Home Forums Siasi Discussion کیا تیل اور گیس کی قیمتوں پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں؟۔۔۔ غزالی فاروق

Viewing 8 posts - 1 through 8 (of 8 total)
  • Author
    Posts
  • Ghazali Farooq
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Member
    #1

    کچھ روز قبل  تیل کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کرنے پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات   فواد چوہدری صاحب  نے بیان دیتے ہوئے کہا “عالمی مارکیٹ میں  تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث حکومت کے پاس تیل کی قیمتوں میں اضافے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔” تیل کی قیمتوں میں اضافے کے دفاع میں حکومت کی جانب سے  علاقائی ملکوں کی قیمتوں سے تقابلی جائزہ اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی  (Petroleum Development Levy)کے ختم ہونے کے دلائل دئیے گئے۔  اور یوں بےبسی اور لاچارگی کی تصویر بن کر عوام کو مسلسل کڑوا گھونٹ پینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

     لیکن  اس کے بر عکس اگر مسٔلہ کا ذرا سا گہرائی  میں جا کر تجزیہ کیا  جائے  تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بے چارگی اور بے بسی  ہمارے حکمرانوں  کی  خود مسلط کردہ  ہے، نہ کہ یہ کوئی آفاقی حقیقت ہے کہ  جس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔تیل کی عالمی قیمتیں   اوپیک (OPEC)کی جانب سے تیل کی سپلائی کم یا زیادہ کرنے سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں ، البتہ  یہاں پر اہم بات یہ ہے  کہ سپلائی بڑھانے یا کم کرنے کا فیصلہ معیشت کے اصولوں یا مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق  نہیں کیا جاتا  بلکہ عالمی قوتوں کے مفادات کی خاطر کیا جاتا ہے۔لہٰذا  جب امریکہ اور یورپ کو سستے تیل کی ضرورت تھی تاکہ اس سے ان کی صنعت، ٹرانسپورٹ اور معیشت کا پہیہ تیزی سے چلتا رہے تو اس وقت یہ تیل دہائیوں تک 25 ڈالر فی بیرل سے بھی کم قیمت پر فروخت ہوتا رہا، یعنی یہ تیل فرانس کے منرل واٹر سے بھی سستا بکتا رہا ۔  ڈاکومینٹری فارن ہیٹ 9/11 کے مطابق سعودی عرب کے تیل سے امریکہ نے 88 کھرب ڈالر سے زائد کا فائدہ اٹھایا ۔ لیکن  اب جب  کہ امریکہ کو   اس بات کی  ضرورت ہے کہ  عالمی مارکیٹ میں تیل اور گیس کی مصنوعات  کی قیمتیں زیادہ ہوں  تا کہ  اس کی   شیل (Shale)   پر مبنی تیل  اور گیس  کی   مہنگی لاگت والی  مصنوعات عالمی منڈی میں   قابل فروخت (competitive) بن سکیں  اور وہ  ان کے  مزید ذخائر کی تلاش میں آنے والی لاگت کو بھی  پورا کر سکے   ، تو امریکہ اوپیک ممالک کے ذریعے ان مصنوعات کی سپلائی کم کروا دیتا ہے جس کے باعث ان  کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں  اور امریکی شیل آئل اینڈ گیس کمپنیاں کامیاب ہونے لگتی ہیں۔ انہی قسم کے اقدامات کی بدولت   امریکہ دنیا کا شیل آئل و گیس پیدا کرنے والا بڑا ملک بن گیا ہے۔

    اسی طرح جب امریکہ کو ایران پر دباؤ بڑھانا ہوتا ہے تو وہ بقیہ او پیک ممالک کے ذریعے پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی کو بڑھا  دیتا ہے ۔ یوں عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات  کی قیمتیں گر جاتی ہیں جس سے ایرا ن کی معیشت کو زک پہنچتی  ہے ، جس کا ایک بڑا حصہ   تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع پر مبنی ہے۔

    لہٰذا عالمی منڈی میں  پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے  کی  وجہ اکثر و بیشتر  عالمی قوتوں کے مفادات  کا تحفظ ہوتا ہے۔ اور ایسا اوپیک ممالک     کے حکمرانوں کی عالمی قوتوں  کے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور ان اوپیک ممالک میں بہت سے مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ لہٰذا یہ مسٔلہ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کا  خود مسلط کردہ ہے جس کو وہ چاہیں تو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔  اگر عالمی قوتیں تیل کی قیمتوں کا تعین اپنے مفادات کے مطابق کرتی ہیں اور ان قیمتوں کے سامنے ‘بےبس و لاچار’نہیں، تو کس نے مسلمانوں کے حکمرانوں کو روکا ہے کہ وہ  وسطی ایشیا، مشرق وسطہ اور افریقہ کے  مسلم ممالک  کو ایک ہی لڑی میں پرو  کر ان کے وسائل کو یکجا کر  دیں، جبکہ  ہم جانتے  ہیں کہ زیادہ تر تیل کے ذخائر مسلمانوں کے پاس  ہی ہیں؟! لیکن وہ  ایسا   نہیں کرتے کیونکہ یہ ان کے اپنے مفادات کے خلاف ہے اور انہیں مسلمانوں کے مفاد سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے۔

     تیل اور گیس  کی قیمتوں میں زیادتی کی  ایک  دوسری بڑی وجہ بھی  ہے  جو ہمارے حکمرانوں کے کنٹرول میں ہے۔ پٹرولیم سیکٹر  اسلام کے قانون معیشت کے مطابق  عوامی ملکیت   کے زمرے میں آتا ہے  نہ کہ کسی شخص یا  چند لوگوں  کی نجی ملکیت میں۔لہٰذا اگر  اس سیکٹر کو اسلام کی رو سے عوامی ملکیت    قرار دے دیا جائے تو ڈیلر کمیشن اور پٹرولیم مارکیٹنگ کمپنیوں سمیت آئل  سپلائی چین میں شامل پارٹیوں کا منافع ختم کر کے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔یوں ریاست عوام کی جانب سے  اس سیکٹر کو ریگولیٹ کرے گی  جس سے تیل اور گیس  کی قیمتیں عالمی منڈی میں اضافے کے باوجود لوگوں کی دسترس میں رہیں گی۔ اور اس سیکٹر سے  جو بھی منافع حاصل ہو گا  ، ریاست اسے  عوام  پر خرچ کرنے کی مجاز ہو گی۔ یوں  اس  سیکٹر سے حاصل ہونے والا بھاری منافع جو اس وقت  چند لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے،  وہ  تمام عوام میں تقسیم ہو  گا۔

    سرمایہ دارانہ نظام میں یہ بہت بڑا مسٔلہ ہے کہ  چونکہ ان کے ہاں  ” آزادیوں” کی فکر  کو عقیدے کی حیثیت حاصل  ہے، اس وجہ سے وہ   “ملکیت”  سمیت تمام معاملات میں   ” آزاد”  ہیں۔ یوں تو  بظاہر   اپنے نام سے  ” آزادیٔ ملکیت”  ایک    بہت دلکش فکر معلوم ہوتی  ہے لیکن ایک سرسری سے مطالعے کے بعد ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ دراصل  “لوگوں  کے  معاشی استحصال کی آزادی “ہے۔ کیونکہ جب لوگوں کو  ملکیت کی مطلق  آزادی  حاصل ہو تی ہے  اور نظام  یہ  ریگولیٹ نہیں کرتا  کہ   کس قسم کی  اشیاء کو نجی ملکیت میں   دیا جا سکتا ہے اور کس  کو نہیں ، تو نتیجتاً   اثر و رسوخ اور  سرمایے کے حامل  چند لوگ  ان  وسائل کے بھی تنہا مالک بن بیٹھتے ہیں  جن کا تعلق  اصلاً لوگوں کی بنیادی ضروریات سے ہوتا ہے۔  یوں  ان وسائل کے عوامی نوعیت کے ہونے کی وجہ سے وہ چند سرمایہ دار    بھاری منافع خوری کرتے ہیں  کیونکہ ریاست یا معاشرے کا  ہر شخص ہی ان کا کسٹمر ہو تا ہے،  اور اس طرح  پیسہ  تمام لوگوں کی جیبوں سے نکل کر صرف چند لوگوں کی جیبوں میں منتقل ہو  جاتا ہے۔ تبھی تو  اس نظام کا نام سرمایہ دارانہ نظام یا کیپٹلزم (Capitalism)ہے      کیونکہ یہ  صرف سرمایہ داروں  کو  فائدہ پہنچاتا ہے،  جبکہ اس کی بھاری  قیمت عوام کو  مہنگائی اور    غربت و افلاس کی  صورت میں ادا  کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے حکمران اگر چاہیں تو   اس نظام کو ایک حکم نامے سے تبدیل کر کے اس کی جگہ پر  اسلام کے معاشی نظام  کو  رائج کر سکتے ہیں۔ اس لیے  بھی ان کے پاس اس بے بسی اور لاچارگی  کا کوئی جواز نہیں جس کا وہ اظہار کرتے ہیں۔

     پھر  جنرل سیلز ٹیکس جیسا  ظالمانہ ٹیکس  قیمتوں کی زیادتی   کی ایک اور بڑی وجہ   ہے ۔  یہ وہ ٹیکس ہے  جو   “بالواسطہ  ٹیکس ” (Indirect Tax) کے زمرے میں آنے کی وجہ سے سبھی پر لاگو ہوتا ہے۔  یعنی چاہے کسی کے پاس  کھانے کو روٹی تک نہ ہو ، اسے  بھی یہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے  ۔ پھر  اپنی نوعیت کے اعتبار سے   “جنرل “یعنی  عمومی   ہونے کی وجہ سے یہ ٹیکس  ان اشیاء پر بھی لاگو ہوتا ہے جو ایک انسان کی بنیادی ترین ضروریات سے تعلق رکھتی ہیں۔   اگر   ہمارے حکمران   چاہیں تو عوام کو  ایک لمحے میں  اس قسم کے ظالمانہ ٹیکسوں سے چھٹکارہ دلا  سکتے ہیں  لیکن   ایسا کرنے کی بجائے وہ اپنی بے بسی کا ایسے اظہار کرتے نظر آتے ہیں جیسے ان کے بس میں کچھ بھی نہ ہو۔

    لہٰذا صرف اسلام کا نظام ہی لوگوں کو  معاشی استحصال اور  خود ساختہ مہنگائی جیسے مسائل سے نجات  دلا سکتا ہے۔  انگریز کی کھینچی گئی سرحدوں میں قید اور  مغرب کے مسلط کردہ عالمی آرڈر کی چوکھٹ پر سجدہ ریز  رہ کر پاکستان  اور دیگر مسلمان ممالک کبھی بھی عالمی طاقتوں کی مسلط کردہ بیڑیوں کو نہیں توڑ پائیں گے ، خواہ وہ تیل کی عالمی قیمتوں پر موثر طور پراثر اندازہونا ہو،  مسلم مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا ہو، آئی ایم ایف یا ایف اے ٹی ایف کے چنگل سے نکلنا ہو یا ڈالر کرنسی کا عالمی تجارت پر کنٹرول توڑنا ہو۔  مسلمانوں کو اب اپنے  اپنے وطن اور  قوم  کے   لیول سے  بلند ہو  کر       امت کے لیول پر آ کر  سوچنا ہو گا اور امت کے اتحاد  کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا باقاعدہ  تعین کرنا ہو گا ۔ صرف اور صرف اسی میں  ان کی کامیابی اور ترقی کا راز پنہاں ہے۔

    بلاگ: https://ghazalifarooq.blogspot.com

    • This topic was modified 1 year, 9 months ago by الشرطہ. Reason: Thumbnail Added
    Anjaan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #2
    ghizali Farooq

    Answer to your question is  NO.

    Next question?

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    انسان کو چا ھیے کہ ۔۔۔۔ دنیا می رھتا ہے تو ارد گرد ۔۔۔۔ حا لات و واقعات پر بھی غور کرتا رھے اور اپنی زاتی اور قومی اوقات پر بھی غور کرتا رھے ۔۔۔۔

    خواہ مخواہ ۔۔۔ خواب دیکھ کر وقت ضا ئع نہ کرے ۔۔۔۔

    تیل گیس  پر کیا کنٹرول ہونا تھا ۔۔۔۔۔

    پا کستان کے سب سے بڑے تجارتی صنعتی شہر کے دو کروڑ انسان ۔۔۔۔۔۔اپنے شہر ۔۔۔۔۔ سے گند گی کے ڈھیر ۔۔۔۔ اٹھوانے ۔۔۔۔۔ کا کنٹرول اختیار نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔

    بس یہ اوقات ہے ۔۔۔۔۔ انسا نوں کی اور انسا نوں کی قوم کی۔۔۔۔۔۔

    اس کے باوجود خواب دیکھنے پر کوئی پا بندی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ جتنے مرضی آئے دیکھیں ۔۔۔۔۔

    تبد یلی کے لیئے خواب دیکھ کر پورباش ہوجائیں تو ۔۔۔ سی پیک کے خواب دیکھ لیں ۔۔۔ سی پیک سے پور باش ہو جائیں تو ۔۔۔

    گیس بجلی کنٹرول کے دیکھ لیں ۔۔۔۔ یا پھر پا ک فوج نے ۔۔۔۔۔ فرانس ۔۔۔ نیویارک ۔۔۔۔ فتح کرلیا ہے ۔۔۔۔ یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔۔۔۔

    Anjaan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #4
    انسان کو چا ھیے کہ ۔۔۔۔ دنیا می رھتا ہے تو ارد گرد ۔۔۔۔ حا لات و واقعات پر بھی غور کرتا رھے اور اپنی زاتی اور قومی اوقات پر بھی غور کرتا رھے ۔۔۔۔ خواہ مخواہ ۔۔۔ خواب دیکھ کر وقت ضا ئع نہ کرے ۔۔۔۔ تیل گیس پر کیا کنٹرول ہونا تھا ۔۔۔۔۔ پا کستان کے سب سے بڑے تجارتی صنعتی شہر کے دو کروڑ انسان ۔۔۔۔۔۔اپنے شہر ۔۔۔۔۔ سے گند گی کے ڈھیر ۔۔۔۔ اٹھوانے ۔۔۔۔۔ کا کنٹرول اختیار نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔ بس یہ اوقات ہے ۔۔۔۔۔ انسا نوں کی اور انسا نوں کی قوم کی۔۔۔۔۔۔ اس کے باوجود خواب دیکھنے پر کوئی پا بندی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ جتنے مرضی آئے دیکھیں ۔۔۔۔۔ تبد یلی کے لیئے خواب دیکھ کر پورباش ہوجائیں تو ۔۔۔ سی پیک کے خواب دیکھ لیں ۔۔۔ سی پیک سے پور باش ہو جائیں تو ۔۔۔ گیس بجلی کنٹرول کے دیکھ لیں ۔۔۔۔ یا پھر پا ک فوج نے ۔۔۔۔۔ فرانس ۔۔۔ نیویارک ۔۔۔۔ فتح کرلیا ہے ۔۔۔۔ یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔۔۔۔

    It is not even an attempt of day dreaming. It is just self promotion by copy pasting and not an attempt for discussion.

    You are right that a country/government cannot resolve hygienic issues of its cities should resign in shame.

    But, the citizens of Karachi (for example) rize against the local government, stop paying taxes and more.

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #5
    یہ دراصل سوال نہیں بلکہ سوال نما ٹاپک ہے جس پر ایک لمبا کالم لکھا گیا ہے۔ اس بارے میں حکومتی موقف ہمیشہ دوغلا اور متزلزل رہا ہے۔ مثلا تیل کی قیمتیں دس روپے بڑھا دی گئیں مگر سارے چپ، پھر کامران خان یا شاہ زیب خان یا ندیم ملک دہای دیتے ہیں تو حکومتی ترجمان سوجے ہوے بوتھے کے ساتھ بتاتا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوی قیمتیں اثر انداز ہورہی ہیں ہمارا کوی اختیار نہیں جب قیمتیں کم ہونگی تو ہمارے ملک میں بھی کم ہوجائیں گی اکثر یہ وعدہ پورا نہیں ہوتا کیونکہ روپوں میں اوپر جانے والی قیمتیں پانچ دس پیسے کم کی جاتی ہیں ایک روپیہ بھی کمی نہیں کی جاتی

    البتہ جب دس پیسے یا ایک روپیہ بھی قیمت میں کمی ہو تو ترجمان سوجے ہوے بوتھے کی بجاے خود بخود ایک گھنٹے بعد تمام ٹی وی چینلز کو پریس بریفنگ میں بتاتا ہے کہ حکومت نے تیل سستا کردیا عوام کو مہنگای کے عذاب سے نجات دلانا ہمارا اولیں فرض ہے وغیرہ

    تیل اور گیس کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں مستقل رہتی ہیں قیمتوں میں شاذونادر ہی بڑی گراوٹ آتی ہے۔ یہ وزیر بلکہ بیوروکریسی پر منحصر ہے کہ حرامخوری کی بجاے دیانتداری اور چستی سے کام لیں جیسے انڈیا نے سستی گیس اور تیل خرید کر بارہ ارب ڈالر بچا لئے تھے اور ہم نے غفلت کی یا کمیشن کھا کر خریداری میں دیر کردی جس کا  خمیازہ ایک سو بیس ارب روپے کی صورت عوام پر پڑا، یہ بھی سنا ہے کہ اگر کوی تیل یا گیس سستے داموں کی بجاے مہنگے داموں یعنی آف سیزن میں خریدتا ہے تو اس کو خفیہ طور پر کمیشن دی جاتی ہے کیونکہ بیچنے والے کو اتنے زیادہ نرخ مل رہے ہوں تو چند کروڑ رشوت ہنس کر دے دیتے ہیں اور پاکستانی بیوروکریسی زرداری دور سے یہی کررہی ہے ہر سودے کو مہنگا خرید کر کمپنی کو اربوں کا فائدہ پنہچاتے ہیں اور خود کمیشن کھاتے ہیں جبکہ عوام کو مہنگای پیس کر رکھ دیتی ہے یہ سلسلہ زیادہ نہیں چل سکتا جب جیب میں پیسے ہی نہ ہونگے تو عوام سڑکوں پر آجائیں گے

    • This reply was modified 1 year, 9 months ago by Believer12.
    Anjaan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #6
    “Lamba Kalam”  is just an attempt for “Self Promotion” nothing else!
    Ghazali Farooq
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Member
    #7

    آپ سب کے جوابات کا مشکور ہوں۔ اس بلاگ میں تحسین تو کسی حکومت کی نہیں کی گئی۔ تنقید کی گئی ہے  اور پھر تجویز دی گئی  ہے۔

    جہاں تک کراچی کے مسٔلہ کا تعلق ہے تو اس کے لیے میرا بلاگ ملاحظہ ہو جس میں اصل مسٔلہ کی تشخیص کی گئی ہے اور اس کا حل پیش کیا گیا ہے۔۔۔

    کراچی کا اصل مسٔلہ، انتظامی یا کچھ اور؟

    https://ghazalifarooq.blogspot.com/2020/09/blog-post.html

    Anjaan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #8

    آپ سب کے جوابات کا مشکور ہوں۔ اس بلاگ میں تحسین تو کسی حکومت کی نہیں کی گئی۔ تنقید کی گئی ہے اور پھر تجویز دی گئی ہے۔

    جہاں تک کراچی کے مسٔلہ کا تعلق ہے تو اس کے لیے میرا بلاگ ملاحظہ ہو جس میں اصل مسٔلہ کی تشخیص کی گئی ہے اور اس کا حل پیش کیا گیا ہے۔۔۔

    کراچی کا اصل مسٔلہ، انتظامی یا کچھ اور؟

    https://ghazalifarooq.blogspot.com/2020/09/blog-post.html

    I started reading with interest and concentration but as soon as I reached third paragraph dealing with regional population residing in Karachi I stopped reading.

    I recognize Punjabis, Sindhis Pushtoons and Bloach as they describe people living in a Geographical Areas. But there is no such thing as Muhajir. in 1947, due to Partition, the Term Muhajir was used for people who came to Pakistan from India. And 1947 is 74 years old and the Term Muhajir should not be  used for the present generation. They were born and bred in Pakistan and as such can only be described as Pakistanis.

    I stopped reading your article and will not read further.

    • This reply was modified 1 year, 9 months ago by Anjaan.
Viewing 8 posts - 1 through 8 (of 8 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi