Viewing 7 posts - 1 through 7 (of 7 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    پاکستانی سیاست میں ہر دور میں مختلف ذو معنی اصطلاحات کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ آج کے دور کی سیاسی اصطلاحات کے تانے بانے شاید پاکستان تحریک انصاف کے سنہ 2014 کے دھرنے اور سنہ 2018 کے عام انتخابات سے ملائے جا سکتے ہیں جیسے ’امپائر کی انگلی‘، ’خلائی مخلوق‘، ’گاڈ فادر‘، ’35 پنکچر‘ وغیرہ۔
    گذشتہ روز وزیر اعظم عمران کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کی طرف سے بھی ایسی ہی ایک دلچسپ اصطلاح کے استعمال کے بعد سے سوشل میڈیا پر خاصی بحث کی جاری ہے۔
    سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے برطانوی حکومت کو لکھے جانے والے خط سے متعلق ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے شہزاد اکبر سے سوال کیا کہ ’یہ بتا دیں کہ اگر عمران خان شریف فیملی کو این آر او نہیں دے رہے تو پھر انھیں یہ دو بڑے این آر او دیے کس نے؟
    جواب میں شہزاد اکبر نے کہا کہ ’جو آپ کا سوال ہے وہ آپ محکمہ زراعت سے رابطہ کریں۔
    خیال رہے کہ ملکی سیاست میں آج کل سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی کی کوششوں میں تیزی آ گئی ہے اور وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بدعنوانی کے مقدمات کے پیش نظر ان کی وطن واپسی کے لیے قانونی اقدامات کیے جائیں گے۔
    یہ بیان دینے کے بعد وقت سوشل میڈیا پر شہزاد اکبر کا وہ کلپ وائرل ہو چکا ہے جس میں انھوں نے محکمہ زراعت کا ذکر کیا۔ بعض لوگ ان الفاظ کو ’اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ‘ قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ شہزاد اکبر نے محض مذاق میں ایسا کہا۔
    جب سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے یہ دیکھنے کے بعد شہزاد اکبر کے جواب پر سوالات اٹھائے تو انھوں نے ٹوئٹر پر رات ڈیڑھ بجے کے قریب اپنے موقف کی وضاحت میں دو ٹویٹ کیے۔
    ان کا کہنا تھا کہ ’آج پریس کانفرنس میں اس محکمہ زراعت کا ذکر تھا جو ن لیگ کے ہونہار انجینیئر نما ڈاکٹر، شہباز شریف اور صاحبزادی پہ مبنی تھا جنھوں نے کمال مہارت سے پیوند لگا کر پوری قوم کو نواز شریف کی بیماری کا یقین دلایا، این آر او یہ نیب کی 34 ترامیم کی صورت میں حکومت سے مانگ رہے ہیں جو کسی صورت نہیں ملنا۔
    یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ میرے بیان سے اگر قومی سلامتی کے اداروں کے بارے میں کوئی غلط تاثر پیدا ہوا ہو تو وہ بے بنیاد اور حقیقت سے عاری ہے اور کسی ادارے یا شخص کی دل آزاری پر میں معذرت خواہ ہوں۔
    لیکن شہزاد اکبر کی وضاحت سے حکمراں جماعت تحریک انصاف کے ناقدین پر زیادہ اثر نہ پڑ سکا۔ مسلم لیگ نواز سے منسلک میاں عالمگیر شاہ نے لکھا کہ ’اس سے بڑی لیکس اور کیا ہے کہ آج حکومتی ترجمان نے محکمہ زراعت کی بات کر کے تسلیم کر لیا کہ عمران سمیت یہ سب محکمہ زراعت کے بھرتی کیے ہوئے مالی ہیں۔
    صحافی غریدہ فاروقی لکھتی ہیں کہ ’یہ شہزاد اکبر کس محکمۂ زراعت کی بات کر رہے ہیں؟ عدالت نے تو کہا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے وفاقی حکومت نے نکالا۔
    میڈیکل رپورٹس حکومت نے تصدیق کروائیں۔ حکومت نے ہی تاحال ضمانت توسیع درخواست پر جواب دینے سے گریز کر رکھا تھا، پھر شہزاد اکبر کی حکومت کس سے خفا ہے؟
    ان ابھرتے ہوئے سوالوں کے جواب میں پاکستان کے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ: ’نون لیگ کے لیڈرز اور میڈیا میں ان کے حمایتی دن رات بتاتے تھے کہ نواز شریف کتنے بیمار ہیں اور اگر نہ بھیجا گیا تو کس طرح ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو گا۔
    کل سے یہ حضرات کہہ رہے ہیں حکومت نے خود بھیجا تھا،ہم کیسے بلوائیں، یہی وہ دھوکہ دہی اور جھوٹ ہے جس کی بنیاد پر نون لیگ کی تشکیل ہوئی۔
    ٹوئٹر کے خاص و عام کئی صارفین نے اس گفتگو میں حصہ لینا چاہا۔ ندیا اطہر کہتی ہیں کہ ’سیم پیج پر ہونے کے دعویدار بھی محکمہ زراعت تک آ گئے ہیں۔
    ایک صارف نے لکھا کہ ’اگر یہ بھی محکمہ زراعت سے پوچھنا ہے تو آپ کیوں بیٹھے ہیں؟
    مرتضی سولنگی کہتے ہیں کہ ’اس دن کا انتظار کریں جب محکمہ زراعت والے اس نرسری کا بتائیں گے جہاں احتسابِ اکبر کی پنیری لگائی گئی تھی۔
    افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ ’ایک گروپ اب محکمہ زراعت کو بھی آنکھیں دکھانے لگ گیا اور یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سکیم کا حصہ ہے۔
    محسن حجازی نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’دس پندرہ برس ہم کھل کر ’باغبانی‘ کریں گے آپ نے بس بیچ میں بولنا نہیں ہے۔ محکمہ زراعت۔
    ممتاز یوسفزئی کو لگتا ہے کہ محکمہ زراعت نے شہزاد اکبر کی باتوں کا ’سخت نوٹس لے لیا ہے‘ جبکہ عمر نصیر اس بات پر پریشان ہیں کہ آیا ’آپ کے ہاں محکمہ زراعت پیوند کاری بھی کرتا ہے۔
    پاکستان کی سیاست میں محکمۂ زراعت کا مطلب کیا ہے؟
    یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں محکمۂ زراعت کا کچھ اس طرح ذکر کیا گیا ہو کہ بات کسی زرعی محکمے کی نہ ہو رہی ہو۔
    بی بی سی کے نامہ نگار آصف فاروقی اپنی 2018 کی تحریر میں اس اصطلاح کے پس منظر کے بارے میں لکھ چکے ہیں۔
    ہوا کچھ یوں کہ عام انتخابات کے دوران پی پی 219 سے مسلم لیگ ن ملتان کے صوبائی امیدوار اقبال سراج نے ایک بھری پریس کانفرنس میں کہا کہ ایجنسیوں کے بعض اہلکار انھیں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر زور دے رہے ہیں اور ان کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔
    انھوں نے اسی پریس ٹاک کے دوران موجود ان مبینہ انٹیلی جنس اہلکاروں کی نشاندہی بھی کر دی۔ یہ معاملہ اس روز تمام دن میڈیا کی زینت بنا رہا۔
    گذشتہ عام انتخابات کے دوران نون لیگ کے ایک امیدوار نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ایجنسیوں کے بعض اہلکار انھیں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر زور دے رہے ہیں لیکن بعد میں انھوں نے وضاحت کی تھی کہ وہ درحقیقت محکمۂ زراعت کے لوگ تھے
    اگلے روز وہی صاحب ایک بار پھر میڈیا کے سامنے آئے اور گذشتہ روز پیش آنے والی ‘غلط فہمی’ کے بارے میں وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ جن افراد کو وہ انٹیلی جنس ایجنسی کا اہلکار سمجھتے رہے وہ دراصل محکمہ زراعت کے اہلکار تھے جن کے ساتھ ان کے اپنی کھیتی باڑی کے بارے میں کچھ معاملات چل رہے تھے۔ انھوں نے حلفاً کہا کہ اس سارے معاملے کا کسی انٹیلی جنس ایجنسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
    معاملہ اس بات پر ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن صحافی کہاں چپ بیٹھنے والے تھے، اسی شام ٹیلی وژن چینلز پر شور مچ گیا کہ کس طرح ‘محکمہ زراعت’ کے ان اہلکاروں نے اس مسلم لیگی امیدوار کو اس کے گودام میں بند کر کے مکوں اور لاتوں کے ذریعے ملکی زراعت بہتر کرنے کے نسخے سمجھائے جس کے بعد امیدوار موصوف نے اپنا وہ مشہور زمانہ محکمہ زراعت والا بیان جاری کیا۔

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53879002

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #2
    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #3
    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #4
    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #5
    Muhammad Hafeez
    Participant
    Offline
    • Professional
    Muhammad Hafeez
    Participant
    Offline
    • Professional
    #7

Viewing 7 posts - 1 through 7 (of 7 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi