Viewing 11 posts - 21 through 31 (of 31 total)
  • Author
    Posts
  • نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #21

    نادان sahiba

    بہت شکریہ

    اصل موضوع انسان میں احساس برتری اور فضلیت کا ہونا ہے اور میری نظر میں انسان کئی عوامل کو بنیاد بنا کر اپنے آپ کو افضل سمجھنے لگتا ہے اور انکئی پہلوؤں میں سے ایک پہلو مذہب کا ہے. میرا ارادہ مذہب پر بات کرنے کا نہیں تھا اور میں نو مذہب کا ذکر صرف اس لئے کیا کیونکہ یہ بھی انسان کو افضل سمجھنے کا سبب ہے . جب اس محفل کے ایک ہر دلعزیز دانشور محترم بلور صاحب نے مذہب کے حوالے سے کچھ بات کی تو میں نے اپنی راۓ بیان کی .

    مجھے آپکی بات پڑھ کر ایسے محسوس ہو رہا ہے کے آپ بھی اس بات کی تائید کر رہیں ہیں کے انسان اپنے مذہب کے حوالے سے اپنے کو افضل سمجھتا ہے

    ممکن ہے کے میں آپ کی بات غلط سمجھا ہوں

    مجھے کسی کے مذہبی یا غیر مذھبی ہونے سے کبھی نہ سروکار رہا نہ الجھن نہ کوفت نہ غصہ نہ خوشی . مجھے الجھن ہوتی ہے تو اس بات پر کے کوئی کیسے طے کر لیتا ہے کے اسکے اپنے مذہب کی وجہ سے وہ شخص دوسروں سے افضل ہے . میرے خیال میں کوئی بھی انسان اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا ہے اور میرے خیال میں ٩٠% مذہبی انسان اپنی مرضی سے اپنا مذہب نہیں چنتے ہیں. جو جس مذہب میں پیدا ہو گیا ،ہو گیا اور اپنے کو اپنے مذہب کی وجہ سے افضل سمجھنے لگ گیا . میرے نزدیک کسی انسان کی پہچان ، کسی انسان سے رشتہ ، کسی انسان سے تعلق مذہب کی بنیاد پر نہیں ہے اور نہ میں اس بنیاد کی وجہ پر تعلق، رشتہ اور پہچان بناتا ہوں

    میری نظر میں انسانوں کو اپنے مذہب، نسل، رنگ، جسم وغیرہ کی بنیاد پر فضلیت کا دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ یہ سب انسان کو اپنی مرضی اور اپنی کوشش سے نہیں ملے ہیں

    اگر انسانوں میں فضلیت کا معیار رکھنا ہے تو میری نظر صرف اس کی بنیاد انسان کے افکار، اعمال اور نتیجہ ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ انسان کی مرضی میں ہیں اور انسان اپنی کوشش اور محنت سے انکو حاصل کر سکتا ہے یا طے کر سکتا ہے. باقی سب احساس کمتری کو چھپانے کا ایک بہانہ ہے

    یہ جو میں نے آپ کی پوسٹ گرین کی ہے نا ..سمجھیں وہ آپ نہیں میں ہی بول رہی ہوں …سو فیصد میری یہ ہی سوچ ہے .

    باقی رہا میرا کمنٹ  ..وہ جنرل ہے ..میرے اپنے بارے میں نہیں …

    پہلے میں بھی کافی لوگوں کو جہنم بھیج چکی ہوں .

    ;-)

    ..اب یہ کنٹرکٹ ختم کر دیا ہے …

    ..جب ہمیں کسی خاص مذھب میں پیدا ہونے کا اختیار ہی نہیں ..تو تو کون جنت میں جائے گا کون جہنم میں ،،اس کا فیصلہ وہی کرے .جس نے پیدا کیا ہے ..

    اگر ہم اسلام کی ہی بات کریں تو کتنے لوگوں تک الله کا یہ پیغام پہنچا ہو گا کتنے دور دراز کے ایسے علاقے بھی ہونگے جہاں تہذیب و تمدن کا نام بھی نہ ہوگا ..مذھب تو دور کی بات ہے ..تو کیا وہ جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے ..بنا قصور ..الله نا انصاف نہیں ہے

    جب میری لوگوں سے بات ہوتی ہے تو جواب آتا ہے ..آجکل تو انٹرنیٹ کا زمانہ ہے .غیر مسلم کہہ نہیں سکتے کہ ان تک پیغام نہیں پہنچا ..وہ پڑھ سکتے ہیں

    میرا جواب ان کو یہ ہوتا ہے کہ کیا آپ نے خود دوسرے مذاہب کا مطالعہ  کیا ..پھر تقابل کر کے اسلام میں ہی رہنے کا چوز کیا

    میرے نزدیک الله نے یہ دنیا اسی طرح بنائی ہے ..اسی ترکیب میں .رنگا رنگی کے ساتھ .

    زیادہ حساب اعمال کا ہو گا

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    bluesheep
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #22
    یہ بات درست ہے مگر حیران ہونے کی بات نہیں ہے انسان اپنی موجودہ آسائشات سے پر زندگی میں چند صدیوں قبل ہی داخل ہوا ہے جبکہ انسانی جبلت کروڑوں سالوں پر محیط ہے ابھی تو انسانی جسم ہی اس لائف سٹائل کا عادی نہیں ہوا ہے اور اس پر آسائش زندگی میں فورا فربہی کی جانب مائل ہوجاتا ہے اور نت نئی بیماریوں کی آماجگاہ ثابت ہوتا ہے اگر آپ دیگر جانداروں کا مشاہدہ کریں تو انکی طبعی عمر شاید افزائش نسل کی صلاحیت بر قرار رہنے تک ہوتی ہے تو نظام قدرت ایک قدرتی توازن کی حالت میں رہتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب ہم طبی میدان میں ترقی کی بدولت آہستہ آہستہ طوالت عمری کی جانب گامزن ہیں تو یہ بھی غیر فطری اور نظام قدرت میں مداخلت ہے جسکے اپنے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں

    ویسے انسان بڑی سخت قسم کی مخلوق واقع ہوسکتی ہے، بحثیت ایک حیاتیاتی نسل کے اس کے اندر ایسی صلاحیتیں موجود ہیں جو اسکو ماحول یا گرد پیش کے ساتھ مطاقبت، موافقت اورڈھل جانے کی قوت دیتی ہیں، یہی صلاحیتیں اسکی اب تک اس زمین پر کامیابی کی نشانی اور ثبوت ہیں. مجھے نہیں لگتا کے کچھ عرصے کی پریشانیاں انسان کو بحیثیت مجموعی کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتی ہے، جیسے جیسے انسان ترقی کرے گا ویسے ویسے جسمانی طور پر مضبوط ہی ہوگا، اگلے پچاس سے سو سال انسانی تاریخ کے سب سے اہم ادوار میں شمار ہونے والے ہیں.

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #24
    ویسے انسان بڑی سخت قسم کی مخلوق واقع ہوسکتی ہے، بحثیت ایک حیاتیاتی نسل کے اس کے اندر ایسی صلاحیتیں موجود ہیں جو اسکو ماحول یا گرد پیش کے ساتھ مطاقبت، موافقت اورڈھل جانے کی قوت دیتی ہیں، یہی صلاحیتیں اسکی اب تک اس زمین پر کامیابی کی نشانی اور ثبوت ہیں. مجھے نہیں لگتا کے کچھ عرصے کی پریشانیاں انسان کو بحیثیت مجموعی کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتی ہے، جیسے جیسے انسان ترقی کرے گا ویسے ویسے جسمانی طور پر مضبوط ہی ہوگا، اگلے پچاس سے سو سال انسانی تاریخ کے سب سے اہم ادوار میں شمار ہونے والے ہیں.

    شکر ہے انسانوں کے قد ڈینوسار جتنے نہیں ہیں ورنہ پکھے ای مردے

    :thinking:

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #24
    زندہ رود بھای، ان سب آیات میں قرآن کے ماننے والوں کو کچھ ایسی وارننگ دی گئی ہیں جو انہی کے فائدے کیلئے ہیں ، قرآن ہی میں لکھا ہے کہ اہل کتاب کا کھانا تم پر اور تمہارا کھانا ان پر حلال ہے، یہ بھی کہا گیا کہ تم اہل کتاب سے شادی بھی کرسکتے ہو، شادی سے زیادہ قریبی تعلق تو کوی ہو نہیں سکتا کیونکہ آپ غیر مسلم عورت سے اپنی اولاد بھی چاہ رہے ہیں اور اس کا پکایا کھاتے بھی ہیں، ہوسکتا ہے وہ چرچ جاے اور آپ مسجد جارہے ہوں مگر پھر بھی شادی کی اجازت ہے سوال یہ ہے کہ کافر کون ہیں جن سے ہوشیار رہنے کی وارننگ ہے؟ اگر کوی ایک قوم کا نام لے دیا جاتا تو قیامت تک جو قومیں بدلتی رہنی ہیں (امریکی تین سو سال پرانے ہیں) ان سے کیسے ہوشیار رہا جاتا؟ اسی لئے اللہ نے یہود و نصاری کے نام سے وضاحت فرما دی کہ ان میں سے کچھ لوگ تمہارے چھپے ہوے دشمن ہونگے ان پر اتنا اعتماد مت کرو کہ وہ نقصان دیں، اگر تمام عیسائیوں اور تمام یہود کو ایک ہی ترازو میں تولنا ہوتا تو مسلمان فوج حبشہ جو ایک عیسای ریاست تھی پر ضرور حملہ کرتی اور اسے بھی فتح کرلیتی لیکن مسلمان فوج حبشہ کے پاس سے گزر کر آگے فوجوں سے جنگیں لڑتی رہی جنکے ہاتھوں مسلمانوں کا خون ہورہا تھا یا وہ مسلمانوں کیلئے تجارت کے راستے بند کررہے تھے، یا مسلمانوں پر حملے کرتے تھے، تمام عیسای اور تمام یہودی کبھی بھی مسلمانوں کے دشمن نہیں ہوسکتے تھے اور نہ ہی اس کی تعلیم دی گئی ہے

    بیلیور بھائی۔۔ یہ بھی تو انسانوں کو تقسیم کرنے والی بات ہوئی، اس بات کے بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذہب کے لوگوں کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں ہا نہیں، شادی کرسکتے ہیں یا نہیں۔۔۔ اسلام نے غیر مسلموں کے بارے میں نفرت ہی اتنی سکھا دی کہ اسلام کے ماننے والوں کو نبی سے یہ تک پوچھنا پڑ گیا کہ کیا ہم ان کے ساتھ کھاسکتے ہیں، کہیں یہ بھی گناہ تو نہیں۔۔ 

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #25

    بیلیور بھائی۔۔ یہ بھی تو انسانوں کو تقسیم کرنے والی بات ہوئی، اس بات کے بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذہب کے لوگوں کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں ہا نہیں، شادی کرسکتے ہیں یا نہیں۔۔۔ اسلام نے غیر مسلموں کے بارے میں نفرت ہی اتنی سکھا دی کہ اسلام کے ماننے والوں کو نبی سے یہ تک پوچھنا پڑ گیا کہ کیا ہم ان کے ساتھ کھاسکتے ہیں، کہیں یہ بھی گناہ تو نہیں۔۔

    زندہ رود بھای، انسانوں کو تقسیم مذہب نہیں کرتا کیونکہ اس کی تعلیم تو یہ ہے کہ دوسرے مذاہب سے نفرت نہیں کرنی، شادی اس کی سب سے بڑی مثال ہے جو میں نے اوپر دے دی ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب معاشرتی تقسیم ہے جو دولت، علم اور ہنر کی وجہ سے رفتہ رفتہ پیدا ہوجاتی ہے، پہلے دور میں باپ کا ہنر بیٹے کو جاتا تھا جس کی وجہ سے لوہار کا بیٹا لوہار ہی رہتا تھا  اور طبیب کا بیٹا طبیب

    باقی نبی سے کوی پوچھتا ہے تو وہ درست راستہ دکھاتے ہیں جیسا کہ اہل کتاب والا معاملہ، ہاں اگر کوی پوچھے بنا ہی دیواریں بنا کر معاشرت تقسیم کردے تو وہ غلط ہوگا

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #26
    انسانوں کو تقسیم مذہب نہیں کرتا کیونکہ اس کی تعلیم تو یہ ہے کہ دوسرے مذاہب سے نفرت نہیں کرنی

    بندہ پرور۔۔۔۔۔

    آپ کے نزدیک تقسیم کے کیا معنی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #27
    لیکن اس فورم پر کوئی ملا کے ۔۔ ساڑھے تین عدد ملحد ین بھی ہیں

    گلٹی، میرے گدڑی کے لَعل۔۔۔۔۔

    بہت سی احادیث اور آیت میں یہ بات کہی گئی ہے کہ خدا کے نیک، پرہیز گار، متقی، علم رکھنے والے بندے تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں(ہوسکتا ہے شاید کسی آیت یا حدیث میں ساڑھے تین کا عدد بھی استعمال ہوا ہو) جبکہ پُھدو حضرات ہر جگہ بڑی اکثریت میں ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اِس فورم کو دیکھ کر مَیں ایمان لے آیا ہوں کہ یہ احادیث اور آیتیں سچ ہیں اور حقیقت بیان کرتی ہیں۔۔۔۔۔

    :bigthumb:   ;-)   :bigthumb:

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #28
    میرے نزدیک الله نے یہ دنیا اسی طرح بنائی ہے ..اسی ترکیب میں .رنگا رنگی کے ساتھ . زیادہ حساب اعمال کا ہو گا

    مجھے لگتا ہے کہ اقبال کو اندر سے اس بات پر یقین تھا کہ اس دنیا اور کائنات پر شر کی قوت (شیطان) کی حکمرانی ہے، اس بات کا اظہار اقبال نے اپنے ایک خط میں کھل کر کیا ہے۔اسی لئے کبھی وہ شکوہ لکھتے ہیں اور کبھی دیگر اشعار میں اس کا اظہار کرتے ہیں۔ 

    باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

    کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
     

    روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل

    آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر

    اقبال کہتا ہے کہ روزِ حساب انسان کا اعمال نامہ دیکھ کر(مبینہ) خدا خود بھی شرمسار ہوگا، کیونکہ یہ مخلوق اسی نے بنائی ہے اور اس کے تمام جرائم میں وہ پوری طرح حصہ دار ہے۔۔۔

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #29
    گلٹی، میرے گدڑی کے لَعل۔۔۔۔۔ بہت سی احادیث اور آیت میں یہ بات کہی گئی ہے کہ خدا کے نیک، پرہیز گار، متقی، علم رکھنے والے بندے تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں(ہوسکتا ہے شاید کسی آیت یا حدیث میں ساڑھے تین کا عدد بھی استعمال ہوا ہو) جبکہ پُھدو حضرات ہر جگہ بڑی اکثریت میں ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اِس فورم کو دیکھ کر مَیں ایمان لے آیا ہوں کہ یہ احادیث اور آیتیں سچ ہیں اور حقیقت بیان کرتی ہیں۔۔۔۔۔ :bigthumb: ;-) :bigthumb:

    ملحد ۔۔۔ گمراہ ۔۔۔۔۔ مادر پدر آزاد ۔۔۔۔۔ اوباش ۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کا ایک گروپ ہے ۔۔۔۔۔

    یہ کہاں سے متقی ہوگئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

    اور جو بے چارے ۔۔۔۔ خود ۔۔۔۔۔۔۔ کرائے کے سٹیج فنکار پروفیسروں کے لیکچر سن سن کر ۔۔۔۔ علم ۔۔۔۔ کی تماش بینی کرتے ہوں ۔۔۔۔ وہ کہاں سے علم رکھنے والے ہوگئے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #30
    بندہ پرور۔۔۔۔۔ آپ کے نزدیک تقسیم کے کیا معنی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔

    جسطرح کی تقسیم کراچی میں دکھای دیتی ہے، پنبجی، سندھی، بلوچی، مہاجر، پٹھان ایکدوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوے ہیں، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سب کے سب ایک ہی مذہب کے پیروکار ہونے کے باوجود آپس میں تقسیم ہیں، آپ لوگ اس تقسیم کو مذہی قرار نہیں دے سکتے

    Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #31
    محترم تھریڈ سٹارٹر نے نیوزی لینڈ کے افسوس ناک واقعے جس میں سفید فام ہونے کے احساس تفاخر کے غلبے کے تحت ایک انتہا پسند نے دلخراش خونی داستان رقم کی ،کو سامنے رکھتے ہوئے انسانی جبلت بارے ایک سوال اٹھایا اور مقصد شاید یہ جانناتھا کہ آخر خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھتے ہوئے اتنی نفرت کیوں پیدا ہو جاتی ہے کہ کمتر سمجھنے کے باوجود دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی دلی خواہش کا اظہار ہی نہیں ہوتا بلکہ عملی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
    جے ایم پی، صاحب ایک حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
    کسی کو اگر اپنے رنگ کی بنیاد پر احساس برتری یا فضلیت کا گھمنڈ ہے تو کسی کو اپنے مذہب کی بنیاد پر افضل ہونے کا تو کسی کو دولت کی وجہ سے اپنی برتری نظر آتی ہے تو کوئی اپنی ذہانت پر نازاں ہے تو کسی کو اپنے نظریات ہی سب سے بہتر لگتے ہیں تو کوئی اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ساتویں آسمان پر پہنچ چکا ہے تو کسی کو اپنے حسن کی وجہ سے فوقیت کی ضرورت ہے”
    پھر اپنی رائے ظاپر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
    میرے خیال میں ہر انسان میں اور اگر ہر انسان میں نہیں تو ایک بڑی تعداد میں کوئی نہ کوئی احساس فضلیت / احساس برتری ہے . اور ممکن ہے انسان اس احساس فضلیت کے دباؤ کے تحت اپنی قوت برداشت کو کھو دیتا ہے . اور پھر کبھی اس بہنے اور کبھی کسی اور بہانے اپنے سے کمتر لوگوں کو ایذا پہنچاتا ہے
    یہاں بات ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی ذہن میں اٹھنے والے سوال کا اپنی سوچ کے مطابق جواب انہیں اپنے اندر ہی سے مل گیا جو میرے خیال میں کافی تشفی آمیز ہے۔ یعنی بہت سے عوامل ہیں جن میں ایک مذہب بھی ہے جو انسان کو افضل ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ یہ ہی حقیقت ہے اور شاید انسانی جبلت بھی کہ ہر انسان خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ ہر کمیونٹی خود کو بہتر کمیونٹی سمجھتی ہے اور ہر قومیت، خود کو دوسری قوموں سے بہتر گردانتی ہے۔مذہب کا بھی اس میں کچھ حصہ ہو سکتا ہے مگر جیسا کہ اس فورم پر کچھ معزز ممبران نے سارا نزلہ ہی مذہب بلکہ مذہب اسلام پر ڈال دیا ہے بلکل بھی درست نہیں ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی مذہب نفرت کا پرچار نہیں کرتا۔ ہاں اگر کسی اور مذہب کے ماننے والے اس کے خلاف سازشیں کریں۔ اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کریں یا اسے ختم کرنے کے درپے ہو جائیں تو ان سے محتاط رہنے،ان سے بچنے اور اپنی بقا کے لئے ان پر بھروسہ نہ کرنے کے احکامات اگر ملتے ہیں، تو یہ دفاعی اقدامات کے لئے نہایت مناسب ہیں انہیں دیگر انسانوں سے نفرت کے پرچار کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
    سفید فام اور سیاہ فام کمیونٹی کا مسئلہ آج پیدا نہیں ہوا۔ جہاں جہاں سفید فام کمیونٹی نے سیاہ فام کمیونٹی کو زیر کیا، انہیں غلام بنایا،ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے وہیں وہیں کالوں کی نفرت کا شکار ہوئے اس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ تاریخ گواہ ہے ، اپنی ہی دھرتی پر غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہونے،اپنے لئے مساوات اور عزت نفس کی بحالی کے لئے کالوں نے کتنی قربانیاں دیں، جدوجہد کی ، سختیاں جھیلیں ۔آج اگر قدرے بہتری دکھائی دے رہی ہے تو ان کی جدوجہد اور قربانیوں ہی کا ثمر ہے۔ ورنہ کل تک تو سائوتھ افریقہ کے بہت سے ہوٹلوں کے باہر”کتے اور کالے کا داخلہ ممنوع ہے” جیسی ہدایت لکھی ہوتی تھی۔
    ہندوستان پر انگریز جب تک قابض رہا مقامی راجائوں تک کو بھی دوسرے درجے کا شہری سمجھتا رہا۔ اور ایسا ہی دنیا بھر میں گورے کا رویہ تھا۔
    اس میں مذہب کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
    ابدی سچائی یہ ہے کہ طاقت ور ہی سب سے افضل ہے۔ جس کے پاس جہاں طاقت ہے وہاں اسی کا حکم چلتا ہے۔ وہی ممتاز ہے ، وہی چوہدری ہے۔ بالکل اسی طرح اقوام کا معاملہ ہے۔
    کمزور اور پسا ہوا نیچے سے نکلنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ سواری کرنے والا اسے اپنے نیچے سے نکلنے نہ دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مسئلہ وہاں خراب ہوتا ہے جب دبائے رکھنے کی خواہش رکھنے والے کی پوری کوشش کے باوجود اسے لگتا ہے کہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو رہا، یا اسکی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ اسے خوف گھیر لیتا ہے کہ شاید جلد ہی میری سپرمیسی ختم ہونے جا رہی ہے۔ یہ ڈر اور یہی خوف اسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
    سفید فام ہونے کا احساس تفاخر رکھنے والے مسلمانوں ہی کے مخالف نہیں تھے بلکہ ہر سیاہ رنگ والے ان کا نشانہ تھے مگر نیوزی لینڈ کے مسلمان ان کا نشانہ اس لئے بنے کہ یہ لوگ سفید فام نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس مذہب سے تعلق رکھتے تھے جو ان کے اپنے ملکوں میں انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گویا یہ ان کی نظر میں ان کے دوہرے دشمن تھے۔
    مجموعی طور پر اس ملک کے عوام کا رویہ انتہا پسندانہ نہیں بلکہ قابل ستائش رہا ہے اور ہم اس ایک بندے یا اس تحریک یا گروہ جس سے قاتل کا تعلق ہے کی انتہا پسندی کو پورے نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا کی عوام پر لاگو نہیں کر سکتے۔ ایسے انتہا پسند اور بھی بہت ہو سکتے ہیں مگر عوامی سطح پر ان کی پزیرائی نہیں کی جاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ مساجد میں ہونے والے اس خونی واقعے کی مسلمانوں سے زیادہ ان کے اپنے ہم مذہبوں سمیت تمام دیگر تمام مذاہب کے پیروکاروں نے مذمت کی ہے۔ اس ملک کی وزیر اعظم سمیت تمام سیاسی قیادت اور عوام کے رسپانس نے ان کی انسان دوستی پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔۔
    ہم بر صغیر کے لوگ ابھی اتنے فراغ دل نہیں ہوئے ۔بھارت میں مسلمان اور کرسچین اقلیت کے ساتھ ناروا سلوک اور انسانیت سوز مظالم کی داستانیں گاہے گاہے سننے کو ملتی رہتی ہیں ۔ پاکستان میں بھی کبھی کبار ایسے قابل نفرین حادثات ہوئے ہیں۔یہاں ان ملکوں کی طرح کھلے عام اور ایک آواز ہو کراتنی شدت سے اگر چہ مذمت نہیں ہوتی۔ اس کے با وجود عوام کی بہت بڑی تعداد ایسے واقعات کو قابل نفرت سمجھتی ہی نہیں بلکہ اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔ فی الحال یہ بھی غنیمت ہے امید ہے وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے شعور میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔اورا نسانیت کا مقام رنگ، نسل اور مذہب سمیت سب سے اہم سمجھا جانے لگے گا۔
Viewing 11 posts - 21 through 31 (of 31 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi