Viewing 7 posts - 41 through 47 (of 47 total)
  • Author
    Posts
  • Athar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #41
    unsafe

    محترم ان سیف صاحب  بات دراصل یہ ہے کہ ایک عجب سا چلن چل رہا ہے معاشرے میں کہ اگر “میں غلط ہوں”تو اس غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے ایسی ایسی تاویلات پیش کروں گا کہ جو درست ہو وہ بھی شبہ میں پڑ جائے کہ آیا واقعی وہ درست ہے بھی یا نہیں ایسا ہی کچھ آپ جیسے افراد ہم جیسے سیدھی راہ والوں کے ساتھ کرتے ہیں

    اب اس کھلے ڈھکن اور بند ڈھکن کے اشارے کنائے ختم کرتے ہوئے سیدھی سیدھی بات کرتے ہیں آپ فرما رہے ہیں کہ معاشرے کے کچھ لوگ حیاء باختہ عورتوں کو پسند کرتے ہیں اور انہیں یہ میسر بھی ہیں تو اعتراض کیوں؟ تو جناب سیدھی سی بات ہے کہ اگر معاشرے میں رہنا ہے تو معاشرے کے قوانین و حدود قیود کو ماننا پڑے گا بالکل ایسے ہی جیسے آپ کے پاس کتنی ہی مہنگی اور سپر سییڈ  گاڑی کیوں نہ ہو لیکن ہائی وے اور شہری حدود کے اندر ٹریفک کے قوانین کے مطابق ہی آپ اس گاڑی کو ڈرائیو کر سکتے ہیں سپر سانک سپیڈ گاڑی رکھ کر آپ کو ٹریفک قوانین روندنے کی اجازت نہیں مل سکتی۔ دوسری بات یہ کہ کیا آپ گارنٹی دیتے ہیں کہ فعل قبیح کے دلدادہ صرف حیاء باختہ عورتوں تک ہی محدود رہتے ہیں؟بالکل نہیں دے سکتے جب کسی کو حرام کا چسکا لگ جائے پھر وہ ہر طرح کا حرام کھانے پرراضی ہوجاتا ہے پھر اُس کو اپنا پرایا اچھا برا کچھ نظر نہیں آتا بالکل اسی طرح آپ مجھ سے گارنٹی مانگیں گے کہ کیا معاشرے میں شادی شدہ مرد وعورت حرام کاری نہیں کرتے ؟لیکن دونوں طرح کے افراد کے بارے میں آپ کا اور میرا نظریہ مختلف ہے میں شادی شادہ مرد و عورت کے غلط فعل کو بھی غلط ہی کہوں گا اور ان کو سزا وار تسلیم کروں گا لیکن آپ غلط کام کرنے والے کو درست مان رہے ہیں اور اس کے لیئےایک دوسرے سے متصادم  تاویلات پیش کر رہے ہیں خود ہی کہہ رہے ہیں کہ انسان اور جانور میں بہت فرق ہے اور اگلی ہی لائن میں اس فرق کو ختم کر رہے ہیں کہ انسان، انسان کے درجے سے گرا اور غلاظت کھانے پر تل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں اگر انسان ہے “اگر واقعی انسان ہے،تو کبھی بھی وہ غلاظت کھانے پر راضی نہیں ہوگا”اور اگر وہ غلاظت کھانے پر راضی ہوگیا تو آپ مجھ سے اُسے انسان نہیں کہلوا سکیں گے۔وہ صرف اور صرف ہوس پرست جانور ہے اور جانور کو سزا دینا ہی درست قدم ہے (وہ چاہے مرد ہو یا عورت)۔

    اگر ہم جنگلوں میں  برہنہ بدن،بغیر کسی تہزیب و تمدن کے رہ رہے ہوتے تو ہم جیسے افراد آپ جیسے افراد پر کسی بھی قسم کی قدغن لگانے میں حق بجانب نہیں ہو سکتے تھے ۔لیکن ہم لوگ جانور نہیں ہیں ہم معاشرے میں رہتے ہیں ۔ہمیں جو تعلیمات دی گئی ہیں اُن کے مطابق ہم انسان اشرف المخلوقات ہیں جس کو ماننے میں آپ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ قدرت نے اپنی سب سے بہترین تخلیق انسان کو بنایا ہے ۔تو بہترین تخلیق پر زمہ داریاں بھی زیادہ ہی ہونگی انہی زمہ داریوں میں سے اہم ترین زمہ داری اپنی نسل آگے بڑھانا اور نہ صرف آگے بڑھانا بلکہ جس تہزیب و تمدن کا میں نمائندہ ہوں اس تہزیب و تمدن کو مزید نکھارنے کے لیئے ضروری ہے کہ میں اپنی آنے والی نسل کی زمہ داری اُٹھاتے ہوئے اُسے معاشرے کا بہترین فرد بنانے کی کوشش کروں اور یہ کوشش بغیر نکاح اور بغیر اولاد حلال کے ممکن نہیں کہ کوئی بھی فرد کسی دوسرے کے نطفے کی ایسی پرورش نہیں کرسکتا جیسی کہ خود اپنی نسل کی ۔لہذا اپنی اہم ترین زمہ داری سے بری الزمہ ہونے کے لیئے اپنی ہوس کو کوئی بھی نام دیں لیکن جانوروں پرندوں کا نام لے کر اسے قدرتی امر کے کھاتے میں مت ڈالیں۔

    میری ہی دوسری  بات (دعوت گناہ)کو اپنی مرضی کے معانی پہنانا شروع کر دیئے تو محترم مکمل بات یہ ہے کہ وہ لوگ کئی کئی سال اپنی گھروں  کو نہیں جاتے پیسہ بچانے کے لیئے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی ہوس میں اپنے جائز راستوں سے دور رہتے ہیں(جبکہ میرے مزہب میں تو روایات ہیں کہ کوئی فوجی حالت جنگ میں بھی اپنے گھر سے چھ ماہ سےزیادہ عرصہ دور نہ رہے)۔ تو اس زر پرستی کو مجبوری کے کھاتے میں ڈال کر ان کے فعل قبیح کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔اور مجھے مولوی بننے کی ضروت نہیں بلکہ سیدھا سیدھا اُنہی کے طریقے کے مطابق احساس دلایا کہ تمھاری بیویوں کی بھی یہی خواہش ہوگی آپ جن کی حرام کاری کو مجبوری کے زمرے میں سمیٹ رہے ہیں اُس حرام کاری کے پیچھے دوہی چیزیں تھیں ایک زیادہ سے زیادہ کمانے کی ہوس دوسرے حرام کاری کی لت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    آپ فرما رہے ہیں کہ اگر کسی فرد کو وہ چیز میسر نہیں تو وہ غلاظت کھانا شروع کر دیتا ہے بھائی جی کیوں وہ چیز میسر نہیں کبھی اس پر بھی غور کرنے کی کوشش کی ؟ کیونکہ ہم نے اپنی اپنی زر پرستیوں لالچوں،دنیاوی فائدوں کے چکر میں عورت یا مرد کے حصول کو مشکل سے مشکل تر بنا لیا ہے مزہب تو کہتا ہے کہ نکاح کو آسان کرو اور پھر اتنا آسان کرنے کا کہتا ہے کہ لڑکی کے گھر والوں پر بارات کا کسی قسم کا بوجھ ڈالنے تک سے منع کرتا ہے  اگر آج ہر لڑکا ہوس زر سے نکل کر کسی بھی عام گھرانے کی لڑکی سے شادی کرلے اور اسی طرح ہر لڑکی کسی بی عام گھرانے کے فرد سے شادی پر راضی ہوجائے تو کیا وہ “نکاح جیسے آسان”حلال کے زریعے زنا جیسے حرام کام سے بچ نہیں سکتے؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر آپ بحث برائے بحث میں پڑ کر ضرور کہیں گے کہ کیا گارنٹی ہے کہ شادی کے بعد دونوں کسی فعل قبیح میں نہیں پڑیں گے تو اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ گارنٹی تو نہیں دی جاسکتی لیکن حرام کاری میں کئی فیصد کمی ضرور آسکتی ہے جبکہ آپ کی بات مان لی جائے تو کئی گنا کئی فیصد حرام کاری میں اضافہ ہی اضافہ ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اب چونکہ بات زرا کھل کھلا کر شروع ہوہی گئی ہے تو آپ جو تصویر پیش کر رہے ہیں اسی تصویر کے دوسری جانب روشنی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا وہ یہ کہ اگر آپ ہی کی بات کو مان لیا جائے کہ جس کو عورت لڑکی میسر نہیں  یا عورت کو مرد میسر نہیں تووہ کسی سے بی بغیر نکاح کے جنسی تعلقات بنا لیتے ہیں اب اگر ان دونوں کے ملاپ سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ کہاں پلے بڑھے گی۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ کہیں گے کئی چائیلڈ کئیر سینٹرز ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا ایک کو چائیلڈ کئیر میں دے دیا دوسری اولاد ہوگئی تو اس کو بھی  چائلڈ کئیر میں بھرتی کروا دیا اسی طرح ہزاروں ناجائز جوڑوں نے ناجائز اولادیں جمع کروادیں جب وہ ناجائز اولادیں بڑی ہوئیں تو ان میں سے کئی جوان بچے ایک دوسرے کے بہن بھائی ہیں لیکن وہ انجان ہونے کی بنا پر ایک دوسرے سے تعلق قائم کرتے ہیں تو آپ اس فعل غلاظت کی انتہا کیا دیکھتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    آپ عجیب فرد ہیں ایک ہی مثال کو ایک ہی وقت میں دو طرح سے پیش کر دیتے ہیں اور اس پر شرمندہ بھی نہیں ہورہے نادان صاحبہ کو کہہ رہے ہیں کہ انسان اور جانور میں بہت فرق ہے جانور میں سوچ نہیں ہوتی آگہی نہیں ہوتی (تو بھائی اسی سوچ اور آگہی کی معراج کی بنا پر انسان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ انسان بنو عقل اور سوچ سے کام لو) ۔پھر اسی لائن میں رقمطراز ہیں کہ جانوروں میں بھی قاعدے قانون ہوتے ہیں ؟؟؟یار بھائی سوچ لو جانوروں میں عقل شعور نہیں ہوتا یا قاعدے قانون نہیں ہوتے؟اور پھر فرما رہے ہیں کہ مولوی قاعدے قانون ختم کر رہے ہیں اووو بھائی کیا کر رہے ہو مولوی تو قاعدے قانون میں لانے کی سعی کر رہا ہے (بھائی جان سوچ لو کہ مولوی قاعدے قانون سے نکال رہا ہے یا قاعدے قانون میں لا رہا ہے) یہ لفظ مولوی آپ کی تحریر کی بنا پر لکھ رہا ہوں ورنہ ہر مزہب کا وہ فرد جو عورت مرد کے ملاپ کو قاعدے قانون کے مطابق رکھنا چاہتا ہے وہ اپنے اپنے مزہب کا مولوی ہی ہے۔

    آخر میں مزید کچھ کہنے کو نہی رہا آپ “کی بورڈ”کے مجاہد بنے صفحوں کے صفحے کالے کرتے رہیں میری جانب سے یہ چند پیرا گراف ہی اس دھاگے میں پروئے رہیں گے اگر آپ ان چند پیراگرافس کو پڑھ کر “سمجھ “نہیں سکے تو پورا انسائکلو پیڈیا بھی آپ کے لیے بیکار ہی ہوگا۔

    آخر میں بتاتا چلوں کہ میری اپنی شادی 40سال کی عمر کے بعد ہوئی(اب الحمدُللہ بال بچوں کے ساتھ خوشگوار زندگی بسر کر رہا ہوں ) زندگی میں کئی نازک دور بھی آئے جن میں کسی بھی عورت کا حصول نہائت آسان رہا لیکن وقتی جزبات میں نہیں بہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کئی ایسے مواقع بھی آئے کہ کلیگز وغیرہ کی جانب سے طنز ومزاح کا شکار بنا لیکن خود سے کمٹمنٹ رکھی کہ یہ راستے غلط اور نکاح کا راستہ درست ہے تو الحمدُللہ میری زندگی کے کسی بھی ورق پر جنسی داغ کی چھینٹ تک نہیں ۔اس پیرائے میں ،میں خود کو اشرف المخلوقات کے اعلیٰ عہدے پر فائز سمجھتا ہوں کیا آپ یا آپ جیسے ایسا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

    میری جانب سے یہ حتمی تحریر ہے اس کے بعد صرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔والسلامُ علیکم ورحمتہ اللہ

    Athar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #42
    نادان

    چونکہ تحریر میں آپ کا تزکرہ کیا اس لیے اطلاع دینا ضروری سمجھا۔

    Anjaan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #43

    unsafe محترم ان سیف صاحب بات دراصل یہ ہے کہ ایک عجب سا چلن چل رہا ہے معاشرے میں کہ اگر “میں غلط ہوں”تو اس غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے ایسی ایسی تاویلات پیش کروں گا کہ جو درست ہو وہ بھی شبہ میں پڑ جائے کہ آیا واقعی وہ درست ہے بھی یا نہیں ایسا ہی کچھ آپ جیسے افراد ہم جیسے سیدھی راہ والوں کے ساتھ کرتے ہیں اب اس کھلے ڈھکن اور بند ڈھکن کے اشارے کنائے ختم کرتے ہوئے سیدھی سیدھی بات کرتے ہیں آپ فرما رہے ہیں کہ معاشرے کے کچھ لوگ حیاء باختہ عورتوں کو پسند کرتے ہیں اور انہیں یہ میسر بھی ہیں تو اعتراض کیوں؟ تو جناب سیدھی سی بات ہے کہ اگر معاشرے میں رہنا ہے تو معاشرے کے قوانین و حدود قیود کو ماننا پڑے گا بالکل ایسے ہی جیسے آپ کے پاس کتنی ہی مہنگی اور سپر سییڈ گاڑی کیوں نہ ہو لیکن ہائی وے اور شہری حدود کے اندر ٹریفک کے قوانین کے مطابق ہی آپ اس گاڑی کو ڈرائیو کر سکتے ہیں سپر سانک سپیڈ گاڑی رکھ کر آپ کو ٹریفک قوانین روندنے کی اجازت نہیں مل سکتی۔ دوسری بات یہ کہ کیا آپ گارنٹی دیتے ہیں کہ فعل قبیح کے دلدادہ صرف حیاء باختہ عورتوں تک ہی محدود رہتے ہیں؟بالکل نہیں دے سکتے جب کسی کو حرام کا چسکا لگ جائے پھر وہ ہر طرح کا حرام کھانے پرراضی ہوجاتا ہے پھر اُس کو اپنا پرایا اچھا برا کچھ نظر نہیں آتا بالکل اسی طرح آپ مجھ سے گارنٹی مانگیں گے کہ کیا معاشرے میں شادی شدہ مرد وعورت حرام کاری نہیں کرتے ؟لیکن دونوں طرح کے افراد کے بارے میں آپ کا اور میرا نظریہ مختلف ہے میں شادی شادہ مرد و عورت کے غلط فعل کو بھی غلط ہی کہوں گا اور ان کو سزا وار تسلیم کروں گا لیکن آپ غلط کام کرنے والے کو درست مان رہے ہیں اور اس کے لیئےایک دوسرے سے متصادم تاویلات پیش کر رہے ہیں خود ہی کہہ رہے ہیں کہ انسان اور جانور میں بہت فرق ہے اور اگلی ہی لائن میں اس فرق کو ختم کر رہے ہیں کہ انسان، انسان کے درجے سے گرا اور غلاظت کھانے پر تل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں اگر انسان ہے “اگر واقعی انسان ہے،تو کبھی بھی وہ غلاظت کھانے پر راضی نہیں ہوگا”اور اگر وہ غلاظت کھانے پر راضی ہوگیا تو آپ مجھ سے اُسے انسان نہیں کہلوا سکیں گے۔وہ صرف اور صرف ہوس پرست جانور ہے اور جانور کو سزا دینا ہی درست قدم ہے (وہ چاہے مرد ہو یا عورت)۔ اگر ہم جنگلوں میں برہنہ بدن،بغیر کسی تہزیب و تمدن کے رہ رہے ہوتے تو ہم جیسے افراد آپ جیسے افراد پر کسی بھی قسم کی قدغن لگانے میں حق بجانب نہیں ہو سکتے تھے ۔لیکن ہم لوگ جانور نہیں ہیں ہم معاشرے میں رہتے ہیں ۔ہمیں جو تعلیمات دی گئی ہیں اُن کے مطابق ہم انسان اشرف المخلوقات ہیں جس کو ماننے میں آپ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ قدرت نے اپنی سب سے بہترین تخلیق انسان کو بنایا ہے ۔تو بہترین تخلیق پر زمہ داریاں بھی زیادہ ہی ہونگی انہی زمہ داریوں میں سے اہم ترین زمہ داری اپنی نسل آگے بڑھانا اور نہ صرف آگے بڑھانا بلکہ جس تہزیب و تمدن کا میں نمائندہ ہوں اس تہزیب و تمدن کو مزید نکھارنے کے لیئے ضروری ہے کہ میں اپنی آنے والی نسل کی زمہ داری اُٹھاتے ہوئے اُسے معاشرے کا بہترین فرد بنانے کی کوشش کروں اور یہ کوشش بغیر نکاح اور بغیر اولاد حلال کے ممکن نہیں کہ کوئی بھی فرد کسی دوسرے کے نطفے کی ایسی پرورش نہیں کرسکتا جیسی کہ خود اپنی نسل کی ۔لہذا اپنی اہم ترین زمہ داری سے بری الزمہ ہونے کے لیئے اپنی ہوس کو کوئی بھی نام دیں لیکن جانوروں پرندوں کا نام لے کر اسے قدرتی امر کے کھاتے میں مت ڈالیں۔ میری ہی دوسری بات (دعوت گناہ)کو اپنی مرضی کے معانی پہنانا شروع کر دیئے تو محترم مکمل بات یہ ہے کہ وہ لوگ کئی کئی سال اپنی گھروں کو نہیں جاتے پیسہ بچانے کے لیئے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی ہوس میں اپنے جائز راستوں سے دور رہتے ہیں(جبکہ میرے مزہب میں تو روایات ہیں کہ کوئی فوجی حالت جنگ میں بھی اپنے گھر سے چھ ماہ سےزیادہ عرصہ دور نہ رہے)۔ تو اس زر پرستی کو مجبوری کے کھاتے میں ڈال کر ان کے فعل قبیح کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔اور مجھے مولوی بننے کی ضروت نہیں بلکہ سیدھا سیدھا اُنہی کے طریقے کے مطابق احساس دلایا کہ تمھاری بیویوں کی بھی یہی خواہش ہوگی آپ جن کی حرام کاری کو مجبوری کے زمرے میں سمیٹ رہے ہیں اُس حرام کاری کے پیچھے دوہی چیزیں تھیں ایک زیادہ سے زیادہ کمانے کی ہوس دوسرے حرام کاری کی لت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ فرما رہے ہیں کہ اگر کسی فرد کو وہ چیز میسر نہیں تو وہ غلاظت کھانا شروع کر دیتا ہے بھائی جی کیوں وہ چیز میسر نہیں کبھی اس پر بھی غور کرنے کی کوشش کی ؟ کیونکہ ہم نے اپنی اپنی زر پرستیوں لالچوں،دنیاوی فائدوں کے چکر میں عورت یا مرد کے حصول کو مشکل سے مشکل تر بنا لیا ہے مزہب تو کہتا ہے کہ نکاح کو آسان کرو اور پھر اتنا آسان کرنے کا کہتا ہے کہ لڑکی کے گھر والوں پر بارات کا کسی قسم کا بوجھ ڈالنے تک سے منع کرتا ہے اگر آج ہر لڑکا ہوس زر سے نکل کر کسی بھی عام گھرانے کی لڑکی سے شادی کرلے اور اسی طرح ہر لڑکی کسی بی عام گھرانے کے فرد سے شادی پر راضی ہوجائے تو کیا وہ “نکاح جیسے آسان”حلال کے زریعے زنا جیسے حرام کام سے بچ نہیں سکتے؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر آپ بحث برائے بحث میں پڑ کر ضرور کہیں گے کہ کیا گارنٹی ہے کہ شادی کے بعد دونوں کسی فعل قبیح میں نہیں پڑیں گے تو اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ گارنٹی تو نہیں دی جاسکتی لیکن حرام کاری میں کئی فیصد کمی ضرور آسکتی ہے جبکہ آپ کی بات مان لی جائے تو کئی گنا کئی فیصد حرام کاری میں اضافہ ہی اضافہ ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب چونکہ بات زرا کھل کھلا کر شروع ہوہی گئی ہے تو آپ جو تصویر پیش کر رہے ہیں اسی تصویر کے دوسری جانب روشنی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا وہ یہ کہ اگر آپ ہی کی بات کو مان لیا جائے کہ جس کو عورت لڑکی میسر نہیں یا عورت کو مرد میسر نہیں تووہ کسی سے بی بغیر نکاح کے جنسی تعلقات بنا لیتے ہیں اب اگر ان دونوں کے ملاپ سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ کہاں پلے بڑھے گی۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ کہیں گے کئی چائیلڈ کئیر سینٹرز ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا ایک کو چائیلڈ کئیر میں دے دیا دوسری اولاد ہوگئی تو اس کو بھی چائلڈ کئیر میں بھرتی کروا دیا اسی طرح ہزاروں ناجائز جوڑوں نے ناجائز اولادیں جمع کروادیں جب وہ ناجائز اولادیں بڑی ہوئیں تو ان میں سے کئی جوان بچے ایک دوسرے کے بہن بھائی ہیں لیکن وہ انجان ہونے کی بنا پر ایک دوسرے سے تعلق قائم کرتے ہیں تو آپ اس فعل غلاظت کی انتہا کیا دیکھتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ آپ عجیب فرد ہیں ایک ہی مثال کو ایک ہی وقت میں دو طرح سے پیش کر دیتے ہیں اور اس پر شرمندہ بھی نہیں ہورہے نادان صاحبہ کو کہہ رہے ہیں کہ انسان اور جانور میں بہت فرق ہے جانور میں سوچ نہیں ہوتی آگہی نہیں ہوتی (تو بھائی اسی سوچ اور آگہی کی معراج کی بنا پر انسان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ انسان بنو عقل اور سوچ سے کام لو) ۔پھر اسی لائن میں رقمطراز ہیں کہ جانوروں میں بھی قاعدے قانون ہوتے ہیں ؟؟؟یار بھائی سوچ لو جانوروں میں عقل شعور نہیں ہوتا یا قاعدے قانون نہیں ہوتے؟اور پھر فرما رہے ہیں کہ مولوی قاعدے قانون ختم کر رہے ہیں اووو بھائی کیا کر رہے ہو مولوی تو قاعدے قانون میں لانے کی سعی کر رہا ہے (بھائی جان سوچ لو کہ مولوی قاعدے قانون سے نکال رہا ہے یا قاعدے قانون میں لا رہا ہے) یہ لفظ مولوی آپ کی تحریر کی بنا پر لکھ رہا ہوں ورنہ ہر مزہب کا وہ فرد جو عورت مرد کے ملاپ کو قاعدے قانون کے مطابق رکھنا چاہتا ہے وہ اپنے اپنے مزہب کا مولوی ہی ہے۔ آخر میں مزید کچھ کہنے کو نہی رہا آپ “کی بورڈ”کے مجاہد بنے صفحوں کے صفحے کالے کرتے رہیں میری جانب سے یہ چند پیرا گراف ہی اس دھاگے میں پروئے رہیں گے اگر آپ ان چند پیراگرافس کو پڑھ کر “سمجھ “نہیں سکے تو پورا انسائکلو پیڈیا بھی آپ کے لیے بیکار ہی ہوگا۔ آخر میں بتاتا چلوں کہ میری اپنی شادی 40سال کی عمر کے بعد ہوئی(اب الحمدُللہ بال بچوں کے ساتھ خوشگوار زندگی بسر کر رہا ہوں ) زندگی میں کئی نازک دور بھی آئے جن میں کسی بھی عورت کا حصول نہائت آسان رہا لیکن وقتی جزبات میں نہیں بہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کئی ایسے مواقع بھی آئے کہ کلیگز وغیرہ کی جانب سے طنز ومزاح کا شکار بنا لیکن خود سے کمٹمنٹ رکھی کہ یہ راستے غلط اور نکاح کا راستہ درست ہے تو الحمدُللہ میری زندگی کے کسی بھی ورق پر جنسی داغ کی چھینٹ تک نہیں ۔اس پیرائے میں ،میں خود کو اشرف المخلوقات کے اعلیٰ عہدے پر فائز سمجھتا ہوں کیا آپ یا آپ جیسے ایسا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

    میری جانب سے یہ حتمی تحریر ہے اس کے بعد صرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔والسلامُ علیکم ورحمتہ اللہ

    Excellent write Athar Sahib. There is a lot to learn for anyone with open mind.

    Congratulations. As they say ” الله کرے زور -قلم اور زیادہ  

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #44

    محترم اطہر صاحب
    اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
    دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
    شہوت انسان کی بنیادی ضرورت ہے ، مرد عورت کی طرف فطری رغبت رکھتا ہے ، مگر کچھ معاشروں میں مرد و زن کو مذھب اور پاکدامنی کے نام پر اتنا دور کر دیا جاتا ہے کہ باوجود ایک ازدواجی تعلق کے وہ اپس میں ٹھیک طریقے سے مل نہیں پاتے … میں اصل میں انہی حدود و قانون کی بات کر رہا ہوں جو انسانوں کو انسان بننے کی بجاے مزید جانور بنا رہے ہیں ….. مذاھب اور مذھبی رہنما کہنے کو تو بہت باحیا ہیں ، یہ بڑے بڑے فتوے صادر کرنے پر مائل رہنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تشدد اور بے رحم انسانی رویوں پر ابھارتے ہیں۔ پادری کا چرچ ہو یا مسلمان کی مسجد دونوں ہی میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کے اس طرح کے 90 فیصد سے زیادہ واقعات کبھی بھی عوام الناس کے سامنے نہیں آتے بلکہ انسانی زندگیوں کے چھپے ہوئے صفحات میں کھو کر رہ جاتے ہیں

    مسلمانوں میں جنسی زیادتی کا زیادہ شکار بچیوں سے زیادہ بچے ہییں، مسلمانوں کے ملاں کی مثال اس لئے آپ کو دے رہا ہوں ان سے زیادہ ازدواجی تعلق میں کون باحیا ہو سکتا ہے اور وہ شادی شدہ بھی ہیں….. ایک عورت کی طرف بھی راغب ہیں …. مگر مدارس اور درسگاہوں کا ماحول ہی ایسا ہے کہ ایک مذھبی سکالر کے لئے بچوں سے جنسی لذت حاصل کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ مولانا صاحبان انتہائی پردہ دار بیویاں رکھتے ہیں، جو ان کو حیا کی وجہ سے پاس نہیں آنے دیتی جو اپنے گھروں سے باہر تک نہیں نکلتی، ایسی خواتین موٹاپے اور دوسری بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں، جس کے باعث مولوی بھی ان سے وہ جنسی آسودگی حاصل نہیں کر سکتا جو ایک صحتمند اور آزاد عورت اپنے مرد کو فراہم کر سکتی ہے …

    آپ جس معاشرے کے حدود و قید کی بات کر رہے ہیں وہاں پہ مرد کا باحیا ازدواجی تعلق ان کو درندہ بنا دیتا ہے .. اس کے علاوہ معاشرے میں مردوزن کا علیحدہ علیحدہ رکھا جانا دراصل اس جنسی فرسٹریشن کو بڑھانے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ باپردہ معاشروں میں مرد کی ٹھرک اس قدر شدید ہوتی ہے کہ عورت کے پاؤں دیکھ کر ہی مرد آپے سے باہر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مرد کی نظر کو جوان و خوبصورت عورت نظر ہی نہیں آتی اس لئے اس کو بچیاں اور کم عمر لڑکے بھی حسین اور قابل شہوت لگنے لگتے ہیں، اور اسی وجہ سے وہ ان کی طرف بھی جنسی طور پر مائل ہو جاتا ہے۔ یہی مسائل مولوی کے ساتھ ہوتے ہیں، وہ معاشرے میں جنسی آسودگی سے محروم رہتا ہے، اپنی پارسائی کا بھرم بھی رکھنا ہے کسی فاحشہ کے پاس بھی نہیں جا سکتا۔ مسیحی راہب کی طرح مسلمانوں کے گھروں کی عورتوں تک بھی اس کی زیادہ رسائی نہیں ہوتی، اس صورت میں مدرسے کے طالبعلم ہی آسان شکار بن جاتے ہیں .. ا ابی ہالی ہی حال ہی میں مفتی عزیز ور رحمان کیا واقعہ آپ کے سامنے … وہ مفتی بھی باحیا تھا .. اور عورتوں کی طرف دیکھتا نہیں تھا .. لیکن نظر بچوں پہ رکھی ہوئی تھی …

    آپ پاکستان کے کسی بازار میں جب لوگوں کے پاس سے کوئی لڑکی گزرتی ہے ان کی شکلیں دیکھ کر ان کی فرستراشن کا اندازہ لگا لیں …. یہ سب لوگ ایک ہی عورت سے رغبت رکھنے والے ہیں … لیکن پھر بھی ایسے ہو جاتے ہیں .. یہ سب معاشرے کی حدود اور پاکدامنی کا کمال ہے

    آخر میں اپ کو ایک بات کہنا چاہوں .گا … کہ جو معاشرہ جنتی پاکیزگی کی اشاعت کرتا ہے .. اس میں معاشرے میں پلنے والے انسانی جانور اتنا ہی خواھشات کے اسیر ہوتے ہیں … لہٰذا ہمیں اپنی فطرت سے لڑنے کی بجاے وہ قانون تبدیل کر دینا چاہے جو ہمیں درندہ بنا رہے ہیں … کیوں کہ انسان جنگلات میں بھی تو رہا ہے وہاں تو کوئی مولوی کوئی نکاح خوان نہیں تھا … بچے بھی پیدا ہوے ہیں . انسانی نسل انہی سے پڑھی ہے ..

    JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #45
    میں نہائت واجبی سی تعلیم والا نہائت سطحی مثال سے بات کو سمجھنے والا جانتا ہوں تو بس انتا کہ “میں تو 25روپے کی سوفٹ ڈرنک”نہیں خریدتا جس کا ڈھکن کھلا ہوا تو ایسی عورت کے ساتھ تعلقات کیسے قائم رکھ سکتا ہوں جو راہ چلتی “کتیا کی طرح”ہو جس کو کوئی بھی کتا ٹانگوں میں دبا لے

    Athar sahib

    محترم اطہر صاحب

    اپنی راۓ دینے کا بہت شکریہ

    مجھے آپ کی تعلیمی اور علمی قابلیت کا کوئی انداز نہیں ہے مگر آپکی مدلل تحریر پڑھ کر مجھے لگا کے مجھ انپڑھ گنوار کے پاس آپکی بہترین تحریر اور دلیل کا کوئی موزوں جواب نہیں بلکہ ایسا بھی لگتا ہے مجھے کے اچھے اچھے قابل تعلیم یافتہ اور عالم فاضل بھی شاید کوئی موزوں جواب دے نہیں پائیں گے

    JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #46
    Athar sahib

    نادان sahiba

    Zaidi sahib

    Believer12 sahib

    shahidabassi sahib

    میں بہت معذرت خواہ ہوں کے میں نے ایک ایسا موضوع شروع کیا جو اس محفل کے معزز محترم ہستیوں کے معیار سے بہت گرا ہوا ہے

    میرا مقصد کسی کو قائل کرنا نہ تھا نہ ہوتا ہے نہ ہوگا نہ کسی کے مذہبی عقائد کو شامل بحث کرنا نہ تھا نہ کسی کے معاشرتی اور سماجی حوالوں سے طرز زندگی پر کوئی تنقید کرنا تھا . میں یہ بھی نہیں چاہتا کے کوئی اپنی پسند اور نا پسند کی وجہ بیان کرے . ہر شخص کا حق ہے کہ وہ کسی بھی عمل بات شخص یا چیز کو پسند کرے یا نہ کرے

    میں نے ناکام کوشش کی تھی کہ صاف صاف کہہ پاؤں کے اس موضوع پر گفتگو مذہب کے پیراۓ سے باہر رکھ کر ہی کرنی ہے مگر جن معزز محترم ہستیوں نے اس گرے ہوے موضوع پر راۓ دی انہوں نے مذہبی حوالہ جات کو ہی شامل گفتگو کیا . محترم شاہد صاحب نے ایک معاشی نکتہ کو وجہ بنا کر اس موضوع میں جدت ڈالی گو میں اپنی کم عقلی کی بنا پر انکا موقف صحیح طریقے سے سمجھ نہیں پایا ہوں اس لئے نہ کلی طور پر متفق ہوں نہ اختلاف کرتا ہوں

    اسلام پر بات کرنا نہ میرا حق ہے نہ میں اس پر کوشش کرتا ہوں. اگر باقی الہامی مذاہب کو دیکھا جاۓ تو شاید ان میں بھی اس رشتہ کی ممانعت ہو مگر کافی الہامی مذاہب کے پیروکار اس قسم کے رشتوں میں بندھے نظر آتے ہیں. کافروں میں شاید اس رشتہ کو ممنوع قرا نہ دیا ہوا ہو مگر کافروں سے کیا بعید اور انکی کیا حثیت ہے . اور ویسے بھی ہمارے جیسے بہترین معاشروں میں مذہب پر پورے عمل کی وجہ سے ہی سب بہترین ہے تو یقینی طور پر اس قسم کی ممانعت سے دور رہنا ہی بہتر ہے معاشرے کے لئے

    جس معاشرے میں میں رہتا ہوں اور شاید بہت سارے دوسرے بھی رہتے ہیں وہاں اس قسم کے رشتوں کے آداب بھی ہیں ، قیود بھی ہیں اور قانون بھی. نہ سر عام لاوارث بچے نظر آتے ہیں نہ ہر دوسرے روز ایک دوسرے کو چھوڑا جاتا ہے نہ ہی کوئی معاشی نقصان دوسرے فریق کو پہنچایا جاتا ہی. اکا دکاواقعات ہوتے ہوں گے مگر. مجموعی طور پر نہ حکومت نہ معاشرہ نہ عوام اس طرح کے رشتوں کا کوئی بوجھ اٹھاتے ہیں نہ اس وجہ سے معاشرے تنزل کی طرف مائل ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتسا تو ہم کہاں ان معاشروں کو اپنا مسکن بناتے

    ہمارے معاشرے میں مرد کی سوچ اور اسکی مردانہ برتری کو سامنے رکھیں اور مردانہ عزت کا عورت کے ساتھ تعلق دیکھیں تو سمجھ آتا ہے کے یہ عمل کیوں پسند نہیں ہے اسکے علاوہ مجھے کوئی اور وجہ سمجھ نہیں آتی . جہاں جسم ہی پارسائی کا معیار ہو وہاں کچھ نہیں کہا جا سکتا

    بات آگے بڑھانے کو بہت ساری باتیں ہیں مگر اب اس موضوع میں عورت کی تذلیل کی جانب کافی پیشرفت ہو چکی ہے اور شاید مزید ہو اور میرے لئے عورت کی تذلیل ممنوع ہے اس لئے میں بات مزید آگے نہیں بڑھاؤں گا
    آپ تم معزز محترم منفرد شرکاء محفل کا بہت شکریہ

    shahidabassi sahib

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #47
    Athar sahib نادان sahiba Zaidi sahib Believer12 sahib shahidabassi sahib

    میں بہت معذرت خواہ ہوں کے میں نے ایک ایسا موضوع شروع کیا جو اس محفل کے معزز محترم ہستیوں کے معیار سے بہت گرا ہوا ہے

    میرا مقصد کسی کو قائل کرنا نہ تھا نہ ہوتا ہے نہ ہوگا نہ کسی کے مذہبی عقائد کو شامل بحث کرنا نہ تھا نہ کسی کے معاشرتی اور سماجی حوالوں سے طرز زندگی پر کوئی تنقید کرنا تھا . میں یہ بھی نہیں چاہتا کے کوئی اپنی پسند اور نا پسند کی وجہ بیان کرے . ہر شخص کا حق ہے کہ وہ کسی بھی عمل بات شخص یا چیز کو پسند کرے یا نہ کرے

    میں نے ناکام کوشش کی تھی کہ صاف صاف کہہ پاؤں کے اس موضوع پر گفتگو مذہب کے پیراۓ سے باہر رکھ کر ہی کرنی ہے مگر جن معزز محترم ہستیوں نے اس گرے ہوے موضوع پر راۓ دی انہوں نے مذہبی حوالہ جات کو ہی شامل گفتگو کیا . محترم شاہد صاحب نے ایک معاشی نکتہ کو وجہ بنا کر اس موضوع میں جدت ڈالی گو میں اپنی کم عقلی کی بنا پر انکا موقف صحیح طریقے سے سمجھ نہیں پایا ہوں اس لئے نہ کلی طور پر متفق ہوں نہ اختلاف کرتا ہوں

    اسلام پر بات کرنا نہ میرا حق ہے نہ میں اس پر کوشش کرتا ہوں. اگر باقی الہامی مذاہب کو دیکھا جاۓ تو شاید ان میں بھی اس رشتہ کی ممانعت ہو مگر کافی الہامی مذاہب کے پیروکار اس قسم کے رشتوں میں بندھے نظر آتے ہیں. کافروں میں شاید اس رشتہ کو ممنوع قرا نہ دیا ہوا ہو مگر کافروں سے کیا بعید اور انکی کیا حثیت ہے . اور ویسے بھی ہمارے جیسے بہترین معاشروں میں مذہب پر پورے عمل کی وجہ سے ہی سب بہترین ہے تو یقینی طور پر اس قسم کی ممانعت سے دور رہنا ہی بہتر ہے معاشرے کے لئے

    جس معاشرے میں میں رہتا ہوں اور شاید بہت سارے دوسرے بھی رہتے ہیں وہاں اس قسم کے رشتوں کے آداب بھی ہیں ، قیود بھی ہیں اور قانون بھی. نہ سر عام لاوارث بچے نظر آتے ہیں نہ ہر دوسرے روز ایک دوسرے کو چھوڑا جاتا ہے نہ ہی کوئی معاشی نقصان دوسرے فریق کو پہنچایا جاتا ہی. اکا دکاواقعات ہوتے ہوں گے مگر. مجموعی طور پر نہ حکومت نہ معاشرہ نہ عوام اس طرح کے رشتوں کا کوئی بوجھ اٹھاتے ہیں نہ اس وجہ سے معاشرے تنزل کی طرف مائل ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتسا تو ہم کہاں ان معاشروں کو اپنا مسکن بناتے

    ہمارے معاشرے میں مرد کی سوچ اور اسکی مردانہ برتری کو سامنے رکھیں اور مردانہ عزت کا عورت کے ساتھ تعلق دیکھیں تو سمجھ آتا ہے کے یہ عمل کیوں پسند نہیں ہے اسکے علاوہ مجھے کوئی اور وجہ سمجھ نہیں آتی . جہاں جسم ہی پارسائی کا معیار ہو وہاں کچھ نہیں کہا جا سکتا

    بات آگے بڑھانے کو بہت ساری باتیں ہیں مگر اب اس موضوع میں عورت کی تذلیل کی جانب کافی پیشرفت ہو چکی ہے اور شاید مزید ہو اور میرے لئے عورت کی تذلیل ممنوع ہے اس لئے میں بات مزید آگے نہیں بڑھاؤں گا آپ تم معزز محترم منفرد شرکاء محفل کا بہت شکریہ

    shahidabassi sahib

    شکریہ جے ایم پی صاحب ۔ آپ کا موضوع برا نہیں ہے لوگوں کا حسن کلام بہتر نہیں ہے ۔ کسی بھی حساس معاملہ پر لکھنا کافی مشقت کا کام ہے ۔ تنقید کرنا نہایت آسان ہے ، اپنی تنقید کو مثبت پیرائے میں تشکیل دینا مشکل کام ہے ۔ آپ کو معذرت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ اصحاب بشمول میرے اپنا طرز عمل تبدیل کریں جو جذباتی طوفان میں بہہ جاتے ہیں ۔

Viewing 7 posts - 41 through 47 (of 47 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi