Viewing 13 posts - 1 through 13 (of 13 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    یہ مجسمہ ہم نے بڑی محنت سے بنایا تھا۔ ہمارے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے تھے۔ اب یہی مجسمہ ہمیں اپنے ہاتھوں سے توڑنا ہے۔ ہم مالیوں کو اس کا بہت زیادہ دُکھ ہے۔ یقین مانیے ہمارا دل رو رہا ہے۔
    یہ کہنا ہے کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے ’گلشنِ اقبال پارک‘ میں علامہ اقبال کا مجسمہ بنانے والے ایک مالی کا جو اس پارک کے ان 15 مالیوں میں شامل تھے جنھوں نے یہ مجسمہ بنایا تھا۔
    پاکستان میں ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا پر علامہ اقبال کا مجسمہ اس وقت زیر بحث آیا جب ایک صارف نے اس مجسمے سے متعلق اپنا تبصرہ پیش آیا کہ ’اس مجسمے میں کوئی برائی نہیں سوائے اس کے کہ یہ بالکل اقبال جیسا نہیں دکھتا۔
    بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ نصب کیا گیا یہ مجسمہ کسی طرف سے بھی علامہ محمد اقبال کی ان تصاویر سے مشابہت نہیں رکھتا جو وہ بچپن سے دیکھتے آئے ہیں جبکہ بعض صارفین نے تو اس مجسمے سے ملتے جلتے چہروں کو ڈھونڈنا شروع کر دیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ مجسمہ آخر ہے کس کا۔
    اس مجسمے کو بنانے والے مالیوں میں سے ایک نے بی بی سی کو نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا ہے گلشن اقبال پارک میں علامہ اقبال کے مجسمے کو بنانے میں تقریباً 15 مالی شامل تھے۔
    انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ اب زیر بحث آیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس مجسمے کو آٹھ، نو ماہ قبل کنکریٹ، بجری، سیمنٹ، ریت اور سریے سے ’دن، رات ایک کر کے بڑی محنت سے بنایا گیا تھا۔
    انھوں نے بتایا کہ ایک اعلیٰ افسر نے مالیوں سے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ پارک کا نام ’گلشن اقبال‘ ہے تو ادھر علامہ اقبال کا ایک مجسمہ ضرور ہونا چاہیے۔ افسر کی اسی بات کے بعد ہم نے خود سے اس کی تیاری شروع کی تھی۔
    وہ افسر ہمیں علامہ اقبال کی تصویر دکھاتا تھا اور ہم مجسمہ بناتے جاتے تھے۔۔۔ اس کام کے دوران یا بعد میں بھی کبھی کسی شخص نے بھی ہمیں نہیں کہا کہ یہ علامہ اقبال جیسا نہیں دکھتا۔
    انھوں نے کہا کہ میڈیا پر ہنگامہ برپا ہونے کے بعد آج مالیوں کو احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ وہ رات کو پارک ہی میں رکیں اور اس مجسمے کو ہٹا دیں۔ فی الحال ہمیں اس مجسمے کے گرد لگی باڑ کو توڑنے اور مجسمے کو کپڑے سے ڈھانپنے کا کہا گیا ہے۔ تاہم پی ایچ اے کی جانب سے فی الحال مجسمے کو ہٹانے یا گرانے کی بابت کوئی باقاعدہ اعلان ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔
    اپنی محنت کو رائیگاں جاتے دیکھ کر انھوں نے افسوس سے کہا کہ ’میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ منگل کی صبح حکام نے مالیوں کو حکم دیا کہ اس کے گرد جنگلا توڑ دیا جائے اور میڈیا کے آنے پر اس پر کپڑے ڈھانپ دیئے جائیں۔
    جب لیلیٰ طارق نامی صارف نے یہ لکھا کہ ’یہ ہے گلشن اقبال لاہور میں اقبال کا مجسمہ۔ اس مجسمے میں کوئی برائی نہیں سوائے اس کے کہ یہ بالکل اقبال جیسا نہیں دکھتا‘ تو اس ٹویٹ کے جواب میں سینکڑوں افراد نے ردعمل دیتے ہوئے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔
    ماریہ سرتاج نے لکھا کہ ’ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ ’یہ مجسمہ موئن جو دڑو کے کسی بادشاہ کا ہے۔ مجسمہ ساز کو اس کی جگہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف شاہرام نے سوال پوچھا کہ روسی حکمران اسٹالن کا مجسمہ لاہور میں کیا کر رہا ہے۔
    طارق احسن نے تبصرہ کیا کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مجسمہ ساز نے ’(جرمن فلسفی) نطشے کے خیالات پر اقبال کی تشریح میں بدھا کو زبردستی گھسا دیا ہے۔
    کئی صارفین نے تو اسے فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو کے مجسمے سے تشبیہ دیتے ہوئے یہ رائے اختیار کی کہ ان کی طرح اقبال کا مجسمہ بناتے ہوئے بھی کاریگر سے بظاہر غلطی ہوئی ہو گی۔
    یاد رہے کہ پرتگال کے جزیرے مادیرا میں نامور فٹبالر کے مجسمے کی پردہ کشائی کے بعد شائقین فٹبال نے اس پر اپنے تحفظات ظاہر کیے تھے۔
    لیکن ایسا نہیں کہ یہ مجسمہ کسی کو پسند نہیں آیا۔ الف سیمل نامی صارف لکھتی ہیں کہ ’کیا میں واحد شخص ہوں جسے یہ مجسمہ اچھا لگا ہے؟ مگر ان کی پوسٹ سے واضح ہو رہا ہے کہ شاید انھوں نے ایسا طنزیہ کہا ہے۔
    مگر آرنلڈ نامی صارف نے واقعی یہ بات طنزیہ ہی کی ہو گی کہ ’سننے میں آ رہا ہے کہ علامہ اقبال کا یہ مجسمہ بنانے والے کاریگروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے تاکہ وہ دوبارہ ایسا شاہکار تخلیق نہ کر سکیں۔
    عمیر ابراہیم نے لکھا کہ اکثر لوگ زیادہ دھیان اس مجسمے کے چہرے پر دے رہے ہیں جبکہ زیادہ پریشان کن بات ’منھ سے نکلتا ہوا ہاتھ ہے۔ ان کی طرح کئی افراد نے مجسمے کے قلم پکڑنے کے اس انداز پر مزاحیہ تبصرے کیے ہیں۔
    برکت خٹک نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’اقبال زندہ ہوتے تو ایک شکوہ اور لکھتے. اسی طرح انجینیئر خرم شہزاد کہتے ہیں کہ ’اقبال کا شکوہ تو آج بنتا ہے۔
    سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اس حوالے سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ مجسمہ کس نے بنایا ہے؟
    صحافی حامد میر نے لکھا کہ ’کیا یہ کہیں سے بھی شاعر مشرق کا مجسمہ نظر آتا ہے۔۔۔ مجھے تو یہ مجسمہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا ہے۔
    بہت سے لوگوں نے حامد میر کی طرح اس کاریگر یا مجسمہ ساز پر تنقید کی ہے۔
    تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پارکس اینڈ ہارٹیکلچر (پی ایچ اے) لاہور نے وضاحت کی ہے کہ یہ مجسمہ کسی پیشہ ور مجسمہ ساز نے نہیں بنایا۔
    پی ایچ اے سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ علامہ اقبال کا یہ مجسمہ مالیوں نے خود سے تخلیق کیا مگر اب اسے بہتر انداز میں پیش کرنے کے لیے کسی ماہر مجسمہ ساز کی خدمات لینے پر غور کیا جا سکتا ہے۔

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55898929

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #2
    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #3
    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #4
    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #5
    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #6
    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #7
    علامہ اقبال بہت ہی پریشان اور چالاک کنفویز شاعر تھے اور کثیر سمت سوچ رکھنے والے شاعر لیکن جاہل قوم کی وجہ سے مولوی بن گۓ … جب روس میں انقلاب آیا تو انہوں نے کارل اور لنین کو عیسیٰ اور موسیٰ بنانے کی کوشش کی کہ کسی طرح یہ دماغ سے فارغ قوم سمجھ جاے پھر اپنی گرل فرینڈ کو نٹشے کے ملحدانہ خیالات کی وجہ امپریس کرنے کی وجہ سے شکوہ لکھ دیا .. لیکن جب مولویوں نے نظر بند کیا تو آزادی حاصل کرنے کے لئے جواب شکوہ لکھ دیا .. اس لئے ان کے مجسموں کی بھی اب سمجھ نہیں لگ رہی … کیوں کہ کبھی وہ صوفی تھے ، کبھی درویش اور کبھی سائنس دان بن جاتے تھے .. یہ بات ہے کہ اگر ملحد کا تعلق اشیا سے ہے تو وہ ان کے لئے موسیٰ ہے اور اگر وہ یوروپ کے کسی شہر کا ہے تو اس سے برا انسان آپ کی نظر میں ہو نہیں سکتا
    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #8

    ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

    ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے ۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9
    اس مجسمے کو دیکھ کر اس بات کا یقین ہو جا تا ہے کے ہمارے مالی حضرات بھی اچھے خاصے مجسمہ ساز ہیں
    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10
    اس مجسمے کو دیکھ کر اس بات کا یقین ہو جا تا ہے کے ہمارے مالی حضرات بھی اچھے خاصے مجسمہ ساز ہیں

    جب مالی مجسمے اور چوکیدار لیڈر بنائیں گے تو مجموعی صورت ایسی ہی بنتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں ہر ایک کو اپنا اپنا کام کرنا چاہیئے اور دوسرے کے کام میں انگل نہیں کرنی چاہیئے۔

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11

    ایک اعلیٰ افسر نے مالیوں سے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ پارک کا نام ’گلشن اقبال‘ ہے تو ادھر علامہ اقبال کا ایک مجسمہ ضرور ہونا چاہیے ،،،،،،،،، وہ افسر ہمیں علامہ اقبال کی تصویر دکھاتا تھا اور ہم مجسمہ بناتے جاتے تھے ،،،،،، ہمیں اس مجسمے کے گرد لگی باڑ کو توڑنے اور مجسمے کو کپڑے سے ڈھانپنے کا کہا گیا ہے

    ======================================

    ایک مراثی کسی محفل میں انتہائی بے سرا گا رہا تھا کہ ایک آدمی کو غصہ آگیا اور وہ جوتا ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا ہوگیا. مراثی آدمی کو غصے میں دیکھکر سہم گیا اور گانا بند کر دیا. وہ آدمی مراثی کو مخاطب کرکے بولا

    سوہنیا، توں گانا گاندا رہ، میں تو اسے ڈھونڈ رہا ہوں جو تجھے یہاں لے کر آیا ہے

    ————————-

    قوم بھی غصے کی حالت میں ہاتھ میں جوتا کپڑے اس سلیکٹر افسر اعلی کو ڈھونڈ رہی ہے جسے ان سلیکٹڈ مالیوں میں مجسمہ سازوں کی خوبیاں نظر آتی ہیں

    اب سلیکٹر افسر اعلی لاکھ مجسمے کو کپڑوں سے ڈھانپ کر سلیکٹڈ مالیوں کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے لیکن اپنی نا اہلی قوم سے چھپا نہیں سکتا ہے

    nayab
    Participant
    Offline
    • Professional
    #12
    اگر ان مالیوں کو وقت پر روکا جاتا کہ یہ وہ اقبال کی طرح ہی نہیں جس نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا تو آج ہمارے شاعر مشرق کے  مجسمے کے ساتھ یہ نہ ہوتا بالکل ایسے ہی اب جو حکومت راج کر رہی ہے انکو بھی نہ روکا گیا تو پاکستان کا بھی ایسا ہی حال ہو گا  ویسے تو ملک کا حال بگاڑنے کا عمل جاری ہی ہے اللہ رحم کرے نہ جانے 2023 تک کیا سے کیا ہو جائے

    اقبال کا تو ہاتھ چھاتی سے نکل آیا مگرتبدیلی کے جن ٹھکیداروں  کے ہاتھ میں پاکستان تما دیا گیا ہے سالوں بعد ملک کا تو حال ہی برا ہو جائے گا وہ کہتے ہیں نہ کہ نا کوئی سر نا پیر بیڑا ہی غرق

    :facepalm: :facepalm:

    Amir Ali
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #13
    جب مالی مجسمے اور چوکیدار لیڈر بنائیں گے تو مجموعی صورت ایسی ہی بنتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں ہر ایک کو اپنا اپنا کام کرنا چاہیئے اور دوسرے کے کام میں انگل نہیں کرنی چاہیئے۔

    عاطف بھائی، مالی کو پر حوصلہ افزائی کے لئے انعام ملنا چاہیئے۔ اور چوکیدار کو بھی کے بار بار مروانے کے باوجود بھی اس عمل کو جاری رکھنے کے لئے انعام۔

Viewing 13 posts - 1 through 13 (of 13 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi