Viewing 3 posts - 1 through 3 (of 3 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    اگر کبھی ملحد لوگوں سے گفتگو کی جائے خدا کے وجود پر تو ان کے دو ہی سوالات ہوتے ہیں جن کے جوابات نہ ملنے کی بِنا پر وہ خدا کے وجود کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں
    اگر خدا ہی کائنات اور اُس کی ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے تو خدا کو پیدا کرنے والا کون ہے؟
    دنیا میں ہر مذہب اپنے خدا کو ہی اصل خدا مانتا ہے اور ہر دوسرے مذہب کے خدا کو باطل قرار دیتا ہے تو ہم کیسے کہیں کہ کونسا خدا اصل خدا ہے؟
    یہ کافی بنیادی سوالات ہیں اور ہر ذی شعور اور سوچ بچار رکھنے والا شخص ان سوالات کا سامنا کرتا ہے، مگر ہمارے یہاں مذہبی حلقوں اور گھروں میں بدقسمتی سے سوالات کرنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور اس زمانے میں جہاں علم کا دور ہے اور لوگ ہر چیز کو علمی سطح پر سمجھ کر اور دل کا اطمینان پا کر اختیار کرتے ہیں، تو جن لوگوں کو اِن سوالات کا تسلی بخش جوابات نہیں ملتا وہ خدا کے وجود سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر جوابات نہیں پارہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جوابات ہیں نہیں اور خدا کے وجود کا ہی انکار کر دیں بلکہ ان سوالات کے جوابات ایک سوچ بچار رکھنے والا شخص کوئی بہت زیادہ سعی کیے بغیر بھی حاصل کر سکتا ہے۔
    میرے فہم کے مطابق ان سوالات کے جوابات یہ ہیں جو کہ مجھے بھی خود ہی ملے، تو پہلا سوال:
    اگر خدا ہی کائنات اور اُس کی ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے تو خدا کو پیدا کرنے والا کون ہے؟
    یہ سوال کرتے ہوئے پہلے تو یہ ذہن میں ہونا چاہیے کہ ہم خدا کو اپنی جیسی مخلوق نہ سمجھیں جس کو پیدا ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بات تو قطعی ہے کہ ہم مخلوق ہیں اور ہم اپنے آپ کے خود خالق نہیں ہیں۔ مخلوق کا تو خالق ہونا چاہیے مگر خالق کا بھی اگر خالق ہوا تو پھر تو لا متناہی سلسلا چل پڑے گا اور پھر یہ سوال ہر خالق کے بارے میں اٹھایا جائے گا کہ اُس کا خالق کون ہے؟ اِس سوال کو کہیں رکنا ہوگا اور جہاں وہ رکے گا وہیں خدا کی ذات ہوگی جس کو کسی خالق کی ضرورت نہیں اور وہ ہر شئے کا خود خالق ہے ۔
    جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ خدا کو کس نے پیدا کیا کیونکہ یہ سوال بڑا کلیدی ہے اور اس کے جواب کے بغیر ان کی تسلی نہیں ہوگی تو کیا یہ انتہائی مضحکہ خیز بات نہیں کہ اس بات سے تو ان کی تسلی ہوجاتی ہے کہ ان کے مطابق اس کائنات کا خالق نہیں ہے اور کائنات بغیر خالق کے ہمیشہ سے موجود ہو سکتی ہے، جس کی شروعات نہیں ہے مگر ان کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں کہ خدا بغیر خالق کے ہو! اور جو ملحد فلسفی جیسے کہ برٹرینڈ رسل ایک زمانے میں یہ بات کیا کرتے تھے کہ اس کائنات کی کوئی شروعات نہیں ہے اور ہمیشہ سے ہے اس بات کوسائنس نے خود ہی اٹھا کر پھینک دیا جب یہ دریافت ہوا کہ کائنات بگ بینگ سے وجود پذیر ہوئی اور اس کائنات کی عمر بھی بتا دی جو کہ لگ بھگ ۱۴ ارب سال کے قریب ہے۔
    اور اگر کوئی یہ دلیل دیتا ہے کہ کیونکہ ہم اس کائنات کو دیکھ سکتے ہیں تو ہم کیسے انکار کریں۔ تو پھر تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ہر چیز جو اس کائنات میں ہو رہی ہے اس کو دیکھ کر ہی مانتے ہیں؟ ہماری آنکھیں آج بھی یہ ہی دیکھتی ہیں کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے اور یہ ہم نے اب تک کسی تصویر جو کہ نظام شمسی سے باہر نکل کر لی گئی ہو اس میں نہیں دیکھا ہے! بلکہ مشاہدات کرکے اور عقل کا استعمال کر کے اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اصل میں زمین ہے جو کہ سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اسی طرح بلیک ہولز کو ایک عرصے سے دنیا مان رہی تھی اور اس کو ابھی حال ہی میں دیکھنے کی صلاحیت مل پائی مگر اس کے بارے میں ہم کسی اشکال میں نہیں آتے تھے اور نہ کبھی اس کے انکاری ہوئے! اسی طرح کشش ثقل کو کس نے دیکھا ہے مگر ہم اس کے اثرات کی وجہ سے جانتے ہیں کہ موجود ہے۔ اسی طرح ہمیں کیا ہر دفعہ آگ کے شعلے ہی دیکھنے ہوتے ہیں تب ہی ہم یہ جانتے ہیں کہ کہیں آگ لگ گئی ہے؟؟ ہم دھواں دیکھ کر جان جاتے ہیں کہ کہیں آگ لگ گئی ہے۔ اس کائنات میں بہت کچھ ہو رہا ہے جو کہ ہمیں نظر نہیں آتا اور نہ آنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے اثرات اور نشانات کو پڑھ کر اور عقل کا استعمال کر کے پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ عقل کی استنباطی صلاحیت ہی ہے جس کو استعمال کر کے ہم بہت سارے انکشافات کر چکے ہیں اور اس نے ہماری دنیا تبدیل کردی۔
    خدا کا معاملہ بھی یہ ہی ہے کیونکہ ہم اُس کو دیکھ نہیں سکتے تو ہم استنباطی صلاحیت ہی کو استعمال کر کے اس کے وجود تک پہنچتے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں یہ کہ کائنات ہر لحاظ سے بنی ہوئی ہے اور اس میں جو ریاضی اور اعلیٰ درجہ کا ڈیزائن پاتے ہیں بغیر کسی خامی کے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ کسی خالق کے بغیر ممکن نہیں اور اس کے ہونے کی واحد توجیہ یہی پاتے ہیں۔ ہر شے کا خالق ہونا ضروری نہیں مگر ہر وہ شے جو بنی ہو اس کا خالق ہونا ضروری ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر کہیں لکڑی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا ہو تو ہم اس کا خالق نہیں ڈھونڈتے مگر اسی لکڑی کے ٹکڑے کی کہیں کرسی بنی پاتے ہیں تو فوراً ہماری عقل اس بات کو قبول کر لیتی ہے کہ اس کا ایک لازمی خالق ہے اور ہم اس خالق کے خالق کو نہیں تلاش کرتے تاکہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ کیا اس کرسی کا خالق ہے؟؟
    اور خود ہم انسان کیسے وجود میں آئے؟ ہم جانتے ہیں کہ ہم محض ایک گوشت کا لوتھڑا نہیں ہیں، ہمیں جِسم عطا ہوا ہے اور ہم جِسم نہیں ہیں۔ ہم اپنا الگ سے شعور رکھتے ہیں کہ ہم کچھ ہیں، اور ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ سب کیسے ہوا؟ کچھ ملحد حضرات نظریہ ارتقاء کا حوالہ دینگے تاکہ کچھ سمجھا سکیں کہ کیسے ہوا۔ حالانکہ ابھی بھی بہت سارے سوالات ہیں نظریہ ارتقا ء پر جو اس بحث کا موضوع نہیں ہے، مگر اگر ارتقاء کے نظریے کو مان بھی یہ لیا جائے تو تب بھی اس سے یہ تو جواب مل سکتا ہے کہ انسانی جِسم کس طرح بنا، مگر انسان جِسم نہیں ہے، جِسم اس کے پاس ہے اور وہ اِس کو دنیا میں استعمال کرتا ہے تو پھر انسان کا وجود کیسے ہوا؟ اس کو کس نے پیدا کیا ؟؟
    کائنات اور انسان کا ہونا اس کے علاوہ اور کوئی توجیہ نہیں پاتے کہ ان کا ایک عظیم خالق ہے جس نے سب کو عدم سے پیدا کیا۔ اور یہ ہی واحد توجیہ ہے جو ہمیشہ سے ہے اور یہاں تک کہ اب کا جدید علمی انسانی ذہن بھی اس کے علاوہ کوئی مضبوط اور قابلِ قبول توجیہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    اب آتے ہیں دوسرے سوال کی طرف:

    دنیا میں ہر مذہب اپنے خدا کو ہی اصل خدا مانتا ہے اور ہر دوسرے مذہب کے خدا کو باطل قرار دیتا ہے تو ہم کیسے کہیں کہ کونسا خدا اصل خدا ہے؟
    آسمانی خدا کا تصور تو ہر مذہب میں ملتا ہے اور شرک اور بت پرستی پیدا ہی کسی خدا کو ماننے سے ہوتی ہے تو خدا تو موجود ہوا نا، تو یہ اعتراض ہی بھونڈا ہے کہ کیونکہ ہر مذہب ایک اپنا الگ خدا مانتا ہے تو کیسے کہیں کہ کس کا خدا اصل میں خدا ہے تو اس لیے خدا کو ماننے سے ہی انکار کردیں۔
    اور مثال کے طور پر الہامی مذاہب میں اگر اسلام کی بات کریں تو وہ تو یہ کہتا ہے کہ سارے الہامی مذاہب ایک ہی ہیں اور ہر رسول نے ایک ہی خدا کی بات کی اور رسول اللہ ﷺ اسلام کے پہلے نہیں آخری رسول ہیں اور یہ تو لوگوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختلافات پیدا کر لیے اور اپنے اپنے ناموں سے مذہب بنا ڈالے، ورنہ سب ایک مسلمان ہی تھے اور ہر ایک کا مذہب اسلام ہی تھا۔
    مندرجہ ذیل قرآنی آیات یہ ہی بات صاف صاف بتا رہی ہیںٍ
    شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
    لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ یہ جن کو دی گئی، اِس میں اختلاف بھی اُنھی لوگوں نے کیا، نہایت واضح دلائل کے اُن کے سامنے آ جانے کے بعد، محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے۔ پھر یہ جو (قرآن کے) ماننے والے ہیں، اللہ نے اپنی توفیق سے اُس حق کے بارے میں اِن کی رہنمائی کی جس میں یہ اختلاف کر رہے تھے۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔
    قرآن ۲ : ۲۱۳

    شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
    (اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف اُسی طرح وحی کی ہے، جس طرح نوح کی طرف اور اُس کے بعد آنے والے پیغمبروں کی طرف کی تھی۔ ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق، یعقوب، اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی کی اور داؤد کو ہم نے زبور عطافرمائی تھی۔ ہم نے اُن رسولوں کی طرف بھی اِسی طرح وحی بھیجی جن کا ذکر تم سے پہلے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں کی طرف بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا اور موسیٰ سے تو اللہ نے کلام کیا تھا، جس طرح کلام کیا جاتا ہے۔ یہ رسول جو بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ لوگوں کے لیے اِن رسولوں کے بعد اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے۔ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔
    قرآن ۴ : ۱۶۳ ۔ ۱۶۵

    یہ سارے الہامی مذہب در حقیقت اسلام کے ہی فرقے ہیں جنھوں نے الگ الگ مذاہب کی شکل لے لی اور ان سب کی اصل شکل مسخ ہو کر رہ گئی ۔اور اسی طرح جیسے کہ ابھی بھی اسلام میں فرقے بنے ہوئے ہیں، جن کی سب سے بڑی مثال سنی اور شیعہ فرقے ہیں، اب صرف فرق یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو الگ مذہب نہیں کہتے بلکہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے ہیں ۔

    قطع نظر اس بحث کے کہ کس کا خدا اصل خدا ہے، الہامی اور غیر الہامی مذاہب سب میں خدا کا تصور ضرور پایا جاتا ہے، اگر اصل کی تلاش ہے، تو تحقیق کریں، تاریخ کا مطالعہ کریں، مذاہب کا مطالعہ کریں اور عقل کا استعمال کریں اور پہنچ جائیں اصل خدا تک! آخر کو ہم انسانوں نے علمی اور تحقیقی رویے کے ذریعے بڑے بڑے کائنات میں انکشافات کیے ہیں چاہے وہ نظر آتے ہوں یا چھپے ہوئے ہوں، اسی طرح اصل خدا کو بھی دریافت کر لیں گے۔

    بشکریہ ……. خرم خان

    https://www.mukaalma.com/98451/

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    Zed
    Participant
    Offline
    • Professional
    #3

    اگر کبھی ملحد لوگوں سے گفتگو کی جائے خدا کے وجود پر تو ان کے دو ہی سوالات ہوتے ہیں جن کے جوابات نہ ملنے کی بِنا پر وہ خدا کے وجود کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں

    سب سے پہلے یہ ایک غلط بیانی ہے کہ مذھب سے انکار کرنے والوں کے بس یہی دو سوال ہوتے ہیں. مصنف نے یہ بات بغیر کسی تحقیق کیے اپنے پاس سے گھڑی ہے. شروواد ہی غلط بیانی سے آگے “الله ” خیر کرے


    اگر خدا ہی کائنات اور اُس کی ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے تو خدا کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ یہ سوال کرتے ہوئے پہلے تو یہ ذہن میں ہونا چاہیے کہ ہم خدا کو اپنی جیسی مخلوق نہ سمجھیں جس کو پیدا ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بات تو قطعی ہے کہ ہم مخلوق ہیں اور ہم اپنے آپ کے خود خالق نہیں ہیں۔ مخلوق کا تو خالق ہونا چاہیے مگر خالق کا بھی اگر خالق ہوا تو پھر تو لا متناہی سلسلا چل پڑے گا اور پھر یہ سوال ہر خالق کے بارے میں اٹھایا جائے گا کہ اُس کا خالق کون ہے؟ اِس سوال کو کہیں رکنا ہوگا اور جہاں وہ رکے گا وہیں خدا کی ذات ہوگی جس کو کسی خالق کی ضرورت نہیں اور وہ ہر شئے کا خود خالق ہے ۔

     یہاں مصنف نے یہ فرض کر لیا ہے کے ہر شے کا کوئی خالق ہے اور تخلیق کا ایک متناہی سلسلہ ہے. اس خالق و تخلیق کا کہیں بھی ثبوت نہیں ہے. کرہ ارض کیسے وجود میں آئی، ہمارا نظام شمسی، ہماری گلیکسی وغیرہ کیسے وجود میں آیے یہ سب سائنس ہمیں بتا چکی ہے. اس میں خالق کا کہیں دور دور تک کوئی اثر و رسوخ نہیں ملتا

    لیکن فرض کریں اپ کی بات کو مان بھی لیا جائے تو بات پھر بھی وہی ہے کے خدا کو کس نے بنایا. اگر خدا خود بخود وجود میں آ سکتا ہے تو پھر قائنات بھی خودبخود وجود میں آ سکتی ہے۔

    بنیادی طور پر مصنف نے “انفینٹ ریگریس فیلاسی” بیان کی ہے. جس کا میں یہاں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں. اس کا سادہ سا جواب ہے کہ انفنینٹ ریگریس اف کاز ممکن نہیں ہے لیکن لا متناہی لوپ یا انفنیٹ لوپ ممکن ہے 


    برٹرینڈ رسل ایک زمانے میں یہ بات کیا کرتے تھے کہ اس کائنات کی کوئی شروعات نہیں ہے اور ہمیشہ سے ہے اس بات کوسائنس نے خود ہی اٹھا کر پھینک دیا جب یہ دریافت ہوا کہ کائنات بگ بینگ سے وجود پذیر ہوئی اور اس کائنات کی عمر بھی بتا دی جو کہ لگ بھگ ۱۴ ارب سال کے قریب ہے۔

    یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز دعوہ ہے، مصنف کو اس پر مزید معلومات حاصل کرنے ضرورت ہے. بگ بینگ تمام دنیا کا آغاز کا نہیں بلکہ اس قائنات کے آغاز کا نتیجہ ہے. اور اس جیسے انگنت جہاں اور بھی ہیں. سائنسی تحقیق اس بارے میں فلحال غیر حتمی ہے


    خدا کا معاملہ بھی یہ ہی ہے کیونکہ ہم اُس کو دیکھ نہیں سکتے تو ہم استنباطی صلاحیت ہی کو استعمال کر کے اس کے وجود تک پہنچتے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں یہ کہ کائنات ہر لحاظ سے بنی ہوئی ہے اور اس میں جو ریاضی اور اعلیٰ درجہ کا ڈیزائن پاتے ہیں بغیر کسی خامی کے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ کسی خالق کے بغیر ممکن نہیں اور اس کے ہونے کی واحد توجیہ یہی پاتے ہیں۔

     قائنات میں کوئی ڈیزائن نہیں ہے، سائنسی اصول اور فزیکس کے قوانین ایک خاص مقام بلکل اپلائی نہیں ہوتے مثلا قوانٹم لیول پر ایک الگ ہی سائنسی دنیا ہے


    ہر شے کا خالق ہونا ضروری نہیں مگر ہر وہ شے جو بنی ہو اس کا خالق ہونا ضروری ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر کہیں لکڑی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا ہو تو ہم اس کا خالق نہیں ڈھونڈتے مگر اسی لکڑی کے ٹکڑے کی کہیں کرسی بنی پاتے ہیں تو فوراً ہماری عقل اس بات کو قبول کر لیتی ہے کہ اس کا ایک لازمی خالق ہے اور ہم اس خالق کے خالق کو نہیں تلاش کرتے تاکہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ کیا اس کرسی کا خالق ہے؟؟

    ہاہاہا مصنف نے خود ہی اپنی دلیل کی نفی کر دی. جو چیز بنی ہوئی محسوس ہوتی ہے اسے کا خالق ہوتا ہے. راستے میں لکڑی کا ٹکرا ملے تو بنا ہوا نہیں ہوتا، بلکل جناب لکڑی کے ٹکڑے کا کوئی خالق نہیں، جنگلوں کا کوئی خالق نہیں، پتھروں کا، پہاڑوں کا، کہکشاؤں کا اور قائنات کا کوئی خالق نہیں. کیونکے یہ سب بنے ہوے محسوس نہیں ہوتے


    اور خود ہم انسان کیسے وجود میں آئے؟ ہم جانتے ہیں کہ ہم محض ایک گوشت کا لوتھڑا نہیں ہیں، ہمیں جِسم عطا ہوا ہے اور ہم جِسم نہیں ہیں۔ ہم اپنا الگ سے شعور رکھتے ہیں کہ ہم کچھ ہیں، اور ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ سب کیسے ہوا؟ کچھ ملحد حضرات نظریہ ارتقاء کا حوالہ دینگے تاکہ کچھ سمجھا سکیں کہ کیسے ہوا۔ حالانکہ ابھی بھی بہت سارے سوالات ہیں نظریہ ارتقا ء پر جو اس بحث کا موضوع نہیں ہے، مگر اگر ارتقاء کے نظریے کو مان بھی یہ لیا جائے تو تب بھی اس سے یہ تو جواب مل سکتا ہے کہ انسانی جِسم کس طرح بنا، مگر انسان جِسم نہیں ہے، جِسم اس کے پاس ہے اور وہ اِس کو دنیا میں استعمال کرتا ہے تو پھر انسان کا وجود کیسے ہوا؟ اس کو کس نے پیدا کیا ؟؟

    یہ ارتقا پر ایک پرانا گھسا پٹا الزام ہے. ارتقا سائنس سے ثابت شدہ نظریہ ہی نہیں بلکے سائنس کی عظیم دریافتوں میں سے ایک ہے. انسان کیسے وجود میں آیا اسکا تفصیلی جواب یہاں دینا ممکن نہیں لیکن یہ بہت آسانی سے  انٹرنیٹ پر مل سکتا ہے۔ ویسے اسلام کے کئی جید علما نظریہ ارتقا کو قبول کر چکے ہیں۔


    کائنات اور انسان کا ہونا اس کے علاوہ اور کوئی توجیہ نہیں پاتے کہ ان کا ایک عظیم خالق ہے جس نے سب کو عدم سے پیدا کیا۔ اور یہ ہی واحد توجیہ ہے جو ہمیشہ سے ہے اور یہاں تک کہ اب کا جدید علمی انسانی ذہن بھی اس کے علاوہ کوئی مضبوط اور قابلِ قبول توجیہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔
    ہاہا، اچھا خدا کو کس نے بنایا اس کا جواب دے دیں پھر۔ 


       مثال کے طور پر الہامی مذاہب میں اگر اسلام کی بات کریں تو وہ تو یہ کہتا ہے کہ سارے الہامی مذاہب ایک ہی ہیں اور ہر رسول نے ایک ہی خدا کی بات کی اور رسول اللہ ﷺ اسلام کے پہلے نہیں آخری رسول ہیں اور یہ تو لوگوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختلافات پیدا کر لیے اور اپنے اپنے ناموں سے مذہب بنا ڈالے، ورنہ سب ایک مسلمان ہی تھے اور ہر ایک کا مذہب اسلام ہی تھا۔

    شروع سے سب مسلمان بلکل بھی ایک نہیں تھے اسلامی تاریخ بلکل اس کے بر عکس ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فورا بعد ہی فتنے پھیلنا شروع ہوگئے تھے. تین خلفا راشدین قتل ہوے، حضرت عائشہ اور حضرت علی میں جنگ جمل ہوئی جس میں ہزاروں صحابیوں نے گاجر مولی کی طرح ایک دوسرے کو کاٹ ڈالا


    شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
    لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ یہ جن کو دی گئی، اِس میں اختلاف بھی اُنھی لوگوں نے کیا، نہایت واضح دلائل کے اُن کے سامنے آ جانے کے بعد، محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے۔ پھر یہ جو (قرآن کے) ماننے والے ہیں، اللہ نے اپنی توفیق سے اُس حق کے بارے میں اِن کی رہنمائی کی جس میں یہ اختلاف کر رہے تھے۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔
    قرآن ۲ :۲۱۳ 

    اگر الله اپنی مرضی سے سب کو سیدھی راہ دکھاتا ہے تو انسانوں سے نہ فرمانی کا شکوہ کیوں؟


    (اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف اُسی طرح وحی کی ہے، جس طرح نوح کی طرف اور اُس کے بعد آنے والے پیغمبروں کی طرف کی تھی۔ ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق، یعقوب، اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی کی اور داؤد کو ہم نے زبور عطافرمائی تھی۔ ہم نے اُن رسولوں کی طرف بھی اِسی طرح وحی بھیجی جن کا ذکر تم سے پہلے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں کی طرف بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا اور موسیٰ سے تو اللہ نے کلام کیا تھا، جس طرح کلام کیا جاتا ہے۔ یہ رسول جو بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ لوگوں کے لیے اِن رسولوں کے بعد اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے۔ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔
    قرآن ۴ : ۱۶۳ ۔ ۱۶۵

    بڑی حکمت ہے جناب الله میاں کی, جب انسانی دماغ نے سوال پوچھنے شروع کے تو انبیا کا سلسلہ ہی منقطع کر دیا. پہلے جاہل چرواہوں اور پتھر کے زمانے کے انسانوں پر لاکھوں نبی بھیجتے رہے ۔ ویسے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے قران کا ریفرنس دینا خواجے دا گواہ ڈڈو کے مترادف ہے۔


       اگر اصل کی تلاش ہے، تو تحقیق کریں، تاریخ کا مطالعہ کریں، مذاہب کے مطالعہ کریں اور عقل کا استعمال کریں اور پہنچ جائیں اصل خدا تک! آخر کو ہم انسانوں نے علمی اور تحقیقی رویے کے ذریعے بڑے بڑے کائنات میں انکشافات کیے ہیں چاہے وہ نظر آتے ہوں یا چھپے ہوئے ہوں، اسی طرح اصل خدا کو بھی دریافت کر لیں گے۔

    جی بلکل تحقیق اور مطالعہ تک بلکل متفق ہوں لیکن نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ  ضروری نہیں خدا تک ہی پہنچے. بلکے تحقیق اور مطالعہ کے ذریعے ہی خدا اور مذھب جیسے ڈھکوسلوں سے پردہ اٹھتا ہے

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
Viewing 3 posts - 1 through 3 (of 3 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi