Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 35 total)
  • Author
    Posts
  • Shirazi
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1

    امرجلیل کا سندھی افسانہ۔
    اردو میں۔۔

    خدا گم ہوگیا ہے!

    کچھ دنوں سے خدا گم ہوگیا ہے، میرا دوست ہے، ہمارا آپس میں جھگڑا بھی نہیں ہوا تھا بس کھڑے کھڑے گم ہوگیا۔
    تھوڑی دیر کے لئے مجھے خیال آیا کہ خدا کو یقیناً گم کرنے والوں نے گم کردیا ہے، ان کے پاس سے واپس لوٹنا محال ہے، خدا اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا اور اگر کبھی لوٹ کر آیا تو وہ مجھے پہچان نہیں سکے گا بلکہ کسی کو بھی پہچان نہیں سکے گا اپنی خدائی بھی بھول جائے گا یہاں تک کہ اسے اپنا نام بھی یاد نہیں رہے گا۔

    کیونکہ گم کرنے والوں کے پاس سے واپس لوٹنے کے بعد اکثر ایسا ہی ہوتا ہے، ایک بار ہمارے دوست دھنی بخش کو گم کردیا گیا تھا، رشتے دار و احباب نے سوچا کہ مار دیا گیا ہے، لیکن اچانک پانچویں برسی کے موقعے پر پریشان حال لوٹ آیا، مغفرت کے لیے دعا کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور ہاتھ اوپر کرکے اپنے لئے مغفرت اور جنت الفردوس میں جگہ مانگنے لگا، لوگوں نے پہچان لیا، گھر کے اندر لے گئے، وہ اپنی بیوی کو ساس اور ساس کو اپنی بیوی سمجھنے لگا، اپنے سسر کو طالبان کا شہید اعظم ضیاء الحق سمجھا، آج کل گدو بندر (حیدرآباد کا تاریخی پاگل خانہ و موجودہ دماغی امراض کا بڑا ہسپتال) میں بند ہے اور رنگوں کی تفریق میں الجھ کر رہ گیا ہے، بینگن کو مولی اور مولی کو بینگن سمجھتا ہے، مجھے خوف تھا کہ گم کرنے والوں نے خدا کے ساتھ بھی دھنی بخش جیسا سلوک نہ کیا ہو، خدا اگر سفید اور کالے کا فرق بھول گیا تو کارو کاری کی بجائے وہ سفید و سفیدی کرکے مار ڈالے گا، وسوسوں میں الجھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ خدا آخر خدا ہے، گم کرنے والوں کو گم کرکے لوٹ آئے گا، میرے بغیر رہ نہیں سکے گا، میں بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، مجھے یقیں ہے کہ خدا لوٹ آئے گا، لیکن میرے رشتے دار، دوست اور دشمنوں کی رائے ہے کہ میرا خدا لوٹ کر نہیں آئے گا، ان کے مطابق میں نے جس کو خدا سمجھا ہے وہ اصل میں سرگواسی (جنتی) گوپال داس کی آتما (روح) ہے، سرگواسی گوپال داس میرا ہم عمر تھا اور بڑھاپے میں مذھب تبدیل کرکے مسلمان ہوگیا تھا، ڈرپوک تھا اس لیے ختنہ نہیں کروایا تھا، نام خدا بخش رکھوایا تھا، لیکن خدو کے نام سے مشہور تھا، روزے نماز کا پکا پابند، پانچوں وقت مسجد میں نظر آتا تھا۔

    ایک دن مولوی صاحب خدا بخش عرف خدو کو ایک کونے میں لے گئے اور کہا کہ سن خدا بخش تم جب تک ختنہ نہیں کراؤ گے تب تک پکے مسلمان نہیں بنو گے، خدا بخش عرف خدو کانپ اٹھا ، اس پر خوف طاری ہوگیا۔
    سوچا مذہب تبدیل کرکے دوبارہ گوپال داس بن جاتا ہوں تو ختنہ کرانے سے بچ جاؤں گا، دوستوں سے مشورہ کیا، دوستوں نے خبردار کیا کہ اب دوبارہ مذھب چھوڑا تو مرتد ہوکر مرو گے، واجب القتل قرار دیئے جائو گے اور ماردیئے جاؤگے، اب تمہاری مرضی ہے کہ زندگی بچاتے ہو یا ختنہ بچاتے ہو۔۔خدا بخش نے زندگی کو ترجیح دی، دوستوں نے سر پہ پگڑی باندھی، گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا اور نائی کے پاس لے گئے، تب تک خوف میں خدا بخش کا آدھا سانس جاتا رہا، چھپکلی کی طرح کانپنے لگا، دوستوں نے گرا کر قابو کیا، ہاتھ پیر مارنے لگا، بیچارے نائی سے بھول ہوگئی اور نشانہ چوک گیا، استرے نے خدا بخش کا کام اتار دیا تھا، اتنی بلیڈنگ ہوئی کہ ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ دیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا بخش کے مرنے کا مجھے بہت دکھ ہوا، لیکن یہ بات قطعی غلط ہے کہ خدا بخش کی روح میرے ساتھ رابطے میں ہے یا میں خدا بخش کی روح کے ساتھ رابطے میں ہوں۔

    میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے خدا میرے ساتھ ہے، میں جب کھلونوں کے ساتھ کھیلتا تھا تب خدا بھی میرے ہمراہ بیٹھ کر کھلونوں کے ساتھ کھیلتا تھا، میں گلی میں گلی ڈنڈا کھیلتا تھا تو خدا بھی میرے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتا تھا، اسکول میں، کالج میں، یونیورسٹی میں میرے ساتھ ہوتا تھا، میرے ساتھ مل کر سینیما میں فلمیں دیکھا کرتا تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے، جب سندھ کا مغل اعظم صدر کراچی میں سینیما کے باہر ٹکٹ بلیک میں فروخت کرتا تھا، تب تک شہزادہ سلیم ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔

    میرے کہنے کا مطلب ہے کہ خدا میرا وہم نہیں ہے، وہ موجود ہے، میں اسکے بغیر مکمل نہیں ہوں، وہ میرے بغیر مکمل نہیں ہے، میں ہوں تو وہ ہے، وہ نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا، نہ دھرتی نہ آسمان نہ چاند نہ سورج نہ تارے، نہ پہاڑ نہ چٹانیں نہ ریگستان نہ جنگل نہ دریا نہ سمندر نہ انسان نہ سوئر، کچھ بھی نہ ہوتا، وہ ہے تو سب کچھ ہے، خدا میں بہت سی اچھائیاں ہیں، اسے غصہ نہیں آتا، وہ کسی سے بدلا نہیں لیتا، کسی کو خوفناک عذابوں سے ڈراتا نہیں ہے، کسی کو انعام و اکرام کا لالچ نہیں دیتا، کسی سے قربانی نہیں مانگتا، کسی کو پوجا پاٹ کے لئے مجبور نہیں کرتا، خدا کی اچھائیوں کی فہرست بہت طویل ہے، لیکن خدا میں اکا دکا خامیاں بھی ہیں، جیسے خدا کچھ کھا نہیں سکتا، نہ برگر نہ بریانی، یہ نہ سمجھنا کہ کچھ کھانے سے خدا کا ہاضمہ خراب ہوجاتا ہے، نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔۔

    ایک بار خدا میرے ساتھ لاہور گیا، پھجے کی ہوٹل میں بیٹھے تھے، میں بیٹھا نان پائے کھا رہا تھا، خدا ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھ رہا تھا، میں نے ایک نوالہ خدا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ ایک نوالہ کھانے سے مر نہیں جاؤ گے، خدا نے کہا مرتے تو انسان ہیں۔۔ میں خدا ہوں میں نہیں مرتا، میں نے پوچھا پھر کیوں نہیں کھاتے؟؟ کہا کھاتے صرف انسان ہیں، میں خدا ہوں میں کچھ نہیں کھاتا، میں نے کہا ٹھیک ہے تمہارے حصے کے پائے میں کھا لیتا ہوں، کہنے لگا لیکن ایک بات یاد رکھنا، تم چاہے پھجے کے پائے کی دس دیگیں بھی کھا کر ختم کردو لیکن تم پاکستان کے وزیراعظم نہیں بن سکتے۔۔

    ایک بارمیں نے خدا کو کنفیوژ کردیا تھا، میں نے پوچھا تھا کہ تم نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے ہیں ان میں ایک بھی عورت نہیں ہے، کسی عورت کو نبی نہیں بنایا۔۔ تم نے ایسا کیوں کیا؟؟ جواب دینے کی بجائے خدا یہاں وہاں دیکھنے لگا، میں نے کہا کہ مجھے پتہ ہے تم نے ایسا کیوں کیا، کیونکہ تمہیں ماں اور ممتا کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں۔۔
    میری طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ میرے ساتھ رہ رہ کر تم خود کو خدا سمجھنے لگے ہو؟؟
    میں نے کہا کہ میں خوشنصیب ہوں کہ میں خدا نہیں ہوں، مجھے ایک ماں نے جنم دیا ہے، اس لئے مجھے عورت کی عظمت کا اچھی طرح احساس ہے.
    خدا تم بڑے بدنصیب ہو کہ تمہیں کسی ماں نے جنم نہیں دیا، اس لئے تمہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ ایک ماں اورماں کی ممتا کیا ہوتی ہے، اگر پتہ ہوتا تو دس پندرہ عورتوں کو بھی نبی بنا کر ضرور بھیجتے، تم نے یہ دنیا مردوں کے لئے بنائی ہے، راون اور بدروحوں کے لئے بنائی ہے۔۔

    خدا نے کہا کہ بولو تو تمہیں ابھی کے ابھی عورت بنا دوں؟
    میں نے فوراً کہا کہ ایسا ظلم نہ کرنا، میری چار گھر والی ہیں اور چار باہر والی ہیں، میں عورت بن گیا تو ازدواجی زندگی میں خلل پڑ جائے گا، شرعی مسئلہ پیدا ہوگا اور اسلامی جمہوریہ مملکت خداد کے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔۔
    خدا کی بڑی بدنصیبی ہے کہ خدا کی ماں نہیں ہے، اس کو کسی نے جنم نہیں دیا۔۔ خدا کی ایک اور خامی افسوسناک ہے، دردناک ہے، دل دکھانے والی ہے، کائنات کی ہر مخلوق کے لئے جوڑے پیدا کئے، پارٹنر پیدا کئے، چڑیا کے لئے چڑا، شیر کے لئے شیرنی، انسانوں اور سوئروں کے لئے بھی جوڑے تخلیق کئے ہیں، لیکن خود کو چھڑا چھانڈ (اکیلا، تن تنہا) رکھا، اپنے لئے مادہ پیدا نہیں کی، چھڑے چھانڈ کو دنیا شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے، خدا اگر انسان بن کر دنیا میں آجائے تو اسے رہنے کے لئے کوئی کرائے پہ جگہ بھی نہ دے۔

    اچھائیاں اتنی کہ جن کا شمار ہی نہیں، لیکن خدا کی ایک اور خامی مجھے تپا دیتی ہے، بیٹھے بیٹھے کہہ دیتا ہے کہ مانگو، مانگو کیا چاہئے، پوری دنیا مجھ سے مانگتی آئی ہے تم بھی مانگو۔۔
    میں کہہ دیتا ہوں کہ تم خدا ہی رہو فضول میں چیف منسٹر نہ بنو، مجھے تم سے کوئی کنٹریکٹ نہیں چاہئے۔۔
    روکھا جواب سن کر خدا کو ذرا بھی غصہ نہیں آتا، یہ خدائی وصف ہے جو ہم میں نہیں ہے۔
    ایک بار منگھو پیرکے مگرمچھوں کے پاس کھڑے تھے، اچانک کہنے لگا کہ
    بالم! تم مجھ سے کچھ مانگو، تم مانگتے کیوں نہیں ہو، کچھ تو مانگو۔۔
    میرا دماغ گھوم گیا، دل میں خیال آیا کہ دھکا دے دوں بھلے مگرمچھ کھا جائیں۔۔

    اس سے پہلے کہ خدا کو دھکا دیتا، میں خود پھسل کر تالاب کے کنارے پہ بیٹھے بڑے مگرمچھوں کے بیچ میں جا گرا، مگرمچھوں نے کوئی حرکت نہیں کی، حیرت ہوئی، خدا سے پوچھا کہ یہ پتھر پہاڑوں جیسے مگرمچھ اتنے سست کیوں ہیں، خدا نے جواب دیا کہ یہ سندھی مگرمچھ ہیں۔
    ایک بار ہم بوٹ بیسن پہ گھوم رہے تھے، اچانک خدا بولا کہ مجھ سے کچھ مانگو، بتاؤ کیا چاہیئے ۔۔
    میں نے کہا کہ مجھے قطرینہ کیف لاکر دے دو، میں قطرینہ کیف پہ عاشق ہوگیا ہوں مجھے قطرینہ کیف لاکر دو، خدا نے کہا ارے پاگل، ایک قطرینہ کیف کے لئے دو ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کرواؤ گے کیا،
    میں نے پوچھا قطرینہ کیف کی اہمیت کشمیر سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے کیا، کہنے لگا کہ قطرینہ کیف کے لئے تیسری عالمی جنگ لگنے کا پورا امکان ہے، میں تمہارے لئے عالمی امن کو خطرے میں نہیں ڈالوں گا۔۔

    میں نے کہا تم بھی میرے ساتھ رہ رہ کر چکرباز ہوگئے ہو، بات ٹال دی۔
    اس کے بعد خدا نے دوبارہ مجھ سے نہیں پوچھا کہ مانگو کیا چاہئے، اور اس کے بعد کافی دنوں تک خدا نے مجھ سے کچھ مانگنے کو نہیں کہا۔ میں دل میں خوش تھا کہ چڑ دلانے والی بات خدا کے ذہن سے نکل گئی ہے، جس پہ مجھے بہت چڑ لگتی ہے، مانگو، منت کرو، مانگو، مجھ سے کچھ مانگو،۔۔۔
    خدا کی یہ بات مجھے بلکل بھی اچھی نہیں لگتی تھی، میری عزت نفس کو مجروح کرتی تھی۔

    ایک بار مجھے اتنا غصہ آگیا تھا کہ بیچ صدر میں چیخ کر کہا تھا میں فقیر نہیں ہوں۔۔۔ میں بھیک مانگنے والا فقیر نہیں ہوں۔۔۔۔ میں بھکاری نہیں ہوں۔۔۔ سنتے ہو نہ خدا۔۔۔ میں تم سے بھیک نہیں مانگوں گا۔۔۔
    میری چیخیں سن کر لوگوں کا مجمع لگ گیا، میرے علاوہ کسی کو خدا نظر نہیں آرہا تھا، ایک بوڑھے جوگی نے میرے کاندھے پہ ہاتھ رکھا، اور کہا کہ کون کہتا ہے کہ تم بھکاری ہو۔۔۔۔ تم سے کون کہہ رہا ہے کہ تم کسی سے بھیک مانگو۔۔۔
    میں نے خدا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہتا ہے کہ مجھ سے کچھ مانگ۔۔
    مجھ سے کچھ مانگ۔۔۔ مجھ سے کچھ مانگ۔۔۔۔ مجھے کچھ نہین چاہئیے ۔۔۔۔۔۔۔
    میں بھکاری نہیں ہوں۔۔۔
    میں بھکاری نہیں ہوں۔۔۔
    لوگوں نے ادھر ادھر دیکھا، کسی کو کچھ نظر نہیں آیا، مجھے مجذوب سمجھ کر، مجھے میرے حال پہ چھوڑ کر افسوس کرتے ہوئے چلے گئے۔
    لیکن میری خوشفہمی دیرپا ثابت نہ ہوئی، ایک بار ناممکن کو ممکن کرنے کے لئے میں سرحد پار کرکے دوسری طرف جا کھڑا ہوا، کیکر کے پیڑ کے سامنے جھولی پھیلا کر کیکر سے بیر مانگنے لگا، تب میں نے خدا کی آواز سنی۔۔۔
    کیکر سے بیر مانگ رہے ہو۔۔۔ مجھ سے مانگو کیا چاہئے۔۔
    میرے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا۔۔

    میں نے کہا فضول میں بھرم نہ دکھاؤ،
    مجھے پتہ ہے کہ تم کچھ نہیں دے سکتے ہو۔۔۔
    کہنے لگے ارے تم کچھ مانگ کر تو دیکھو۔۔۔۔۔
    میں نے کہا تم فضول میں ضد نہ کرو خدا۔۔۔ مجھے دینے کے لئے تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔۔
    کہنے لگا میں خدا ہوں۔۔
    میں ضد نہیں کرتا۔۔ آج مانگو۔۔۔ جو بھی چاہیئے مانگو۔۔
    جو چاہو مانگو۔۔۔
    میں نے کہ کہا سوچ لو۔۔۔
    کہنے لگا کہ سوچتے انسان ہیں، میں خدا ہوں، مانگو جو چاہئے۔۔۔
    میں نے کہا ٹھیک ہے۔۔
    اگر دے سکتے ہو تو مجھے اپنی خدائی دے دو۔۔۔ اور خود میری طرح انسان بن کر آجاؤ۔۔۔۔
    مجھے اپنی خدائی دے دو۔۔۔
    اور خود انسان بن کر آجاؤ۔۔۔۔
    بس پھر خاموشی۔۔۔
    ایک دم خاموشی چھا گئی۔۔
    جیسے صدیاں بیت گئی ہوں۔۔
    میں نے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔۔۔۔
    خدا گم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ترجمہ۔ ٹھاکر ظہیر حسین۔۔

    • This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    ماں چھری سے سبزی کاٹ رہی ہوتی ہے اور بچہ اس کے ہاتھ سے چمکدار تیز دھار والی چھری لینے کی بار بارکوشش کرتا ہے۔ بچہ ناکام ہوتا ہے تو چیخیں مار کر روتا ہے اسے اس چھری سے کھیلنا ہے

    یہاں پراس ماں کی جگہ  شیرازی جی ہوتے تو فورا چھری بچے کو تھما دیتے

    نتیجہ۔۔۔۔ ماں سب سے زیادہ بچے کو چاہتی ہے مگر اس کی بے ہودہ خواہشات کو پوری نہیں کرتی خواہ وہ بچہ کتنا بھی چیخے چلاے اور روے

    اب اسی بات کو لے کر بعض لوگ کہیں گے کہ ماں بہت عقلمند ہے اور بعض شیرازی جیسے عقلمند کہیں گے کہ بچہ تڑپ رہا ہے مگر مان جانے کہاں گم ہوگئی؟

    Shirazi
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #3
    Believer12 bhai

    First of all I didn’t write the article just posted it,  Secondly, I won’t give sharp knife to kid even if he is crying hard. Last but not the least, our imaginative God is lost, missing in action, non existent. But you have full right to counter spin it just do little better than knife, Kid & Mom

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    Believer12 bhai First of all I didn’t write the article just posted it, Secondly, I won’t give sharp knife to kid even if he is crying hard. Last but not the least, our imaginative God is lost, missing in action, non existent. But you have full right to counter spin it just do little better than knife, Kid & Mom

    کوی بھی نیوٹرل ممبر اس آرٹیکل کو پڑھ کر یہی سمجھے گا کہ آپ نے اس آرٹیکل کو ازراہ تفنن پوسٹ نہیں کیا بلکہ آپ کے خیالات رائیٹر سے ملتے جلتے ہیں۔

    دوسرا آپ بچے کے چیخنے چلانے کے باوجود اسے کھیلنے کیلئے چھری نہٰیں دیتے کیونکہ وہ اس کے فائدے میں نہیں تھی تو اس رائیٹر کو بھی مشورہ دیں کہ قطرینہ کیف مانگنے سے پہلے آئینے میں اپنی شکل بھی دیکھ لیتا اور اگر قطرینہ اسے مل بھی جاتی تو چھری کی طرح کاٹ دیتی، رب نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی اسے نہ دینے کا فیصلہ کیا ہوگا؟

    Shirazi
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #5
    Believer12 bhai

    Forget neutral member I have said many times and I repeat there is no God, this whole concept of imaginary all powerful God is flawed. The writer just pulled few lose ends.

    I really like the begging to prayer analogy…

    If you deserve something why you have to beg to god (aka pray for it)??

    If you don’t deserve, why god should cut the line and grant you something, just because you prayed, why this bribe model is consider holly and not spiritual corruption ?

    This prayer model also creates a begging culture, which rots society both spiritually and intellectually, why one should not focus on doing things right(based on reason and evidence) rather than begging their way out, on some arbitrary faith base model which inherently open to exploiting, more to invest in those ideas

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    Believer12 bhai Forget neutral member I have said many times and I repeat there is no God, this whole concept of imaginary all powerful God is flawed. The writer just pulled few lose ends. I really like the begging to prayer analogy… If you deserve something why you have to beg to god (aka pray for it)?? If you don’t deserve, why god should cut the line and grant you something, just because you prayed, why this bribe model is consider holly and not spiritual corruption ? This prayer model also creates a begging culture, which rots society both spiritually and intellectually, why one should not focus on doing things right(based on reason and evidence) rather than begging their way out, on some arbitrary faith base model which inherently open to exploiting, more to invest in those ideas

    میں بالکل سمجھتا ہوں کہ آپ ایک نیوٹرل انسان ہیں میں صرف ان باتوں کا جواب دینا چاہوں گا جو آپ مجھے پوچھیں گے یا تھریڈ میں ممبران کی ڈسکشن کیلئے رکھیں گے، راہ چلتے کتے کو وٹا مارنے کا مجھے بھی شوق نہیں ہے

    :bigthumb:

    سوال یہ ہے کہ جب میں اپنی محنت سے سب کچھ حاصل کرسکتاہوں اور اپنی اہلیت کے مطابق جاب یا دولت یا کچھ بھی پانے کی صلاحیت رکھتا ہوں تو اللہ سے دعا مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟

    بہت سارے مذہبی لوگ خواہ وہ یہودی اور عیسای ہی کیوں نہ ہوں دعا اس لیے مانگتے ہیں کہ وہ مطمئین ہوجاتے ہیں کہ خدا ان کی مدد کرے گا، یہی ان کا کمزور ترین پوائینٹ بھی ہے جو آپ لوگ اٹھاتے ہو کہ یہ صرف نفسیاتی معاملہ ہے کوی خدا نہیں جو ان کو سنتا ہے

    آپ نے دعا کا معاملہ اٹھایا ہے تو یہ بتاتا چلوں کہ اللہ تعالی سے دعا مانگنے کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ جو آپ مانگ رہے ہیں وہ آپ کو مل جاے بلکہ دعا کا ایک پوشیدہ پہلو بھی ہے جس سے بہت سارے مسلمان  بھی  واقف نہیں ہیں اور وہ یہ ہے کہ دعا میں اللہ تعالی سے یہ التجا بھی کی جاتی ہے کہ اگر یہ چیز میرے لئے اچھی نہیں تو پھرمجھے اس سے محفوظ رکھ، یہی وجہ ہے کہ جب ہمیں کوی چیز محنت اور دعا کے بعد بھی نہیں ملتی تو ہم دوسرا پہلو ذہن میں رکھتے ہوے اسے بھول جاتے ہیں

    میں جب کسی بات کو ڈسکشن کرتا ہوں تو ذاتی تجربات لکھنے سے بھی گریز کرتا ہوں کیونکہ اس پر تو ڈسکشن کا اختتام ہوجاتا ہے۔ خدا کو ماننے والے ضرور کوی لوجک بھی رکھتے ہونگے، مسلمانوں کی لوجک یہ ہے کہ انسان نہیں جانتا کونسی چیز اس کے لئے اچھی ہے اور کونسی مضر۔ یہی بات قرآن میں بھی لکھی ہوی ہے۔ لہذا آپ کے افسانے ہی کی مثال لے لیتے ہیں۔ بالفرض میں یہ دعا مانگ رہا ہوں کہ یااللہ میں نے سی ایس ایس کا امتحان دینا ہے تو مجھے کسٹم آفیسر بنوا دے، اس پوزیشن میں میرے لئے کیا کیا خطرات اور نقصانات پوشیدہ ہیں وہ صرف خدا جانتا ہے جو مستقبل کا حال جاننے والا ہے لہذا ان خطرات کو پیش نظر رکھتے ہوے اللہ تعالی مجھے اس دعا کی وجہ سے پاس کرکے اس سے بہتر کوی پوزیشن عطا فرما دے گاجو میری اگلی زندگی کیلئے بہت بہتر ہوگی

    میری نظر میں تو دعا ایک شیلڈ کی طرح ہے جو آپ کو بے شمار ان دیکھے خطرات سے محفوظ رکھتی ہے اور بعض خوبصورت چیزوں کے اندر چھپے ہوے نقصانات سے بھی آپ کو بچاتی ہے

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7
    Shirazi jee, thank you for wasting 10 minutes of my life, I think it is better if you stick with HoodBhoy :serious:

    Where is Mr Zed these days?

    Shirazi
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #8
    Shirazi jee, thank you for wasting 10 minutes of my life, I think it is better if you stick with HoodBhoy :serious: Where is Mr Zed these days?

    Mr. Zed is continuing his jihad of defending IK & co. In love of IK he started defending GHQ. I suspect he is being coached by shahidabassi

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #9

    اس کائنات میں جو کچھ بھی جہاں مجود ہے اور جو کچھ ہو چکا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے ۔ وہ نیچرل قوانین کے تابع ہے۔ کوئی بھی چیز قانون قدرت سے باہر نہیں ۔ انسانی ہاتھ سے بنانے ہوے بتوں میں جہاں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ کسی کے کام کر سکیں وہاں انسان کے دماغ میں بناۓ گے خیالی خداؤں میں بھی نہیں ہوتی .. بس فرق اتنا ہے بت ظاہری طور پر سب کے سامنے آ جاتے ہیں جب کہ خیالی خدا کسی نظر نہیں اتا ۔ کسی بھی طرح کا تصور خدا ہو۔۔۔وہ بھی اتنا ہی بے بس ہے۔۔جتنے انسانی ساختہ مقدس بت – اانسان کائنات میں بہت بے بس ہے … اس کا کوئی پیارا مر جاے تو اس کو ٹنوں مٹی کے اندر پھینک اتا ہے .. اور پھر گھر میں چاول اور دیگیں کھا کر سمجتا ہے کہ شائد وہ جنت میں ہے حلانکے حقیقت میں اس کی لاش کو کیڑے کھا رہے ہوتے ہیں … ۔ یونانی خدا اسلامی خدا سے کہیں زیادہ طاقتور تھے ان سے یونانی صبح شامدعائیں کرتے تھے لیکن آج ان پرکارٹون فلمیں بنتی ہیں۔ کسی بھی طرح کا مذہب یا تصور خدا ہو اس کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا … ہاں قانون قدرت کا ضرور ہوتا ہے …. دعا ایک خیالی جوا ہوتا ہے ۔ اگر پوری ہو جاے تو خدا صاحب زندہ باد اور اگر نہ ہو تو خدا زیادہ بہتر سمجتا ہے ۔ بے شمار مذاہب کے خدا ہیں۔ اور سب ایک ہی طرح کے ہیں۔ دنیا میں کوئی ثابت شدہ مواد نہیں ہے۔ کہ جو ایمان والے ہیں۔ ان کی دعائیں (آرزوئیں) زیادہ قبول ہوتی ہیں۔۔۔ پاکستانی سمجتھے ہیں کہ بانوے کا ورلڈ کپ دعا نے جتوایا تھا وہ تو خدا ننانوے کے ورلڈ کپ میں کہا تھا

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10
    شیرازی صاحب،
    خدا گم کہاں ہے اس فورم پر بیلیور بھیا کے مشہور کائنات دلائل کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ اور کافروں کے منہ کھٹے کر رہا ہے

    Shirazi, Believer12

    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11
    Mr. Zed is continuing his jihad of defending IK & co. In love of IK he started defending GHQ. I suspect he is being coached by shahidabassi

    اس میدان جنگ کا نام بھی بتا دیں جہاں زیڈ صاحب جنگ لڑرہے ہیں؟

    Shirazi
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #12
    اس میدان جنگ کا نام بھی بتا دیں جہاں زیڈ صاحب جنگ لڑرہے ہیں؟

    The one I know of is WhatsApp 😊😊😊

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13
     This prayer model also creates a begging culture, which rots society both spiritually and intellectually, why one should not focus on doing things right(based on reason and evidence) rather than begging their way out.

    My friend Akhtar did everything according to the instruction manual for thirteen years, applied even the most modern methods of sex but the couple could not get kids. Then one day they turned to prayers and astonishingly they have twins now. :clap:

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #14
    شیرازی جی – یہ تو بہت اچھی بات ہے ، پاک فوج کے ہر کام میں اللہ کی رضا شامل ہے اور عمران خان کے چہرے کی روحونیت دیکھ کر یہی لگتا ہے ان کے ہر کام میں غیبی مدد شامل ہے

    سنا ہے زیڈ کےتکیے کے نیچے سے یہ کتاب بھی ملی ہے

    Mr. Zed is continuing his jihad of defending IK & co. In love of IK he started defending GHQ. I suspect he is being coached by shahidabassi
    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #15
    شیرازی صاحب یہ اتنا لمبا مضمون مجھ سے نہیں پڑھا جائے گا خاص کر جب اندازہ ہو اس میں کیا لکھا ہے – یہ پوسٹ آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے ہے کہ آپ نے ایک تھریڈ تو لگایا ورنہ یہ فورم مر رہا ہے اور اس کے قاتلوں میں میں بھی شامل ہوں – کوئی باوا اور عاطف بھائی سے درخواست کر دے باقاعدہ آنا شروع کر دیں – اگر وہ آ گئے تو میرا وعدہ ہے میں بھی آنا شروع کر دونگا اور یوں فورم کی رونق بحال ہونے کی کچھ نہ کچھ امید پیدا ہو جائے گی –
    Shirazi
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #16

    My friend Akhtar did everything according to the instruction manual for thirteen years, applied even the most modern methods of sex but the couple could not get kids. Then one day they turned to prayers and astonishingly they have twins now. :clap:

    shahidabassi bhai – did your friend or you blame God for 13 years or God just jumped on the scene to take credit for good outcome? If you give God credit for all goods blame him for all fuck ups too. He seems to be absent from later and only enjoys the credit from former thanks to zealots like you.

    Shirazi
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #17
    شیرازی جی – یہ تو بہت اچھی بات ہے ، پاک فوج کے ہر کام میں اللہ کی رضا شامل ہے اور عمران خان کے چہرے کی روحونیت دیکھ کر یہی لگتا ہے ان کے ہر کام میں غیبی مدد شامل ہے سنا ہے زیڈ کےتکیے کے نیچے سے یہ کتاب بھی ملی ہے

    He almost convinced me govt is doing wonders on economic fronts forwarding all the links that @shahidabbasi bhai forwards him

    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #18

    میں نے نصف صدی سے بھی اوپر جس ماحول میں ہوش سنبھالا اس میں ہر بچہ ابا کو آپ اور اماں کو کبھی آپ، کبھی تم اور زیادہ لاڈ چڑھنے پر ’تو‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ ابا کے سامنے زبان کھولنے سے پہلے ہر بچے کو موزوں الفاظ اور پروٹوکولی جملوں کے بارے میں دس بار سوچنا پڑتا تھا۔
    جبکہ اماں سے بن داس کہا جا سکتا تھا کب کھانا دو گی، اتنا کیوں ڈانٹتی ہو، بہت دنوں سے تو نے گڑ کے چاول نہیں بنائے، ایک روپیہ دے ورنہ اسکول نہیں جاؤں گا وغیرہ وغیرہ۔ کبھی تھپڑ پڑ جاتا تو کبھی گال پر چٹاخ سے ماں کا بوسہ۔ آج ساٹھ کا ہونے لگا ہوں مگر اماں سے یہی لفظیاتی عقیدتی رشتہ ہے۔
    بالکل یہی پروٹوکول مقدس ترین ہستیوں پر بھی لاگو تھا۔ نبی کا اکہرا نام لینا بے ادبی شمار تھا۔ انھیں اللہ کے پیغمبر، رسولِ اکرم، کالی کملی والا، رحمت العالمین کہہ کر پکارا جاتا تھا اور آخر میں کبھی دل میں، کبھی سرگوشی میں اور کبھی بلند آواز میں صلی اللہ علیہ وسلم ضرور کہا جاتا تھا۔
    اہلِ بیت اور صحابہ و صحابیات کا نام لیتے ہوئے بھی آداب و احتیاط ملحوظ رہتے تھے۔ قرآن شریف جزدان میں باندھ کر اوپر رکھا جاتا تھا۔اسے باوضو یا کم ازکم ہاتھ دھو کر رحل پر رکھ کے پڑھا جاتا اور پھر چوم کر واپس جزدان میں کس کے اوپر دھر دیا جاتا۔
    مگر جس نے یہ کائنات تشکیل دی، پیغمبر اور الہامی کتابیں اتاریں اس ہستی کا تصور کرتے ہوئے، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے، شکوہ کرتے ہوئے وہی پروٹوکول مستعمل تھا جو ماں کے لیے ہے۔
    اللہ، اللہ میاں، او اللہ، اوپر والے، آپ، تم، تو۔ میرا یہ کام کب تک کرو گے، کیا مجھے بھول گیا، تو جواب کیوں نہیں دیتا۔ ٹھیک ہے آئندہ میں بھی کچھ نہیں مانگوں گا وغیرہ وغیرہ۔
    محلے کی مسجد میں جمعے کی تقریر کرنے والا مولوی احمد دین منبر پر بیٹھ کے رسول اللہ کا نام آتے ہی انگلیاں چوم کر آنکھوں سے لگانا نہیں بھولتا تھا مگر اللہ کا ذکر ایسے کرتا جیسے اگلی گلی میں رہنے والے کسی بے تکلف دوست کی بات ہو۔
    مولوی احمد دین کی زبانی میں نے پہلی بار یہ قصہ بھی سنا کہ حضرتِ موسی علیہہ سلام نے ایک بار دیکھا کہ ایک گڈریا زور زور سے خود کلامی کر رہا ہے۔ ’اے مالک میرا مہمان کب بنے گا۔ میں تجھے بکری کا تازہ دودھ پلاؤں گا، تیرے پاؤں دباؤں گا، تیرے سر سے جوئیں نکالوں گا، تیل لگاؤں گا، بال سنواروں گا، بیمار ہوا تو جڑی بوٹیوں کا شربت لاؤں گا، تجھے سیر پر لے جاؤں گا وغیرہ وغیرہ۔‘
    حضرت موسی نے گڈریے سے پوچھا تو کس سے باتیں کر رہا ہے ؟ اس نے کہا اپنے خدا سے۔ حضرت موسیٰ نے کہا اے جاہل، خدا ان تمام چیزوں سے بلند ہے۔ خدا سے ادب سے بات کرتے ہیں وہ ہم سب کا بادشاہ ہے۔ گڈریا یہ سن کر چپ ہو گیا اور دور نکل گا۔
    جب حضرت موسیٰ خدا سے ہمکلام ہونے کوہِ طور پر پہنچے تو خدا نے موسی سے کہا کہ آج تو نے میرے دیوانے کا دل توڑ دیا۔ تجھے کیا ضرورت تھی اسے مشورہ دینے کی۔ اس کا محبت جتانے کا اپنا انداز ہے، مجھے اس کے دل کی حالت پتا ہے یا تجھے؟ جا اس گڈریے کو ڈھونڈھ کر منا۔
    حضرت موسی الٹے پاؤں چلے آئے۔ بہت مشکل سے گڈریے کو تلاش کیا، دل دکھانے پر معافی مانگتے ہوئے کہا یہ تیرا اور تیرے خدا کا معاملہ ہے۔ مجھے اس کا ادارک نہیں ہو سکتا۔
    مولوی احمد دین ہر چار پانچ ماہ بعد یہ قصہ ضرور کسی نہ کسی بہانے جمعے کی تقریر میں شامل کر دیتے۔
    پہلی بار ممتاز مفتی کا سفرنامہ لبیک پڑھا اور کعبے کے لیے کوٹھے کا استعارہ اور اللہ سے آنکھ مٹکے کی بات دیکھ کر چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگا مگر پھر مولوی احمد دین کا سنایا ہوا موسی اور گڈریے کا قصہ یاد آ گیا۔
    مجذوب وتایو فقیر کا وہ قصہ بھی پہلی بار سن کر میں ایسے ہی اچھل پڑا تھا جو عمر کوٹ کے مولوی ارباب نیک محمد نے بیان کیا تھا۔
    ہوا یوں کہ وتایو اپنی گائے کے لیے جو چارہ اکٹھا کرتا اسے ہمسائے کا گدھا کھا جاتا۔ ایک دن وتایو نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر گدھے کے مرنے کی دعا مانگی۔ اگلی صبح وتایو نے دیکھا کہ اس کی گائے مری پڑی ہے اور ہمسائے کا گدھا آس پاس ٹہل رہا ہے۔
    وتایو ایک نابینا کو پکڑ لایا اور اس کا ہاتھ گائے کی لاش پر رکھ کے پوچھا بتا یہ گدھا ہے کہ گائے۔ نابینا نے لاش کو تفصیل سے ٹٹول کر کہا سائیں یہ تو گائے ہے۔ وتایو نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا میں نے گدھے کے مرنے کی دعا مانگی تو نے میری گائے مار دی۔ اندھے کو بھی گائے اور گدھے کا فرق پتا ہے۔
    آج اگر نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب کوئی فرد یا گروہ ہی ہم سب کا فیصلہ کرے گا کہ کس لقب، جملے یا قصے یا بات سے خالق کی دل آزاری ہوتی ہے اور اللہ کو ماں سے زیادہ مہربان اور دوستوں سے بھی زیادہ دوست کے منصب سے اٹھا کر ایک شہنشاہ کی سنہری کرسی پر ہیبت سے لرزتے درباریوں کے سامنے ہی بٹھانا ہے تو پھر کیوں نہ ان گستاخوں کا سب لکھا بھی جلا دیا جائے۔

    کیسا کعبہ، کیسا قبلہ، کون حرم ہے کیا احرام
    کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یاں سے سلام کیا (میر)

    کنکر پتھر جوڑ کے مسجد لیے بنائی
    تا چڑھ ملا بانگ دے کیا بہرہ ہوا خدائی (کبیر)

    دل خوش ہوا ہے مسجدِ ویراں کو دیکھ کر
    میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے (غالب)

    میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
    تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو (اقبال)

    راتیں جاگیں کریں عبادت، راتیں جاگدے کتے، تیتھوں اتے
    بلھے شاہ کوئی رخت وہاج لے، نہیں تے بازی لے گئے کتے تیتھوں اتے

    جب سے میں نے سندھی ادب کی آبرو امر جلیل پر خدا کی توہین کا الزام سنا ہے تب سے سوچ رہا ہوں کہ ماں ہو کہ خدا، مخلوق اپنے خالق کی توہین کرنا بھی چاہے تو کیسے ممکن ہے؟ والدین اور خدا کو معزول کرنا کس مائی کے لعل یا لعلی کے بس میں ہے؟
    انسان کا خدا سے من و تو کا رشتہ ختم کرنے کا مطالبہ ایسے ہی ہے جیسے میں اپنی ماں کو آج شام سے محترمہ یا ہر ایکسلینسی کہہ کر پکاروں۔ سوچو میری دماغی حالت کا سوچ کر ماں کے دل پر کیا گزرے گی ؟
    میں ہمیشہ خدا سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ تو نے انسان کو ہر شے سے نوازا، کیا کچے کان دینا بھی ضروری تھا؟
    اے اللہ آج کے بعد نادان نصرت فتح علی خان کو بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنا جو یہ گاتے گاتے مر گیا

    ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
    تم اک گورکھ دھندہ ہو (ناز خیالوی)

    بشکریہ ….وسعت اللہ خان

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56630196

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #19
    shahidabassi bhai – did your friend or you blame God for 13 years or God just jumped on the scene to take credit for good outcome? If you give God credit for all goods blame him for all fuck ups too. He seems to be absent from later and only enjoys the credit from former thanks to zealots like you.

    Mine was an intended joke. Anyway, God has created these goods and fuck ups to make this world interesting and worth struggling, otherwise, if everyone’s wishes were fulfilled at once then there wasn’t a difference between the world and the Jannah.

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #20
    مجھے تو اس افسانے میں کوئی گستاخی نہیں نظر آئی، میں خود اکثر خدا سے بےتکلف ہوکر بات کرتا ہوں۔ یوں معلوم ہوتا ہے لوگوں نے واقعی گستاخی اور توہین کو جنت کا شارٹ کٹ سمجھ لیا ہے بجائے عبادت اور اللہ سے تعلق استوار کرنے کے۔
Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 35 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi