ کسی مذہبی گروہ سے وابستہ ہوکر سارا ٹبر سکھوں کی طرح دکھای دے اور ہر اشو پر لاہور اسلام آباد سے وڈے بکرے کی ہدایات کو فالو کرے

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #12
    براے مہربانی اس جھوٹے بندے کی کسی بات پر توجہ نہ دی جاے، جہاں تک میں نے اس کیس کو فالو کیا ہے درجنوں نیوز چینلز اور پیپرز سے دیکھا ہے، اس نے سو کے قریب جھوٹ بولے ہیں، ایک طرف یہ کہہ رہا تھا کہ عمران علی کو یہ جانتا ہی نہیں تو رشتہ دار کیسے جبکہ ملزم نے کہا کہ وہ ان کا رشتہ دار ہے، بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے گھر روز کا آنا جانا ھے اور زینب پہلی بار اس کے ساتھ باہر نہیں گئی تھی بار بار جاتی رہی ہے، تب اس مخبوط الحواس کا بیان آیا کہ ملزم اس کے تمام بچوں کو جانتا ہوگا کیونکہ وہ محلے دار تھا، یہ ہر روز صبح شام ایک بیان ضرور دیتا تھا کہ مجرم ہمارا رشتہ دار نہیں ہے، گویا یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اگر پولیس نے ہمارا کوی بندہ پکڑا تو ہم احتجاج کریں گے، اس نے کتنے ہی بندے تفتیش سے باہر کرواے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ عمران علی کو بھی اسی کی فیملی کے دباو پر چھوڑا گیا تھا یہ کہہ رہے ہیں کہ ملزم نے بچی کو اپنے گھر رکھا حالانکہ ملزم کے گھر دو کمروں میں نو بندے گھسے ہوے ہیں وہان تین دن زینب کو کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ اوپر سے ملزم عمران کے گھر والے خود اس کو پھانسی دینے کا کہہ رہے ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے زینب کی لاش گھر میں چھپاے رکھی، زینب کے باپ کی ویلیو بس اتنی ہے کہ یہ مطلوم زینب کا باپ ہے ورنہ اس کو اپنی معصوم بیٹی سے غفلت برتنے اور اسے شیطانوں کے آگے نہتا پھینک کر جانے کی وجہ سے قید ہونی چاہئے

    میں کسی بھی صورت کسی حد تک بھی بلیور بھائی سے متفق نہیں ہوں۔

    ۔۱۔ زینب کا باپ زینب کو محلے داروں کے پاس نہیں چھوڑ کر گیا تھا۔ وہ بارہا بتا چکا ہے کہ اس گھر میں وہ دو دوسرے بھائیوں کے ساتھ رہتا ہے اور شاید اس کی والدہ بھی۔ تو واضح ہے کہ وہ اپنے دونوں بچوں کو اپنے بھائی اور بھابھیوں کے پاس گھر ہی میں چھوڑ کر گیا تھا۔ جو کہ کوئی انہونی نہیں۔ یہ تو صرف آٹھ دن کا مسئلہ تھا، ہمارے معاشرے میں یہ ہی ہوتا ہے کہ  ایسے موقعوں پر بچے دادی کے پاس یا بھائیوں  بھابھیوں  کے پاس ہی  چھوڑے جاتے ہیں۔ بلکہ عموما دیکھا ہے بعض بچے اپنے نانا نانی یا دادا دادی کے  ہاں پلتے ہیں۔ بلیور بھائی یہ ہی بتا دیں کہ باقی سارا پاکستان جب حج یا عمرہ پر جاتا ہے تو کیا ان کے بچوں کو حکومت سنبھالتی ہے کیا وہ بھی اپنے بچے اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے پاس نہیں چھوڑتے۔ 

     

    .۔۲۔ پاکستان خاص طور پر یہ بہت عام ہے کہ ایک ہی برادری کے لوگ عموما ایک دوسرے کو رشتہ دار ہی بتاتے ہیں چاہے یہ رشتہ داری آٹھ جنریشنز پیچھے جا کر کہیں بنتی ہو۔ زینب  کے والد کا یہ کہنا صحیح ہی ہوگا کہ ملزم ان کا رشتہ دار نہیں اور اگر مجرم نے خود کو ان کا رشتہ دار بتایا ہے تو پہلی بات تو یہ کہ اس کا ایسا کہنا ضروری نہیں صحیح ہی ہو۔ اور اگر صحیح بھی ہو تو وہ برادری کے ناطے ایسا کہہ رہا ہو۔

    .۔۳۔ کسی واقعہ کے ہو جانے کے بعد عقل کل بننا بہت ہی آسان ہے اور ایسا اب پوری قوم ہی کر بھی رہی ہے ورنہ برادری اور محلے داری میں عموما ایسے رشتے بن ہی جاتے ہیں کہ سارا محلہ ہی ایک خاندان کی طرح ہوتا ہے۔ ایسا بانڈ خاص طور پر لوئر مڈل کلاس میں عام ہے۔ سارے ہی لوگ غمی خوشی میں ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں۔ زینب کے باپ کا مجرم کو زیادہ جاننابھی ضروری نہیں کہ اس کی عمر میں اگر اس کی جان پہچان ہو گی بھی تو مجرم کے والدین سے ہوگا ایک ۲۴ سالہ لڑکے سے نہیں۔

    .

    ۔۴۔ اگر زینب کے باپ نے چیف جسٹس یا آرمی چیف سے مدد مانگی تھی تو بہت ہی اچھا کیا تھا۔ اپنی بیٹی کے ریپ اور قتل کے بعد وہ جمہور پسندوں کو خوش کرنے کے لئے پولیٹیکلی کوریکٹ ہونے کا نہیں سوچ رہا تھا بلکہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس شہر میں ۲۶۲ بچوں کا ریپ ہوچکا ہے اور سول حکومت نے اب تک کسی کی تفتیش نہی کی اور نہ ہی کسی مجرم کو پکڑنے کی تگ و دو کی تھی۔ اور یہاں تک کہ سول اداروں نے تو اس سے لاش کے بدلے دس ہزار روپئے تک مانگ لئے تھے۔ اس حکومت کو تو کوئی تھوڑا سا شرم و حیا صرف اسی وقت آیا جب سارا پاکستان ہی اٹھ کھڑا ہوا اور انہیں قصور کی پانچ سیٹیں جاتی نظر آئیں۔

    .

    ۔۵۔ زینب کے باپ کی پریس کانفرنس کے بعد ناراضگی بلکل جائز ہے۔ شہباز شریف نے جس طرح اس کا مائیک بند کیا۔ جیسے تالیاں بجائیں اور سب سے بڑھ کر جس طرح مجرم کے پکڑے جانے کو سیاسی طور پر استعمال کیا اس پر زینب کے باپ کو چاہیے تھا انہیں وہیں لعنتیں بھیجتا اور کہتا خبیثو یہی کاوشیں پہلی بچی کے قتل پر کی ہوتیں تو باقی سات شاید زندہ ہوتیں۔ ایک دوسرے کی شکل پر لعنتیں برساؤ تالیاں کیوں پیٹ رہے ہو۔

    .

    ۔۶۔ تالیاں بجا کر کریڈٹ لینے کو دیکھ کر اگر اس نے یہ بیان دیا ہے کہ مجرم کو ہم نے ہی نشان دہی کر کے پولیس کے حوالے کیا تھا لیکن پولیس نے اسے چھوڑ دیا اور ہم ہی نے دوبارہ پھر پولیس کو اس کا ڈی این اے کروانے کا کہا تو لازما ایسا ہی ہوگا ورنہ اٹھیں حضرت نامراد ڈی اآئی جی صاحب اور کہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ اگر وہ اس بیان کو کاؤنٹر نہین کر رہے تو لازما ایسا ہی ہوا ہوگا۔ جناب بلیور بھائی کے پاس اگر کوئی ایسا ثبوت ہے کہ ایسا نہیں ہوا تو پھر وہ بات کرنے میں حق بجانب ہیں۔

    .

    ۔۷۔ جناب بلیور صاحب ایک تو اپنی باتوں کا منبع میڈیا کو بتاتے ہیں جبکہ میڈیا والوں کا حال ہم بارہا دیکھ چکے ہیں شاہد مسعود ایک نہیں ۔ یہاں بارہا بیٹھے ہیں اور میڈیا کی ساری باتوں کا سچ ہونا ضروری نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ زینب کا باپ ایک عام سا آدمی ہے کوئی میڈیا مینیجمنٹ ایکسپرٹ نہیں۔ اسے ۵۶ نیوز چینلز کا دباؤ بھی سہنا ہے جو آسان نہیں۔

    .

    ۔۸۔ بلیور بھائی کو زینب کے باپ سے اصل چِڑ اس کا کسی بریلوی مسلک سے منسلق ہونا ہے۔ لیکن ایسے تو لاکھوں لوگ ہیں جو کسی مسلک سے جڑے ہیں کسی مسلک کو ہم پسند کرتے ہیں اور کسی سے یا سب سے نفرت۔ کم تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ عام ہے اور اسے اپنے چائس پر چلنے دیں۔ اگر کسی وقت اس کا مجرم بارے حسنِ ظن رہا ہو تو بھی اچنبھے کی بات نہیں کہ مجرم خود ایک مذہبی شخص کے طور جانا جاتا تھا۔ باقی زینب کا باپ کوئی پروفیسر نہیں۔ میڈیا ٹاک میں ضرور کچھ غلطیاں بھی کی ہوں گیں اور کچھ میڈیا کا انٹرویوز کی کانٹ جھانٹ بھی ذرے کو پہاڑ اور پہاڑ کو ذرہ بنا دیتی ہے۔ اس کا مجھے بہت خوب تجربہ ہے۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13
    کل ایک پروگرام میں زینب کے وکیل صاحب بتا رہے تھے ، ہمیں عمران علی پر شک تھا، اسے پولیس کے پاس بھی لے کر گئے پر پولیس نے چھوڑ دیا ، جب ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بھی لوگ اکٹھے ہووے ، عمران علی بھی ان میں ہی موجود تھا پر اسے پولیس نے وہاں سے بھگا دیا – پولیس اس پر ہاتھ ڈالنا نہی چاہتی تھی

    میں کسی بھی صورت کسی حد تک بھی بلیور بھائی سے متفق نہیں ہوں۔

    ۔۱۔ زینب کا باپ زینب کو محلے داروں کے پاس نہیں چھوڑ کر گیا تھا۔ وہ بارہا بتا چکا ہے کہ اس گھر میں وہ دو دوسرے بھائیوں کے ساتھ رہتا ہے اور شاید اس کی والدہ بھی۔ تو واضح ہے کہ وہ اپنے دونوں بچوں کو اپنے بھائی اور بھابھیوں کے پاس گھر ہی میں چھوڑ کر گیا تھا۔ جو کہ کوئی انہونی نہیں۔ یہ تو صرف آٹھ دن کا مسئلہ تھا، ہمارے معاشرے میں یہ ہی ہوتا ہے کہ بچے دادی کے پاس یا بھائیوں بھابھیوں کے پاس ہی

    چھوڑے جاتے ہیں۔ بلکہ عموما دیکھا ہے بعض بچے اپنے نانا نانی یا دادا دادی کے ہاں پلتے ہیں۔

    . ۔۲۔ پاکستان خاص طور پر یہ بہت عام ہے کہ ایک ہی برادری کے لوگ عموما ایک دوسرے کو رشتہ دار ہی بتاتے ہیں چاہے یہ رشتہ داری چار جنریشنز پیچھے جا کر کہیں بنتی ہو۔ زینب کا یہ کہنا صحیح ہی ہوگا کہ ملزم ان کا رشتہ دار نہیں اور اگر مجرم نے خود کو ان کا رشتہ دار بتایا ہے تو پہلی بات تو یہ کہ اس کا ایسا کہنا ضروری نہیں صحیح ہی ہو۔ اور اگر صحیح بھی ہو تو وہ برادری کے ناطے ایسا کہہ رہا ہو۔

    . ۔۳۔ کسی واقعہ کے ہو جانے کے بعد عقل کل بننا بہت ہی آسان ہے اور ایسا اب پوری قوم ہی کر بھی رہی ہے ورنہ برادری اور محلے داری میں عموما ایسے رشتے بن ہی جاتے ہیں کہ سارا محلہ ہی ایک خاندان کی طرح ہوتا ہے۔ ایسا بانڈ خاص طور پر لوئر مڈل کلاس میں عام ہے۔ سارے ہی لوگ غمی خوشی میں ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں۔ زینب کے باپ کا مجرم کو زیادہ جاننا بھی ضروری نہیں کہ اس کی عمر میں اگر اس کی جان پہچان ہو گی بھی تو مجرم کے والدین سے ہوگا ایک ۲۴ سالہ لڑکے سے نہیں۔ .

    ۔۴۔ اگر زینب کے باپ نے چیف جسٹس یا آرمی چیف سے مدد مانگی تھی تو بہت ہی اچھا کیا تھا۔ اپنی بیٹی کے ریپ اور قتل کے بعد وہ جمہور پسندوں کو خوش کرنے کے لئے پولیٹیکلی کوریکٹ ہونے کا نہیں سوچ رہا تھا بلکہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس شہر میں ۲۶۲ بچوں کا ریپ ہوچکا ہے اور سول حکومت نے اب تک کسی کی تفتیش نہی کی اور نہ ہی کسی مجرم کو پکڑنے کی تگ و دو کی تھی۔ اور یہاں تک کہ سول اداروں نے تو اس سے لاش کے بدلے دس ہزار روپئے تک مانگ لئے تھے۔ اس حکومت کو تو کوئی تھوڑا سا شرم و حیا صرف اسی وقت آیا جب سارا پاکستان ہی اٹھ کھڑا ہوا اور انہیں قصور کی پانچ سیٹوں جاتی نظر آئیں۔

    .

    ۔۵۔ زینب کے باپ کی پریس کانفرنس کے بعد ناراضگی بلکل جائز ہے۔ شہباز شریف نے جس طرح اس کا مائیک بند کیا۔ جیسے تالیاں بجائیں اور سب سے بڑھ کر جس طرح مجرم کے پکڑے جانے کو سیاسی طور پر استعمال کیا اس پر زینب کے باپ کو چاہیے تھا انہیں وہیں لعنتیں بھیجتا اور کہتا خبیثو یہی کاوشیں پہلی بچی کے قتل پر کی ہوتیں تو باقی سات شاید زندہ ہوتیں۔ ایک دوسرے کی شکل پر لعنتیں برساؤ تالیاں کیوں پیٹ رہے ہو۔

    .

    ۔۶۔ تالیاں بجا کر کریڈٹ لینے کو دیکھ کر اگر اس نے یہ بیان دیا ہے کہ مجرم کو ہم نے ہی نشان دہی کر کے پولیس کے حوالے کیا تھا لیکن پولیس نے اسے چھوڑ دیا اور ہم ہی نے دوبارہ پھر پولیس کو اس کا ڈی این اے کروانے کا کہا تو لازما ایسا ہی ہوگا ورنہ اٹھیں حضرت نامراد ڈی اآئی جی صاحب اور کہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ اگر وہ اس بیان کو کاؤنٹر نہین کر رہے تو لازما ایسا ہی ہوا ہوگا۔ جناب بلیور بھائی کے پاس اگر کوئی ایسا ثبوت ہے کہ ایسا نہیں ہوا تو پھر وہ بات کرنے میں حق بجانب ہیں۔

    .

    ۔۷۔ جناب بلیور صاحب ایک تو اپنی باتوں کا منبع میڈیا کو بتاتے ہیں جبکہ میڈیا والوں کا حال ہم بارہا دیکھ چکے ہیں شاہد مسعود ایک نہیں ۔ یہاں بارہا بیٹھے ہیں اور میڈیا کی ساری باتوں کا سچ ہونا ضروری نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ زینب کا باپ ایک عام سا آدمی ہے کوئی میڈیا مینیجمنٹ ایکسپرٹ نہیں۔ اسے ۵۶ نیوز چینلز کا دباؤ بھی سہنا ہے جو آسان نہیں۔

    .

    ۔۸۔ بلیور بھائی کو زینب کے باپ سے اصل چِڑ اس کا کسی بریلوی مسلک سے منسلق ہونا ہے۔ لیکن ایسے تو لاکھوں لوگ ہیں جو کسی مسلک سے جڑے ہیں کسی مسلک کو ہم پسند کرتے ہیں اور کسی سے یا سب سے نفرت۔ کم تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ عام ہے اور اسے اپنے چائس پر چلنے دیں۔ اگر کسی وقت اس کا مجرم بارے حسنِ ظن رہا ہو تو بھی اچنبھے کی بات نہیں کہ مجرم خود ایک مذہبی شخص کے طور جانا جاتا تھا۔ باقی زینب کا باپ کوئی پروفیسر نہیں۔ میڈیا ٹاک میں ضرور کچھ غلطیاں بھی کی ہوں گیں اور کچھ میڈیا کا انٹرویوز کی کانٹ جھانٹ بھی ذرے کو پہاڑ اور پہاڑ کو ذرہ بنا دیتی ہے۔ اس کا مجھے بہت خوب تجربہ ہے۔

    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #14

    شاہد بھائی

    میں آپ کے آُٹھائے گئے ایک ایک نقطے سے مُتفِق ہوں جنہیں آپ نے ہمارے سماجی اور معاشرتی حقائق کی روشنی میں واضع کیا۔میں نے خود بھی اِس بات کا اشارہ کیا تھا کہ اولاد کے بہیمانہ قتل کے دُکھ اور رنج میں امین صاحب محبوط الحواص نظر آتے ہیں جو کہ ایسے حالات کا سامنا ہو جانے پر کوئی بھی ہو جائے گا لیکن آپ یہ بھی دیکھیں وہ ایک سادہ لوہ انسان بھی ہیں جِس کا شہباز صاحب نے ایک طرح سے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔

    زینب کے والد ہر طرح اور ہر لحاظ سے ہماری ہمدردی کے مُستحق  ہیں نہ کہ ظالمانہ تنقید کے۔۔خُدا نہ کرے کوئی اِن حالات سے گذرے جن سے زینب کے والد صاحب گذرے اور شہباز صاحب کی مہربانیوں سے ابھی اور گذریں گے۔ ایسی بے حِسی ظاہر کرنے سےپہلے  بندہ اپنے آپ کو زینب کے والد کی جگہ رکھتے ہوئے سوچے تو پِھر تنقید کرئےتو زیادہ بہتر رہے گا۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #15
    کل ایک پروگرام میں زینب کے وکیل صاحب بتا رہے تھے ، ہمیں عمران علی پر شک تھا، اسے پولیس کے پاس بھی لے کر گئے پر پولیس نے چھوڑ دیا ، جب ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بھی لوگ اکٹھے ہووے ، عمران علی بھی ان میں ہی موجود تھا پر اسے پولیس نے وہاں سے بھگا دیا – پولیس اس پر ہاتھ ڈالنا نہی چاہتی تھی

    شامی بھائی بچیوں کی لاشوں پر سیاسی پوئینٹ سکورنگ ہو رہی ہے اور اس وقت ن لیگ کی میڈیا ٹیم نے زینب کے باپ کے خلاف ایک کمپئین چلا رکھی ہے۔ شرم کی بات ہے کہ پڑھے لکھے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسے اپوزیشن نے الیکشن مٰن سیٹ کی آفر کی ہے اس لئے وہ پولیس کی کارکردگی کے خلاف بیان دے رہا ہے۔ ان میں سے کسی کو احساس ہی نہیں کہ وہ ایک عام آدمی ہے اور اس کی بچی صرف مری یا قتل نہیں ہوئی بلکہ اس کے پھول سے بچے کے ساتھ جو ہوا وہ فلم کی طرح اس کے ذہن میں چل رہا ہے اور ساتھ ہے چھپن ٹی وی چینل اور بیسیوں اخبار والے ۷؍۲۴ اس کے سر پر سوار ہیں۔

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #16
    شاہد بھائی – یہ ہمارا سیاسی کلچر ہے ، جب حکمران پھنس جاتے ہیں ، اسے سیاسی بنا دیا جاتا ہے – زینب کے والد صاحب کیا کرتے ؟ وہ قصور میں ہونے والی پولیس کی غفلت سے بخوبی واقف تھے ، ڈھائی سو بچوں والی ویڈیو اور ١٢ چھوٹی بچیوں سے ہونے والی مکروہ حرکت پر پولیس کی کاروائی صفر تھیزینب کے والد صاحب نے بلکل درست کیا ، شہباز شریف کو جب میڈیا ، سیاسی مخالفین کی طرف سے پریشر آیا تو نور تڑکے ان کے گھر حاضری بھی لگا آیاجس کی بچی چلی گئی اور اس کی لاش لینے کے لئے بھی پولیس کو دس ہزار بھی دینے پڑ جائیں تو اس کا حق ہے وہ دن میں پچاس بار اس حکومت کو برا بھلا کہےشہباز شریف نے کتنے مجرم پکڑنے کے بعد پریس کانفرنس کی ہیں ؟ اس نے خود اسے سیاسی نمبر سکورنگ کے لئے استمعال کیا مگر بیک فائر ہونے کی وجہ سے اب بغلوں میں منہ دیتا پھر رہا ہے اور زینب کے والد صاحب کو مخالف پارٹی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے

    شامی بھائی بچیوں کی لاشوں پر سیاسی پوئینٹ سکورنگ ہو رہی ہے اور اس وقت ن لیگ کی میڈیا ٹیم نے زینب کے باپ کے خلاف ایک کمپئین چلا رکھی ہے۔ شرم کی بات ہے کہ پڑھے لکھے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسے اپوزیشن نے الیکشن مٰن سیٹ کی آفر کی ہے اس لئے وہ پولیس کی کارکردگی کے خلاف بیان دے رہا ہے۔ ان میں سے کسی کو احساس ہی نہیں کہ وہ ایک عام آدمی ہے اور اس کی بچی صرف مری یا قتل نہیں ہوئی بلکہ اس کے پھول سے بچے کے ساتھ جو ہوا وہ فلم کی طرح اس کے ذہن میں چل رہا ہے اور ساتھ ہے چھپن ٹی وی چینل اور بیسیوں اخبار والے ۷؍۲۴ اس کے سر پر سوار ہیں۔
    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #17
    کل ایک پروگرام میں زینب کے وکیل صاحب بتا رہے تھے ، ہمیں عمران علی پر شک تھا، اسے پولیس کے پاس بھی لے کر گئے پر پولیس نے چھوڑ دیا ، جب ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بھی لوگ اکٹھے ہووے ، عمران علی بھی ان میں ہی موجود تھا پر اسے پولیس نے وہاں سے بھگا دیا – پولیس اس پر ہاتھ ڈالنا نہی چاہتی تھی

    شاہد بھائی

    میں آپ کے آُٹھائے گئے ایک ایک نقطے سے مُتفِق ہوں جنہیں آپ نے ہمارے سماجی اور معاشرتی حقائق کی روشنی میں واضع کیا۔میں نے خود بھی اِس بات کا اشارہ کیا تھا کہ اولاد کے بہیمانہ قتل کے دُکھ اور رنج میں امین صاحب محبوط الحواص نظر آتے ہیں جو کہ ایسے حالات کا سامنا ہو جانے پر کوئی بھی ہو جائے گا لیکن آپ یہ بھی دیکھیں وہ ایک سادہ لوہ انسان بھی ہیں جِس کا شہباز صاحب نے ایک طرح سے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔

    زینب کے والد ہر طرح اور ہر لحاظ سے ہماری ہمدردی کے مُستحق ہیں نہ کہ ظالمانہ تنقید کے۔۔خُدا نہ کرے کوئی اِن حالات سے گذرے جن سے زینب کے والد صاحب گذرے اور شہباز صاحب کی مہربانیوں سے ابھی اور گذریں گے۔ ایسی بے حِسی ظاہر کرنے سےپہلے بندہ اپنے آپ کو زینب کے والد کی جگہ رکھتے ہوئے سوچے تو پِھر تنقید کرئےتو زیادہ بہتر رہے گا۔

    بھائی کل میں نے ایک سوال پوچھا تھا۔ یہ تنقید کرنے والے اس کا جواب دیں تو آگے چلیں۔ جس میڈیا کا یہ حوالہ دیتے ہیں اس میڈیا نے شروع سے بتایا ہے کہ بچیوں کے ٹوٹل گیارہ کیسز ہیں۔ اب آٹھ تو عمران علی پر ڈال دئیے گئے ہیں تو باقی تین کا مجرم کون؟اور پھر جو اڑھائی سو لڑکوں کے ریپ ہوئے اور ہر ایک کی فلم بنی تو کیا وہ کسی کا ذاتی فعل تھا۔ وہ سب ہی لڑکے زندہ ہیں کچھ کے تو انٹرویو بھی موجود ہیں۔ ہر ایک کی ویڈیو بنی۔ کوئی اپنی تھوڑی سی عقل استعمال کر کے بتا دے کہ ایک عام لڑکوں کا شوقین کیا فلمیں بنائے گا ؟ اور کیا سارے ہی ۲۵۰ کی فلمیں بنیں گیں؟؟؟ کیا یہ مان لیا جائے کہ یہ آرگنائیزڈ کرئم نہیں ہے اور پنجاب پولیس اور رانا ثنا اللہ صحیح کہہ رہے ہیں۔ رہی بات مجرم کے اعترافی بیانوں کی تو یہ کمپین چلانے والوں میں سے کوئی بھی اس پولیس کی تحویل میں ہوتا تو وہ بھی یہ سب مان لیتا۔ اور پچھلی سات لڑکیوں سے ڈی این اے کس نے اور کب لیا ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے کہ اسے ٹیمپر کرکے ایک ہی کے کھاتے میں نہیں ڈال دیا گیا؟؟

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #18

    جنگل میں مور ناچا کِس نے دیکھا۔۔

    پاکستان پولیس کے پاس ایک جدید اور فعال  فارینسِک لیب کا ہونا تا حال ممُکن نہیں ہو سکا۔ کہا جاتا ہے ایک راولپنڈی/اِسلام آباد اور ایک لاہور میں ہے ، فعال بھی ہیں کُچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ایسی لیبز کا ہر بڑے شہر میں ہونا نہایت ضروری ہو چُکا ہے جبکہ نااہل حکومت کو میگاپراجکٹس اور اُنکی آڑ میں کِک بیکس کے علاوہ  قومی فلاح و بہبود کا کوئی اور کام معلوم ہی نہیں یا ترقی کی طرف قدم نظر نہیں آتا۔

    عوام کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سپیسیمن جو بطو ر ثبوت ایک لیب ٹیسٹ کے لیے اُٹھائے جاتے ہیں اُن کا مکمل طور پر کِسی بھی آلائش سے الودہ ہو جانا اچھے بھلے ٹیسٹ کی ناکامی کا باعث ہوتا ہے اور ہماری پولیس کی کارکردگی اِس سلِسلے میں لیجنڈری ہے۔پولیس کی تربیت میں سائنسی طریقہ کار کی روشنی میں کرائم سین انویسٹیگیشن، کریمینل ایویڈینس، پروٹیکشن، سٹوریج ایند پروسیسنگ آف باڈی فلویئڈز اینڈ ٹیشو، اور فائر آرمز اینڈ ایکسپلوسِوز فارینسک ایکسپرٹس صرف کِتابوں کی حد تک موجود ہوں یہ اِس بات پر شک ہےجبکہ یہ حقیقت میں ہیں بھی ایک نامُمکن بات نظر آتی ہے۔

    ہر آئے دِن عوام کو ڈی این ایے کے نام پر اُلو بنایا جاتا ہے۔ ڈی این اے کا صحیح فائدہ تب ممکن ہے جب کمپیریزن یعنی موازنے کے لیے کوئی ڈیٹا بیس ہو۔ وہ تو ہے ہی نہیں۔ اب زینب کیس میں آٹھ وارداتوں میں ایک آدمی کا ڈی این اے اچانک میچ کر جاتا ہے۔ مان لیتے ہیں پہلی بچی کے قتل پر ڈی این اے سیمپل لیا گیا۔ دوسری بچی کے قتل پر بھی ڈی این اے لیا گیا۔ پہلی سے میچ ہوا اِس با ت پر خاموشی ہے۔ پھر تیسری اور آخر کار ساتویں پر بھی، یعنی ہر بار ڈی این ایے لیا گیا لیکن میچ ہوا کہ نہیں۔۔مکمل خاموشی۔ اب زینب کے کیس پر آٹھوں کے آٹھوں نہ صِرف میچ کرتے ہیں بلکہ کنویکشن بھی ہو جاتی ہے۔ اِس بات پر آپ ذرا سوچیے کیا یہ پولیس کو ساتھ مِلا کر سیاسی مینیپولیشن نہیں ہوئی؟ کیا عوام جو اُٹھ کھڑے ہوئے اُنہیں جلدی میں سب ایک آدمی پر لادتے ہوتے مُجرم بنا کر پیش کیا گیا اور اِس طرح عوام کو ماموں نہیں بنایا گیا؟

    خُدا کے ودیعت کردہ گرے میٹر کو حرکت میں لاتے ہوئے اِس حقیقت کو بھی مدِنظر رکھا جائےکہ  ہماری پولیس اور ہمارا میڈیا طوائفوں کی طرح ہو چُکے ہیں۔ مکمل طور پر کاروباری۔ جب تھانے بِکتے ہوں۔ اِن کی علاقوں کے حِساب سے بولی لگتی ہو۔میڈیا میں لفافے چلتے ہوں۔اشتہارات کے تحفے حکومت کی طرف سے مِلتے ہوں تو اِن پر اعتماد اور بھرسہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ہمیں خود بھی سوچنا چاہیے۔ ہماری سوچ منطق اور سچائی پر مبنی ہو نہ کہ سیاسی وابسگیوں سے الودہ  ورنہ ہم سچائی تک کبھی پہنچ پائیں یہ مُشکل ہو جائے گا۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #19

    جنگل میں مور ناچا کِس نے دیکھا۔۔

    پاکستان پولیس کے پاس ایک جدید اور فعال فارینسِک لیب کا ہونا تا حال ممُکن نہیں ہو سکا۔ کہا جاتا ہے ایک راولپنڈی/اِسلام آباد اور ایک لاہور میں ہے ، فعال بھی ہیں کُچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ایسی لیبز کا ہر بڑے شہر میں ہونا نہایت ضروری ہو چُکا ہے جبکہ نااہل حکومت کو میگاپراجکٹس اور اُنکی آڑ میں کِک بیکس کے علاوہ قومی فلاح و بہبود کا کوئی اور کام معلوم ہی نہیں یا ترقی کی طرف قدم نظر نہیں آتا۔

    عوام کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سپیسیمن جو بطو ر ثبوت ایک لیب ٹیسٹ کے لیے اُٹھائے جاتے ہیں اُن کا مکمل طور پر کِسی بھی آلائش سے الودہ ہو جانا اچھے بھلے ٹیسٹ کی ناکامی کا باعث ہوتا ہے اور ہماری پولیس کی کارکردگی اِس سلِسلے میں لیجنڈری ہے۔پولیس کی تربیت میں سائنسی طریقہ کار کی روشنی میں کرائم سین انویسٹیگیشن، کریمینل ایویڈینس، پروٹیکشن، سٹوریج ایند پروسیسنگ آف باڈی فلویئڈز اینڈ ٹیشو، اور فائر آرمز اینڈ ایکسپلوسِوز فارینسک ایکسپرٹس صرف کِتابوں کی حد تک موجود ہوں یہ بھی مشکوک ہے۔ حقیقت میں ہیں بھی ایک نامُمکن بات نظر آتی ہے۔

    ہر آئے دِن عوام کو ڈی این ایے کے نام پر اُلو بنایا جاتا ہے۔ ڈی این اے کا صحیح فائدہ تب ممکن ہے جب کمپیریزن یعنی موازنے کے لیے کوئی ڈیٹا بیس ہو۔ وہ تو ہے ہی نہیں۔ اب زینب کیس میں آٹھ وارداتوں میں ایک آدمی کا ڈی این اے اچانک میچ کر جاتا ہے۔ مان لیتے ہیں پہلی بچی کے قتل پر ڈی این اے سیمپل لیا گیا۔ دوسری بچی کے قتل پر بھی ڈی این اے لیا گیا۔ پہلی سے میچ ہوا اِس با ت پر خاموشی ہے۔ پھر تیسری اور آخر کار ساتویں پر بھی، یعنی ہر بار ڈی این ایے لیا گیا لیکن میچ ہوا کہ نہیں۔۔مکمل خاموشی۔ اب زینب کے کیس پر آٹھوں کے آٹھوں نہ صِرف میچ کرتے ہیں بلکہ کنویکشن بھی ہو جاتی ہے۔ اِس بات پر آپ ذرا سوچیے کیا یہ پولیس کو ساتھ مِلا کر سیاسی مینیپولیشن نہیں ہوئی؟

    خُدا کے ودیعت کردہ گرے میٹر کو حرکت میں لاتے ہوئے اِس حقیقت کو بھی مدِنظر رکھا جائےکہ ہماری پولیس اور ہمارا میڈیا طوائفوں کی طرح ہو چُکے ہیں۔ مکمل طور پر کاروباری۔ جب تھانے بِکتے ہوں۔ اِن کی علاقوں کے حِساب سے بولی لگتی ہو۔ لفافے چلتے ہوں۔اشتہارات کے تحفے حکومت کی طرف سے مِلتے ہوں تو اِن پر اعتماد اور بھرسہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔

    سہیل بھائی ۔۔۔۔۔۔جہاں آپ پولیس کی کارگزاری پر دل سوزی کر رہے ہیں ان میں ایک بچی کا ڈی این اے بھی اس عمران علی کے ساتھ میچ کر گیا ہے ۔۔جس میں ایک شخص پولیس پہلے ہی مقابلے میں پار کر چکی ہے ۔۔۔۔کہہ اس نے فلاں لڑکی کا ریب کیا ہے ۔۔۔۔۔اور اب  کہہ رہے اس لڑکی کا ریب بھی عمران علی نے کیا ہے ۔۔نہ کہہ اس لڑکے نے جس کو پولیس مقابلے میں مار دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اب جو بندے پہلے بے گناہ مارے گئے ہیں ۔۔۔۔۔اور جو اعتجاج کرتے ہوئے پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ہیں ۔۔۔ان کے اگلے پچھلوں کے دکھوں کا مداوا کون کرےگا۔۔۔۔۔۔سہیل بھائی ۔۔لاہور میں ایک پولیس انسپکٹر ہوا کرتا تھا۔۔جس کو باکسر ۔۔یا ۔۔گھسن ۔۔۔کے نام سے پکارتے تھے ۔۔۔اس سے شہبازشریف کے کرتوت سنیں تو آپکے ہوش و حواس باختہ ہوجاہیں گے۔۔۔کہہ کیسے اس کو بندے پار کرنے کا آراڈ ڈائریکٹ اوپر سے آتا تھا ۔۔لیکن جب اس نے بہت ساری واردات کے بعد بات ماننے سے انکار کردیا تو اس پر لاہور کی زمین تنگ کردی گئی ۔۔۔۔۔۔۔شہبازشریف  خود نمائی کا بھوکا شخص ہے اس کو مینار پاکستان کے گراونڈ میں ایک کرین کے ٹانگ دینا چاہئے تاکہ یہ آتے جاتے لوگوں کو نظر آتا رہے ۔۔۔۔۔

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #20

    میں کسی بھی صورت کسی حد تک بھی بلیور بھائی سے متفق نہیں ہوں۔

    ۔۱۔ زینب کا باپ زینب کو محلے داروں کے پاس نہیں چھوڑ کر گیا تھا۔ وہ بارہا بتا چکا ہے کہ اس گھر میں وہ دو دوسرے بھائیوں کے ساتھ رہتا ہے اور شاید اس کی والدہ بھی۔ تو واضح ہے کہ وہ اپنے دونوں بچوں کو اپنے بھائی اور بھابھیوں کے پاس گھر ہی میں چھوڑ کر گیا تھا۔ جو کہ کوئی انہونی نہیں۔ یہ تو صرف آٹھ دن کا مسئلہ تھا، ہمارے معاشرے میں یہ ہی ہوتا ہے کہ ایسے موقعوں پر بچے دادی کے پاس یا بھائیوں بھابھیوں کے پاس ہی چھوڑے جاتے ہیں۔ بلکہ عموما دیکھا ہے بعض بچے اپنے نانا نانی یا دادا دادی کے ہاں پلتے ہیں۔ بلیور بھائی یہ ہی بتا دیں کہ باقی سارا پاکستان جب حج یا عمرہ پر جاتا ہے تو کیا ان کے بچوں کو حکومت سنبھالتی ہے کیا وہ بھی اپنے بچے اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے پاس نہیں چھوڑتے۔

    . ۔۲۔ پاکستان خاص طور پر یہ بہت عام ہے کہ ایک ہی برادری کے لوگ عموما ایک دوسرے کو رشتہ دار ہی بتاتے ہیں چاہے یہ رشتہ داری آٹھ جنریشنز پیچھے جا کر کہیں بنتی ہو۔ زینب کے والد کا یہ کہنا صحیح ہی ہوگا کہ ملزم ان کا رشتہ دار نہیں اور اگر مجرم نے خود کو ان کا رشتہ دار بتایا ہے تو پہلی بات تو یہ کہ اس کا ایسا کہنا ضروری نہیں صحیح ہی ہو۔ اور اگر صحیح بھی ہو تو وہ برادری کے ناطے ایسا کہہ رہا ہو۔

    . ۔۳۔ کسی واقعہ کے ہو جانے کے بعد عقل کل بننا بہت ہی آسان ہے اور ایسا اب پوری قوم ہی کر بھی رہی ہے ورنہ برادری اور محلے داری میں عموما ایسے رشتے بن ہی جاتے ہیں کہ سارا محلہ ہی ایک خاندان کی طرح ہوتا ہے۔ ایسا بانڈ خاص طور پر لوئر مڈل کلاس میں عام ہے۔ سارے ہی لوگ غمی خوشی میں ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں۔ زینب کے باپ کا مجرم کو زیادہ جاننا بھی ضروری نہیں کہ اس کی عمر میں اگر اس کی جان پہچان ہو گی بھی تو مجرم کے والدین سے ہوگا ایک ۲۴ سالہ لڑکے سے نہیں۔ .

