Viewing 10 posts - 1 through 10 (of 10 total)
  • Author
    Posts
  • barca
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    • This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
    barca
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #2
    بچی کا قاتل کوئی اپنا ہی مسلمان نکل آیا تو کیا جواب ہوگا چاچا جی ؟اس کیس کو سیاسی بنا دیا گیا ہے انصاف کسی کو نہیں چاہیے لاش بیچ رہے ہیں سارے
    Malik495
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #3
    ویسے سربراہ کون ہے ؟
    barca
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #4
    ویسے سربراہ کون ہے ؟

    اس کا نام ملک ابو بکر خدا بخشThe equally responsible of negligence ,DIG Malik Abubakar Khuda Bakhsh appointed convener Joint Investigation Team

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #5
    اس جے آئی ٹی سے کسی بھی طرح کی توقع کرنا فضول ہے
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    چلئے کسی بھی پاکستانی پر اعتبار نہ کریں کیونکہ پوری قوم ہی پستی کے آخری کنار ے پر ہے اور کسی بھی وقت نیچے لڑھک جاے گیمیری درخواست ہے کہ اس کیس کیلئے سکاٹ لینڈ کی پولیس یا سی آی اے کو بلوایا جاے
    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #7
    What are purposes of JIT? Police to catch the murderer and take to the court. There is no hidden element involve in it; this is simple and straight forward case. JIT cannot find criminal. This is not Panama or Model Town case to bring hidden facts. The only controversial thing JIT can do is delay of case registration by police and for this police men are even easy to identify. Most important task is to catch the culprit. Who killed two person in riots is a JIT task but for that victim’s dad don’t need to give statements.
    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #8

    انتہائی غم اور غصے کے عالم میں کسی باپ کے منه سے کچھ بھی نکل سکتا ہے اور مرحومہ زینب کے والد نے بھی شاید غم اور غصے میں کہہ دیا کے تفتسش صرف کوئی مسلم افسر ہی کرسکتا ہے . مرے خیال میں ہم کو انکی بات کو غصے اور غم میں کہی گئی بات تصور کرنا چاہیے

    ویسے اس بات سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کے ہمارے معاشرے میں مذہب ، فرقہ واریت کس حد تک سریت کر چکی ہے .

    جو کچھ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر امید رکھتا ہوں کے ہم مزید پستی میں نہیں جا سکتے. اگر ہم پستی کی حد تک نہیں پہنچے ہیں تو یہ سوچ کر بھی کانپ جاتا ہوں کے اور پستی کیا ہوگی

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Shirazi
    Participant
    Offline
    • Professional
    #9
    This is one of a kind loser Dad. There doesn’t seem to be any guilt he left the little one for Umara. His focus is faith of the investigating answer officer not the investigation. He is more satisfied with COAS and CJP committee instead of Gov’t. There is no remorse on his face. Zainab was unlucky she got such a loser Dad.
    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10

    قصور میں قتل ہونے والی 6 سالہ بچی زینب کے والد کی درخواست کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) کے سربراہ کو تبدیل کردیا گیا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز مقتول بچی زینب کے والد محمد امین نے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ( اے آئی جی) ابو بکر خدا بخش کا جے آئی ٹی سربراہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے اپیل کی تھی کہ انہیں تبدیل کیا جائے۔

    جس کے بعد حکومت پنجاب نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل ( ڈی آئی جی) پولیس محمد ادریس کو جے آئی ٹی کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔

    خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے گزشتہ روز چار سینئر افسران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، جس میں ریجنل پولیس افسر ( آر پی او) شیخوپورہ ذوالفقار حمید بھی شامل تھے جبکہ اس کمیٹی کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے مزید تین سینئر پولیس افسران کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔زینب قتل، کب کیا ہوا؟

    صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

    جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

    ٥ روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تھی، ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

    بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا گیا تھا، تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

    اس واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں ننبھی بچی کو ایک شخص کے ساتھ ہاتھ پکڑ کر جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا جبکہ پولیس نے اس ویڈیو اور اہل علاقہ کی مدد سے ملزم کا خاکہ بھی جاری کیا گیا تھا۔

    دوسری جانب زینب کی قتل کے بعد سے ضلع بھر کی فضا سوگوار رہی اور ورثاء، تاجروں اور وکلاء کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور فیروز پور روڈ بند کردیا گیا تھا۔

    اس واقعے میں شدت تب دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بھول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

    اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

    10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔

    بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔

    https://www.dawnnews.tv/news/1071514/

Viewing 10 posts - 1 through 10 (of 10 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi