Home Forums Non Siasi ہر انسان منفرد ہے

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 41 total)
  • Author
    Posts
  • unsafe
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #1
    دنیا میں تمام انسان سر سے لے کر فنگر ٹپس تک مختلف ہیں … کسی بھی دوسرے انسان کو اپنے جیسا بنانا ممکن نہیں … کہ فلانے آدمی کا طریقہ بہت ہی اچھا ہے اس کے طریقے یا بتاۓ ہوے راستے پر چلو .. کوئی بھی انسان کسی دوسرے کی طرح نہیں بن سکتا اور نہ ہی ہو سکتا … یہ کامل انسان والا تصور بیہودگی ہے … آدمی جو کچھ ہے وہ ووہی ہے نہ اس سے زیادہ اور نہ کم … اگر وہ اپنے آپ کو تسلیم کرنے کی بجاے کسی دوسرے کی بتائی ہوئی تعلیمات پر چلے گا اور خود کو اس کے نقش قدم پر ڈالنے کی کوشش کرے گا تو منافق جھوٹا ، مکار اور فراڈی بن جاے گا … معاشرے میں فساد پیدا کر دے گا .. .
    • This topic was modified 2 years, 10 months ago by الشرطہ.
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #2

    میری نظر میں انسان کی انفرادیت ایک ایسا عنصر ہے جو بہت بعد میں جاکر دریافت ہوا اور جن معاشروں نے انسان کی انفرادیت کو پہچان لیا، وہ دیگر معاشروں کی نسبت کہیں آگے نکل گئے۔۔ ماضی کا انسان گروہی زندگی گزارتا تھا کیونکہ اپنی حفاظت اور بقاء کیلئے تب یہ ضروری تھا۔ قبیلے کے نام پر گروہ بندی، عقیدے کے نام پر گروہ بندی، وطن کے نام پر گروہ بندی، نسل کے نام پر گروہ بندی، نظریے کے نام پر گروہ بندی غرضیکہ ان گنت قسم کی گروہ بندیاں تھیں جنہوں نے انسانوں کی انفرادیت کو دبائے رکھا اور اجتماعیت کو فروغ دیا۔ جب انسان متمدن زندگی گزارنے لگا، ملکوں کی سرحدیں وجود میں آگئیں اور انسانوں کا ایک قسم کا تحفظ میسر آگیا تو وہ غیر ضروری گروہ بندیوں سے آزاد ہونے لگا۔ معاشی آسودگی اور علمی ترقی نے انسان کو مزید جکڑبندیوں سے آزاد کیا۔۔ 

    گروہ بندیوں کی زنجیریں ٹوٹیں تو آزادی فکر اور انفرادیت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں انسان نے انتہائی تیزی سے ترقی کی۔ یورپ کی مثال ہمارے سامنے ہے، انسان کو انفرادی وجود قبول کرکے اسے معاشرے میں بطور فرد کے سپیس مہیا کرنے کی بدولت ہی یہ ممکن ہو پایا کہ انسانی علم کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ میری نظر میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ہر انسان ایک منفرد اور یکتا وجود ہے۔ وجودی فکر میں غالباً سارتر انسانی انفرادی آزادی کا سب سے بڑا علمبردار ہے، وجودیت سے کلی طور پر متفق نہ ہونے کے باوجود میں وجودی فکر کو یہ کریڈٹ دیتا ہوں کہ انسانی انفرادیت کو اجاگر کرنے میں اس مکتبہ فکر کا بڑا ہاتھ ہے۔۔ انسان کو جب بھی گروہ بندیوں میں جکڑا جاتا ہے اس کی انفرادی صلاحیتیں کچلی جاتی ہیں۔ سماج میں رہنا انسان کی مجبوری ہے، اس لئے ضروری سماجی حدود و قیود سے مفر نہیں، مگر مذہب اور حب الوطنی کے نام پر پست فکر قوموں نے جو طوق اپنے گلوں میں ڈال رکھے ہیں،  ان کی وجہ سے یہ آزاد فکر قوموں سے آج بھی صدیوں پیچھے ہیں۔ زمانہ حاضر میں مذہب ایسا نظریہ اجتماعیت ہے جس نے انسان کو منفرد وجود سے بھیڑ چال اور ہجوم میں تبدیل کردیا ہے۔ انسان کی عقل کو ایسا ساقط کیا کہ وہ ایک شخص کے پاس اپنی تمام عقل گروی رکھ کر خود سوچنے سمجھنے کی علت سے آزاد کرلیتا ہے۔۔

    یورپ سے سیکھ لیں، جب تک یورپی اقوام نے مذہب کو ہر مسئلے کا حل سمجھ کر تمام انسانوں کو جانوروں کے ریوڑ کی طرح ایک ہی شخص کی تعلیمات سے باندھے رکھا، تب تک یورپ تاریک کا تاریک رہا۔ جیسے ہی انہوں نے خود کو مذہب کی قید سے آزاد کیا، ہر انسان کو سوچنے سمجھنے والا آزاد منفرد وجود تسلیم کیا، وہاں علمی دریافتوں اور ترقیوں کے دریا بہنے لگے۔۔۔ دیکھا جائے تو ہم آج بھی علمی اعتبار سے یورپ کے تاریک دور میں جی رہے ہیں۔۔ 

    • This reply was modified 2 years, 10 months ago by Zinda Rood.
    نادان
    Keymaster
    Offline
      #3

      میری نظر میں انسان کی انفرادیت ایک ایسا عنصر ہے جو بہت بعد میں جاکر دریافت ہوا اور جن معاشروں نے انسان کی انفرادیت کو پہچان لیا، وہ دیگر معاشروں کی نسبت کہیں آگے نکل گئے۔۔ ماضی کا انسان گروہی زندگی گزارتا تھا کیونکہ اپنی حفاظت اور بقاء کیلئے تب یہ ضروری تھا۔ قبیلے کے نام پر گروہ بندی، عقیدے کے نام پر گروہ بندی، وطن کے نام پر گروہ بندی، نسل کے نام پر گروہ بندی، نظریے کے نام پر گروہ بندی غرضیکہ ان گنت قسم کی گروہ بندیاں تھیں جنہوں نے انسانوں کی انفرادیت کو دبائے رکھا اور اجتماعیت کو فروغ دیا۔ جب انسان متمدن زندگی گزارنے لگا، ملکوں کی سرحدیں وجود میں آگئیں اور انسانوں کا ایک قسم کا تحفظ میسر آگیا تو وہ غیر ضروری گروہ بندیوں سے آزاد ہونے لگا۔ معاشی آسودگی اور علمی ترقی نے انسان کو مزید جکڑبندیوں سے آزاد کیا۔۔

      گروہ بندیوں کی زنجیریں ٹوٹیں تو آزادی فکر اور انفرادیت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں انسان نے انتہائی تیزی سے ترقی کی۔ یورپ کی مثال ہمارے سامنے ہے، انسان کو انفرادی وجود قبول کرکے اسے معاشرے میں بطور فرد کے سپیس مہیا کرنے کی بدولت ہی یہ ممکن ہو پایا کہ انسانی علم کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ میری نظر میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ہر انسان ایک منفرد اور یکتا وجود ہے۔ وجودی فکر میں غالباً سارتر انسانی انفرادی آزادی کا سب سے بڑا علمبردار ہے، وجودیت سے کلی طور پر متفق نہ ہونے کے باوجود میں وجودی فکر کو یہ کریڈٹ دیتا ہوں کہ انسانی انفرادیت کو اجاگر کرنے میں اس مکتبہ فکر کا بڑا ہاتھ ہے۔۔ انسان کو جب بھی گروہ بندیوں میں جکڑا جاتا ہے اس کی انفرادی صلاحیتیں کچلی جاتی ہیں۔ سماج میں رہنا انسان کی مجبوری ہے، اس لئے ضروری سماجی حدود و قیود سے مفر نہیں، مگر مذہب اور حب الوطنی کے نام پر پست فکر قوموں نے جو طوق اپنے گلوں میں ڈال رکھے ہیں، ان کی وجہ سے یہ آزاد فکر قوموں سے آج بھی صدیوں پیچھے ہیں۔ زمانہ حاضر میں مذہب ایسا نظریہ اجتماعیت ہے جس نے انسان کو منفرد وجود سے بھیڑ چال اور ہجوم میں تبدیل کردیا ہے۔ انسان کی عقل کو ایسا ساقط کیا کہ وہ ایک شخص کے پاس اپنی تمام عقل گروی رکھ کر خود سوچنے سمجھنے کی علت سے آزاد کرلیتا ہے۔۔

      یورپ سے سیکھ لیں، جب تک یورپی اقوام نے مذہب کو ہر مسئلے کا حل سمجھ کر تمام انسانوں کو جانوروں کے ریوڑ کی طرح ایک ہی شخص کی تعلیمات سے باندھے رکھا، تب تک یورپ تاریک کا تاریک رہا۔ جیسے ہی انہوں نے خود کو مذہب کی قید سے آزاد کیا، ہر انسان کو سوچنے سمجھنے والا آزاد منفرد وجود تسلیم کیا، وہاں علمی دریافتوں اور ترقیوں کے دریا بہنے لگے۔۔۔ دیکھا جائے تو ہم آج بھی علمی اعتبار سے یورپ کے تاریک دور میں جی رہے ہیں۔۔

      black Lives Matters

      نادان
      Keymaster
      Offline
        #4
        دنیا میں تمام انسان سر سے لے کر فنگر ٹپس تک مختلف ہیں

        اسی وجہ سے آپ پھڑے  جائیں گے ..دیکھی الله کی حکمت

        :serious:

        unsafe
        Participant
        Offline
        Thread Starter
        • Advanced
        #5
        دنیا میں تمام انسان سر سے لے کر فنگر ٹپس تک مختلف ہیں اسی وجہ سے آپ پھڑے جائیں گے ..دیکھی الله کی حکمت :serious:

        میڈم اپ اگر دل کی بجائے دماغ سے کام لیں تو آپ کو سر سے فگنٹر ٹپس تک انسان کے مختلف ہونے میں نا خدا نظر اے گا .. وہ کیسے …. کیوں کہ اگر انسان کسی زہین مذبی خدا کی تخلئیق ہوتی تو ایسا ممکن ضرور ہوتا کہ اربوں انسانوں میں ہزاروں انسان کے چہرے ایک جیسے نکل آتے … سو انسانوں کی فنگٹر ٹپس میچ کر جاتی ہیں …. انسان کوئی بھی چیز بناتا ہے تو اس میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی جو بلکل دوسری چیز کی کوپی ہوتی ہیں .. آپ آٹے میں نمک مکس تو کر سکتی ہیں پر اس میں آٹے اور نمک کے دانے علیدہ نہیں کر سکتی ……

        unsafe
        Participant
        Offline
        Thread Starter
        • Advanced
        #6

        میری نظر میں انسان کی انفرادیت ایک ایسا عنصر ہے جو بہت بعد میں جاکر دریافت ہوا اور جن معاشروں نے انسان کی انفرادیت کو پہچان لیا، وہ دیگر معاشروں کی نسبت کہیں آگے نکل گئے۔۔ ماضی کا انسان گروہی زندگی گزارتا تھا کیونکہ اپنی حفاظت اور بقاء کیلئے تب یہ ضروری تھا۔ قبیلے کے نام پر گروہ بندی، عقیدے کے نام پر گروہ بندی، وطن کے نام پر گروہ بندی، نسل کے نام پر گروہ بندی، نظریے کے نام پر گروہ بندی غرضیکہ ان گنت قسم کی گروہ بندیاں تھیں جنہوں نے انسانوں کی انفرادیت کو دبائے رکھا اور اجتماعیت کو فروغ دیا۔ جب انسان متمدن زندگی گزارنے لگا، ملکوں کی سرحدیں وجود میں آگئیں اور انسانوں کا ایک قسم کا تحفظ میسر آگیا تو وہ غیر ضروری گروہ بندیوں سے آزاد ہونے لگا۔ معاشی آسودگی اور علمی ترقی نے انسان کو مزید جکڑبندیوں سے آزاد کیا۔۔

        گروہ بندیوں کی زنجیریں ٹوٹیں تو آزادی فکر اور انفرادیت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں انسان نے انتہائی تیزی سے ترقی کی۔ یورپ کی مثال ہمارے سامنے ہے، انسان کو انفرادی وجود قبول کرکے اسے معاشرے میں بطور فرد کے سپیس مہیا کرنے کی بدولت ہی یہ ممکن ہو پایا کہ انسانی علم کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ میری نظر میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ہر انسان ایک منفرد اور یکتا وجود ہے۔ وجودی فکر میں غالباً سارتر انسانی انفرادی آزادی کا سب سے بڑا علمبردار ہے، وجودیت سے کلی طور پر متفق نہ ہونے کے باوجود میں وجودی فکر کو یہ کریڈٹ دیتا ہوں کہ انسانی انفرادیت کو اجاگر کرنے میں اس مکتبہ فکر کا بڑا ہاتھ ہے۔۔ انسان کو جب بھی گروہ بندیوں میں جکڑا جاتا ہے اس کی انفرادی صلاحیتیں کچلی جاتی ہیں۔ سماج میں رہنا انسان کی مجبوری ہے، اس لئے ضروری سماجی حدود و قیود سے مفر نہیں، مگر مذہب اور حب الوطنی کے نام پر پست فکر قوموں نے جو طوق اپنے گلوں میں ڈال رکھے ہیں، ان کی وجہ سے یہ آزاد فکر قوموں سے آج بھی صدیوں پیچھے ہیں۔ زمانہ حاضر میں مذہب ایسا نظریہ اجتماعیت ہے جس نے انسان کو منفرد وجود سے بھیڑ چال اور ہجوم میں تبدیل کردیا ہے۔ انسان کی عقل کو ایسا ساقط کیا کہ وہ ایک شخص کے پاس اپنی تمام عقل گروی رکھ کر خود سوچنے سمجھنے کی علت سے آزاد کرلیتا ہے۔۔

        یورپ سے سیکھ لیں، جب تک یورپی اقوام نے مذہب کو ہر مسئلے کا حل سمجھ کر تمام انسانوں کو جانوروں کے ریوڑ کی طرح ایک ہی شخص کی تعلیمات سے باندھے رکھا، تب تک یورپ تاریک کا تاریک رہا۔ جیسے ہی انہوں نے خود کو مذہب کی قید سے آزاد کیا، ہر انسان کو سوچنے سمجھنے والا آزاد منفرد وجود تسلیم کیا، وہاں علمی دریافتوں اور ترقیوں کے دریا بہنے لگے۔۔۔ دیکھا جائے تو ہم آج بھی علمی اعتبار سے یورپ کے تاریک دور میں جی رہے ہیں۔۔

        زندہ صاحب آپ نے کافی اچھی باتیں کی ہیں … میں نے جو نوٹ کیا ہے یورپی ہوں یا امریکن ان لوگوں کے معماروں نے نئی نسل کو اپنی معاشرتی کتابوں میں جھوٹ بتانے کے ان کی تربیت ایسی کی ہے کہ وہ مجموی طور پر نئی چیز ، منفرد سوچ کو پسند کرتے اس کے برعکس ہمارے یہاں کے کنفیوز لیڈروں نے ہر چیز میں مذہب کو ڈال کر ان کے دماغ سے انفرادیت ختم کر دی ہے اور یہ وہ جدید ٹیکنالوجی ہو یا یا معاشرتی رویوں کے بدلتے ہوئے رجحانات ہوں اس چیز کو قبول نہیں کرتے .. آییں میں کوئی ترمیم کرنی ہو تو پہلے باوے خادم حسسیں رضوی سے مشورہ کیا جاتا کہ کہیں اسلام آباد بلاک نہ کر دے جیسے ہی کوئی نئی تیکنولجی مارکیٹ میں آتی ہے سب سے پہلے مولوی کے فتووں سے گزرتی ہے ….

        بہت سے نظریات اور ایسی چیزیں جو ہمارے معاشرے میں قبول نہیں ہوتی .. مثال کے طور پر کوئی ویڈیو ، کسی مذھبی کتاب پر تنقید جو ہمارے ہاں نہیں ہو سکتی وہ یوروپ میں آرام سے ہو سکتی ہے

        اس جدت پسندی کی وجہ سے وہاں نائی نئی ایجاد ہو رہی ہیں … اور یہاں ایک مدنی چینل اور کچھ پی ایچ ڈی کبھی کھوتوں کی دم پر خدا کا نام تلاش کر رہے ہیں اور کبھی مینڈک کی دم پر

        Zinda Rood
        Participant
        Offline
        • Professional
        #7

        زندہ صاحب آپ نے کافی اچھی باتیں کی ہیں … میں نے جو نوٹ کیا ہے یورپی ہوں یا امریکن ان لوگوں کے معماروں نے نئی نسل کو اپنی معاشرتی کتابوں میں جھوٹ بتانے کے ان کی تربیت ایسی کی ہے کہ وہ مجموی طور پر نئی چیز ، منفرد سوچ کو پسند کرتے اس کے برعکس ہمارے یہاں کے کنفیوز لیڈروں نے ہر چیز میں مذہب کو ڈال کر ان کے دماغ سے انفرادیت ختم کر دی ہے اور یہ وہ جدید ٹیکنالوجی ہو یا یا معاشرتی رویوں کے بدلتے ہوئے رجحانات ہوں اس چیز کو قبول نہیں کرتے .. آییں میں کوئی ترمیم کرنی ہو تو پہلے باوے خادم حسسیں رضوی سے مشورہ کیا جاتا کہ کہیں اسلام آباد بلاک نہ کر دے جیسے ہی کوئی نئی تیکنولجی مارکیٹ میں آتی ہے سب سے پہلے مولوی کے فتووں سے گزرتی ہے ….

        بہت سے نظریات اور ایسی چیزیں جو ہمارے معاشرے میں قبول نہیں ہوتی .. مثال کے طور پر کوئی ویڈیو ، کسی مذھبی کتاب پر تنقید جو ہمارے ہاں نہیں ہو سکتی وہ یوروپ میں آرام سے ہو سکتی ہے

        اس جدت پسندی کی وجہ سے وہاں نائی نئی ایجاد ہو رہی ہیں … اور یہاں ایک مدنی چینل اور کچھ پی ایچ ڈی کبھی کھوتوں کی دم پر خدا کا نام تلاش کر رہے ہیں اور کبھی مینڈک کی دم پر

        اَن سیف صاحب۔۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسلام میں انفرادیت کیلئے بالکل کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ڈنڈا ہر مسلمان کے ہاتھ میں تھما کر اسے باقی تمام لوگوں پر تھانیدار لگا دیا ہے۔۔ برائی کو ہاتھ اور زبان سے روکنے جیسے احکامات نے مسلمانوں میں یہ سوچ راسخ کردی ہے کہ وہ معاشرے کے ہر فرد کی زندگی میں دخل اندازی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ کچھ دن قبل اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی حمایت میں کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاں اکٹھے ہوئے، وہاں ایک پی ایچ ڈی ٹائپ گھامڑ شخص کیمرہ اور مائیک لے کر پہنچ گیا اور ہر کسی سے پوچھنے لگا کہ بتاؤ تم قادیانیوں کو کافر مانتے ہو کہ نہیں۔ اس کے سوال کے جواب میں جب کئی لڑکے لڑکیوں نے ان کے عقائد پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا تو وہ انسان نما رپورٹر ان پر زور ڈالنے لگا کہ وہ ضرور بالضرور انہیں کافر سمجھیں یا کہیں۔۔ ایسا ہی کچھ جبران ناصر کے ساتھ پیش آیا جب وہ الیکشن کیمپین پر نکلا تو ہر جگہ اس سے لوگ پوچھنے لگے کہ بتاؤ تم قادیانیوں کو کافر سمجھتے ہو یا نہیں۔۔ یعنی پاکستان جیسے اسلام زدہ ملک میں کوئی شخص اپنی ذاتی انفرادی سوچ بھی نہیں رکھ سکتا۔۔ کل ہی ن لیگ کی ایک خاتون رکن اسمبلی رخسانہ کوثر نے پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی کہ داڑھی کی ڈیزائننگ پر پابندی عائد کی جائے، کیونکہ داڑھی نبی کی سنت ہے اور اس کی ڈیزائننگ سے نبی کی سنت کی توہین ہوتی ہے۔۔ اندازہ کیجئے۔۔ چہرہ میرا، اس پر اگنے والے بال میرے اور اس پر حکم چلے گا چودہ صدیاں پہلے صحرائے عرب میں گزرے کسی شخص کا۔۔۔۔ 

        کسی اسلامی معاشرے میں اس لئے بھی لوگ کسی فرد کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے اور انفرادی سوچ رکھنے کا حق نہیں دیتے کیونکہ اسلام میں بے شمار احادیث ہیں کہ قوموں پر عذاب اس لئے آتے ہیں جب “بے حیائی” عام ہوجاتی ہے، لوگ شراب پینے لگتے ہیں، ناچ گانا ہونے لگتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے مسلمان سمجھتے ہیں کہ عذاب سے ، زلزلوں سے، وباؤں سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ سب کو معاشرے میں زبردستی ڈنڈے کے زور اسلامی احکامات پر چلایا جائے، ان کو لگتا ہے کہ اگر کہیں کوئی نائٹ کلب کھلا ہے، یا ان کے بیچ رہنے والا کوئی شخص اسلام کو یا ان کے خدا کو نہیں مانتا تو یہ ان پر عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔۔۔ اسلئے اسلامی معاشروں میں کسی بھی شخص کیلئے اپنی ذاتی انفرادی سوچ رکھنا یا اس کا اظہار کرنا بالکل قبول نہیں کیا جاتا۔۔۔ ویسے بھی اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ خلفائے راشدین خاص طور پر حضرت عمر اسلام نافذ کرنے کیلئے سڑکوں پر ہاتھ میں کوڑا لے کر پھرا کرتے تھے اور حضرت عمر کئیوں کو سڑک پر ہی کوڑے مارتے پھرتے تھے کہ تم نے فلاں کام اسلام کے خلاف کیوں کیا۔۔۔۔ ایسے جبر زدہ مذہب کی تعلیمات کی چھتری تلے انفرادی سوچ کیسے پنپ سکتی ہے۔۔۔ 

        • This reply was modified 2 years, 10 months ago by Zinda Rood.
        Believer12
        Participant
        Offline
        • Expert
        #8
        میڈم اپ اگر دل کی بجائے دماغ سے کام لیں تو آپ کو سر سے فگنٹر ٹپس تک انسان کے مختلف ہونے میں نا خدا نظر اے گا .. وہ کیسے …. کیوں کہ اگر انسان کسی زہین مذبی خدا کی تخلئیق ہوتی تو ایسا ممکن ضرور ہوتا کہ اربوں انسانوں میں ہزاروں انسان کے چہرے ایک جیسے نکل آتے … سو انسانوں کی فنگٹر ٹپس میچ کر جاتی ہیں …. انسان کوئی بھی چیز بناتا ہے تو اس میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی جو بلکل دوسری چیز کی کوپی ہوتی ہیں .. آپ آٹے میں نمک مکس تو کر سکتی ہیں پر اس میں آٹے اور نمک کے دانے علیدہ نہیں کر سکتی ……

        آپ بھی اگر عقل کا استعمال کرلیں تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے، ہر انسان کا سٹرکچر ایک سا ہے، سات آٹھ ارب لوگوں کے دل گردے پھیپھڑے اور تمام جسمانی نظام بالکل ایک جیسا ہے ، کھانے کیلئے منہ اور ہضم کرنے کیلئے نظام انہظام بھی ایک جیسا ہے، پانچ چھ سوراخ بھی ایک جیسے ہیں کیونکہ یہ نیچر کی بے ترتیبی سے نہیں خدا کی قدرت سے ایک ترتیب میں پیدا ہوے ہیں، گاے کے ہاں انسانی بچہ نہیں پیدا ہوسکتا

        unsafe
        Participant
        Offline
        Thread Starter
        • Advanced
        #9
        زندہ صاحب میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسی سوچ کے پیچھے ہمارا ناقص تعلیمی نظام ، ہمارے نظریات عقائد ، ہمارا کلچر اور ہمارا معاشرہ ہے جو کہ نئی سوچ ، انفرادیت اور جدت پسندی کا مخالف ہے … مثال کے طور پر ہمارے تعلیمی نظام اور طلبہ کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں … ہمارے تعلیمی نظام اصل میں ہماری جھوٹی معاشرتی اقدار اور مذہب کا پاسدار ہے … اور ماں باپ بچوں کو اس لالچ سے پڑھاتے ہیں . کہ یہ بڑا ہو کر اچھی نوکری بعد ہمیں کھلاۓ پلانے گا …. اور سکولوں میں استادوں کو بچوں کے مستقبل سے کوئی غرض نہیں ہوتی ان کو مہینے بعد جو تنخوا ملتی ہے اس سے غرض ہوتی ہے…..

        اس کے علاوہ باقی کسر بچے کو مذھبی بنانے اس کے ماں باپ پوری کر دیتے ہیں … پاکستان میں چونکے عورت کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی تو اس لئے اکثر عورتیں جاہل ہوتی ہیں وہ بچوں کو موسیٰ فرعون ، اور دیگر مذبی جھوٹی کہانیاں سنا سنا کر ان سے انفرادی سوچ ختم کر دیتی ہیں اور باقی کسر جب بچہ سات کا ہوتا ہے تو باپ نماز کے لئے سختی کر کے مسجد میں زبردستی بیجھ کر پوری کر دیتا ہے … اور بچہ کمبریج سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی آدم حوا کی کہانیاں سنا رہا ہوتا ہے ….. پاکستانی کے اکثر تعلیمی اداروں میں سائنس کے پیریڈ میں بھی استاد بچوں کو مذبی کہانیاں سنا کر وقت پاس کرتے ہیں

        Guilty
        Participant
        Offline
        • Expert
        #10

        زندہ صاحب آپ نے کافی اچھی باتیں کی ہیں … میں نے جو نوٹ کیا ہے یورپی ہوں یا امریکن ان لوگوں کے معماروں نے نئی نسل کو اپنی معاشرتی کتابوں میں جھوٹ بتانے کے ان کی تربیت ایسی کی ہے کہ وہ مجموی طور پر نئی چیز ، منفرد سوچ کو پسند کرتے اس کے برعکس ہمارے یہاں کے کنفیوز لیڈروں نے ہر چیز میں مذہب کو ڈال کر ان کے دماغ سے انفرادیت ختم کر دی ہے اور یہ وہ جدید ٹیکنالوجی ہو یا یا معاشرتی رویوں کے بدلتے ہوئے رجحانات ہوں اس چیز کو قبول نہیں کرتے .. آییں میں کوئی ترمیم کرنی ہو تو پہلے باوے خادم حسسیں رضوی سے مشورہ کیا جاتا کہ کہیں اسلام آباد بلاک نہ کر دے جیسے ہی کوئی نئی تیکنولجی مارکیٹ میں آتی ہے سب سے پہلے مولوی کے فتووں سے گزرتی ہے ….

        بہت سے نظریات اور ایسی چیزیں جو ہمارے معاشرے میں قبول نہیں ہوتی .. مثال کے طور پر کوئی ویڈیو ، کسی مذھبی کتاب پر تنقید جو ہمارے ہاں نہیں ہو سکتی وہ یوروپ میں آرام سے ہو سکتی ہے

        اس جدت پسندی کی وجہ سے وہاں نائی نئی ایجاد ہو رہی ہیں … اور یہاں ایک مدنی چینل اور کچھ پی ایچ ڈی کبھی کھوتوں کی دم پر خدا کا نام تلاش کر رہے ہیں اور کبھی مینڈک کی دم پر

        ۔

        مطلب ۔۔۔ پوری دنیا میں ۔۔۔ عریانیت ۔۔۔۔ پورنو گرافی ۔۔۔ ایجاد کرنے والا یورپ ۔۔۔۔ بتا ئے گا کہ ۔۔۔ مذ ھب ہونا چا ھیے کہ نہیں ۔۔۔۔

        بندہ اتار لے جوتی اور کردے تیری چھترول ۔۔۔۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        Guilty
        Participant
        Offline
        • Expert
        #11

         وہاں علمی دریافتوں اور ترقیوں کے دریا بہنے لگے۔۔۔ ۔

        ۔

        اور وھاں پولیس سٹیٹ قائم ہوگئیں ۔۔۔ اور وھاں ۔۔۔۔ انسانوں کو ۔۔۔۔ دن کی روشنی میں ۔۔۔ گوڈے کے نیچے  دے کر قتل کرنے  کی  ۔۔۔ ٹیکنیکات۔۔۔ ایجاد ہوگئیں ۔۔۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        unsafe
        Participant
        Offline
        Thread Starter
        • Advanced
        #12
        آپ بھی اگر عقل کا استعمال کرلیں تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے، ہر انسان کا سٹرکچر ایک سا ہے، سات آٹھ ارب لوگوں کے دل گردے پھیپھڑے اور تمام جسمانی نظام بالکل ایک جیسا ہے ، کھانے کیلئے منہ اور ہضم کرنے کیلئے نظام انہظام بھی ایک جیسا ہے، پانچ چھ سوراخ بھی ایک جیسے ہیں کیونکہ یہ نیچر کی بے ترتیبی سے نہیں خدا کی قدرت سے ایک ترتیب میں پیدا ہوے ہیں، گاے کے ہاں انسانی بچہ نہیں پیدا ہوسکتا

        سٹرکچر ایک جیسا ہونا کے باوجود بھی یہ ممکن نہیں دو چار پیس کے فگنر ٹپس آپس میں میچ کر جایں … کیوں کہ تخلیق جو ہاتھوں اور ذہانت سے ہوتی ہے اس میں غلطی ممکن ہوتی ہے چاہے وہ خدا ہی کیوں نہ ہو … اب آپ کہیں گے خدا غلطی نہیں کر سکتا … تو پھر وہ بچے جن کے دلوں میں سوراخ ہوتے … جو پیدائش معذور ہوتے ہیں … اگر وہ آپ کے بقول خدا پیدا کرتا ہے تو پھر اس سے یہی ثابت خدا مکمل نہیں ہے

        unsafe
        Participant
        Offline
        Thread Starter
        • Advanced
        #13
        ۔ مطلب ۔۔۔ پوری دنیا میں ۔۔۔ عریانیت ۔۔۔۔ پورنو گرافی ۔۔۔ ایجاد کرنے والا یورپ ۔۔۔۔ بتا ئے گا کہ ۔۔۔ مذ ھب ہونا چا ھیے کہ نہیں ۔۔۔۔ بندہ اتار لے جوتی اور کردے تیری چھترول ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        پورنو گرافی یوروپ والوں نے ایجاد ضرور کیا ہے مگر پاکستان اس میں اپنے پاکیزہ معاشرے کے ساتھ ٹاپ کر رہا ہے… عریانیت آپ کو صرف اس جنسی گھٹن زدہ معاشرے کی وجہ سے نظر آتی ہے … حقیقت میں مرد اور عورت کی ساخت ایک جیسی ہے … ہماری لئے عورت کے خاص حصے بہت نمایاں ہیں کیوں کہ اس کے پیچھے ہمارا کلچر ، ہمارا شادی نظام ، اور ہماری جنسی ضرورتوں کا دیر تک پورا ہونا نہ شامل ہے …..

        اپ یوروپ کے ساحل پہ کھڑے ہیں اور پاکستان کے ساحل پہ دونوں ساحلوں پہ آپ کو فرق نظر اے گا وہاں عورت اپنی مرضی سے جو اس کے دل میں اے وہ پہن کر گھوم سکتی ہے .. پاکسان کے ساحل میں کوئی ایک برقع پوش عورت بھی آ جاۓ تو سارے مرد حضرات ان کو ہی گھور رہے ہوتے ہیں

        Guilty
        Participant
        Offline
        • Expert
        #14

        پورنو گرافی یوروپ والوں نے ایجاد ضرور کیا ہے مگر پاکستان اس میں اپنے پاکیزہ معاشرے کے ساتھ ٹاپ کر رہا ہے… عریانیت آپ کو صرف اس جنسی گھٹن زدہ معاشرے کی وجہ سے نظر آتی ہے … حقیقت میں مرد اور عورت کی ساخت ایک جیسی ہے … ہماری لئے عورت کے خاص حصے بہت نمایاں ہیں کیوں کہ اس کے پیچھے ہمارا کلچر ، ہمارا شادی نظام ، اور ہماری جنسی ضرورتوں کا دیر تک پورا ہونا نہ شامل ہے …..

        اپ یوروپ کے ساحل پہ کھڑے ہیں اور پاکستان کے ساحل پہ دونوں ساحلوں پہ آپ کو فرق نظر اے گا وہاں عورت اپنی مرضی سے جو اس کے دل میں اے وہ پہن کر گھوم سکتی ہے .. پاکسان کے ساحل میں کوئی ایک برقع پوش عورت بھی آ جاۓ تو سارے مرد حضرات ان کو ہی گھور رہے ہوتے ہیں

        ۔۔۔

        شراب ۔۔ کلب ۔۔۔ جوئے خانے ۔۔۔ کسینو۔۔۔۔۔ زنا ۔۔۔  میں ٹاپ کرنے والے ۔۔۔۔ بتا ئیں گے کہ ۔۔۔۔ مذ ھب روحانیت ہونی چا ھیے یا نہیں ۔۔۔۔

        unsafe
        Participant
        Offline
        Thread Starter
        • Advanced
        #15
        ۔۔۔ شراب ۔۔ کلب ۔۔۔ جوئے خانے ۔۔۔ کسینو۔۔۔۔۔ زنا ۔۔۔ میں ٹاپ کرنے والے ۔۔۔۔ بتا ئیں گے کہ ۔۔۔۔ مذ ھب روحانیت ہونی چا ھیے یا نہیں ۔۔۔۔

        یہ سب انٹرٹینمنٹ ہے اور وہاں یہ سب کچھ بلا بلا تردد میسر ہے ۔ اور گورنمںٹ اس صنعت سے بھی کروڑوں ڈالر کا ٹیکس سالانہ اکھٹا کرتی ہے ۔
        اور پاکستان میں معاشرتی زندگی کا کوئی وجود نہیں.. جہاں لوگ جنسی گھٹن کی وجہ سے پہلے ہی مریض بنے ہوے ہیں …. انٹرٹینمنٹ تو دور کی بات شادی کرنا ہی اتنا اتنا مشکل ہے اور شادی ہو بھی جاے تو پھر کوئی شادی رجسڑڈ ہوتی ہے..جواء یہاں کا پسندیدہ کھیل ہے کرکٹ پہ بہت لگتا ہے …شراب کا استعمال گھروں میں ایسے ہے جیسے پانی .. اپ روحانیت ہونے کے باوجود بھی ووہی کچھ کر رہے ہو تو پھر کیا فائدہ ایسی روحانیت کا

        نادان
        Keymaster
        Offline
          #16
          میڈم اپ اگر دل کی بجائے دماغ سے کام لیں تو آپ کو سر سے فگنٹر ٹپس تک انسان کے مختلف ہونے میں نا خدا نظر اے گا .. وہ کیسے …. کیوں کہ اگر انسان کسی زہین مذبی خدا کی تخلئیق ہوتی تو ایسا ممکن ضرور ہوتا کہ اربوں انسانوں میں ہزاروں انسان کے چہرے ایک جیسے نکل آتے … سو انسانوں کی فنگٹر ٹپس میچ کر جاتی ہیں …. انسان کوئی بھی چیز بناتا ہے تو اس میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی جو بلکل دوسری چیز کی کوپی ہوتی ہیں .. آپ آٹے میں نمک مکس تو کر سکتی ہیں پر اس میں آٹے اور نمک کے دانے علیدہ نہیں کر سکتی ……

          کبھی آپ نے لکھ کر خود پڑھا ہے ..

          جسٹ آسکنگ

          Ghost Protocol
          Participant
          Offline
          • Expert
          #17

          ۔ کل ہی ن لیگ کی ایک خاتون رکن اسمبلی رخسانہ کوثر نے پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی کہ داڑھی کی ڈیزائننگ پر پابندی عائد کی جائے، کیونکہ داڑھی نبی کی سنت ہے اور اس کی ڈیزائننگ سے نبی کی سنت کی توہین ہوتی ہے۔۔

          رخسانہ بیبی کسی کا بدلہ پوری قوم کے مردوں سے لینے کا ارادہ رکھتی ہیں

          :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

          Ghost Protocol
          Participant
          Offline
          • Expert
          #18

           گھامڑ شخص کیمرہ اور مائیک لے کر پہنچ گیا اور ہر کسی سے پوچھنے لگا کہ بتاؤ تم قادیانیوں کو کافر مانتے ہو کہ نہیں۔ اس کے سوال کے جواب میں جب کئی لڑکے لڑکیوں نے ان کے عقائد پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا تو وہ انسان نما رپورٹر ان پر زور ڈالنے لگا کہ وہ ضرور بالضرور انہیں کافر سمجھیں یا کہیں۔۔

          زندہ صاحب میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسی سوچ کے پیچھے ہمارا ناقص تعلیمی نظام ، ہمارے نظریات عقائد ، ہمارا کلچر اور ہمارا معاشرہ ہے جو کہ نئی سوچ ، انفرادیت اور جدت پسندی کا مخالف ہے 

          اسی ذہنیت کے مظاہرے آپ کو اس فورم پر بھی نظر آتے ہیں جہاں کبھی فرمائشی تقاضہ ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جائے کبھی تقاضہ ہوتا ہے نظریہ ارتقا پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جائے . مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ فتوی ہاتھ میں تھمادیا جائے -دونوں رویے ایک ہی سوچ کے مظاہر ہیں

          unsafe
          Participant
          Offline
          Thread Starter
          • Advanced
          #19

          گھامڑ شخص کیمرہ اور مائیک لے کر پہنچ گیا اور ہر کسی سے پوچھنے لگا کہ بتاؤ تم قادیانیوں کو کافر مانتے ہو کہ نہیں۔ اس کے سوال کے جواب میں جب کئی لڑکے لڑکیوں نے ان کے عقائد پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا تو وہ انسان نما رپورٹر ان پر زور ڈالنے لگا کہ وہ ضرور بالضرور انہیں کافر سمجھیں یا کہیں۔۔

          زندہ صاحب میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسی سوچ کے پیچھے ہمارا ناقص تعلیمی نظام ، ہمارے نظریات عقائد ، ہمارا کلچر اور ہمارا معاشرہ ہے جو کہ نئی سوچ ، انفرادیت اور جدت پسندی کا مخالف ہے

          اسی ذہنیت کے مظاہرے آپ کو اس فورم پر بھی نظر آتے ہیں جہاں کبھی فرمائشی تقاضہ ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جائے کبھی تقاضہ ہوتا ہے نظریہ ارتقا پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جائے . مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ فتوی ہاتھ میں تھمادیا جائے -دونوں رویے ایک ہی سوچ کے مظاہر ہیں

          کسی سے کسی سبجیکٹ پر اس کی راے پوچھنا اس میں کوئی حجت نہیں .. ہم نے دوسرے تھرریڈ میں صرف آپ کی راے مبارک پوچھی تھی … آپ کے ایمان مبارک پر شک نہیں کیا تھا … کہ آپ کافر ہیں یا مسلمان … قادیانی ہیں یا وہابی … جبکہ فوٹو گرافر بلاوجہ سب کو تنگ کر رہا ہے ….. بلکل آپ نے ابھی ایسا ہی کیا .. ایک اور تھریڈ میں دوسرے تھریڈ کی بات لے آ کر دو معزز بلاگر کے جذبات کو ٹھیس پونچائی ہے… آپ ہمیں فورس کر رہے ہیں کہ ہم زبردستی آپ سے پوچھیں کہ آپ کا نظریہ ارتقا کے بارے میں کیا خیال ہے .. تا کہ آپ اس کو چھپاتے رہیں … ایسا کرنا ٹھیک نہیں …

          unsafe
          Participant
          Offline
          Thread Starter
          • Advanced
          #20
          کبھی آپ نے لکھ کر خود پڑھا ہے .. جسٹ آسکنگ

          میڈم آپ نے کبی کسی پوسٹ کا ٹو دی پوانٹ بھی جواب دیا .. جسٹ اسکنگ

        Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 41 total)

        You must be logged in to reply to this topic.

        ×
        arrow_upward DanishGardi