- This topic has 190 replies, 20 voices, and was last updated 4 years, 9 months ago by نادان.
-
AuthorPosts
-
20 Jun, 2019 at 12:34 am #21
صدر زرداری اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آڈر جاری ہو گئے ۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کے نہیں
یہ جو نان پروڈکشن گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے pic.twitter.com/0kF6CuN14x— Gul Bukhari (@GulBukhari) June 19, 2019
20 Jun, 2019 at 7:03 am #22اصل خبر کچھ اسطرح ہےاقتصادی ترقی اور علاقائی رابطوں کو بڑھانے کے لئے خدائی فوجدار، مائی باپ عزت مآب حضرت باجوہ صاحب نے ١٣ رکنی قومی ترقیاتی عاشورہ قائم کردی ہے اپنے علاوہ دیگر ارکان میں وزیر اعظم اور انکے مشیروں کو بھی متوقع تذلیل میں شریک کرلیا ہے
اس خبر پر میرا تبصرہ
میرے خیال میں پاکستان کے مخصوص حالات کے تناظر میں اور حقیقت پسندی پر عمل کرتے ہوئے میرے آقا کا یہ نسبتاً بہتر فیصلہ ہے
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
- mood 1
- mood Bawa react this post
20 Jun, 2019 at 1:45 pm #23If you can’t beat them, join them!
آرمی چیف کو ترقیاتی کونسل میں شامل کرکے …یا اسے ایکسٹینشن دے کر …اگر عمران خان کی اپنی مدت ملازمت میں توسيع ہو جاتی ہے تو برا سودا نہیں
قرار صاحب۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے کہ ایکسٹینشن دینے سے ہر ممکن بچنا چاہئے۔۔۔۔۔ اور جہاں تک ترقیاتی کونسل میں آرمی چیف کو شامل کرنے کی بات ہے تو بہتر ہے شامل کرلیا جائے۔۔۔۔۔
جہانگیر کرامت کی سیکیورٹی کونسل والی تجویز پر میاں صاحب نے چیف صاحب کو باہر تو کروادیا مگر پھر ہوا کیا۔۔۔۔۔ سیکیورٹی کونسل بنی بھی اور آج تک ہے۔۔۔۔۔
اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگانا سیاست کے کھیل کی بڑی غلطی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ اُمید ہے جیل کی تنہائی میں میاں صاحب اِن پہلوؤں پر بھی غور کرتے ہوں گے۔۔۔۔۔
20 Jun, 2019 at 2:15 pm #24لیکن پٹواری رنڈی رونا جاری رہے گا، کیوں کے یہ انکی ذہنی بیماریوں کی وجہ سے ہے نا کے کسی اور وجہ سے، مجھے ان لوگوں سے واقع دلی ہمدردی ہے ، بیچارے قدرت کی طرف سے ذہنی مریضوں کی طرح پیدا کیے گئے، انکا الله ان پر رحم کرے، ہم تو صرف افسوس ہی کرسکتے ہیں.
قسم سے جب جب بھی میں اِن پٹواریوں و حق پرستوں کی جمہوری نوحہ گری سُنتا ہوں تو مُنی بیگم کی گائی ہوئی ایک غزل کا ٹکڑا یاد آجاتا ہے۔۔۔۔۔
اُن کی تعریف کیا پوچھتے ہو، عُمر ساری گناہوں میں گذری
پارسا بن رہے ہیں وہ ایسے، جیسے گنگا نہائے ہوئے ہیں
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
- mood 3
- mood shahidabassi, bluesheep, Ghost Protocol react this post
20 Jun, 2019 at 2:24 pm #25قرار صاحب۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ ایکسٹینشن دینے سے ہر ممکن بچنا چاہئے۔۔۔۔۔ اور جہاں تک ترقیاتی کونسل میں آرمی چیف کو شامل کرنے کی بات ہے تو بہتر ہے شامل کرلیا جائے۔۔۔۔۔ جہانگیر کرامت کی سیکیورٹی کونسل والی تجویز پر میاں صاحب نے چیف صاحب کو باہر تو کروادیا مگر پھر ہوا کیا۔۔۔۔۔ سیکیورٹی کونسل بنی بھی اور آج تک ہے۔۔۔۔۔ اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگانا سیاست کے کھیل کی بڑی غلطی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ اُمید ہے جیل کی تنہائی میں میاں صاحب اِن پہلوؤں پر بھی غور کرتے ہوں گے۔۔۔۔۔میاں صاحب کو کیا ضرورت ہے کہ جیل کی گرمی میں بیٹھے ان پہلوؤں پر غور کریں۔ اس کام کے لئے انہوں نے باواجی، بلیور اور عاطف کو جو رکھا ہوا ہے۔اب بچارے مینے مارنے اور ٹویٹس ڈھونڈنے کی حد تک ہی رہ گئے ہیں۔ روز حکومت جانے کا سوچتے ہیں لیکن ان کی یہ شامِ غریباں اگلے دس سال جاری رہنی ہے۔ فوج کو اپنے کام کا بندہ مل گیا ہے وہ اسے اگلی ٹرم بھی لے کر آئیں گے اور جب تک یہ خوچہ حکومت میں ہے بابائے رائے ونڈی جمہوریت اور پاکستان کا نیلسن منڈیلا اب اندر ہی رہیں گے۔
- mood 3
- mood BlackSheep, Ghost Protocol, کک باکسر react this post
20 Jun, 2019 at 4:04 pm #26قسم سے جب جب بھی میں اِن پٹواریوں و حق پرستوں کی جمہوری نوحہ گری سُنتا ہوں تو مُنی بیگم کی گائی ہوئی ایک غزل کا ٹکڑا یاد آجاتا ہے۔۔۔۔۔ اُن کی تعریف کیا پوچھتے ہو، عُمر ساری گناہوں میں گذری پارسا بن رہے ہیں وہ ایسے، جیسے گنگا نہائے ہوئے ہیںاس سے زیادہ ” امید افزا ” بات یہ ہے کے پاکستانی قوم کی مجموعی یاداشت بہت کمزور ہے، ابھی کچھ عرصے پہلے یہی لوگ کھل کر زردری اور نواز لوہار کو گالیاں دیتے تھے، اس وقت سب کو پتا تھا کے یہ دونوں میثاق جمہوریت کے نام پر ملک کو لوٹنے میں مصروف تھے یا تیاریوں میں مصروف تھے.
ظاہر ہے انکے چیلے بھی پاکستانی قوم کا ہی حصہ ہیں، کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے ایسے دھلڑلے سے بولتے تھے کے جیسے کوئی سہی حدیث ہو، میں اور آپ تو ویسے بھی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور ” حق پرست ” جس طرح کے کرتوتوں مزین تھے وہ میں اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں.
میری ایک تھیوری ہے، واقع میں، اتنے عرصے بعد اتنے مشاہدات کے بعد مجھے واقع لگتا ہے کے پٹواری، جیالے، اور بھائی کے چیلے، اور دیگر جو ان چیزوں کو حقیتا اتنا سیریز لے لیتے ہیں، انکے اور ایک بن مانس کے جینز میں کوئی فرق نہیں، ایک انسان اور چمپنزی کے جینز میں بہت تھوڑا سے فرق ہے، لیکن جس طرح چمپنزی ایک جیسی حرکتیں کرتا ہے اور ذہنی طور پر کم عقل اور کند ذہن ہے ویسے ہی نمونے یہاں بھی ملتے ہیں، بہت اچھی مثال آپ کو باولا کی ہے، ایک پیٹرن جو آپ امید رکھ سکتے ہیں باولا جی کے جواب میں کیا لکھا جائے گا، ویسا ہی آپ کو ہمیشہ نظر آے گا وہی الفاظ، وہی گھسی دو لائنز، وہی تصاویر اور وہی جانو جرمن والی حرکتیں.
ایسے ذہنی مریضوں کی بدقسمتی سے کوئی دوا نہیں ہے
- mood 1
- mood Ghost Protocol react this post
20 Jun, 2019 at 5:34 pm #27یہاں تو فوجیوں کی فکری بیواؤں نے شام غریباں شروع کر رکھی ہےان فکری بیواؤں کی قسمت میں منہ کالا کرکے، سر میں خاک ڈال کر، ہاتھ اٹھا اٹھا کر اور بال نوچ نوچ کر جمہوریت کا نام لے کر رونا پٹنا ہی رہ گیا ہے
- mood 2
- mood Ghost Protocol, shami11 react this post
20 Jun, 2019 at 6:22 pm #28Tommy Chong is hilarious! Who drives when stoned? Hahaha
Posted by Laugh Therapy on Thursday, March 21, 2019
- mood 1
- mood Bawa react this post
21 Jun, 2019 at 12:45 am #29میاں صاحب اپنی اوائل جوانی میں اپنی نئی نویلی ٹِنڈ سے فوجی گاڈ فادرز کی اتنی اچھی بوٹ پالش کرتے تھے کہ جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء ان کو پیار سے “ٹِنڈ بلاسم” پکارتے تھے۔۔۔پھر انہوں نے فوجی بوٹوں پر ٹِنڈ رگڑائی کے یہ حقوق اپنے چھوٹے بھائی اور دیرینہ دوست چُدّی نثار کو دے دئیے جو رات کے انھیروں میں فوجی بوٹوں کے گرد پمیری رقص کرتے ہوئے گشتی جمہوریت کا ریٹ بڑھاتے تھے۔۔۔21 Jun, 2019 at 6:34 am #30میرے خیال میں پاکستان کے مخصوص حالات کے تناظر میں اور حقیقت پسندی پر عمل کرتے ہوئے عمران حکومت کا یہ نسبتاً بہتر فیصلہ ہے۔۔۔۔۔میں متفق ہوں
میرے خیال میں اس سے فیصلہ سازی میں بہتری ہو گی اور کسی حد تک استحکام آے گا
یہ ایک طریقہ ہے کے مختلف اداروں کو یہ باور کروایا جا سکے کے ملک کےاقتصادی حالات اور منازل کیا ہیں
اور ابھی بہت وقت پڑا ہے اپنے اپنے فرائض کے تعیین کرنے کا
- thumb_up 1
- thumb_up Bawa liked this post
21 Jun, 2019 at 7:23 am #32Atif Qazi,Qarar,BlackSheep,JMP,Bawa,Shirazi,پرولتاری درویش,Awan,EasyGo,Jack Sparrow,casanova,GeoG,صحرائیدرج زیل شاندار تحریر میرے ایک جمہوری دوست کی بوٹ چاٹیا برادری کو پیارا ہونے سے قبل کی ہے- بوجھو تو جانیں
یہ بحث دیکھ کر کافی سالوں پہلے پاکستان میں فرانس کے ایک سفیر کی کہی گئی باتیں یاد آتی ہیں۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں منعقد ایک تقریب میں اُس سفیر کا کہنا تھا کہ آج آپ لوگ مغربی اقوام کی ترقی کو دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک بھی ویسا ہی ترقی یافتہ ہوجائے مگر یورپی اقوام آج جس مقام پر ہیں اُس مقام پر پہنچنے کیلئے جو صدیوں کا سفر طے کیا گیا ہے اُس سفر کو آپ لوگ نہیں دیکھتے اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ پانچ دس سالوں میں بھی آپ کا ملک بھی یورپ کی طرح ترقی یافتہ ہوجائے۔۔۔۔۔ ۔میں اکثر اردو کالم نگاروں، جن میں حضرت جاوید چوہدری رحمتہ اللہ علیہ سرفہرست ہیں، کے کالمز میں یہ مثالیں پڑھتا ہوں کہ کیسے برطانیہ یا کسی اور مغربی ملک کے ایک وزیر نے کیسے تھوڑے سے پیسوں کی کرپشن کے صرف الزام میں استعفیٰ دیدیا۔۔۔۔۔ اس طرزِ فکر سے جو مجھے سب سے بڑا اختلاف ہے وہ یہ کہ معاشرہ ایک مجموعی پیکج ہوتا ہے۔۔۔۔۔ مالی اور اخلاقی طور پر انتہائی کرپٹ معاشرے میں یہ توقع رکھنا کہ حکمران دودھ کے دھلے ہوں نہایت عجیب بات ہے۔۔۔۔۔ اسی سے ملتی جلتی سوچ، جس کو پروان چڑھانے میں حضرت ہارون رشید رحمتہ اللہ علیہ سرِفہرست ہیں، کہ خدا کسی اچھے حکمران کو بھیجے گا جو اس (کرپٹ)قوم کی نیا پار لگائے گا۔۔۔۔۔۔اس طرزِ فکر کا بہت گہرا تعلق سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی سوچ سے ہے۔۔۔۔۔۔ ان دونوں نظاموں میں جو ایک فرق ہے وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں فرد اپنا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ جو فیصلے لیتا ہے اُس کے نتائج ہوتے ہیں اور وہی ان کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ اشتراکی نظام میں فرد پر ذمہ داری نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو بنیادی طور پر معصوم ہوتا ہے اور اُس فرد کے فیصلہ کرنے کا اختیار کوئی اور(کمیونسٹ پارٹی) لے لیتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور میرے خیال میں اشتراکی نظام کے شکست کھانے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی۔۔۔۔۔۔مثال کے طور پر دو جملے ہیں۔۔۔۔۔پہلا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ملک کے حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔دوسرا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ذاتی حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔میری نظر میں یہ دونوں جملے اشتراکی نظام اور سرمایہ دارانہ نطام کی سوچ کو واضح کرتے ہیں۔۔۔۔۔ نظر بظاہر دیکھا جائے تو پہلا جملہ سننے میں کافی اچھا لگتا ہے اور یہ اکثر سننے کو ملتا ہے لیکن جب کوئی شخص یا گروہ اپنے آپ کو خود ہی اس ذمہ داری پر فائز کردیتا ہے کہ اسے ہی ملک کے حالات درست کرنے ہیں تو خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ فوجی بغاوتیں ہو، کمیونسٹ پارٹی کا اندازِ حکومت ہو، عدلیہ کی پھرتیاں ہوں، یہ سب اسی سوچ کے شاخسانے ہیں۔۔۔۔۔ اور میری نظر میں یہ فرد کے خود فیصلہ کرنے کے حق پر ڈاکہ ہے۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسرے جملہ میں سراسر خود غرضی ہے۔۔۔۔۔ مگر یہ خود غرضی اچھی چیز ہے۔۔۔۔۔۔ اگر ہر فرد اپنے ذاتی حالات کا خود ذمہ دار ہو اور وہ اس کو بہتر کرسکے تو نتیجتاً اس کا ملک بھی بہتر ہوگا۔۔۔۔۔۔اور میرا سمجھنا یہ ہے کہ ان دو جملوں میں پنہاں سوچ نے ایک معاشی نظام کی شکست اور دوسرے کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔۔۔۔ابھی تھوڑے دن پہلے قرار صاحب نے جانداروں میں ارتقاء کے حوالے سے ایک مثال دی تھی کہ کیسے دریائے ہڈسن میں مچھلیوں نے اپنے جسم میں یہ صلاحیت پیدا کرلی تھی کہ وہ ان کیمیائی مادوں کا مقابلہ کرسکیں۔۔۔۔۔ ان مچھلیوں نے یہ سبق سیکھ لیا تھا کہ اب نئے حالات کے ساتھ زندہ کیسے رہنا ہے۔۔۔۔۔ اب اگر فرض کریں کہ اگر ان کیمیائی مادوں کے دریا میں ڈالنے سے پہلے مچھلیوں کو وہاں سے نکال لیا جاتا تو کیا ان مچھلیوں میں یہ مزاحمت پیدا ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔ میرا نہیں خیال۔۔۔۔۔جو کچھ اوپر لکھا ہے اس زیرِ بحث موضوع کے ساتھ ملاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ جن لوگوں نے نواز شریف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا ان کو نتائج بھی بھگتنے دیں۔۔۔۔۔ اگر وہ نتائج نہیں بھگتیں گے تو کبھی بھی نہیں سیکھیں گے۔۔۔۔۔۔ اگر نواز شریف کو ووٹ دینے والوں نے غلطی کی ہے تو انہیں اس کی سزا بھی ملنی چاہئے۔۔۔۔ لیکن عوام کو فری پاس نہ دیں کہ ان کا کوئی قصور نہیں اور ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔۔۔۔۔ مغرب آج ترقی کے جس مقام پر ہے وہ اس ہی وجہ سے ہے کہ وہاں کے لوگوں نے صدیاں لگا کر یہ سبق سیکھے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ سب سے اہم بات یہ کہ اپنا ذاتی فیصلہ سازی کا حق کسی جرنل یا جج کے ہاتھ میں دینے میں کافی نقصانات ہیں۔۔۔۔۔ مگر یہ بات بھی کافی وقت لگا کر ہی سمجھ آسکے گی۔۔۔۔۔
21 Jun, 2019 at 7:53 am #33Atif,Qarar,blacksheep,JMP,Bawa,Shirazi,پرولتاری درویش,Awan,EasyGo,Jack Sparrow,casanova,GeoG,صحرائی درج زیل شاندار تحریر میرے ایک جمہوری دوست کی بوٹ چاٹیا برادری کو پیارا ہونے سے قبل کی ہے- بوجھو تو جانیں یہ بحث دیکھ کر کافی سالوں پہلے پاکستان میں فرانس کے ایک سفیر کی کہی گئی باتیں یاد آتی ہیں۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں منعقد ایک تقریب میں اُس سفیر کا کہنا تھا کہ آج آپ لوگ مغربی اقوام کی ترقی کو دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک بھی ویسا ہی ترقی یافتہ ہوجائے مگر یورپی اقوام آج جس مقام پر ہیں اُس مقام پر پہنچنے کیلئے جو صدیوں کا سفر طے کیا گیا ہے اُس سفر کو آپ لوگ نہیں دیکھتے اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ پانچ دس سالوں میں بھی آپ کا ملک بھی یورپ کی طرح ترقی یافتہ ہوجائے۔۔۔۔۔ ۔میں اکثر اردو کالم نگاروں، جن میں حضرت جاوید چوہدری رحمتہ اللہ علیہ سرفہرست ہیں، کے کالمز میں یہ مثالیں پڑھتا ہوں کہ کیسے برطانیہ یا کسی اور مغربی ملک کے ایک وزیر نے کیسے تھوڑے سے پیسوں کی کرپشن کے صرف الزام میں استعفیٰ دیدیا۔۔۔۔۔ اس طرزِ فکر سے جو مجھے سب سے بڑا اختلاف ہے وہ یہ کہ معاشرہ ایک مجموعی پیکج ہوتا ہے۔۔۔۔۔ مالی اور اخلاقی طور پر انتہائی کرپٹ معاشرے میں یہ توقع رکھنا کہ حکمران دودھ کے دھلے ہوں نہایت عجیب بات ہے۔۔۔۔۔ اسی سے ملتی جلتی سوچ، جس کو پروان چڑھانے میں حضرت ہارون رشید رحمتہ اللہ علیہ سرِفہرست ہیں، کہ خدا کسی اچھے حکمران کو بھیجے گا جو اس (کرپٹ)قوم کی نیا پار لگائے گا۔۔۔۔۔۔اس طرزِ فکر کا بہت گہرا تعلق سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی سوچ سے ہے۔۔۔۔۔۔ ان دونوں نظاموں میں جو ایک فرق ہے وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں فرد اپنا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ جو فیصلے لیتا ہے اُس کے نتائج ہوتے ہیں اور وہی ان کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ اشتراکی نظام میں فرد پر ذمہ داری نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو بنیادی طور پر معصوم ہوتا ہے اور اُس فرد کے فیصلہ کرنے کا اختیار کوئی اور(کمیونسٹ پارٹی) لے لیتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور میرے خیال میں اشتراکی نظام کے شکست کھانے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی۔۔۔۔۔۔مثال کے طور پر دو جملے ہیں۔۔۔۔۔پہلا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ملک کے حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔دوسرا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ذاتی حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔میری نظر میں یہ دونوں جملے اشتراکی نظام اور سرمایہ دارانہ نطام کی سوچ کو واضح کرتے ہیں۔۔۔۔۔ نظر بظاہر دیکھا جائے تو پہلا جملہ سننے میں کافی اچھا لگتا ہے اور یہ اکثر سننے کو ملتا ہے لیکن جب کوئی شخص یا گروہ اپنے آپ کو خود ہی اس ذمہ داری پر فائز کردیتا ہے کہ اسے ہی ملک کے حالات درست کرنے ہیں تو خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ فوجی بغاوتیں ہو، کمیونسٹ پارٹی کا اندازِ حکومت ہو، عدلیہ کی پھرتیاں ہوں، یہ سب اسی سوچ کے شاخسانے ہیں۔۔۔۔۔ اور میری نظر میں یہ فرد کے خود فیصلہ کرنے کے حق پر ڈاکہ ہے۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسرے جملہ میں سراسر خود غرضی ہے۔۔۔۔۔ مگر یہ خود غرضی اچھی چیز ہے۔۔۔۔۔۔ اگر ہر فرد اپنے ذاتی حالات کا خود ذمہ دار ہو اور وہ اس کو بہتر کرسکے تو نتیجتاً اس کا ملک بھی بہتر ہوگا۔۔۔۔۔۔اور میرا سمجھنا یہ ہے کہ ان دو جملوں میں پنہاں سوچ نے ایک معاشی نظام کی شکست اور دوسرے کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔۔۔۔ابھی تھوڑے دن پہلے قرار صاحب نے جانداروں میں ارتقاء کے حوالے سے ایک مثال دی تھی کہ کیسے دریائے ہڈسن میں مچھلیوں نے اپنے جسم میں یہ صلاحیت پیدا کرلی تھی کہ وہ ان کیمیائی مادوں کا مقابلہ کرسکیں۔۔۔۔۔ ان مچھلیوں نے یہ سبق سیکھ لیا تھا کہ اب نئے حالات کے ساتھ زندہ کیسے رہنا ہے۔۔۔۔۔ اب اگر فرض کریں کہ اگر ان کیمیائی مادوں کے دریا میں ڈالنے سے پہلے مچھلیوں کو وہاں سے نکال لیا جاتا تو کیا ان مچھلیوں میں یہ مزاحمت پیدا ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔ میرا نہیں خیال۔۔۔۔۔جو کچھ اوپر لکھا ہے اس زیرِ بحث موضوع کے ساتھ ملاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ جن لوگوں نے نواز شریف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا ان کو نتائج بھی بھگتنے دیں۔۔۔۔۔ اگر وہ نتائج نہیں بھگتیں گے تو کبھی بھی نہیں سیکھیں گے۔۔۔۔۔۔ اگر نواز شریف کو ووٹ دینے والوں نے غلطی کی ہے تو انہیں اس کی سزا بھی ملنی چاہئے۔۔۔۔ لیکن عوام کو فری پاس نہ دیں کہ ان کا کوئی قصور نہیں اور ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔۔۔۔۔ مغرب آج ترقی کے جس مقام پر ہے وہ اس ہی وجہ سے ہے کہ وہاں کے لوگوں نے صدیاں لگا کر یہ سبق سیکھے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ سب سے اہم بات یہ کہ اپنا ذاتی فیصلہ سازی کا حق کسی جرنل یا جج کے ہاتھ میں دینے میں کافی نقصانات ہیں۔۔۔۔۔ مگر یہ بات بھی کافی وقت لگا کر ہی سمجھ آسکے گی۔۔۔۔۔چڑھتے سورج کی پوجا
عملیت پسندی کی بائی پراڈکٹ لگتی ہے
- thumb_up 2 mood 2
- thumb_up Bawa, Ghost Protocol liked this post
- mood Atif Qazi, صحرائی react this post
21 Jun, 2019 at 7:57 am #34اس سے زیادہ ” امید افزا ” بات یہ ہے کے پاکستانی قوم کی مجموعی یاداشت بہت کمزور ہے، ابھی کچھ عرصے پہلے یہی لوگ کھل کر زردری اور نواز لوہار کو گالیاں دیتے تھے، اس وقت سب کو پتا تھا کے یہ دونوں میثاق جمہوریت کے نام پر ملک کو لوٹنے میں مصروف تھے یا تیاریوں میں مصروف تھے.
ظاہر ہے انکے چیلے بھی پاکستانی قوم کا ہی حصہ ہیں، کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے ایسے دھلڑلے سے بولتے تھے کے جیسے کوئی سہی حدیث ہو، میں اور آپ تو ویسے بھی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور ” حق پرست ” جس طرح کے کرتوتوں مزین تھے وہ میں اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں.
میری ایک تھیوری ہے، واقع میں، اتنے عرصے بعد اتنے مشاہدات کے بعد مجھے واقع لگتا ہے کے پٹواری، جیالے، اور بھائی کے چیلے، اور دیگر جو ان چیزوں کو حقیتا اتنا سیریز لے لیتے ہیں، انکے اور ایک بن مانس کے جینز میں کوئی فرق نہیں، ایک انسان اور چمپنزی کے جینز میں بہت تھوڑا سے فرق ہے، لیکن جس طرح چمپنزی ایک جیسی حرکتیں کرتا ہے اور ذہنی طور پر کم عقل اور کند ذہن ہے ویسے ہی نمونے یہاں بھی ملتے ہیں، بہت اچھی مثال آپ کو باولا کی ہے، ایک پیٹرن جو آپ امید رکھ سکتے ہیں باولا جی کے جواب میں کیا لکھا جائے گا، ویسا ہی آپ کو ہمیشہ نظر آے گا وہی الفاظ، وہی گھسی دو لائنز، وہی تصاویر اور وہی جانو جرمن والی حرکتیں.
ایسے ذہنی مریضوں کی بدقسمتی سے کوئی دوا نہیں ہے
بلو شیپ جی،
آپ کا اسکور ٹہرا اسی سے اوپر اور غم آپ کو ہے ساٹھ والوں کا – یہ بھی کویی پالنے والا غم ہے آپ چھوڑیں ان لوگوں کو انکو ایسے ہی رہنا ہے
آپ یہ بتایں ریسورس بیسڈ معیشت والا وینس پراجیکٹ کہاں تک پہنچا ؟ اپنی کسی تازہ تحقیق یا تازہ ایجاد کے بارے میں آگاہ کریں فورم کو کہ انسانیت کی فلاح کے لئے آپ کن پراجیکٹس پر کام کررہے ہیں آج کل –21 Jun, 2019 at 10:58 am #35Atif,Qarar,blacksheep,JMP,Bawa,Shirazi,پرولتاری درویش,Awan,EasyGo,Jack Sparrow,casanova,GeoG,صحرائی درج زیل شاندار تحریر میرے ایک جمہوری دوست کی بوٹ چاٹیا برادری کو پیارا ہونے سے قبل کی ہے- بوجھو تو جانیں یہ بحث دیکھ کر کافی سالوں پہلے پاکستان میں فرانس کے ایک سفیر کی کہی گئی باتیں یاد آتی ہیں۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں منعقد ایک تقریب میں اُس سفیر کا کہنا تھا کہ آج آپ لوگ مغربی اقوام کی ترقی کو دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک بھی ویسا ہی ترقی یافتہ ہوجائے مگر یورپی اقوام آج جس مقام پر ہیں اُس مقام پر پہنچنے کیلئے جو صدیوں کا سفر طے کیا گیا ہے اُس سفر کو آپ لوگ نہیں دیکھتے اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ پانچ دس سالوں میں بھی آپ کا ملک بھی یورپ کی طرح ترقی یافتہ ہوجائے۔۔۔۔۔ ۔میں اکثر اردو کالم نگاروں، جن میں حضرت جاوید چوہدری رحمتہ اللہ علیہ سرفہرست ہیں، کے کالمز میں یہ مثالیں پڑھتا ہوں کہ کیسے برطانیہ یا کسی اور مغربی ملک کے ایک وزیر نے کیسے تھوڑے سے پیسوں کی کرپشن کے صرف الزام میں استعفیٰ دیدیا۔۔۔۔۔ اس طرزِ فکر سے جو مجھے سب سے بڑا اختلاف ہے وہ یہ کہ معاشرہ ایک مجموعی پیکج ہوتا ہے۔۔۔۔۔ مالی اور اخلاقی طور پر انتہائی کرپٹ معاشرے میں یہ توقع رکھنا کہ حکمران دودھ کے دھلے ہوں نہایت عجیب بات ہے۔۔۔۔۔ اسی سے ملتی جلتی سوچ، جس کو پروان چڑھانے میں حضرت ہارون رشید رحمتہ اللہ علیہ سرِفہرست ہیں، کہ خدا کسی اچھے حکمران کو بھیجے گا جو اس (کرپٹ)قوم کی نیا پار لگائے گا۔۔۔۔۔۔اس طرزِ فکر کا بہت گہرا تعلق سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی سوچ سے ہے۔۔۔۔۔۔ ان دونوں نظاموں میں جو ایک فرق ہے وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں فرد اپنا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ جو فیصلے لیتا ہے اُس کے نتائج ہوتے ہیں اور وہی ان کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ اشتراکی نظام میں فرد پر ذمہ داری نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو بنیادی طور پر معصوم ہوتا ہے اور اُس فرد کے فیصلہ کرنے کا اختیار کوئی اور(کمیونسٹ پارٹی) لے لیتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور میرے خیال میں اشتراکی نظام کے شکست کھانے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی۔۔۔۔۔۔مثال کے طور پر دو جملے ہیں۔۔۔۔۔پہلا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ملک کے حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔دوسرا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ذاتی حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔میری نظر میں یہ دونوں جملے اشتراکی نظام اور سرمایہ دارانہ نطام کی سوچ کو واضح کرتے ہیں۔۔۔۔۔ نظر بظاہر دیکھا جائے تو پہلا جملہ سننے میں کافی اچھا لگتا ہے اور یہ اکثر سننے کو ملتا ہے لیکن جب کوئی شخص یا گروہ اپنے آپ کو خود ہی اس ذمہ داری پر فائز کردیتا ہے کہ اسے ہی ملک کے حالات درست کرنے ہیں تو خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ فوجی بغاوتیں ہو، کمیونسٹ پارٹی کا اندازِ حکومت ہو، عدلیہ کی پھرتیاں ہوں، یہ سب اسی سوچ کے شاخسانے ہیں۔۔۔۔۔ اور میری نظر میں یہ فرد کے خود فیصلہ کرنے کے حق پر ڈاکہ ہے۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسرے جملہ میں سراسر خود غرضی ہے۔۔۔۔۔ مگر یہ خود غرضی اچھی چیز ہے۔۔۔۔۔۔ اگر ہر فرد اپنے ذاتی حالات کا خود ذمہ دار ہو اور وہ اس کو بہتر کرسکے تو نتیجتاً اس کا ملک بھی بہتر ہوگا۔۔۔۔۔۔اور میرا سمجھنا یہ ہے کہ ان دو جملوں میں پنہاں سوچ نے ایک معاشی نظام کی شکست اور دوسرے کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔۔۔۔ابھی تھوڑے دن پہلے قرار صاحب نے جانداروں میں ارتقاء کے حوالے سے ایک مثال دی تھی کہ کیسے دریائے ہڈسن میں مچھلیوں نے اپنے جسم میں یہ صلاحیت پیدا کرلی تھی کہ وہ ان کیمیائی مادوں کا مقابلہ کرسکیں۔۔۔۔۔ ان مچھلیوں نے یہ سبق سیکھ لیا تھا کہ اب نئے حالات کے ساتھ زندہ کیسے رہنا ہے۔۔۔۔۔ اب اگر فرض کریں کہ اگر ان کیمیائی مادوں کے دریا میں ڈالنے سے پہلے مچھلیوں کو وہاں سے نکال لیا جاتا تو کیا ان مچھلیوں میں یہ مزاحمت پیدا ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔ میرا نہیں خیال۔۔۔۔۔جو کچھ اوپر لکھا ہے اس زیرِ بحث موضوع کے ساتھ ملاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ جن لوگوں نے نواز شریف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا ان کو نتائج بھی بھگتنے دیں۔۔۔۔۔ اگر وہ نتائج نہیں بھگتیں گے تو کبھی بھی نہیں سیکھیں گے۔۔۔۔۔۔ اگر نواز شریف کو ووٹ دینے والوں نے غلطی کی ہے تو انہیں اس کی سزا بھی ملنی چاہئے۔۔۔۔ لیکن عوام کو فری پاس نہ دیں کہ ان کا کوئی قصور نہیں اور ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔۔۔۔۔ مغرب آج ترقی کے جس مقام پر ہے وہ اس ہی وجہ سے ہے کہ وہاں کے لوگوں نے صدیاں لگا کر یہ سبق سیکھے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ سب سے اہم بات یہ کہ اپنا ذاتی فیصلہ سازی کا حق کسی جرنل یا جج کے ہاتھ میں دینے میں کافی نقصانات ہیں۔۔۔۔۔ مگر یہ بات بھی کافی وقت لگا کر ہی سمجھ آسکے گی۔۔۔۔۔لئٹ می گئس۔۔ یہ بھائی صاحب کچھ سال پہلے عزیز آباد کے سیکٹر تین سو دو میں سیک اینڈ پیک فیکٹری کے بھاجو میں رہا کرتے تھے۔۔۔۔
- mood 4
- mood Bawa, shami11, Atif Qazi, Ghost Protocol react this post
21 Jun, 2019 at 12:39 pm #36Atif,Qarar,blacksheep,JMP,Bawa,Shirazi,پرولتاری درویش,Awan,EasyGo,Jack Sparrow,casanova,GeoG,صحرائی درج زیل شاندار تحریر میرے ایک جمہوری دوست کی بوٹ چاٹیا برادری کو پیارا ہونے سے قبل کی ہے- بوجھو تو جانیں یہ بحث دیکھ کر کافی سالوں پہلے پاکستان میں فرانس کے ایک سفیر کی کہی گئی باتیں یاد آتی ہیں۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں منعقد ایک تقریب میں اُس سفیر کا کہنا تھا کہ آج آپ لوگ مغربی اقوام کی ترقی کو دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک بھی ویسا ہی ترقی یافتہ ہوجائے مگر یورپی اقوام آج جس مقام پر ہیں اُس مقام پر پہنچنے کیلئے جو صدیوں کا سفر طے کیا گیا ہے اُس سفر کو آپ لوگ نہیں دیکھتے اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ پانچ دس سالوں میں بھی آپ کا ملک بھی یورپ کی طرح ترقی یافتہ ہوجائے۔۔۔۔۔ ۔میں اکثر اردو کالم نگاروں، جن میں حضرت جاوید چوہدری رحمتہ اللہ علیہ سرفہرست ہیں، کے کالمز میں یہ مثالیں پڑھتا ہوں کہ کیسے برطانیہ یا کسی اور مغربی ملک کے ایک وزیر نے کیسے تھوڑے سے پیسوں کی کرپشن کے صرف الزام میں استعفیٰ دیدیا۔۔۔۔۔ اس طرزِ فکر سے جو مجھے سب سے بڑا اختلاف ہے وہ یہ کہ معاشرہ ایک مجموعی پیکج ہوتا ہے۔۔۔۔۔ مالی اور اخلاقی طور پر انتہائی کرپٹ معاشرے میں یہ توقع رکھنا کہ حکمران دودھ کے دھلے ہوں نہایت عجیب بات ہے۔۔۔۔۔ اسی سے ملتی جلتی سوچ، جس کو پروان چڑھانے میں حضرت ہارون رشید رحمتہ اللہ علیہ سرِفہرست ہیں، کہ خدا کسی اچھے حکمران کو بھیجے گا جو اس (کرپٹ)قوم کی نیا پار لگائے گا۔۔۔۔۔۔اس طرزِ فکر کا بہت گہرا تعلق سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی سوچ سے ہے۔۔۔۔۔۔ ان دونوں نظاموں میں جو ایک فرق ہے وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں فرد اپنا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ جو فیصلے لیتا ہے اُس کے نتائج ہوتے ہیں اور وہی ان کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ اشتراکی نظام میں فرد پر ذمہ داری نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو بنیادی طور پر معصوم ہوتا ہے اور اُس فرد کے فیصلہ کرنے کا اختیار کوئی اور(کمیونسٹ پارٹی) لے لیتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور میرے خیال میں اشتراکی نظام کے شکست کھانے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی۔۔۔۔۔۔مثال کے طور پر دو جملے ہیں۔۔۔۔۔پہلا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ملک کے حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔دوسرا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ذاتی حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔میری نظر میں یہ دونوں جملے اشتراکی نظام اور سرمایہ دارانہ نطام کی سوچ کو واضح کرتے ہیں۔۔۔۔۔ نظر بظاہر دیکھا جائے تو پہلا جملہ سننے میں کافی اچھا لگتا ہے اور یہ اکثر سننے کو ملتا ہے لیکن جب کوئی شخص یا گروہ اپنے آپ کو خود ہی اس ذمہ داری پر فائز کردیتا ہے کہ اسے ہی ملک کے حالات درست کرنے ہیں تو خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ فوجی بغاوتیں ہو، کمیونسٹ پارٹی کا اندازِ حکومت ہو، عدلیہ کی پھرتیاں ہوں، یہ سب اسی سوچ کے شاخسانے ہیں۔۔۔۔۔ اور میری نظر میں یہ فرد کے خود فیصلہ کرنے کے حق پر ڈاکہ ہے۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسرے جملہ میں سراسر خود غرضی ہے۔۔۔۔۔ مگر یہ خود غرضی اچھی چیز ہے۔۔۔۔۔۔ اگر ہر فرد اپنے ذاتی حالات کا خود ذمہ دار ہو اور وہ اس کو بہتر کرسکے تو نتیجتاً اس کا ملک بھی بہتر ہوگا۔۔۔۔۔۔اور میرا سمجھنا یہ ہے کہ ان دو جملوں میں پنہاں سوچ نے ایک معاشی نظام کی شکست اور دوسرے کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔۔۔۔ابھی تھوڑے دن پہلے قرار صاحب نے جانداروں میں ارتقاء کے حوالے سے ایک مثال دی تھی کہ کیسے دریائے ہڈسن میں مچھلیوں نے اپنے جسم میں یہ صلاحیت پیدا کرلی تھی کہ وہ ان کیمیائی مادوں کا مقابلہ کرسکیں۔۔۔۔۔ ان مچھلیوں نے یہ سبق سیکھ لیا تھا کہ اب نئے حالات کے ساتھ زندہ کیسے رہنا ہے۔۔۔۔۔ اب اگر فرض کریں کہ اگر ان کیمیائی مادوں کے دریا میں ڈالنے سے پہلے مچھلیوں کو وہاں سے نکال لیا جاتا تو کیا ان مچھلیوں میں یہ مزاحمت پیدا ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔ میرا نہیں خیال۔۔۔۔۔جو کچھ اوپر لکھا ہے اس زیرِ بحث موضوع کے ساتھ ملاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ جن لوگوں نے نواز شریف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا ان کو نتائج بھی بھگتنے دیں۔۔۔۔۔ اگر وہ نتائج نہیں بھگتیں گے تو کبھی بھی نہیں سیکھیں گے۔۔۔۔۔۔ اگر نواز شریف کو ووٹ دینے والوں نے غلطی کی ہے تو انہیں اس کی سزا بھی ملنی چاہئے۔۔۔۔ لیکن عوام کو فری پاس نہ دیں کہ ان کا کوئی قصور نہیں اور ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔۔۔۔۔ مغرب آج ترقی کے جس مقام پر ہے وہ اس ہی وجہ سے ہے کہ وہاں کے لوگوں نے صدیاں لگا کر یہ سبق سیکھے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ سب سے اہم بات یہ کہ اپنا ذاتی فیصلہ سازی کا حق کسی جرنل یا جج کے ہاتھ میں دینے میں کافی نقصانات ہیں۔۔۔۔۔ مگر یہ بات بھی کافی وقت لگا کر ہی سمجھ آسکے گی۔۔۔۔۔گھوسٹ پروٹوکول بھائی
یہ کوئی فکری بیوہ ہی ہو سکتی ہے
- mood 4
- mood shami11, Atif Qazi, صحرائی, Ghost Protocol react this post
21 Jun, 2019 at 2:38 pm #37درج زیل شاندار تحریر میرے ایک جمہوری دوست کی بوٹ چاٹیا برادری کو پیارا ہونے سے قبل کی ہےبوجھو تو جانیںلگتا ہے کسی نہ کسی کالی بھیڑ نے یہ تحریر لکھی ہے۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے ایسی تحاریر کالی بھیڑیں ہی لکھ سکتی ہیں۔۔۔۔۔
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
21 Jun, 2019 at 7:17 pm #38Atif,Qarar,blacksheep,JMP,Bawa,Shirazi,پرولتاری درویش,Awan,EasyGo,Jack Sparrow,casanova,GeoG,صحرائی درج زیل شاندار تحریر میرے ایک جمہوری دوست کی بوٹ چاٹیا برادری کو پیارا ہونے سے قبل کی ہے- بوجھو تو جانیں یہ بحث دیکھ کر کافی سالوں پہلے پاکستان میں فرانس کے ایک سفیر کی کہی گئی باتیں یاد آتی ہیں۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں منعقد ایک تقریب میں اُس سفیر کا کہنا تھا کہ آج آپ لوگ مغربی اقوام کی ترقی کو دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک بھی ویسا ہی ترقی یافتہ ہوجائے مگر یورپی اقوام آج جس مقام پر ہیں اُس مقام پر پہنچنے کیلئے جو صدیوں کا سفر طے کیا گیا ہے اُس سفر کو آپ لوگ نہیں دیکھتے اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ پانچ دس سالوں میں بھی آپ کا ملک بھی یورپ کی طرح ترقی یافتہ ہوجائے۔۔۔۔۔ ۔میں اکثر اردو کالم نگاروں، جن میں حضرت جاوید چوہدری رحمتہ اللہ علیہ سرفہرست ہیں، کے کالمز میں یہ مثالیں پڑھتا ہوں کہ کیسے برطانیہ یا کسی اور مغربی ملک کے ایک وزیر نے کیسے تھوڑے سے پیسوں کی کرپشن کے صرف الزام میں استعفیٰ دیدیا۔۔۔۔۔ اس طرزِ فکر سے جو مجھے سب سے بڑا اختلاف ہے وہ یہ کہ معاشرہ ایک مجموعی پیکج ہوتا ہے۔۔۔۔۔ مالی اور اخلاقی طور پر انتہائی کرپٹ معاشرے میں یہ توقع رکھنا کہ حکمران دودھ کے دھلے ہوں نہایت عجیب بات ہے۔۔۔۔۔ اسی سے ملتی جلتی سوچ، جس کو پروان چڑھانے میں حضرت ہارون رشید رحمتہ اللہ علیہ سرِفہرست ہیں، کہ خدا کسی اچھے حکمران کو بھیجے گا جو اس (کرپٹ)قوم کی نیا پار لگائے گا۔۔۔۔۔۔اس طرزِ فکر کا بہت گہرا تعلق سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی سوچ سے ہے۔۔۔۔۔۔ ان دونوں نظاموں میں جو ایک فرق ہے وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں فرد اپنا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ جو فیصلے لیتا ہے اُس کے نتائج ہوتے ہیں اور وہی ان کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ اشتراکی نظام میں فرد پر ذمہ داری نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو بنیادی طور پر معصوم ہوتا ہے اور اُس فرد کے فیصلہ کرنے کا اختیار کوئی اور(کمیونسٹ پارٹی) لے لیتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور میرے خیال میں اشتراکی نظام کے شکست کھانے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی۔۔۔۔۔۔مثال کے طور پر دو جملے ہیں۔۔۔۔۔پہلا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ملک کے حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔دوسرا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ذاتی حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔میری نظر میں یہ دونوں جملے اشتراکی نظام اور سرمایہ دارانہ نطام کی سوچ کو واضح کرتے ہیں۔۔۔۔۔ نظر بظاہر دیکھا جائے تو پہلا جملہ سننے میں کافی اچھا لگتا ہے اور یہ اکثر سننے کو ملتا ہے لیکن جب کوئی شخص یا گروہ اپنے آپ کو خود ہی اس ذمہ داری پر فائز کردیتا ہے کہ اسے ہی ملک کے حالات درست کرنے ہیں تو خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ فوجی بغاوتیں ہو، کمیونسٹ پارٹی کا اندازِ حکومت ہو، عدلیہ کی پھرتیاں ہوں، یہ سب اسی سوچ کے شاخسانے ہیں۔۔۔۔۔ اور میری نظر میں یہ فرد کے خود فیصلہ کرنے کے حق پر ڈاکہ ہے۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسرے جملہ میں سراسر خود غرضی ہے۔۔۔۔۔ مگر یہ خود غرضی اچھی چیز ہے۔۔۔۔۔۔ اگر ہر فرد اپنے ذاتی حالات کا خود ذمہ دار ہو اور وہ اس کو بہتر کرسکے تو نتیجتاً اس کا ملک بھی بہتر ہوگا۔۔۔۔۔۔اور میرا سمجھنا یہ ہے کہ ان دو جملوں میں پنہاں سوچ نے ایک معاشی نظام کی شکست اور دوسرے کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔۔۔۔ابھی تھوڑے دن پہلے قرار صاحب نے جانداروں میں ارتقاء کے حوالے سے ایک مثال دی تھی کہ کیسے دریائے ہڈسن میں مچھلیوں نے اپنے جسم میں یہ صلاحیت پیدا کرلی تھی کہ وہ ان کیمیائی مادوں کا مقابلہ کرسکیں۔۔۔۔۔ ان مچھلیوں نے یہ سبق سیکھ لیا تھا کہ اب نئے حالات کے ساتھ زندہ کیسے رہنا ہے۔۔۔۔۔ اب اگر فرض کریں کہ اگر ان کیمیائی مادوں کے دریا میں ڈالنے سے پہلے مچھلیوں کو وہاں سے نکال لیا جاتا تو کیا ان مچھلیوں میں یہ مزاحمت پیدا ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔ میرا نہیں خیال۔۔۔۔۔جو کچھ اوپر لکھا ہے اس زیرِ بحث موضوع کے ساتھ ملاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ جن لوگوں نے نواز شریف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا ان کو نتائج بھی بھگتنے دیں۔۔۔۔۔ اگر وہ نتائج نہیں بھگتیں گے تو کبھی بھی نہیں سیکھیں گے۔۔۔۔۔۔ اگر نواز شریف کو ووٹ دینے والوں نے غلطی کی ہے تو انہیں اس کی سزا بھی ملنی چاہئے۔۔۔۔ لیکن عوام کو فری پاس نہ دیں کہ ان کا کوئی قصور نہیں اور ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔۔۔۔۔ مغرب آج ترقی کے جس مقام پر ہے وہ اس ہی وجہ سے ہے کہ وہاں کے لوگوں نے صدیاں لگا کر یہ سبق سیکھے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ سب سے اہم بات یہ کہ اپنا ذاتی فیصلہ سازی کا حق کسی جرنل یا جج کے ہاتھ میں دینے میں کافی نقصانات ہیں۔۔۔۔۔ مگر یہ بات بھی کافی وقت لگا کر ہی سمجھ آسکے گی۔۔۔۔۔جی پی بھائی! آپ اس بدبخت بندے کو کسی طرح ہمارے فورم پر لے آئیں اور بلیک شیپ صاحب سے اس کی بحث کروا دیں۔ دونوں تگڑے پہلوان ثابت ہونگے کیونکہ جتنا یہ بندہ جمہورپسند اور جرنیل بیزار ہے اتنا ہی ہمارے بلیک شیپ صاحب جمہور بیزار اور جرنیل پسند۔
یہ دونوں بندے چونکہ الگ الگ انتہاوں پر دانش گردی فرماتے ہیں اسلئے یہاں ان کا بڑا اچھا جوڑ پڑ سکتا ہے۔
اجی بلیک شیپ صاحب! سنتے ہو؟؟
- mood 3
- mood BlackSheep, shami11, Ghost Protocol react this post
21 Jun, 2019 at 7:36 pm #39دشت گردی ہو فوج کو بلاتے ہیں ، کراچی کے حالات ، فوج کو بلاو ، سیلاب ، فوج کو بلاؤ تب تو آپ کے جمہوری چیمپئن نہیں کہتے کہ آپ کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے اندرونی معاملات ہم خود دیکھ لیں گےتمام ترقی یافتہ ممالک میں قدرتی آفات یا دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے فوج کو طلب کرلینا ایک معمول کی کاروائی ہے اس میں انوکھی بات کیا ہے؟؟ وہاں تو نہیں کہا جاتا کہ چونکہ ہمیں سیلاب میں طوفان میں یا دہشت گردی کے خلاف لڑنے کیلئے بلایا گیا ہے تو اب ہمارا حق ہے کہ ہر معاملے میں چونچ گھسائیں؟؟
اور کس ملک میں آپ نے دیکھا کہ فوج مالی معاملات میں دخول فرمارہی ہو؟؟
- thumb_up 2
- thumb_up صحرائی, Ghost Protocol liked this post
21 Jun, 2019 at 8:05 pm #40کون ہو سکتا ہے یہ ؟ جس نے جمہوری قوتوں کے بجائے فوجیوں کے ساتھ سینگ پھنسا لئے ہیںAtif,Qarar,blacksheep,JMP,Bawa,Shirazi,پرولتاری درویش,Awan,EasyGo,Jack Sparrow,casanova,GeoG,صحرائی درج زیل شاندار تحریر میرے ایک جمہوری دوست کی بوٹ چاٹیا برادری کو پیارا ہونے سے قبل کی ہے- بوجھو تو جانیں یہ بحث دیکھ کر کافی سالوں پہلے پاکستان میں فرانس کے ایک سفیر کی کہی گئی باتیں یاد آتی ہیں۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں منعقد ایک تقریب میں اُس سفیر کا کہنا تھا کہ آج آپ لوگ مغربی اقوام کی ترقی کو دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک بھی ویسا ہی ترقی یافتہ ہوجائے مگر یورپی اقوام آج جس مقام پر ہیں اُس مقام پر پہنچنے کیلئے جو صدیوں کا سفر طے کیا گیا ہے اُس سفر کو آپ لوگ نہیں دیکھتے اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ پانچ دس سالوں میں بھی آپ کا ملک بھی یورپ کی طرح ترقی یافتہ ہوجائے۔۔۔۔۔ ۔میں اکثر اردو کالم نگاروں، جن میں حضرت جاوید چوہدری رحمتہ اللہ علیہ سرفہرست ہیں، کے کالمز میں یہ مثالیں پڑھتا ہوں کہ کیسے برطانیہ یا کسی اور مغربی ملک کے ایک وزیر نے کیسے تھوڑے سے پیسوں کی کرپشن کے صرف الزام میں استعفیٰ دیدیا۔۔۔۔۔ اس طرزِ فکر سے جو مجھے سب سے بڑا اختلاف ہے وہ یہ کہ معاشرہ ایک مجموعی پیکج ہوتا ہے۔۔۔۔۔ مالی اور اخلاقی طور پر انتہائی کرپٹ معاشرے میں یہ توقع رکھنا کہ حکمران دودھ کے دھلے ہوں نہایت عجیب بات ہے۔۔۔۔۔ اسی سے ملتی جلتی سوچ، جس کو پروان چڑھانے میں حضرت ہارون رشید رحمتہ اللہ علیہ سرِفہرست ہیں، کہ خدا کسی اچھے حکمران کو بھیجے گا جو اس (کرپٹ)قوم کی نیا پار لگائے گا۔۔۔۔۔۔اس طرزِ فکر کا بہت گہرا تعلق سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی سوچ سے ہے۔۔۔۔۔۔ ان دونوں نظاموں میں جو ایک فرق ہے وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں فرد اپنا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ جو فیصلے لیتا ہے اُس کے نتائج ہوتے ہیں اور وہی ان کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ اشتراکی نظام میں فرد پر ذمہ داری نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو بنیادی طور پر معصوم ہوتا ہے اور اُس فرد کے فیصلہ کرنے کا اختیار کوئی اور(کمیونسٹ پارٹی) لے لیتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور میرے خیال میں اشتراکی نظام کے شکست کھانے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی۔۔۔۔۔۔مثال کے طور پر دو جملے ہیں۔۔۔۔۔پہلا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ملک کے حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔دوسرا یہ کہ۔۔۔۔۔ میں اپنے ذاتی حالات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔میری نظر میں یہ دونوں جملے اشتراکی نظام اور سرمایہ دارانہ نطام کی سوچ کو واضح کرتے ہیں۔۔۔۔۔ نظر بظاہر دیکھا جائے تو پہلا جملہ سننے میں کافی اچھا لگتا ہے اور یہ اکثر سننے کو ملتا ہے لیکن جب کوئی شخص یا گروہ اپنے آپ کو خود ہی اس ذمہ داری پر فائز کردیتا ہے کہ اسے ہی ملک کے حالات درست کرنے ہیں تو خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ فوجی بغاوتیں ہو، کمیونسٹ پارٹی کا اندازِ حکومت ہو، عدلیہ کی پھرتیاں ہوں، یہ سب اسی سوچ کے شاخسانے ہیں۔۔۔۔۔ اور میری نظر میں یہ فرد کے خود فیصلہ کرنے کے حق پر ڈاکہ ہے۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسرے جملہ میں سراسر خود غرضی ہے۔۔۔۔۔ مگر یہ خود غرضی اچھی چیز ہے۔۔۔۔۔۔ اگر ہر فرد اپنے ذاتی حالات کا خود ذمہ دار ہو اور وہ اس کو بہتر کرسکے تو نتیجتاً اس کا ملک بھی بہتر ہوگا۔۔۔۔۔۔اور میرا سمجھنا یہ ہے کہ ان دو جملوں میں پنہاں سوچ نے ایک معاشی نظام کی شکست اور دوسرے کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔۔۔۔ابھی تھوڑے دن پہلے قرار صاحب نے جانداروں میں ارتقاء کے حوالے سے ایک مثال دی تھی کہ کیسے دریائے ہڈسن میں مچھلیوں نے اپنے جسم میں یہ صلاحیت پیدا کرلی تھی کہ وہ ان کیمیائی مادوں کا مقابلہ کرسکیں۔۔۔۔۔ ان مچھلیوں نے یہ سبق سیکھ لیا تھا کہ اب نئے حالات کے ساتھ زندہ کیسے رہنا ہے۔۔۔۔۔ اب اگر فرض کریں کہ اگر ان کیمیائی مادوں کے دریا میں ڈالنے سے پہلے مچھلیوں کو وہاں سے نکال لیا جاتا تو کیا ان مچھلیوں میں یہ مزاحمت پیدا ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔ میرا نہیں خیال۔۔۔۔۔جو کچھ اوپر لکھا ہے اس زیرِ بحث موضوع کے ساتھ ملاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ جن لوگوں نے نواز شریف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا ان کو نتائج بھی بھگتنے دیں۔۔۔۔۔ اگر وہ نتائج نہیں بھگتیں گے تو کبھی بھی نہیں سیکھیں گے۔۔۔۔۔۔ اگر نواز شریف کو ووٹ دینے والوں نے غلطی کی ہے تو انہیں اس کی سزا بھی ملنی چاہئے۔۔۔۔ لیکن عوام کو فری پاس نہ دیں کہ ان کا کوئی قصور نہیں اور ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔۔۔۔۔ مغرب آج ترقی کے جس مقام پر ہے وہ اس ہی وجہ سے ہے کہ وہاں کے لوگوں نے صدیاں لگا کر یہ سبق سیکھے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ سب سے اہم بات یہ کہ اپنا ذاتی فیصلہ سازی کا حق کسی جرنل یا جج کے ہاتھ میں دینے میں کافی نقصانات ہیں۔۔۔۔۔ مگر یہ بات بھی کافی وقت لگا کر ہی سمجھ آسکے گی۔۔۔۔۔- mood 1
- mood Atif Qazi react this post
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.