Home Forums Siasi Discussion میں اس دیس میں رہتا ہوں

  • This topic has 14 replies, 6 voices, and was last updated 2 years ago by Zaidi. This post has been viewed 1002 times
Viewing 15 posts - 1 through 15 (of 15 total)
  • Author
    Posts
  • Sardar Sajid
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #1

    میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں ایک نمبر ہونے کے لیے دو نمبر ہونا ضروری ہوتا ہے

    ‏میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں ناجائز قبضہ والے پلاٹ پر حرام کمائی سے بنائے گئے گھر کے ماتھے پہ ‘ہذا من فضل ربی’ جلی حروف سے لکھا جاتا ہے

    ‏میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں ذخیرہ اندوزی کی بدولت بیس روز لوٹ مار کرنے کے بعد رمضان کا آخری عشرہ گزارنے کے لیے حاجی صاحب مدینہ شریف کا رخ کرتے ہیں

    ‏میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں بڑے راشی کے ماتھے پر بڑا محراب بنا ہوتا ہے

    میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں سب سے بڑا سمگلر ہمیشہ حاجی صاحب کہلاتا ہے

    میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں تھانے دار کے باپ کے جنازے میں پورا شہر امڈ آتا ہے لیکن اسی تھانے دار کے اپنے جنازے میں اس وجہ سے کوئی شرکت نہیں کرتا کہ اس کی میت کسی کے کام نہیں آسکتی

    میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں پورا دن چوک میں کھڑے ہو کر دوسروں کی ماؤں بہنوں کو گھورنے والوں کے سامنے اگر ان کی اپنی بہن کا نام بھی لے لیا جائے تو ان کا خون رگیں پھاڑ کر باہر نکل آتا ہے

    ‏میں ‏اس دیس میں رہتا ہوں جہاں وکیل کی بجائے جج ہائر کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے

    ‏میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں حرام نہ کھانے والے کو بزدل اور بےوقوف گردانا جاتا ہے

    میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں پندرہ بیس بندے اکٹھے ہو کر ایک شخص کی پھینٹی لگانے کے بعد خود کو پہلوان کہلواتے ہیں

    ‏‏میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں موروثیت کو جمہوریت گردانا جاتا ہے اور جہاں خاندانی جائیداد کے ساتھ ساتھ پارٹیاں بھی وراثت میں دی جاتی ہیں

    ‏میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں حق رائے دہی گولڈ لیف کی ڈبی, قیمے والے نان اور بریانی کے ایک پیکٹ کے عوض فروخت کیا جاتا ہے

    ‏میں ‏اس دیس میں رہتا ہوں جہاں اربوں ہڑپ کر جانے والے “ایک دھیلے کی کرپشن” نہ کرنے کی قسم کھا لیتے ہیں

    میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں عوام کے نمائندے سرعام اپنا ووٹ بیچنے کے بعد فخر سے مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور یہ قوم انہیں ہار پہناتی ہے

    ‏میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں محلے میں لگائی بجھائی کرنے والا مشہور ہو کر صحافی بن جاتا ہے

    ‏‎ایک داڑھی والے معزز رکن اسمبلی سے کسی نے کہا شرم نہیں آتی داڑھی رکھ کر کرپشن کرتے ہو؟
    جواب ملا کہ داڑھی گلے تک جاکر ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے آگے پیٹ شروع ہو جاتا ہے

    ‏میں اس قوم کا فرد ہوں جس کو اپنے گناہ صرف تب یاد آتے ہیں جب زمین لرزتی اور آسمان کپکپاتا ہے

    سردار ساجد عارف

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #2

    سلام عرض ہے سردار صاحب، آج آپ فیصل واوڈا کی چڑھی ہوئ گڈی پر بھی چند حروف لکھ دیں ، سنا ہے اسکا وکیل ھائیکورٹ کے گیٹ پر کھڑا اس کے فون کا انتظار کررہا تھا ۔ جیسے ہی واوڈا نے اپنے مبارک ھاتھوں سے سینیٹر کے لیے ملنے والا ووٹ ڈالا ، معزز وکیل نے ھائیکورٹ کے جج سے کہا کہ کیسا کیس ؟ فیصل واوڈا نے تو اسمبلی سے استعفا دے دیا ہے ۔

    سردار صاحب، آپ کو صادق اور امین کا پاکستان کے اداروں کے ساتھ کھلواڑہ کیسا لگا ؟

    کک باکسر
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #3
    میں اس دیس میں رہتا ہوں جہاں اپوزیشن بھڑکیں مارنے کے  کے بعد دم دبا کر بھاگ جاتی ہے ۔ ڈرپوک 

    پہلے خود بھاگی

    پھر باپ بھگا دیا

    اب پوری اپوزیشن بھگا دی

    :hilar:

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    Sardar Sajid

    سردار صاحب،
    آپ ایسے دیس میں کیوں رہتے ہیں؟ چھوڑ کیوں نہیں دیتے ہیں؟

    :thinking: :thinking: :thinking:

    Sardar Sajid
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #5
    Sardar Sajid سردار صاحب، آپ ایسے دیس میں کیوں رہتے ہیں؟ چھوڑ کیوں نہیں دیتے ہیں؟ :thinking: :thinking: :thinking:

    ویزے کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن نہ مل سکا

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    ویزے کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن نہ مل سکا

    جنکو ویزہ مل چکا ہے ان کو دوبارہ اپنے دیس کی یاد ستاتی ہے کیوں؟

    :.(

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7

    سلام عرض ہے سردار صاحب، آج آپ فیصل واوڈا کی چڑھی ہوئ گڈی پر بھی چند حروف لکھ دیں ، سنا ہے اسکا وکیل ھائیکورٹ کے گیٹ پر کھڑا اس کے فون کا انتظار کررہا تھا ۔ جیسے ہی واوڈا نے اپنے مبارک ھاتھوں سے سینیٹر کے لیے ملنے والا ووٹ ڈالا ، معزز وکیل نے ھائیکورٹ کے جج سے کہا کہ کیسا کیس ؟ فیصل واوڈا نے تو اسمبلی سے استعفا دے دیا ہے ۔

    سردار صاحب، آپ کو صادق اور امین کا پاکستان کے اداروں کے ساتھ کھلواڑہ کیسا لگا ؟

    فیصل واوڈا کو تنہا چھوڑ دیں پلیز ان پرتو سینیٹر بننے کی مبارکباد بھی یوں گری ہے جیسے زلزلے میں کمرے کی چھت

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #8
    Sardar Sajid سردار صاحب، آپ ایسے دیس میں کیوں رہتے ہیں؟ چھوڑ کیوں نہیں دیتے ہیں؟ :thinking: :thinking: :thinking:

    ہوں گرمئ نشاط تصور سے نغمہ سنج
    میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9
    ویزے کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن نہ مل سکا

    سردار صاحب،
    اس مجبوری کی تشخیص اور علاج چچا غالب دو صدیاں قبل تجویز کر گئے ہیں

    قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

    موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاے کیوں

    ہمت کریں

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10
    جنکو ویزہ مل چکا ہے ان کو دوبارہ اپنے دیس کی یاد ستاتی ہے کیوں؟ :.(

    سستے اور ذائقہ دار کھانوں کی وجہ سے

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #11
    سستے اور ذائقہ دار کھانوں کی وجہ سے

    گھوسٹ صاحب ہو سکتا ہے ، وجہ کوئ اور ہو ۔

    پھر تمہارا خط آیا
    شام حسرتوں کی شام
    رات تھی جدائی کی
    صبح صبح ہر کارہ
    ڈاک سے ہوائی کی

    گم شدہ محبت کا
    نامۂ وفا لایا
    پھر تمہارا خط آیا

    پھر کبھی نہ آؤنگی
    موجۂ صبا ہو تم
    سب کو بھول جاؤنگی
    سخت بے وفا ہو تم
    دشمنوں نے فرمایا
    دوستوں نے سمجھایا
    پھر تمہارا خط آیا

    ہم تو جان بیٹھے تھے
    ہم تو مان بیٹھے تھے
    تیری طلعتِ زیبا
    تیرا دید کا وعدہ
    تیری زلف کی خوشبو
    دشتِ دور کے آہو
    سب فریب سب مایا
    پھر تمہارا خط آیا

    ساتویں سمندر کے
    ساحلوں سے کیوں تم نے
    پھر مجھے صدا دی ہے
    دعوت وفا دی ہے
    تیرے عشق میں جانی
    اور ہم نے کیا پایا
    درد کی دوا پائی
    دردِ لادوا پایا
    کیوں تمہارا خط آیا

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #12
    جنکو ویزہ مل چکا ہے ان کو دوبارہ اپنے دیس کی یاد ستاتی ہے کیوں؟ :.(

    قربتوں میں بھی جدائ کے زمانے مانگے
    دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے ۔

    Nostalgia

    • This reply was modified 2 years ago by Zaidi.
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13

    گھوسٹ صاحب ہو سکتا ہے ، وجہ کوئ اور ہو ۔

    پھر تمہارا خط آیا شام حسرتوں کی شام رات تھی جدائی کی صبح صبح ہر کارہ ڈاک سے ہوائی کی

    گم شدہ محبت کا نامۂ وفا لایا پھر تمہارا خط آیا

    پھر کبھی نہ آؤنگی موجۂ صبا ہو تم سب کو بھول جاؤنگی سخت بے وفا ہو تم دشمنوں نے فرمایا دوستوں نے سمجھایا پھر تمہارا خط آیا

    ہم تو جان بیٹھے تھے ہم تو مان بیٹھے تھے تیری طلعتِ زیبا تیرا دید کا وعدہ تیری زلف کی خوشبو دشتِ دور کے آہو سب فریب سب مایا پھر تمہارا خط آیا

    ساتویں سمندر کے ساحلوں سے کیوں تم نے پھر مجھے صدا دی ہے دعوت وفا دی ہے تیرے عشق میں جانی اور ہم نے کیا پایا درد کی دوا پائی دردِ لادوا پایا کیوں تمہارا خط آیا

    زیدی صاحب،
    اس موقع پر فیض کی شہرہ آفاق غزل یاد آگئی

    ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺳﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺮﯼ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮓ
    ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮐﮧ ﺗُﻮ ﮨﮯ ﺗَﻮ ﺩﺭﺧﺸﺎﮞ ﮨﮯ ﺣﯿﺎﺕ
    ﺗﯿﺮﺍ ﻏﻢ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻏﻢِ ﺩﮨﺮ ﮐﺎ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
    ﺗﯿﺮﯼ ﺻﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮨﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺛﺒﺎﺕ
    ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
    ﺗﻮ ﺟﻮ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﻧﮕﻮﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
    ﯾﻮﮞ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻘﻂ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﻮﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
    ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮫ ﮨﯿﮟ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ
    ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﺻﻞ ﮐﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ
    ﺍَﻥ ﮔﻨﺖ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﺑﮩﯿﻤﺎﻧﮧ ﻃﻠﺴﻢ
    ﺭﯾﺸﻢ ﻭ ﺍﻃﻠﺲ ﻭ ﮐﻤﺨﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﻮﺍﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ
    ﺟﺎ ﺑﺠﺎ ﺑﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻮﭼﮧ ﻭ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺴﻢ
    ﺧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﻟﺘﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﻼﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ
    ﺟﺴﻢ ﻧﮑﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﮐﮯ ﺗﻨﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ
    ﭘﯿﭗ ﺑﮩﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮔﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﺎﺳﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ
    ﻟﻮﭦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺩﮬﺮ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﯿﮯ
    ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺩﻟﮑﺶ ﮨﮯ ﺗﺮﺍ ﺣﺴﻦ، ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﯿﮯ
    ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮫ ﮨﯿﮟ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ
    ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﺻﻞ ﮐﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ
    ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺳﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺮﯼ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮓ

    Musician
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #14

    یہ غزل نہیں نظم ہے

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #15
    زیدی صاحب، اس موقع پر فیض کی شہرہ آفاق غزل یاد آگئی ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺳﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺮﯼ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮐﮧ ﺗُﻮ ﮨﮯ ﺗَﻮ ﺩﺭﺧﺸﺎﮞ ﮨﮯ ﺣﯿﺎﺕ ﺗﯿﺮﺍ ﻏﻢ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻏﻢِ ﺩﮨﺮ ﮐﺎ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺻﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮨﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺛﺒﺎﺕ ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﺗﻮ ﺟﻮ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﻧﮕﻮﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﻮﮞ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻘﻂ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﻮﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮫ ﮨﯿﮟ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﺻﻞ ﮐﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍَﻥ ﮔﻨﺖ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﺑﮩﯿﻤﺎﻧﮧ ﻃﻠﺴﻢ ﺭﯾﺸﻢ ﻭ ﺍﻃﻠﺲ ﻭ ﮐﻤﺨﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﻮﺍﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺎ ﺑﺠﺎ ﺑﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻮﭼﮧ ﻭ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺴﻢ ﺧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﻟﺘﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﻼﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺴﻢ ﻧﮑﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﮐﮯ ﺗﻨﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﭗ ﺑﮩﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮔﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﺎﺳﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺩﮬﺮ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﯿﮯ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺩﻟﮑﺶ ﮨﮯ ﺗﺮﺍ ﺣﺴﻦ، ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮫ ﮨﯿﮟ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﺻﻞ ﮐﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺳﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺮﯼ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮓ

    یا
    رقیب ( فیض احمد فیض)

    آ کہ وابسطہ ہیں اُس حُسن کی یادیں تجھ سے ۔

Viewing 15 posts - 1 through 15 (of 15 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi