Viewing 1 post (of 1 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    پاکستان میں صوبہ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا ہے کہ پنجاب کے محکمہ ریوینو میں اصلاحات کے لیے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں صوبے میں قیامِ پاکستان سے قائم زمینوں اور ریونیو کے نظام، جسے عرف عام میں پٹوار کا نظام کہا جاتا ہے، کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بعد دوبارہ سے فعال بنایا جا رہا ہے۔
    اس نظام کو مسلم لیگ نواز کی حکومت میں ختم کر کے اس کی جگہ زمینوں اور ریونیو کا کمپیوٹرائزڈ نظام مرحلہ وار لایا جا رہا تھا لیکن کچھ عرصے سے اس پر پیشرفت نہیں ہو رہی تھی۔
    تاہم اب پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے بی بی سی کو بتایا کہ پچھلے دور حکومت میں شروع کیے گئے کمپیوٹرائزیشن کے نظام کو ہم مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہماری کوشش ہے کہ پہلے اسے ضلعی سطح پر، پھر تحصیل اور پھر یونین کونسل کی سطح تک اس نظام کو لے جائیں۔
    انھوں نے مزید بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے محکمہ ریونیو کی جانب سے جو سفارش کی گئی ہے اس کے مطابق وہ پٹواری نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں پٹواریوں کی آسامیاں خالی ہیں کیونکہ کچھ عرصہ پہلے ان آسامیوں پر نئی بھرتیاں ختم کر دی گئی تھیں۔

    تحریک انصاف کا پٹواری جدید ہو گا

    پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ ’اب ہم نئی بھرتیاں کریں گے اور یہ پہلے پٹوار کلچر سے اس طرح مختلف ہو گا کہ تمام ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے بھرتی ہونے والے پٹواریوں کو جدید آلات دیے جائیں گے تاکہ وہ بھی اپنے پاس آن لائن ریکارڈ رکھ سکیں۔
    اس کے علاوہ گرداوری کا نظام ختم ہو گیا تھا ہم اسے بھی بحال کر رہے ہیں۔ جس سے محکمے کے لوگ اور پٹواری موقع پر جا کر ریکارڈ بنائیں گے اور گرداوری ہر چار سال بعد کی جاتی تھی اس سے یہ معلوم ہو جاتا کہ مالک کون ہے، کس جگہ پر کس کا قبضہ ہے، فصل کون سے اور کتنی لگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سب سے ریونیو کا بہت بڑا ریکارڈ برقرار کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ نمبرداری نظام بھی بحال کیا جا رہا ہے۔
    اس سب کا مقصد یہ ہے کہ پہلے سے موجود سسٹم کو ہم بحال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سسٹم کی بحالی سے محکمہ ریونیو کے معاملات بہتر ہوں گے اور اگر کسی کو پٹواری سے اعتراض ہو گا تو وہ مالک اس کے فیصلے کے خلاف درخواست بھی دے سکتا ہے۔
    ان کے مطابق پٹواری کے خلاف سب سے بڑا الزام آتا ہے زمین کی پیمائش میں فرق دینے کا، ہم نے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر پٹواری آپ کو درست پیمائش نہیں کر کے دیتا تو آپ آن لائن سینٹر میں درخواست دے کر نکلوا سکتے ہیں۔
    پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں زمینوں کے اس نظام کو ’دقیانوسی‘ قرار دے کر گذشتہ کئی دہائیوں سے تبدیل کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔
    یہ پٹوار کا نظام ہے کیا اور آخر اس نظام میں ایسی کیا خرابی اور خوبی ہے کہ حکومتیں اسے تبدیل بھی کرنا چاہتی ہیں اور ایسا کر بھی نہیں پاتیں؟

    شیر شاہ سوری سے کمپیوٹرائزیشن تک

    برصغیر میں سرکاری سطح پر زمینوں کے انتظام وانصرام کی تاریخ شیر شاہ سوری سے لے کر اکبراعظم اور برطانوی راج سے لے کر پنجاب میں موجودہ کمپیوٹرائزیشن تک پھیلی ہوئی ہے۔
    انگریز نے سنہ 1860 میں اس مںصوبے پر کام شروع کیا اور سنہ 1900 میں پہلا بندوبست اراضی ہوا۔ سنہ 1940 کے بندوبست میں اس نظام کو صحیح معنوں میں جامع اور موثر طریقے سے نافذ کیا گیا۔
    آج بھی ہمارے ملک میں بنیادی طورپر اصل ریکارڈ سنہ 1939-40 ہی کا چل رہا ہے۔
    پنجاب میں ریوینیو کی موجودہ کمپیوٹرائزیشن پر بات کرنے سے پہلے لینڈ ریکارڈ کے اس نظام کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ یہ نظام دراصل کن بنیادوں پر اور کیوں تیار کیا گیا تھا۔ جب برطانوی حکومت نے محکمہ مال کا آغاز کیا تو 40 کتابیں تیار کی گئیں۔
    سب سے پہلے ‘شرط واجب العرض’ نامی کتاب وجود میں آئی، جو شاید سب سے اہم دستاویز بھی کہلائی جا سکتی ہے۔ اس دستاویز میں ہر گاؤں کو ‘ریونیو اسٹیٹ’ قرار دے کر اس کی مکمل تفصیل درج کی گئی جس میں گاؤں کے نام کی وجہ، اس کے پہلے آباد کرنے والوں کے نام، قومیت، عادات و خصائل، ان کے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل، رسم و رواج، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گاؤں کے لوگوں کے معاملات طے کرنے جیسے قوانین کا تذکرہ، زمینداروں، زراعت پیشہ، غیر زراعت پیشہ دستکاروں، حتیٰ کہ پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض، انھیں فصلوں کی کٹائی کے وقت دی جانے والی شرح اجناس کی ادائیگی (جس کے بدلے میں وہ اپنے اپنے ہنر سے گاؤں بھرکے لیے خدمات بجا لاتے تھے)۔ اس کے علاوہ نمبردار اور چوکیدارکے فرائض اور ذمہ داریاں تک طے ہوئیں۔
    گویا ہر گاؤں کے جملہ معاملات کے لیے ‘شرط واجب العرض’ وجود میں لائی گئی جو آج بھی ریونیو ریکارڈ کا حصہ ہے۔
    روزنامچہ ہدایاتی’ میں پٹواری اعلیٰ افسران کی طرف سے دی جانے والی ہدایات درج کرتا ہے۔ ‘روزنامچہ واقعاتی’ میں پٹواری ہر روز عیسوی، دیسی اور اسلامی تاریخ درج کرتا ہے۔
    اس کے نیچے وہ اپنی دن بھر کی کارگزاری لکھتا ہے اور اپنے فرائض کی ادائیگی کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ وہ گرداور اور اعلیٰ افسران کی طرف سے روزنامچہ واقعاتی پر ان کے دستخط کرواتا ہے۔
    ایک دستاویز ‘روزنامچہ کارگزاری’ بھی پٹواری تحریر کرتا ہے۔ وہ سارادن جو کام کرتا ہے اس کی ایک نقل تحصیل آفس میں دفتر قانون گو میں جمع کراتا ہے اور ‘روزنامچہ پڑتال’ پر اعلیٰ افسران اپنے ریمارکس لکھتے ہیں۔
    برطانوی راج کے دوران جب محکمہ مال کا آغاز ہوا تو حیرت انگیز طریقے سے زمین کے چپے چپے کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگاؤں، کرنال سے شروع ہونے والی بغیر مشینری اورجدید آلات کے زمین کی پیمائش ضلع اٹک، دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں آنے والے ندی، نالے، دریا، سڑکیں، راستے، جنگل، پہاڑ، کھائیاں اورآبادیوں وغیرہ کا بھی اندراج ہوا۔
    ہر گاؤں، شہر کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے جس بھی شکل میں موجود تھے ان کو نمبرات خسرہ، کیلہ وغیرہ الاٹ کیے گئے۔
    ہر نمبر کے گرد چاروں طرف پیمائش’کرم’ (ساڑھے پانچ فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لیے ہر گاؤں میں ‘فیلڈ بک’ تیار کی گئی۔
    جب حد موضع (ریونیو اسٹیٹ) قائم ہو گئی تو اس میں نمبرات خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر کی چہار اطراف سے جو کرم کے حساب سے زمین برآمد ہوئی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا کے تحت وضع کر کے اندراج ہوا۔ فیلڈ بک میں ملکیتی نمبرات خسرہ کے علاوہ سڑکوں، عام راستوں، بن، روہڑ، وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر الاٹ کر کے ان کی پیمائش تحریر کی گئی۔
    اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام افسران بالا نے کیا۔ اس کا نقشہ آج بھی متعلقہ تحصیل اور ضلع کے محافظ خانوں میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری گاؤں کا نقشہ (لَٹھا) تیار کرتا ہے۔ جب نیا بندوبست ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔
    اس پیمائش کے بعد ہر ‘ریونیو سٹیٹ’ کے مالکان قرار پانے والوں کے نام بقدر حصہ درج کیے گئے۔ ان لوگوں کا شجرہِ نسب تیار کیا گیا اورجس حد تک پشت مالکان کے نام معلوم ہو سکے، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا۔
    یہ دستاویز آج بھی اتنی موثر ہے کہ آپ لاکھ اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کریں مگر ایک ذرا تحصیل یا ضلعی محفظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے یہ ریکارڈ آپ کے دادا کے پردادا کی بھی قوم اور کسب نکال کر دکھا دے گا۔
    جوں جوں مورث فوت ہوتے گئے ان کے وارثان کے نام شجرہ کا حصہ بنتے گئے۔ یہ دستاویز جملہ معاملات میں آج بھی اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور وراثت کے مقدمات میں بطور ثبوت پیش ہوتی ہے۔ نیز اس کے ذریعے مالکان اپنی کئی پشتوں کے ناموں سے آگاہ ہوتے ہیں۔

    پٹواری کی لال کتاب

    شجرہ نسب تیار ہونے کے بعد مالکان کا ریکارڈ ملکیت ایک اہم ترین کتاب میں مرتب کیا جاتا تھا جسے پہلے ‘جمع بندی’ کہتے ہیں اور اب اس کا نام رجسٹرحقداران زمیں’ رکھا گیا ہے۔ خانہ ملکیت میں مالکان اور خانہ کاشت میں کاشتکاروں کے نام، نمبر کھیوٹ، کتھونی، خسرہ ، کیلہ، مربع، اور ہر ایک کا حصہ تعدادی اندراج ہوتا ہے۔
    ہر چار سال بعد پٹواری اس دوران منظور ہونے والے انتقالات میعہ، رہن، ہبہ، تبادلہ، وراثت وغیرہ کا عمل اور زمین کی تبدیلی حیثیت کا اندراج، نیز گذشتہ چار سال کی تبدیلیاں از قسم حقوق ملکیت و حصہ وغیرہ کا اندراج کر کے نیا رجسٹرحقداران زمین تیار کرتا ہے اور اس کی ایک نقل محافظ خانہ میں جمع کراتا ہے۔ رجسٹر حقداران زمین کی تیاری کا انتہائی منظم اور اعلیٰ طریقہ رائج ہے۔
    اس کی تیاری میں جہاں پٹواری کی ذمہ داری مسلمہ ہے، وہاں گرداور اور تحصیلدار سو فیصد جانچ پڑتال کر کے نقائص برآمدہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان افسران کا گاؤں میں جاکر مالکان کی موجودگی میں ان اندراجات کو پڑھ کر سنانا اور اغلاط کی فہرست تیارکرنا ضروری ہے۔
    آخر میں تحصیلدار سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے کہ یہ دستاویز اب غلطیوں سے پاک ہے۔
    رجسٹرحقداران زمین کے ساتھ ‘رجسٹر گردواری’ بھی پٹواری تیار کرتا ہے۔ مارچ میں وہ فصل ربیعہ اور ستمبر میں فصل خریف کے مطابق ہر نمبر خسرہ، کیلہ پر جا کر مالکان اور کاشتکاران کی موجودگی میں فصل اور مالک کا نام درج کرتا ہے۔ ہر فصل کے اختتام پر پٹواری اس کتاب کے آخر میں درج کرتا ہے کہ کون سی فصل کتنے ایکڑ سے اور کتنی برآمد ہوئی۔
    اس کی نقل تحصیل کے علاوہ بورڈ آف ریونیو کو بھی ارسال کی جاتی ہے جس سے صوبے اور ملک کی آئندہ پیداوار کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ یہ محکمہ مال کی ایک اہم دستاویز ہے جس کی جانچ پڑتال گرداور سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک موقع پر جا کر کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
    رجسٹرانتقالات’ میں پٹواری جائیداد منتقلہ کا اندراج کرتا ہے اور گرداور تصدیقی نوٹ لکھتا ہے۔
    کاغذات مال متذکرہ کی کئی اور کتابیں بھی ہوتی ہیں، جن سے ریکارڈ آپس میں مطابقت کھاتا ہے اور غلطی کا شائبہ نہیں رہتا۔ پٹواری کے پاس ایک ‘لال کتاب ‘ بھی ہوتی ہے جس میں گاؤں کے جملہ کوائف درج ہوتے ہیں، جیسے اس گاؤں یا شہر کا کُل رقبہ، مزروعہ کاشتہ، غیر مزروعہ بنجر، فصلات کاشتہ، مردم شماری کا اندراج، مال شماری، جس میں ہر قسم کے مویشی اور ان کی تعداد، نر، مادہ، مرغیاں، گدھے، گھوڑے، بیل، گائیں، بچھڑے وغیرہ کا اندراج ہوتا ہے۔

    اس نظام کو فرسودہ کیوں کہا جاتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق جس طرح یہ محکمہ بنایا گیا تھا اورذمہ داریاں مقرر کی گئیں تھیں اگر ان پر عمل ہوتا رہتا تو زمینوں کے لیے اس سے بہتر نظام کوئی نہیں تھا۔ انگریز دور تک تو یہ نظام ٹھیک چلتا رہا مگر آزادی کے بعد ہم ‘آزاد’ ہو گئے، ریکارڈ میں جعل سازیاں اور ہیرا پھیریاں فروغ پانے لگیں حتیٰ کہ بدنام زمانہ ‘پٹوار کلچر ‘ وجود میں آیا۔
    پٹواری سفارش پر بھرتی ہونے لگے اور افسران اہم پوسٹوں کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اپنانے لگے۔ پٹواریوں، گرداوروں، تحصیلداروں، اسسٹنٹ کمشنروں، اور ڈپٹی کمشنروں کو کام میں دلچسپی اور سمجھ بوجھ نہ رہی۔
    اوپر سے حکمران بھی ایسے آتے گئے جنھیں عوامی مسائل سے کوئی غرض نہ تھی۔ ریونیو عملہ فیلڈ میں جانے کی بجائے دفتر ہی میں بیٹھا رہتا۔
    افسران نے پٹواری کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بنا لیا جو رشوت سے اپنے خرچوں کے علاوہ افسران کے کچن اور اللے تللے چلانے لگے۔ سیاستدانوں نے بھی پٹواریوں سے اپنی جلسہ گاہیں بھرنے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اور اس طرح اس نظام سے اعتبار اٹھنے لگ گیا۔
    سنہ 2008 میں ورلڈ بنک کے تعاون سے پنجاب میں محکمہ مال کو کمپیٹرائزڈ کرنے کا کام شروع کیا گیا۔
    یوں تو ایک لمبا کام تھا لیکن اسے عجلت سے کرنے کی کوشش کی گئی۔ آزادی کے بعد ریکارڈ میں کافی غلطیاں آچکی تھیں۔ پہلے تو پنجاب حکومت نے طے کیا کہ کمپیوٹرائزیشن سے پہلے ہر تحصیل میں محکمہ کے چار ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں یہ غلطیاں ٹھیک کریں گی مگرریکارڈ کا ستیاناس ہو چکا تھا اور اکثر غلطیوں کی درستی کے لیے سنہ 1940 کے ریکارڈ سے لے کر موجودہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی ضرورت تھی۔
    پھر صوبائی حکومت نے عجلت میں حکم دیا کہ جوں کا توں غلط ریکارڈ، لینڈ ریکارڈ میں جمع کرا دیا جائے۔ اب تک پنجاب کے 26000 موضعات کمپیوٹرائزڈ ہو چکے ہیں اور 3000 بقایا ہیں۔ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سے قبل ضروری تھا کہ اراضی کا بندوبست کرایا جاتا، جو ہر چالیس برس بعد ہوتا ہے اورآخری بندوبست انگریز حکومت نے سنہ 1940 میں کرایا تھا۔
    اگلا بندوبست سنہ 1980 میں ہونا تھا جو ابھی تک نہیں ہوا۔
    اکثر انتقالات کا عمل پٹواریوں نے یا لینڈ ریکارڈ سنٹر نے نہیں کیا اور رقبہ بدستور بیچنے والے کے نام پر ہے۔ لینڈ ریکارڈ والے ناخواندہ عوام کو حکم دیتے ہیں کہ پٹواری، تحصیلدار سے بذریعہ فرد بدر ریکارڈ درست کرا کے لائیں، حالانکہ تمام ریکارڈ بمعہ نادرا ریکارڈ ان کے پاس موجود ہے اور وہ با آسانی نام یا رقبہ درست کر سکتے ہیں۔
    اب موجودہ حکومت اس تجویز پر غور کررہی ہے کہ ہر تحصیل میں ایک ایک قانون گوئی (چھ سات گاؤں) واپس پٹواریوں اور تحصیلداروں کو دے دیے جائیں اور وہ پرانے نظام کی طرح کام کریں۔
    اگر اس طرح لوگوں کی مشکلات حل ہو گئیں تو شاید پرانا نظام واپس آ جائے مگر وہ انگریز والا نہیں ‘پٹواری کلچر’ والا ہی ہو گا۔

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53444899

Viewing 1 post (of 1 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi