Home Forums Siasi Discussion کیا اس سے زیادہ پاکستان کی ہزیمت ممکن ہے؟؟

Viewing 8 posts - 1 through 8 (of 8 total)
  • Author
    Posts
  • Muhammad Hafeez
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1
    کیا اس سے زیادہ پاکستان کی ہزیمت ممکن ہے؟؟

    عالم اسلام کی واحد ایٹمی ریاست کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اپنے دو سو لوگوں کو اپنے ہی جہاز پر واپس نہیں لاسکتی

    بے شرمی کی انتہا ہے

    اپنے شہریوں کو اپنی ہی ائیر لائن پر سفر کرانے کے لیے غیرملکیوں کی خیرات لی جارہی ہے

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    محلے کی مسیط کے مولوی والا حال ہے جو ہر جمعرات کو سپیکر کھول کر بیٹھ جاتا اور مسجد کی تعمیر کیلئے چندہ کی اپیل کرتا تھا،مولویوں نے یہ کام چھوڑ دیا مگر مغربی پیدائشوں نے شروع کرلیا ہے

    اسطرح کی حرکات تو صومالیہ، افغانستان بھی نہیں کررہے

    واقعی پیالہ بردار حکومت ہی آگئی ہے

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    حفیظ بھائی ہیں تو بہت قابل لیکن اپنے پریپوگنڈا کام میں اکثر عقل کے پیچھے ڈانگ لئے پھرتے ہیں اللہ ہی بھلا کرے۔
    کچھ دن پہلے انہوں نے بیان دیا تھا کہ ایک سیمنٹ کا کارخانہ اڑھائی تین ارب ڈالر کا لگتا ہے تو میں نے کچھ لکھ کر بھی مٹا دیا کہ یار اپنے محترم بھائی اس بات پر خوش ہیں تو تیرا کیا جاتا ہے تجھے بھلا یہ کہنے کی کیا ضرور ت ہے کہ اتنے پیسوں میں توسیمنٹ کے کم از کم بیس کارخانے لگ جاتے ہیں۔۔ اسی طرح اب موصوفِ محترم یہ کہہ رہے ہیں کہ باہر کے ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کو چیرٹی کی مدد سے گھر لانے کی بجائے حکومتِ پاکستان ان کے اخراجات خود ادا کرکے انہیں واپس کیوں نہی لاتی۔ برادرِ محترم کو شاید یہ پورا یقین ہے کہ آج اپنے بڑے میاں صاحب مسندِ حکومت پر برجمان ہوتے تو اب تک ۵۰۰ ملین ڈالر خرچ کرکے اب تک کووڈ میں پاکستان آنے والے ایک ملین پاکستانیوں کو یہ سہولت ضرور مہیا کر چکے ہوتے بلکہ صرف یہی نہی، بقیہ نو ملین کو بھی یہی آفر کرچکے ہوتے کہ بھائیو آپ لوگوں نے آنا ہے تو آپ بھی یہ سہولت حاصل کر کے شکریہ کا موقع دیں کہ ہم نے ساڑھے چار بلین ڈالر اس کام کے لئے ایک سایئڈ پر سنبھال رکھے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہتے کہ خزانہ تو چونکہ ہم خالی کر چکے ہیں اس لئے میں نے زرداری صاحب کے ساتھ مل کر جو بھی پیسہ چورایا اسے ثوابِ دارین کے لئے اس کام پر وقف کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ٹی ٹیوں کے ذریعے یہ رقم براستہ پھجے پاپڑ والے اور غفورے سنگھاڑے فروش کے ان ان ممالک میں پہنچا دئیے ہیں جہاں جہاں پاکستانی مدد کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ میاں صاحب چونکہ ہر شہری کے یکساں حقوق کے بہت بڑے عملبردار ہیں تو وہ اس بات کو غیر قانونی سمجھتے کہ صرف چند لوگوں کو یہ سہولت دی جاتی اور بقیہ سب کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے۔
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    محلے کی مسیط کے مولوی والا حال ہے جو ہر جمعرات کو سپیکر کھول کر بیٹھ جاتا اور مسجد کی تعمیر کیلئے چندہ کی اپیل کرتا تھا،مولویوں نے یہ کام چھوڑ دیا مگر مغربی پیدائشوں نے شروع کرلیا ہے اسطرح کی حرکات تو صومالیہ، افغانستان بھی نہیں کررہے واقعی پیالہ بردار حکومت ہی آگئی ہے

    پینتیس سال کیا سوتے رہے ہیں اور ابھی جاگے ہیں کہ شاید کشکولی معیشت پچھلے دو سال ہی میں ایجاد ہوئی ہے۔

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #5
    حفیظ بھائی ہیں تو بہت قابل لیکن اپنے پریپوگنڈا کام میں اکثر عقل کے پیچھے ڈانگ لئے پھرتے ہیں اللہ ہی بھلا کرے۔ کچھ دن پہلے انہوں نے بیان دیا تھا کہ ایک سیمنٹ کا کارخانہ اڑھائی تین ارب ڈالر کا لگتا ہے تو میں نے کچھ لکھ کر بھی مٹا دیا کہ یار اپنے محترم بھائی اس بات پر خوش ہیں تو تیرا کیا جاتا ہے تجھے بھلا یہ کہنے کی کیا ضرور ت ہے کہ اتنے پیسوں میں توسیمنٹ کے کم از کم بیس کارخانے لگ جاتے ہیں۔۔ اسی طرح اب موصوفِ محترم یہ کہہ رہے ہیں کہ باہر کے ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کو چیرٹی کی مدد سے گھر لانے کی بجائے حکومتِ پاکستان ان کے اخراجات خود ادا کرکے انہیں واپس کیوں نہی لاتی۔ برادرِ محترم کو شاید یہ پورا یقین ہے کہ آج اپنے بڑے میاں صاحب مسندِ حکومت پر برجمان ہوتے تو اب تک ۵۰۰ ملین ڈالر خرچ کرکے اب تک کووڈ میں پاکستان آنے والے ایک ملین پاکستانیوں کو یہ سہولت ضرور مہیا کر چکے ہوتے بلکہ صرف یہی نہی، بقیہ نو ملین کو بھی یہی آفر کرچکے ہوتے کہ بھائیو آپ لوگوں نے آنا ہے تو آپ بھی یہ سہولت حاصل کر کے شکریہ کا موقع دیں کہ ہم نے ساڑھے چار بلین ڈالر اس کام کے لئے ایک سایئڈ پر سنبھال رکھے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہتے کہ خزانہ تو چونکہ ہم خالی کر چکے ہیں اس لئے میں نے زرداری صاحب کے ساتھ مل کر جو بھی پیسہ چورایا اسے ثوابِ دارین کے لئے اس کام پر وقف کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ٹی ٹیوں کے ذریعے یہ رقم براستہ پھجے پاپڑ والے اور غفورے سنگھاڑے فروش کے ان ان ممالک میں پہنچا دئیے ہیں جہاں جہاں پاکستانی مدد کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ میاں صاحب چونکہ ہر شہری کے یکساں حقوق کے بہت بڑے عملبردار ہیں تو وہ اس بات کو غیر قانونی سمجھتے کہ صرف چند لوگوں کو یہ سہولت دی جاتی اور بقیہ سب کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے۔

    بہت خوب، میں بھی حفیظ صاحب کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ جو پاکستانی عرب ممالک میں اس وبا کے نتیجے میں اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں ، رہنے کے لیے کرایہ نہیں رکھتے ، کھانے کے لیے رقم کی استطاعت نہیں رکھتے ، واپس آنے کے لیے قومی ائیر لائن کے ٹھگوں والے کرائے کے پیسے نہیں دے سکتے ، انہیں غیر ممالک میں ہی بھیک منگوانے کی مشق کروانی چاہیے کیونکہ پاکستان واپس آکر انہوں نے کونسا تیر مار لینا ہے ، ویسے بھی اب وہ پاکستان کی تجوری میں بین الاقوامی زر مبادلہ لا نہیں سکتے تو ظاہر ہے وہ ایک بوجھ کی حیثیت سے زیادہ اور کیا قومی سرمایہ ہو سکتے ہیں ۔ ایک بھکاری، دوسرے بھکاری کی قدرومنزلت خوب جانتا ہے ، ویسے بھی یہ ملک اب بھکاریوں کے ہاتھ چڑھ چکا ہے ، وہ کیوں کوئ مدمقابل لا کھڑا کریں گے ۔ اگر کوئ خوف خدا نہیں ہے توخوف مقابل بھی نہ ہو؟ ۔

    • This reply was modified 2 years, 8 months ago by Zaidi.
    EasyGo
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #6
    پینتیس سال کیا سوتے رہے ہیں اور ابھی جاگے ہیں کہ شاید کشکولی معیشت پچھلے دو سال ہی میں ایجاد ہوئی ہے۔

    بھائی جان یہ والا جواز دن بدن اپنی قدر کھو رہا ہے

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7

    بہت خوب، میں بھی حفیظ صاحب کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ جو پاکستانی عرب ممالک میں اس وبا کے نتیجے میں اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں ، رہنے کے لیے کرایہ نہیں رکھتے ، کھانے کے لیے رقم کی استطاعت نہیں رکھتے ، واپس آنے کے لیے قومی ائیر لائن کے ٹھگوں والے کرائے کے پیسے نہیں دے سکتے ، انہیں غیر ممالک میں ہی بھیک منگوانے کی مشق کروانی چاہیے کیونکہ پاکستان واپس آکر انہوں نے کونسا تیر مار لینا ہے ، ویسے بھی اب وہ پاکستان کی تجوری میں بین الاقوامی زر مبادلہ لا نہیں سکتے تو ظاہر ہے وہ ایک بوجھ کی حیثیت سے زیادہ اور کیا قومی سرمایہ ہو سکتے ہیں ۔ ایک بھکاری، دوسرے بھکاری کی قدرومنزلت خوب جانتا ہے ، ویسے بھی یہ ملک اب بھکاریوں کے ہاتھ چڑھ چکا ہے ، وہ کیوں کوئ مدمقابل لا کھڑا کریں گے ۔ اگر کوئ خوف خدا نہیں ہے توخوف مقابل بھی نہ ہو؟ ۔

    بیرون ملک پاکستانیوں خاص طور پر مشرق وسطی میں موجود لوگوں کو تبدیلی کا کیڑا بھی بہت زیادہ تھا، اب آٹے دال کا بھاؤ صحیح معنوں میں پتہ چلا رہا ہونا۔ میرا بھی یہی خیال ہے انہیں کافی عرصہ مزید وہیں بھیک مانگنے کیلئے چھوڑدینا چاہیئے تاکہ انہیں ایک طرف تو عمران خان جیسے عظیم بھکاری کی مشکلات کا احساس ہوسکے اور دوسری طرف آئیندہ ایسی تبدیلیوں کو دور سے ہی دیکھ کر ہشکار سکیں۔

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #8
    پینتیس سال کیا سوتے رہے ہیں اور ابھی جاگے ہیں کہ شاید کشکولی معیشت پچھلے دو سال ہی میں ایجاد ہوئی ہے۔

    شاہد بھائی! درخواست یہ ہے کہ کسی دن یہ پینتیس سال تو پورے کرکے دکھائیں۔

Viewing 8 posts - 1 through 8 (of 8 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi