Thread:
ڈاکو ہو مگر اناڑی نہ ہو
- This topic has 1 reply, 2 voices, and was last updated 1 year, 11 months ago by
Believer12. This post has been viewed 442 times
-
AuthorPosts
-
1 Apr, 2021 at 3:42 pm #1’ایک تو میں سچ بتا را ہوں اوپر سے ہنسے جاری ہو۔ دیکھ بھائی مرنا تو ہے پھر قاتل سے یہ کیوں نہ کہیں کہ پہلے چھری تیز کر لے۔‘
جٹ لائن کراچی کے شمیم بھائی مزے لے لے کر خود پہ بیتی ڈکیتی کی تازہ واردات کا احوال سنا رہے تھے۔ پہلے ایک معروف چینل میں ڈرائیور تھے۔ ان دنوں فوٹو کاپی کی دکان پہ بیٹھتے ہیں۔ فون میں نے یوں کیا تھا کہ ڈکیتی کی واردات میں ان کی موٹر سائیکل چھن جانے پر اظہار تعزیت کر لوں گی مگر دیوان کھل گیا۔
جیسے مچھروں کے لیے مشہور ہے کہ وہ پہلے ہلکا خون سونگھتا ہے پھر ہی بازو پہ بیٹھتا ہے، ایسے ہی شمیم بھائی کا ہلکا خون بھی ڈاکو دور سے سونگھ اور تاڑ لیتے ہیں۔ سڑک پہ اور بھی دس راہ گیر ہوتے ہوں گے مگر ڈاکووں کی نظر انتخاب بھی غضب کی ہے انہی پہ جا کر رکتی ہے۔
یہ کراچی کی سڑکوں پہ دندناتے ڈاکووں کے ہاتھوں اب تک دو بار نیم مشہور واجبی مالیت کے موبائل فونز، ایک بار تھوڑے بہت پیسوں سمیت پرس، ایک بار اہلیہ کے ہاتھ سے انگوٹھی اور پرس اور ابھی حال ہی میں اپنی ون ٹو فائیو بائیک گنوا چکے ہیں۔ پیشے سے ڈرائیور رہے ہیں وہ بھی ان دنوں میں جب کراچی میں روز ہی یوم سیاہ ہوا کرتا تھا۔ اس لیے درجنوں بار کراچی والے بیچاروں کو سر راہ لٹتے پٹتے گرتے پڑتے دیکھ چکے ہیں۔
شمیم بھائی کئی بار ڈاکوؤں کا نشانہ بننے کے باوجود پولیس کے پاس جانے کے قائل نہیں۔
میں نے بھی بڑا زور دیا کہ پچھلی وارداتوں میں تو سستے موبائل گئے تھے، اب تو بائیک گئی ہے کم از کم پولیس کو رپورٹ تو کرا دیں۔ کہنے لگے کہ ’پاغل تھوڑی ہوں۔‘
تو بات ہو رہی تھی شمیم بھائی کی خواہش کی۔ ان کے مطابق تجربہ کار ڈاکو بہت اعتماد سے لوٹ مار کرتے ہیں کیونکہ انہیں کراچی کی سڑکوں اور قانون سے بچ نکلنے کے سارے راستے پتہ ہوتے ہیں۔ یہاں تک بہت سے دوستوں نے تو ڈاکوؤں سے درخواست کرکے اپنے چھینے ہوئے موبائل سے سم واپس مانگی یا پرس سے شناختی کارڈ مانگا تو بڑے آرام سے مل گیا۔ مگر حال ہی میں ان کا سامنا کچے چوروں سے ہوگیا۔
بھائی شمیم بتا رہے تھے کہ شاہراہ فیصل کی ذیلی سڑک پہ ان کی بائیک چھننے والے لڑکے اناڑی تھے۔ ٹی ٹی پستول دکھا کر بائیک سے اترنے کا اشارہ کیا، یہ ہاتھ اٹھا کر کھڑے ہوگئے ایک ڈکیت لڑکے نے بائیک لی اور تیزی سے بھگانے کے چکر میں تھوڑی دور بائیک سمیت جا گرا۔ یہ بیچارے بہتیری صدائیں لگاتے رہے کہ بھائی بائیک لے لو نادرا کا شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس واپس کر دو، ڈاکو ہڑبڑائے ہوئے تھے، بھاگ نکلے۔
شمیم بھائی اب تک افسوس میں ہیں کہ انہیں ڈاکو بھی صحیح نہیں ملا۔ اسی تاصف بھرے لہجے میں کہنے لگے ’یونیورسٹی جانے والی عمر تو تھی ان کی، مر رہے ہوں گے بھوکے۔ لوٹ مار کے کام میں نئے لگتے تھے، کمبختوں کی سانس پھول رہی تھی، ہاتھ میں ٹی ٹی تھی پھر بھی ہاتھ کانپ رہے تھے۔‘
ہمارے دوست مسعود مرزا پکے کراچی والے ہیں ہر دوسرے تیسرے کراچی وال کی طرح انہوں نے بھی دو ڈھائی کروڑ کی آبادی میں ہونے والے جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی نفسیات پر خود ساختہ پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔
مسعود کے پاس سنانے کو ایسی کئی سروائیول سٹوریز ہیں جن میں کراچی والوں نے مزاحمت کی اور ڈاکو پکڑ لیا مگر مسعود بھی مانتے ہیں کہ حال میں ابھرنے والے نئے ڈکیت اور جرائم پیشہ افراد مزاحمت پر گولیاں چلانے میں دیر نہیں کرتے اس لیے ہیرو بننے کی چنداں ضرورت نہیں۔ بلکہ اب ایسی بھی چوریاں ہو رہی ہیں جن میں دکانوں سے کھانے پینے اور راشن کا سامان اٹھا لیا جاتا ہے۔
چند ماہ میں تواتر سے میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ کراچی میں آہستہ آہستہ بھتہ خور مافیا سر اٹھا رہا ہے۔
یہی کوئی سال چھ مہینے پہلے کی بات ہے کراچی والے اتراتے ہوئے بتاتے تھے کہ حالات بہت سدھر گئے ہیں، اب تو مہنگے موبائل فون بھی باہر لے کر نکل جاتے ہیں۔ کلائی میں سونے کی ہلکی چوڑی پہنی ہو یا گلے میں طلائی ہار، اب لُٹنے کا ڈر کچھ کچھ علاقوں میں ہے۔ مگر افسوس یہ خبر اب پرانی ہوگئی۔
چند ماہ میں تواتر سے میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ کراچی میں آہستہ آہستہ بھتہ خور مافیا سر اٹھا رہا ہے، چھینی گئی گاڑیوں، بائیک، موبائل فون، رقوم، لوٹے گئے بینکوں، نامکمل خوابوں اور اس پاگل پن میں جان سے جانے یا زخمی ہونے والوں کی فہرست ہندسوں کی شکل میں آ جاتی ہے۔
کراچی میں لوٹ مار کی نئی لہر کا تناظر جوڑنے کو تو بہت سے پیچیدہ مسائل سے بھی جوڑا جاسکتا ہے جیسے کہ شہر میں رینجرز کو اختیارات دینے کا معاملہ، جرائم پیشہ گینگ یا سیاسی پارٹیوں کے عسکری یا جرائم پیشہ گروہوں کی واپسی، بڑے نیٹ ورک والی دہشت گرد تنظیموں کے سلیپنگ سیلز وغیرہ۔
مگر چند ایک غیر مقبول وجوہات بھی ہیں جن میں سرفہرست ہے ہوش اڑا دینے والی مہنگائی، کرونا کے بعد غیریقینی صورت حال، بے روزگاری کی نئی اور شدید لہر اور کراچی کی سیاسی یتیمی۔
لیکن جب آپ آنکھ مسل مسل کر راتیں جاگیں، دھکے کھا کھا کردن بھر خوار ہوں پھر تھوڑا بہت کمائیں، بڑی حسرتوں سے ذرا سا بچائیں پھر کہیں جا کر مہینوں بعد کچھ اچھا خریدیں۔ اور ایسے میں کوئی گن دکھا کر منٹوں سیکنڈوں میں اسے چھین لے تو پھر اتنی عمیق تحقیق کے تناظر دیکھنے کا حوصلہ نہیں رہتا۔
کراچی والے بھائی شمیم کی طرح بس دعا ہی کرسکتے ہیں کہ یا اللہ کراچی کو امن و سکون دے، یہ نہیں تو ہمیں جانی اور مالی نقصان جھیلنے کا حوصلہ دے۔
https://www.independenturdu.com/node/63781/karachi-street-crimes-rise
-
This topic was modified 1 year, 11 months ago by
Muhammad Hafeez.
- thumb_up 1
- thumb_up Believer12 liked this post
8 Apr, 2021 at 11:37 pm #2جیسے کراچی والوں نے کرمنالوجی پر پی ایچ ڈی کررکھی ہے اسی طرح میں نے بھی اس سبجیکٹ پر کم از کم ماسٹرز تو کررکھا ہےہماری رہائش ایسی جگہ ہے جہاں پر بہت بڑا اور خاصا بہتر یعنی گراسی گراونڈز یا پارک ہے جس میں فٹبال، ہاکی ،کرکٹ اور اتھلیٹکس حتی کہ سیر کرنے والوں کیلئے ٹریک تک موجود ہے چاروں طرف دیواراور درخت لگاے گئے ہیں۔ اسدفعہ جب میں گیا تو کافی دوست اس ایریا میں شام کے بعد سیر کرنے سے رک گئے تھے پارک میں ایک حصہ کے متعلق کافی چہ میگوئیاں ہورہی تھیں کیونکہ دو فٹبال گراونڈ کے برابر وہ حصہ ایک تو کافی خستہ ہورہا تھا اور کسی قسم کی لائٹنگ کا انتظام بھی نہیں تھا۔ لوگ شام کے بعد ادھر جانے سے کنی کترانے لگ گئے تھے اور میری یہ عادت کہ جب بھی جانا ہے تو زیادہ فاصلہ بھی کرنا پڑے تو وہیں سے گزرنا ہے۔ وہاں بہت سکون ہوتا ہے۔دوستوں نے بتایا کہ نشئی ادھر جوا کھیلتے اور نشہ کرنے کے بعد ساری رات پڑے ملتے ہیں لوٹنے کی وارداتیں بھی عام ہوچکی ہیں جس میں لٹنے والے زخمی بھی ہوچکے ہیں جس میں خنجر بازی اور پستول دکھا کر پیسے لوٹنا وغیرہ ہوتا ہے۔ سب سے سنگین واردات جو اس کے ساتھ ہی ایک گھر میں ہوی وہ ڈکیٹی کی واردات میں دو عورتوں کا بہیمانہ قتل تھا۔ قاتل پکڑے گئے تھے کیونکہ خوشقسمتی سے محرم کی وجہ سے رینجرز موجود تھے انہوں نے پولیس کو سپورٹ فراہم کی اور ایک ماہر کھوجی نے قتل اور ڈکیٹی کی ورادات کا کھرا موقع پر ہی نکال لیا اور ریجنرز کے جوانوں نے ایک گھر جس کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا کی دیواریں پھلانگ کر اندر سے دو ڈاکو پکڑ لئے جو کراے پر رہتے تھے اور تیسرا ان کا ساتھی ایک عیسای تھا جو ساتھ والے گاوں سے صبح سویرے جاپکڑا۔میں اس کے باوجود باز نہیں آیا اور وہیں سے گزرتا رہا۔ایکدن کچھ زیادہ وقت ہوگیا عشا کی ازان بھی ہوچکی تھی دوستووں کو خیرباد کہہ کر میں اکیلا ادھر سے واک کرتے ہوے اپنی رہائش کیطرف رواں دواں تھا جب میں اس بہت بڑے پارک سے گزرنے لگا تو تقریبا سو گز دور مجھے ایک گروہ نوجوانوں کا بیٹھا دکھای دیا اندھیرے میں وہ صرف ہیولے لگ رہے تھے۔ میں واپس مڑ سکتا تھا مگر سوچا کہ ایسے ہی نوجوان بیٹھے ہونگے۔ جب میں ان سے صرف بیس گز دور تھا تو ایک نوجوان اٹھ کرباقی گروپ سے چند قدم دور پیشاب کرنے دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا میں سمجھ گیا کہ اب انہوں نے مجھے نرغے میں لینے کا پلان بنا لیا ہے اور دونوں طرف سے مجھے قابو کریں گے یا ہوسکتا ہے اگر میں ان سے مزاحمت کروں تو پیچھے سے جو بندہ دیوار کے ساتھ بیٹھا ہے اٹھ کر مجھے پیچھے سے قابو کرے یا ہوسکتا ہے کوی بوتل وغیرہ میرے سر پر مار کر ڈھای تین سو کا نقصان بھی کروادے۔ دو تین ہزار جیب میں بھی تھے خیر جب میں ان کے بالکل قریب پنہچ گیا تو اس گروپ میں سے سرگوشیانہ سی ایک آواز آی،،،اوے ،،،،پای روف ای۔۔۔۔۔۔۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ میں ان کے قریب سے گزر کر گھر آگیا مگر کسی نے مجھے روکنے یا لوٹنے کی کوشش نہیں کی
دراصل وہ گروہ انہی نشئیوں اور لٹیروں کا تھا مگر ان میں سے اکثر میرے محلے کے ہی تھے لہذا بچت ہوگئی
-
This reply was modified 1 year, 11 months ago by
Believer12.
-
This topic was modified 1 year, 11 months ago by
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.