Home Forums Siasi Discussion پی ڈی ایم

  • This topic has 5 replies, 3 voices, and was last updated 2 years, 5 months ago by JMP. This post has been viewed 474 times
Viewing 6 posts - 1 through 6 (of 6 total)
  • Author
    Posts
  • JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1

    مجھے پی ڈی ایم کے اغراض اور مقاصد کی زیادہ خبر نہیں اور شاید اسکی وجہ میری کند ذہنی ہے اور اس وجہ سے ان اغراض اور مقاصد پر میرے لئے کچھ کہنا ممکن نہیں.

    میں پی ڈی ایم کے حوالے سے صرف اپنی حقیر راۓ اس بات پر دے سکتا ہوں کے اس تحریک سے میرے خیال میں کس کو فائدہ حاصل ہوا ہے اور کس کو نقصان

    ١) میرے خیال میں پی ڈی ایم کا سب سے بڑا فائدہ محترمہ مریم نواز صاحبہ اور مسلم لیگ نون کو ہوا ہے. محترمہ مریم صاحبہ کو موقع مل گیا کہ خود کو ملک گیر سطح پر روشناس کروائیں اور اس میں وہ کامیاب ہو گئی ہیں. انہوں نے ساری توجہ اپنی طرف مرکوز کروا لی ہے. سیاسی سطح پر اب انکو ایک بڑا رہنماء مانا جا رہا ہے گو انکی تقریر انتہائی بے ربطہ ہوتی ہیں. ان تقاریر میں کہیں کچھ ایسا نظر نہیں آتا کہ انکو رہنما مانا جاۓ مگر پھر بھی سب انکو جمہوری قوتوں کا نگہبان مان بیٹھے ہیں اور انکی سیاسی بصیرت کی واہ واہ کرتے نظر آ رہے ہیں اور انکو اپنے والد کی طرح ایک ہی فوقیت حاصل ہے اور اس کا وہ فائدہ اٹھانا جانتی ہیں

    ٢) دوسرا فائدہ مولانا فضل ارحمان صاحب کو ہوا ہے . گو مولانا پاکستانی سیاست میں پچھلے تیس ایک سالوں سے متحرک ہیں اور اپنی شناخت رکھتے ہیں لیکن ایک نسبتاً چھوٹی اور کافی حد تک علاقائی حد تک اثر رسوخ رکھنے والی جماعت کے سربراہ کو ملک گیر تحریک کا صدر ہونے کا شرف حاصل ہوا اور سیاسی سطح پر ان جماعتوں کے حمایت کرنے والوں سے خطاب کرنے کا موقع بھی ملا جو کسی اور صورت میں مولانا صاحب کے جلسوں میں شریک نہ ہوتے .

    ٣) اس تحریک کا سب سے بڑا نقصان پیپلز پارٹی اور بلاول کو ہوا ہے. گو پنجاب ، خیبر پختونخواہ ، کراچی اور بلوچستان میں اپنا اثر کھونے والی جماعت پہلے ہی زیادہ اہم نہیں رہی مگر اس بار وہ اپنے سب سے بڑی حریف مسلم لیگ کی ترجمان جماعت بن گئی . اگر اس کو پنجاب میں کچھ پیشرفت کرنے کی تھوڑی بہت بھی امید تھی وہ ختم ہو گئی . بلاول ہر موقع پر محترم مریم سے کم اہم نظر آیا اور ایسا لگا کہ محترمہ مریم صاحبہ ان سے کہیں اونچے درجے کی رہنماء ہیں . اب اگر پیپلز پارٹی اپنی سندھ میں حکومت بچانے کے لئے پی ڈی ایم سے انحراف کرتی ہے تو بزدلی اور پیٹھ میں چھڑا گھونپنے کے طعنے ملیں گے اور اگر یہ جماعت سندھ میں اپنی حکومت گنوانے پر آمادہ ہو جاتی ہے تو شاید کافی عرصہ تک دوبارہ سندھ میں حکومت حاصل نہ کرسکے . بلاول اور پیپلز پارٹی کے پاس کوئی جواز نہیں تھا کہ وہ اس تحریک میں شامل ہوں مگر اس عہد کے سب سے موثر اور بہترین سیاستدان محترم نواز شریف صاحب اور آنے والے وقتوں کی سب سے موثر سیاستدان محترمہ مریم صاحبہ نے ایک بار پھر شاندار سیاسی چال چل کر ایک تیر سے کئی شکار کر لئے اور ان میں سے ایک آنے والے وقتوں میں پپپلز پارٹی کی حثیت کو بلکل غیر معنی کر دینا

    ٤) اس تحریک کا ایک نقصان محترم شہباز شریف اور جناب حمزہ شہباز کے کردار میں کمی ہے . محترم شہباز شریف صاحب کی جو بھی اہمیت تھی وہ پیچھے رہ گئی اور مسلم لیگ نون اب مسلم لیگ میم بن گئی ہے. محترمہ مریم نواز اب اس جماعت کا چہرہ ہیں اور انکی گرفت اس جماعت پر مظبوط ہو گئی ہے. محترم شہباز شریف صاحب یا حمزہ صاحب زیادہ سے زیادہ بدستور پنجاب کے وزیر اعلی تک ہی محدود رہیں گے

    ٥) پی ڈی ایم نے نہ چاہتے ہوے بھی محترم عمران خان اور انکی جماعت پی ٹی آئ کو اپنا مد مقابل بنا کر اس ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت مان لیا ہے اور یہ پی ٹی آئ کا فائدہ ہے. اگر اس کی کارکردگی اچھی نہیں تھی اور یہ نا اہل لوگ ہیں تو تین سال بعد لوگ انکو دوبارہ اقتدار نہیں دیتے مگر محترمہ مریم صاحبہ کی سیاسی جلد بازی اور محترم عمران خان صاحب کی نا پسندگی نے پی ڈی ایم کی صورت اختیار کر کے محترم عمران خان اور پی ٹی آئ کو ایک جلا بخش دی ہے. مولانا فضل ارحمان صاحب نے اپنی جماعت کی شکست اور اہمیت میں کمی کا ذاتی انتقام لینے کے لئے پی ڈی ایم تو بنا ڈالی مگر اپنے کمزور ہوتے حریف کو ایک بار پھر ایک قوت بخش دی .

    • This topic was modified 2 years, 5 months ago by JMP. Reason: سب
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    آپ کی یہ بات درست ہے کہ دو بڑی اور ایک علاقای پارٹی کو پی ڈی ایم کی صورت میں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا ہوگیا جس کی بنیادوں پر انہوں نے مستقبل کی سیاسی عمارت تعمیر کرنی ہے۔ میرے نزدیک عمران خان اور اس کی پارٹی سخت نامقبول پارٹی ہے اور اگر کل الیکشن کرواے جائیں تو یہ سیاسی موت مرجاے گی ۔ اس کی بنیادی وجہ پارٹی کا عام ووٹر کے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی ہے بلکہ عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، حکومتی پارٹی میں شامل صف اول کے وزرا امیرانہ بیک گراونڈ سے ہیں اور خاصے تساہل پسند اور عیش کوش واقع ہوے ہیں ان سے آپ اٹھارہ گھنٹے محنت اورقوم کے غم میں جاگنے کی توقع مت رکھیں مثلا شاہ محمود ایک علاقای پیر بھی ہے، اسد عمر جو ایک جرنیل کا بیٹا ہے،، اعظم سواتی ایک امیر بلیک لسٹ بزنس مین، زلفی بخاری ایک امیر برٹش ناکام بزنس مین، بزدار جو انتہای سست اور آرام پسند وزیراعلی ہے، فردوس عاشق اور شبلی فراز جو دو الگ الگ ناموں کے ساتھ ایک ہی وجود لگتے ہیں۔ ان کا کام بھی بیڈروم میں لیٹے لیٹے مریم نواز کے بیانات کا جواب دینا ہوتا ہے، غرض عمران کی پارٹی کو سواے سرحد کے کہیں سے بھی ووٹ نہیں ملنے بہت بری شکست دیکھے گی اسی لئے عمران پریشان ہے اور اگلے سال کے دوران ہی کوی نیا سسٹم لانا چاہتا ہے

    اپوزیشن نے جو چال چلی ہے وہ بہت کامیاب رہی ہے کیونکہ دو بڑی پارٹیوں کے بچے مولانا فضل الرحمان کی کمپنی سے سیاست کے اسرار و رموز سیکھ رہے ہیں اور ان بچوں نے عمران کے ایک درجن مشیروں وزیروں کو اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے، حکومت کوی کام کرنے کی بجاے اپنی ساری انرجی ان بچوں کا توڑ کرنے میں لگی رہتی ہے ہر روز پریس بریفنگ ہورہی ہیں جن کو ایک عقلمند بندے کیلئے ہضم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی کو ہرانا بہت آسان ہے مگر ان کے ساتھ حکومت کسی خفیہ ڈیل کے بعد پنگے نہیں لے گی، یہ ڈیل مکمل ہوچکی ہے زرداری پی ڈی ایم کے معاہدے سے پیچھے ہٹ چکا ہے اور بلاول بے چارہ منہ چھپاتا پھر رہا ہے لیکن اس تھوڑی سی بے غیرتی دکھانے کے نتیجے میں زرداری کو سندھ حکومت ملی رہے گی

    کک باکسر
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #3
    آپ کی یہ بات درست ہے کہ دو بڑی اور ایک علاقای پارٹی کو پی ڈی ایم کی صورت میں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا ہوگیا جس کی بنیادوں پر انہوں نے مستقبل کی سیاسی عمارت تعمیر کرنی ہے۔ میرے نزدیک عمران خان اور اس کی پارٹی سخت نامقبول پارٹی ہے اور اگر کل الیکشن کرواے جائیں تو یہ سیاسی موت مرجاے گی ۔ اس کی بنیادی وجہ پارٹی کا عام ووٹر کے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی ہے بلکہ عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، حکومتی پارٹی میں شامل صف اول کے وزرا امیرانہ بیک گراونڈ سے ہیں اور خاصے تساہل پسند اور عیش کوش واقع ہوے ہیں ان سے آپ اٹھارہ گھنٹے محنت اورقوم کے غم میں جاگنے کی توقع مت رکھیں مثلا شاہ محمود ایک علاقای پیر بھی ہے، اسد عمر جو ایک جرنیل کا بیٹا ہے،، اعظم سواتی ایک امیر بلیک لسٹ بزنس مین، زلفی بخاری ایک امیر برٹش ناکام بزنس مین، بزدار جو انتہای سست اور آرام پسند وزیراعلی ہے، فردوس عاشق اور شبلی فراز جو دو الگ الگ ناموں کے ساتھ ایک ہی وجود لگتے ہیں۔ ان کا کام بھی بیڈروم میں لیٹے لیٹے مریم نواز کے بیانات کا جواب دینا ہوتا ہے، غرض عمران کی پارٹی کو سواے سرحد کے کہیں سے بھی ووٹ نہیں ملنے بہت بری شکست دیکھے گی اسی لئے عمران پریشان ہے اور اگلے سال کے دوران ہی کوی نیا سسٹم لانا چاہتا ہے اپوزیشن نے جو چال چلی ہے وہ بہت کامیاب رہی ہے کیونکہ دو بڑی پارٹیوں کے بچے مولانا فضل الرحمان کی کمپنی سے سیاست کے اسرار و رموز سیکھ رہے ہیں اور ان بچوں نے عمران کے ایک درجن مشیروں وزیروں کو اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے، حکومت کوی کام کرنے کی بجاے اپنی ساری انرجی ان بچوں کا توڑ کرنے میں لگی رہتی ہے ہر روز پریس بریفنگ ہورہی ہیں جن کو ایک عقلمند بندے کیلئے ہضم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی کو ہرانا بہت آسان ہے مگر ان کے ساتھ حکومت کسی خفیہ ڈیل کے بعد پنگے نہیں لے گی، یہ ڈیل مکمل ہوچکی ہے زرداری پی ڈی ایم کے معاہدے سے پیچھے ہٹ چکا ہے اور بلاول بے چارہ منہ چھپاتا پھر رہا ہے لیکن اس تھوڑی سی بے غیرتی دکھانے کے نتیجے میں زرداری کو سندھ حکومت ملی رہے گی

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #4
    جے صاحب میں آپ کی اجازت سے آپ کے ایک نقطے پر اختلاف کرنا چاھوں گا – آپ نے نقطہ نمبر تین میں بلاول کو پی ڈی ایم تحریک میں سب سے زیادہ نقصان والا کہا ہے لیکن میری نظر میں ایسا نہیں ہے – بلاول جب سے سیاست میں آیا ہے اس کی سیاست پر اس کے باپ زرداری کی چھاپ تھی وہ زرداری کا ڈپٹی تو لگتا تھا مگر کہیں بھی پیپلز پارٹی کا با اختیار لیڈر نظر نہیں آیا – پی ڈی ایم تحریک اور گلگت بلتستان کے انتخابات نے بلاول کو بھی مریم کی طرح ایک ملک گیر لیڈر کے طور پر روشناس کرایا ( اگرچے میں ان دونوں کے لیڈر ہونے کی بات سے متفق نہیں ہوں جو الگ بحث ہے ) – بلاول نے دبنگ بیان بازی کی اور میڈیا نے بھی اسے خوب کوریج دی یوں بلاول کی اچھی خاصی نیٹ پریکٹس ہوئی جو اگلے جنرل الیکشن کے موقع پر بڑی مہم چلانے میں اس کا اثاثہ ثابت ہو گی – جہاں تک پنجاب میں پیپلز پارٹی کی واپسی کا تحعلق ہے تو یہ تو ممکن ہی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب زرداری سیاست سے دور اور بلاول اکیلا سیاست میں ہو – میرے خیال میں بہت دیر سے ہی سہی مگر زرداری صاحب کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ وہ خود پیپلز پارٹی کے لئے کلنک کا ٹیکا ہیں اور جتنا زیادہ وہ پارٹی سیاست سے دور رہیں گے اتنا ہی پارٹی کے لئے بہتر ہے (میڈیا کی حد تک دور رہنا ) – پنجاب کی سیاست ایسی ہے کہ یہ ہیمشہ ٹو پارٹی سسٹم کے گرد گھومی ہے – تحریک انصاف اور نون لیگ کے ہوتے ہوئے نہ تو تیسری پارٹی کی ابھی کنجائش نکل رہی ہے اور نہ ابھی پنجاب پیپلز پارٹی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے – تجربے کار صحافی ایاز امیر لکھتا ہے کہ جو تحریک انصاف کے حالات ہیں اگلے الیکشن میں کوئی اچھا امیدوار تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے کے لئے تیار نہ ہو گا اور تحریک انصاف کے پنجاب میں زوال سے جو خلا پیدا ہو گا اسے جلد یا بدیر پیپلز پارٹی نے ہی بھرنا ہے اور میری نظر میں یہ تبھی ممکن ہے کہ بلاول پر سے زرداری سیاست کی چھاپ مکمل طور پر ختم ہو جائے –

    JMP

    JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #5

    لگتا ہے کہ یہ اتحاد شاید اب اتنا موثر نہیں رہا

    ہر کسی کو اپنی پڑی ہے، نہ کسی کو کسی پر اعتبار ، ہر کوئی ایک دوسرے کا ڈسا ہوا ہے

    اور لگ رہا ہے کہ زرداری ایک بار پھر برائیاں اور گالیاں سمیٹنے والا ہے

    JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #6

    دیکھیں کون کس قیمت پر معاملات طے کر لیتا ہے

Viewing 6 posts - 1 through 6 (of 6 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi