Home › Forums › Siasi Discussion › کیا اس سے زیادہ پاکستان کی ہزیمت ممکن ہے؟؟
- This topic has 7 replies, 6 voices, and was last updated 2 years, 8 months ago by
Atif Qazi. This post has been viewed 921 times
-
AuthorPosts
-
11 Aug, 2020 at 5:04 pm #1کیا اس سے زیادہ پاکستان کی ہزیمت ممکن ہے؟؟
عالم اسلام کی واحد ایٹمی ریاست کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اپنے دو سو لوگوں کو اپنے ہی جہاز پر واپس نہیں لاسکتی
بے شرمی کی انتہا ہے
اپنے شہریوں کو اپنی ہی ائیر لائن پر سفر کرانے کے لیے غیرملکیوں کی خیرات لی جارہی ہے
Galadari Brothers provide free tickets to 200 #OverseasPakistanis stuck in UAE. Two PIA flights to operate today to repatriate them back to Pakistan.
Shukria brother @SuhailGaladari7 for fulfilling your promise & standing with the Pakistani Nation through #Covid times pic.twitter.com/mjX7cbUrZ5
— Sayed Z Bukhari (@sayedzbukhari) August 10, 2020
-
This topic was modified 2 years, 10 months ago by
Muhammad Hafeez.
- thumb_up 5
- thumb_up Believer12, GeoG, Bawa, brethawk, Atif Qazi liked this post
11 Aug, 2020 at 6:08 pm #2محلے کی مسیط کے مولوی والا حال ہے جو ہر جمعرات کو سپیکر کھول کر بیٹھ جاتا اور مسجد کی تعمیر کیلئے چندہ کی اپیل کرتا تھا،مولویوں نے یہ کام چھوڑ دیا مگر مغربی پیدائشوں نے شروع کرلیا ہےاسطرح کی حرکات تو صومالیہ، افغانستان بھی نہیں کررہے
واقعی پیالہ بردار حکومت ہی آگئی ہے
12 Oct, 2020 at 4:58 am #3حفیظ بھائی ہیں تو بہت قابل لیکن اپنے پریپوگنڈا کام میں اکثر عقل کے پیچھے ڈانگ لئے پھرتے ہیں اللہ ہی بھلا کرے۔
کچھ دن پہلے انہوں نے بیان دیا تھا کہ ایک سیمنٹ کا کارخانہ اڑھائی تین ارب ڈالر کا لگتا ہے تو میں نے کچھ لکھ کر بھی مٹا دیا کہ یار اپنے محترم بھائی اس بات پر خوش ہیں تو تیرا کیا جاتا ہے تجھے بھلا یہ کہنے کی کیا ضرور ت ہے کہ اتنے پیسوں میں توسیمنٹ کے کم از کم بیس کارخانے لگ جاتے ہیں۔۔ اسی طرح اب موصوفِ محترم یہ کہہ رہے ہیں کہ باہر کے ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کو چیرٹی کی مدد سے گھر لانے کی بجائے حکومتِ پاکستان ان کے اخراجات خود ادا کرکے انہیں واپس کیوں نہی لاتی۔ برادرِ محترم کو شاید یہ پورا یقین ہے کہ آج اپنے بڑے میاں صاحب مسندِ حکومت پر برجمان ہوتے تو اب تک ۵۰۰ ملین ڈالر خرچ کرکے اب تک کووڈ میں پاکستان آنے والے ایک ملین پاکستانیوں کو یہ سہولت ضرور مہیا کر چکے ہوتے بلکہ صرف یہی نہی، بقیہ نو ملین کو بھی یہی آفر کرچکے ہوتے کہ بھائیو آپ لوگوں نے آنا ہے تو آپ بھی یہ سہولت حاصل کر کے شکریہ کا موقع دیں کہ ہم نے ساڑھے چار بلین ڈالر اس کام کے لئے ایک سایئڈ پر سنبھال رکھے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہتے کہ خزانہ تو چونکہ ہم خالی کر چکے ہیں اس لئے میں نے زرداری صاحب کے ساتھ مل کر جو بھی پیسہ چورایا اسے ثوابِ دارین کے لئے اس کام پر وقف کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ٹی ٹیوں کے ذریعے یہ رقم براستہ پھجے پاپڑ والے اور غفورے سنگھاڑے فروش کے ان ان ممالک میں پہنچا دئیے ہیں جہاں جہاں پاکستانی مدد کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ میاں صاحب چونکہ ہر شہری کے یکساں حقوق کے بہت بڑے عملبردار ہیں تو وہ اس بات کو غیر قانونی سمجھتے کہ صرف چند لوگوں کو یہ سہولت دی جاتی اور بقیہ سب کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے۔- thumb_up 1 mood 2
- thumb_up Aamir Siddique liked this post
- mood Ghost Protocol, Atif Qazi react this post
12 Oct, 2020 at 5:10 am #4محلے کی مسیط کے مولوی والا حال ہے جو ہر جمعرات کو سپیکر کھول کر بیٹھ جاتا اور مسجد کی تعمیر کیلئے چندہ کی اپیل کرتا تھا،مولویوں نے یہ کام چھوڑ دیا مگر مغربی پیدائشوں نے شروع کرلیا ہے اسطرح کی حرکات تو صومالیہ، افغانستان بھی نہیں کررہے واقعی پیالہ بردار حکومت ہی آگئی ہےپینتیس سال کیا سوتے رہے ہیں اور ابھی جاگے ہیں کہ شاید کشکولی معیشت پچھلے دو سال ہی میں ایجاد ہوئی ہے۔
12 Oct, 2020 at 6:06 am #5حفیظ بھائی ہیں تو بہت قابل لیکن اپنے پریپوگنڈا کام میں اکثر عقل کے پیچھے ڈانگ لئے پھرتے ہیں اللہ ہی بھلا کرے۔ کچھ دن پہلے انہوں نے بیان دیا تھا کہ ایک سیمنٹ کا کارخانہ اڑھائی تین ارب ڈالر کا لگتا ہے تو میں نے کچھ لکھ کر بھی مٹا دیا کہ یار اپنے محترم بھائی اس بات پر خوش ہیں تو تیرا کیا جاتا ہے تجھے بھلا یہ کہنے کی کیا ضرور ت ہے کہ اتنے پیسوں میں توسیمنٹ کے کم از کم بیس کارخانے لگ جاتے ہیں۔۔ اسی طرح اب موصوفِ محترم یہ کہہ رہے ہیں کہ باہر کے ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کو چیرٹی کی مدد سے گھر لانے کی بجائے حکومتِ پاکستان ان کے اخراجات خود ادا کرکے انہیں واپس کیوں نہی لاتی۔ برادرِ محترم کو شاید یہ پورا یقین ہے کہ آج اپنے بڑے میاں صاحب مسندِ حکومت پر برجمان ہوتے تو اب تک ۵۰۰ ملین ڈالر خرچ کرکے اب تک کووڈ میں پاکستان آنے والے ایک ملین پاکستانیوں کو یہ سہولت ضرور مہیا کر چکے ہوتے بلکہ صرف یہی نہی، بقیہ نو ملین کو بھی یہی آفر کرچکے ہوتے کہ بھائیو آپ لوگوں نے آنا ہے تو آپ بھی یہ سہولت حاصل کر کے شکریہ کا موقع دیں کہ ہم نے ساڑھے چار بلین ڈالر اس کام کے لئے ایک سایئڈ پر سنبھال رکھے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہتے کہ خزانہ تو چونکہ ہم خالی کر چکے ہیں اس لئے میں نے زرداری صاحب کے ساتھ مل کر جو بھی پیسہ چورایا اسے ثوابِ دارین کے لئے اس کام پر وقف کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ٹی ٹیوں کے ذریعے یہ رقم براستہ پھجے پاپڑ والے اور غفورے سنگھاڑے فروش کے ان ان ممالک میں پہنچا دئیے ہیں جہاں جہاں پاکستانی مدد کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ میاں صاحب چونکہ ہر شہری کے یکساں حقوق کے بہت بڑے عملبردار ہیں تو وہ اس بات کو غیر قانونی سمجھتے کہ صرف چند لوگوں کو یہ سہولت دی جاتی اور بقیہ سب کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے۔بہت خوب، میں بھی حفیظ صاحب کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ جو پاکستانی عرب ممالک میں اس وبا کے نتیجے میں اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں ، رہنے کے لیے کرایہ نہیں رکھتے ، کھانے کے لیے رقم کی استطاعت نہیں رکھتے ، واپس آنے کے لیے قومی ائیر لائن کے ٹھگوں والے کرائے کے پیسے نہیں دے سکتے ، انہیں غیر ممالک میں ہی بھیک منگوانے کی مشق کروانی چاہیے کیونکہ پاکستان واپس آکر انہوں نے کونسا تیر مار لینا ہے ، ویسے بھی اب وہ پاکستان کی تجوری میں بین الاقوامی زر مبادلہ لا نہیں سکتے تو ظاہر ہے وہ ایک بوجھ کی حیثیت سے زیادہ اور کیا قومی سرمایہ ہو سکتے ہیں ۔ ایک بھکاری، دوسرے بھکاری کی قدرومنزلت خوب جانتا ہے ، ویسے بھی یہ ملک اب بھکاریوں کے ہاتھ چڑھ چکا ہے ، وہ کیوں کوئ مدمقابل لا کھڑا کریں گے ۔ اگر کوئ خوف خدا نہیں ہے توخوف مقابل بھی نہ ہو؟ ۔
-
This reply was modified 2 years, 8 months ago by
Zaidi.
12 Oct, 2020 at 10:40 pm #6پینتیس سال کیا سوتے رہے ہیں اور ابھی جاگے ہیں کہ شاید کشکولی معیشت پچھلے دو سال ہی میں ایجاد ہوئی ہے۔بھائی جان یہ والا جواز دن بدن اپنی قدر کھو رہا ہے
13 Oct, 2020 at 1:26 am #7بہت خوب، میں بھی حفیظ صاحب کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ جو پاکستانی عرب ممالک میں اس وبا کے نتیجے میں اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں ، رہنے کے لیے کرایہ نہیں رکھتے ، کھانے کے لیے رقم کی استطاعت نہیں رکھتے ، واپس آنے کے لیے قومی ائیر لائن کے ٹھگوں والے کرائے کے پیسے نہیں دے سکتے ، انہیں غیر ممالک میں ہی بھیک منگوانے کی مشق کروانی چاہیے کیونکہ پاکستان واپس آکر انہوں نے کونسا تیر مار لینا ہے ، ویسے بھی اب وہ پاکستان کی تجوری میں بین الاقوامی زر مبادلہ لا نہیں سکتے تو ظاہر ہے وہ ایک بوجھ کی حیثیت سے زیادہ اور کیا قومی سرمایہ ہو سکتے ہیں ۔ ایک بھکاری، دوسرے بھکاری کی قدرومنزلت خوب جانتا ہے ، ویسے بھی یہ ملک اب بھکاریوں کے ہاتھ چڑھ چکا ہے ، وہ کیوں کوئ مدمقابل لا کھڑا کریں گے ۔ اگر کوئ خوف خدا نہیں ہے توخوف مقابل بھی نہ ہو؟ ۔
بیرون ملک پاکستانیوں خاص طور پر مشرق وسطی میں موجود لوگوں کو تبدیلی کا کیڑا بھی بہت زیادہ تھا، اب آٹے دال کا بھاؤ صحیح معنوں میں پتہ چلا رہا ہونا۔ میرا بھی یہی خیال ہے انہیں کافی عرصہ مزید وہیں بھیک مانگنے کیلئے چھوڑدینا چاہیئے تاکہ انہیں ایک طرف تو عمران خان جیسے عظیم بھکاری کی مشکلات کا احساس ہوسکے اور دوسری طرف آئیندہ ایسی تبدیلیوں کو دور سے ہی دیکھ کر ہشکار سکیں۔
13 Oct, 2020 at 1:34 am #8پینتیس سال کیا سوتے رہے ہیں اور ابھی جاگے ہیں کہ شاید کشکولی معیشت پچھلے دو سال ہی میں ایجاد ہوئی ہے۔شاہد بھائی! درخواست یہ ہے کہ کسی دن یہ پینتیس سال تو پورے کرکے دکھائیں۔
-
This topic was modified 2 years, 10 months ago by
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.