Home › Forums › Siasi Discussion › پاک افغان فورسز کے درمیان شدید لڑائی، بھاری توپ خانے کا استعمال
- This topic has 8 replies, 5 voices, and was last updated 2 years, 10 months ago by
حسن داور. This post has been viewed 530 times
-
AuthorPosts
-
31 Jul, 2020 at 6:57 am #1پاک افغان فورسز کے درمیان شدید لڑائی، بھاری توپ خانے کا استعمال
چمن(نامہ نگار)چمن میں پاک افغان بارڈر باب دوستی پر ایف سی اور افغان بارڈر پولیس کے درمیان تصادم شروع ہو گیا ہے ایک دوسرے کے خلاف بھاری توپ خانے کا استعمال کیا جارہا ہے رات گئے ہزاروں افراد کی متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی جاری جانی نقصانات کی متضاد اطلاعات ملی ہے سیکیورٹی ذرائع کیمطابق جمعرات کی شام کو دھرنا مظاہرین کی باب دوستی پر حملے کے دوران مشتعل افراد نے باب دوستی کا دروازہ توڑ ڈالا اور اس دوران افغان حدود سے مظاہرین کو کمک حاصل رہی اور اسی دوران بڑی تعداد میں افغان حدود سے لوگ بھی پاکستان میں داخل ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے بعد نامعلوم وجوہات کی بناء پر اچانک افغان حدود سے باب دوستی پر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس کے جواب میں ایف سی اہلکاروں نے بھی جوابی فائرنگ کی ہلکے ہتھیاروں کے بعد اچانک بھاری ہتھیاروں سے ایک دوسرے پر شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان سرحدی فورسز نے پاکستان کے سرحدی علاقوں کو نہ صرف نشانہ بنانا شروع کیا بلکہ حساس مقامات کو بھی نشانہ بنایا اور باب دوستی کو شدید نقصان پہنچایا اس کے بعد سرحد پر باقاعدہ لڑائی شروع ہوئی اور تین مقامات پر باب دوستی سیکٹر، صالح زئی گاوں سیکٹر اور کلی لقمان سیکٹر پر رات گئے تک شدید لڑائی جاری رہی لڑائی اور بھاری توپ خانہ کے استعمال کے باعث چمن شہر دھماکوں سے لرزتا رہا دوسری جانب چمن کے سرحدی دیہات سے ہزاروں افراد نے رات گئے نقل مکانی کا سلسلہ شروع کیا ۔ مشتعل مظاہرین نے باب دوستی کے علاوہ سرکاری املاک، این ڈی ایم اے قرنطینہ کنٹینر سٹی جلا دیا ،سیکیورٹی کیمرے توڑ ڈالے اور شہر کا کنٹرول بھی سنبھال لیا، حالات سخت کشیدہ ہو گئے اور مظاہرین نے اسپتال کے سامنے تاج روڈ پر دھرنا دے دیا جو رات گئے تک جاری تھا۔پاک افغان بارڈر پر دونوں جانب پھنسے لوگوں کو اپنے اپنے ممالک جانے کی اجازت نہ ملنے پر دھرنا مظاہرین نے ریلی نکالی، جسے منتشر کرنے کیلئے فورسز کی شیلنگ پر مشتعل لوگوں کے باب دوستی پر دھاوا بول دیا، حکام کے مطابق جمعرات کو پاک افغان بارڈر پر دونوں جانب پھنسے ہزاروں افراد کو اپنے اپنے ممالک جانے کی اجازت نہ ملنے پر دھرنا مظاہرین نے باب دوستی کی جانب ریلی نکالی۔ شرکاء بارڈر پر پھنسے افراد کیساتھ اظہار یکجہتی اور انہیں سرحد پار جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔اس دوران سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کےلئے شیلنگ کر دی جس پر مظاہرین سخت مشتعل ہو گئے اور باب دوستی پر دھاوا بول دیا ۔ انہوں نے ریڈ زون کی رکاوٹیں توڑ ڈالیں ہر طرف جلاؤ گھیراو شروع کردیا حکام کاکہناہے کہ بلوا ئیوں کو قابو کرنے کےلئے ایف سی فورسز نے بکتربند گاڑی سے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک افغان مسافر خاتون سمیت 4 مظاہرین جاں بحق اور 20 سے زائد زخمی ہوئے ۔جاں بحق اور زخمی افراد کو ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کیا گیا ۔ حکام کے مطابق مشتعل مظاہرین کے پتھراؤ سے کئی ایف سی اہلکار بھی زخمی ہوئے مظاہرین نے باب دوستی پر جدید بارڈر منیجمنٹ سسٹم، نادرا دفترکے کمپیوٹر رومز کوبھی آگ لگادی اور باب دوستی کا مرکزی دروازہ توڑ ڈالا جس کے نتیجے باب دوستی کے دونوں جانب پھنسے ہزاروں پاکستانی اور افغان شہری ایک دوسرے ممالک میں داخل ہو گئے۔ اسی دوران مظاہرین کا ایک گروپ باب دوستی کیساتھ واقع قرنطینہ سینٹر میں داخل ہو گیا اور سینٹر میں پہلے خوب لوٹ مار کی اور بعد ازاں ایک ہزار کے قریب خیموں اوردفاتر کو آگ لگادی۔ حالات کشیدہ ہونےپرایف سی اورلیویزکی بھاری نفری طلب کرنا پڑی اور ساتھ ہی 2 بکتربند گاڑیاں بھی پہنچادی گئیں۔ تاہم مظاہرین نے باب دوستی کے ایک کلومیٹر کے علاقے کو کنٹرول میں لےلیا اور ایف سی قلعہ کے ساتھ واقع این ڈی ایم اے کے جدید کنٹینر سٹی کو بھی آگ لگا دی اور اسے مکمل تباہ کردیا گیا ۔اس دوران فوج طلب کی گئی مگر فوجی ٹرکوں کو بھی مظاہرین نے روک دیا اور پتھراو کرکے واپس قلعے کی جانب دھکیل دیا ۔مظاہرین شام کو شہر میں داخل ہوئے اور شہر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیتے رہے دکانیں بازار مارکیٹیں بند کرادی گئیں شہر کے تمام سیکیورٹی کیمروں کو توڑ ڈالا اس دوران شہر سے سیکیورٹی اہلکار غائب ہو گئے ۔جبکہ سرکاری عمارات کی حفاظت کیلئے بھاری نفری تعینات کردی گئی ۔ایم ایس ڈی ایچ کیواسپتال ڈاکٹر عبدالمالک کےمطابق تصادم کے بعد اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور ڈاکٹروں اورپیرامیڈیکل اسٹاف کو طلب کرلیاگیا۔اسپتال لائے گئے کئی زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہونے کے باعث کوئٹہ منتقل کیا گیا ۔رات کو ایک بار پھرمشتعل ڈنڈا بردار مظاہرین شہرمیں داخل ہوگئے اور اسپتال کاکنٹرول بھی اپنےہاتھ میں لےلیا۔ ڈنڈابردارمظاہرین شہرمیں گھومتےرہے اورشہرمیں تمام دکانیں مارکیٹیں بازاربندکرادیں دھرنا مظاہرین نے رات کو اسپتال کے سامنے تاج روڈ پر دھرنا دیا جو رات گئے تک جاری تھا۔
- local_florist 2 mood 1
- local_florist Ghost Protocol, SaleemRaza thanked this post
- mood shami11 react this post
31 Jul, 2020 at 7:01 am #2انتہای فضول قسم کا بارڈر ہے یوں لگتا ہے جیسے صومالیہ کا کوی علاقہ ہو حالانکہ یہاں سے فوج اربوں کا بزنس کرتی ہے اگر چاہے تو بارڈر کو تھوڑا خوبصورت ہی بنا دیتی اور دوسرا مجمع کو زیادہ دیر روکنا بھی سخت بے وقوفی ہے لوگ تنگ آے ہوے ہیں اس غیر انسانی سلوک سے گرمی اور کھلے آسمان تلے جس کے بچے بھوکے بیٹھے ہوں وہ لڑے گا بھی اورمرے گا بھی مگر پہلے مارے گا پھر مرے گا- thumb_up 2
- thumb_up SaleemRaza, shami11 liked this post
31 Jul, 2020 at 7:45 am #3آگیا۔ ایں ۔۔اے ۔عید منگ تنگ ۔۔کے ۔۔۔۔تے بری خبر نال آیا ۔۔ایں ۔۔۔۔ اس باڈر سے کبھی اچھی خبر نہیں آئی ۔۔مجھے تو سمجھ نہیں آتی ۔۔اس کا نام دوستی باب کیوں رکھا گیا ہے ۔۔ پاکستان کو چایئے ان افغانیوں بے غیرتوں کی مد میں جو کوئی رقم ملتی ہے اس پر لعنت ڈالیں اور ان سب کو نکالیں ۔۔یہاں سے ۔۔- thumb_up 2 mood 1
- thumb_up Believer12, حسن داور liked this post
- mood shami11 react this post
31 Jul, 2020 at 12:35 pm #4
Haan beygherti Kay copyrights tu Afghanu Kay paas hain, Pakistani state nay tu sirf Afghan Fasaad ki marketing Aur dalaali ka sirf role play Kar Kay sirf kuch Dollars kama liye US say tu forex reserves main hi izafa Kiya 3 decades tak. Aur Afghan refugees ka randi Rona Kar Kay ju billions of Dollars kamaye us pay tu Pakistani state ki tareef bante hay. Aur Afghan Fasaad ko jihad se nathi Kar Kay poori Dunya say funds Aur aid ikathi Kar Kay buhut si Maaun Kay lakht e jigar ko maut Kay ghaat utaar Kar deeni fariza bhi khoob ada Kia Pakistani state nay, beygherat tu Afghan hain sirf jo Pakistani state ki in azeem contributions ka ehsaas hi nahi kartay, no doubt. 🙂
-
This reply was modified 2 years, 10 months ago by
brethawk.
- thumb_up 1
- thumb_up shami11 liked this post
31 Jul, 2020 at 6:45 pm #5آگیا۔ ایں ۔۔اے ۔عید منگ تنگ ۔۔کے ۔۔۔۔تے بری خبر نال آیا ۔۔ایں ۔۔۔۔ اس باڈر سے کبھی اچھی خبر نہیں آئی ۔۔مجھے تو سمجھ نہیں آتی ۔۔اس کا نام دوستی باب کیوں رکھا گیا ہے ۔۔ پاکستان کو چایئے ان افغانیوں بے غیرتوں کی مد میں جو کوئی رقم ملتی ہے اس پر لعنت ڈالیں اور ان سب کو نکالیں ۔۔یہاں سے ۔۔آپ کو دلی عید مبارک ہو میری بڑی خواہش ہے کہ آپ عید سعید کے اس مبارک موقع پر چمن شہر کی سیر کریں؟؟؟
- mood 2
- mood SaleemRaza, حسن داور react this post
31 Jul, 2020 at 7:27 pm #6آپ کو دلی عید مبارک ہو میری بڑی خواہش ہے کہ آپ عید سعید کے اس مبارک موقع پر چمن شہر کی سیر کریں؟؟؟آپ کو بھی لکھ لکھ عید مبارک ہو ۔۔۔۔فکر نہ جگر ہم آج کل کروانا کے شکنجے میں آئے ہوئے ہیں ۔۔اگر اس سے بچ کر نکل گئے تو چمن شہر کی سیر بھی کر لیں گے ۔۔۔۔۔
فلحال تو آپ مانگے تانگے کا گوشت کھاو ۔۔۔۔اور موج کرو
- mood 2
- mood حسن داور, Believer12 react this post
1 Aug, 2020 at 12:41 am #7Afghan never like durand line. . Pakistan today is that buffer stopping infiltration from chaman border. It has stabled indian economy because no more invasion from ghaznvi aur ahmed shah abadi….. British since 1946 had no plan about creation of pakistan… but then they thought Pakistan is also necessary for Indian army if they follow communist block and buffer state like Pakistani and afghaan never become stable to grow into political units- local_florist 1
- local_florist Believer12 thanked this post
1 Aug, 2020 at 3:34 pm #9بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن کی کشیدہ صورتحال کے حوالے سے حکومت بلوچستان اور دھرنا کمیٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور مقامی تاجروں اورمحنت کشوں نے گذشتہ 62 روز سے وہاں جاری دھرنے کو ختم کردیا ہے۔
چمن میں اگرچہ احتجاج کا سلسلہ دو ماہ سے زائد کے عرصے سے جاری تھا لیکن جمعرات کو صورتحال اس وقت خراب ہوئی تھی جب مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے دوران لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
مظاہرین نے سرحد کے قریب قرنطینہ مرکز کو جلانے کے علاوہ نادرا کے دفتر کو بھی نذر آتش کیا تھا۔
جمعے کو دوسرے روز بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سرحد کے قریب پاکستان اور افغانستان کے درمیان شاہراہ پر دھرنا دیا تھا جس کے دوران ایک مرتبہ پھر لیویز فورس کے اہلکاروں سمیت دس افراد زخمی ہوئے تھے۔ ان زخمیوں میں پانچ عام شہری تھے جو کہ گولی لگنے کے باعث زخمی ہوئے تھے۔
چمن ہسپتال کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق دو روز کے دوران مجموعی طور پر ایک خاتون سمیت کم از کم تین افراد ہلاک اور23سے زائد زخمی ہوئے تاہم دھرنا کمیٹی کے ترجمان اور تاجر رہنما صادق خان اچکزئی کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 7اور زخمیوں کی تعداد 30 ہے۔
جمعرات کو بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو کی قیادت میں ایک حکومتی وفد نے چمن کا دورہ کیا۔ وفد میں صوبائی وزیر زراعت زمرک خان اچکزئی اور رکن بلوچستان اسمبلی اصغر خان اچکزئی شامل تھے۔
ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق چمن میں کشیدہ حالات کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں وزیر داخلہ میرضیاءاللہ لانگو کی زیرصدارت اعلی سطحی اجلاس ہوا۔اجلاس میں سویلین اور فوجی حکام نے بھی شرکت کی۔
حکومتی وفد نے وہاں تاجر رہنماﺅں اور دھرنا کمیٹی کے عہدیداروں سے بھی ملاقات کی۔
وزیر داخلہ نے بتایا کہ حکومت انکوائری کمیشن قائم کرے گی جو واقعے کے تمام پہلوﺅں سے تحقیقات کرے گی اور ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ہماری فوج اور عوام ایک صفحے پر ہیں لیکن غلط فہمیاں پھیلا نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں چونکہ سکیورٹی معاملات ہیں اس لیے احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغان بارڈر کی بندش کی بنیادی وجہ دہشت گردی تھی جہاں سے دہشت گرد یہاں داخل ہو رہے تھے ۔
انھوں نے کہا کہ عوام کو روزگار فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن سکیورٹی معاملات پر بھی کمپرومائز نہیں کر سکتے۔
اعلامیے کے مطابق چمن چیمبر آف کامرس، انجمن تاجران،اور محنت کش اتحاد تنظیم نے بلوچستان حکومت کے اقدامات کو سراہتے ہوئے دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
دوسری جانب چمن میں دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی نے دھرنے کے خاتمے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی کمیٹی نے تاجروں اور محنت کشوں کے مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تاجروں اور محنت کشوں کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ دو مارچ سے قبل جس طرح چمن کے تاجر اور محنت کش روزانہ آمد و رفت کرسکتے تھے اس کو بحال کیا جائے۔
صادق اچکزئی نے بتایا کہ اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے دو مارچ سے قبل والی صورتحال کو بحال کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جن تاجروں اور محنت کشوں کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور افغان راہداری ہوگا وہ روزانہ کی بنیاد پر پہلے کی طرح افغانستان جاسکتے ہیں اور واپس آسکتے ہیں۔
صادق اچکزئی کے بقول جمعرات کو سرحد پر کن وجوہات کی باعث حالات کشیدہ ہوئے ان کی مکمل انکوائری کی جائے گی اور ذمہ دار افراد کا تعین کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
تاجر رہنما نے مطابق ان واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کے علاوہ زخمی افراد کو معاوضہ دیا جائے گا۔
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو اور صوبائی وزیر زراعت زمرک خان اچکزئی کی جانب سے پاکستان افغانستان بارڈر کا دورہفائرنگ افغان فرسز کی جانب سے کی گئی
اس سے پہلے پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ 30 جولائی کو افغان فورسز نے چمن کے فرینڈشپ گیٹ پر پاکستان کی جانب جمع ہونے والے شہریوں پر بلا اشتعال فائرنگ کی تھی اور پاکستان کی جانب سے دفاعی کارروائی کی گئی تھی۔
پاکستان نے کہا ہے کہ افغان فورسز نے پوسٹ پر تعینات پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر بھی فائرنگ کی جس پر ’پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے معصوم شہریوں کے تحفظ کے لیے صرف دفاعی کارروائی کی تھی۔
جمعرات کو افغانستان سے متصل چمن میں سرحد کی بندش کے خلاف احتجاج کے دوران فائرنگ سے ایک خاتون سمیت کم از کم تین افراد ہلاک اور 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے بیان سے پہلے بعض ایسی اطلاعات تھیں کہ دونوں ممالک کے سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔ اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی لیکن اس کی تصدیق نہیں کی جا سکی تھی۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں جمعے کو دوسرے روز بھی صورتحال کشیدہ رہی جبکہ فائرنگ اور پتھراﺅ سے مزید دس افراد زخمی ہوگئے ہیں۔
مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ ان پر سکیورٹی فورسز نے براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد لوگ زخمی ہوگئے۔ جبکہ بلوچستان کے وزیر داخلہ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔
چمن ہسپتال کے ایک سینئیر اہلکار نے بتایا کہ ’آج (جمعے کو) ہسپتال میں دس افراد کو لایا گیا جن میں سے پانچ افراد کو گولیاں لگی تھیں۔
اہلکار کے مطابق جن پانچ افراد کو گولیاں لگیں ان میں سے چار افراد کو چمن میں طبی امداد کی فراہمی کے بعد کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
ہسپتال کے اہلکار کے مطابق پانچ افراد پتھر لگنے سے زخمی ہوئے تھے جن میں لیویز فورس کے اہلکار بھی شامل تھے۔پاکستان کی وزارت خارجہ کا ردعمل
پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق انھوں نے اس معاملے کو فوری طور پر فوجی اور سفارتی سطح پر اٹھایا اور کافی کوششوں کے بعد افغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ رکا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے افغانستان کی درخواست پر سرحد کو تجارت اور پیدل آمد و رفت کے لیے کھولا تھا۔
چمن میں سرحد کو کورونا کے باعث مارچ کے مہینے میں بند کیا گیا تھا۔
تاہم بعد میں اسے دوطرفہ تجارت، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور نیٹو فورسز کی گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا لیکن پیدل آمد و رفت پر پابندی کو برقرار رکھا گیا۔
پاکستان نے کہا کہ اس کی کوشش ہے کہ سرحد سے پیدل آمد و رفت اور تجارت کو باضابطہ بنایا جائے لیکن ایسی قوتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں جو اس کے خلاف ہیں۔
پاکستان نے کہا کہ عید الاضحی کے موقع پر پیدل آمد و رفت کی اجازت دی گئی تھی اور جب شہری سرحد پر جمع ہوئے تو افغان فورسز نے بلاجواز فائرنگ شروع کر دی۔
پاکستان نے کہا کہ اس ’واقعے میں پاکستان کی جانب انفراسٹرکیچر کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا گیا ہے‘۔
پاکستان نے کہا کہ ’بدقسمتی سے پاکستان کی جوابی کارروائی میں افغانستان کی جانب بھی جانی نقصان ہوا ہے‘۔
پاکستان نے کہا ہے کہ اگر افغانستان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع نہ کیا جاتا تو اس جانی نقصان سے بچا جاسکتا تھا۔
پاکستان نے اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ وہ خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے کی غرض سے افغانستان سے برادرانہ تعلقات کو فروغ دینے کا متمنی ہے۔ پاکستان نے اس امید کا اظہار کیا کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے تعمیری موقف کا مثبت جواب دیا جائے گا۔جمعے کو افغان بارڈر کے قریب دھرنا
چمن سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جمعے کی صبح مظاہرین کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع ہوئی اور پاکستان افغانستان بارڈر کے قریب دونوں ممالک کے درمیان شاہراہ پر دھرنا دیا۔
اطلاعات کے مطابق اس دوران لیویز فورس کے اہلکاروں نے مظاہرین کو ہٹانے کی کوشش کی جس کے دوران مظاہرین نے لیویز فورس کے اہلکاروں پر پھتراﺅ کرنے کے علاوہ ان کی ایک گاڑی کو بھی نذر آتش کیا۔ پتھراﺅ سے لیویز فورس کے اہلکار زخمی ہوئے۔
اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے قریب واقع قرنطینہ مرکز میں مزید توڑ پھوڑ بھی کی جس دوران مظاہرین پر فائرنگ سے پانچ مظاہرین زخمی ہوئے۔ جمعرات کو فائرنگ سے ایک خاتون سمیت تین افراد ہلاک اور 13 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔مظاہرے کیوں ہو رہے ہیں؟
چمن میں سرحد کو کورونا کے باعث مارچ کے مہینے میں بند کیا گیا تھا۔
تاہم بعد میں اسے دوطرفہ تجارت، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور نیٹو فورسز کی گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا لیکن پیدل آمد و رفت پر پابندی کو برقرار رکھا گیا۔
کورونا کے پیش نظر پابندی سے پہلے چمن سے ہزاروں تاجر اور مزدور روزانہ کی بنیاد پر کاروبار اور محنت مزدوری کی غرض سے افغانستان کے سرحدی علاقے میں جاتے اور آتے تھے۔
پیدل آمد و رفت پر پابندی کو برقرار رکھنے کے خلاف چمن کے مقامی تاجروں اور مزدوروں نے یہاں کی تاریخ کا طویل ترین احتجاج شروع کیا جو کہ ڈھائی مہینے سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔
سرکاری حکام کے مطابق عید پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستانی حکام نے سرحد کو دو دن کے لیے پیدل آمد و رفت کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ افغان شہری عید منانے کے لیے افغانستان جاسکیں اور وہاں سے پاکستانی شہری پاکستان آسکیں۔جمعرات کو کیا ہوا تھا
جمعرات کو حسب معمول تاجر اور مزدور احتجاج کی غرض سے سرحد کے قریب جمع ہوگئے تھے جس پر انھیں سکیورٹی فورسز نے بتایا کہ وہ وہاں سے دور ہو جائیں تاکہ سرحد کو افغانستان جانے والوں کے لیے کھول دیا جائے۔
اطلاعات کے مطابق جب تاجروں اور مزدوروں نے احتجاج ختم کرنے سے انکار کیا تو اس میں تاخیر ہوئی جس پر افغانستان جانے والے لوگ اشتعال میں آگئے اور سرحد پر لگی رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگے۔
اطلاعات کے مطابق ان افراد کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ اس دوران مشتعل افراد نے سرحد پر قرنطینہ مرکز اور نادرا آفس کو نذر آتش کیا۔
چمن ہسپتال کے ایک سینئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس واقعے میں ایک خاتون سمیت تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گولیاں لگنے سے 13 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن کو ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔مظاہرین اور صوبائی حکومت کا موقف
مظاہرین اور بعض سیاسی جماعتوں کا الزام ہے کہ مظاہرین پر سیکورٹی فورسز نے براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد لوگ زخمی ہوگئے تھے۔
تاہم بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے مظاہرین پر سیکورٹی فورسز کی فائرنگ کے الزام کو سختی سے مسترد کیا تھا۔
کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے سکیورٹی فورسز کے حکام سے پوچھا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انھوں نے براہ راست فائرنگ نہیں کی۔
وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ اس بارے میں تحقیقات بھی کرائی جائے گی۔شرپسند عناصر نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی
فائرنگ کے واقعے کے بعد افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن اور اس سے متصل سرحدی علاقے میں صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے کوئٹہ میں اس حوالے سے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’ہمارے وہ بھائی جو احتجاج پر تھے وہ ریڈ زون میں داخل ہوگئے اور زبردستی سرحد کو عبور کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے کہا کہ وہاں قرنطینہ سینٹر اور نادرا آفس کو بھی نذرآتش کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران جو شرپسند عناصر تھے انھوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی۔چمن بارڈر پر پیش آنے والے واقعے کی مذمت
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے چمن میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (میپ) کے صوبائی سیکرٹریٹ کے پریس ریلیز میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ چمن میں نہتے اور بے گناہ شہریوں پر ایف سی نے فائرنگ کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چمن کے شہری اور سیاسی پارٹیاں تجارتی راستے کی مسلسل بندش کے خلاف گذشتہ دو ماہ سے احتجاج کررہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ چمن کے تجارتی راستے کو 2 مارچ والی پوزیشن پر بحال کیا جائے مگر ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
پشتونخوا میپ نے مطالبہ کیا کہ تجارتی راستے کو فی الفور کھولا جائے اور عوام کے آنے جانے پر پابندی کو ختم کیا جائے اور فائرنگ کے واقعے پر اعلٰی سطحی عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کر کے ملوث آفسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی بیان میں چمن بارڈر پر پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چمن بارڈر پر رونما ہونے والا واقعہ کسی صورت سنجیدہ طرز عمل کی عکاسی نہیں کرتا۔
بیان کے مطابق ’نہتے، غریب عوام، خواتین، بچوں اور بزرگوں کے ساتھ رکھا گیا عمل نہ صرف قابل مذمت بلکہ قابل گرفت بھی ہے۔
چمن ہسپتال کے ایک سینئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ گولیاں لگنے سے 13 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن کو ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے
بیان کے مطابق پارٹی کی جانب سے گذشتہ پانچ مہینوں سے چمن بارڈر کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا جمعرات کو وہی کچھ ہوا۔
عوامی نیشنل پارٹی نے اس واقعے کے خلاف تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز میں آج احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ع
بیان میں کہا گیا کہ عیدالاضحٰی کے بابرکت ایام میں گذشتہ روز دو دن کے لیے خیر سگالی کے طور پر چمن بارڈر پر دروازہ پیدل آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا لیکن جمعرات کو پھر لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی جس سے لوگوں میں بے چینی اور اضطراب بڑھنے لگا اور نتیجتاً افسوس ناک واقعہ رونما ہوا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثنا اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’چمن کا سرحدی مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں تھا کہ اس پر اپنے اور ہمسایہ ملک کے ساتھ جنگ چھیڑ دی جاتی۔- local_florist 2
- local_florist Believer12, shami11 thanked this post
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.