Home Forums Siasi Discussion پروفیسر حسن عسکری پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ مقرر

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 152 total)
  • Author
    Posts
  • Muhammad Hafeez
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1
    الیکشن کمیشن آف پاکستان ( ای سی پی ) نے متفقہ طور پر پروفیسر حسن عسکری کو پنجاب کا نگراں وزیر اعلیٰ مقرر کردیا۔

    اسلام آباد میں ایڈیشنل سیکریٹری اختر نذیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ پنجاب کا نگراں وزیر اعلیٰ پروفیسر حسن عسکری کو مقرر کیا جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پروفیسر حسن عسکری کا شمار پاکستان کی نامور علمی شخصیات میں ہوتا ہے اور وہ ملکی اور غیر ملکی درسگاہوں میں شعبہ علم و تدریس سے منسلک ہیں، اس کے علاوہ وہ مختلف اخبارات، جرائد اور ٹی وی چینلز پر اہم موضوعات پر ایک مایہ ناز مبصر تصور کیے جاتے ہیں۔

    ایڈیشنل سیکریٹری نے بلوچستان کے نگراں وزیر اعلیٰ کے حوالے سے بتایا کہ آج یا کل میں صوبہ بلوچستان کے نگراں وزیر اعلیٰ کا بھی فیصلہ ہوجائے گا۔

    واضح رہے کہ پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ کے معاملے پر صوبائی حکومت اور اپوزیشن نے پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی، تاہم وہاں بھی ناموں پر اتفاق رائے نہ ہونے پر یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا گیا تھا۔

    نوٹ: یہ ابتدائی خبر ہے اس میں تفصیلات شامل کی جا رہی ہیں۔

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    الله خیر کرے

    فوجیوں کا بوٹ چاٹیا پنجاب کا نگران وزیر اعلی بن گیا ہے

    اب فوجیوں کو پنجاب فتح کرنے میں جوڈیشری، نیب اور ملاؤں کے ساتھ ساتھ نگران وزیر اعلی کا مکمل تعاون بھی حاصل ہوگا

    Athar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #3
    جس فرد کا نام ایک فریق دے چکا اُس کو الیکشن کمیشن کس طرح نامی نیٹ کر سکتا ہے

    الیکشن کمیشن کو تو دونوں فریقین کے دیئے ہوئے ناموں کے علاوہ کسی تیسرے فرد کو نامزد کرنا چاہئے

    یہی الیکشن کمیشن اگر حکومت کی جانب سے دیئے گئے کسی فرد کو منتخب کرتی تو اس کی وہ ماں بھین ہونی تھی کہ کیا معلوم اس کو بھی یو ٹرن لینا پڑ جاتا لیکن اب چونکہ نیازی لمیٹیڈ کے ٹھپے والے فرد کو منتخب کیا ہے تو اپنی واہ واہ سے خوب محظوط ہو رہے ہونگے۔

    Athar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #4

    پلی پول ریگنگ نا منظور

    یکطرفہ الیکشن کمیشن نا منظور

    Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #5
    اگرچہ دنیا نیوز پر عسکری صاحب کی باتیں ان کا مائینڈ سیٹ واضع کرنے کے لئے کافی ہیں۔پھر بھی غنیمت ہے  کہ ایاز امیر نہیں ہیں۔

    خیبر پختون خواہ میں اپوزیشن کا نام سیلیٹ کیا گیا تاکہ کل نتائج کے وقت اپوزیشن دھاندلی کا الزام نہ لگا سکےاور

    شاید اسی خدشے کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب میں پی ٹی آئی کے دئے نام پر اتفاق کر لیا گیا۔ اب یہ نام مکمل طور پر پی ٹی آئی کا تجویز کردہ ہے۔

    کل اگر پی ٹی آئی کو مطلوبہ نتائج نہیں ملتے تو اصول پسندی تو یہ ہے کہ نتائج کو خوش دلی سے تسلیم کرے

    لیکن کیا ایسا ہوگا ؟ ؟ ؟

    • This reply was modified 53 years, 5 months ago by .
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    جس فرد کا نام ایک فریق دے چکا اُس کو الیکشن کمیشن کس طرح نامی نیٹ کر سکتا ہے الیکشن کمیشن کو تو دونوں فریقین کے دیئے ہوئے ناموں کے علاوہ کسی تیسرے فرد کو نامزد کرنا چاہئے یہی الیکشن کمیشن اگر حکومت کی جانب سے دیئے گئے کسی فرد کو منتخب کرتی تو اس کی وہ ماں بھین ہونی تھی کہ کیا معلوم اس کو بھی یو ٹرن لینا پڑ جاتا لیکن اب چونکہ نیازی لمیٹیڈ کے ٹھپے والے فرد کو منتخب کیا ہے تو اپنی واہ واہ سے خوب محظوط ہو رہے ہونگے۔

    آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس اسکا اختیار نہیں ہے. الیکشن کمیشن حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے نامزد چاروں افراد میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا پابند ہے

    الیکشن کمیشن نے خیبر پختون خواہ میں بھی پنجاب کی طرح اپوزیشن کی طرف سے دیا گیا نام منتخب کیا ہے. ابھی بلوچستان کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا

    اس سلسلے میں پی پی پی کا کردار دوسری پارٹیوں سے بہتر رہا ہے. اس نے مرکز میں متفقہ نگران وزیر اعظم اور سندھ میں متفقہ نگران وزیر اعلی منتخب کیا ہے. مسلم لیگ نون کا کردار بھی مثبت تھا کیونکہ اس نے بھی مرکز میں متفقہ نگران وزیر اعظم اور پنجاب میں متفقہ نگران وزیر اعلی منتخب کر لیا تھا لیکن بعد میں پی ٹی آئی نے یو ٹرن لے لیا. پی ٹی آئی کا کردار انتہائی منفی رہا ہے اور اس نے پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں متفقہ نگران وزراۓ اعلی کے نام واپس لے کر اپنے سیاسی نابالغ ہونے کا کھلا ثبوت دیا ہے

    • This reply was modified 53 years, 5 months ago by .
    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #7
    میں جبّار بھاہی کی رائے سے اتفاق کرتا هوں اچھا ہے ایاز امیر سے بہتر ہے اور پچھلی بار کے سیٹھی کی طرح سمارٹ بھی نہیں کہ اپنے طور پر کچھ خاص کر سکے – اسے پتھر ہی سمجیں جو دو مہینے تک پڑا رہے گا باقی اگر اسٹیبلشمنٹ دھاندلی نہیں کر سکتی تو نگران نگراں وزیر اعلیٰ کیا کر لے گا – دوسرے تھریڈ پر سرل المیڈا کا “اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن میں کردار” پر بہت اچھا مضمون ہے ضرور پرہیں – میں یہاں بھی کاپی کر رہا هوں
    ——–

    انتخابات 2018: سب سے بڑی نامعلوم قوت کون؟
    بعد میں آنے والوں کو ہمیشہ یہ زعم ہوتا ہے کہ وہ اور ان کے آس پاس ہونے والی چیزیں زیادہ اہم ہیں۔ یہ کہ ان کی جنگیں زیادہ خوفناک، ان کی مزاحمت زیادہ عظیم، ان کے دشمن زیادہ بدصورت، ان کے حربے زیادہ نت نئے اور ان کی بداخلاقی زیادہ عروج پر ہوتی ہے۔
    اور جنون بھی مثالی۔
    ظاہر ہے کہ اس ملک کی تاریخ اس گمان کو زائل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ 4 عظیم مسیحا، کئی پُرتشدد نظریاتی، 25 سال سے بھی کم عرصے میں ایک شرمناک علیحدگی یہاں تک کہ ملک کی پیدائش کے وقت کے حالات، خوشی، سماجی اور سیاسی اتھل پتھل، سب ایک لفظ پر منتج ہوئے: بٹوارہ۔
    اس لیے ابھی سے ہی حالات کی رو میں نہ بہہ جائیں۔
    مگر تشویش کی بھی ضرورت ہے۔
    زبردست بے یقینی، بوکھلاہٹ اور ہاں، وہ خوف جس نے سیاسی نظام کو جکڑ رکھا ہے، صرف ایک خیالی پلاؤ نہیں ہے۔ ہمیں نواز کی ضرورت نہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ بحران ہے، نہ ہی عمران کے بحران سے انکار کی ضرورت ہے اور نہ ہی بحران کو جاننے کے لیے زرداری کی ضرورت ہے جو بحران سے فائدہ اٹھانے کے لیے موقعے کی تلاش میں ہیں۔
    بحران حقیقی کے ساتھ ساتھ کثیر رخی بھی ہے، اور ہم انتخابات کے جتنا قریب آتے جائیں گے، یہ اتنا زیادہ بگڑتا جائے گا۔ کیوں کہ تمام تر اثراندازی اور مرحلے پر قابو پانے کے حربوں کے باوجود ایک طاقتور مگر نامعلوم عنصر موجود ہے: ووٹر۔
    یہ وہ کہانی ہے جو کئی طرح پہلے ہی سنائی جاچکی ہے۔ (ن) لیگ بکھری نہیں ہے، پی ٹی آئی اپنا راستہ بنانے سے رک نہیں رہی، چنانچہ فیلڈ سے ملنے والے سیاسی اشارے بتا رہے ہیں کہ ووٹر تقسیم ہیں اور ایک معلق پارلیمنٹ بنے گی۔
    2018ء کا پاکستان 2008ء کا پاکستان نہیں ہے، اور 1998ء کا پاکستان تو بالکل بھی نہیں ہے
    ۔
    اس میں سے کچھ باتیں اچھی، بلکہ درحقیقت یقین میں اضافے کا محرک ہیں۔ انتخابات کے دن دھاندلی پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہے پھر چاہے یہ ڈبے بھرنے کے ذریعے ہو، ٹرن آؤٹ کو دبا کر یا پھر نتائج کو تبدیل کرکے۔
    کیوں کہ اب یہ کہنا ممکن ہے، ملک کے جو انتخابات سب سے زیادہ مستقلاً دھاندلی کا شکار ہوئے، وہ ممکنہ طور پر کراچی میں تھے۔ اس لیے نہیں کیوں کہ ایم کیو ایم کو اکثریتی نشستیں نہ حاصل ہوتیں، بلکہ اس لیے کہ پرانی جماعت پورا کنٹرول چاہتی تھی۔
    اگر طاقت کے ذریعے 90 یا 100 فیصد نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں تو 60 فیصد کی کیا ضرورت ہے؟ اور وہ بھی کیا ہی دور تھا: منظم انداز میں ڈبوں کی بھرائی، ڈرا دھمکا کر اور تشدد کے ذریعے مخالفین کو دبانا، الیکشن افسران کو اپنے من پسند نتائج لکھوانا۔
    اس ہیبت ناک مشین کی بنیاد خوف، بدلے کے یقین پر اور اس عوامی معلومات پر قائم تھی کہ ایم کیو ایم کسی بھی طرح اکثریت لے ہی لے گی۔ چنانچہ کیوں کوئی شخص جان جوکھم میں ڈال کر ایم کیو ایم کو جیت کے حقیقی مارجن یا جیتی گئی نشستوں کی زیادہ قابلِ یقین تعداد تک محدود رکھنے کی کوشش کرتا؟
    وہ خوف قومی سطح پر کبھی بھی موجود نہیں رہا، اور بدحواس ترین اندازوں اور سازشوں کے باوجود یہ خوف اب اور بھی کم ہوچکا ہے، اور پھر ہمارے سامنے حقیقی تبدیلی ہے، یعنی معلومات
    لاکھوں جیبوں میں موجود کیمرے، اسکینڈل کی بھوکی سوشل میڈیا، جانبدار الیکٹرانک میڈیا کی موجودگی میں آپ ڈبوں کی منظم بھرائی، ٹرن آؤٹ کو دبانا یا گنتی میں ہیر پھیر کرنا چاہتے ہیں تو قسمت آزما لیں۔
    کھیل تو اب قبل از اور بعد از انتخابات مرحلے کے بارے میں ہے۔ انتخابات کے بعد قومی سطح پر صحیح طرح کے امیدواروں کو جمع کرکے ایک قابلِ عمل اکثریت بنانا، خوش قسمت ہوں تو تنہا حکومت اور اگر ضرورت پڑجائے تو اتحاد۔
    یہ نارمل حالات میں ناممکن سے کہیں دور ہے اور اگلے انتخابات میں تو تصور سے مکمل طور پر پرے نہیں ہے۔ مگر یہی وہ جگہ ہے جہاں مسئلہ ہے۔ اگر صحیح طرح کے امیدوار قومی سطح پر جمع کر بھی لیے گئے تو بھی کیا ووٹر مدد کو آئیں گے؟
    جو بات واضح ہے وہ یہ کہ یہ آپ کے والدین کے زمانے کے ووٹر نہیں ہیں۔ 70ء کی دہائی کے ووٹروں سے ایک بالکل مختلف اور 90ء کی دہائی سے کافی حد تک مختلف دنیا میں جی رہے ہیں۔ زمانے اور ملک میں ہونے والی تبدیلیوں نے یہ یقینی بنا دیا ہے۔
    مگر یہ 2008ء کے ووٹروں سے بھی کافی حد تک مختلف ووٹر ہوسکتے ہیں۔
    2008ء میں کسی 18 سالہ کے ووٹ ڈالنے کا امکان نہیں تھا کیوں کہ صرف ایک انتخابات پہلے ہی ووٹنگ کی عمر 21 سے کم کرکے 18 کی گئی تھی اور نوجوان عام طور پر سیاست سے لاتعلق ہوتے ہیں۔ 2018ء میں اس کی عمر 28 سال ہوگی اور اسی عمر میں ووٹنگ ایک سنجیدہ آپشن بن جاتا ہے
    سسٹم میں نئے ووٹروں کی آمد اور گزشتہ دور کے نوجوان ووٹرز کے بالغ ہونے سے انتخابی حساب کتاب میں بہت زیادہ تبدیلیاں آنا ضروری نہیں ہے۔
    مگر اس دور، اس دہائی میں، 2008ء سے 2018ء کے درمیان کچھ غیر معمولی ہوا ہے۔ جمہوری تسلسل، سویلین دور کی 2 پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی ہے، 3 مرتبہ انتخابات وقت پر ہوئے ہیں اور مسلسل دوسری مرتبہ پُرامن طریقے سے اقتدار منتقل ہو رہا ہے، مگر یہ بات سب جانتے ہیں۔
    جس چیز پر کم توجہ ہے، وہ سیاست سے انتہائی درجے کی وابستگی اور اس میں شرکت ہے، خاص طور پر ان جگہوں میں جہاں یہ انتخابی طور پر اہم ہے۔ 2013ء میں ٹرن آؤٹ تاریخی سطح پر تھا۔ 55 فیصد کا قومی ٹرن آؤٹ عام طور پر 35 سے 45 فیصد کے بیچ رہنے والے ٹرن آؤٹ سے کہیں زیادہ بلند تھا۔
    مگر پنجاب میں 2013ء میں ٹرن آؤٹ 60 فیصد تھا، جو 2008ء سے 12 فیصد زیادہ تھا۔
    اس بات کے کافی اشارے موجود ہیں کہ 2018ء میں یا تو 2013ء کی سطح برقرار رہے گی یا پھر خاص طور پر پنجاب میں نئے ریکارڈ قائم ہوں گے۔ لودھراں میں فروری کا ضمنی انتخاب غیر معمولی نہیں تھا۔ جیتنے والے کو 6 ہندسوں میں پڑنے والے ووٹ اور 2013ء میں جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کو پڑنے والے مجموعی ووٹوں کی تعداد کا کم و بیش اتنا ہی ہونا یہ واضح کرتا ہے کہ اس مرتبہ انتخابات میں زبردست توانائی دیکھنے میں آئے گی۔
    چنانچہ یہ بات کافی حد تک سمجھ آتی ہے کہ 2018ء میں تاریخی ٹرن آؤٹ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
    نواز شریف ایک سال سے دوروں پر دورے کیے جا رہے ہیں۔ عمران نے بھی پی ٹی آئی کی مسلسل مہم کو جاری رکھا ہے۔ اکتوبر 2011ء کے بعد سے ایسا شاید ہی کوئی عرصہ ہو جب پی ٹی آئی مکمل طور پر سرگرم نہ رہی ہو۔
    اب اس مکسچر میں شہباز نے بھی خود کو شامل کرلیا ہے
    جمہوری تسلسل کے 10 سالوں بعد جب انتخابات کے روز دھاندلی کا راستہ تقریباً بند ہوچکا ہو، ایسے میں بالکل بدل چکے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کا ووٹ ڈالنا ماہر ترین افراد کو بھی یہ یقین نہیں کرنا چاہیے کہ ووٹر ان کی مرضی کا ردِ عمل دیں گے۔
    ٹرن آؤٹ نے شاید اب تک ایک طاقتور نامعلوم عنصر کو آشکار کردیا ہے: یعنی خود ووٹر۔
    Muhammad Hafeez
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #8
    اگرچہ دنیا نیوز پر عسکری صاحب کی باتیں ان کا مائینڈ سیٹ واضع کرنے کے لئے کافی ہیں۔پھر بھی غنیمت ہے کہ ایاز امیر نہیں ہیں۔ خیبر پختون خواہ میں اپوزیشن کا نام سیلیٹ کیا گیا تاکہ کل نتائج کے وقت اپوزیشن دھاندلی کا الزام نہ لگا سکےاور شاید اسی خدشے کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب میں پی ٹی آئی کے دئے نام پر اتفاق کر لیا گیا۔ اب یہ نام مکمل طور پر پی ٹی آئی کا تجویز کردہ ہے۔ کل اگر پی ٹی آئی کو مطلوبہ نتائج نہیں ملتے تو اصول پسندی تو یہ ہے کہ نتائج کو خوش دلی سے تسلیم کرے لیکن کیا ایسا ہوگا ؟ ؟ ؟

    نجم سیٹھی کا نام بھی اپوزیشن کی طرف سے دیا گیا تھا ، اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

    barca
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9

    barca
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10

    barca
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11

    Haristotle
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #12
    گزارش ہے کے محترم ممبران نام میں عسکری دیکھ کے عا رضہ قلب میں مبتلا نہ ھو
    barca
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13
    گزارش ہے کے محترم ممبران نام میں عسکری دیکھ کے عا رضہ قلب میں مبتلا نہ ھو

    Haristotle
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #14

    مجھے افسوس ہے کہ اس دفعہ کوئی قصیدہ گوہ نہ مل سکا ، سارے کوشش کر رھے ہیں گرو کی کرپا سے کچھ نہ کچھ ھو جائے گا

    خاقان صاحب کی چیکاں تو آپ سن چکے ھوںگے

    barca
    Participant
    Offline
    • Expert
    #15
    مجھے افسوس ہے کہ اس دفعہ کوئی قصیدہ گوہ نہ مل سکا ، سارے کوشش کر رھے ہیں گرو کی کرپا سے کچھ نہ کچھ ھو جائے گا خاقان صاحب کی چیکاں تو آپ سن چکے ھوںگے

    تحریک انصاف کو تو بوٹ پالشیا مل گیا ہے

    اب اس کی عزت کا جنازہ الیکشن کے بعد کیسے نکلتا ہے بس یہ دیکھنا ہے

    Haristotle
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #16
    تحریک انصاف کو تو بوٹ پالشیا مل گیا ہے اب اس کی عزت کا جنازہ الیکشن کے بعد کیسے نکلتا ہے بس یہ دیکھنا ہے

    تمبو دریاں سب تیار رکھیں

    اور ہاں جذباتی نہ ہوں

    رہی بات عزتوں کے جنازے نکالنے کی تو جناب یہاں تو ماننا پڑے گا یہ کام نون لیگ سے بہتر کون کر سکتا ہے

    جزاک اللہ

    barca
    Participant
    Offline
    • Expert
    #17
    تمبو دریاں سب تیار رکھیں اور ہاں جذباتی نہ ہوں رہی بات عزتوں کے جنازے نکالنے کی تو جناب یہاں تو ماننا پڑے گا یہ کام نون لیگ سے بہتر کون کر سکتا ہے جزاک اللہ

    ابھی تک یہ ریکارڈ تحریک انصاف کے پاس ہے پچھلے دس سال کا ریکارڈ نکالیں

    کس نے دریاں بچھائی تھی

    ایس ایچ سو سے لے کر جنرل کیانی تک سب کو رگڑا ہے

    لیکن حوصلہ اتنا ہے جب وہ ریٹائر ہوتے ہیں تب عزتیں اچھالتے ہیں

    barca
    Participant
    Offline
    • Expert
    #18
    مجھے افسوس ہے کہ اس دفعہ کوئی قصیدہ گوہ نہ مل سکا ، سارے کوشش کر رھے ہیں گرو کی کرپا سے کچھ نہ کچھ ھو جائے گا خاقان صاحب کی چیکاں تو آپ سن چکے ھوںگے

    ناصرکھوسہ کوجب نامزد کرکےانکا نام واپس لیاگیا

    توانہوں نےاس بات کواپنےوقار کےخلاف مانا اورعہدہ قبول کرنےسےمعذرت کرلی۔

    اب ن لیگ میدان میں ہےاورحسن عسکری کی نامزدگی کوفی الفور ریجیکٹ کرتی ہے

    ،کیاحسن عسکری میں اتنی غیرت ہےکہ وہ اس عہدےکو قبول کرنےسے نکار کریں؟

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #19
    ابھی تو اسے عزت کے مینارے پر بٹھایا جائے گا ، عزت افزائی تو الیکشن ریسلٹز کے بعد سے ہو گی

    تحریک انصاف کو تو بوٹ پالشیا مل گیا ہے اب اس کی عزت کا جنازہ الیکشن کے بعد کیسے نکلتا ہے بس یہ دیکھنا ہے
    Rustamshah
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #20
    حسن عسکری بیشک نواز لوہار کے خلاف ہو مگر صوبہ کا وزیر اعلی بننا ایک اور چیز ہے، اسکو ککھ نہیں پتا کے چیزیں کیسے چلتی ہے، اس کو اپنے چیف سیکٹری پر گزارا کرنا ہوگا اور وہ جو کرے گا یا تجویز کرے گا ووہی ہمارے نیے حسن عسکری کرتے پھر رہے ہونگے.

    مجھے تو لگتا ہے کے جیسے فوج کو بھی پتا ہے کے نواز لوہار کا سورج ڈوب چکا ہے، بس یہ حسن عسکری والا ڈرامہ محض اس لئے کردیا ہے کے انتخابات کے بعد کم از کم لوہار لیگ سیاپا تو ڈال سکے کے وہ اس عسکری کی وجہ سے ہار گئے تھے اور وہ پینتیس کی جگا پچپن پنچر لگا گیا.

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 152 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi