Viewing 9 posts - 1 through 9 (of 9 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    ایک دیسی لبرل اپنی ہی ذات میں ایک خود ساختہ دانشور، کالم نگار اور بہت ہی جدید قسم کا تجزیہ نگار ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ بحث ہو جائے تو یہ پہلے تو انگریزی زبان میں لیکچر شروع کر دیں اور اگر اس سے بھی بات نہ بنی تو اپنی علاقائی زبان میں گالیاں دینا شروع کردیں گے۔
    دیسی لبرل جب تک ملک میں ہوتے ہیں صرف فوج اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں پر ایک بار ملک سے باہر نکل جائیں یا اسائیلم لے لیں تو مذہب کو متنازع بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ دیسی لبرلز کا یہ مخصوص ٹولا جن کا کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہے ان کو یہ لگتا ہے خدا نے اس زمین پر تمام تر علم ان کے سپرد کر دیا ہے اور اس نایاب اور کام یاب علم کے یہ اکلوتے وارث ہیں۔ ہر موضوع چاہے وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی، سب سے الگ بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو ماڈرن سمجھتے ہیں اور خود کو سب سے منفرد دکھانا چاہتے ہیں۔ کھلی گفتگو کرتے ہیں، مذہبی لوگوں کو کم علم سمجھتے ہیں اور خود کو عقل قل سمجھتے ہیں۔ یہ اپنے ماں باپ سے بھی تنگ ہوتے ہیں۔ ان کو اپنی خاندانی براؤن چمڑی بھی پسند نہیں ہوتی۔ یہ خود کو کوستے رہتے ہیں اور سب سے زیادہ سڑیل مزاج کہ ہوتے ہیں۔
    ایک طرف جعلی لبرلز اور دیسی فیمنسٹ کہتے ہیں ہمارا جسم ہماری مرضی تو دوسری طرف خاتون اول کے پردے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ‏طنز و مزاح کے نام پر دیسی لبرلز کے پاس ہر کسی کا مذاق اڑانے کا لائسنس ہے اور اگر کوئی انہیں کوئی جواب دے تو “می ٹو” ہوجاتاہے۔ آزادی صحافت خطرے میں آجاتی ہے۔
    دیسی لبرل خواتین کو سب ایسی ویب سائیٹس کا علم ہوتا ہے جو عام خواتین کو نہیں معلوم ہوتیں۔ مثلاً ان سے بحث ہو جائے تو یہ طعنہ مار دیں گی سارا دن وی پی این استعمال کرنے والی اور گندی فلمیں دیکھنے والی عوام اب ہمیں باتیں سنائے گی۔ چونکہ یہ خود یہ چیزیں دیکھتے رہتے ہیں اس لیے سب کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پہلے تو بے حیائی پھیلاتے ہیں فوٹو شوٹ کرواتے ہیں پھر ان کو کوئی چھیڑ دے تو “می ٹو” اور “میرا جسم میری مرضی” جیسے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
    حالیہ دنوں میں یاسر اور اقراء کی وڈیو زیر بحث رہی۔ مذہبی طبقے نے شدید تنقید اور دیسی لبرلز نے حمایت میں قلم چلایا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اور اس طرح کی حرکات ٹی وی چینلز پر نشر کرنا قابل مذمت ہیں۔ بصورت دیگر آنے والی نسلوں میں ایسی حرکات عام نظر آئیں گی اور مزید بے حیائی پھیلے گی۔

    بشکریہ ……. فاطمہ حورین

    https://www.mukaalma.com/72540/

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #2
    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    bluesheep
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #3
    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    کالم نگارہ سے اگر استفسار کیا جائے کہ جمہوریہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان  کا دوپٹہ پہنا کر بعد میں مسلمان کیا گیا تھا تو پٹر پٹر پلکیں جھپکنے کے علاوہ کچھ اور نہ کرپائیں گی لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔

    عجیب تضادات سے بھرپور تحریر ہے کہ جواب دینا بھی وقت کا زیاں ہے۔

    فرماتی ہیں کہ اگر انہیں کوئی چھیڑ دے تو فورا: می ٹو کا شور مچا دیتی ہیں۔ خواتین کو چھیڑنے کا دفاع کرنے کیلئے بندے کو بہت زیادہ ہی جی دار ہونا چاہیئے عام انسان کے بس کی بات نہیں۔

    یعنی اعتراض شور مچانے پر ہے چھیڑنے پر نہیں۔

    نیز جو بھی ان کا اوٹ پٹانگ نظریہ ہے ، اس کی رو سے تو امریکہ اور یورپ میں بےحیائی کا طوفان کب کا تباہیاں مچا چکا ہونا چاہیئے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ ایسے معاشرے کو سونت بینت کر رکھنے کا فائدہ بھی کیا ایک پپی سے جس کی ٹانگوں سے جان نکل جاتی ہے۔

    Anjaan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #5
    کالم نگارہ سے اگر استفسار کیا جائے کہ جمہوریہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دوپٹہ پہنا کر بعد میں مسلمان کیا گیا تھا تو پٹر پٹر پلکیں جھپکنے کے علاوہ کچھ اور نہ کرپائیں گی لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ عجیب تضادات سے بھرپور تحریر ہے کہ جواب دینا بھی وقت کا زیاں ہے۔ فرماتی ہیں کہ اگر انہیں کوئی چھیڑ دے تو فورا: می ٹو کا شور مچا دیتی ہیں۔ خواتین کو چھیڑنے کا دفاع کرنے کیلئے بندے کو بہت زیادہ ہی جی دار ہونا چاہیئے عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ یعنی اعتراض شور مچانے پر ہے چھیڑنے پر نہیں۔ نیز جو بھی ان کا اوٹ پٹانگ نظریہ ہے ، اس کی رو سے تو امریکہ اور یورپ میں بےحیائی کا طوفان کب کا تباہیاں مچا چکا ہونا چاہیئے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ ایسے معاشرے کو سونت بینت کر رکھنے کا فائدہ بھی کیا ایک پپی سے جس کی ٹانگوں سے جان نکل جاتی ہے۔

    Looks though it has touched a raw nerve??

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    پاکستان میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ کا استعمال انصافینز  کرتے ہیں، ایک جائزے کے مطابق پاکستانی اینیمل سیکس کو دیکھنے والی دنیا کی نبمر ون قوم ہے اور علاقہ بھی سرحد کا بتایا گیا ہے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ اونٹ کا سیکس دیکھا گیا ہے

    انٹرنیٹ جن امریکیوں نے ایجاد ہے وہ جانتے ہیں کہ آپ چوری چھپے کیا دیکھتے ہیں، کتنی دیر دیکھتے ہیں اور کس علاقے میں بیٹھ کر دیکھتے ہیں

    اب کہو

    روک سکو تو روک لو تبدیلی آی رے

    :disco:

    Anjaan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #7
    پاکستان میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ کا استعمال انصافینز کرتے ہیں، ا

    How was this established? If there is survey on the subject, can you please provide the source?

    کک باکسر
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #8
    پاکستان میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ کا استعمال انصافینز کرتے ہیں، ایک جائزے کے مطابق پاکستانی اینیمل سیکس کو دیکھنے والی دنیا کی نبمر ون قوم ہے اور علاقہ بھی سرحد کا بتایا گیا ہے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ اونٹ کا سیکس دیکھا گیا ہے انٹرنیٹ جن امریکیوں نے ایجاد ہے وہ جانتے ہیں کہ آپ چوری چھپے کیا دیکھتے ہیں، کتنی دیر دیکھتے ہیں اور کس علاقے میں بیٹھ کر دیکھتے ہیں اب کہو روک سکو تو روک لو تبدیلی آی رے :disco:

    پنجاب میں انیمیل سیکس سب سے زیادہ ہے پتر فاروق 

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #9

    کھلی گفتگو کرتے ہیں، مذہبی لوگوں کو کم علم سمجھتے ہیں اور خود کو عقل قل سمجھتے ہیں

    یہ تو کوئی ایسی خامی نہیں ہے، کھلی گفتگو کرنا کیا کوئی خامی ہے، محترمہ کالم نگارہ فاطمہ حورالعین نے اپنے تئیں جو زیادہ تر خامیاں گنوائیں ہیں وہ خوبیاں ہیں اگر کسی بھی شخص میں پائی جائیں۔۔ کھل کر گفتگو کرنا، خود کو عقلِ کل سمجھنا یعنی اپنی ہی عقل پر انحصار کرنا یہ صرف اسی کیلئے معیوب ہوسکتا ہے جس نے اپنی عقل کسی مذہبی یا سیاسی کھاتے میں کسی اور کے سپرد کی ہوئی ہو۔۔ اور جہاں تک مذہبی لوگوں کو کم تر یا کم علم سمجھنا ہے تو مذہبی لوگوں میں ایک پہلو ایسا پایا جاتا ہے جو انہیں خودکار طریقے سے علمی یا منطقی طور پر دوسروں سے کم تر بنادیتا ہے، یعنی بنا دلیل کسی بھی بات پر ایمان رکھنا اور پھر اسی کو اپنا رویہ بنا لینا اور یہ صرف ان معاملات تک محدود نہیں رہتا جو دائرہ عقائد کے اندر آتے ہیں بلکہ ایک طرح سے ان کی عادت بن جاتی ہے، کسی بھی خلافِ عقل یا ماورائے خرد بات پر بنا سوچے سمجھے، بنا  پرکھے یقین کرلینا اور دوسروں سے بھی توقع کرنا کہ وہ بھی یقین کرلیں۔ بہت سی چیزوں کو بلکہ یوں کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ بہت سی خرافات کو انہوں نے بدیہات کا درجہ دے رکھا ہوتا ہے اور وہ بھی بلاوجہ۔۔۔۔۔وہ اگر کبھی خود بھی تجزیہ کرنے بیٹھیں تو ان کو کوئی وجہ سمجھ نہ آئے گی کہ وہ فلاں فلاں بات پر کیوں یقین / ایمان رکھتے ہیں۔ اور وہ  بھی ایسی باتیں / چیزیں جن کا عملی زندگی میں قدم قدم پر غلط ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔۔۔۔۔ مگر وہ ہیں کہ پھر بھی یقین کئے رکھتے ہیں۔۔۔ 

Viewing 9 posts - 1 through 9 (of 9 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi