Thread: جاگ پنجابی جاگ
- This topic has 18 replies, 8 voices, and was last updated 5 years, 11 months ago by نادان.
-
AuthorPosts
-
15 Apr, 2018 at 1:11 pm #1Source
آپ تو عنوان دیکھ کر ہی خائف ہو گئے۔ آپ کا دھیان نومبر 1988 کے انتخابات کی طرف گیا اور آپ کو یاد آ یا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت قرار پائی تھی۔ تین روز بعد صوبائی انتخابات منعقد ہونا تھے۔ اس دوران غیب سے ایک صدا سنائی دی ‘‘جاگ پنجابی جاگ’’۔ نتیجہ یہ کہ پنجاب کے صوبائی انتخاب میں پانسہ پلٹ گیا۔ آئی جے آئی کو اکثریت ملی اور میاں نواز شریف صوبے کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس پر قومی مفاد کے رکھوالوں نے بغلیں بجائیں۔ مرکز اور پنجاب میں دو مختلف جماعتوں کی حکومتیں قائم ہونے سے بیس ماہ پر محیط ایک مسلسل بحران مرتب ہوا۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو لاہور تشریف لاتی تھیں تو وزیر اعلیٰ نواز شریف ان کا استقبال کرنے ائیر پورٹ نہیں جاتے تھے۔ ملتان میں پیپلز پارٹی کے کسی رہنما پر مقدمہ درج ہوتا تھا تو وہ بھاگ کر اسلام آباد آن بیٹھتا تھا۔ وفاقی حکومت کسی سیکرٹری کو وفاق میں بلانا چاہتی تھی تو صوبائی حکومت صاف انکار کر دیتی تھی۔ اس دوران ایم کیو ایم، اے این پی اور دوسری چھوٹی جماعتوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی خبریں ایسے نمودار ہوتی تھیں جیسے
اداکاروں اور کھلاڑیوں کی شادی کی خبریں اخبار کے صفحے کو رنگ بخشتی ہیں۔ بالآخر 06 اگست 1990 کو غلام اسحاق خان نے آئین کی شق اٹھاون ٹو بی کے تحت وزیر اعظم کو برطرف کر دیا۔ الزامات کی فہرست عین مین وہی جو اہل وطن نے 17 اپریل 1953کو ناظم الدین کے خلاف سنی تھی، نااہلی، بدعنوانی اور سیاسی عدم استحکام۔۔۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عشروں پر پھیلی اس نوٹنکی سے کبھی سیاسی استحکام پیدا ہوا اور نہ بدعنوانی ختم ہوئی۔ نااہلی کا معاملہ تو یہ ہے کہ 1988 میں بندگان خاکی نے اہلیت کا جو پتلا نواز شریف کی صورت میں دریافت کیا تھا مورخہ 13 اپریل 2018 کو اسے تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ اب نواز شریف نہ صادق رہے اور نہ امین۔ یہ سب قصے تین لفظوں کے ایک منتر ’جاگ پنجابی جاگ‘ سے شروع ہوئے تھے۔ کبھی وقت ملے تو تیس برس پرانی وہ تحریریں پڑھیے گا جن میں نواز شریف کی نجابت، شرافت، دیانت، اہلیت اور وطن دوستی کے قصے بیان کیے گئے تھے۔ تب بھی صحافت میں یہی گنجفہ کبیر، لغت ہائے حجازی کے قارون، ریبل ود آؤٹ کاز تھے جو تب بھی مغلوب تھے اور آج بھی مغلوب ہیں۔ لاہور کی مال روڈ پر چار کلب روڈ صحافت اور سازش کے گٹھ جوڑ کی عینی گواہ ہے۔ عرض یہ ہے کہ جیسے نواز شریف تیس برس میں اہل سے نااہل ہوئے ہیں، جاگ پنجابی جاگ کا مفہوم بھی بدل گیا ہے۔ آج جو شکستہ قلم اہل پنجاب سے جاگنے کی گزارش کرتا ہے وہ صوبائی عصبیت کا سہارا نہیں لے رہا، صرف یہ گزارش کرتا ہے کہ تاریخ نے پاکستان کے استحکام، سلامتی اور خاک نشینوں کے اچھے مستقبل کی ذمہ داری اہل پنجاب کے کندھوں پر رکھ دی ہے۔ آئیے آپ کو ایک پرانا قصہ سنائیں۔
دریائے ستلج کے مغربی منطقے میں انگریز کی عملداری قائم ہوئی تو مغربی پنجاب کے وسیع علاقوں میں بے آب و گیاہ اور بنجر قطعات اراضی بے کار پڑے تھے، انگریز نے اس خطے میں آب پاشی کے لیے نہری نظام تعمیر کیا اور مشرقی پنجاب نیز مرکزی اضلاع کے کسانوں کو ترغیب دی کہ اگر وہ ان غیر مزروعہ زمینوں کو زیر کاشت لائیں تو انہیں اس اراضی کے مالکانہ حقوق نہایت آسان شرائط پر منتقل کر دئیے جائیں گے۔ ہزاروں گھرانے اپنی آبائی زمین چھوڑ کر لائل پور، راولپنڈی، سرگودھا اور بہاولپور جیسے علاقوں میں منتقل ہوئے۔ جنگلی جھاڑیاں صاف کیں، جڑی بوٹیاں اکھاڑیں اور بے آباد ٹیلوں کو لہلہاتے کھیتوں میں بدل ڈالا۔ جب اس مشقت کا صلہ ملنے کا وقت آیا تو انگریز حکومت نے باری دو آب ایکٹ میں ترمیم کر دی، آبیانہ بڑھا دیا اور زمین کی فروخت اور وراثت کے قانون بدل ڈالے۔ اس پر پنجاب میں اشتعال پھیل گیا۔ ہفت روزہ جھنگ سیال میں ایک نظم شائع ہوئی،
پگڑی سنبھال جٹا، پگڑی سنبھال اوئے،
لٹ لتا مال تیرا، کیتا بے حال اوئے
مولانا عبدالمجید سالک روایت کرتے تھے کہ یہ نظم چوہدری شہاب الدین نے لکھی تھی۔ کسانوں کی اس تحریک کا نام ہی “پگڑی سنبھال جٹا” رکھ دیا گیا۔ پگڑی سنبھال جٹا تحریک جلد ہی سامراج دشمن تحریک آزادی میں بدل گئی۔ اس کے رہنماؤں میں لالہ لاجپت رائے، سردار رنجیت سنگھ، لالہ پنڈی داس اور شہاب الدین شامل تھے۔ انگریز سرکار نے سیاسی جلسوں میں پگڑی سنبھال جٹا نظم پڑھنے پہ پابندی عائد کر دی۔ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر ایبٹ سن نے چھ مئی 1907 میں وائسرائے ہند لارڈ منٹو کو ایک رپورٹ بھیجی تھی کہ پنجاب میں کھلم کھلا بغاوت کی باتیں ہو رہی ہیں۔ انگریز سرکار مگر یہ اطلاع نہیں تھی کہ چند مہینے بعد ستمبر 1907میں لائل پور کی تحصیل جڑانوالہ میں بھگت سنگھ نام کا ایک دلاور پیدا ہونے والا تھا جسے ہندوستان کی تحریک آزادی میں پنجاب کی لاج رکھنا تھی۔ “پگڑی سنبھال جٹا” سے “جاگ پنجابی جاگ” تک آنے میں اسی برس لگے تھے۔ ٹھیک تیس برس بعد اہل پنجاب کے کندھوں پر عوام کا حق حکمرانی بچانے کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔
پاکستان کے وفاق کی اکائیاں ایک نازک رشتے میں بندھی ہیں، کسی صوبے کی آبادی زیادہ ہے تو کسی کا رقبہ زیادہ ہے۔ کسی صوبے سے دریا نکلتے ہیں تو کسی صوبے کے پاس بندرگاہ کا اثاثہ ہے۔ اس ملک کی تاریخ باہم نفاق، ناانصافی اور بے گانگی سے عبارت ہے۔ پاکستان کے قیام میں پنجاب واحد صوبہ تھا جس کا تاریخی وجود دو ٹکڑے ہوا۔ لاکھوں خاندانوں کو گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنا پڑی۔ پنجاب کے دریا لہو سے سرخ ہوئے۔ یہ اعزاز بھی پنجاب کو حاصل ہے کہ پاکستان کے نام پر پنجاب نے کبھی تعصب سے کام نہیں لیا۔ جمہوریت کی لڑائی ہو، قومی مالیاتی ایوارڈ ہو یا دریاؤں کا پانی، اہل پنجاب نے قربانی دینے سے کبھی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر اس ملک میں جمہوریت کی کتاب جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی ہے، عوام کے حقوق کا محضر نامہ خون آلود ہے تو اس ناانصافی میں پنجاب شریک رہا ہے۔ پاکستان میں اقتدار کا مرکز پنجاب رہا ہے۔ آمرانہ اقتدار کے عشروں میں سیاسی اختیار پنجاب کے ہاتھ میں رہا ہے۔ پاکستان کا قومی بیانیہ پنجاب نے مرتب کیا ہے۔ پنجاب نے ون یونٹ کی مخالفت نہیں کی۔ فروری 1948 سے 2018 تک بلوچستان پر جو ستم توڑے گئے، پنجاب نے اس پر مزاحمت کا حق ادا نہیں کیا۔ سندھ کے سیاسی کارکنوں کو ڈاکو قرار دے کر مارا گیا تو پنجاب خاموش رہا۔ افغان جہاد کی لڑائی میں پختونوں کا لہو بہایا گیا، طالبان رستاخیز میں پختون بے گھر ہوئے۔ پاکستان کی چھوٹی وفاقی اکائیوں کے ساتھ کھلواڑ ہوتی آئی ہے۔ 2018ء کا برس سوال کر رہا ہے کہ کیا پنجاب بڑا بھائی ہونے کی ذمہ داری اٹھائے گا؟
قومی اسمبلی کی 342 نشستوں میں سے 146 عام نشستیں اور عورتوں کی 35 مخصوص نشستیں ملا کر پنجاب کے پاس 181 نشستیں ہیں۔
اس سے کوئی غرض نہیں کہ اہل پنجاب کس سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں۔ اپنے شعور کی روشنی میں کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کی امانت سونپنا اہل پنجاب کا حق ہے۔ گزارش صرف یہ ہے کہ انتخابی مہم کے بادل جمع ہورہے ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں نئے چہروں نے سر نکال لیا ہے۔ پختون خوا کے حالات بھی پیچیدہ ہیں لیکن اصل معرکہ پنجاب میں ہونا ہے۔ یہاں فیصلہ ہو گا کہ عام انتخابات کے بعد سیاسی تنظیم، منشور اور جمہوری ساکھ رکھنے والی کوئی جماعت حکومت قائم کرے گی یا اسلام آباد کی شاہراہ آئین پر تانگوں کی دوڑ منعقد ہو گی۔ ستر سال میں انڈوں سے جمہوریت کا چوزہ برآمد نہیں ہوا۔ ہم یونینسٹ پارٹی کی پاور پالیٹکس کے زخم خوردہ ہیں۔ ہم نے ریپبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، جونیجو لیگ، آئی جے آئی، قاف لیگ اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ جیسوں کو دوڑ جیتتے دیکھ رکھا ہے لیکن یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے گھوڑوں کا کوئی شجرہ نہیں ہوتا۔ اس برس اہل پنجاب کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے صحیح انتخاب کرتے ہیں یا ایک بار پھر سہولت کار کا طوق پہنتے ہیں۔- local_florist 1 thumb_up 3
- local_florist JMP thanked this post
- thumb_up Atif Qazi, Muhammad Hafeez, barca liked this post
15 Apr, 2018 at 4:31 pm #2اہل پنجاب سے زیادتیوں پر چُپ رہنے کا شکوہ کرنا اس لئے بھی فضول ہے کہ یہ لوگ خود اپنے اوپر روا رکھی جانے والی زیادتیاں بھی چُپ کرکے ہی برداشت کرتے ہیں۔ آمروں ننے ان کے دریا بیچ دئیے لیکن پنجاب سے کوئی تحریک نہ برامد ہوئی، این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب کا حصہ کاٹ کر بلوچستان کو دیا گیا لیکن کسی پنجابی لیڈر کو اس پر بات کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔میری نظر میں پنجاب اور پنجابیوں کی ترقی کا راز یہی ہے کہ یہ لوگ لسانی تعصب سے بہت دور ہیں۔ ورنہ باقی جتنی اقوام لسانیت کا نعرہ لگا کر توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ، ان کا بیڑہ غرق ہے۔
- thumb_up 3
- thumb_up shami11, shahidabassi, barca liked this post
15 Apr, 2018 at 5:00 pm #3جب سے پاکستان بنا ہے …یہ پنجابی ہے ..یہ بلوچی ..یہ پٹھان ہے تو یہ سندھی ..اسی کو پروموٹ کرتے رہے ہیں …پاکستانی کہیں نظر نہیں آیا ..قوم ایک نہیں بنائی تو اب روتے کیوں ہو
- thumb_up 3
- thumb_up shami11, shahidabassi, barca liked this post
15 Apr, 2018 at 5:30 pm #4اقتصادی مفادات، زبان، رہن سہن، تاریخ اگر ایک ہو تو ایک قوم بننا آسان ہے
پاکستان کی قوموں میں صرف مذہب ایک ایسا عنصر ہے جو ایک ہے اور ابھی تھوڑا وقت گزرا ہے کے یہ سب مختلف بولی بولنے والے، رہن سہن رکھنے والے، مختلف ماضی سے وابستہ قومیں ایک ساتھ رہنے لگی ہیں .
شاید وقت کے ساتھ ساتھ ایک قوم بن جاۓ
15 Apr, 2018 at 6:20 pm #5اقتصادی مفادات، زبان، رہن سہن، تاریخ اگر ایک ہو تو ایک قوم بننا آسان ہے
پاکستان کی قوموں میں صرف مذہب ایک ایسا عنصر ہے جو ایک ہے اور ابھی تھوڑا وقت گزرا ہے کے یہ سب مختلف بولی بولنے والے، رہن سہن رکھنے والے، مختلف ماضی سے وابستہ قومیں ایک ساتھ رہنے لگی ہیں .
شاید وقت کے ساتھ ساتھ ایک قوم بن جاۓ
اس کے لئے میڈیا کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا .
جیسے یہاں جب بات ہوتی ہے تو امیریکن کہہ کر بات ہوتی ہے
اشتہار اسی طرح ہوتے ہیں کہ امیریکن بچے کو کیا پسند ہے ..امیریکن مرد کیسے سوچتا ہے ..وغیرہ وغیرہ
اس طرح اپنے ایک امیریکن ہونے اور اس پر فخر کرنا سکھایا جاتا ہے
- thumb_up 1
- thumb_up barca liked this post
15 Apr, 2018 at 8:21 pm #6اس کے لئے میڈیا کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا . جیسے یہاں جب بات ہوتی ہے تو امیریکن کہہ کر بات ہوتی ہے اشتہار اسی طرح ہوتے ہیں کہ امیریکن بچے کو کیا پسند ہے ..امیریکن مرد کیسے سوچتا ہے ..وغیرہ وغیرہ اس طرح اپنے ایک امیریکن ہونے اور اس پر فخر کرنا سکھایا جاتا ہےاسی لئے تو مجھے بھی امریکن ڈالر ۔۔۔ اور امریکن ناری ۔۔۔۔۔ بہت پسند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
15 Apr, 2018 at 8:22 pm #7اسی لئے تو مجھے بھی امریکن ڈالر ۔۔۔ اور امریکن ناری ۔۔۔۔۔ بہت پسند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کیا امیریکن ناری کوبھی آپ پسند ہیں
- mood 2
- mood shahidabassi, SAIT react this post
15 Apr, 2018 at 8:26 pm #8فوٹو تو آپ نے کسی ہسپانوی کی لگائ ہوئ ہےاسی لئے تو مجھے بھی امریکن ڈالر ۔۔۔ اور امریکن ناری ۔۔۔۔۔ بہت پسند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔15 Apr, 2018 at 8:28 pm #9اگر انکے پاس امریکن ڈالر ہیں تو امریکن ناری انہیں پسند کریگیکیا امیریکن ناری کوبھی آپ پسند ہیں15 Apr, 2018 at 8:32 pm #10فوٹو تو آپ نے کسی ہسپانوی کی لگائ ہوئ ہےدل تو ہے ان کا پھر بھی پاکستانی
15 Apr, 2018 at 8:40 pm #13کیا امیریکن ناری کوبھی آپ پسند ہیںامریکن ناری تہذ یب یا فتہ ہوتی ہیں ۔۔۔۔ دوستوں کوفوراً پسند کرلیتی ہیں ۔۔۔۔
15 Apr, 2018 at 8:58 pm #14اقتصادی مفادات، زبان، رہن سہن، تاریخ اگر ایک ہو تو ایک قوم بننا آسان ہے
پاکستان کی قوموں میں صرف مذہب ایک ایسا عنصر ہے جو ایک ہے اور ابھی تھوڑا وقت گزرا ہے کے یہ سب مختلف بولی بولنے والے، رہن سہن رکھنے والے، مختلف ماضی سے وابستہ قومیں ایک ساتھ رہنے لگی ہیں .
شاید وقت کے ساتھ ساتھ ایک قوم بن جاۓ
جو آپ نے کہا کہ صرف مذہب ایک ایساعنصر ہے کاش کہ ایسا ہوتا مگر افسوس میرا نہیں خیال کہ ایسا ہے پاکستان میں کچھ بھی ایک نہیں اور یہ ہی وجہ اس کی امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ بنتی ہے جاگ پنجابی جاگ کے عنوان سے مجھے تو خوف طاری ہو گیا کہ جو حال بلوچستان کا ہو رہا ہے خدا نہ کرے کہ ایسا کہیں بھی اور ہو
15 Apr, 2018 at 10:43 pm #17جب ہم گاڑی دو سال بعد تبدیل کر لیتے ہیں تو ناری کیلئے چھ مہینے بھی بہت ہیں😜
تبدیل بھی جلدی کر لیتی ہیں15 Apr, 2018 at 11:19 pm #18جو آپ نے کہا کہ صرف مذہب ایک ایساعنصر ہے کاش کہ ایسا ہوتا مگر افسوس میرا نہیں خیال کہ ایسا ہے پاکستان میں کچھ بھی ایک نہیں اور یہ ہی وجہ اس کی امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ بنتی ہے جاگ پنجابی جاگ کے عنوان سے مجھے تو خوف طاری ہو گیا کہ جو حال بلوچستان کا ہو رہا ہے خدا نہ کرے کہ ایسا کہیں بھی اور ہوnayab sahiba
محترمہ نایاب صاحبہ
مشترکہ ہندوستان کی تقسیم، مشرقی پاکستان کا پاکستان سے الگ ہونا، سابقہ سوویت یونین کا ٹوٹنا، کردوں کی اپنی زمین کی جدوجہد ، سکھوں کی خالصتان کے لئے جدوجہد، چیکوسلواکیہ کا ٹوٹنا ،مشرقی اور مغربی جرمنی کا یکجا ہونا وغیرہ وغیرہ .
دنیا میں ٹوٹ پھوٹ اور ملنا جلنا لگا رہتا ہے
کسی کے لئے اپنا الگ ہونا درست ہوتا ہے اور کسی کے لئے دوسرے کا الگ ہونا غلط .
کسی کے لئے کوئی کافر اور کوئی مومن.
اس سے زیادہ کہنے کی ہمت نہیں ہے
16 Apr, 2018 at 10:39 pm #19جب ہم گاڑی دو سال بعد تبدیل کر لیتے ہیں تو ناری کیلئے چھ مہینے بھی بہت ہیں 😜گاڑی آپ تبدیل کرتے ہیں
آپ کو ناری تبدیل کرتی ہے…کسی اور سے
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.