Home › Forums › Siasi Discussion › گھبراہٹ فطری جب تیر ہدف پہ بیٹھے
- This topic has 72 replies, 13 voices, and was last updated 2 years, 8 months ago by
Ghost Protocol. This post has been viewed 2635 times
-
AuthorPosts
-
24 Sep, 2020 at 7:19 am #1وزرا کی ایک پوری کھیپ نوازشریف کی آل پارٹیز کانفرنس میں تقریر کو اُدھیڑنے بیٹھ جائے تو گھبراہٹ واضح نظر آتی ہے۔ اور جب اس تقریر کو پاکستان مخالف ایجنڈے سے ملا دیا جائے تو پریشانی اور واضح ہو جاتی ہے۔
یہ آل پارٹیز کانفرنس والی مشق بے معنی ہوتی اگر نوازشریف کی یہ تقریر نہ ہوتی۔ اس میں کوئی روایتی جملے بازی نہ تھی بلکہ یہ ایک جامع اور مدلل چارج شیٹ تھی‘ اور یہ چارج شیٹ تھی اُن عوامل کے خلاف جنہوں نے اُن کی سمجھ کے مطابق پاکستان جمہوریت اور پاکستان کو اپنے مسلسل مداخلت سے نقصان پہنچایا ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کا انہوں نے حوالہ دیاکہ ایک موقع پہ انہوں نے کہا تھاکہ ریاست میں ایک ریاست بن چکی ہے لیکن نواز شریف کے بقول اب صورتحال ایسی ہے کہ یہ ریاست ماورائے ریاست ہوچکی ہے۔ ایسی باتیں ایسے موقع پر شاذ ہی کسی بڑے پاکستانی لیڈر نے کی ہوں۔ نتیجتاً کئی دلوں میں یہ پچھتاوا ضرور اُٹھ رہا ہوگا کہ نوازشریف کو باہر کیوں جانے دیا۔
نوازشریف کی بات کھٹکتی یوں ہے کہ ایسے لوگوں کی کمی نہ ہوگی جو ان کی بات کو حقیقت کے قریب سمجھتے ہوں گے۔ جس خیال کا اظہار نوازشریف نے کیا‘ وہ پاکستانی ذہنوں میں خاصا عام ہے لیکن اس انداز میں شاید ہی کسی بڑے لیڈر نے اسے زبان دی ہو۔ صورتحال مختلف ہوتی اگر ملک کے موجودہ حالات میں ایک فعال اور مؤثر حکومت ہوتی۔ عام تاثر البتہ یہی ہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ہے اور جو توقعات وزیر اعظم عمران خان سے کی جارہی تھیں اُن پہ وہ پورا نہیں اُتر سکے۔ فعال حکومت ہوتی تو نوازشریف کی جامع تنقید کا جواب دینا اتنا مشکل نہ ہوتا‘ لیکن ملک کی مجموعی صورتحال ایسی بن چکی ہے کہ نوازشریف کا ہر جملہ اورہر بات بہت سے دھڑکتے دلوں کو لگی ہوگی۔
یہی پریشانی کی وجہ ہے کیونکہ جن عوامل یا اداروں پہ بھرپور تنقید کی گئی ہے وہ ایسی تنقید سے کبھی خوش نہیں ہوتے۔ حکمرانی پہ جس انداز میں بھی اثر انداز ہوں وہ اپنے آپ کو سیاسی تنقید سے اوپر یا ماورا سمجھتے ہیں۔ چونکہ حکمرانی پہ اثر انداز ہوتے ہوئے بھی وہ پچھلے قدموں پہ رہتے ہیں اور سامنے سیاسی حکومت ہوتی ہے؛ چنانچہ وہ خود تو ایسی تنقید کا براہ راست جواب نہیں دے سکتے۔ توقع یہی ہوتی ہے کہ اول تو ایسی بوچھاڑ آئے گی نہیں اور اگر آئے بھی تو سیاسی والے اس کا مؤثر جواب دے سکیں گے‘ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت سے ایسے مؤثر جواب کا سوچنا بھی محال ہے۔
نوازشریف کی تنقید کا اثر دیرپا ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ اندیشہ بھی کئی ذہنوں میں اُٹھ سکتا ہے کہ اب سے لیکر اگلے انتخابات تک، جب بھی اُن کا انعقاد ہو، نوازشریف کی لائن قومی سیاسی گفتگو کی بنیادی لائن بن جائے گی۔ دیگر موضوع ایک طرف رہ جائیں گے اورقومی بحث کا محور یہی ریاست کے اندر ریاست یا ریاست سے ماورا ریاست والا نکتہ ہو گا۔ عمران خان کی مصیبت یہ ہے کہ جتنا وہ اداروں کا دفاع کریں اتنا اُن کے بارے میں تاثر پختہ ہوگا کہ وہ اپنے ماسٹر نہیں بلکہ کسی اور ماسٹر کی آواز ہیں۔ ہوں یا نہ ہوں‘ وہ الگ بات ہے لیکن تاثر اپنے جگہ قائم رہتے ہیں۔
اقتدار سے معزولی کے بعد نوازشریف کی سیاست ایک بند گلی میں آگئی تھی۔ اے پی سی کے اس موقع سے جس انداز میں انہوں نے فائدہ اٹھایا ہے اس سے انہیں ایک نئی راہ میسر آگئی ہے۔ پاکستان میں تھے تو کبھی دھاڑیں مارتے بھی تو پھر چپ سادھنا پڑتی کیونکہ نیب کے مقدمات تھے اور احتساب عدالت کی سزا۔ لندن جاکے اُن کیلئے سیاسی راہیں کھل گئی ہیں۔ جو لائن انہوں نے اختیار کی‘ وہ ایک بھرپور وار یا frontal assault ہے‘ اور اُن کا کچھ نہیں جاتا کیونکہ وہ لندن کی آزاد ہوا میں ہیں۔ انہوں نے کچھ کرنا بھی نہیں، بس وقفے وقفے سے ایک آدھ بیان داغ دینا ہے اور حکومت اُس کا جواب دینے میں لگ جائے گی۔ اب یقین سے کہاجا سکتاہے کہ آئندہ الیکشن تک اُن کا سیاسی ہیڈ کوارٹر لندن ہی رہے گا۔ وہاں سے گولہ باری کریں گے اورموجودہ حکومت سے زیادہ اُن عناصر کی پریشانی بڑھتی جائے گی جو اُن کے تجزیے کا اصل نشانہ ہیں۔ حکومت اور اداروں کیلئے صورتحال موزوں نہ ہوگی لیکن نوازشریف کیلئے نہایت موزوں ہے۔
نوازشریف کی سیاسی زندگی کا آغاز جنرل ضیاالحق کی چھتری تلے ضرور ہوا لیکن وہ عوامی لیڈر تب بنے جب ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی۔ 1990ء میں وزیراعظم بنے لیکن صحیح معنوں میں عوامی لیڈر نہ تھے۔ اس شکل میں وہ تب نمودار ہوئے جب بطور وزیراعظم اچانک صدر غلام اسحاق خان کے خلاف ‘میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ والی تقریر کی۔ وہ لمحہ تھا جب اُن کی سیاسی حیثیت تبدیل ہوگئی۔ انہیں اداروں کا کٹھ پتلی سمجھا جاتا تھا لیکن اس تقریر کے بعد وہ ایک عوامی لیڈر کے روپ میں سامنے آئے۔ اُن کی جماعت کی ہیئت بھی تبدیل ہوگئی۔ مسلم لیگ نواز کو بھی ایک عوامی جماعت سمجھا جانے لگا۔
اُن کا دوسرا ٹکراؤ جنرل پرویزمشرف سے تھا۔ اس کی تفصیلات سے سب آگاہ ہیں۔ بطور وزیراعظم اُن کا دوسرا دور (1997-1999ء) اتنا درخشاں نہ تھا‘ لیکن اقتدار سے محرومی نے انہیں ایک نئی سیاسی جان بخش دی۔ پاکستان میں پابندِ سلاسل رہتے تو تڑپتے رہتے‘ لیکن شریف خاندان نے مدبرانہ فیصلہ کیاکہ بیکار کی شہادت سے‘ جس قیمت پہ بھی آزادی ملے بہتر ہے۔ جو ضمانتیں مشرف حکومت نے مانگیں شریف خاندان نے دیں۔ مقصد تھا کسی طریقے سے پنچھی پنجرے سے نکلے۔ سعودی عرب پہنچے تو متعدد پابندیاں تھیں۔ سفر پہ پابندی تھی۔ بولنے پہ بھی کسی حد تک پابندی تھی‘ لیکن مختلف ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے پہلے شہباز شریف سعودی عرب سے فرار ہوئے اورپھر نوازشریف بھی لندن پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہاں وہ زیادہ کھل کے بولنے لگے۔ 2007ء میں پاکستان آنے کی کوشش کی اور ناکام ہوئے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ سے ہی انہیں واپس کردیا گیا‘ لیکن نوازشریف کی خوش قسمتی ملاحظہ ہوکہ جب بینظیر بھٹو پاکستان لوٹیں تو اُن کا (نوازشریف کا) راستہ بھی کھل گیا۔ وکلا کی تحریک سے اقتدار پہ جنرل مشرف کی گرفت کمزور ہوچکی تھی‘ جب فوجی کمان چھوڑنا پڑی اور 2008ء کے انتخابات ہوئے تو اُن کی پوزیشن مزید کمزور ہوگئی اور جب وفاق میں پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی اور پنجاب میں شہباز شریف وزیراعلیٰ بن گئے تو ہواؤں کا رخ یکسر بدل گیا۔ شریف فیملی کے خلاف تمام مقدمات بتدریج ختم ہوتے گئے‘ ماضی میں دی گئی تمام ضمانتیں بیکار ثابت ہوئیں۔
موجودہ ٹکراؤ جس کا واضح آغاز اے پی سی کی تقریر سے ہوا نوازشریف کی سیاسی زندگی کا تیسرا ٹکراؤ ہے۔ جوں جوں اس ٹکراؤ کی بازگشت زور پکڑے گی کرپشن کے الزامات مدہم پڑتے جائیں گے۔ عوام کی نظریں ماضی کی تلخیوں اور الزام تراشیوں سے ہٹ کر عمران خان حکومت کی کارکردگی کی طرف جائیں گی‘ اورغور اس بات پہ ہوگا کہ نوازشریف کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔ گزرے ادوار میں نون لیگ کی یہ بہت کامیاب حکمت عملی رہی کہ اُس نے عوام کو باور کرایا کہ میاں کی حکومت کو کبھی پورا ہونے نہیں دیاگیا۔ انہیں اقتدار پورا کرنے دیاجاتا تو پتا نہیں کون سے معجزات رونما ہو جاتے۔ اب کی بار لائن قدرے مختلف ہے کہ متوازی حکومت (اشارہ واضح ہوناچاہیے) یا ریاست سے ماورا ریاست جمہوری حکومتوں کو کام ہی نہیں کرنے دیتی۔
عمران خان طیب اردوان یا مہاتیر محمد ہوتے تو اور بات تھی۔ نوازشریف کے قومی اورسیاسی تجزیوں کو پھر کس نے سننا تھا‘ لیکن موجودہ بندوبست کا المیہ یہی ہے کہ عمران خان بس عمران خان ہی ہیں۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ نوازشریف کے تین سیاسی جنم تو ہو چکے۔ کیا موجودہ نالائقی چوتھے جنم کی راہ ہموار تو نہیں کررہی؟https://dunya.com.pk/index.php/author/ayaz-ameer/2020-09-23/32485/29176452
24 Sep, 2020 at 7:31 am #3مجھے تو لگتا تھا یہ سابق فوجی میاں صاحب پر خوب تنقید کے نشتر چلائے گا مگر خلاف توقو ع اس نے اسے میاں صاحب کی طرف سے ایک جاندار قدم قرار دے کر مخالفین کو خبردار کیا ہے کہ میاں صاحب کا کچھ نہیں جاتا اپنی خیر مناؤ – یہاں اس نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ایک حقیقت ہے اور بہت زیادہ لوگ اب ملک میں بھی فوج کے سیاسی کردار کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں – میں اپنی طرف سے اتنا ہی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ میاں صاحب اب کم چک کے رکھو اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا – اپنے بھائی کی باتوں میں نہیں آنا اور اپنی بیٹی کو سڑکوں کو اپنی آواز بناؤ لوگ مریم کی آواز کو اس کے باپ کی آواز سمجھیں گے اور مریم کو اگر جیل میں ڈال دیا گیا تو یہ بھی گھاٹے کا سودا نہیں آوازیں اور بلند ہونگی –
@Zaidiqasim
@Believer12
Aamir Siddique Siddique
@muhammad hafeez
- local_florist 2 thumb_up 1 mood 1
- local_florist Bawa, JMP thanked this post
- thumb_up Zaidi liked this post
- mood Aamir Siddique react this post
24 Sep, 2020 at 7:44 am #4اعوان صاحب۔ یہ تو آپکا گمانڈی ہے ، میں اسے کئ بار چھپڑ بازار میں دیکھ چکا ہوں ۔ شاید اب کچھ کم کم پیتا ہے ۔
زیدی صاحب یہ چکوال کا ہے – ویسے تو زیادہ تر اعوان اسی علاقے اور سرگودھا سائیڈ سے ہیں مگر میں لاہور کی جم پل ہوں اسلئے اس علاقے کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا – یہ بندا ایاز امیر پکا کپی ہے سب کو پتا ہے بلکے بحظ اوقات چڑھا کر پروگرام میں بھی آ جاتا ہے – نون نے جب چکوال سے اسے ٹکٹ نہ دیا تو یہ کافی عرصہ ان کے خلاف رہا اور کچھ کچھ جھکاؤ لگا کہ تحریک انصاف کی طرف ہے مگر پچھلے دو سال میں اس نے خان حکومت کو خوب لتاڑا ہے اور کہیں ان کی حمایت نہیں کی – کچھ سنا تھا کہ نگران سیٹ اپ میں اس کی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر چناؤ کو زیر بحث لا کر رد کر دیا گیا – یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے خان حکومت سے متنفر ہونے کی – ہماری سیاست میں آپ کبھی بھی مکمل نیو ٹرل نہیں ہو سکتے کہیں نہ کہیں آپ کا پلڑا کسی طرف جھک ہی جاتا ہے – میں نے پہلی بار اس کے پلڑے کا جھکاؤ اینٹی اسٹیبلشمنٹ لائن کی طرف جاتا دیکھا ہے – لگتا ہے زہن بن رہے ہیں بس اب صحافیوں کو بھی ہمت کر کے اس بیانئے کی آواز بلند کرنا ہو گی – کرپشن کا بیانیہ پٹ چکا اب یہی نیا بیانیہ ہے یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
- thumb_up 1
- thumb_up Zaidi liked this post
24 Sep, 2020 at 8:05 am #5میں بھی اسے بہت عرصے سے سنتا اور پڑھتا رہا ہوں ۔ اس کا تعلق بھی چونکہ فوج سے ہے لہذا اس کا مائنڈ سیٹ بھی ڈکٹیٹرانہ ہے ۔ لیکن اچھا لکھاری ہے خصوصا” انگلشن پہ گرفت کافی مضبوط ہے ۔ باقی شراب وراب تو ان کے ھاں پانی کی طرح استعمال کی جاتی ہے ۔ ان حرامیوں کو تو فوجی میس سے بھی شراب مل جاتی ہے ۔
-
This reply was modified 2 years, 8 months ago by
Zaidi.
- local_florist 1
- local_florist Awan thanked this post
24 Sep, 2020 at 8:41 am #6ردعمل سے لگ رہا ہے کہ نواز شریف کے تیر ٹھیک ٹھیک نشانے پر لگے ہیں۔
— Wakeel (@lawliga) September 23, 2020
- thumb_up 1
- thumb_up Amir Ali liked this post
24 Sep, 2020 at 8:43 am #7شیخونےمیٹنگ کا بھانڈا پھوڑا
پھر طلعت نے راز فاش کیا
کامران نے لہجے کی لجاجت کا بتایا
تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے آرمی چیف کی
محمد زبیر سے ملاقات کا کنفرم کیا
اب زبیر نے طویل تعلقات کا بتایا
ڈی جی صاحب بال دوبارہ آپ کے کورٹ میںپلیز قوم کو مزید ثبوت دیں کہ جرنیل سیاست میں ملوث نہیں
— Absar Alam (@AbsarAlamHaider) September 23, 2020
24 Sep, 2020 at 8:54 am #8– میں اپنی طرف سے اتنا ہی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ میاں صاحب اب کم چک کے رکھو اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا – اپنے بھائی کی باتوں میں نہیں آنا اور اپنی بیٹی کو سڑکوں کو اپنی آواز بناؤ لوگ مریم کی آواز کو اس کے باپ کی آواز سمجھیں گے اور مریم کو اگر جیل میں ڈال دیا گیا تو یہ بھی گھاٹے کا سودا نہیں آوازیں اور بلند ہونگی
اعوان بھائی،
محسوس ہوتا ہے آپ کے قلب میں بھی تبدیلی واقع ہوگئی ہے اور شہباز کی جگہ نواز کی طرف آپکا جھکاؤ ہو رہا ہے.
تاریخ کے جس موڑ پر میاں صاحب پچھلے تین سال سے کھڑے ہیں یہ موقع پاکستان کی تاریخ میں کسی اور سیاستدان کے پاس نہیں آیا اور نہ ہی مستقبل قریب میں کسی اور کے پاس آنے کا امکان ہے آپ کو یاد ہوگا اسی موضوع پر میں نے “نواز شریف کا موقع” کے عنوان سے دھاگہ بنایا تھا کافی دوستوں کو وہ بات اسطرح سے سمجھ نہیں آی تھی جو میں کہنا چاہ رہا تھا.
تاریخی طور پر اس عظیم موقع کے ہونے کے باوجود جو چیز میاں صاحب کے پاس نہیں ہے وہ ہے انکی ساکھ اور کردار . میاں صاحب نے ہمیشہ بلی کے بکروں کی قربانی دی ہے اور وقت قیام پر سجدوں میں گرنے کو ترجیح دی ہے لہذا یہ نری خام خیالی ہوگی کہ اگر انسے کسی انقلابی کردار کی امید لگائی جاسکے . مگر میری خواہش ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ انکو اور انکے خاندان کو اتنا رگڑا لگایے کہ یہ چاہ کر بھی واپسی کی راہ نہ لے سکیں اور لندن سے بیٹھ کر اسٹیبلشمنٹ کے گندے کرتوتوں پر سے پردے ہٹاتے رہیں اور جسطرح ای ایس پی آر خبریں لیک کرکے انکے لئے خفت کا موجب بن رہا ہے بلکل اسی طرح یہ بھی سینوں میں دبے راز ایک ایک کرکے سامنے لاتے رہیں میں نے تو پاپ کورن کی مشین ہی خرید لی ہے کہ جانے کب ضرورت پڑ جائے24 Sep, 2020 at 5:11 pm #10زرا خط شط لکھو اپنے فیورٹ کو، کیا چولوں پر اتر آیا ہےایزی گو۔۔۔۔۔
یہ وقت بے وقت کی عزاداری آپ اور دیگر عزاداروں کا دماغی سَنتولن مکمل طور پر بگاڑ کر ہی چھوڑے گی۔۔۔۔۔ آثار نظر آنا شروع ہوچکے ہیں۔۔۔۔۔
ذرا اپنا خیال رکھا کریں۔۔۔۔۔
ویسے دُرست ہی تو لکھا ہے ایاز امیر نے۔۔۔۔۔ اور مَیں متفق ہوں اِس مضمون سے۔۔۔۔۔
حد ہی کردی آپ نے تو۔۔۔۔۔
24 Sep, 2020 at 5:31 pm #11ایزی گو۔۔۔۔۔ یہ وقت بے وقت کی عزاداری آپ اور دیگر عزاداروں کا دماغی سَنتولن مکمل طور پر بگاڑ کر ہی چھوڑے گی۔۔۔۔۔ آثار نظر آنا شروع ہوچکے ہیں۔۔۔۔۔ ذرا اپنا خیال رکھا کریں۔۔۔۔۔ ویسے دُرست ہی تو لکھا ہے ایاز امیر نے۔۔۔۔۔ اور مَیں متفق ہوں اِس مضمون سے۔۔۔۔۔ حد ہی کردی آپ نے تو۔۔۔۔۔کمال ہے
آپکو اس میں بیوقوفی نظر نہیں آ رہی
فوج کے خلاف تقریر کو سراہنا کہاں کی عقلمندی ہے
👽🤪😋
- mood 1
- mood Bawa react this post
24 Sep, 2020 at 6:31 pm #12اعوان بھائی، محسوس ہوتا ہے آپ کے قلب میں بھی تبدیلی واقع ہوگئی ہے اور شہباز کی جگہ نواز کی طرف آپکا جھکاؤ ہو رہا ہے.تاریخ کے جس موڑ پر میاں صاحب پچھلے تین سال سے کھڑے ہیں یہ موقع پاکستان کی تاریخ میں کسی اور سیاستدان کے پاس نہیں آیا اور نہ ہی مستقبل قریب میں کسی اور کے پاس آنے کا امکان ہے آپ کو یاد ہوگا اسی موضوع پر میں نے “نواز شریف کا موقع” کے عنوان سے دھاگہ بنایا تھا کافی دوستوں کو وہ بات اسطرح سے سمجھ نہیں آی تھی جو میں کہنا چاہ رہا تھا. تاریخی طور پر اس عظیم موقع کے ہونے کے باوجود جو چیز میاں صاحب کے پاس نہیں ہے وہ ہے انکی ساکھ اور کردار . میاں صاحب نے ہمیشہ بلی کے بکروں کی قربانی دی ہے اور وقت قیام پر سجدوں میں گرنے کو ترجیح دی ہے لہذا یہ نری خام خیالی ہوگی کہ اگر انسے کسی انقلابی کردار کی امید لگائی جاسکے . مگر میری خواہش ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ انکو اور انکے خاندان کو اتنا رگڑا لگایے کہ یہ چاہ کر بھی واپسی کی راہ نہ لے سکیں اور لندن سے بیٹھ کر اسٹیبلشمنٹ کے گندے کرتوتوں پر سے پردے ہٹاتے رہیں اور جسطرح ای ایس پی آر خبریں لیک کرکے انکے لئے خفت کا موجب بن رہا ہے بلکل اسی طرح یہ بھی سینوں میں دبے راز ایک ایک کرکے سامنے لاتے رہیں میں نے تو پاپ کورن کی مشین ہی خرید لی ہے کہ جانے کب ضرورت پڑ جائے
گھوسٹ بھائی فوج سے کسی اختلاف پر میاں صاحب کا اپنا تو نہیں بنتا تھا البتہ انہیں پیغام دینے کے لئے کہ آپ کے اعتراض کے بھد متعلقہ وزارت کے کو مستہفی کرا دیا ہے یہ ساتھ چلنے کی ایک کوشش قرار دی جا سکتی ہے لیکن مخالف فریق آپ پر چڑھتا ہی جا رہا تھا – یہ بات درست ہے جب تحلقات پائنٹ آف نو ریٹرن تک چلے گئے تو مستہفی ہونا بنتا تھا یہاں میاں صاحب سے اندازے کی غلطی ہوئی – اس بار مگر ان کا اندازہ درست ہے اور شہباز ہوا میں باتیں کر رہا ہے اب بھی خان فوج پارٹنرشپ پر مزاحمت نہ کی تو خان کو لمبے عرصے تک رکھنے کے لئے ضروری قانون سازی اور مکمل پلان بنا لیا جائیگا – ہار جیت مقدار مگر اب نکلنا ہو گا – ایک بار حکومت مل گئی تو وزارت عظمیٰ کے لئے مریم درست انتخاب نہیں وہاں شہباز ہی بنتا ہے کیونکے جب تک دو تہائی اکثریت نہیں ملتی میاں صاحب کی نا اہلی کو ختم نہیں کیا جا سکتا – باقی اگر پاکستان کے اندر ہوتے تو جیل میں تقریر تو کیا ان سے کسی سے ملنے کو بھی روک دیا جاتا ان کے ارادے جاننے کے بھد ملٹری نے ہمیشہ ڈرٹی گیم کی ہے ان کے قلحے پر محمّد بن قاسم بن کر دور سے ہی منجنیق کے ذریے پتھر مارنا بنتا ہے
25 Sep, 2020 at 3:19 pm #14مجھے تو لگتا تھا یہ سابق فوجی میاں صاحب پر خوب تنقید کے نشتر چلائے گا مگر خلاف توقو ع اس نے اسے میاں صاحب کی طرف سے ایک جاندار قدم قرار دے کر مخالفین کو خبردار کیا ہے کہ میاں صاحب کا کچھ نہیں جاتا اپنی خیر مناؤ – یہاں اس نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ایک حقیقت ہے اور بہت زیادہ لوگ اب ملک میں بھی فوج کے سیاسی کردار کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں – میں اپنی طرف سے اتنا ہی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ میاں صاحب اب کم چک کے رکھو اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا – اپنے بھائی کی باتوں میں نہیں آنا اور اپنی بیٹی کو سڑکوں کو اپنی آواز بناؤ لوگ مریم کی آواز کو اس کے باپ کی آواز سمجھیں گے اور مریم کو اگر جیل میں ڈال دیا گیا تو یہ بھی گھاٹے کا سودا نہیں آوازیں اور بلند ہونگی – Bawa JMP Ghost Protocol Atif Qazi Guilty @Zaidiqasim shami11 @Believer12 SaleemRaza Aamir Siddique Siddique @muhammad hafeezسو جتن کر کے باہر نکلے ہیں باپ بیٹی تسی فیر مرواؤ گے ، اس دفعہ تو بیماری کا بہانہ بھی نہیں چلنا
- mood 1
- mood BlackSheep react this post
25 Sep, 2020 at 3:29 pm #16قیامت تب آئے گی جب اعوان صاحب لوہار کے لونڈوں سے دَوا لینا بند دیں گے۔۔۔۔۔۔™©
25 Sep, 2020 at 6:00 pm #16قیامت تب آئے گی جب اعوان صاحب لوہار کے لونڈوں سے دَوا لینا بند دیں گے۔۔۔۔۔۔™©
جی نہیں قیامت تب آئے گی جب آپ سیاسی محاملات پر کھل کر اظھار خیال کریں گے – میں نے جو آپ کے طرف سے اب تک پڑھا ہے آپ کافی حد تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ لگے ہیں – یہ اچھا موقع ہے ، سیاسی محاملات پر فوجی مداخلت کا کچھ اظھار خیال کریں یا بتائیں کیا ہمیں اس کے لئے قیامت تک انتظار کرنا پڑے گا ؟
25 Sep, 2020 at 6:08 pm #17سو جتن کر کے باہر نکلے ہیں باپ بیٹی تسی فیر مرواؤ گے ، اس دفعہ تو بیماری کا بہانہ بھی نہیں چلنامیاں صاحب تو محفوظ کنارے جا چکے – مریم بی بی کبھی اقتدار کا حصہ نہیں رہیں انہیں کسی نئے مقدمے میں الجھانا مشکل ہو گا اورجیل میں ڈال بھی دیا تو ایک سیاسی عورت کو لمبے عرصے تک جیل ڈالا نہیں جا سکتا ہے – دو سال اپوزیشن کی طرف سے خان کو خوب آزادی ملی اب ذرا دما دم مست قلندر بھی انجوے کرو – گھبرانا نہیں خان حکومت کہیں نہیں جا رہی اس ساری مشق کا مقصد اگلے الیکشن کے لئے ایک بیانیہ بنانا ہے کرپشن کے خلاف جنگ کی بجائے “ووٹ کو عزت دو “
- mood 1
- mood Aamir Siddique react this post
25 Sep, 2020 at 6:18 pm #18باوا بھائی میاں صاحب کی بات محنی خیز ہے جب ملاقات چھپانی ہوتی ہے تو کبھی باہر نہیں نکلتی مگر جب ملاقات کو اپنی مرضی کے محنی پہنانے ہوں تو سات پردوں سے بھی باہر آ جاتی ہے – باہر لانے کا مقصد سیاست کو بے توقیر کرنا تھا کہ باہر ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے ہو اور اندر منت ترلے کرتے ہو – میاں صاحب کی طرف سے آیندہ کے لئے ایسی ملاقاتوں کو بند کرنے کا مقصد اس اٹیک کا کاؤنٹر اٹیک تھا –
- thumb_up 1
- thumb_up Bawa liked this post
26 Sep, 2020 at 12:04 am #19میاں صاحب تو محفوظ کنارے جا چکے – مریم بی بی کبھی اقتدار کا حصہ نہیں رہیں انہیں کسی نئے مقدمے میں الجھانا مشکل ہو گا اورجیل میں ڈال بھی دیا تو ایک سیاسی عورت کو لمبے عرصے تک جیل ڈالا نہیں جا سکتا ہے – دو سال اپوزیشن کی طرف سے خان کو خوب آزادی ملی اب ذرا دما دم مست قلندر بھی انجوے کرو – گھبرانا نہیں خان حکومت کہیں نہیں جا رہی اس ساری مشق کا مقصد اگلے الیکشن کے لئے ایک بیانیہ بنانا ہے کرپشن کے خلاف جنگ کی بجائے “ووٹ کو عزت دو “عمران خان پانچ سال پورے کر گیا تو ان کی باری نہیں آتی ، لکھ کے رکھ لیں میری بات
- thumb_up 1
- thumb_up نادان liked this post
26 Sep, 2020 at 2:42 am #20عمران خان پانچ سال پورے کر گیا تو ان کی باری نہیں آتی ، لکھ کے رکھ لیں میری باتبری جرنیلوں کی کرپشن چھپانے سے نہیں ملتی – خان کی پہلے کی سلیٹ صاف تھی مگر اب بری کارکردگی سے پوری دیوار بھری پڑی ہے آپ بھی لکھ لیں خان کسی صورت دوبارہ نہیں آ سکتا چاھے پوری نون لیگ کو ہی پھانسی پر چڑھا دے لوگ اندھے نہیں ہیں –
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.