Viewing 8 posts - 21 through 28 (of 28 total)
  • Author
    Posts
  • shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #21
    گھوسٹ بھائی – سمجھدار تو آپ ہیں ، آپ کو الماری اور فریج کے فرق کا پتا ہے:hilar:

    شامی بھائی، میں اپنے اس پٹھنوا بھائی کو بلکل نہیں پہچانا . آپ ہی میری مدد کریں :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:
    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #22
    بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ روائیات یا کلچر ہے ہی نہیں۔کِردار کی کجی اور چھچھورا  پن ہے  جِس کا اِظہار سرِعام کیا جاتا ہے۔ایک ایسا ناسور ہے جِس کا وجود 1960 سے پہلے تک تو کہیں نظر نہیں آیا۔ پختون اور بلوچ،   پاکستانی اقوام میں بہت پہلے سے ہی روائیتی طور پر اصلحہ بند قومیں سمجھی جاتی ہیں ۔ وہ اگر اپنی تقریبات میں اِس طرح کا مُظاہرہ کرتے ہوں  میرے علم میں نہیں اور نا ہی میں اِسکا شاہد ہوں۔ اِتنا ضرور جانتا ہوں کہ اسلحہ کا حصول اِنتہائی مُشکل کام تھا۔ آجاکر لائیسنسڈ اسلحہ صرف دو طرح کا تھا۔ ایک 32   بور کا ریوالور یا پھر 12 بور کی یک نالی یا دونالی بندوق۔ 38 بور اور رایفلڈ نالی  والا اسلحہ صرف سرکاری مُلازمین کیلیئے وقف تھا-1979  کے بعد تو جیسے اسلحے کاسیلاب آ گیا۔ ساتھ ہی ساتھ  ہیروئین مُحترمہ ہمارےمعاشرے  پر ملکہ بن کر راج کرنے لگیں۔ ہر خاص و عام اُن کا دلدادہ حتی ٰکے پروفیسر حضرات بھی اُن کی زُلفوں کے اسیر دیکھے گےفوراً بعد پلاٹوں کی خریدوفروحت وبائی شکل اختیار کر گئی۔ دھڑا دھڑ زمینوں پر قبضےہونے لگے اور جگہ جگہ قبضہ گروپ منظرِعام پر آنے لگے۔ناجائیز ذرائع سےدولت کا حصول آسان تر ہوتا گیا اور آج تک جاری ہے۔ حصولِ معاش کی غرض سے مُلک سے باہر ساکن پاکستانی بہت بڑی تعداد میں قبضہ گروپ کا شِکار ہوئے۔اچانک دولتمند بن جاے والے نودولتیے شدید قسم کے احساسِ برتری کا شِکار ہیں۔ ساتھ ہی اپنے اِردگِرد بسنے والوں پر دھاک بھی قائیم رکھنا مقصود ہے تو اِس اِظہار کے لیے ایسے موقعوں سے بڑھ کر کیا موقعہ ہو گا!اکثردیکھا گیا ہے ایسی فائیرنگ کے نتیجے میں ایک یا پھر ایک سے زیادہ معصوموں کی جان گئی۔ پکڑا کوئی نہیں جاتا کیونکہ جنِ کا یہ کام ہے وہ خود بھی تو اِسی دوڑ میں شامِل ہیں۔
    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #23
    گھوسٹ بھائی – آپ نے وہ لطیفہ سنا ہے پٹھان والا جو ہر بار پہچان میں آ جاتا ہے

    شامی بھائیلگتا ہے یہ پٹھان سکھ بھی تھا:bigsmile:

    Gulraiz
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #24
    میں نے آئی ایس آئی کے ۔۔۔۔ سابق افسر میجر عامر ۔۔۔۔ کے بہت انٹرویو دیکھے ہیں۔۔۔۔۔۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ ۔۔۔۔ اس وقت کراچی میں ۔۔۔۔ انڈیا سے ۔۔۔۔ ہوائی جہازوں میں ۔۔۔۔ بیٹھ کر ۔۔۔ آنے والے ۔۔۔ انڈین دھشت گردوں کی تعداد ۔۔۔۔۔ کئی لاکھ میں ہے جو نارمل ۔۔۔۔ پا کستانی بن کر رہ رھے ہیں ۔۔۔ پورے شہر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ دوسرے میراخیال ہے ۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔ فلم ابھی با قی ہے ۔۔۔۔ ۔۔ ہوائی فا ئرنگ کے جلد ختم ہونے کے کوئی چانس نہیں ہیں ۔۔۔۔ پا کستانیوں کے دماغ اتنے اوپر ۔۔۔۔ اور کرنے کو کچھ ہے نہیں ۔۔۔۔ تو پھر ۔۔۔ ہوائی فائرنگ کرکے ۔۔۔۔ فرشتوں کو زخمی کرکے ہی خوش ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔

    بہت خوب ، بہت عمدہ ، بہت اعلیٰ بلکہ ابوالااعلیٰ

    گلٹی جی

    جب ایمکیوایم کا معاملہ اتا ہے تو آپ لوگ ایجنسیوں کے حامی بن جاتے ہو ،،اور انکے کہے کو ایسے سچ مانتے ہو جیسے یہ کوئی آسمانی صحیفہ ہے مگر جب اپنی باری آتی ہے تو انہی کو لعنت ملامت کرتے ہو

    یہ میجن عامر طالبان کا استاد اور دہشتگردوں کو تربیت دینے والا — جھوٹا مکار اور ڈھیٹ — اسکا آپ حوالہ دیتے ہیں – بڑے افسوس کی بات ہے

    ایجنسیوں میں کوئی ہے جس نے کبھی سچ بولا ہے

    ایجنسیاں تو کہتی ہیں کہ میاں نواز شریف را کے ایجنٹ ہیں ، کیا خیال ہے اس بارے میں

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #25
    بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ روائیات یا کلچر ہے ہی نہیں۔کِردار کی کجی اور چھچھورا پن ہے جِس کا اِظہار سرِعام کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا ناسور ہے جِس کا وجود 1960 سے پہلے تک تو کہیں نظر نہیں آیا۔ پختون اور بلوچ، پاکستانی اقوام میں بہت پہلے سے ہی روائیتی طور پر اصلحہ بند قومیں سمجھی جاتی ہیں ۔ وہ اگر اپنی تقریبات میں اِس طرح کا مُظاہرہ کرتے ہوں میرے علم میں نہیں اور نا ہی میں اِسکا شاہد ہوں۔ اِتنا ضرور جانتا ہوں کہ اسلحہ کا حصول اِنتہائی مُشکل کام تھا۔ آجاکر لائیسنسڈ اسلحہ صرف دو طرح کا تھا۔ ایک 32 بور کا ریوالور یا پھر 12 بور کی یک نالی یا دونالی بندوق۔ 38 بور اور رایفلڈ نالی والا اسلحہ صرف سرکاری مُلازمین کیلیئے وقف تھا- 1979 کے بعد تو جیسے اسلحے کاسیلاب آ گیا۔ ساتھ ہی ساتھ ہیروئین مُحترمہ ہمارےمعاشرے پر ملکہ بن کر راج کرنے لگیں۔ ہر خاص و عام اُن کا دلدادہ حتی ٰکے پروفیسر حضرات بھی اُن کی زُلفوں کے اسیر دیکھے گے فوراً بعد پلاٹوں کی خریدوفروحت وبائی شکل اختیار کر گئی۔ دھڑا دھڑ زمینوں پر قبضےہونے لگے اور جگہ جگہ قبضہ گروپ منظرِعام پر آنے لگے۔ناجائیز ذرائع سےدولت کا حصول آسان تر ہوتا گیا اور آج تک جاری ہے۔ حصولِ معاش کی غرض سے مُلک سے باہر ساکن پاکستانی بہت بڑی تعداد میں قبضہ گروپ کا شِکار ہوئے۔ اچانک دولتمند بن جاے والے نودولتیے شدید قسم کے احساسِ برتری کا شِکار ہیں۔ ساتھ ہی اپنے اِردگِرد بسنے والوں پر دھاک بھی قائیم رکھنا مقصود ہے تو اِس اِظہار کے لیے ایسے موقعوں سے بڑھ کر کیا موقعہ ہو گا! اکثردیکھا گیا ہے ایسی فائیرنگ کے نتیجے میں ایک یا پھر ایک سے زیادہ معصوموں کی جان گئی۔ پکڑا کوئی نہیں جاتا کیونکہ جنِ کا یہ کام ہے وہ خود بھی تو اِسی دوڑ میں شامِل ہیں۔

    نہایت جامع تبصرہ اور تجزیہ ہے آپ نے ایک دلچسپ مشاہدہ شیر کیا ہے کہ انیس سو اناسی سے اسلح اور ہیروئن کا چلن معاشرہ میں عام ہوگیا ہے یہ ضیاء الحق کا دور تھا اور امریکا اور مغرب کی جنگ میں ابراہیمی سنت کے تحت پورا ملک جھونک دیا گیا شومئی قسمت جھونکنے والا ابراہیم نہیں بلکہ ضیاء الحق تھا تو آتش نے گلوں میں تو کیا تبدیل ہونا تھا پورا آشیانہ ہی خاکستر ہوگیا نتیجہ کے طور پر ایسے ایسے شودوں کو چھوڑ گیا جو اس قدر کا آتشیں اسلح سر عام استمعال کرتے ہیںہمیں بتا یا جاتا ہے کہ نائن الیون کے بعد ریاست کی پالیسی میں تبدیلی آی ہے اس دوران بے شمار ملٹری آپریش بھی لاؤنچ کئے گئے اور دو دہشت گردیوں کے درمیانی وقفہ میں بتایا جاتا ہے کہ ملک سے دہشت گردی ختم ہوگئی ہے کسی کو غیر قانونی اسلح رکھنے کی اجازت نہیں ملے گی اور تشدد کا اختیار صرف ریاست کو ہوگا اس بیا نیا کو سیاسی شریف ہوں یا فوجی شریف بیان کرتے ہیں مگر کیا وجہ ہے کے اس قدر آتشیں اسلح اتنا عام ہے اور اس کی روک تھام کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اور وہ اپنی ذمہ داری میں جس خوش اسلوبی سے ناکام ہورہا ہے تو اس کا سو موٹو کون لے گا ؟

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    hawk
    Participant
    Offline
    • Member
    #26
    ہاک بھیا (اگر آپ صنف نازک ہیں تو بھیا کی جگہ محترمہ) آپ سے تعارف ہوا نہیں مگر ڈبو ڈبو کر مارنا شروع کردیا

    aray nahin janab.. main aap sub logoon ka bahut purana Qari hoon.. Pkpolitics.com say aap sub ko jaanta hoon.soocha kay time aa gaya hai kay ID bena hi li jai … waisay poochnay ka shukriya .. regards

    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #27
    نہایت جامع تبصرہ اور تجزیہ ہے آپ نے ایک دلچسپ مشاہدہ شیر کیا ہے کہ انیس سو اناسی سے اسلح اور ہیروئن کا چلن معاشرہ میں عام ہوگیا ہے یہ ضیاء الحق کا دور تھا اور امریکا اور مغرب کی جنگ میں ابراہیمی سنت کے تحت پورا ملک جھونک دیا گیا شومئی قسمت جھونکنے والا ابراہیم نہیں بلکہ ضیاء الحق تھا تو آتش نے گلوں میں تو کیا تبدیل ہونا تھا پورا آشیانہ ہی خاکستر ہوگیا نتیجہ کے طور پر ایسے ایسے شودوں کو چھوڑ گیا جو اس قدر کا آتشیں اسلح سر عام استمعال کرتے ہیں ہمیں بتا یا جاتا ہے کہ نائن الیون کے بعد ریاست کی پالیسی میں تبدیلی آی ہے اس دوران بے شمار ملٹری آپریش بھی لاؤنچ کئے گئے اور دو دہشت گردیوں کے درمیانی وقفہ میں بتایا جاتا ہے کہ ملک سے دہشت گردی ختم ہوگئی ہے کسی کو غیر قانونی اسلح رکھنے کی اجازت نہیں ملے گی اور تشدد کا اختیار صرف ریاست کو ہوگا اس بیا نیا کو سیاسی شریف ہوں یا فوجی شریف بیان کرتے ہیں مگر کیا وجہ ہے کے اس قدر آتشیں اسلح اتنا عام ہے اور اس کی روک تھام کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اور وہ اپنی ذمہ داری میں جس خوش اسلوبی سے ناکام ہورہا ہے تو اس کا سو موٹو کون لے گا ؟

    بلا شق یہ ضیاءالحق(مرحوم /شہید)  صاحب کا دور تھا۔ضیاء صاحب کافی حد تک مذھبی لیکن اپنی ذات میں ایک اچھے انسان تھے۔ اکثر سعودیہ کا دورہ  (سرکاری یا غیر سرکاری) کیا کرتے جِس وجہ سے اُن کے تعقات سعودی حاکم سے ذاتی دوستی  کی سطح تک استوار ہو چکے تھا اور امریکہ گھات لگائے بیٹھا تھا۔ہمیں جِس بات کا خدشہ تھا آخر کار وہی ہوا۔ امریکہ نےسعودی حکومت کو یہ واضع کر دیا کہ روس ایک لا دین نظام کا علم بردار ہے جو افغانستان پر اپنے پنجے گاڑ چکا ہے ۔ اگر اُسےوہیں نہ روکا گیا   تو وہ پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے اور اِسکے بعد اُسکا ہدف خلیج کی ریاستیں ہوں گی۔سعودی فرمانوا نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پشاور بھی گیا۔ امریکی شہہ پر پاکستان کو سعودی ریال، مُفت تیل  اور امریکی اسلحے کی یقین دہانی کی گئی۔امریکی اِنسٹرکٹر  آ گئے اور آج کے سیاست کی اُنچی مسندوں پر براجمان مُلا حضرات کی چاندی ہو گئی۔مُلاؤں کی بھرپور رضامندی اور ضیاء صاحب کے سایہِ عاطفت میں جہاد کے نام پر بھرتی شروع ہوئی۔ باہر کے ممالک  جیسے خلیج، یمن، چچنیا وغیرہ سے جہادی آئےتربیت لینے لگے۔ہمیں ضیاء صاحب سے ایک نہیں کئی شکوئے ہیں۔ ہم تو اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ افغان مہاجرین کے لیئے کیمپ بنائے جائیں گے، اُلٹا اُنہیں کُھلا چھوڑ دیا گیا۔ وہ جہاں چاہے جاتے اور جہا  ں چاہے رہتے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔انہیں مُہاجرین کی وجہ سے ہیروئین اور اسلحہ عام ہوا۔ پاکستان ایک جہنم بنا اور آج تک ہے۔ضیاء صاحب ایک نہایت اعلیٰ فوجی عہدہ رکھتے ہوئے یہ کیوں نہ دیکھ پائے کہ امریکہ اورسعودیہ ہمارے مذہبی جذبات کو شہہ دے کر ہمیں قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول گئے کہ اِسی امریکہ نے لیاقت علی خان شہید کا روس کی طرف جھکاؤ دیکھ کر افغان قاتل تیار کیئے اور ہمارے پہلے وزیرِاعظم کو شہید کروا دیا۔ضیاء صاحب کا فرض تھا وہ یہ سب سمجھتے ہوئے روس  کو پاک افغان سرحد پر ہی  نمٹتے  جو کہ  فوجی پلاننگ کے تحت ممکن تھا۔ افغانوں کو مہاجر کیمپوں میں محدود رکھتےپاکستان میں جہادی تربیتی اڈے ہرگِز قائیم نہ ہونے دیتے۔انہی غلطیوں کی پاداشت میں ہم  38 سال ہونے کو آئے کِس کِس جہنم سے نہیں گُزرے۔جی پی بھائی،  شریفوں کی شرافت نے بھی تو ضیاء دور میں جنم لیا۔ ذرا سوچئے!

    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #28
    بلا شق یہ ضیاءالحق(مرحوم /شہید) صاحب کا دور تھا۔ضیاء صاحب کافی حد تک مذھبی لیکن اپنی ذات میں ایک اچھے انسان تھے۔ اکثر سعودیہ کا دورہ (سرکاری یا غیر سرکاری) کیا کرتے جِس وجہ سے اُن کے تعقات سعودی حاکم سے ذاتی دوستی کی سطح تک استوار ہو چکے تھا اور امریکہ گھات لگائے بیٹھا تھا۔ ہمیں جِس بات کا خدشہ تھا آخر کار وہی ہوا۔ امریکہ نےسعودی حکومت کو یہ واضع کر دیا کہ روس ایک لا دین نظام کا علم بردار ہے جو افغانستان پر اپنے پنجے گاڑ چکا ہے ۔ اگر اُسےوہیں نہ روکا گیا تو وہ پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے اور اِسکے بعد اُسکا ہدف خلیج کی ریاستیں ہوں گی۔سعودی فرمانوا نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پشاور بھی گیا۔ امریکی شہہ پر پاکستان کو سعودی ریال، مُفت تیل اور امریکی اسلحے کی یقین دہانی کی گئی۔امریکی اِنسٹرکٹر آ گئے اور آج کے سیاست کی اُنچی مسندوں پر براجمان مُلا حضرات کی چاندی ہو گئی۔ مُلاؤں کی بھرپور رضامندی اور ضیاء صاحب کے سایہِ عاطفت میں جہاد کے نام پر بھرتی شروع ہوئی۔ باہر کے ممالک جیسے خلیج، یمن، چچنیا وغیرہ سے جہادی آئےتربیت لینے لگے۔ ہمیں ضیاء صاحب سے ایک نہیں کئی شکوئے ہیں۔ ہم تو اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ افغان مہاجرین کے لیئے کیمپ بنائے جائیں گے، اُلٹا اُنہیں کُھلا چھوڑ دیا گیا۔ وہ جہاں چاہے جاتے اور جہا ں چاہے رہتے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔انہیں مُہاجرین کی وجہ سے ہیروئین اور اسلحہ عام ہوا۔ پاکستان ایک جہنم بنا اور آج تک ہے۔ ضیاء صاحب ایک نہایت اعلیٰ فوجی عہدہ رکھتے ہوئے یہ کیوں نہ دیکھ پائے کہ امریکہ اورسعودیہ ہمارے مذہبی جذبات کو شہہ دے کر ہمیں قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول گئے کہ اِسی امریکہ نے لیاقت علی خان شہید کا روس کی طرف جھکاؤ دیکھ کر افغان قاتل تیار کیئے اور ہمارے پہلے وزیرِاعظم کو شہید کروا دیا۔ ضیاء صاحب کا فرض تھا وہ یہ سب سمجھتے ہوئے روس کو پاک افغان سرحد پر ہی نمٹتے جو کہ فوجی پلاننگ کے تحت ممکن تھا۔ افغانوں کو مہاجر کیمپوں میں محدود رکھتےپاکستان میں جہادی تربیتی اڈے ہرگِز قائیم نہ ہونے دیتے۔ انہی غلطیوں کی پاداشت میں ہم 38 سال ہونے کو آئے کِس کِس جہنم سے نہیں گُزرے۔ جی پی بھائی، شریفوں کی شرافت نے بھی تو ضیاء دور میں جنم لیا۔ ذرا سوچئے!

    بھائی آج تک  لاکھوں  نہیں تو ہزاروں دہشت گر پکڑے گئے۔ بےشُمارا اسلحہ پکڑا گیا۔ ہمیں بتایا جائے یہ گِرفتار دہشت گرکہاں ہیں۔ پکڑے گئے اسلحے کا کیا بناَ؟میرا تو خیال ہے دونوں شریف جھوٹ بول رہے ہیں۔الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا اِن کا غلام ہے اور وہی لِکھتا یا دِکھاتا ہے جو یہ دونوں چاہتے ہیں۔سؤموٹو لینے والوں کوکافور کھِلا دیا گیا ہے اوربے اثر ہوجانے کی حد تک سُست ہوچُکے ہیں۔اب تو کوئی مُعجزہ ہی واقع ہو تو بات بنے لیکن بات وہیں پہ آ گئی کیونکہ مُعجزوں کا زمانہ کب سے ختم ہو چُکا۔ذات باری تعالیٰ ہی ہے جو ہمیں اِس دلدل سے نِکالے۔آمین

Viewing 8 posts - 21 through 28 (of 28 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi