Viewing 1 post (of 1 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    اگرچہ روس، چین، جنوبی کوریا اور جاپان کو کورونا نے جکڑ رکھا ہے مگر ان چاروں ہمسائیوں کے عین بیچ میں پڑے ہوئے شمالی کوریا کا دعویٰ ہے کہ ہمارے ہاں کورونا کا ایک بھی مریض نہیں اور جس نے افواہ پھیلائی اسے توپ دم کر دیا جائے گا۔
    شمالی کوریا نے سچائی ثابت کرنے کے لیے اسی مہینے میں چار میزائلی تجربے کیے۔ چین نے شمالی کوریا کو تکنیکی مدد دینے کی پیش کش کی مگر ریاست کے مالک عزت ماآب کم جونگ ان کا کہنا ہے کہ فی الحال ہمیں ضرورت نہیں بلکہ الٹا انھوں نے جنوبی کوریا کو ہمدردی کا پیغام بھیجا ہے۔
    کم جونگ ان کے اس یقینِ محکم کے سبب ہمسایہ ممالک یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ کورونا اور کم جونگ ان میں سے کم خطرناک کون ہے؟
    بیلاروس کی سرحد روس، یوکرین، پولینڈ اور لتھونیا سے ملتی ہے۔ چاروں ہمسائے کورونا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن سمیت طرح طرح کی حکمتِ عملی آزما رہے ہیں۔ بیلاروس میں بھی کورونا کا پہلا متاثرہ شخص 26 فروری کو سامنے آیا جو بیرونِ ملک سے آنے والا ایک طالبِ علم تھا۔ تب سے اب تک سرکاری طور پر متاثرین کی تعداد 94 ہے۔
    مگر بیلاروس کی سرحدیں کھلی ہیں اور پروازوں پر بھی پابندی نہیں۔ صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے حکم دیا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ عوام سنیما دیکھیں، پارکوں میں جائیں، فٹ بال کھیلیں، انجوائے کریں اور کسان اپنا کام جاری رکھیں۔ جس بھی خبیث نے افواہیں پھیلائیں اس سے پولیس اور خفیہ ایجنسیاں نمٹ لیں گی۔ اس صدارتی انتباہ کے بعد سے عوام نے ازخود گھروں میں زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا ہے۔
    وسطیٰ افریقہ کے چھوٹے سے ملک برونڈی کی سرحدیں روانڈا، کانگو اور تنزانیہ سے ملتی ہیں۔ اگرچہ تینوں ہمسایہ ممالک میں کورونا پھیل رہا ہے مگر برونڈی میں سرکاری طور پر کورونا کا کوئی مریض نہیں۔ تنزانیہ نے برونڈی سے تعلق رکھنے والے ایک ٹرک ڈرائیور کو کورونائی قرار دے کر قرنطینہ میں ڈال دیا ہے۔ اس ڈرائیور کا کہنا ہے کہ وہ حالیہ دنوں میں کانگو بھی گیا اور برونڈی سے ہوتا ہوا تنزانیہ بھی کئی بار آیا۔ راستے میں کھاتا پیتا رہا، رکتا رہا اور لوگوں سے بھی ملتا رہا۔
    مگر برونڈی کی حکومت نے تنزانیہ سے کہا ہے کہ وہ اس ڈرائیور کو اپنے پاس ہی رکھیں، ہمارے ہاں سب بھلا چنگا ہے، عوام معمول کی زندگی جاری رکھیں گھبرانا نہیں ہے۔
    یمن میں اگرچہ ریاستی ڈھانچہ خانہ جنگی کی نذر ہو چکا ہے، لاکھوں لوگ دربدر اور دواؤں اور غذائی قلت کا شکار ہیں، مگر عالمی ادارہِ صحت کے پاس کورونا کے کسی بھی یمنی مریض کا ریکارڈ نہیں۔ کل ہی حوثی باغیوں نے سعودی دارالحکومت ریاض کی طرف دو میزائل اچھال دیے۔ خود سعودی عرب میں کورونا کے مریضوں کی تعداد ١٢ سو سے اوپر نکل چکی ہے اور چار اموات بھی ریکارڈ پر ہیں۔
    یمن کے دوسرے ہمسائے عمان میں 166 افراد کورونا میں مبتلا ہیں مگر یمن میں جنگ جاری ہے اور کورونا کا ایک بھی اعلانیہ مریض نہیں۔ ارے واہ!
    تمام خلیجی ریاستیں کورونا کی لپیٹ میں ہیں مگر کورونا سے متاثر متحدہ عرب امارات، بحرین اور سعودی عرب وغیرہ اپنی ہی طرح کے متاثر برادر قطر کی ڈھائی برس سے جاری ناکہ بندی ختم کرنے کے بارے میں سوچ تک نہیں رہے۔
    اگرچہ شام میں سرکاری طور پر کورونا کے پانچ کیسز سامنے آئے ہیں تاہم شمالی صوبے ادلب میں بشار الاسد حکومت باغیوں سے نمٹنے میں کوئی کوتاہی نہیں برت رہی۔ ادلب کے لاکھوں پناہ گزین ترکی کی سرحد پر پڑے ہیں اور خود ترکی میں کورونا سے سات ہزار لوگ متاثر جبکہ 108 مر چکے ہیں۔
    مگر شامی پناہ گزینوں میں کورونا کے کتنے مریض ہیں؟ یہ جاننے میں نہ ترکی کو دلچسپی ہے، نہ دمشق کو اور نہ ہی دمشق کے پشت پناہ روس اور ایران کو۔
    امریکہ میں تادمِ تحریر ایک لاکھ چوبیس ہزار لوگ کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں اور دو ہزار دو سو تیس اموات ریکارڈ پر ہیں۔ یعنی متاثرین کی تعداد کے اعتبار سے امریکہ سب سے بڑا عالمی مرکز بن چکا ہے۔ اس ابتلا کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے کورونا سے جوج رہے ایران پر عائد پابندیاں ڈھیلی کرنے کے بجائے اور کس دی ہیں۔
    تین دن پہلے ہی امریکہ نے وینزویلا کے صدر مدیرو کو منشیات کا بین الاقوامی سمگلر قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری پر ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا انعام مقرر کر دیا ہے۔ اسے کہتے ہیں جان جائے مگر انصاف نہ جائے۔
    افغانستان میں کورونا متاثرین کی تعداد اب تک 110 اور اموات چار بتائی جا رہی ہیں مگر داعش کے مجاہدین کورونا سے محفوظ ہیں۔ اسی لیے انھوں نے پوری دلجمعی کے ساتھ کابل کے ایک گرودوارے میں گذشتہ ہفتے گھس کر 27 سکھ عبادت گزاروں کو ہلاک کر کے اپنے نظریے کا مزید بول بالا کر دیا۔
    طالبان اور کابل حکومت بھی کورونا سے محفوظ ہیں۔ لہٰذا بات چیت کے نام پر پینترے بازی بھی جاری ہے اور جنگ بھی۔
    ایسی بوالعجب دنیا میں اگر کسی نے آج کے بعد ٹرمپ یا عمران خان وغیرہ پر کورونا سے نمٹنے کے معاملے میں ڈھیلی ڈھالی پالیسی برتنے کا الزام لگایا تو میں اسے ذاتی طور پر دیکھ لوں گا۔

    بشکریہ …… وسعت اللہ خان

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52083167

Viewing 1 post (of 1 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi