Home Forums Siasi Discussion کرپٹ سے نااہل تک

  • This topic has 27 replies, 8 voices, and was last updated 2 years, 9 months ago by Awan. This post has been viewed 1291 times
Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 28 total)
  • Author
    Posts
  • Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1
    وزیر اعظم جناب عمران خان نے دنیا ٹی وی کے سینئر اینکرپرسن کامران خان کے ساتھ انٹرویو میں کچھ ایسے اعتراف کیے ہیں جن کا رونا میرے اور عامر متین جیسے لوگ کئی سالوں سے روتے آ رہے تھے کہ ایک دن خان صاحب کی بے نیازی رنگ لائے گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں تجربہ نہ تھا حکومت کا اور یہی کچھ پنجاب میں ہوا کہ وہاں کا وزیر اعلیٰ بھی کام ابھی سیکھ رہا ہے‘ دھیرے دھیرے سب سیکھ جائیں گے۔
    اس میں شک نہیں کہ کوئی بھی پیدائشی جینئس نہیں ہوتا اور دھیرے دھیرے بندہ کتابوں، تجربوں اور حالات سے سیکھ جاتا ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کبھی جناب وزیر اعظم نے سیکھنے کی کوشش کی کہ اگر وہ اس ملک میں حکومت کے سربراہ بن گئے تو انہیں کن کن صلاحیتوں کا مالک ہونا چاہیے تاکہ گورننس میں مسائل پیدا نہ ہوں؟ اور یہ کہ سربراہ حکومت کے لیے کون کون سے لوازمات ضروری ہوتے ہیں؟
    وہ کئی دفعہ اپنے انٹرویوز میں کہہ چکے تھے کہ ایک دن وزیر اعظم بنیں گے اور بن کر دکھایا بھی۔ کبھی وہ شرمیلے تھے‘ بات نہیں ہوتی تھی‘ اور پھر وہ دن بھی دیکھا کہ ان سے اچھی تقریر شاید ہی پاکستان میں کوئی سیاستدان کر سکتا ہو۔ لوگ عمران خان کا مقابلہ بھٹو کے ساتھ کرنے لگ گئے تھے کہ پاپولر بھی بھٹو جیسے ہیں اور تقریریں بھی ان کی طرح شاندار کرتے ہیں‘ لیکن ایک فرق دونوں میں تھا‘ جو اَب محسوس رہا ہے۔ بھٹو بہت کتابیں پڑھتے تھے، ملکی اور غیر ملکی حالات سے خود کو بہت باخبر رکھتے تھے۔ بھٹو جلدی فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے جبکہ جناب وزیر اعظم کے فیصلے روز بدل رہے ہوتے ہیں‘ جسے لوگ یُو ٹرن کا نام دیتے ہیں۔ بھٹو کے پاس ایشیا کی بہترین لائبریری تھی اور انہیں بہت پڑھا لکھا وزیر اعظم سمجھا جاتا تھا۔ محسوس ہوتا ہے‘ موجودہ وزیر اعظم کا مطالعہ صرف مسلم ہسٹری تک محدود رہا۔ غالباً وہ جدید کتابیں نہیں پڑھتے۔ خان صاحب کو پارلیمنٹ کا بھی کوئی خاص تجربہ نہیں‘ کسی قائمہ کمیٹی کے ممبر نہیں بنے‘ پارلیمنٹ کے وقفۂ سوالات میں نہیں بیٹھے۔ ممکن ہے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے بارے میں بھی زیادہ نہ جانتے ہوں۔ وہ کبھی کبھار پارلیمنٹ آتے اور ایک آدھ تقریر کر کے نکل جاتے۔ غالباً ان کا خیال تھا‘ بس یہی سب کچھ ہے‘ یہ کون سا مشکل کام ہے‘ یہ کون سی راکٹ سائنس ہے۔
    ہم اس وقت بھی کہتے تھے: کل کو حکومت مل گئی تو آپ کو کچھ پتہ نہیں ہو گا اور آپ بیوروکریسی کے ہاتھوں کھیلیں گے۔ پی اے سی میں چالیس وزارتوں کے سیکرٹری آتے ہیں اور وہاں وفاقی سیکرٹریز کا پتہ چلتا ہے کون کتنے پانی میں ہے۔ اگر پی اے سی میں بیٹھتے تو پتہ ہوتا کہ حکومت، ایشوز، مسائل اور چیلنجز کیا ہوتے ہیں اور ان سے نبرد آزما کیسے ہونا ہے۔ یہ بھی پتہ ہوتا کہ فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں اور اچھے بیوروکریٹ میں کیا خوبیاں ہوتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر انہیں بیوروکریسی کے مزاج سے تعارف ہو جاتا۔ جب دس سال ممبر پارلیمنٹ رہے تو فارن منسٹری، فنانس، داخلہ اور پلاننگ کی کمیٹیوں میں بیٹھنا چاہیے تھا تاکہ ان ایشوز کو سمجھتے۔ غالباً وہ ایک دن بھی ان میں سے کسی کمیٹی میں نہیں بیٹھے‘ نہ کسی کی بات سنی‘ نہ اپنی سنائی‘ لہٰذا آج جب ہمیں کہتے ہیں کہ انہیں پتہ نہیں تھا‘ حکومت کس بلا کا نام ہے تو حیرت نہیں ہوتی۔ جب وزیر اعظم کی صحافیوں سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو یہ اعتراف کیا تھا کہ انہیں ہرگز علم نہ تھا‘ حکومت میں اتنے مسائل ہوتے ہیں اور وہ ان مسائل سے بے خبر تھے۔ باخبر کیسے ہو سکتے تھے کیونکہ جہاں ان سب باتوں کا ذکر ہوتا ہے وہاں تو وہ کبھی گئے ہی نہیں۔
    اب اگر حکومت کا علم نہیں تھا تو کیا چوائس تھی؟ بلا شبہ کسی وزیر اعظم کے لیے ضروری نہیں کہ اسے سب کچھ پتہ ہو‘ وہ سب جانتا ہو۔ ایسی صورت میں سمجھ دار سربراہ حکومت تین کام کرتے ہیں: پہلا‘ وہ اپنی بیوروکریٹک ٹیم بہت طاقتور اور قابل بناتے ہیں تاکہ وہ پورا نظام چلائے‘ دوسرا‘ وہ کابینہ اعلیٰ لوگوں کی تشکیل دیتے ہیں تاکہ وہ لوگ حکومتی کام کو آگے بڑھا سکیں۔ تیسرا‘ صوبوں میں قابل بندے لگاتے تاکہ ان پر بوجھ نہ پڑے اور وہاں کا وزیر اعلیٰ اور وزرا خود پرفارمنس دکھائیں‘ ہر وقت ان کی طرف نہ دیکھتے رہیں۔
    تو کیا جناب عمران خان نے یہ تینوں کام کیے؟
    بیوروکریسی سے شروع کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کے لیے ایسے افسر کا انتخاب کیا جو یقیناً وفادار ہو گا‘ لیکن اسے فیڈرل حکومت اور پھر پنجاب کی بیوروکریسی کا تجربہ نہیں۔ وہ ایک جونیئر افسر تھا ایک چھوٹے صوبے کو چلا کر آیا تھا۔ پھر آگے اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور برادری کے لوگوں سے دفتر بھر دیا۔ یوں ایک جونیئر افسر کی تعیناتی سے پنجاب کی بیوروکریسی ناراض ہوئی۔ اس نے ایک جونیئر افسر سے تعاون نہ کیا‘ یوں کام ٹھپ ہو گیا۔
    دوسرا کام تھا‘ کابینہ کی ٹیم اعلیٰ بناتے تاکہ وہ سب مل کر ملک کو گمبھیر مسائل سے نجات دلاتے۔ ایسا بھی نہ ہو سکا۔ پھر ہر بندہ ایسی پوسٹ پر لگایا گیا جس کا اسے کچھ پتہ نہیں تھا۔ دو تین مثالیں دیکھ لیں۔ اعظم سواتی کا وزارت پارلیمنٹ سے کیا تعلق یا خالد مقبول صدیقی‘ ایک میڈیکل ڈاکٹر‘ کا انفارمیشن ٹیکنالوجی سے کیا لینا دینا؟ یا پھر عامر کیانی کا ادویات سے کیا تعلق تھا کہ پورا وفاقی وزیر بنا دیا گیا؟ عوام کی جیبوں پر ادویات کی مد میں چالیس ارب سے زائد کا بوجھ ڈالا گیا اور آج کل وہ نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ پھر مشیر ایسے لگائے جو سب ذاتی دوست ہیں یا پارٹی کو چندہ دیتے رہے ہیں۔ سب کے اپنے اپنے کاروبار تھے اور وہ اپنے اپنے کاروبار کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ حکمرانوں کی نا تجربہ کار ٹیم کا کاروباری دوستوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ جہانگیر ترین، ترین کے ماموں شمیم احمد خان، خسرو بختیار کے بھائی، مونس الٰہی اور دیگر کی ملوں نے عوام کی جیب سے تین ارب روپے کی سبسڈی نکال لی اور ساتھ میں شوگر کی قیمت کو پچپن روپے سے بہتّر روپے تک بھی لے گئے۔ اس وقت چینی کی قیمت سو روپے فی کلو سے اوپر ہے۔ اب پندرہ لاکھ ٹن چینی امپورٹ ہو رہی ہے۔ یہی حال گندم کا ہوا۔ ابھی پنجاب میں گندم کا سیزن ختم نہیں ہوا تھا کہ آٹا مارکیٹ سے غائب ہو گیا اور بہت سارے لوگوں نے پیسہ بنا لیا۔ اب گندم بھی امپورٹ ہو رہی ہے۔
    تیسرا آپشن تھا‘ پنجاب‘ خبیر پختون خوا میں ایسے وزرائے اعلیٰ لگاتے جو ڈیلیور کرتے۔ عثمان بزدار صاحب کا نام جناب وزیر اعظم نے بھی پہلی دفعہ ہی سنا ہو گا۔ کسی نے کان میں پھونک دیا ہو گا کہ ‘ع ‘نام کا بندہ بہترین رہے گا‘ لہٰذا وہ عارف علوی ہوں یا عثمان بزدار‘ سب کو اعلیٰ عہدے دے دیے۔
    اس ناتجربہ کاری کا اثر عوام بھگت رہے ہیں۔ بزدار صاحب سے پوچھیں تو کہتے ہیں: میں نیا نیا ہوں‘ سیکھ رہا ہوں۔ جناب وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ابھی سیکھ رہے ہیں۔ جب یہ لوگ سیکھ جائیں گے تو پھر یقینا ڈیلیور بھی کریں گے۔ اس دن کا انتظار آپ بھی کریں‘ ہم بھی کرتے ہیں۔ ویسے قوم کو اتنی جلدی کیا ہے، اتنا سیاپا کیوں ڈالا ہوا ہے۔صبر کریں بچے حکومت کرنا سیکھ رہے ہیں، سیکھ لیں گے تو سب ٹھیک کر لیں گے۔ کیا ہوا جو ادویات کے نام پر‘ چینی کے نام پر اربوں روپے جیبوں سے نکال لئے یا لوگ آٹا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔
    پچھلے کرپٹ تو موجودہ نالائق نکلے ہیں۔ کرپٹ خطرناک تھے یا نا اہل؟ قسمت دیکھ لیں‘ ہمیں انتخاب بھی کرنا پڑا تو کرپٹ اور نااہلوں میں سے۔ تیسرا آپشن نہیں تھا۔ آگے سمندر تو پیچھے کھائی۔ کھائی میںگرو یا ڈبکیاں کھائو۔ کرپٹ حکمران قوم کو کھائی میں دھکا دے گئے تو نا اہل حکمران سمندر میں ڈبکیاں دے رہے ہیں۔

    https://dunya.com.pk/index.php/author/rauf-klasra/2020-08-23/32126/14457403

    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #2
    • This reply was modified 2 years, 9 months ago by Awan.
    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #3
    کلاسرا نے اس کالم میں کرپٹ اورنا اہل میں سے کسی ایک کے انتخاب کی بات کی ہے – اگرچے موجودہ حکومت میں ایسی بھی بات نہیں کہ ایمانداروں سے بھری پڑی ہے مگر زیادہ زور نا اہلی پر ہے -منصوبے لگ نہیں رہے کہ کسی کو بڑی کرپشن کا موقع ملے البتہ تقرریاں تبادلے پرمٹ وغیرہ ہی سے کمائی کی جا رہی ہے فلحال باقی مافیا اپنا کام پہلے طریقے سے ہی کر رہی ہے جس کی مثال آٹا چینی سکینڈل میں نظر آ گئی – پاکستان میں ایک عجیب سا مسلہ ہے کہ جو قابل ہے وہ کرپٹ بھی ہے اور جسے کرپشن نہیں کرنی آتی وہ بزدار کی طرح اتنا نا اہل ہے کہ اپنے گھر میں بجلی بھی نہیں لگوا سکتا – بیورو کریسی میں تو یہ بات ثابت شدہ ہے جو قابل ہے اچھی پرفارمنس دے سکتا ہے وہ یہ پرفارمنس مفت میں نہیں دیتا خوب مال کمانے کی تمنا رکھتا ہے – جو مال نہیں بنانا جانتا یا ڈرتا ہے وہ فائلوں کو دائرے میں گھماتا رہتا ہے نا فائل پر دستخط کرتا ہے اور نہ دستخط کرنے سے انکار – سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم قابل لوگوں کی کرپشن سے آنکھ بند کر کے اچھی پرفارمنس کرنے دیں یا ہم ان کی جگہ نا اہلوں کو بیٹھا دیں – جو نہ کوئی کام کریں گے اور نہ کرنے دینگے – کھڑا پانی بہتر ہے یا چلتا ہوا پانی جس میں تھوڑی گند کی ملاوٹ ؟
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    ہمارے محلے کا ایک لڑکا جو چیز بھی کسی گھر کے باپر پڑی ملتی اٹھا کر اپنے گھر لے جاتا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس نے گیٹ کے اندر سے بھی بعض اشیا اپنے گھر منتقل کرنی شروع کردیں۔ بازپرس کرنے پر اس کا باپ کہہ دیتا کہ میرا بیٹا تو شیدای ہے جس کے بعد مزید بحث کی گنجائش ہی نہ رہتی

    ایکدن کسی نے اس لڑکے کے باپ سے پوچھا کہ مانا تمہارا بیٹا پاگل ہے مگر کیا وجہ ہے کہ اس نے کبھی اپنے گھر کی چیزیں باہر نہیں پھینکیں؟

    میرا بیٹا پاگل ہے بے وقوف نہیں۔ ابے نے جواب دیا

    یہی حال اس حکومت کا ہے۔ یہ طفل مکتب ہیں اور ابھی سیکھنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ کرپشن بہت چالاکی اور ہوشیاری سے کرتے ہیں جسے تجربہ کار نیب انویسٹیگیٹرز بھی پکڑنے سے قاصر ہیں؟

    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #5
    ہمارے محلے کا ایک لڑکا جو چیز بھی کسی گھر کے باپر پڑی ملتی اٹھا کر اپنے گھر لے جاتا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس نے گیٹ کے اندر سے بھی بعض اشیا اپنے گھر منتقل کرنی شروع کردیں۔ بازپرس کرنے پر اس کا باپ کہہ دیتا کہ میرا بیٹا تو شیدای ہے جس کے بعد مزید بحث کی گنجائش ہی نہ رہتی ایکدن کسی نے اس لڑکے کے باپ سے پوچھا کہ مانا تمہارا بیٹا پاگل ہے مگر کیا وجہ ہے کہ اس نے کبھی اپنے گھر کی چیزیں باہر نہیں پھینکیں؟ میرا بیٹا پاگل ہے بے وقوف نہیں۔ ابے نے جواب دیا یہی حال اس حکومت کا ہے۔ یہ طفل مکتب ہیں اور ابھی سیکھنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ کرپشن بہت چالاکی اور ہوشیاری سے کرتے ہیں جسے تجربہ کار نیب انویسٹیگیٹرز بھی پکڑنے سے قاصر ہیں؟

    بلیور بھائی فلحال موجودہ حکومت پر سنگین کرپشن کے الزام لگانا قبل از وقت ہے – جب پیسہ کہیں لگایا ہی نہیں تو کرپشن کی یا نہیں کی یقین سے نہیں که سکتے – تقرریاں تبادلے پرمٹ جاری کرنے کو ہم عام سی ہماری سوسایٹی میں قابل قبول کرپشن که سکتے ہیں یہ بڑے عہدوں کی بات ہے ہاں اگر چھوٹے عام عہدوں پر سینکڑوں عام آدمیوں کو لگا کر ان سے پیسے بٹورے ہوتے جیسے زرداری نے کیا تو وہ بڑی کرپشن ہوتی – فلحال تو بڑی نا اہلی ہے اور میرا ماننا ہے یہ کرپشن کے ساتھ اچھی کارکردگی سے کہی زیادہ بری ہے کیونکے پیسہ خرچ نہیں ہوتا تو محیشت نہیں چلتی – پروجیکٹ لگنے سے بہت سوں کا کاروبار کھلتا ہے – ویسے پشاور میٹرو نے ثابت کیا جو بھی پروجیکٹ لگائے گا خواہ جو بھی ہو کرپشن ہو گی اور آپ اگر کرپشن کے ڈر سے منصوبے ہی نہیں لگائیں گے تو ملک کی مہیشت نہیں چلے گی -کچھ تو بیلنس تلاش کرنا ہو گا جہاں کرپشن کم سے کم ہو اور منصوبے بھی لگیں – لاہور میٹرو کو اس کی مثال قرار دیا جا سکتا ہے جہاں تیس ارب میں کرپشن بھی اگر مان لیا ہوئی تو کم سے کم ہوئی جو منصوبہ صرف تیس ارب میں مکمل ہوا اور بغیر نقص کے سات سال سے کامیابی سے چل رہا ہے –

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #6

    اعوان صاحب، دو سال بعد اب ہم سب تعجب کی اس منزل سے بہت آگے آچکے ہیں جہاں پر ہم عمران اور کمپنی کو تھوڑی بہت رعایت دے سکتے تھے ۔ عجب بات ہے کہ ان دو سال کے عرصے میں اپنی کارکردگی دکھانے یا اسے بہتر بنانے پر صرف کرنے کے ، یہ احمق پچھلی حکومتوں کے سارے برے کاموں کو بتانے والےنمائندے بن کر رہ گئے ہیں ۔ ان عمران صاحب نے اس سے پہلے بھی اسی قسم کا اعتراف کیا تھا جب 2013 کے الیکشن میں ھار کو اپنے لیے ایک موقع قرار دیا تھا اور شکر ادا کیا تھا کہ اس دفعہ بھی یہ اتفاقیہ جیت نہیں سکے ورنہ بہت مشکل ہوجاتی ۔

    لہذا اس نمونے کی کسی بات کو سنجیدہ لینا نری حماقت ہے ۔ اسے خود علم نہیں ہوتا کہ کسی بھی امر کے بارے میں اس کا موقف کل کیا ہوگا ۔
    میں اس حکومت کو حقیقی عوامی نمائیندہ حکومت تسلیم نہیں کرتا اور یہ غیر جمہوری قوتوں کے ملاپ سے بنا ہوا بھان متی کا وہ کنبہ ہے جنکا کسی بھی ایک مقصد پر یکساں موقف نہیں ہے ، انہیں اقتدار میں لانے والے اور چلانے والے کہیں اور بیٹھیں ہیں ۔

    مجھے افسوس صرف یہ ہے کہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پرانے لوٹوں پر مشتمل ایک جماعت کو حکومت میں لایا گیا ہے جس نے اب تک سویلین برتری کے لیے ایک قدم نہیں اٹھایا بلکہ کئ اور وزارتیں بھی فوجی آقاؤں کے قدموں میں رکھ دیں ہیں جو روایتن ہمیشہ سوویلین ڈومین میں ہوتی تھیں اور مجھے ڈر ہے کہ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو ، خیمے کے پیچھے بیٹھے ہوئے مکار لوگوں نے پورا خیمہ ہی اپنے تصرف میں لے آنا ہے ۔

    ان کی اھلیت یا نااھلی اور پچھلوں کی کرپشن پر صرف اس وقت ہی بحث کی جاسکتی ہے جب آپ کو یہ اعتماد ہو کہ یہ چابی والے کھلونے ، اپنی بھی کچھ شناخت رکھتے ہیں ۔ ان لوگوں نے اتنا شور مچانا ہے کہ کوئ ان کی کارکردگی کا جائزہ نہ لے سکے ۔ اور یہ سب حربے ، بناوٹی احتساب، جھوٹی اداکاری اسی طرح سے عوام کو پھدو بنانے کے لیے جاری رہے گی اور عاشق اعوان ، فیاض الحسن، شہباز گل جیسے مسخرے لوگوں کو انٹر ٹین کرتے رہیں گے ۔

    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #7
    زیدی صاحب ہم اسے ایک تجربہ که سکتے ہیں جو پاکستانی سیاست کے ساتھ ہوا – ابتدا میں خان کو اپنی ٹیم بنانے کی آزادی ملی کہیں کوئی فوجی غیر ضروری طور پر نظر نہ آیا – پھر چھ مہینے بحد مہیشت میں حکومت کی ناکامی کم از کم واضح نظر آنے لگی تو صرف وزیر خزانہ اپنا لایا گیا – وقت کے ساتھ مزید  نا  لائقیاں نظر آنے پر اونٹ ائستہ استہ  خیمے کے اندر اور مالک باہر کو جاتا دکھایا دیا – اب اونٹ کا خیمے پر مکمل قبضہ ہے اور مالک باہر ڈمی حکمران بنا ہاتھ باندھ کر اونٹ کے حکم کا انتظار کرنے کے لئے ایک دربان کی طرح کھڑا ہے – یہ تجربہ کامیاب نہیں ہو سکتا اگر حالات ایسے ہی رہے یا مزید خراب ہوئے – ایک سال کے قرض محاف ہونے باہر سے  بہت سی امداد ملنے کے بھد حکومت کی مہیشت تھوڑی بہتر ہوتی نظر آتی ہے اگر ایسا ہوا اور حکومت چھ مہینے نکال گئی تو پانچ سال یہی سیٹ اپ جاری رہے گا – اگر فوجیوں کو اپنا بجٹ ملتا رہے تو اس سے زیادہ مزے ان کے اور کیا ہو سکتے ہیں وہ اس کے بھد بھی اگلے پانچ سال اس سیٹ اپ کو جاری رکھنا چائیں گے – سیاسی پہلو مگر کچھ اور ہے ایسے سیٹ اپ سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوتے اور عوام پانچ سال بھد قسم کھا لیتی ہے یا تو ووٹ کسی کو نہیں دینگے اور اگر دیا بھی تو کم از کم اس حکومت کو نہیں دینگے بھلے آزاد امیدوار کو دے دینگے -یوں فوج بلکل بھی غیر مقبول حکوت کو نہیں لا سکتی ووٹنگ والے دن فوج کا مکمل کنٹرول نہیں ہوتا سسٹم کو بار بار نہیں بٹھایا جا سکتا نہ بار بار تین دن کے لئے رزلٹ روک کر من مانے رزلٹ جاری ہو سکتے ہیں – میرا خیال ہے فوج نے سسٹم کو مکمل طور پر زمین بوس ہونے سے بچانے کے لئے سسٹم پر اپنے پلر کھڑے کئے ہیں اس بار یہ ان کی مجبوری بھی بن گئی تھی کیونکے سسٹم کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر وہ خود ہیں ان کے کھابے اسی سسٹم سے جڑے ہیں – میرا خیال ہے وہ اس سسٹم کو اب خود چلا کر اگلی سیاسی حکومت کے لئے پلاننگ کر رہے ہیں –

    Bawa

    Ghost Protocol

    GeoG

    Atif Qazi

    Qarar

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #8
    زیدی صاحب ہم اسے ایک تجربہ که سکتے ہیں جو پاکستانی سیاست کے ساتھ ہوا – ابتدا میں خان کو اپنی ٹیم بنانے کی آزادی ملی کہیں کوئی فوجی غیر ضروری طور پر نظر نہ آیا – پھر چھ مہینے بحد مہیشت میں حکومت کی ناکامی کم از کم واضح نظر آنے لگی تو صرف وزیر خزانہ اپنا لایا گیا – وقت کے ساتھ مزید نا لائقیاں نظر آنے پر اونٹ ائستہ استہ خیمے کے اندر اور مالک باہر کو جاتا دکھایا دیا – اب اونٹ کا خیمے پر مکمل قبضہ ہے اور مالک باہر ڈمی حکمران بنا ہاتھ باندھ کر اونٹ کے حکم کا انتظار کرنے کے لئے ایک دربان کی طرح کھڑا ہے – یہ تجربہ کامیاب نہیں ہو سکتا اگر حالات ایسے ہی رہے یا مزید خراب ہوئے – ایک سال کے قرض محاف ہونے باہر سے بہت سی امداد ملنے کے بھد حکومت کی مہیشت تھوڑی بہتر ہوتی نظر آتی ہے اگر ایسا ہوا اور حکومت چھ مہینے نکال گئی تو پانچ سال یہی سیٹ اپ جاری رہے گا – اگر فوجیوں کو اپنا بجٹ ملتا رہے تو اس سے زیادہ مزے ان کے اور کیا ہو سکتے ہیں وہ اس کے بھد بھی اگلے پانچ سال اس سیٹ اپ کو جاری رکھنا چائیں گے – سیاسی پہلو مگر کچھ اور ہے ایسے سیٹ اپ سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوتے اور عوام پانچ سال بھد قسم کھا لیتی ہے یا تو ووٹ کسی کو نہیں دینگے اور اگر دیا بھی تو کم از کم اس حکومت کو نہیں دینگے بھلے آزاد امیدوار کو دے دینگے -یوں فوج بلکل بھی غیر مقبول حکوت کو نہیں لا سکتی ووٹنگ والے دن فوج کا مکمل کنٹرول نہیں ہوتا سسٹم کو بار بار نہیں بٹھایا جا سکتا نہ بار بار تین دن کے لئے رزلٹ روک کر من مانے رزلٹ جاری ہو سکتے ہیں – میرا خیال ہے فوج نے سسٹم کو مکمل طور پر زمین بوس ہونے سے بچانے کے لئے سسٹم پر اپنے پلر کھڑے کئے ہیں اس بار یہ ان کی مجبوری بھی بن گئی تھی کیونکے سسٹم کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر وہ خود ہیں ان کے کھابے اسی سسٹم سے جڑے ہیں – میرا خیال ہے وہ اس سسٹم کو اب خود چلا کر اگلی سیاسی حکومت کے لئے پلاننگ کر رہے ہیں – Bawa Ghost Protocol GeoG Atif Qazi Qarar

    اعوان بھائ ، کیا وقت آگیا ہے کہ ہم جیسے بھی اب فوجیوں کے بنائے ہوئے نظام میں ان کی منطق اور عمل کے راستوں پر گفتگو کر رہے ہیں ۔ ہر ملک کی کچھ اپنی ضروریات ہوتی ہیں اور دنیا میں سب ممالک اپنے نظام کو اپنی سہولت اور آسانی کے لیے تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔ ان سب تبدیلیوں کا بنیادی مقصد اپنی عوام کی بہتری اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے ، ہمارے ھاں بھی نظام میں تبدیلی کے نام پر الٹ پلٹ جاری رہتی ہے لیکن اس سب الٹ پلٹ کا مقصد خاص طبقوں اور اداروں کو انتہائ فائدہ پہچانا ہوتا ہے نہ کہ عام لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا ۔ اس ملک کی تاریخ میں انصاف کے اداروں اور ہمارا عدلیہ کا ایک نہایت غلیظ اور انتہائ تاریک ماضی رہا ہے ۔ میں فوجی کی سویلین معاملات میں کھلا کھلم مداخلت کا ذمہ دار اپنی عدلیہ کے پستہ اور چھوٹے قد کے ان ججوں کو قرار دیتا ہوں جنہوں نے اپنے آج کے لیے ملک کے کل کو فروخت کردیا ہے ۔ آج بھی کسی منصف کے قلم میں انصاف کی ایک بوند بھی باقی نہیں ہے اور یہ بے شرم انتہائ ڈھٹائ سے اب بھی اپنے اصول اور قانون پر سمجھوتہ کیے بیٹھے ہیں ۔ اگر ان بے شرموں کے ھاں وطن کی محبت سے جڑی کوئ داستاں اور مثال ہوتی تو شاید ہم آج اس طرح دنیا بھر میں بے توقیر نہ ہوئے ہوتے ۔

    یقین کیجئے اعوان صاحب ، مجھے اس حکومت ، پچھلی حکومت ، اپنے سیاستدانوں ، اپنے فوجی جرنیلوں اور اپنے میڈیا کے لوگوں کے نظر آنے والے اعمال سے اس قدر مایوسی رہی ہے کہ جس کا اظہار بہت مشکل ہے ۔ میری زندگی کے زیادہ دن غیروں کے دیار میں گزرے ، میری روح اور سوچ ان گلیوں ، ان بازاروں اور ان محلوں میں آج بھی مقید ہے جہاں میرا بچپن اور جوانی کے ابتدائ سال گزرے ۔ لیکن زندگی کے اس حصے میں آکر محسوس ہورہا ہے کہ اس ملک کی بہتری کا جو سراب تھا ، اس کی شام ہوچلی ہے ۔ شاید بقیہ زندگی بھی ان ہی غیروں کے دیار میں گزرے ۔ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ

    • This reply was modified 2 years, 9 months ago by Zaidi.
    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #9
    اعوان بھائ ، کیا وقت آگیا ہے کہ ہم جیسے بھی اب فوجیوں کے بنائے ہوئے نظام میں ان کی منطق اور عمل کے راستوں پر گفتگو کر رہے ہیں ۔ ہر ملک کی کچھ اپنی ضروریات ہوتی ہیں اور دنیا میں سب ممالک اپنے نظام کو اپنی سہولت اور آسانی کے لیے تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔ ان سب تبدیلیوں کا بنیادی مقصد اپنی عوام کی بہتری اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے ، ہمارے ھاں بھی نظام میں تبدیلی کے نام پر الٹ پلٹ جاری رہتی ہے لیکن اس سب الٹ پلٹ کا مقصد خاص طبقوں اور اداروں کو انتہائ فائدہ پہچانا ہوتا ہے نہ کہ عام لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا ۔ اس ملک کی تاریخ میں انصاف کے اداروں اور ہمارا عدلیہ کا ایک نہایت غلیظ اور انتہائ تاریک ماضی رہا ہے ۔ میں فوجی کی سویلین معاملات میں کھلا کھلم مداخلت کا ذمہ دار اپنی عدلیہ کے پستہ اور چھوٹے قد کے ان ججوں کو قرار دیتا ہوں جنہوں نے اپنے آج کے لیے ملک کے کل کو فروخت کردیا ہے ۔ آج بھی کسی منصف کے قلم میں انصاف کی ایک بوند بھی باقی نہیں ہے اور یہ بے شرم انتہائ ڈھٹائ سے اب بھی اپنے اصول اور قانون پر سمجھوتہ کیے بیٹھے ہیں ۔ اگر ان بے شرموں کے ھاں وطن کی محبت سے جڑی کوئ داستاں اور مثال ہوتی تو شاید ہم آج اس طرح دنیا بھر میں بے توقیر نہ ہوئے ہوتے ۔ یقین کیجئے اعوان صاحب ، مجھے اس حکومت ، پچھلی حکومت ، اپنے سیاستدانوں ، اپنے فوجی جرنیلوں اور اپنے میڈیا کے لوگوں کے نظر آنے والے اعمال سے اس قدر مایوسی رہی ہے کہ جس کا اظہار بہت مشکل ہے ۔ میری زندگی کے زیادہ دن غیروں کے دیار میں گزرے ، میری روح اور سوچ ان گلیوں ، ان بازاروں اور ان محلوں میں آج بھی مقید ہے جہاں میرا بچپن اور جوانی کے ابتدائ سال گزرے ۔ لیکن زندگی کے اس حصے میں آکر محسوس ہورہا ہے کہ اس ملک کی بہتری کا جو سراب تھا ، اس کی شام ہوچلی ہے ۔ شاید بقیہ زندگی بھی ان ہی غیروں کے دیار میں گزرے ۔ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ

    جی زیدی بھائی بہتری کی کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی جو ہم جیسے پروفیشنل کے لئے اپنے ملک میں عزت کی روزی روٹی کا بندوبست ہو – اب جتنی مہنگائی ہے ہم یہاں کما کر ڈالر وہاں خرچ کریں تو کوئی فرق نہیں وہاں بھی چیزیں ڈالر ریٹ پر ہی ہیں – کچھ بچت کر کے اپنا بڑھاپا وہاں گزار سکیں اس کی کچھ امید ہے وہ بھی اگر اس ملک کے سسٹم شکنجے نے جانے دیا –
    میرا خیال ہے ججوں کو زیادہ الزام دینا مناسب نہیں ہے جج ایک عام آدمی ہوتا جسے اپنے بیوی بچوں کی فکر ہوتی ہے ڈرائے جانے پر ڈرتا ہے دھمکائے جانے پر کانپتا ہے – آپ ان بڑے بڑے جاگیر دار سیاست دانوں کو دیکھ لیں جو طاقت ور ہیں مگر فوج کے سامنے ان کی طاقت صفر ہے – ہمارے سسٹم کو فوج نے اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ اس ملک میں رہ کر ان سے بیر نہیں لیا جا سکتا – وہ پانی کے مگرمچھ خشکی کے شیر اور ہوا کے عقاب ہیں – انہیں قابو کرنے کے لئے پہل سیاست دنوں کو ہی پہل کرنی ہو گی – جج جیسے ہرن شیر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے – جیسے اب ہر طرف سے سوال اٹھ رہے ہیں آگے جا کر مزید سوال اٹھیں گے جب سسٹم فوجی مداخلت سے نہیں چلے گا تو آزاد جمہوریت کی بات ہو گی – جیسے سوشل میڈیا کنٹرول نہیں کیا جا سکا ایسے ہی اب ہر ایک کی آواز دبائی نہیں جا سکے گی – سول سپرمیسی کی منزل تھوڑی دور ہے مگر پوھنچ میں ہے اور ہم وہاں ایک دن ضرور پوھنچھیں گے –

    نادان
    Keymaster
    Offline
      #10
      کلاسرا نے اس کالم میں کرپٹ اورنا اہل میں سے کسی ایک کے انتخاب کی بات کی ہے – اگرچے موجودہ حکومت میں ایسی بھی بات نہیں کہ ایمانداروں سے بھری پڑی ہے مگر زیادہ زور نا اہلی پر ہے -منصوبے لگ نہیں رہے کہ کسی کو بڑی کرپشن کا موقع ملے البتہ تقرریاں تبادلے پرمٹ وغیرہ ہی سے کمائی کی جا رہی ہے فلحال باقی مافیا اپنا کام پہلے طریقے سے ہی کر رہی ہے جس کی مثال آٹا چینی سکینڈل میں نظر آ گئی – پاکستان میں ایک عجیب سا مسلہ ہے کہ جو قابل ہے وہ کرپٹ بھی ہے اور جسے کرپشن نہیں کرنی آتی وہ بزدار کی طرح اتنا نا اہل ہے کہ اپنے گھر میں بجلی بھی نہیں لگوا سکتا – بیورو کریسی میں تو یہ بات ثابت شدہ ہے جو قابل ہے اچھی پرفارمنس دے سکتا ہے وہ یہ پرفارمنس مفت میں نہیں دیتا خوب مال کمانے کی تمنا رکھتا ہے – جو مال نہیں بنانا جانتا یا ڈرتا ہے وہ فائلوں کو دائرے میں گھماتا رہتا ہے نا فائل پر دستخط کرتا ہے اور نہ دستخط کرنے سے انکار – سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم قابل لوگوں کی کرپشن سے آنکھ بند کر کے اچھی پرفارمنس کرنے دیں یا ہم ان کی جگہ نا اہلوں کو بیٹھا دیں – جو نہ کوئی کام کریں گے اور نہ کرنے دینگے – کھڑا پانی بہتر ہے یا چلتا ہوا پانی جس میں تھوڑی گند کی ملاوٹ ؟

      ایک نون  لیگ کا حامی ہی کرپشن کی حمایت کر سکتا ہے .

      جو بات مجھے سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ عمران کے ارد گرد سارے وہ لوگ ہیں جو نوں لیگ سے ، قاف لیگ سے اور پیپلز پارٹی سے آئے ہیں ..بزدار تو ڈائریکٹ نون  لیگ سے آیا ہے ..نونی حکومت میں شاید کوئی تحصیلدار یا کچھ اسی قسم کا تھا ..پی ٹی  ایئر میں آ کر بھاگ کھل گئے ..لیکن یہ ہم ہی ہیں جو اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں

      اگر یہ وہاں حلال تھے  تھے تو یہاں آ کر کیوں حرام ہو گئے

      Bawa
      Participant
      Offline
      • Expert
      #11
      ایک نون لیگ کا حامی ہی کرپشن کی حمایت کر سکتا ہے . جو بات مجھے سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ عمران کے ارد گرد سارے وہ لوگ ہیں جو نوں لیگ سے ، قاف لیگ سے اور پیپلز پارٹی سے آئے ہیں ..بزدار تو ڈائریکٹ نون لیگ سے آیا ہے ..نونی حکومت میں شاید کوئی تحصیلدار یا کچھ اسی قسم کا تھا ..پی ٹی ایئر میں آ کر بھاگ کھل گئے ..لیکن یہ ہم ہی ہیں جو اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اگر یہ وہاں حلال تھے تھے تو یہاں آ کر کیوں حرام ہو گئے

      وہ جو فوجی جو ریٹائرمنٹ پر اربوں کی زمین، کمرشل پراپرٹیز، بے تحاشا مراعات اور سفیر کی پر کشش نوکری لینے کے باوجود انڈونیشیا میں پاکستان کا سفارت خانہ ہی بیچ کر کھا گیا ہے

      اس حلال فوجی کرپشن کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتی ہیں؟

      :bigsmile:

      EasyGo
      Participant
      Offline
      • Advanced
      #12
      اعوان بھائی کسی بھی طرح ن لیگ کو حکومت دلوانا چاہتے ہیں

      جس کے دور دور تک چانسز نہیں ہیں

      عمران خان سے مایوس صرف اس کے مخالف ہی ہیں

      اسکے ووٹر سپورٹر، نگہبان سائبان ابھی بھی اس کے ساتھ ہیں تو خطرہ کس بات کا

      کلاسرہ کا کوئی کام پھسا ہوگا

      نادان
      Keymaster
      Offline
        #13
        وہ جو فوجی جو ریٹائرمنٹ پر اربوں کی زمین، کمرشل پراپرٹیز، بے تحاشا مراعات اور سفیر کی پر کشش نوکری لینے کے باوجود انڈونیشیا میں پاکستان کا سفارت خانہ ہی بیچ کر کھا گیا ہے اس حلال فوجی کرپشن کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتی ہیں؟ :bigsmile:

        لٹکا دو

        نادان
        Keymaster
        Offline
          #14
          اعوان بھائی کسی بھی طرح ن لیگ کو حکومت دلوانا چاہتے ہیں جس کے دور دور تک چانسز نہیں ہیں عمران خان سے مایوس صرف اس کے مخالف ہی ہیں اسکے ووٹر سپورٹر، نگہبان سائبان ابھی بھی اس کے ساتھ ہیں تو خطرہ کس بات کا کلاسرہ کا کوئی کام پھسا ہوگا

          میں یعنی فوج نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب شریفوں کی باری مک گئی

          :bigsmile:

          Awan
          Participant
          Offline
          Thread Starter
          • Professional
          #15
          ایک نون لیگ کا حامی ہی کرپشن کی حمایت کر سکتا ہے . جو بات مجھے سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ عمران کے ارد گرد سارے وہ لوگ ہیں جو نوں لیگ سے ، قاف لیگ سے اور پیپلز پارٹی سے آئے ہیں ..بزدار تو ڈائریکٹ نون لیگ سے آیا ہے ..نونی حکومت میں شاید کوئی تحصیلدار یا کچھ اسی قسم کا تھا ..پی ٹی ایئر میں آ کر بھاگ کھل گئے ..لیکن یہ ہم ہی ہیں جو اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اگر یہ وہاں حلال تھے تھے تو یہاں آ کر کیوں حرام ہو گئے

          یہی رونا تو ہم سب رو رہے ہیں کہ عمران خان کے ارد گرد کرپٹ لوگ ہیں اگر اپنے اردگرد کرپٹ لوگوں کو چھوڑ کر صرف نون لیگ کو ٹارگٹ کرے گا تو انصاف کیسے ہو گیا – انصافی اور خود خان کہتا ہے کسی کو نہیں چھوڑوں گا وہ کسی صرف نون لیگ ہے – جو دو سال میں اپنے اردگرد لوگوں کا اعتساب نہ کر سکا کیا وہ بھد میں کرے گا – کیا نادان جی آپ کو صاف نظر نہیں آ رہا اعتساب کے نام پر اپنے مخالف نون لیگ کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا جا رہا ہے – اگر پیپلز پارٹی کرپٹ تھی تو پوری پیپلز پارٹی پنجاب تحریک انصاف کے اندر ہے کیا وہ صاف ہو گئی ہے کیا زرداری کا وزیر خزانہ جس کی مرضی کے بغیر کرپشن ہو ہی نہیں سکتی تھی اب صاف ہو گیا ہے ؟ میرا موقف ہے پاکستان جیسے ملک سے اتنی جلدی کرپشن ختم نہیں ہو سکتی – جب بھی منصوبے لگیں گے کرپشن ہو گی آپ نے پشاور میٹرو میں دیکھ لیا آپ کے اپنے لوگ اکلوتا منصوبہ لگنے کے بھد بھوکوں کی طرح پڑے اور تیس ارب کا منصوبہ چار گنا ایک سو بیس ارب میں مکمل ہوا – آپ ان سب کا دفاع کر رہے ہیں اور کرپشن کیس پر سٹے آرڈر لے رکھا ہے – کرپشن ملک میں چیک اور بیلنس اور ایک نیا شفاف نظام اور قانون سازی سے ممکن ہو گی – کیا ایسا کیا گیا بلکل بھی نہیں بلکے کسی کو نہیں چھوڑوں گا کے علاوہ کوئی عملی قدم نظر نہیں آتا جس سے مستقبل میں کرپشن ختم یا کم ہو – الیکشن سے پہلے نون ہٹا کر خود لانے کی لئے یہ نعرہ استعمال ہوا اور الیکشن کے بھد اسے اپوزیشن کو کچلنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے – کیا یہ حقیقت نہیں ؟

          Ghost Protocol
          Participant
          Offline
          • Expert
          #16
          کلاسرا نے اس کالم میں کرپٹ اورنا اہل میں سے کسی ایک کے انتخاب کی بات کی ہے – اگرچے موجودہ حکومت میں ایسی بھی بات نہیں کہ ایمانداروں سے بھری پڑی ہے مگر زیادہ زور نا اہلی پر ہے -منصوبے لگ نہیں رہے کہ کسی کو بڑی کرپشن کا موقع ملے البتہ تقرریاں تبادلے پرمٹ وغیرہ ہی سے کمائی کی جا رہی ہے فلحال باقی مافیا اپنا کام پہلے طریقے سے ہی کر رہی ہے جس کی مثال آٹا چینی سکینڈل میں نظر آ گئی – پاکستان میں ایک عجیب سا مسلہ ہے کہ جو قابل ہے وہ کرپٹ بھی ہے اور جسے کرپشن نہیں کرنی آتی وہ بزدار کی طرح اتنا نا اہل ہے کہ اپنے گھر میں بجلی بھی نہیں لگوا سکتا – بیورو کریسی میں تو یہ بات ثابت شدہ ہے جو قابل ہے اچھی پرفارمنس دے سکتا ہے وہ یہ پرفارمنس مفت میں نہیں دیتا خوب مال کمانے کی تمنا رکھتا ہے – جو مال نہیں بنانا جانتا یا ڈرتا ہے وہ فائلوں کو دائرے میں گھماتا رہتا ہے نا فائل پر دستخط کرتا ہے اور نہ دستخط کرنے سے انکار – سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم قابل لوگوں کی کرپشن سے آنکھ بند کر کے اچھی پرفارمنس کرنے دیں یا ہم ان کی جگہ نا اہلوں کو بیٹھا دیں – جو نہ کوئی کام کریں گے اور نہ کرنے دینگے – کھڑا پانی بہتر ہے یا چلتا ہوا پانی جس میں تھوڑی گند کی ملاوٹ ؟

          اعوان بھائی،
          سچ مانیں تو مجھے عمران خان میں بطور سیاستدان اور بطور حاکم کویی بھی خامی نظر نہیں آتی. اس نے انتہائی مہارت سے انہونی کو ہونی کردیا ہے حکومت بنالی ہے کسی قسم کے حکومتی تجربہ کی عدم موجودگی کے باوجود اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں ماری ہے جہاں اسکو جھکنا ہوتا ہے وہاں لیٹ جاتا ہے اور جہاں تھپڑ سے کام چل سکتا ہے وہاں توپ کا گولہ ماردیتا ہے، معیشت کی ایسی کی تیسی ہوگئی ہے مگر میڈیا سیل کی بدولت ایسا باکمال بیانیہ مرتب کیا جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کمال ہوشیاری اور ڈھٹائی سے پرانے منصوبوں کی دوبارہ نقاب کشائی کرتا ہے
          بینظیر انکم پروگرام جو کہ زرداری نے اپنا ووٹ بینک پکا رکھنے کے لئے شروع کیا تھا کا نام تبدیل کرکے اسکو مدینہ کی ریاست کی طرف اہم قدم قرار دیتا ہے صحافی وہ سانپ ہیں جنہوں نے اپنے آزاد میڈیا کے بانی جناب پرویز مشرف کو بھی ڈسنے سے نہیں بخشا اور جو کہ ہر حکومت کی سب سے مضبوط حزب اختلاف کا کردار بھی ادا کرتے رہے اور دامادوں کی طرح نخرے بھی اٹھواتے رہے انکو ایسی اوقات یاد دلائی کہ وہ جی حضوری پر لگے ہوے ہیں نیب کا جس مہارت اور ھڈ دھرمی سے استعمال اس دور میں ہو رہا ہے ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی تو یہ کریڈٹ بھی اسکو جاتا ہے
          سب سے بڑھ کر اس معاشرے میں مذھب کا چورن جس وافر مقدار میں خریدا اور بیچا جاتا ہے اسکی بھی ایسی ایسی جہتیں متعارف ہو رہی ہیں کہ ضیاء الحق کی ہڈیاں بھی قبر میں کروٹیں بدل رہی ہوں گیں .
          غرض مجھے تو عمران خان اس دور کا ارتغرل غازی لگتا ہے اور محسوس ہوتا ہے مسلمانوں کی سلطنت عمرانیہ کا آغاز ہو چکا ہے

          :clap: :clap: :clap:

          Awan
          Participant
          Offline
          Thread Starter
          • Professional
          #17
          اعوان بھائی کسی بھی طرح ن لیگ کو حکومت دلوانا چاہتے ہیں جس کے دور دور تک چانسز نہیں ہیں عمران خان سے مایوس صرف اس کے مخالف ہی ہیں اسکے ووٹر سپورٹر، نگہبان سائبان ابھی بھی اس کے ساتھ ہیں تو خطرہ کس بات کا کلاسرہ کا کوئی کام پھسا ہوگا

          آپ تازہ ترین سروے دیکھ لیں جن لوگوں نے پہلی بار ووٹ دیا تھا وہ کل ووٹ کا تینتیس فیصد تھے وہ سب اب کہتے ہیں یا تو ہم دوبارہ کسی کو بھی ووٹ نہیں دینگے یا اگر دیا بھی تو کسی نئی پارٹی کو دینگے – نئے ووٹر کے علاوہ نو جوانوں نے بہت لوگوں کو یہ کہتے ہوئے تحریک انصاف کو ووٹ دلوایا تھا کہ ایک بار چانس دینے میں کیا حرج ہے وہ سب اب چانس دے کر دوبارہ چانس دینے کے حق میں نہیں ہیں -بزدار کی کارکردگی کی وجہ سے انصافی حکومت سے بے زاری الگ ہے -ہمارے ملک میں پانچ سال بھد لوگ سے ویسے بھی بے زار ہو جاتے ہیں ان لوگوں نے بھی نون کی ہار میں اپنا حصہ ڈالا – میں ہمیشہ کہتا ہوں الیکشن کے دن ووٹنگ درست ہوئی دھاندلی نہیں ہوئی – پنجاب اسمبلی کے رزلٹ جو تین دن روک کر جاری ہوئے ان کے بارے میں یقین نہیں کہ وہاں ووٹ کی پرچی پر فیصلہ ہوا – تحریک انصاف کا اپنا پکا ووٹر اتنا ہی ہے جتنا دو ہزار تیرہ کے لیکشن میں تھا وہ اگلے الیکشن میں بھی تحریک انصاف کو ہی ووٹ دے گا اور ایک شفاف الیکشن کی صورت میں دو ہزار تیرہ کا رزلٹ دوبارہ آتا نظر آ رہا ہے – اگر حکومت نے لوکل باڈی کے الیکشن اگلے دو چار مہینے میں کرا دئے تو آپ کو ووہی رزلٹ اس میں نظر آ جائیگا -یاد رکھیں فوج کبھی بھی ایک مکمل غیر مقبول حکومت کو نہ لاتی ہے اور نہ اب لا سکے گی – دو ہزار اٹھارہ سے پہلے کے حالات کچھ اور تھے اب وہ دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتے – اس لئے یہ کہنا انصافی حکومت پانچ سال بھد بھی رہے گی بلکل غلط ہے ہاں البتہ فلحال ان کے پانچ سال پورے ہونے کے واضح امکان ہیں اور یہی مجھ سمیت ہر جمہوریت پسند چاہتا ہے وہ پانچ سال پورے کرے –

          • This reply was modified 2 years, 9 months ago by Awan.
          Awan
          Participant
          Offline
          Thread Starter
          • Professional
          #18
          اعوان بھائی، سچ مانیں تو مجھے عمران خان میں بطور سیاستدان اور بطور حاکم کویی بھی خامی نظر نہیں آتی. اس نے انتہائی مہارت سے انہونی کو انہونی کردیا ہے حکومت بنالی ہے کسی قسم کے حکومتی تجربہ کی عدم موجودگی کے باوجود اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں ماری ہے جہاں اسکو جھکنا ہوتا ہے وہاں لیٹ جاتا ہے اور جہاں تھپڑ سے کام چل سکتا ہے وہاں توپ کا گولہ ماردیتا ہے، معیشت کی ایسی کی تیسی ہوگئی ہے مگر میڈیا سیل کی بدولت ایسا باکمال بیانیہ مرتب کیا جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کمال ہوشیاری اور ڈھٹائی سے پرانے منصوبوں کی دوبارہ نقاب کشائی کرتا ہے بینظیر انکم پروگرام جو کہ زرداری نے اپنا ووٹ بینک پکا رکھنے کے لئے شروع کیا تھا کا نام تبدیل کرکے اسکو مدینہ کی ریاست کی طرف اہم قدم قرار دیتا ہے صحافی وہ سانپ ہیں جنہوں نے اپنے آزاد میڈیا کے بانی جناب پرویز مشرف کو بھی ڈسنے سے نہیں بخشا اور جو کہ ہر حکومت کی سب سے مضبوط حزب اختلاف کا کردار بھی ادا کرتے رہے اور دامادوں کی طرح نخرے بھی اٹھواتے رہے انکو ایسی اوقات یاد دلائی کہ وہ جی حضوری پر لگے ہوے ہیں نیب کا جس مہارت اور ھڈ دھرمی سے استعمال اس دور میں ہو رہا ہے ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی تو یہ کریڈٹ بھی اسکو جاتا ہے سب سے بڑھ کر اس معاشرے میں مذھب کا چورن جس وافر مقدار میں خریدا اور بیچا جاتا ہے اسکی بھی ایسی ایسی جہتیں متعارف ہو رہی ہیں کہ ضیاء الحق کی ہڈیاں بھی قبر میں کروٹیں بدل رہی ہوں گیں . غرض مجھے تو عمران خان اس دور کا ارتغرل غازی لگتا ہے اور محسوس ہوتا ہے مسلمانوں کی سلطنت عمرانیہ کا آغاز ہو چکا ہے :clap: :clap: :clap:

          عمران خان کی کوئی مہارت نہیں جو خان کو لائے تھے وہ جانتے تھے ایک بار لے آئے تو ہٹانا مشکل ہو گا – آپ نے دیکھ لیا نواز کو ہٹانے کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے – خان کا پچھلا کوئی ریکارڈ نہیں جس وجہ سے کوئی پانامہ سکینڈل بنا کر اسے چلتا کیا جا سکے – صرف ان ہاؤس تبدیلی لائی جا سکتی ہے اس کے بارے میں بھی طاقت وروں نے تب سوچا جب خان مہیشت کا بیڑا غرق کر چکا تھا اس تباہ محیشت والی حکومت میں خان کے ساتھ حصے دار بننے کو کوئی تیار نہیں ہے اسی لئے حکومت قائم ہے – ملکی مہیشت اور گوورنس کی مزید تباہی سے بچانے کے لئے سسٹم کے نیچے پلر اس کے بھد رکھے گئے ہے جب نون لیگ نے اس حکومت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے یہ پلر حکومت کو اگلے تین سال بھی کھڑا رکھیں گے – حقیقت میں حکومت اب فوج کے پاس ہے خان کے پاس ایک معمولی فیصلہ سازی بھی نہیں ہے اور خان نے کٹ پتھلی حکمران بننا قبول کر لیا ہے – خان نے کسی شاطر پنے کا مظاہرہ نہیں کیا ورنہ شاطر تو زرداری تھا سب کرپشن اور محیشت کے گراؤ کے باوجود حکومت پر کنٹرول رکھا اور اس وقت آپ کو ہر ادارے میں فوج نظر نہ آئی – خان تو اب اسی پر گزارا کر کے بیٹھا ہے کہ جو جیسا ہے چلتا رہے – خان کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا ہے فوج کو ہر جگہ آپ کی نا اہلی کی وجہ سے بٹھانا پڑا ہے – میڈیا کے ساتھ بگاڑ کر خان نے میڈیا کی توپوں کا رخ اپنی طرف کرا لیا ہے ورنہ میڈیا کو طریقے سے کنٹرول کیا جا سکتا تھا – ہر جگہ بدمعاشی سے کام چلانے کی وجہ سے کام بگڑے – اب میڈیا مینجمنٹ بھی فوج کر رہی ہے اس وزارت کا بھی وزیر اب فوجی ہے – یوں ہر جگہ اگر فوج نے کنٹرول سمبھالا ہوا ہے تو خان تو اب کم سے کم تنخواہ پر گزارا کر رہا ہے کونسا شاطر پن –

          Bawa
          Participant
          Offline
          • Expert
          #19
          لٹکا دو

          ایک فوجی کو گھسیٹ کر لانے اور گردن میں پٹا ڈال کر ڈی چوک میں لٹکانے کا فیصلہ آیا ہے تو پوری فوج اور اس کے بوٹ چاٹنے والی حکومت کی چیخیں نکل گئی ہے

          کسی اور فوجی کو لٹکانے کا فیصلہ آ گیا تو فوج نے سڑکوں پر نکل کر ماتم کرنا شروع کر دینا ہے

          یہ بلڈی سویلین ہی ہیں جو آئین، قانون اور عدالتوں کا احترام کرتے ہیں ورنہ فوج آئین، قانون اور عدالتوں کو جوتے کی نوک پر لکھتے ہیں

          فوج کی چیخیں نکلنے کے بعد کونسی عدالت بدمعاش فوج کے سامنے کھڑی ہوگی؟

          • This reply was modified 2 years, 9 months ago by Bawa.
          Ghost Protocol
          Participant
          Offline
          • Expert
          #20
          عمران خان کی کوئی مہارت نہیں جو خان کو لائے تھے وہ جانتے تھے ایک بار لے آئے تو ہٹانا مشکل ہو گا – آپ نے دیکھ لیا نواز کو ہٹانے کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے – خان کا پچھلا کوئی ریکارڈ نہیں جس وجہ سے کوئی پانامہ سکینڈل بنا کر اسے چلتا کیا جا سکے – صرف ان ہاؤس تبدیلی لائی جا سکتی ہے اس کے بارے میں بھی طاقت وروں نے تب سوچا جب خان مہیشت کا بیڑا غرق کر چکا تھا اس تباہ محیشت والی حکومت میں خان کے ساتھ حصے دار بننے کو کوئی تیار نہیں ہے اسی لئے حکومت قائم ہے – ملکی مہیشت اور گوورنس کی مزید تباہی سے بچانے کے لئے سسٹم کے نیچے پلر اس کے بھد رکھے گئے ہے جب نون لیگ نے اس حکومت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے یہ پلر حکومت کو اگلے تین سال بھی کھڑا رکھیں گے – حقیقت میں حکومت اب فوج کے پاس ہے خان کے پاس ایک معمولی فیصلہ سازی بھی نہیں ہے اور خان نے کٹ پتھلی حکمران بننا قبول کر لیا ہے – خان نے کسی شاطر پنے کا مظاہرہ نہیں کیا ورنہ شاطر تو زرداری تھا سب کرپشن اور محیشت کے گراؤ کے باوجود حکومت پر کنٹرول رکھا اور اس وقت آپ کو ہر ادارے میں فوج نظر نہ آئی – خان تو اب اسی پر گزارا کر کے بیٹھا ہے کہ جو جیسا ہے چلتا رہے – خان کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا ہے فوج کو ہر جگہ آپ کی نا اہلی کی وجہ سے بٹھانا پڑا ہے – میڈیا کے ساتھ بگاڑ کر خان نے میڈیا کی توپوں کا رخ اپنی طرف کرا لیا ہے ورنہ میڈیا کو طریقے سے کنٹرول کیا جا سکتا تھا – ہر جگہ بدمعاشی سے کام چلانے کی وجہ سے کام بگڑے – اب میڈیا مینجمنٹ بھی فوج کر رہی ہے اس وزارت کا بھی وزیر اب فوجی ہے – یوں ہر جگہ اگر فوج نے کنٹرول سمبھالا ہوا ہے تو خان تو اب کم سے کم تنخواہ پر گزارا کر رہا ہے کونسا شاطر پن –

          اعوان بھائی،
          مجھے علم ہے کہ خان کی تعریف آپ سے برداشت نہیں ہوتی. خان بلکل اسی راستے سے اقتدار میں آیا ہے جس سے سب آتے ہیں اور بھیجنے کا فیصلہ ہوگیا تو ایک ویڈیو اور عدالت کی چند ہیرینگ کی مار ہوگا . لہذا سٹ ٹائٹ یہ کہیں نہیں جارہا. اہم فیصلہ سازیاں ہمیشہ ہی فوج کے پاس رہیں ہیں مزید دو چار محکمہ براہ راست چلے بھی گئے تو کس بات کا اعترض ہے؟
          خان کی اصل ہوشیاری یہ ہے کہ طاقت کے مراکز اور اپنی کمزوری سے آگاہ ہے اور مکمل طور پر لیٹا ہوا ہے اسکے اندر کا کپتان اصل کپتانوں کے سامنے مرجاتا ہے.
          آپ بزدار کو رورہے ہیں اس لئے کہ اسکی شکل اچھی نہیں لگتی یا اسکے ڈراموں میں خادم اعلی والا اعلی معیار نہیں دکھتا؟ بھائی آپ کو پہلے بھی کہا ہے شہباز نے کارکردگی دکھا کر کونسا تیر مارلیا ہے جو بزدار سے گلے شکوے چل رہے ہیں؟جنوبی پنجاب کا ایک مسکین اور بے ضرر وزیر اعلی مل ہی گیا ہے تو وسطی پنجاب والوں کو اسکو برداشت کرنا چاہئے.
          وزیر اعظم بننے کے لئے خان نے جوتے گھساے ہیں، ماتھے ٹیکے ہیں، یو ٹرنز لئے ہیں، سچے ساتھیوں کو ٹھڈے مارے ہیں، مخالفین کو آغوش میں بھرا ہے اور کنٹینروں میں الٹے لٹک کر کرتب دکھایے ہیں اسکو اچھی طرح علم ہے کہ اسکے لئے کیا برا ہے بھلا ہے اسکو میری اور آپ کے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے .
          ابھی اسکے پاس تین سال ہیں معیشت میں اگر کچھ ھل چل مچ گئی جسکے آثار نظر آنا شروع ہورہے ہیں تو آئ ایس پی آر کی میڈیا ٹیم اسمیں اتنا ہوا بھرے گی کہ محسوس ہوگا کہ سابقہ حکومتوں کی نااہلیوں اور کرپشن نے ملک کو جہاں پہنچا دیا تھا خان نے ملک کو جاپان بنا دیا ہے ابھی تک حزب مخالف بھی سکون سے بیٹھی تھی کہ یہ حکومت اپنے بوجھ سے گر جائے گی مگر جیسے ہی کچھ مثبت اعشاریوں کی جھلک دکھنے لگی ہے تو نون کی صفوں میں اب کھلبھلی سی محسوس ہونے لگی ہے روابط بڑھ رہے ہیں میاں صاحب کی عمر تو بڑھ چکی ہے لہذا اب وہ پہلے والی توانائی تو نظر نہیں اے گی مگر حکومتوں کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کا بہت اچھا تجربہ انکے پاس ہے مگر اب کی مرتبہ یہ کھیل انکو اپنے بل بوتے پر ہی کھیلنا پڑے گا جو کہ یقینا بڑا امتحان ہے اب اگر نون عوام کو متحرک کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو تو شاید کچھ امید بنتی ہے ورنہ ابھی تک جسطرح کمپرومائزڈ اپوزیشن رہی ہے اور یہ ایسے ہی چلتی رہی تو خان کی اگلی ٹرم پکی ہے
          اس تمام کھیل میں ملک کے لئے کیا بہتر ہے یا برا ہے یہ ایک الگ موضوع ہے مگر پھر ملک کی کس کو فکر ہے؟

        Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 28 total)

        You must be logged in to reply to this topic.

        ×
        arrow_upward DanishGardi