Viewing 3 posts - 1 through 3 (of 3 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    جیسے طارق کی دعا اندلس کے میدان میں موضوعِ شاعری بنی اسی طرح مولانا طارق جمیل کی دعا وزیر اعظم کے ایوان میں آج کل موضوعِ بحث ہے
    اگرچہ مولانا طارق جمیل مدظلہ نواز شریف دور سے ہی حکومت کے ایوانوں میں نظر آتے رہے ہیں مگر اس دور میں ان پہ کوئ خاص تنقید نہیں ہوئ کسی نے بھی بادشاہ کے دربار میں ایک عالم کے ایمان پہ شک نہیں کیا
    وجہ؟
    وجہ یہ کہ اپنے تمام تر لبرل عزائم کے باوجود نواز شریف دائیں بازو کے مذھب پسندوں کے محبوب تھے
    وجہ ؟
    وجہ یہ کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو اسپیس دیتے تھے
    اب یہاں ایک بات یاد رکھنے والی ہے کہ “اسلامی جمہوریہ پاکستان” میں لفظ “اسلامی” سے مراد وہ اسپیس یا ڈِھیل ہے جو حکومت یا مقتدرہ عالیہ ، مولویانِ وقت کو جہاں چاہے ، جب چاہے ، جیسی چاہے ، جتنی چاہے دیتی آئ ہے- اسی طرح “جمہوریہ” سے مراد وہ “ڈھیل” ہے جو سیاست دانوں کو دو مارشل لاؤں کے بیچ میسر آتی رہی ہے
    میری اور آپ کی بدقسمتی کہ پرانا پاکستان ختم ہوا اور نیا سیٹ اپ ظہور پا چکا- یہ سیٹ اپ پرانے تمام سیٹ اپّوں کا ابّا ہے- دراصل انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں فی الحال کوئ ایسا سیٹ اپ نہیں چاھتی جس میں حکمرانوں کو عوامی جواب دہی کا خوف ہو
    فی الحال انہیں اس جزیرہء انسانی پہ ایسی حکومت چاھئے جو ووٹ بینک یا پولیٹیکل ڈس ریٹنگ جیسے توہمات پہ یقین نہ رکھتی ہو- جو آئ ایم ایف کے بھوت کو دیکھ کر شور نہ کرے بلکہ اس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چل سکے- جسے روپیہ کی ویلیو اور اشیاء کی قیمتیں گھٹاتے بڑھاتے پیٹ میں درد محسوس نہ ہو – اس سیٹ اپ کو “نیا پاکستان” کہتے ہیں
    اس نئے پاکستان میں لفظ اسلامی سے مراد مولانا طارق جمیل صاحب ہیں- بالکل اسی طرح جیسے پرانے پاکستان میں مولانا فضل الرحمن صاحب تھے- نہ تو انہوں نے کشمیر فتح کر کے دیا ، نہ یہ کریں گے- بس ایک سمبل ہے کہ ہم اللہ رسول کو مانتے ہیں اور یہ ہمارا اسٹائل ہے
    وہ چاھتے تو مولانا طارق جمیل کی جگہ خادم رضوی کو بٹھا سکتے تھے- لُڈّن جعفری کو بٹھا سکتے تھے- حافظ سعید کو بٹھا سکتے تھے- وہ جسے بٹھاتے بڑے شوق سے بیٹھتا اور اسی طرح رو رو کے دعا کرتا ، جیسے مولانا کر رہے ہیں مگر انہوں نے طارق جمیل کو پسند کیا- اللہ ان کا بھلا کرے- یہ تو ہو گا
    اب رہی یہ بات کہ علماء کا حکمرانوں کے ساتھ بیٹھنا اسلامی تاریخ میں معیوب تصوّر کیا گیا تو یہ واقعات دورِ خلافت کے ہیں- علماء حکمرانوں سے میل ملاپ اس لئے پسند نہ کرتے تھے کہ کہیں حکمرانوں کی پالیسی ، مذھب نہ سمجھ لی جائے ، مذھب پہ اثر انداز نہ ہو یا مذھب کے نام پر وہ کوئ مراعت نہ حاصل کر لیویں- اب وہ دور کہاں بھائ؟ اب تو حکمران نماز پڑھ لے تو ستّر اینگلز سے تصویر نکال کے عوام کو بتایا جاتا ہے کہ دیکھو اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
    یہی وجہ ہے کہ ہم ایوان وزیراعظم سے مولانا طارق جمیل صاحب کی دعا میں ہمیشہ اپنی آمین بالجہر ملاتے آئے ہیں اور ان شاءاللہ ملاتے رہیں گے- ہلکی پھلکی آمین تو آپ بھی کہتے ہی ہونگے

    بشکریہ ….. ظفر اقبال محمّد

    https://www.facebook.com/zafar.awan.56211/posts/2654837874774268

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    اسی طرح کے طرز حکومت میں ہومیوپیتھک مولوی لاے جاتے ہیں جن کا نہ کوی فایدہ یا نقصان نہ ہو میرے خیال میں اس کی بہترین مثال یو اے ای اور سعودیہ کے علما ہیں جن کا کام مساجد میں نماز پڑھانا ماہانہ تنخواہ انہیں ملتی ہے اور باقی سہولیات بھی مگر خطبہ پرنٹڈ ہی دے سکتے ہیں زبانی نہیں
    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #3
    اسی طرح کے طرز حکومت میں ہومیوپیتھک مولوی لاے جاتے ہیں جن کا نہ کوی فایدہ یا نقصان نہ ہو میرے خیال میں اس کی بہترین مثال یو اے ای اور سعودیہ کے علما ہیں جن کا کام مساجد میں نماز پڑھانا ماہانہ تنخواہ انہیں ملتی ہے اور باقی سہولیات بھی مگر خطبہ پرنٹڈ ہی دے سکتے ہیں زبانی نہیں

    قاری حنیف ڈار بھی یو اے ای کی ایک مسجد میں ایسے ہیں پرنٹڈ خطبہ دینے والے ایسے ہی مولوی ہیں …. موصوف فیس بک پر بھی کافی لکھتے ہیں … جھکاؤ تبلیغی جماعت کی طرف ہے

Viewing 3 posts - 1 through 3 (of 3 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi