Thread: آخر مسلہ ہے کیا ؟؟؟؟؟؟
- This topic has 117 replies, 13 voices, and was last updated 3 years, 9 months ago by Bawa.
-
AuthorPosts
-
21 Jun, 2020 at 6:10 pm #22میرا پورا خاندان نارمل مذہبی خاندان ہے ..حقوق الله بھی پورے کرتا ہے اور حتا مقدور حقوق عباد بھی .خاندان میں ڈاکٹرز بھی ہیں اور انجینیرز ، ٹیچرز بھی . میرے خاندان جیسے بے شمار خاندان پاکستان میں بھرے پڑے ہیں ..ایک چھوٹے طبقہ کو لے کر آپ ایک بڑے طبقہ کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں ..اکثریت امن پسند کی ہے جو تھوڑے سے ملا نفرتوں کا کاروبار کرتے ہیں ..وہ جہالت کی وجہ سے ہے ..ان سے تو ہم بھی تنگ ہیں ..ورنہ مذھب قصوروار ہوتا تو پورا پاکستان خونم خون ہوتا . ہم نے تو آجتک بس ، بلڈنگ کیا موم بتی بھی نہیں جلائی
پاکستان میں اپ جیسے تعلیم یافتہ لوگ کم ہیں اور کم عقل ، تشدد پسند زیادہ … اس لئے اپ اقلیت ہیں میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں …. اب اکثریت خونی ہو تو پھر اس نظریے پر چلنے والی اقلیت کا امیج خراب ہو جاتا ہے .. اپ اپنی اچھائی کا ذکر کر کے اکثرت کو اچھا ثابت نہیں کر سکتی … اپ نے خود کو بڑا طبقہ ظاہر کیا ہے .. جبکے اپ جیسے لوگ چھوٹے طبقے میں اتے ہیں .. .بڑا طبقہ ملائی ہے ..
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
- thumb_up 1 mood 2
- thumb_up Zinda Rood liked this post
- mood Zaidi, Atif Qazi react this post
21 Jun, 2020 at 6:58 pm #23یہ بھی کافی مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ آج کے دور کا مسلمان اسلام سے ہی بھاگنے لگا ہے۔ قرآن، احادیث اور تاریخِ اسلامی کی وہ کتابیں جن پر صدیوں سے مسلمان عمل پیرا ہوتے آئے ہیں، آج انہی کتب سے جب احادیث اور تاریخی روایات نکل کر مسلمانوں کے سامنے رکھی جاتی ہیں تو ان میں اضطراب اور تشویش پھیل جاتی ہے۔ حالانکہ سارا مواد اسلامی کتب سے ہی دیا جاتا ہے، بھگوت گیتا، بائبل یا تلمود سے نہیں۔۔ جہاں تک آپ کا یہ دعویٰ ہے
تو یہ بالکل خلافِ واقعہ ہے۔ تقریباً ہم سب یہاں پاکستانی ہیں اور پاکستان کی سیاست، مذہب اور معاشرتی مسائل ہماری بحث کا بنیادی موضوع ہوتے ہیں۔ پاکستان میں آئے روز کسی نہ کسی کو توہین رسالت یا ختم نبوت کی بھینٹ چڑھایا ہوتا ہے۔ جب تک پاکستان میں مذہبی تسلط برقرار ہے تب تک اسلام کی وہ تعلیمات اور قوانین زیرِ تنقید رہیں گے جو اس سارے فساد کا باعث ہیں۔۔
This is the basic point that here you meet most of the people like me who know very little about the religion barring few you have been debating with you on these religious issues, Sait Bhai in particular and we know that he has limited time availability, he probably visits this site for lighter moments and not to respond copy paste spread all over the websites.
The real platform to issue these subjects is religious websites so your self propelling to victory stand means nothing to who hold opposing point of view.
21 Jun, 2020 at 7:34 pm #24This is the basic point that here you meet most of the people like me who know very little about the religion barring few you have been debating with you on these religious issues, Sait Bhai in particular and we know that he has limited time availability, he probably visits this site for lighter moments and not to respond copy paste spread all over the websites. The real platform to issue these subjects is religious websites so your self propelling to victory stand means nothing to who hold opposing point of view.میرے خیال میں اگر کسی کے پاس متعلقہ موضوع پر کافی علم نہ ہو تو اس کیلئے آسان راستہ ہے کہ وہ نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائے۔ یہاں سیاست کی طرح مذہب پر بھی ہر کوئی اپنے اپنے علم کے مطابق اپنا نکتہ نظر بیان کرتا ہے۔ اگر کوئی مذہب پر یا سیاست پر اختلافی رائے رکھتا ہے تو کسی دوسرے کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے یہاں مسئلہ کچھ اور ہے۔ وہ ہے حد درجہ بڑھی ہوئی حساسیت۔ جو پہلے مذہب تک محدود تھی، اب سیاست میں بھی در آئی ہے۔ لوگ اپنی اپنی قائم شدہ رائے کی حدود کے حصار میں خود بھی مقید رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی مقید رکھنا چاہتے ہیں۔ پہلے صرف مذہبی شخصیات مقدس تھیں، اب سیاسی شخصیات بھی مقدس ہوچکی ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم بالخصوصی مذہبی معاملات اور شخصیات کے معاملے میں اس قدر حساس ہوچکی ہے کہ مولوی طارق جمیل جیسے عام مولوی کے خلاف سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ لگ جائے تو اس کے نیچے مومنین کی گالیوں کے طومار بندھ جاتے ہیں۔ اس مذہبی حساسیت کے زیرِ اثر پاکستانی قوم چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ چکی ہے اور ہر گروہ چاہتا ہے کہ دوسرے کی زبان بند کردی جائے۔ اگر سبھی گروہوں کی بات مان لی جائے تو سبھی کی زبان بند کرنی پڑے گی۔۔
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
- thumb_up 4
- thumb_up BlackSheep, Atif Qazi, Zed, Qarar liked this post
21 Jun, 2020 at 7:37 pm #25تو آپ مانتے ہیں کہ آپ ملحد بنانے کے مشن پر ہیں .بلیک شیپ تو معصوم بن گئے تھے BlackSheepمیرا تو صرف ایک ہی مشن ہے۔ مذہبی سماج نے بذریعہ جبر میرے اندر جو اسلام بھرا ہے وہ مجھے آپ لوگوں کو پورا کا پورا واپس لوٹانا ہے۔ ۔
21 Jun, 2020 at 7:43 pm #26میرا پورا خاندان نارمل مذہبی خاندان ہے ..حقوق الله بھی پورے کرتا ہے اور حتا مقدور حقوق عباد بھی .خاندان میں ڈاکٹرز بھی ہیں اور انجینیرز ، ٹیچرز بھی . میرے خاندان جیسے بے شمار خاندان پاکستان میں بھرے پڑے ہیں ..ایک چھوٹے طبقہ کو لے کر آپ ایک بڑے طبقہ کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں ..اکثریت امن پسند کی ہے جو تھوڑے سے ملا نفرتوں کا کاروبار کرتے ہیں ..وہ جہالت کی وجہ سے ہے ..ان سے تو ہم بھی تنگ ہیں ..ورنہ مذھب قصوروار ہوتا تو پورا پاکستان خونم خون ہوتا . ہم نے تو آجتک بس ، بلڈنگ کیا موم بتی بھی نہیں جلائیپی کے پولیٹکس پر ایک دوست ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔ ہکا بکا صاحب۔۔۔۔۔
بلاگز پر اُن سے زیادہ اچھا لکھنے والا شاید ہی دیکھا ہو۔۔۔۔۔۔
اُن کی یہ دو لازوال تحاریر آپ اور آپ جیسے لاتعداد کنفیوژڈ مسلمانوں کی کنفیوژن کو انتہائی خوبصورتی سے عیاں کرتی ہیں۔۔۔۔۔
صاحبِ ایمان ہونا ، یا ایمان نہ رکھنا، جناب ایسی چیزیں کبھی بھی پوری طرح سے ڈیفائنڈ نہیں ہوتیں، البتہ ان ”لوزلی ڈیفائنڈ” چیزوں سے نمٹنے کا طریقہ ”کلیرلی ڈیفائنڈ” ہے۔
یہی سارا پھڈا ہے میری اپنی ناقص راۓ میں۔
ہمارے یہاں زندگی کے دو اہم مگر دو انتہائی مختلف اصول موجود ہیں
١) مذہبی تعلیمات میں نیکی اور بدی کے پیمانے
٢) آج کے دور کے “مہذب شہری” ہونے کے تقاضے
ان دونوں اصولوں کے درمیان ایک واضح تضاد ہے، ایک خلیج ہے جو اتنی زیادہ گہری ہے جسکی وجہ سے یہ دو اِکائیاں ایک ساتھ نہیں چل پا رہیں۔ طالبان نے اس تضاد کا حل یوں نکالا ہے کہ انھوں نے اصول نمبر ٢ کو پوری طرح سے ترک کر دیا ہے۔ لہٰذا انکے یہاں کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ وہ پورے انہماک سے اصول نمبر ١ پر قائم ہیں۔ وہ مذھب کی تعلیمات کو پورے انہماک اور تندہی سے نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اصل کنفیوژن دیگر لوگوں کو لاحق ہے جو ایک طرف تو زندگی اصول نمبر ٢ پر گزار رہے ہیں مگر صحیح اور برحق اصول نمبر ١ کو قرار دے رہے ہیں، طالبان چاہے جو کچھ بھی ہوں ، کم از کم ایسے کنفیوزڈ نہیں ہیں جیسا کہ باقی کے ”غیر طالبانی مسلمان” ہیں۔
۔
۔
۔
فرقے کا نام لینے کی بھلا کیا تک ہے۔ یہ فرقے ورقے کا مسلہ ہی نہیں ہے۔ مذھب اسلام سے وابستہ صرف دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک سچے “مومنین ” اور دوسرے ” کنفیوژین ” ہیں۔
مومنین وہ حضرات ہیں جو اپنے دین کی تعلیمات اور اپنے جلیل القدر اجداد کی روایتوں پر سختی سے کاربند ہیں۔ انکے علاوہ باقی سب کے سب کنفیوژین ہیں مومنین کی سوچ اور عمل میں کوئی ابہام نہیں ہیں۔ جسے یہ مار رہے ہیں وہ انکی نظر میں بیشک کافر ، مرتد یا مشرک ہے۔ اور الله نے انکو ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہوتا ہے۔کنفیوژین دینی تعلیمات سے سے ایک کھوکھلی سی عقیدت رکھتے ہیں۔ لہٰذا مومنین جب بھی دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر کوئی گل کھلاتے ہیں تو کنفیوژین بغلیں جھانکتے ہوے کبھی ہٹلر تو کبھی بش یا کسی اور طرف ہی نکل جاتے ہیں۔ مومنین دینی تعلیمات سے خالی خولی عقیدت ہی نہیں بلکہ اس پر یقین رکھتے ہوے عمل پیرا بھی ہو جاتے ہیں۔
۔
۔
۔
اب اِسی سلسلے میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔۔۔۔۔
عائشہ کی شادی(رخصتی) کے وقت کی عمر کا معاملہ دیکھ لیں۔۔۔۔۔
پچھلی کئی صدیوں سے عالمِ اسلام کے کم و بیش تمام ہی مذہبی علماؤں نے کبھی اِس نکتہ پر اعتراض نہیں کیا کہ عائشہ کی شادی کے وقت عمر نو برس تھی۔۔۔۔۔ لیکن چونکہ مغرب نے غالباً پچھلی ایک صدی سے شادی کے حوالے سے بلوغت کا جو تصور اپنایا ہے، اُس کی رُو سے بلوغت کی یہ عمر اٹھارہ سال قرار پائی ہے۔۔۔۔۔
اب مذہبِ اسلام کے قبیلہ بنو کنفیوژین کیلئے اِس حوالے سے ایک مسئلہ پیدا ہوگیا(وہی جو ہکا بکا صاحب نے لکھا کہ آج کے دور کے مہذب ہونے کے پیمانے)۔۔۔۔۔ لہٰذا کچھ بابرکت پیوندکاری مسلمانوں نے، جنہوں نے اسلامی جگاڑلوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں، انہوں نے یہ کمال کی جگاڑ لگائی کہ عائشہ کی شادی سے متعلق احادیث میں ایک عدد راوی پر اعتراض اٹھا کر احادیث ہی فارغ کروادیں اور عائشہ کی شادی کے وقت کی عمر اٹھارہ کروادی۔۔۔۔۔
چلیں اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ کمال ہوگیا۔۔۔۔۔ ایک لمحے میں نو کا عدد اٹھارہ میں بدل گیا۔۔۔۔۔
™ ©
مگر مَیں یہ سوچتا ہوں کہ اگر کل کلاں(یعنی ایک آدھ صدیوں میں) کو مغربی معاشروں میں یہ اٹھارہ سالہ بلوغت کی عمر بڑھا کر بیس اکیس کردی گئی تو یہ جگاڑلوجک محققین اُس دفعہ کس بدنصیب راوی کو جھوٹا قرار دلوائیں گے۔۔۔۔۔
™ ©
پسِ تحریر۔۔۔۔۔
ویسے ضرب کا مطلب ابھی تک ضرب ہی ہے یا اب نئے زمانے کے نئے دستور کے حساب سے علیحدگی ہوچکا ہے۔۔۔۔۔
™ ©
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
- thumb_up 1 mood 3
- thumb_up Zed liked this post
- mood Atif Qazi, Zinda Rood, Qarar react this post
21 Jun, 2020 at 7:49 pm #27میرے خیال میں اگر کسی کے پاس متعلقہ موضوع پر کافی علم نہ ہو تو اس کیلئے آسان راستہ ہے کہ وہ نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائے۔ یہاں سیاست کی طرح مذہب پر بھی ہر کوئی اپنے اپنے علم کے مطابق اپنا نکتہ نظر بیان کرتا ہے۔ اگر کوئی مذہب پر یا سیاست پر اختلافی رائے رکھتا ہے تو کسی دوسرے کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے یہاں مسئلہ کچھ اور ہے۔ وہ ہے حد درجہ بڑھی ہوئی حساسیت۔ جو پہلے مذہب تک محدود تھی، اب سیاست میں بھی در آئی ہے۔ لوگ اپنی اپنی قائم شدہ رائے کی حدود کے حصار میں خود بھی مقید رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی مقید رکھنا چاہتے ہیں۔ پہلے صرف مذہبی شخصیات مقدس تھیں، اب سیاسی شخصیات بھی مقدس ہوچکی ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم بالخصوصی مذہبی معاملات اور شخصیات کے معاملے میں اس قدر حساس ہوچکی ہیں کہ مولوی طارق جمیل جیسے عام مولوی کے خلاف سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ لگ جائے تو اس کے نیچے مومنین کی گالیوں کے طومار بندھ جاتے ہیں۔ اس مذہبی حساسیت کے زیرِ اثر پاکستانی قوم چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ چکی ہے اور ہر گروہ چاہتا ہے کہ دوسرے کی زبان بند کردی جائے۔ اگر سبھی گروہوں کی بات مان لی جائے تو سبھی کی زبان بند کرنی پڑے گی۔۔
آپ صحیح فرما رہے ہوں گے مگر میں اپنے نقطہ نظر پر قائم ہوں
.
زمبابوے اور نمبیا کی کرکٹ ٹیم میں مقابلے میں زمبابوے کو ہی برتری رہے گی وہ تو کبھی کبھی ہمارے پاس سیت زیدی اور بیبی جیسے مہمان پلیر آ جاتے ہیں تو آپ لوگوں کی حقیقت کھل جاتی ہے ورنہ تو عاطف قاضی کی کمپنی میں ہمارا پہلے والا ایمان بھی جاتا رہا ہے
.
مگر آپ ہرا رے سے نکل کر کبھی پرتھ جائیں سرکار – اپنی اصل اوقات پتہ چل جایے گی- اگلوں نے مار مار کے بلیک شیپ بنا دینا ہے
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
21 Jun, 2020 at 8:06 pm #28پاکستان میں اپ جیسے تعلیم یافتہ لوگ کم ہیں اور کم عقل ، تشدد پسند زیادہ … اس لئے اپ اقلیت ہیں میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں …. اب اکثریت خونی ہو تو پھر اس نظریے پر چلنے والی اقلیت کا امیج خراب ہو جاتا ہے .. اپ اپنی اچھائی کا ذکر کر کے اکثرت کو اچھا ثابت نہیں کر سکتی … اپ نے خود کو بڑا طبقہ ظاہر کیا ہے .. جبکے اپ جیسے لوگ چھوٹے طبقے میں اتے ہیں .. .بڑا طبقہ ملائی ہے ..کتنے فیصد طبقہ خونی ہے ..صحیح صحیح بتایئے گا
21 Jun, 2020 at 8:08 pm #30ان کا اصل مسلہ یہ ہے کہ بن تو گئے ملحد ..لیکن دل کے اندر کوئی غلطی کا احساس ہے .بس اسی احساس سے چھٹکارے کے لئے یہاں تھریڈ پر تھریڈ بناتے ہیں ..حالانکہ یہاں مولانا نادان ، مولانا سیٹ ، مولانا زیدی سمجھا سمجھا تھک گئے ..اب سب نے ہاتھ اٹھا لئے کہ بھائی اپنا لیپ ٹاپ استعمال کرو ..ہمارے کمپیوٹر کے سارے لفظ ختم ہو گئے ہیں SAIT Zaidiمیں آپ کے اس تھیسس سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں – اور اسکا بارہا اظہار بھی کر چکا ہوں کہ یہ ان کے اندر کا چوریا احساس کمتری ہے جو انھیں بار بار مجبور کرتا ہے کہ یہ اپنے عقائد یا نظریات کی وجوہات یہاں ہر تیسرے دن پیش کریں-اور اپنے عمل کی جسٹفکیشن کے لئے مذھب پے تنقید کریں -انکی تنقید زیادہ تر نا مکمل معلومات، ذاتی خواہشات، جھوٹ اور ادھر اودھر سے چھاپوں پر مبنی ہوتی ہے-جسے ہمارے جیسے ناقص مسلمان بھی تھوڑی سی کوشش کے بعد پکڑ لیتے ہیں – اور کئی دفعہ انھیں جھوٹ اور غلط معلومات کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے – لیکن ان حضرات نے شرمندگی کا مظاہرہ نہیں کیا – جس سے سے ثابت ہوتا ہے کہ انکا مطمع نظر تحقیق یا جستجو نہیں بلکہ پروپوگنڈا ہے – اور انکے بنائے ہووے تھریڈز کو اسی تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے اور اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے جتنی کہ باقی دنیا میں پروپوگنڈا کو دی جاتی ہے
21 Jun, 2020 at 8:08 pm #31پی کے پولیٹکس پر ایک دوست ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔ ہکا بکا صاحب۔۔۔۔۔ بلاگز پر اُن سے زیادہ اچھا لکھنے والا شاید ہی دیکھا ہو۔۔۔۔۔۔ اُن کی یہ دو لازوال تحاریر آپ اور آپ جیسے لاتعداد کنفیوژڈ مسلمانوں کی کنفیوژن کو انتہائی خوبصورتی سے عیاں کرتی ہیں۔۔۔۔۔ صاحبِ ایمان ہونا ، یا ایمان نہ رکھنا، جناب ایسی چیزیں کبھی بھی پوری طرح سے ڈیفائنڈ نہیں ہوتیں، البتہ ان ”لوزلی ڈیفائنڈ” چیزوں سے نمٹنے کا طریقہ ”کلیرلی ڈیفائنڈ” ہے۔ یہی سارا پھڈا ہے میری اپنی ناقص راۓ میں۔ ہمارے یہاں زندگی کے دو اہم مگر دو انتہائی مختلف اصول موجود ہیں ١) مذہبی تعلیمات میں نیکی اور بدی کے پیمانے ٢) آج کے دور کے “مہذب شہری” ہونے کے تقاضے ان دونوں اصولوں کے درمیان ایک واضح تضاد ہے، ایک خلیج ہے جو اتنی زیادہ گہری ہے جسکی وجہ سے یہ دو اِکائیاں ایک ساتھ نہیں چل پا رہیں۔ طالبان نے اس تضاد کا حل یوں نکالا ہے کہ انھوں نے اصول نمبر ٢ کو پوری طرح سے ترک کر دیا ہے۔ لہٰذا انکے یہاں کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ وہ پورے انہماک سے اصول نمبر ١ پر قائم ہیں۔ وہ مذھب کی تعلیمات کو پورے انہماک اور تندہی سے نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اصل کنفیوژن دیگر لوگوں کو لاحق ہے جو ایک طرف تو زندگی اصول نمبر ٢ پر گزار رہے ہیں مگر صحیح اور برحق اصول نمبر ١ کو قرار دے رہے ہیں، طالبان چاہے جو کچھ بھی ہوں ، کم از کم ایسے کنفیوزڈ نہیں ہیں جیسا کہ باقی کے ”غیر طالبانی مسلمان” ہیں۔ ۔ ۔ ۔ فرقے کا نام لینے کی بھلا کیا تک ہے۔ یہ فرقے ورقے کا مسلہ ہی نہیں ہے۔ مذھب اسلام سے وابستہ صرف دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک سچے “مومنین ” اور دوسرے ” کنفیوژین ” ہیں۔ مومنین وہ حضرات ہیں جو اپنے دین کی تعلیمات اور اپنے جلیل القدر اجداد کی روایتوں پر سختی سے کاربند ہیں۔ انکے علاوہ باقی سب کے سب کنفیوژین ہیں مومنین کی سوچ اور عمل میں کوئی ابہام نہیں ہیں۔ جسے یہ مار رہے ہیں وہ انکی نظر میں بیشک کافر ، مرتد یا مشرک ہے۔ اور الله نے انکو ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہوتا ہے۔کنفیوژین دینی تعلیمات سے سے ایک کھوکھلی سی عقیدت رکھتے ہیں۔ لہٰذا مومنین جب بھی دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر کوئی گل کھلاتے ہیں تو کنفیوژین بغلیں جھانکتے ہوے کبھی ہٹلر تو کبھی بش یا کسی اور طرف ہی نکل جاتے ہیں۔ مومنین دینی تعلیمات سے خالی خولی عقیدت ہی نہیں بلکہ اس پر یقین رکھتے ہوے عمل پیرا بھی ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اب اِسی سلسلے میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔۔۔۔۔ عائشہ کی شادی(رخصتی) کے وقت کی عمر کا معاملہ دیکھ لیں۔۔۔۔۔ پچھلی کئی صدیوں سے عالمِ اسلام کے کم و بیش تمام ہی مذہبی علماؤں نے کبھی اِس نکتہ پر اعتراض نہیں کیا کہ عائشہ کی شادی کے وقت عمر نو برس تھی۔۔۔۔۔ لیکن چونکہ مغرب نے غالباً پچھلی ایک صدی سے شادی کے حوالے سے بلوغت کا جو تصور اپنایا ہے، اُس کی رُو سے یہ بلوغت کی یہ عمر اٹھارہ سال قرار پائی ہے۔۔۔۔۔ اب مذہبِ اسلام کے قبیلہ بنو کنفیوژین کیلئے اِس حوالے سے ایک مسئلہ پیدا ہوگیا(وہی جو ہکا بکا صاحب نے لکھا کہ آج کے دور کے مہذب ہونے کے پیمانے)۔۔۔۔۔ لہٰذا کچھ بابرکت پیوندکاری مسلمانوں نے، جنہوں نے اسلامی جگاڑلوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں، انہوں نے یہ کمال کی جگاڑ لگائی کہ عائشہ کی شادی سے متعلق احادیث میں ایک عدد راوی پر اعتراض اٹھا کر احادیث ہی فارغ کروادیں اور عائشہ کی شادی کے وقت کی عمر اٹھارہ کروادی۔۔۔۔۔ چلیں اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ کمال ہوگیا۔۔۔۔۔ ایک لمحے میں نو کا عدد اٹھارہ میں بدل گیا۔۔۔۔۔ ™ © مگر مَیں یہ سوچتا ہوں کہ کل کلاں(یعنی ایک آدھ صدیوں میں) کو مغربی معاشروں میں یہ اٹھارہ سالہ بلوغت کی عمر بڑھا کر بیس اکیس کردی گئی تو یہ جگاڑلوجی محققین اِس دفعہ کس بدنصیب راوی کو جھوٹا قرار دلوائیں گے۔۔۔۔۔ ™ © پسِ تحریر۔۔۔۔۔ ویسے ضرب کا مطلب ابھی تک ضرب ہی ہے یا اب نئے زمانے کے نئے دستور کے حساب سے علیحدگی ہوچکا ہے۔۔۔۔۔ ™ ©مجھے اس تھریڈ پر مذہبی گفتگو نہیں کرنی ..ورنہ آخری لائن کا جواب ہے میرے پاس .
21 Jun, 2020 at 8:10 pm #32میں آپ کے اس تھیسس سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں – اور اسکا بارہا اظہار بھی کر چکا ہوں کہ یہ ان کے اندر کا چوریا احساس کمتری ہے جو انھیں بار بار مجبور کرتا ہے کہ یہ اپنے عقائد یا نظریات کی وجوہات یہاں ہر تیسرے دن پیش کریں-اور اپنے عمل کی جسٹفکیشن کے لئے مذھب پے تنقید کریں -انکی تنقید زیادہ تر نا مکمل معلومات، ذاتی خواہشات، جھوٹ اور ادھر اودھر سے چھاپوں پر مبنی ہوتی ہے-جسے ہمارے جیسے ناقص مسلمان بھی تھوڑی سی کوشش کے بعد پکڑ لیتے ہیں – اور کئی دفعہ انھیں جھوٹ اور غلط معلومات کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے – لیکن ان حضرات نے شرمندگی کا مظاہرہ نہیں کیا – جس سے سے ثابت ہوتا ہے کہ انکا مطمع نظر تحقیق یا جستجو نہیں بلکہ پروپوگنڈا ہے – اور انکے بنائے ہووے تھریڈز کو اسی تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے اور اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے جتنی کہ باقی دنیا میں پروپوگنڈا کو دی جاتی ہےپروپیگنڈہ نہیں ہے ..سچ کی تلاش میں سرگرداں ہیں ..جو چھوڑ گئے ..لوٹ لوٹ آتے ہیں ..شاید فطرت کا تقاضہ ہے
- local_florist 1
- local_florist SAIT thanked this post
21 Jun, 2020 at 8:14 pm #33آبجکشن – آپ کا خیال غلط ہے ، آپ کی لفظی تخریب کاری کبھی کبھی تو نظر انداز کی جا سکتی ہے مگر جب یہ ہر دوسرے تھریڈ پر ایک ہی قوالی پیش کرتی نظر آئے تو کوفت ہوتی ہےمیرے خیال میں اگر کسی کے پاس متعلقہ موضوع پر کافی علم نہ ہو تو اس کیلئے آسان راستہ ہے کہ وہ نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائے۔ یہاں سیاست کی طرح مذہب پر بھی ہر کوئی اپنے اپنے علم کے مطابق اپنا نکتہ نظر بیان کرتا ہے۔ اگر کوئی مذہب پر یا سیاست پر اختلافی رائے رکھتا ہے تو کسی دوسرے کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے یہاں مسئلہ کچھ اور ہے۔ وہ ہے حد درجہ بڑھی ہوئی حساسیت۔ جو پہلے مذہب تک محدود تھی، اب سیاست میں بھی در آئی ہے۔ لوگ اپنی اپنی قائم شدہ رائے کی حدود کے حصار میں خود بھی مقید رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی مقید رکھنا چاہتے ہیں۔ پہلے صرف مذہبی شخصیات مقدس تھیں، اب سیاسی شخصیات بھی مقدس ہوچکی ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم بالخصوصی مذہبی معاملات اور شخصیات کے معاملے میں اس قدر حساس ہوچکی ہے کہ مولوی طارق جمیل جیسے عام مولوی کے خلاف سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ لگ جائے تو اس کے نیچے مومنین کی گالیوں کے طومار بندھ جاتے ہیں۔ اس مذہبی حساسیت کے زیرِ اثر پاکستانی قوم چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ چکی ہے اور ہر گروہ چاہتا ہے کہ دوسرے کی زبان بند کردی جائے۔ اگر سبھی گروہوں کی بات مان لی جائے تو سبھی کی زبان بند کرنی پڑے گی۔۔
- thumb_up 1 mood 3
- thumb_up Muhammad Hafeez liked this post
- mood GeoG, SAIT, Bawa react this post
21 Jun, 2020 at 8:19 pm #34آبجکشن – آپ کا خیال غلط ہے ، آپ کی لفظی تخریب کاری کبھی کبھی تو نظر انداز کی جا سکتی ہے مگر جب یہ ہر دوسرے تھریڈ پر ایک ہی قوالی پیش کرتی نظر آئے تو کوفت ہوتی ہےانہیں صرف مسلمانوں کے خنجر نظر آتے ہیں ..اپنی زبان کے خنجر نہیں دیکھتے ..کیسا زخم لگانے کی کوشش کرتے ہیں
وہ تو ہمارا ایمان پکا ہے ..ٹس سے مس نہیں ہوتے
- mood 2
- mood SAIT, Zinda Rood react this post
21 Jun, 2020 at 8:21 pm #35آبجکشن – آپ کا خیال غلط ہے ، آپ کی لفظی تخریب کاری کبھی کبھی تو نظر انداز کی جا سکتی ہے مگر جب یہ ہر دوسرے تھریڈ پر ایک ہی قوالی پیش کرتی نظر آئے تو کوفت ہوتی ہےفورم پر ٹھمکے لگانے کی سہولت میسر نہیں
ایدے تے ای گزارا کرو سرکار
.
پچاس ڈالروں میں چنے والے چاول ہی ملتے ہیں جناب
ہور توانوں روز لیمب پریانی ڈھایے
21 Jun, 2020 at 8:27 pm #36ایسی بات نہی ہے ، زندہ رود کی کچھ باتوں سے کبھی اتفاق بھی ہوتا ہے ، مگر اب مجھے یہ نفسیاتی، تنہا ، اپنے خیالات کے اسیر اور کبھی کبھی ڈیلو یشنل لگتے ہیںرہی بات مسلمانوں کی تو اب تک ان سے سب تمیز سے پیش آتے ہیں
انہیں صرف مسلمانوں کے خنجر نظر آتے ہیں ..اپنی زبان کے خنجر نہیں دیکھتے ..کیسا زخم لگانے کی کوشش کرتے ہیں وہ تو ہمارا ایمان پکا ہے ..ٹس سے مس نہیں ہوتے- thumb_up 4 mood 1
- thumb_up SAIT, Atif Qazi, نادان, Bawa liked this post
- mood Zinda Rood react this post
21 Jun, 2020 at 8:32 pm #37ملک صاحب – آپ کو تو بس نرگس اور دیدار کو پروموٹ کرنے کے موقع چاہئیںفورم پر ٹھمکے لگانے کی سہولت میسر نہیں
ایدے تے ای گزارا کرو سرکار .
پچاس ڈالروں میں چنے والے چاول ہی ملتے ہیں جناب
ہور توانوں روز لیمب پریانی ڈھایے
21 Jun, 2020 at 8:45 pm #39ایسی بات نہی ہے ، زندہ رود کی کچھ باتوں سے کبھی اتفاق بھی ہوتا ہے ، مگر اب مجھے یہ نفسیاتی، تنہا ، اپنے خیالات کے اسیر اور کبھی کبھی ڈیلو یشنل لگتے ہیں رہی بات مسلمانوں کی تو اب تک ان سے سب تمیز سے پیش آتے ہیںمسلمانوں کی جہالت سے اتفاق ہے ..جتنے ہم تنگ ہیں ، وہ کیا ہونگے ..ان کی وجہ سے مذھب بدنام ہے ..حالانکہ ان جاہلوں کا دین سے کیا لینا دینا ..بطور پیشہ اپنایا ہوا ہے ..جیسے جعلی ڈاکٹر ہوتے ہیں ویسے ہی یہ جعلی ملا ہیں ..
مجھے ایک بات سے اور الجھن ہوتی ہے ..لیکن میں شکایت نہیں کر رہی ..ہم ایک آئی ڈی کو دماغ کھپا کھپا کر رخصت کرتے ہیں ..تو دوسری آئی ڈی سے آ جاتے ہیں .مجھے ایسا لگتا کہ مجھے چیٹ کیا جا رہا ہے ..بس اچھا نہیں لگتا .جتنی دفعہ بات کرنی ہے اپنی پہلی آئی ڈی سے بات کریں
- thumb_up 1
- thumb_up shami11 liked this post
21 Jun, 2020 at 8:47 pm #40آپ صحیح فرما رہے ہوں گے مگر میں اپنے نقطہ نظر پر قائم ہوں .
زمبابوے اور نمبیا کی کرکٹ ٹیم میں مقابلے میں زمبابوے کو ہی برتری رہے گی وہ تو کبھی کبھی ہمارے پاس سیت زیدی اور بیبی جیسے مہمان پلیر آ جاتے ہیں تو آپ لوگوں کی حقیقت کھل جاتی ہے ورنہ تو عاطف قاضی کی کمپنی میں ہمارا پہلے والا ایمان بھی جاتا رہا ہے .
مگر آپ ہرا رے سے نکل کر کبھی پرتھ جائیں سرکار – اپنی اصل اوقات پتہ چل جایے گی- اگلوں نے مار مار کے بلیک شیپ بنا دینا ہے
آپ نے اعتراف کیا ہےکہ آپ اسلام کے متعلق کم علم رکھتے ہیں، بہ الفاظ دیگر کہا جائے تو آپ موروثی مسلمان ہیں۔ آپ کو تو ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہماری بدولت آپ کے اسلام کے علم میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس فورم سے کوچ کرکے جانے والے شاہ جی اکثر دوسرے فورم پر بطور خاص بار بار میرا شکریہ ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے مجھے اسلام پر تحقیق کرنی پڑتی ہے اور میرے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ کئی بار تو وہ بصد اصرار مجھے کہتے ہیں کہ کوئی نیا سوال پوچھیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے مذہب کے معاملے میں اپنی ہی منطق ایجاد کی ہوئی ہے، آپ لوگوں کی طرح )۔۔
خیر آپ نے مہمان پلیئرز کا ذکر کیا۔ اس پر صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اگر آپ حمارُ العرب المعروف پی ایچ ڈی کے دلائل پر اپنے لرزتے، بل کھاتے اور ڈگمگاتے ایمان کو ٹِکائے بیٹھے ہیں تو آپ کی عقل و فہم کے بارے میں میرا خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ ۔۔ آپ نے اگر اپنے دین کا کچھ علم حاصل کیا ہوتا تو آپ کو کم از کم یہ ضرور معلوم ہوجاتا کہ اسلام کو عقلی بنیادوں پر ڈیفنڈ نہیں کیا جاسکتا۔ آج کے علمی ترقیوں کے دور میں تو یہ بالکل بھی ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں بزرگانِ دین نے اپنی کتب میں ایک واقعہ لکھ چھوڑا ہے جو آپ جیسوں کی رہنمائی کیلئے رقم کئے دیتا ہوں۔
ایک بزرگ جس نے اپنی ساری زندگی بہتّر حوروں کے گیلے خواب دیکھتے ہوئے اللہ رب العزت کی عبادت میں گزاری، آخری وقت میں جب موت سے چند گھڑیاں دور اور جنت کی حوروں سے بہت قریب ہوگئے تو ایک ملحد ان کے پاس آن وارد ہوا۔۔ ملحد نے آتے ہی اسلام کے تراشیدہ خدا (اللہ) کے وجود پر دلائل مانگ لئے۔ بزرگ ایک کے بعد ایک دلیل دیتے گئے اور ملحد ان دلیلوں کو عقلی اور منطقی بنیادوں پر پاش پاش کرتا گیا۔ جب بزرگ کے دامن میں ایک بھی دلیل نہ رہ گئی تو بزرگ کا ایمان ڈگمگانے لگا اور قریب تھا کہ بزرگ ایمان کی دولت سے تہی دامن ہوکر حورانِ خُلد سے ہاتھ دھو بیٹھتے کہ انہوں نے آخری حیلے کے طور پر آنکھیں بند کیں اور اپنے مُرشد کو مدد کیلئے یاد کیا ۔ مُرشد جو کہ صاحبِ واقفانِ حال تھے، بہ رفتارِ جنبشِ پلک آن حاضر ہوئے اور آتے ہی بزرگ کو غصے سے ڈانٹے ہوئے کہا۔ “ابے او ناہنجار۔! تو اس ملحد سے کہہ کہ میں بلا دلیل خدائے اسلام اللہ میاں کو مانتا ہوں۔۔” یہ کہہ کر مرشد غائب ہوگئے اور بزرگ کے چہرے پر رونق لوٹ آئی۔۔ بزرگ نے اپنی عقل بوسیدہ کپڑے کی طرح لپیٹ کر ایک طرف رکھی، چشمِ تصور میں بہّتر حوروں کے نظارے کا اعادہ کیا اور ملحد سے کہا۔۔۔ “میں بغیر کسی دلیل کے، بغیر کسی عقلی بنیاد کے اللہ میاں کو مانتا ہوں، میری جان چھوڑ، مجھے ایمان کے ساتھ مرنے دے ، بہتّر حوریں میرے انتظار میں سوکھ رہی ہیں۔ ۔”۔
- This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
- thumb_up 1
- thumb_up Zed liked this post
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.