- This topic has 14 replies, 8 voices, and was last updated 2 years, 10 months ago by
unsafe. This post has been viewed 652 times
-
AuthorPosts
-
19 Jul, 2020 at 12:18 am #1
مذہبی اعتبار سے مقدس سمجھی جانے والی بعض شخصیات کے متعلق جب بھی کسی تاریخی واقعہ پر کوئی تکنیکی سوال پوچھا جاتا ہے یا ثبوت مانگا جاتا ہے تو طرفین کے مخالف دھڑوں سے کچھ ایسی آوازیں اٹھتی ہیں ۔۔”یہ تم نہیں بغضِ علی بول رہا ہے۔۔۔ یا۔۔۔ یہ تم نہیں بغضِ معاویہ بول رہا ہے۔ وغیرہ
اگر آپ مختلف فرقوں کی ارتقائی تاریخ کھوجیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن بزرگوں کی تقلید یہ لوگ کرتے آئے ہیں یا کرنے کا دم بھرتے ہیں، شروع میں وہ سب بھی مذہبی پیشوا یا جنہیں “علماء” کہا جاتا ہے ہی تھے نہ کہ کوئی غیر جانبدار محقق ۔ پھر وقت کے ساتھ ان واعظین کے مقلدین، معتقدین اور چاہنے والوں نے ان کے ناموں سے یا ان کی کسی نسبت سے یا ان کے کسی نظریے کی بنیاد پر نئی جماعتیں یا فرقے تشکیل دیے۔ معتزلہ، جبریہ، قدریہ، جعفری، حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اسماعیلی، اثناعشری، بوہری، بریلوی، دیوبندی، وہابی، پرویزی وغیرہ وغیرہ حتیٰ کہ احمدی بھی اسی طرح بنے تھے۔ نظریہ تصوف کے بزرگان اور صوفیا کے ذریعے چلنے والے سلسلوں نقشبندی، قادری، چشتی وغیرہ کی بھی یہی کہانی ہے۔
اکثریت نے اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید کی ،یعنی اگر کسی بزرگ سے فقہی و اجتہادی استنباط میں بھول چوک ہوئی یا کسی تاریخی واقعہ کو قلمبند کرنے میں غلطی کر دی تو ان کے تلامذہ و مقلدین نے اسے غلط ماننے کے بجائے اس کا ہر انداز سے دفاع کیا۔ چونکہ مذہبی نظریات سائنسی مشاہدات کی طرح تو نہیں ہیں کہ دو اور دو چار کر کے یا تجربات اور وقت کی چھلنی سے گزار کر جانچ لیا جائے۔ مذہبی نظریات تو وقت کے ساتھ معاشروں میں راسخ ہوتے چلے جاتے ہیں بھلے وہ کتنے ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہوں۔
تاریخی کہانیاں کتنی غلط ہیں اور کتنی درست، جاننا تقریباً ناممکن ہے۔
ہزاروں سال پرانی تاریخ تو چھوڑیے۔۔۔آج کے جدید دور میں انٹرنیٹ، اخبارات اور مواصلات کا نظام ہونے کے باوجود لوگ جھوٹ پہ جھوٹ لکھتے اور بیان کرتے ہیں۔ کبھی نواز شریف، کبھی بینظیر اور عمران خان یا کسی مخالف کے ویڈیو کلپ جان بوجھ کر آدھے ادھورے کاٹ کر اپنے مطلب کے معانی بڑی ڈھٹائی سے پہناتے نظر آتے ہیں۔ ان کے لیے ہزار سال پرانی تاریخ سے کھیلنا کون سی بڑی بات ہے۔ جب بجلی نہ تھی، مواصلات اور رابطوں کا نظام نہ تھا، پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اور جو تھے وہ بھی کسی ایک جگہ یا نکتے پر جمع نہ تھے، نہ گوگل جیسا کوئی مجموعی سرچ انجن تھا نہ ٹی وی چینل، تب شورشوں اور گھپ اندھیرے صحراؤں میں کسی کٹیا میں دیے کی لو میں بیٹھا شخص کیا کیا افسانے نہ گھڑتا ہو گا اور اس کے مقلدین و معتقدین اسکی تائید میں کس طرح سرگرم رہتے ہوں گے؟۔
ہمیں تو ابن سعد، ابن اسحاق و ہشام، غزالی و رومی وغیرہ بھی آکسفورڈ پرنٹنگ پریس کے ذریعے ملے ہیں۔ ہم بنی بنائی (فیبریکیٹڈ) کہانیوں کے اس قدر عادی ہیں کہ یہاں سچ کو بھی جھوٹ کی طرح باقاعدہ اہتمام کے ساتھ پیش کرنا پڑتا ہے ورنہ لوگ سچ ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ میری اب تک کی زندگی کا مشاہدہ ہے کہ مذہبی تعصب اور نسلی امتیاز کو ایک سیاسی اسٹنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، بھولے بھالے عوام کو ایک سراب کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔
وہ افراد جو کبھی اپنے گاؤں، شہر یا ملک سے باہر نہیں نکلے یا جن کا سفر اور مطالعہ کم ہے، انکی سوچ ایک محدود دائرے کے اندر گھومتی ہے۔ جیسا وہ سوچتے ہیں انہیں وہی درست لگتا ہے کیونکہ ان کی سوچ ایک مخصوص ماحول میں پروان چڑھتی ہے، اس سے باہر وہ جھانک ہی نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ذرا مختلف سوچ رکھنے والا شخص انہیں غلط لگتا ہے۔ دوسرے کا سچ بھی انہیں جھوٹ لگتا ہے۔خصوصاً برصغیر پاک و ہند کی بات کی جائے تو چونکہ یہاں شروع سے ہی سوچنے سمجھنے کی تعلیم نہیں دی جاتی، بس جو پڑھایا گیا یا رٹایا گیا، دماغ کی بتی بجھا کر مان لینا ہے اور من و عن تقلید کا حکم ہوتا ہے، لہذا یہاں کا دماغ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتا۔ اگر پاکستان سے باہر کسی بندے کے ساتھ کسی موضوع مثلاً تاریخ، سائنس یا آرٹ پر بات کی جائے یا کسی نظریے کا ذکر کیا جائے تو وہ آپ سے فوراً اس کی تحقیق، دلیل اور منطق وغیرہ پوچھے گا، حوالے دریافت کرے گا۔ وہ ٹھوس دلائل کے بغیر مطمئن نہیں ہو گا، خود کھوج لگائے گا، متعلقہ ماہرین کی رائے لے گا اور تحقیق اور شواہد کی روشنی میں ہی کوئی نتیجہ (منفی یا مثبت یا غیر جانبدار) اخذ کرے گا۔ اسکے برعکس پاکستانیوں کی سوچ یہ ہے کہ پہلے تو آپ پر فتویٰ ٹھوکا جائے گا پھر آپکو ہی کہا جائے گا کہ بھیا ہم تو آپکی بات نہ سمجھتے ہیں نہ سمجھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں آپ خود ہی تحقیق کیجیے، سارے شواہد اور ثبوت اکٹھے کیجیے وگرنہ ہم تو ویسا ہی سمجھیں گے جیسا ہم شروع سے سمجھتے آ رہے ہیں۔۔۔ جب آپ سارے ثبوت اور دلائل لا کر سامنے رکھ دیں گے تو پھر کہیں گے کہ آپ ہمارے سامنے یہ سچائی لائے ہی کیوں ہیں۔ آپکو تحقیق کی ضرورت ہی کیا تھی، ضرور دال میں کچھ کالا ہے، آپ اپنا سچ اپنے پاس ہی رکھیے، ہمیں کسی تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں، ہم اپنے پرانے خیالات کے ساتھ خوش ہیں اور بہتر ہو گا کہ آپ بھی ان سچائیوں سے دور رہو۔
یعنی مختلف فرقوں کے نابغے ایک طرف تو اپنی مرضی کی تاریخ اور نظریہ پر ایسے کاربند ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے پر فتوے لگاتے نہیں تھکتے لیکن جب کوئی تیسرا ان کی حقیقت کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے تو ہر ایک کو اپنی مرضی کی تاریخ یا نظریہ غیر مصدقہ ثابت ہونے کا خدشہ لاحق ہو جاتا ھے۔ پھر یہ کہہ کر سائیڈ پر ہو جاتے ہیں کہ جناب ہمیں آپ سچائی نہ بتائیں ہم اپنے عباراتِ اکابرپر ہی چلیں گے۔
آج کی تاریخ میں غامدی صاحب، خادم رضوی، طارق جمیل، انجنیئر مرزا علی اور بپا جانی وغیرہ مذہبی علماء کہلاتے ہیں۔ پچاس سال بعد یا ان علماء کی وفات کے بعد ان کے چاہنے والے ان کی کسی نہ کسی نسبت سے اپنا اپنا گروپ تشکیل دے لیں گے (بلکہ گروپنگ تو موجود ہی ہے) پھر آہستہ آہستہ جب ایک دوسرے کی مخالفت اور رد در رد کا سلسلہ شروع ہو گا اور ایک دوسرے کے نظریات کو غلط ثابت کرنے کیلئے کتابیں لکھی جائیں گی تو ہر ایک اپنی جگہ ایک نیا فرقہ بن جائے گا اور ان کے الگ الگ مدرسے اور مساجد بھی بنیں گی۔۔۔ یہی کچھ ماضی میں بھی ہوتا رہا، آج بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔۔ دنیا کا کوئی شخص گروپنگ کے اس سلسلے کو نہ پہلے کبھی روک پایا نہ آئندہ روک پائے گا۔۔ دنیا کے ہر مذہب میں ہر پانچ چھ سو سال بعد نئے فرقے جنم لیتے ہیں۔۔ آج سے آٹھ نو سو سال پیچھے کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اس وقت کے بہت سے فرقے آج ہم میں موجود نہیں کیونکہ انکی جگہ نئے فرقوں نے لے لی اور یہ سب معاشی، سیاسی اور سماجی تبدیلیوں اور ذاتی مفادات کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ آج ہمارے درمیان جو مذاہب، مسالک اور فرقے موجود ہیں، پانچ چھ سو سال بعد ان میں بیشتر معدوم ہو جائیں گے۔ یہ پراسس رکنے والا نہیں۔ یہ نیچرل پراسس ہے۔ جہاں انسان بستے ہوں وہاں اختلافات فطری طور پر جنم لیتے ہیں۔ تو پھر اس کا حل کیا ہے یا دوسروں لفظوں میں اسے ہینڈل کیسے کیا جائے۔ اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے انسانیت پر یقین۔ تمام انسان چاہے کسی بھی مذہب، رنگ یا نسل سے ہوں، انسان ہونے کے ناطے سب ایک قوم ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے اور انسانیت کا تقاضا بھی ہے کہ انسان ایک دوسرے کو برداشت کر کے آگے بڑھتے رہیں۔ انسان کے سامنے ایک وسیع و عریض دنیا ہے جہاں مختلف رنگ و نسل کے اربوں انسان مختلف خطوں میں بستے ہیں۔ ہر انسان کا اپنے ماحول، تعلیم و تربیت اور عقلی استعداد کے مطابق ایک سوچ یا نظریہ ہے جس کے تحت وہ زندگی گزارتا ہے یا گزارنا چاہتا ہے۔ مسئلہ تب پیش آتا ہے جب وہ اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتا ھے۔ وہ سچائی جاننے کے لئے بحث نہیں کرتا بلکہ پہلے سے طے شدہ مفروضات کے تحت دوسروں کو نیچا دکھانے کی دھن میں ہوتا ہے جس کا اکثر نتیجہ نفرت، تشدد، بغض اور دشمنی نکلتا ہے۔
جتنا جلد ہو سکے ہمیں یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مذہبی افراد کے تاریخی واقعات دین نہیں ہوتے۔ اگر دین زندگی گزارنے کے سلیقے کا نام ہے تو ہمیں یہ زندگی دنیا میں موجود تمام رنگ و نسل اور مذاہب کے بیچ رہ کر ہی گزارنی ھے نہ کہ کسی جنگل یا بند کمرے میں۔ (جنگل یا بند کمرے میں دین کی ضرورت ہی کیا ہے) تو پھر دین ایسا آفاقی ہونا چاہیے جو طلوع ہونے والی ہر نئی صبح کے ساتھ ہم آہنگ ہو یا ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار ہو۔ ظاہر ہے خالق کا دین فطرت کے عین مطابق ہی ہو سکتا ہے، مخصوص افراد کے واقعات پر منحصر نہیں ہو سکتا۔
جن بزرگوں نے اپنے اپنے زمانوں میں انسانوں کو تہذیب و تمدن سکھایا اور زندگی گزارنے کے گُر بتائے ان میں سے کئی احکامات یا نصیحتیں انکی زندگیوں تک محدود تھیں۔ جب دنیا کے حالات اور زمانے بدلیں گے تو احکامات اور پند و نصائح کی نوعیت بھی بدلے گی۔
جہاں تک فرقوں اور جتھوں کی بات ہے تو فرقے بنتے رہیں گے۔ لوگ اپنے فہم کے مطابق مذاہب کی تشریحات میں اختلاف رکھیں گے۔ لیکن آج کی جدید دنیا میں وقت جس رفتار سے بدل رہا ہے، ایک دن آئے گا جب یا تو کچھ فرقے اپنی نظریاتی موت مر جائیں گے یا پھر سب فرقے آپس میں باہم رہنا سیکھ لیں گے۔ (جیسا کہ یورپ میں ہوا ہے)۔ کسی کو اپنا مسلک یا سوچ دوسرے پر نافذ کرنے کا کوئی ربی اختیار ودیعت نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے اختیار کا مدعی ہے گویا وہ خدائی اختیار کا مدعی ہے۔
دوستو! ہم نے نفرت کا کھیل بہت کھیل لیا۔۔ آخر ہمیں ملا کیا؟۔۔ ستر برس بعد بھی ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے؟۔۔ دنیا میں پچاس سے زائد مسلم ممالک ہیں، ایک ہمی ہیں جن کی کوئی سمت نہیں۔ ہمارا فہم ایسا عجیب و غریب ہے جو پرکشش تو کیا ہوتا الٹا دوسروں کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کر کے دم لیتا ھے۔
کسی فلاسفر نے کیا خوب کہا تھا کہ ‘ تاریخی کتابوں سے اخذ شدہ علم” علم “نہیں ہوتا فقط معلومات ہوتی ہیں جو آپ کو بیساکھیاں تو دے سکتی ہیں ٹانگوں پر کھڑا نہیں کر سکتیں۔
میں کہتا ہوں کہ قدرت نے اس زمین کو سبزہ، پھول، پہاڑ، پنچھی، جھرنے موسیقی، فن، فکر، محبت اور انسانیت سے خوبصورت سجایاہے۔ پنڈت، پادری اور مولوی اسے بدنما بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس خوبصورت زمین پر سب کو زندہ رہنے کا حق ہے۔ جس طرح آپکو اپنے مذہب پر چلنے کا حق ہے، دوسروں کو بھی اپنی مرضی کا مذہب یا نظریہ رکھنے کی آزادی ہے۔ اگر ہم اس آزادی کو احترام دینے کے قابل نہیں ہیں تو ہم انسانیت کی تعریف سے ہی خارج ہیں۔ یہ وطن سب کا سانجھا ہے، محض تاریخی واقعات کو لے کر یہاں کا ماحول خراب مت کیجیے۔بشکریہ …….. آصف وڑائچ
- local_florist 3 thumb_up 1
- local_florist Believer12, Ghost Protocol, Bawa thanked this post
- thumb_up نادان liked this post
19 Jul, 2020 at 5:12 am #3مضمون نگار انسانیت کا درس دیتے ہوے خود بھی مذہب کی اصل جڑ کو پکڑنے کی طرف راہ دکھا گیادنیا کے تمام مذاہب کی بنیاد ہی توحید اور انسانیت پر رکھی گئی ہے
دراصل تخلیق کے متعلق دستیاب تمام الفاظ ایک ہی جانب اشارہ کررہے ہیں خلق یعنی اخلاق اور اخلاق سے مراد انسانیت ہی ہے جس انسان کے اخلاق معیار جتنے بلند ہون گے اس میں انسانیت بھی اتنی ہی زیادہ پای جاے گی
-
This reply was modified 2 years, 10 months ago by
Believer12.
- thumb_up 1
- thumb_up Bawa liked this post
19 Jul, 2020 at 6:16 am #3نیوٹن کے قوانین حرکت ہوں یا البرٹ آئن سٹائن کا نظریۂ اضافیت ، اپ اردو ، انگریزی ، لاطینی ، فرانسیسی ، جرمن کسی بھی زبان میں یاد کر لیں … الفاظ کی ہیرا پھیری کر لیں … اپنی مرضی سے ترجمہ کر لیں … آپ کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں … کہ نیوٹن نے یہ قانون کب پیش کیا تھا … اس کے سر میں سیب گرا تھا یا پتھر وہ زمین پہ بیٹا تھا یا درخت پر چڑھا تھا .. جب تک فارمولے وہی ہیں انکا عالمگیر اطلاق ہمیشہ یکساں ہی رہے گا…..
اب انہی قوانین کا موازانہ ایک ایسے خدا کے قوانین کے ساتھ کریں جو اپنی انتہائی زہین اور عقلمند ہے اور اس کے قوانین ، کتابیں کروڑوں لوگوں نے حفظ کی ہوئی ہیں… جس میں زیر ، زبر پیش کی بھی غلطی کی گنجائش نہیں ہے ….پھر بھی فرقوں پہ فرقے بنتے جا رہے ہیں … پوری دنیا میں خدا کی کتاب کا ایک ورژن ہونے کے باوجود بھی ان لوگوں کے مذھبی جھگڑے، خون ریزی ، نفرت دن بدن بڑھتھی جا رہی ہے …- thumb_up 1
- thumb_up Zinda Rood liked this post
19 Jul, 2020 at 12:38 pm #5گھوسٹ پروٹوکول بھائی
نہ کریں، بنی ہے تو بنی رہنے دیں
ویسے تو سب جانتے ہی ہیں کہ فکری بیواؤں کا کام صرف کاپی پیسٹ کرنا ہی ہے
19 Jul, 2020 at 3:09 pm #6گھوسٹ صاحب۔۔ مجھے تو اب یاد بھی نہیں رہتا کہ میں عالمِ استغراق میں کس کس ویب سائٹ پر کس کس نام سے لکھ جاتا ہوں۔۔ بہرحال آپ کا یاد دلانے کا شکریہ۔۔ میں تحقیق کروں گا کہ یہ مضمون میں نے کب لکھا۔
۔
- thumb_up 1 mood 4
- thumb_up unsafe liked this post
- mood حسن داور, Ghost Protocol, نادان, shami11 react this post
19 Jul, 2020 at 10:21 pm #7اگر بالفرض محال کبھی کوئی خدا کسی ایک ایسے ہجوم کے سامنے ظاہر ہو جاے جس میں مذھبی اور ملحد دونوں ہیں تو پتا ہے کیا ہو گا
ملحد فورا ایمان لے آیئں گے. جبکہ مذہبی اسی جگھڑے میں اس کو خدا ماننے سے انکار کر دیں گے کہ یہ کون سے فرقے کا خدا ہے
- mood 2
- mood Ghost Protocol, نادان react this post
19 Jul, 2020 at 10:57 pm #8گھوسٹ پروٹوکول بھائی نہ کریں، بنی ہے تو بنی رہنے دیںویسے تو سب جانتے ہی ہیں کہ فکری بیواؤں کا کام صرف کاپی پیسٹ کرنا ہی ہے
باوا جی،
یہ مانگے تانگے کی کھوتا گیری معاف کیجئے گا دانش گردی میں جو عروج سیون اسٹار مہا جوتیا نے پایا ہے اس مقام تک پہنچ نے کے لئے دماغ کو آرام دینا لازمی ہے .
عرصہ ہوا بار ٹینڈر کا حوالہ پڑھنے کو نہیں ملا ، مکالمہ میں جان ڈالنے والا مووی کلپ نہیں دیکھا، فرینک انڈر ووڈ سے امید ہو چلی تھی مگر یہ پھول بھی بن کھلے مر جھا گیا، ستم تو دیکھیں ایاز امیر نے بھی دھوکہ دے دیا . سب سے بڑا ظلم شاہد عباسی بھائی نے کیا ہے جو معیشت پر لکھنا بند کردیا ہے جو تھوڑی بہت معاشی طرم خانی دکھ رہی تھی وہ بھی گئی.
ہم نے تو انکا کل دانشی اثاثہ ہی چھین لیا- mood 1
- mood Bawa react this post
19 Jul, 2020 at 11:48 pm #9باوا جی، یہ مانگے تانگے کی کھوتا گیری معاف کیجئے گا دانش گردی میں جو عروج سیون اسٹار مہا جوتیا نے پایا ہے اس مقام تک پہنچ نے کے لئے دماغ کو آرام دینا لازمی ہے . عرصہ ہوا بار ٹینڈر کا حوالہ پڑھنے کو نہیں ملا ، مکالمہ میں جان ڈالنے والا مووی کلپ نہیں دیکھا، فرینک انڈر ووڈ سے امید ہو چلی تھی مگر یہ پھول بھی بن کھلے مر جھا گیا، ستم تو دیکھیں ایاز امیر نے بھی دھوکہ دے دیا . سب سے بڑا ظلم شاہد عباسی بھائی نے کیا ہے جو معیشت پر لکھنا بند کردیا ہے جو تھوڑی بہت معاشی طرم خانی دکھ رہی تھی وہ بھی گئی. ہم نے تو انکا کل دانشی اثاثہ ہی چھین لیامظلوم کے دل سے جو کربناک آہ نکلتی ہے، عرش تک جاتی ہے۔۔۔۔۔
™©
پسِ تحریر۔۔۔۔۔
مظلومین کی ایسی کربناک آہوں سے ہر صورت بچنا چاہئے۔۔۔۔۔
™©
-
This reply was modified 2 years, 10 months ago by
BlackSheep.
- mood 1
- mood حسن داور react this post
20 Jul, 2020 at 1:15 am #10اگر بالفرض محال کبھی کوئی خدا کسی ایک ایسے ہجوم کے سامنے ظاہر ہو جاے جس میں مذھبی اور ملحد دونوں ہیں تو پتا ہے کیا ہو گا
ملحد فورا ایمان لے آیئں گے. جبکہ مذہبی اسی جگھڑے میں اس کو خدا ماننے سے انکار کر دیں گے کہ یہ کون سے فرقے کا خدا ہے
ہم اسے دوسری طرح دیکھتے ہیں ..فرض کریں جیسا کہ آپ کا خیال ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے ..اور واقعی کوئی خدا نہ ہو ..تو ہمارا تو کچھ نہیں ہ جائے گا ..اور اگر ہمارے یقین کے مطابق خدا ہوا تو تیرا کیا بنے گا کالیا
- mood 2
- mood unsafe, Ghost Protocol react this post
20 Jul, 2020 at 1:34 am #11ہم اسے دوسری طرح دیکھتے ہیں ..فرض کریں جیسا کہ آپ کا خیال ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے ..اور واقعی کوئی خدا نہ ہو ..تو ہمارا تو کچھ نہیں ہ جائے گا ..اور اگر ہمارے یقین کے مطابق خدا ہوا تو تیرا کیا بنے گا کالیاکچھ بھی نہیں ہو گا … وہ ہمیں گلے لگا لے گا … ہماری ایمانداری اور صدق دل کی وجہ سے … کہ میں نظر ہی نہیں آ رہا تھا تو یہ کیا کرتے .. ان لوگوں نے میرا یقین نہیں کیا لیکن مرے دین کو اتنا نقصان نہیں پونچایا جتنا مومنین نے پونچایا .. یہ تو اپنی جستجو میں سوال کرتے تھے …. . البتہ یہ ضرور ممکن ہے ..کہ وہ اپ کا اس اندھے یقین کرنے پر ضرور سوال کرے …. کہ آپ نے کیا میری ذات پر عقلی جوا لگایا ہوا تھا .. کہ اگر خدا نہیں بھی ہوا تو تب بھی ہماری ہی بچت ہو گی اگر ہوا تو وہ ہمیں بس گمان کرنے پر جنت میں لے جاے گا
-
This reply was modified 2 years, 10 months ago by
unsafe.
- thumb_up 1 mood 1
- thumb_up نادان liked this post
- mood Ghost Protocol react this post
20 Jul, 2020 at 1:40 am #12کچھ بھی نہیں ہو گا … وہ ہمیں گلے لگا لے گا … ہماری ایمانداری اور صدق دل کی وجہ سے … کہ میں نظر ہی نہیں آ رہا تھا تو یہ کیا کرتے .. ان لوگوں نے میرا یقین نہیں کیا لیکن مرے دین کو اتنا نقصان نہیں پونچایا جتنا مومنین نے پونچایا .. یہ تو اپنی جستجو میں سوال کرتے تھے …. . البتہ یہ ضرور ممکن ہے ..کہ وہ اپ کا اس اندھے یقین کرنے پر ضرور سوال کرے …. کہ آپ نے کیا میری ذات پر عقلی جوا لگایا ہوا تھا .. کہ اگر خدا نہیں بھی ہوا تو تب بھی ہماری ہی بچت ہو گی اگر ہوا تو وہ ہمیں بس گمان کرنے پر جنت میں لے جاے گاجائیں جنت آپ کی ہوئی
- thumb_up 1
- thumb_up unsafe liked this post
20 Jul, 2020 at 1:46 am #13جائیں جنت آپ کی ہوئیمیڈم اگر اپ مختلف دینوں میں جنت کے کانسپٹ پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا …عیسیٰایئوں کی جنت میں مسلمان اور یہودی نہیں ہیں ، مسلمانوں کی جنت میں عیسائی اور یہودی نہیں ہیں ، یہودیوں کی جنت میں عیسائی اور مسلمان نہیں ہیں .. اگر ہم ان سب جنتوں کو اکھٹا کریں تو آپ کو ان تینوں کی جنتوں میں وہ انسان نہیں نظر آئین گے جنوں نے دنیا کو پھول گلزار اور جنت بنا دیا …. اس لئے یہ جنت بس لوگوں کو بیوقوف بناننے کے سوا کچھ نہیں … اپنی نسلوں کی اچھی تربیت کے لئے ضروری ہے ہم آسمانوں والی جنتوں کو ختم کر کے دنیا کو جنت بنائیں
- thumb_up 1
- thumb_up BlackSheep liked this post
20 Jul, 2020 at 1:50 am #14میڈم اگر اپ مختلف دینوں میں جنت کے کانسپٹ پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا …عیسیٰایئوں کی جنت میں مسلمان اور یہودی نہیں ہیں ، مسلمانوں کی جنت میں عیسائی اور یہودی نہیں ہیں ، یہودیوں کی جنت میں عیسائی اور مسلمان نہیں ہیں .. اگر ہم ان سب جنتوں کو اکھٹا کریں تو آپ کو ان تینوں کی جنتوں میں وہ انسان نہیں نظر آئین گے جنوں نے دنیا کو پھول گلزار اور جنت بنا دیا …. اس لئے یہ جنت بس لوگوں کو بیوقوف بناننے کے سوا کچھ نہیں … اپنی نسلوں کی اچھی تربیت کے لئے ضروری ہے ہم آسمانوں والی جنتوں کو ختم کر کے دنیا کو جنت بنائیںجنت واپس
- mood 1
- mood Ghost Protocol react this post
20 Jul, 2020 at 2:11 am #15جنت واپسفریب زندگی دے کر نکالا مجھ کو جنت سے
دیا پھر شوق جنت کا, ہہ حیرانی نہی جاتی- mood 3
- mood BlackSheep, نادان, Ghost Protocol react this post
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.