Thread:
ٹوپی والا اور ٹوپی ڈرامہ
Home › Forums › Siasi Discussion › ٹوپی والا اور ٹوپی ڈرامہ
- This topic has 0 replies, 1 voice, and was last updated 2 years, 11 months ago by
حسن داور. This post has been viewed 212 times
-
AuthorPosts
-
15 Jun, 2020 at 4:58 pm #1
جب منظور پشتین نے پی ٹی ایم کی بنیاد رکھی تو لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ ابھرتی نوجوان قیادت ہے۔ حالانکہ حقیقت بس اتنی تھی کہ اس کی ایک جذباتی تقریر اس تنظیم کی بنیاد بنی تھی، کوئی بھی قائدانہ خوبی نہ تو منظور میں پہلے دن نظر آئی تھی اور نہ ہی آگے چل کر نظر آئی۔ بلکہ ہوا یہ کہ اس کی یہ نابالغ تنظیم چند ہفتوں میں ہی ہائی جیک ہوگئی اور منظور کی حیثیت اس میں فقط “ٹوپی والا” کی رہ گئی۔ منظور خوش رہا کہ چی گویرا کی طرح اس کی ٹوپی کو بھی علامتی حیثیت مل گئی ہے لھذا وہ بھی ایک عظیم انقلابی قائد ہے۔ وہ قائدانہ صلاحیتوں سے اسقدر عاری تھا کہ اس بات کا بھی ادراک نہ کر سکا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ ہی اس کے ساتھ یہ “ٹوپی ڈرامہ” کر رہے ہیں۔ جس طرح چی گویرا ایک ناکام ٹوپی والا” تھا اسی طرح منظور پشتین بھی ایک ناکام توپی والا ثابت ہوچکا۔
آپ چی گویرا کی کیوبن انقلاب کے بعد کی تاریخ دیکھیں تو وہ مسلسل بلنڈرز اور دربدری کی تاریخ ہے۔ اس نے انقلاب کے فورا بعد انقلابی ٹریبونل قائم کرکے اس کی مدد سے مخالفین کا قتل عام شروع کیا جس سے اسے فورا روک دیا گیا۔ اس نے سوویت یونین کو کیوبا میں ایٹمی میزائل نصب کرنے پر آمادہ کیا جس سے ایک عالمی بحران پیدا ہوا اور اس بحران کا سارا فائدہ سوویت یونین نے اٹھایا۔ سویت میزائل واپس ہوئے تو چی گویرا نے اپنی واحد دوست عالمی طاقت سوویت یونین پر ہی تنقید کرڈالی اور اسے دھوکے باز قرار دے ڈالا۔ جس پر فیدل کاسترو نے اسے سخت وارننگ دے ڈالی۔ اس کا سب سے بڑا بلنڈر بیجنگ کا دورہ تھا۔ وہ چائنا کو چینی فروخت کرنے گیا مگر پاؤ شکر بیچنے میں بھی ناکام رہا، الٹا یہ ہوا کہ سویت یونین نے کاسترو سے کہا کہ اگر ہماری دوستی درکار ہے تو چی گویرا کو اپنی صفوں سے نکال باہر کرو جو بیجنگ کو متبادل دوست بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس پر کاسترو نے چی کو غیر مؤثر کیا تو یہ کاسترو سے ہٹ کر اپنا “ذاتی انقلاب” برپا کرنے براعظم افریقہ کے ملک کانگو پہنچ گیا۔ اسے اتنا بھی شعور نہ تھا کہ پس ماندہ سیاہ فام کسی “خارجی” کو اپنا قائد کیوں مانیں گے ؟ وہ افریقہ پہنچتے ہی اپنے مٹھی بھر ساتھی مروا کر وہاں سے فرار ہوا اور سیدھا بولیویا پہنچا۔ اس کا خیال تھا بولیویا میں تو وہ انقلاب برپا کر ہی ڈالے گا کیونکہ اس لاطینی ملک میں اسے لاطینی رہنماء کے طور پر ہی دیکھا جائے گا۔ مگر یہاں وہ صرف ناکام نہ رہا بلکہ پہاڑیوں میں سی آئی اے کے ہاتھوں مارا بھی گیا۔ بعد از مرگ اس کے نام کے ساتھ دنیا بھر کی بائیں بازو کی قوتوں نے وابستگی اس لئے نہ اختیار کی تھی کہ وہ کوئی عظیم لیڈر تھا بلکہ اسے ایک علامت کی حیثیت فقط اس لئے ملی کہ اسے امریکی سی آئی اے نے مارا تھا اور اس زمانے کی دنیا دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی سو سرخ بلاک نے اسے علامت کی حیثیت دے کر امریکہ کو چڑانے کی کوشش کی تھی۔ ورنہ لیڈر شپ نام کی چیز چی گویرا کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ فقط بلنڈرز کرنے والا ایک ایسا ناکام شخص نظر آتا ہے جس کا اپنا وطن تو ارجنٹائن تھا مگر انقلاب وہ دوسروں کے ملک میں ہی برپا کرنے پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے ارجنٹائن کے لئے کیا کیا ؟ اس بارے میں مؤرخ کے پاس بتانے کو کچھ نہیں۔
منظور پشتین بھی اپنی ٹوپی سمیت عنقریب پی ٹی ایم سے دربدر ہونے کو ہے۔ اسمگلرز نے اس کا جتنا استعمال کرنا تھا کرچکے۔ اب وہ اسے اجلاسوں اور فون کالز پر ننگی گالیاں دیتے ہیں اور منظور میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ اپنے ورکرز کو جا کر بتا سکے کہ “وا خلقو ! زہ خو لٹ شم” (او لوگو میں تو لٹ گیا) جب ہم بار بار لکھ کر سمجھاتے رہے کہ ان اسمگلروں کو اپنی جماعت سے نکال باہر کرو تو ٹوپی والے بچے کو ہماری باتیں سمجھ نہ آتی تھیں۔ وہ نہ صرف ان سمگلروں کو ساتھ ملائے رہا بلکہ انہیں مزید طاقتور بھی ہونے دیتا رہا۔ خود میں نے منظور کے مقابلے میں ہمیشہ علی وزیر اور محسن داوڑ کو ہی تنقید کا زیادہ نشانہ کیوں بنایا ؟ کیونکہ جو منظور کو نظر نہیں آرہا تھا وہ ہمیں پہلے ہی روز سے نظر آرہا تھا۔ چوبیس برس کا ٹوپی والا شاطر اسمگلروں کے نرغے میں ہو تو جیت شاطر اسمگلروں کی ہی ہوگی، چوبیس برس کے خالی الدماغ لونڈے کی نہیں۔ سو وہی ہونے جا رہا ہے۔ اب ٹوپی والا اپنی ٹوپی جتنی بھی گول گول گھما لے کھیل اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اور معاملہ یوں بھی زیادہ نازک ہوگیا ہے کہ کابل کی وہ حکومت تو اپنے دن بھی آیت الکرسی پڑھ پڑھ کر گن رہی ہے جو ان جعلی قوم پرستوں کو خرچہ پانی دیتی تھی۔ ان کا تو اپنا نان نفقہ داؤ پر ہے وہ کسی اور کو کیا دیں گے ؟ ٹوپی والا خدا کا شکر ادا کرے کہ پاکستانی ادارے اس کے قتل کی سازشیں خاموشی سے ناکام کرتے رہے ہیں ورنہ این ڈی ایس اسے کب کا مار کر علی وزیر کو “ٹوپی تیرے خون سے۔۔۔۔ انقلاب آئے گا” کا نعرہ دلوا چکی ہوتی۔ یوں منظور سے جان بھی چھوٹ جاتی اور اس کی لاش کام بھی اسمگلروں کے آتی۔بشکریہ …… رعایت اللہ فاروقی
https://www.facebook.com/Riayatullah-Farooqui-2126030380945643
-
This topic was modified 2 years, 11 months ago by
حسن داور.
-
This topic was modified 2 years, 11 months ago by
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.