    ۔۴۔ اگر زینب کے باپ نے چیف جسٹس یا آرمی چیف سے مدد مانگی تھی تو بہت ہی اچھا کیا تھا۔ اپنی بیٹی کے ریپ اور قتل کے بعد وہ جمہور پسندوں کو خوش کرنے کے لئے پولیٹیکلی کوریکٹ ہونے کا نہیں سوچ رہا تھا بلکہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس شہر میں ۲۶۲ بچوں کا ریپ ہوچکا ہے اور سول حکومت نے اب تک کسی کی تفتیش نہی کی اور نہ ہی کسی مجرم کو پکڑنے کی تگ و دو کی تھی۔ اور یہاں تک کہ سول اداروں نے تو اس سے لاش کے بدلے دس ہزار روپئے تک مانگ لئے تھے۔ اس حکومت کو تو کوئی تھوڑا سا شرم و حیا صرف اسی وقت آیا جب سارا پاکستان ہی اٹھ کھڑا ہوا اور انہیں قصور کی پانچ سیٹیں جاتی نظر آئیں۔

    .

    ۔۵۔ زینب کے باپ کی پریس کانفرنس کے بعد ناراضگی بلکل جائز ہے۔ شہباز شریف نے جس طرح اس کا مائیک بند کیا۔ جیسے تالیاں بجائیں اور سب سے بڑھ کر جس طرح مجرم کے پکڑے جانے کو سیاسی طور پر استعمال کیا اس پر زینب کے باپ کو چاہیے تھا انہیں وہیں لعنتیں بھیجتا اور کہتا خبیثو یہی کاوشیں پہلی بچی کے قتل پر کی ہوتیں تو باقی سات شاید زندہ ہوتیں۔ ایک دوسرے کی شکل پر لعنتیں برساؤ تالیاں کیوں پیٹ رہے ہو۔

    .

    ۔۶۔ تالیاں بجا کر کریڈٹ لینے کو دیکھ کر اگر اس نے یہ بیان دیا ہے کہ مجرم کو ہم نے ہی نشان دہی کر کے پولیس کے حوالے کیا تھا لیکن پولیس نے اسے چھوڑ دیا اور ہم ہی نے دوبارہ پھر پولیس کو اس کا ڈی این اے کروانے کا کہا تو لازما ایسا ہی ہوگا ورنہ اٹھیں حضرت نامراد ڈی اآئی جی صاحب اور کہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ اگر وہ اس بیان کو کاؤنٹر نہین کر رہے تو لازما ایسا ہی ہوا ہوگا۔ جناب بلیور بھائی کے پاس اگر کوئی ایسا ثبوت ہے کہ ایسا نہیں ہوا تو پھر وہ بات کرنے میں حق بجانب ہیں۔

    .

    ۔۷۔ جناب بلیور صاحب ایک تو اپنی باتوں کا منبع میڈیا کو بتاتے ہیں جبکہ میڈیا والوں کا حال ہم بارہا دیکھ چکے ہیں شاہد مسعود ایک نہیں ۔ یہاں بارہا بیٹھے ہیں اور میڈیا کی ساری باتوں کا سچ ہونا ضروری نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ زینب کا باپ ایک عام سا آدمی ہے کوئی میڈیا مینیجمنٹ ایکسپرٹ نہیں۔ اسے ۵۶ نیوز چینلز کا دباؤ بھی سہنا ہے جو آسان نہیں۔

    .

    ۔۸۔ بلیور بھائی کو زینب کے باپ سے اصل چِڑ اس کا کسی بریلوی مسلک سے منسلق ہونا ہے۔ لیکن ایسے تو لاکھوں لوگ ہیں جو کسی مسلک سے جڑے ہیں کسی مسلک کو ہم پسند کرتے ہیں اور کسی سے یا سب سے نفرت۔ کم تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ عام ہے اور اسے اپنے چائس پر چلنے دیں۔ اگر کسی وقت اس کا مجرم بارے حسنِ ظن رہا ہو تو بھی اچنبھے کی بات نہیں کہ مجرم خود ایک مذہبی شخص کے طور جانا جاتا تھا۔ باقی زینب کا باپ کوئی پروفیسر نہیں۔ میڈیا ٹاک میں ضرور کچھ غلطیاں بھی کی ہوں گیں اور کچھ میڈیا کا انٹرویوز کی کانٹ جھانٹ بھی ذرے کو پہاڑ اور پہاڑ کو ذرہ بنا دیتی ہے۔ اس کا مجھے بہت خوب تجربہ ہے۔

    استادجیآپ نے خوبصورتی کے ساتھ تجزیہ پیش کیا ہے ہے۔۔۔۔ویلڈن۔۔۔۔۔۔سو ۔۔بٹا ۔۔سو ۔۔نمبر :bigthumb:

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 113 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi