Home Forums Hyde Park / گوشہ لفنگاں کوڑھی محلہ (دوسری اور آخری قسط)

Viewing 1 post (of 1 total)
  • Author
    Posts
  • Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1
    پہلی قسط

    گزشتہ سے پیوستہ

    چند روز کے بعد
    اکرم پتر، کیا ہو گیا ہے کیوں رورہے ہو ؟حاجی صاحب نے اپنے لخت جگر کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر بے اختیار پوچھا

    کچھ نہیں ابو کچھ نہیں ہوا – اکرم نے جلدی سے آنکھیں صاف کیں مگر آواز میں افسردگی صاف ظاہر تھی .
    میرا پتر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، میں ابھی نماز کے لئے جارہا ہوں واپس آکر بات کرتے ہیں -حاجی صاحب یہ کہتے ہوے باہر نکل گئے

    ہاں بھئی اب بتاؤ کیوں اداس ہو کیا ٹیسٹ میں نمبر کم آگیے ہیں؟ حاجی صاحب نے گھر میں داخل ہوتے ہی سوال کیا
    نہیں نہیں ابو، وہ جو میرا دوست تھا نا. وہی کوڑھی محلہ والا جسکو ایمبولینس میں ڈال کر لے گئے تھے، آج ہسپتال میں اسکا انتقال ہو گیا ہے ، ایمبولینس والے لاش حوالے کرکے چلے گئے تھے ، کہہ رہے تھے کہ اسکا مرض کافی بڑھا ہوا تھا، سرجری کے دوران خون کی کمی کی وجہ سے انتقال ہو گیا ہے – اکرم نے روہانسی آواز میں تفصیل بتائی .
    اوہ اچھا اچھا ، میں تو ڈر ہی گیا تھا کہ کونسی قیامت آگئی ہے – بیٹا کوڑھ کا مریض تھا ، اعلاج معالجہ میں خالق حقیقی سے جا ملا رب کی یہی مرضی تھی ہم کیا کرسکتے ہیں؟ حاجی صاحب نے صورتحال کا ادراک ہوتے ہی اطمینان بھری آواز میں اکرم کو دلاسہ دیا
    ابو مگر میرا دوست تھا ، اچھا بھلا تھا مجھے تو اسمیں کویی بیماری نہیں محسوس ہوتی تھی، پھر یہ ایمرجنسی والوں کو کیا مصیبت آی تھی کہ زبردستی گھر سے لے گیے تھے اور اعلاج کرنے کی کوشش شروع کردی حد تو یہ تھی کہ سرجری کی نوبت آگئی -کچھ سمجھ نہیں آرہا -اکرم والد صاحب کی تسلیوں سے مطمین ہونے والا نہیں تھا .
    بیٹے اسکو کوڑھ کا مرض تھا کوڑھی محلہ کا رہائشی تھا بس یہ کافی ہے میں اپنی حکومت کا شکر گزار ہوں کہ اس وبا سے ہماری جان چھڑانے کے لئے اتنی دلجمعی سے کام کررہی ہے – میری تو دعا ہے کہ کوڑھ کے ہر مریض سے ہماری جلد سے جلد جان چھٹ جائے .انشاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا تم اپنی تعلیم پر دھیان دو .

    چند برسوں کے بعد

    الے میلا بیٹا ، میلا جانی ، دادا کو چل کر دکھاؤ شاباش شاباش ایک قدم اور چلو – حاجی صاحب اپنے پوتے کے ساتھ کھیلتے ہوے پھولے نہیں سما رہے تھے پوتا بھی دادا جان کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنے میں مصروف تھا اور اپنی معصومانہ حرکتوں کی وجہ سے پورے گھر کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا تھا .

    ارے سنبل بیٹا، ایک کپ گرم گرم چاے تو پلا دو-حاجی صاحب نے بہو کو آواز دیتے ہوے کہا .

    جی ابو جی ، ابھی لائی ، بہو نے فورا جواب دیا

    یہ لیجئے ابو جی، گرم گرم چائے ، سنبل نے کمرے میں داخل ہوتے ہوے چاے قریبی میز پر رکھ دی .

    بیٹا وہ اکرم نظر نہیں آرہا – حاجی صاحب نے بہو سے پوچھا

    ابو، وہ دفتر سے نکل گئے ہیں پہنچنے والے ہی ہوں گے -سنبل نے حاجی صاحب کو اطمینان دلایا

    ابو ابو ، اکرم فون نہیں اٹھا رہے ہیں اب تو بہت دیر ہو گئی ہے – سنبل انتہائی تشویشناک انداز حاجی صاحب کے کمرے میں داخل ہویی

    اچھا اچھا بیٹا میں معلوم کرتا ہوں – تم فکر نہ کرو -حاجی صاحب نے بہو کو دلاسہ دیا

    دو دن کے بعد
    سنبل اور بتول بیگم کا رو رو کر برا حال ہوگیا تھا حاجی صاحب کی بوڑھی ٹانگوں نے بھی جواب دے دیا تھا مگر اکرم کا کچھ معلوم نہیں چل رہا تھا حاجی صاحب نے تمام ہسپتال بھی چھان مارے تھے اور پولیس میں بھی گمشدگی کی رپورٹ درج کروادی تھی

    تیسرے دن اکرم کی تعفن زدہ لاش شہر کے ایک گمنام علاقے سے ملی ، اس کے ساتھ محکمہ انسداد وبائی امراض کا نوٹ بھی ملا کہ مریض ایک خطرناک وبائی مرض میں مبتلا تھا ہمارے ادارے نے ہر ممکن کوشش کی تھی اسکا اعلاج ہو جائے مگر دوران اعلاج مریض کی وقت مدافعت جواب دے گئی

    ہاے ہاے کیسا ظلم ہے ،
    اچھا بھلا میرا بچہ تھا خدا غارت کرے محکمہ وبائی امراض والوں کو .
    بوڑھے ماں باپ کا سہارہ چھین لی
    ا ، ننھے عاکف کے سر سے باپ کا سایہ چھن گیا ،
    جوان بہو کا مان چھن گیا ،
    خدا غارت کرے ، ہمارے ساتھ ہی ایسا ظلم کیوں ہوا ،
    میرا بیٹا تو لاکھوں میں ایک تھا ، اسکو کویی بیماری نہیں تھی
    یہ محکمہ والے کون ہوتے ہیں زبردستی اعلاج کرنے والے ، میرا بچہ کونسا کوڑھی محلہ کا رہائشی تھا؟
    اس ملک میں کویی دین ایمان بھی ہے
    کیا یہاں کویی قانون ہے
    اللہ غارت کرے ان محکمہ والوں کو .
    حاجی صاحب کی گریہ زاری ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی

Viewing 1 post (of 1 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi