- This topic has 87 replies, 19 voices, and was last updated 3 years, 6 months ago by Muhammad Hafeez.
-
AuthorPosts
-
28 Aug, 2020 at 1:57 pm #21آج تک میں یہی سمجھتا تھا
اے پتر ہٹاں تے نہی وکدے
پر یہاں تو پوری دوکانیں پتروں کی ہیں
- thumb_up 4 mood 2
- thumb_up Muhammad Hafeez, GeoG, Atif Qazi, Bawa liked this post
- mood Qarar, Ghost Protocol react this post
28 Aug, 2020 at 3:33 pm #22گذشتہ ماہ جب حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کے معاونین خصوصی اور مشیران کے اثاثوں اور شہریت کی تفصیلات جاری کی تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ان کا خوب چرچا ہوا۔
ان تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سابق سربراہ اور بعد میں فوج کے سدرن کمانڈ کی قیادت کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ، جو کہ اب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات اور سی پیک اتھارٹی کے سربراہ ہیں، کے اثاثہ جات پر کڑی تنقید کی گئی۔
مگر جب 27 اگست کو صحافی احمد نورانی کی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ اور ان کے خاندان کے کاروبار کے بارے میں ایک مفصل تحقیقاتی رپورٹ ‘فیکٹ فوکس’ نامی ویب سائٹ پر شائع ہوئی تو بس پھر سوالات اور تنقید کا ایک ایسا پنڈورا باکس کھل گیا جو کہ رات گئے تک بند ہونے نام ہی نہیں لے رہا تھا اور ٹوئٹر پر مسلسل ‘عاصم باجوہ’ اور ‘باجوہ لیکس’ ٹرینڈ کر رہا تھا۔
صحافی احمد نورانی نے اپنے مضمون میں دعوی کیا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ کے ‘خاندان کی کاروباری سلطنت کا پھیلاؤ اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی فوج میں اہم عہدوں پر ترقی، دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلیں۔
اپنے مضمون میں احمد نورانی لکھتے ہیں کہ عاصم باجوہ کے بھائیوں، اہلیہ اور بچوں کی ‘ چار ممالک میں 99 کمپنیاں، 130 سے زیادہ فعال فرینچائز ریسٹورنٹس، اور 13 کمرشل جائیدادیں ہیں جن میں سے امریکہ میں دو شاپنگ مال بھی شامل ہیں۔
یہاں پر احمد نورانی نے اہم نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ’عاصم سلیم باجوہ نے وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی بننے کے بعد جمع کروائی گئی اپنے اثاثہ جات کی فہرست میں اپنی بیوی کے پاکستان سے باہر بزنس کیپیٹل کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ متعلقہ کالم میں باقاعدہ ‘نہیں ہے‘ لکھا ہے۔
احمد نورانی نے اپنے مضمون میں دعوی کیا کہ ان کی تحقیق کے مطابق جنرل (ر) عاصم باجوہ کی اہلیہ فرخ زیبا اپنے شوہر کے بھائیوں کے قائم کردہ باجکو گروپ کے تمام کاروباروں میں ان کے ساتھ برابر کی حصہ دار اور مالک ہیں۔
صحافی احمد نورانی کے مضمون میں دعوی کیا گیا ہے کہ عاصم باجوہ کے بھائیوں، اہلیہ اور بچوں کی چار ممالک میں 99 کمپنیاں، 130 سے زیادہ فعال فرینچائز ریسٹورنٹس، اور 13 کمرشل جائیدادیں ہیں
احمد نورانی مزید لکھتے ہیں کہ عاصم باجوہ کے بیٹوں نے بھی اس گروپ میں 2015 میں شمولیت اختیار کی اور پاکستان اور امریکہ میں مزید نئی کمپنیوں کی بنیاد اس وقت رکھی جب ان کے والد آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے اور پھر بعد میں کمانڈر سدرن کمانڈ بلوچستان بن گئے تھے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ جاری کیے گئے اثاثہ جات کی فہرست میں عاصم باجوہ نے اپنی اہلیہ کے نام پر ‘خاندانی کاروبار’ میں صرف 31 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری ظاہر کی اور اس حلف نامے کے آخر میں تصدیق کی کہ ‘میری، اور میری بیوی کی اثاثہ جات کی فہرست نہ صرف مکمل اور درست ہے بلکہ میں نے کوئی چیز نہیں چھپائی۔
تاہم احمد نورانی کے مضمون میں دعوی کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت کی سرکاری دستاویزات کے مطابق ‘عاصم باجوہ کی اہلیہ فرخ زیبا پاکستان سے باہر (امریکہ میں) تیرہ کمرشل جائیدادیں، جن میں دو شاپنگ سنٹر بھی شامل ہیں، کی مشترکہ مالک ہیں اور تین ممالک میں 82 کمپنیوں میں ان کے سرمائے کی کل مالیت تقریباً چالیس ملین ڈالر ہے جس کی وہ عاصم باجوہ کے بھائیوں کے ساتھ برابر کی مالکن ہیں۔
کیا ایس ای سی پی کی ویب سائٹ سے معلومات کو حذف کیا گیا؟
احمد نورانی کے مضمون میں ایک بڑا دعوی یہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کاروباری کمپنیوں کے نظام کی نگرانی کرنے والے ادارے سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) نے اپنی آفیشل ویب سائٹ سے جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کے بیٹوں کی ملکیتی کمپنیوں کا ڈیٹا غائب کرنا شروع کر دیا۔
مضمون میں دعوی کیا گیا ہے کہ ایس ای سی پی کی ویب سائٹ پر اس کاروباری ڈیٹا میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مکمل شواہد موجود ہیں۔
صحافی احمد نورانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ایس ای سی پی کی ویب سائٹ سے عاصم باجوہ کے بیٹوں کی ملکیت کے بارے میں معلومات اتوار پہلی اگست کو ہٹائی گئی تھیں جو کہ عید کی چھٹی تھی۔
انھوں نے دعوی کیا: ایس ای سی پی کے پورے ادارے کو معلوم ہے یہ بات اور میرے پاس تمام ڈیجیٹل شواہد موجود ہیں۔
احمد نورانی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ سے ان کی اہلیہ کی امریکہ میں جائیداد اور بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے متعلق سوال کیا اور پوچھا کہ ‘انھوں اپنے اثاثہ جات کی ڈیکلیریشن میں اپنی بیوی کے حوالے سے واضح طور یہ کیوں لکھا کہ انکا پاکستان سے باہر کوئی کاروباری سرمایہ نہیں ہے تو جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ نے جواب دینے سے گریز کیا۔
تاہم مضمون کی اشاعت کے بعد ٹوئٹر پر عاصم باجوہ نے دو ٹوک انداز میں الزامات کی تردید کرتے ہوئے لکھا کہ ‘ایک غیر معروف ویب سائٹ پر میرے اور میرے خاندان کے خلاف عناد پر مبنی ایک کہانی شائع ہوئی ہے جس کی میں پرزور انداز میں تردید کرتا ہوں۔
جب بی بی سی نے احمد نورانی سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ ‘میں صرف یہ کہوں گا مناسب طریقے سے جواب دینے کے لیے انھیں واضح کرنا ہوگا کہ میرے مضمون میں کون سے حقائق غلط ہیں اور انھیں اس کے لیے شواہد فراہم کرنے ہوں گے۔
احمد نورانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ‘عاصم سلیم باجوہ کے بھائیوں، اہلیہ اور بچوں کا سنہ 2002 سے قبل مکمل ملکیت کا کوئی ذاتی کاروبار نہیں تھا اور اسی سال وہ سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں لیفٹنٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہوئے اور پرویز مشرف کے اسٹاف میں تعینات ہوئے۔
احمد نورانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ ‘یہ تمام سلسلہ شروع کیسے ہوا اور ابتدائی سرمایہ کیسے لگایا گیا اور وہ رقم کہاں سے حاصل کی گئی اور تین ہفتوں تک جوابات کا انتظار کرنے کے باوجود عاصم سلیم باجوہ خاموش کیوں رہے۔فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ پر ‘حملہ’؟
مضمون کی اشاعت کے بعد جہاں ایک جانب سوالات کی بھرمار تھی اور سوشل میڈیا پر اس رپورٹ پر ٹرینڈز چل رہے تھے، تو دوسری طرف رات گئے فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ تک کچھ دیر کے لیے رسائی بند ہو گئی تھی جس نے مزید سوالات کو جنم دیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی سے تعلق رکھنے والی محقق رابعہ محمود نے بھی ٹوئٹر پر تبصرہ کیا کہ وہ فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہی ہیں۔
اس بابت احمد نورانی نے بی بی سی کو وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ویب سائٹ کو پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی نے بند نہیں کیا بلکہ دعوی کیا کہ اس پر ڈی ڈوس حملہ کیا جا رہا ہے ‘ جس کی وجہ سے صارفین اس مضمون کو پڑھ نہیں پا رہے۔
واضح رہے کہ ڈی ڈوس یعنی ڈینائیل آف سروس اٹیک ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس کی مدد سے کسی بھی ویب سائٹ پر ایک ہی وقت میں بڑی تعداد میں رسائی حاصل کرنے کا حملہ کیا جاتا ہے اور انٹرنیٹ ٹریفک بڑھ جانے کی وجہ سے وہ ویب سائٹ بیٹھ جاتی ہے۔
تاہم ایک سے دو گھنٹے کے بعد ویب سائٹ بحال ہو گئی تھی۔سوشل میڈیا پر رد عمل کیا رہا؟
جب گذشتہ ماہ اثاثہ جات کی فہرست شائع ہوئی تھی تو اُس وقت عاصم سلیم باجوہ سے ان کی ‘ٹیوٹا زیڈ ایکس’ گاڑی کی قیمت کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے تھے۔
اس بار احمد نورانی کے مضمون کی اشاعت کے بعد ایک بار پھر سوشل میڈیا کی توپوں کا رخ ان کی جانب ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ اچھا ہے کہ آپ نے رپورٹ کی تردید کر دی لیکن عوامی عہدے پر فائز ہونے کے بعد ایک فقرے کی تردید کافی نہیں ہوگی۔
عسکری امور کی تجزیہ نگار اور محقق عائشہ صدیقہ نے بھی عاصم باجوہ کی ٹویٹ کی جواب میں کہا کہ ‘جنرل صاحب، یہ بہت مناسب ہوگا اگر آپ دستاویزی ثبوت کے ساتھ الزامات کی تردید کریں۔ ایک جملے سے بات نہیں بنے گی۔
صارف ذیشان خان نیازی لکھتے ہیں کہ ‘بالکل غلط ہوگی ا سٹوری سر، آپ عدالت سے رجوع کریں اور اس جھوٹی اسٹوری پر سزا دلوائیں۔تمام منی ٹریل مہیا کریں تاکہ یہ روز روز کے الزامات ختم ہوں۔
اسی نوعیت کا تبصرہ ایک اور صارف شفیق احمد نے بھی کیا جو لکھتے ہیں کہ ‘باجوہ صاحب جس طرح احمد نورانی صاحب نے مکمل تفصیلات دیں ہیں تو آپ بھی اسی طرح ہر بات کا تفصیلاً جواب دیں تاکہ ہم بھی انکی غلط بیانی کی مذمت کرسکیں کیونکہ انھوں ایسے ہی تماشا بنایا ہوا ہے۔۔۔
صارف علی اظہر نے عاصم باجوہ کی تردیدی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ‘امریکہ، کینیڈا، متحدہ عرب امارات کے آڈٹرز اور حکام سے شفاف اور جامع تحقیقات کرائیں تاکہ یہ معاملہ ختم ہو سکے۔- local_florist 1
- local_florist Atif Qazi thanked this post
28 Aug, 2020 at 4:19 pm #25یہ تصویر دیکھ کر میرا دھیان تو پانامہ لیک کی طرف جاتا ہے آپ اپنے سیاں کی بجائے ن لیگ کا نام لےسکتی ہیںحق سچ بولوں گی ..چاہے سامنے سیاں ہو
کرپشن کے لئے زیرو ٹولرنس
- mood 2
- mood Atif Qazi, Ghost Protocol react this post
28 Aug, 2020 at 4:46 pm #26پھر تو پھانسی کا حقدار راحیل شریف ہے . ……………یہ جس کے ساتھ شریف لگا ہو وہاںچیف کور کمانڈرز کے بغیر کچھ نہیں ، بیشک جنرل بٹ سے پوچھ لیں
جب بند کمرے کی بریفنگ میں سوال پوچھے جائیں تو ڈان لیکس بن جاتی ہیں اور آپ جیسے محب وطن پھر فوجی بینڈ میں شامل باجا ہوجاتے ہیں، سویلین حکومتوں کو پھر بیک فٹ پر جانا پڑتا ہے
https://tribune.com.pk/story/1108355/chaudhry-nisar-reservations-border-post-handover
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
29 Aug, 2020 at 12:52 am #29چیف کور کمانڈرز کے بغیر کچھ نہیں ، بیشک جنرل بٹ سے پوچھ لیں جب بند کمرے کی بریفنگ میں سوال پوچھے جائیں تو ڈان لیکس بن جاتی ہیں اور آپ جیسے محب وطن پھر فوجی بینڈ میں شامل باجا ہوجاتے ہیں، سویلین حکومتوں کو پھر بیک فٹ پر جانا پڑتا ہے https://tribune.com.pk/story/1108355/chaudhry-nisar-reservations-border-post-handover https://www.dawn.com/news/1410258 https://www.dawn.com/news/1522925/lawyer-abducted-from-homeبند کمرے کی گفتگو لیکس ہو جائے تو اعتراض ہوتا ہے ..
29 Aug, 2020 at 1:06 am #31آج تک میں یہی سمجھتا تھا اے پتر ہٹاں تے نہی وکدے پر یہاں تو پوری دوکانیں پتروں کی ہیںsab se barre chor aur luterey yehi loog hain
aur aap dekh lain , in ke khilaf kisi news channel par aap ko koi khabbar nazar nahi aai gi
aakhir yeh dohra mayaar kuin ??
issi liye mujhe in se nafrat hai
- thumb_up 1
- thumb_up Atif Qazi liked this post
29 Aug, 2020 at 9:32 pm #32- thumb_up 1 mood 2
- thumb_up نادان liked this post
- mood Atif Qazi, Muhammad Hafeez react this post
29 Aug, 2020 at 10:09 pm #33موصوف کے ایک رائٹ ہینڈ سے میرا ان کے “دورِ حکومت” میں کاروباری رابطہ رہا ہے۔ ذات کے میجر تھے اور پیشہ کرومائٹ، کوئلے اور ایک اور قیمتی دھات کی کانیں چلانا تھا۔ حیرانی ہوتی تھی کہ ایک میجر کروڑوں کی کانوں کا کیسے سودا کرسکتا ہے لیکن یہ سکینڈل آتے ہی ذہن سے تمام جالے صاف ہوگئے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی زبانیں یہ الزام لگاتے نہیں تھکتی تھیں کہ نواز شریف کھا گیا پاکستان کو اور منی لانڈرنگ، کرپشن وغیرہ۔
خدا نے ان کا منہ ایسا کالا کیا ہے کہ اب کچھ بھی کرلیں یہ سیاہی اترنے والی نہیں۔
کہاں ہے وہ بلیک شیپ جو کہتا تھا کہ زیادہ نظر سیاستدانوں پر رکھنی چاہیئے ۔
- thumb_up 2 mood 2
- thumb_up Sohraab, Muhammad Hafeez liked this post
- mood Ghost Protocol, Bawa react this post
30 Aug, 2020 at 3:01 am #34موصوف کے ایک رائٹ ہینڈ سے میرا ان کے “دورِ حکومت” میں کاروباری رابطہ رہا ہے۔ ذات کے میجر تھے اور پیشہ کرومائٹ، کوئلے اور ایک اور قیمتی دھات کی کانیں چلانا تھا۔ حیرانی ہوتی تھی کہ ایک میجر کروڑوں کی کانوں کا کیسے سودا کرسکتا ہے لیکن یہ سکینڈل آتے ہی ذہن سے تمام جالے صاف ہوگئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی زبانیں یہ الزام لگاتے نہیں تھکتی تھیں کہ نواز شریف کھا گیا پاکستان کو اور منی لانڈرنگ، کرپشن وغیرہ۔ خدا نے ان کا منہ ایسا کالا کیا ہے کہ اب کچھ بھی کرلیں یہ سیاہی اترنے والی نہیں۔ کہاں ہے وہ بلیک شیپ جو کہتا تھا کہ زیادہ نظر سیاستدانوں پر رکھنی چاہیئے ۔صحیح کہا تھا نا ..یہ سیاست دانوں کا کام تھا کرپشن روکنا اور کرپٹ کو ٹانگنا
30 Aug, 2020 at 3:22 am #36اس ویکینڈ پر اپنے ایک کزن سے پاکستان بات ہورہی تھی …بیچارہ افسردہ اور دکھی تھا …اس نے اسلام آباد کے نواح میں …مستقبل کی کسی سکیم میں ڈیڑھ کروڑ کا کوئی پلاٹ لے لے رکھا تھا …اس ہاؤسنگ سکیم کو فوجی ہی مینیج کر رہے تھے لیکن اب کا پلاٹ غائب ہوچکا ہے …کوئی چیتا دو نمبری کرکے کئی اور لوگوں کی رقم بھی ہڑپ کرگیا ہےیعنی فوجیوں کی کسی رئیل اسٹیٹ سکیم میں بھی سوچ کر پیسے لگانے چاہئیں
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ پلاٹ بھی بیچے ہیں جو نقشے میں نہیں تھے۔۔۔#DHASiriNagar
— Salman Haider (@SalmanHydr) August 5, 2020
- thumb_up 1
- thumb_up Bawa liked this post
30 Aug, 2020 at 4:13 am #37اس ویکینڈ پر اپنے ایک کزن سے پاکستان بات ہورہی تھی …بیچارہ افسردہ اور دکھی تھا …اس نے اسلام آباد کے نواح میں …مستقبل کی کسی سکیم میں ڈیڑھ کروڑ کا کوئی پلاٹ لے لے رکھا تھا …اس ہاؤسنگ سکیم کو فوجی ہی مینیج کر رہے تھے لیکن اب کا پلاٹ غائب ہوچکا ہے …کوئی چیتا دو نمبری کرکے کئی اور لوگوں کی رقم بھی ہڑپ کرگیا ہے یعنی فوجیوں کی کسی رئیل اسٹیٹ سکیم میں بھی سوچ کر پیسے لگانے چاہئیں
یعنی چیتا وہ بھی چالباز؟
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
- mood 2
- mood Bawa, Muhammad Hafeez react this post
30 Aug, 2020 at 12:22 pm #38مکمل آرٹیکل اردو میں ### https://urdu.factfocus.com/باجوہ-فیملی-کی-کاروباری-سلطنت-عاصم-باج/قرار جی
جب یہاں یوتھیے، بوٹ پالشییے اور بوٹ چاٹییے جمہوریت پر بھونکنے اور سیاست دانوں بدنام کرنے کیلیے کرپشن کے خاتمے کے مامے بنتے تھے تو میں تب بھی انہیں کہتا تھا کہ
سیاستدانوں کی کرپشن فوجیوں کی کرپشن کا ایک فیصد بھی نہیں ہے. فوجی اسلحہ کی ایک ہی ڈیل میں اتنا کما جاتے ہیں جتنا پاکستان کی تاریخ میں سارے سیاستدانوں نے ملکر بھی نہیں کمایا ہوگا لیکن فوجیوں کے ملک پر قبضے کی وجہ سے انکی کرپشن کبھی سامنے نہیں آتی ہے. اگر کسی دور میں فوجیوں کا صحیح احتساب ہوگیا تو ان کی کرپشن کو دیکھکر عوام کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ فوج کی بدمعاشی کی وجہ سے فوجیوں کے اربوں کھربوں ڈالرز کی کرپشن کرنے کے باوجود کوئی سول حکومت، کوئی احتساب کا ادارہ یا کوئی عدالت ان کے گریباں نہیں پکڑ سکتی ہے
فوجی افسر اور ان کے اہل خانہ بیلیئینز ڈالرز کے مالک ہیں. کیا کبھی فوجی بوٹ چاٹنے والوں نے فوجیوں کی کرپشن کے بارے میں سوال کیا ہے کہ وہ پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا ہے؟ احتساب ہونا چاہیے اور ضرور ہونا چاہیے لیکن کیا سب کا نہیں ہونا چاہیے؟ فوجی احتساب سے بالاتر کیوں ہیں؟
30 Aug, 2020 at 12:30 pm #39آج تک میں یہی سمجھتا تھا اے پتر ہٹاں تے نہی وکدے پر یہاں تو پوری دوکانیں پتروں کی ہیںشامی بھائی
آپ کے نور جہاں کے اس ملّی نغمے سے مجھے نور جہاں کا پنسیٹھ کی جنگ میں فوجیوں کے منہ پر مارا گیا تھپڑ یاد آ گیا ہے
شاید بہت کم لوگ اس واقعے سے واقف ہونگے کہ پینسٹھ کی جنگ کے دوران نور جہاں کو صوفی تبسم کا مشور ملّی نغمہ “میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں” ریکارڈ کروانے کیلیے لاہور ریڈیو اسٹیشن بلایا گیا. جب نور جہاں کو جب ملّی نغمے کی تحریر دکھائی گئی تو اس نے یہ نغمہ گانے سے انکار کر دیا کیونکہ نغمے کا پہلا مصرعہ “میریا ویر سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں” تھا
نور جہاں نے کہا کہ میں فوجیوں کو ویر کہہ کر مخاطب نہیں کر سکتی ہوں کیونکہ ویر میں صرف اپنے سگے بھائیوں کو ہی کہتی اور سمجھتی ہوں. ان کے علاوہ نہ آج تک کسی کو ویر کہا ہے اور نہ کہوں گی
لاہور ریڈیو کے حکام، سٹاف اور صوفی تبسم نے نور جہاں کی بہت منتیں کیں لیکن وہ اپنی بات پر اڑی رہی اور فوجیوں کو ویر کہنے پر رضامند نہ ہوئی. اس کے بعد صوفی تبسم نے “ویر سپاہیا” کی جگہ “ڈھول سپاہیا” لکھا گیا تو تب جا کر نور جہاں یہ ملّی نغمہ گانے پر آمادہ ہوئی
- local_florist 1 thumb_up 1
- local_florist shami11 thanked this post
- thumb_up Muhammad Hafeez liked this post
30 Aug, 2020 at 2:34 pm #40باوا جی – نور جہاں دبنگ خاتون ہونگی ، ورنہ اگر کوئی اور ہوتی تو اسے ملکی سالمیت پر قربان ہونا پڑتاشامی بھائی آپ کے نور جہاں کے اس ملّی نغمے سے مجھے نور جہاں کا پنسیٹھ کی جنگ میں فوجیوں کے منہ پر مارا گیا تھپڑ یاد آ گیا ہے شاید بہت کم لوگ اس واقعے سے واقف ہونگے کہ پینسٹھ کی جنگ کے دوران نور جہاں کو صوفی تبسم کا مشور ملّی نغمہ “میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں” ریکارڈ کروانے کیلیے لاہور ریڈیو اسٹیشن بلایا گیا. جب نور جہاں کو جب ملّی نغمے کی تحریر دکھائی گئی تو اس نے یہ نغمہ گانے سے انکار کر دیا کیونکہ نغمے کا پہلا مصرعہ “میریا ویر سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں” تھا نور جہاں نے کہا کہ میں فوجیوں کو ویر کہہ کر مخاطب نہیں کر سکتی ہوں کیونکہ ویر میں صرف اپنے سگے بھائیوں کو ہی کہتی اور سمجھتی ہوں. ان کے علاوہ نہ آج تک کسی کو ویر کہا ہے اور نہ کہوں گی لاہور ریڈیو کے حکام، سٹاف اور صوفی تبسم نے نور جہاں کی بہت منتیں کیں لیکن وہ اپنی بات پر اڑی رہی اور فوجیوں کو ویر کہنے پر رضامند نہ ہوئی. اس کے بعد صوفی تبسم نے “ویر سپاہیا” کی جگہ “ڈھول سپاہیا” لکھا گیا تو تب جا کر نور جہاں یہ ملّی نغمہ گانے پر آمادہ ہوئی- thumb_up 1
- thumb_up Bawa liked this post
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.