Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 162 total)
  • Author
    Posts
  • Malik495
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #1
    صادق اور امین سنجرانی صاحب ستاون ووٹ لے کر چیرمین سینیٹ منتخب..ثابت ہوا کہ اس ملک میں اب ایک ہی جمہوری پارٹی باقی رہ گئی ہے.. باقی سب کی زنجیریں کہیں اور سے کھینچی جاتی ہیں ..اس فورم پر اب پی  ٹی آئی کے ممبران زرداری کے خلاف ایک بھی بات کر کے دکھائیں ….اگر کریں گے تو چلو بھر پانی میں ڈوب  مریں ہور اسی کر وی کی سکنے وا

    :17:

    نوٹ : ٹاپک نسیم حجازی کے ایک ناول ” اور تلوار ٹوٹ گئی ” سے مستعار لیا گیا ہے

    • This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2

    ایوان بالا کے لیے منتخب ہونے والے 51 اراکین نے حلف اٹھایا لیا اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار بیرون ملک ہونے کی وجہ سے حلف نہ اٹھا سکے، تاہم سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا آغاز ہوگیا۔
    سینیٹ اجلاس میں پریزائیڈنگ آفیسر یعقوب ناصر نے نومنتخب ارکان سے حلف لیا، جس کے بعد سینیٹ کی تمام قائمہ اور خصوصی کمیٹیوں کو تحلیل کردیا گیا، جبکہ نومنتخب سینیٹرز نے سینیٹ کی دستاویزات پر دستخط بھی کیے۔
    ووٹنگ کے عمل سے قبل سینیٹ اجلاس میں پریزائیڈنگ آفیسر یعقوب ناصر نے ووٹنگ کے عمل کے ضابطے کے بارے میں آگاہ کیا۔
    تحلیل ہونے والی کمیٹیوں میں سینیٹ کی 4 سیکریٹریٹ کمیٹیاں، سینیٹ کی 30 قائمہ کمیٹیاں اور ایوان بالا کی 4 فنکشنل کمیٹیاں شامل ہیں۔
    اس کے علاوہ سینیٹ کی ڈومیسٹک، 3 سلیکٹ، انسانی حقوق کی کمیٹی اور 4 دیگر کمیٹیاں بھی تحلیل ہو گئیں جبکہ پبلک اکاونٹس کمیٹی، نیب لاء اور پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹیاں بھی غیر فعال ہوگئی ہیں۔
    واضح رہے کہ ہر 3 سال بعد سینیٹ کے 104 ارکان میں سے نصف 52 ریٹائرڈ ہو جاتے، جن کا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے انتخاب کیا جاتا ہے۔
    حلف برداری کے بعد مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق نے چیئرمین سینیٹ اور عثمان خان کاکڑ نے ڈپٹی چیئرمین کے لیے کاغذات جمع کروائے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کی جانب سے صادق سنجرانی نے چیئرمین سینیٹ جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے سلیم مانڈوی والا نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے، جنہیں جانچ پڑتال کے بعد منظور کرلیا گیا۔
    کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چیئرمین سینیٹ کے دونوں ہی اُمیدواروں کی جانب سے اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
    اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی جانب سے راجہ ظفر الحق کو چیئرمین اور عثمان کاکڑ کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے امیدوار ہوں گے۔
    واضح رہے کہ سینیٹ کی کل نشستوں کی تعداد 104 ہے، جن میں سے چیئرمین سینیٹ کی کامیابی کے لیے 53 ارکان کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
    3 مارچ کو سینیٹ کی 52 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ 15 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ پیپلز پارٹی نے 12 اور تحریک انصاف کے 6 سینیٹرز کامیاب ہوئے تھے، اس کے ساتھ 10 آزاد امیدوار بھی سینیٹ کی نشت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
    اس انتخاب کے بعد سینیٹ میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن کی بات کی جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) 33 نشستوں کے ساتھ اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے ہے۔
    پی پی پی کے سینیٹرز کی تعداد 20 اور پی ٹی آئی کے 12 سینیٹرز ہیں جبکہ 17 آزاد سینیٹرز بھی ایوان میں موجود ہیں۔
    اس کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان کے 5، نیشنل پارٹی کے بھی 5، جمعیت علماء اسلام (ف) کے 4، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 5، جماعت اسلامی 2، اے این پی 1، پاکستان مسلم لیگ (ف) 1 اور بی این پی مینگل کا بھی ایک سینیٹر ہے۔
    چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشست پر اپنے امیدوار کی کامیابی کے لیے حکمران جماعت سمیت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھی گئی۔
    اس بارے میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کے پاس نمبر گیم پورا ہے اور آج جمہوری قوتیں ایک جانب اور غیر جمہوری قوتیں دوسری جانب ہیں جبکہ ہمیں جماعت اسلامی اور اے این پی کی بھی حمایت حاصل ہے‘۔
    دوسری جانب سینیٹ چیئرمین کے لیے تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کے بعد بلوچستان سے منتخب ہونے والے آزاد امیدوار صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے لایا گیا تھا.
    پیپلز پارٹی کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے سلیم مانڈوی والا کا نام سامنے آیا اور پی ٹی آئی کی جانب سے ان کی حمایت کی گئی جبکہ سینیٹر ہدایت اللہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے 12 منتخب سینیٹرز میں سے 8 نے صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کیا۔
    دوسری جانب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب جیتنے کے لیے مطلوبہ تعداد پوری ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔
    وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے ہمرا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے بلوچستان سے آزاد منتخب ہونے والے صادق سنجرانی کی حمایت کرے گی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے سلیم مانڈوی والا امیدوار ہوں گے۔
    رضاربانی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ رضا ربانی پیپلزپارٹی کا اثاثہ ہیں اور ان کے لیے میرے پاس دوسرا پلان ہے۔
    اس حوالے سے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سینیٹ اجلاس میں شرکت سے قبل صحافی سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پارٹی کے ساتھ ہیں اور ان کی پارٹی سے پہلے بھی کوئی ناراضی نہیں تھی۔
    آصف زرداری کے سخت موقف کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہر ایک کو بات کرنے کا حق ہے اور آصف زرداری سے ملاقات میں کوئی وضاحت نہیں دی۔
    واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے لیے رضا ربانی کی حمایت کی تھی، تاہم پیپلز پارٹی کی جانب سے رضا ربانی کے نام کو مسترد کردیا گیا تھا اور انہوں نے اس نشست کے لیے نیا امیدوار لانے کا اعلان کیا تھا۔
    یاد رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے بھی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا،تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان کی سربراہی میں وفد میں ہونے والی ملاقات کے بعد عمران خان نے پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین کو ووٹ دینے کا اعلان کردیا۔
    اس کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے لیے صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم چاہتےہیں کہ چھوٹے صوبوں کو حقوق ملیں اور ہم صادق سنجرانی کے لیے مہم بھی چلائیں گے۔
    تاہم خالد مقبول صدیقی نے پیپلز پارٹی کے امیدوار سلیم مانڈوی والا کی حمایت کے حوالے سے کہا کہ ووٹ مانگنے کے لیے پی پی پی بھی آئی تھی لیکن ہمارے لیے ان کے امیدوار کو ووٹ دینا مشکل ہے۔
    ادھر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی جانب رضا ربانی کے بطور چیئرمین سینیٹ امیدوار نہ ہونے کی صورت میں حکمران جماعت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
    اے این پی کی سینیٹر ستارہ ایاز نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی کا اصولی موقف ہے اور اس کے مطابق ہی ووٹ دیں گے، اگر رضا ربانی امیدوار ہوتے تو انہیں ووٹ دیتے لیکن اب ووٹ دوسری طرف جائے گا۔
    پیپلز پارٹی کی جانب سے اے این پی حمایت کے دعویٰ پر کیے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے پھر بات کریں گے۔
    علاوہ ازیں جمعیت علماء اسلام (ف) کی جانب سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے حکمران جماعت کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔
    خیال رہے کہ بلوچستان سے آزاد منتخب ہونے والے صادق سنجرانی کو پی پی پی قیادت کا قریبی تصور کیا جاتا ہے جن کی حمایت کے عوض پی پی پی نے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ بھی مانگ لیا تھا۔

    https://www.dawnnews.tv/news/1074900/

    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #2
    ایسا لگتا ہے زرداری اور عُمران دونوں کی عزت رہ گئی ہے۔

    صادق سنجرانی چئیرمین سینٹ مُنتحب ہو گئے ہیں۔
    ایوان ایک زرداری سب پر بھاری کے نعروں سے گونج اُٹھا۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3

    اگر نون جیت گئی توخان صاب کے لیے رسوائی اور پیپلز پارٹی جیت گئی تو خان صاب کےلئے طعنہ زنی

    سو خان صاب کی حد تک تو سو پیاز اور سو چھتر والا حال ہو گا

    مگر میرے خیال میں نون لیگ جیتے گی نہیں – کیونکہ جن لوگوں نے بلوچستان میں اتنا پیسہ لگایا وہ یہاں بھی پچاس کروڑ خرچ کر کے دو امیدوار خرید سکتے ہیں اور فرق دو تین کا ہی ہو گا

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    ن لیگی عمران کا مقابلہ تو کرلیتے مگر چلوں سے ہار گئے

    :cry:

    Malik495
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #2
    محترم سنجرانی عرف ٹھیکیدار صاحب صرف چالیس برس کے ہیں اور صدر پاکستان کی  عمر پینتالیس برس لازمی ہے اس لئے قائم مقام صدر پاکستان سپیکر قومی اسمبلی  نبھائیں گے
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    سینیٹ میں ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے سن کر دل میں ٹھنڈک کی ایک لہر سرایت کرگئی کیونکہ اسٹیبلشمینٹ کو زرداری کا سہارا لینا بھی اس کی شکست ہے
    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #4

    سینیٹ میں ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے سن کر دل میں ٹھنڈک کی ایک لہر سرایت کرگئی کیونکہ اسٹیبلشمینٹ کو زرداری کا سہارا لینا بھی اس کی شکست ہے

    میاں یہ ہوتے ہیں اینٹ سے اینٹ بجانے والے اور اِن کی حقیقت۔ ایک پرڈیموکرسی جماعت کو پروایسٹیبلِشمنٹ جماعت بنا دیا۔

    Democrat
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #12

    :lol: :lol:

    ملک صاحب حوصلہ نہ ھاریں،ھار جیت سیاست کا حصہ ھے اور پاکستانی سیاست تو ریاست سمیت تلواروں کے سائے میں سہمی سہمی چل رھی ھے

    ابھی تھوڑا اور وقت درکار ھے کیا یہ خوش آئند نہیں جہاں پہلے فوجی آکر ایوان کو تالے لگا دیتے تھے وھاں آج بہتری ھے اور بیلٹ کے زریئعے تبدیلی آ رھی ھے

    پارلیمنٹ کی روایات کیا ھیں اور اسکا تقدس کیا ھوتا ھے اور اسکو سپریم کرنا کیوں ضروری ھے یہ پیپلز پارٹی سے بہتر کون جانتا ھو گا

    اسلئے گھبرائیے مت ،چلے چلو کے وہ منزل ابھی آئی نہیں اور ابھی اس قافلے میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے بچ کر نکلنا ھے ،منزل حاصل کرلیں پھر انکی پین دی سری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #13
    نواز شریف کو اصلی جوتا تو آج پڑا ہے

    :lol:

    Democrat
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #14

    اگر نون جیت گئی توخان صاب کے لیے رسوائی اور پیپلز پارٹی جیت گئی تو خان صاب کےلئے طعنہ زنی

    سو خان صاب کی حد تک تو سو پیاز اور سو چھتر والا حال ہو گا

    مگر میرے خیال میں نون لیگ جیتے گی نہیں – کیونکہ جن لوگوں نے بلوچستان میں اتنا پیسہ لگایا وہ یہاں بھی پچاس کروڑ خرچ کر کے دو امیدوار خرید سکتے ہیں اور فرق دو تین کا ہی ہو گا

    یار فرق بہت زیادہ نکل آیا ھے لیکن میاں صاحب بھی بادشاہ ھیں جہاں ایک ایک ووٹ قیمتی ھو وھاں انہوں نے اسحق ڈار کو ٹکٹ دے دیا،اگر اسٹیبلشمنٹ کی ضد میں دیا ھے تو یار ابھی اسٹیبلشمنٹ کو نیچا دکھانے کے وافر مواقع انے ھیں وھاں کر لیتے،ادھر لگتا ھے جزباتی فیصلہ کیا گیا ھے جبکہ انکو بلوچستان والی گیم کا پتہ بھی تھا

    بہر حال میاں صاحب ان آٹھ لوگوں کو تلاش کریں جنہوں نے دھوکہ دیا

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #15

    سینیٹ میں ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے سن کر دل میں ٹھنڈک کی ایک لہر سرایت کرگئی کیونکہ اسٹیبلشمینٹ کو زرداری کا سہارا لینا بھی اس کی شکست ہے

    چلو شکر ہے آپکو کسی طرح ٹھنڈ تو پڑی ۔۔۔۔

    بیلور بھائی ۔۔۔۔میں نے آپکو لوگوں سے نہ جانے کتنی بار کہا ہے ۔۔۔۔سمندر میں رہ کر شارک سے دشمنی بہت مہنگی پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

    لیکن آپکو لوگوں نے میری بات پر کبھی دھیان نہیں دیا۔۔۔۔ویسے ن لیگ کا امیدوار کی کیا کوالیفکیشن ہے ماسوائے نوازشریف کے ۔۔سجے کھبے پاسے خاموشی سے بیٹھنے کے ۔۔میں نے تو اج تک اس بندے کو بولتے نہیں سنا۔۔۔۔اچھا ہوا ایک نیا بندہ سلیکٹ ہوا ہے ۔۔شائید دوسروں سے اچھا ہی کام کرے ۔۔۔

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #16
    میری طرف سے جناب ۔۔۔سہراب صاحب کو ۔۔لکھ ۔۔لکھ ۔۔دی مبارک ہو ۔۔۔۔۔۔

    سہراب کچھ لوگ تو بوٹ پالش کرتے ہیں ۔۔۔۔اب آپ کے بوٹ چاٹنے کے دن آگئے ہیں۔۔۔۔مبارک ہوئے ۔۔۔بوٹ کا کلر کون سا پسند کرو گے ۔۔۔

    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #17
    Democrat
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #18
    SaleemRaza

    یہ آپکو کس نے کہ دیا ھے کی صادق سنجرانی اسٹیبلشمنٹ کا بندہ ھے؟

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #20

    Saleemraza یہ آپکو کس نے کہ دیا ھے کی صادق سنجرانی اسٹیبلشمنٹ کا بندہ ھے؟

    ۔۔۔۔۔ہر کسی کی ناکامی ۔۔کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بہت سارے لوگ تو تک کہہ رہے ہیں رضا ربانی پی پی پی ۔۔سےزیادہ ن لیگ کے چیئرمین تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔

    :bigsmile:

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #21
    میاں صاحب نے آخری وقت میں رضا ربانی والی چال اچھی چلی تھی مگر۔۔۔۔۔۔
    Democrat
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #22

    ایسے ہی تکا مارا ہے ۔۔۔۔۔ہر کسی کی ناکامی ۔۔کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ :bigsmile:

    ھاں یہ سچ ھے کے اسکا پارلیمانی تجربہ اتنا زیادہ نہیں لیکن یہ یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں انکے ساتھ رھا ھے اور پیپلز پارٹی کے اس وقت فوج سے تعلقات کیسے تھے سب کو پتہ ھے بلکہ شاید اسکا بڑا بھائی بھی سیاست میں رھا ھے مجھے اب اسکا نام یاد نہیں آرھا ،

    بدقسمتی سے بلوچستان باقی پاکستان سے کٹا ھوا ھے اور میڈیا کو بھی وھاں رپورٹنگ کی محدود اجازت ھے اسلیے باقی پاکستانیوں کے لئے بلوچی سیاستدان سوائے چند ایک ناموں کے غیر معروف ھئ ھوتے ھیں

    ویسے میرے آئیڈیل تو فرحت اللہ بابر صاحب تھے لیکن پیپلز پارٹی اس وقت مزاحمتی نہیں بلکہ مفاہمتی سیاست کر رھی ھے لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ھوں ن لیگ تو مزاحمتی سیاست کا علم بلند کیئے ھوئے ھے انکو پھر راجہ ظفر الحق جیسا مفاہمتی بندہ ہی کیوں ملا انکا امیدوار تو پرویز رشید یا مشاھد اللہ خان صاحب ھونے چاھیئے تھے

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 162 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi