Home Forums Siasi Discussion مولانا تیرا شکریہ

Viewing 10 posts - 1 through 10 (of 10 total)
  • Author
    Posts
  • Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1
    آصف علی زرداری کیسی ہی شطرنج کی گیم جمائیں، مولانا فضل الرحمٰن ہیں کہ پی ڈی ایم کی مزاحمتی امنگ کا بھرم برقرار رکھے ہوئے ہیں، اُن کے لئے کھونے کو کچھ نہیں تو پیپلز پارٹی اور نون لیگیوں کے لئے کھونے کو اب بھی بہت کچھ ہے۔

    دونوں پارٹیاں ضمنی انتخابات ہوں یا سینیٹ کے الیکشن، بائیکاٹ کرنا افورڈ نہیں کرسکتیں، اس بار تو سنا ہے آصف علی زرداری او ر نوازشریف ایک ہی سُر میں بات کررہے تھے، ضمنی و سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کی لیکن مولانا کی ہمت اُن کے لئے بڑی نعمت ثابت ہو رہی ہے۔

    کوئی ڈرتا ہے تو اُن سے یا پھر اِس بیانیے سے جو دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح چبھا جاتا ہے۔ گو کہ سالِ نو کے آغاز پہ پی ڈی ایم کے ٹھس ہوتے اعلانات سے اس کی تحریک پہ وقتی اوس پڑنی ہی تھی، مولانا کے ایک ہی فقرے نے ٹمی کو سلگائے رکھا ہے۔

    لانگ مارچ کی منزل اسلام آباد ہوگی یا راولپنڈی کا غیرمعین عندیہ دے کر اُنہوں نے پاور کے دونوں مراکز میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ ’’اگلوں‘‘ نے کانوں کو انگلیاں لگاتے ہوئے سیاست سے دور رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کا احترام کرتے ہوئے مولانا نے رعایت یہ دی کہ کس گیٹ پہ جائیں گے۔ اگلے گیٹ پہ تصادم کا اشارہ اور پچھلے گیٹ سے مصالحت کا عندیہ۔ یہ سیاستدان بڑے ہی کایاں لوگ ہیں۔

    عمران خان نے کوئی غلط نہیں کہا کہ دایاں ہاتھ دکھا کر بایاں ہاتھ چلاتے ہیں کہ بیچارہ بائولر تو ایک ہی ہاتھ سے بال کراتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ بال ٹمپر بھی کر لیتا ہے۔ اور وزیراعظم کی بال تو ہے ہی ٹمپرڈ۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ ان کے بس میں ہوتا تو وہ ان سب کو جیلوں میں بند کردیتے، جب یہ بھی بس میں نہ ہو تو کوئی فاشسٹ بننا بھی چاہے تو بنے کیسے۔

    ہائے حسرت ہی رہ گئی۔ البتہ کٹھ پتلی ہونے سے انکار کریں بھی تو کیسے کہ سب کچھ دیا تو انہی کا ہے۔ اب ڈریہ ہے کہ جن پتوں پہ تکیہ تھا، وہی ہوا دینا نہ شروع کردیں۔ آخر کوئی کیوں اور کب تک اک گناہ کا خمیازہ صبح شام کی نااہلیوں کے باعث تواتر سے بھگتتا رہے۔ سجیلے جوان تو آنکھوں کا تارہ ہیں اور آنکھوں میں شہتیر آجائیں تو دِکھے گا کیا۔

    ہمارے مولانا بھی عجب مخمصے میں پھنسے ہیں، ان کے دونوں بڑے اتحادیوں کا ایک ایک بازو بندھا ہے اور نوابزادہ نصراللّٰہ خان کی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی روایت کے اسیربن کے رہ گئے ہیں۔ اکیلا چنا بھاڑ جھونک سکتا ہوتا تو مولانا اپنے پچھلے دھرنے میں لنکا ڈھا چکے ہوتے۔ لہٰذا طوہاً و کرہاً اتحادیوں کو تو ساتھ لینا ہی پڑے گا۔

    مولانا کی خوش قسمتی ہے کہ پچھلے گیٹ سے جانے والے مسلم لیگ ن والے تو دونوں بڑے عمران خان نے کمال ہوشیاری سے جیل میں ڈال دیے ہیں اور ان کے ساتھ نوازشریف کی فرماں بردار بیٹی مردانہ وار کھڑی ہے۔ ایسے میں بلاول بھٹو اپنی جمہوریت پسندی کے استدلال سے کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔

    دونوں طرح کے کھیل اپوزیشن کی صفوں میں چلتے رہیں گے اور دو طرح کے کھیل اب اسلام آباد اور راولپنڈی کی فضائوں میں بھی شروع ہوا چاہتے ہیں۔

    آخر کوئی کب تک کسی کی نالائقیوں کا دوش لیتا رہے گا، بس اک کندھا اچکنے کی بات ہے یا پھر عمران خان کا ایک غلط قدم ان کی حکومت کو لے بیٹھ سکتا ہے۔ دیکھئے پھر کون کون سے گھوڑے میدان میں اترتے ہیں، لگتا ہے کہ ٹریک ٹو بس ایک ٹرائل غبارہ تھا۔ بھلا ایسے خفیہ سفارت کاری ہوتی ہے؟ یا پھر ایک وارننگ شاٹ تھا۔

    اصلی ہاتھ تو بڑوں کی لڑائی میں پھنسے بیچارے خواجہ آصف کے ساتھ ہوا یا پھر پرائم منسٹر ان ویٹنگ شہباز شریف کے ساتھ جو بقول عمران خان اپنے لیپ ٹاپ پر حکومت میں آنے کے آپشنز بناتے بگاڑتے رہ گئے۔

    سیاست کی ان پیچ دار گتھیوں سے قطع نظر جو بات پوچھنے کی ہے کہ آخر ایک حکومت کو گرا کر دوسری حکومت لانے کے اس لایعنی کھیل سے نہ آئینی ڈھانچے کے مطابق، سیاسی ڈھانچے کی تشکیلِ نو ہو سکتی ہے اور نہ عوام کی زندگی میں کوئی معنی خیز تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ ہم کب سے اس بےنتیجہ دبے ثمر کھیل میں زندگیاں گلا بیٹھے ہیں۔

    ملک سنبھلا، نہ حکومت سیدھی ہو پائی اور نہ معیشت لوگوں اور مملکت کی ضرورتوں کو پوری کرنے کے قابل ہو سکی۔ کل میاں نواز شریف کہتے کہتے پھر سے جلا وطن ہو گئے کہ مجھے کیوں نکالا تو آنے والے کل میں شاید عمران خان بھی یہ کہتے پائے جائیں گے کہ انہیں این آر او نہ دینے پہ کیوں نکالا گیا۔

    جو کچھ مولانا فضل الرحمٰن فرما رہے ہیں کہ اصل مسئلہ نظام کی خرابی کی جڑ کو نکالنے کا ہے۔ یہ کام تو ایک انقلابی ریاستی کا یاپلٹ سے کم نہیں، لیکن اس کے لئے درکار توانائی پی ڈی ایم کے تلوں کے تیل میں نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مملکتی، ریاستی، معاشی اور سماجیاتی بحران اور عالمی حالات کے دبائو میں اب مملکت خداداد کے پاس پرانے نو آبادیاتی شکنجے سے نکلنے کے سوا چارہ باقی نہیں بچا۔

    اگر کسی کو سمجھ نہیں تو یہ سمجھانا کسی کو مشکل بھی نہیں بشرطیکہ کوئی سمجھنے کو تیار ہو۔ مارشل لا لگاکے وہ دیکھ چکے۔ سویلین وقفے ادھورے کے ادھورے رہ گئے اور اب کٹھ پتلی نظام بھی بےآبرو ہو چکا۔ تو نیشنل ڈائیلاگ کی بات تو ایجنڈے پہ آنی ہے لیکن سوال ہے کہ کس ایجنڈے پہ؟

    بہتر ہوگا کہ پی ڈی ایم آئینی، ریاستی، معاشی اور اداراتی کایا پلٹ کا اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کا کوئی متبادل پروگرام پیش کرے اور ایک آزادانہ انتخابات کے ذریعہ ایک قومی مصالحتی حکومت دس برس کے ایجنڈے کے ساتھ بھرپور عوامی تائید سے ملک کی باگ ڈور سنبھالے تاکہ عبورِ دوئم ایک قومی جمہوری، وفاقی اور پائیدار معاشی بنیاد مستحکم کر سکے۔

    روز روز کی مارا ماری سے بہتر ہے کہ ملک کو سماجی، عوامی اور معاشی ترقی کی راہ پہ ڈالا جا سکے۔ مولانا نے مسئلے کی نبض پہ تو ہاتھ رکھا ہے لیکن ان کے پاس کوئی متبادل ایجنڈا نہیں ہے۔ وہ ایجنڈا تمام جمہوری جماعتوں، سول سوسائٹی اور عوامی تنظیموں کے اشتراک سے تشکیل پا سکتا ہے۔

    یہ کہنا کافی نہیں کہ اصل مسئلہ عمران حکومت نہیں، اصل کام یہ ہے کہ پھر کیا کرنا ہے؟ مولانا تیرا شکریہ کہنے کو دل چاہتا ہے لیکن کرک میں ایک بےآباد مندر کو مولانا کے رفقا کی جانب سے ڈھائے جانے کے بعد ہمت نہیں پڑرہی۔

    بھلا ان کے مقتدیوں کو کون سمجھائے کہ اس کا بھارت کے بےزبان مسلمانوں پہ کیا اثر پڑے گا اور کس طرح ہندو توا والے انتہا پسند اسے مسلم کشی کے لئے استعمال کریں گے؟ پھر بھی، مولانا تیرا شکریہ!

    https://jang.com.pk/news/866745

    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #2
    کافی دنوں بھد ایک اچھا کالم پڑھنے کو ملا تو سوچا کہ دوستوں کے ساتھ شیئر کروں – اس میں سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ مولانا نے دھرنا اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی میں دینے کی دھمکی دی ہے – میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑی دھمکی ہے اور ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا کہ جی ایچ قیو کے آگے دھرنا یا اعتجاج ہوا ہو – فلحال تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ صرف دھمکی ہی ہے اور اس پر عمل نہیں ہو گا لیکن بحرحال اس سے طاقتوروں کو خوب دباؤ میں لایا گیا ہے –

    Bawa

    Atif Qazi

    JMP

    Ghost Protocol

    Zaidi

    Believer12

    PML-N

    GeoG

    BlackSheep

    shami11

    Aamir Siddique

    shahidabassi

    کک باکسر

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #3
    Awan sahib

    محترم اعوان صاحب

    بہت شکریہ

    ان سیاسی مضامین اور سیاسی حالات پر تو وہی بہتر تبصرہ کرسکتا ہے جس کو ان امور اور علوم پر مہارت ہو اور میرے اور کافی دوسرے شرکاء محفل کے خیال میں آپ اور چند اور شرکاء محفل اس لحاظ سے مجھ سے کئی درجہ بہت بہتر ہیں

    میرے خیال میں

    ١) موجودہ یا کسی بھی ایسی حکومت جو کے انتخابات کے نتیجے میں بر سر اقتدار آئی ہو اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنا، سازشیں کرنا انتہائی غلط اور غیر جمہوری عمل ہے . اس حکومت کو پانچ سال اقتدار پورا کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مسلم لیگ کی پچھلی حکومت اور بہت لوگوں کی خواھشات کے مطابق اگلی مسلم لیگ کی حکومت کو حاصل ہے

    ٢) روز اول سے اس حکومت کی ناکامی کے بارے میں باتیں کرنا، کسی بھی بہتر اقدام کی تعریف نہ کرنا اور صرف جذباتی باتیں بنانا غیر ضروری ہے

    ٣) کسی بھی سیاسی اختلاف اور احتجاج پارلیمنٹ میں ہی اٹھانا چاہیے

    ٤) غیر سیاسی عناصر کا سیاست میں بلکل عمل دخل نہیں ہونا چاہیے

    ٥)جمہوریت صرف ووٹ دینا ہی نہیں ہے اور ہمارے ملک میں صرف ووٹ دینے کو جمہوریت سمجھا جاتا ہے

    ٦) اس ملک کی سیاست کو اگر غیر سیاسی عناصر نے خراب کیا ہے تو سیاسی عناصر نے اس سے زیادہ خراب کیا ہے اور اس میں میری نظر میں سب سے بڑا ہاتھ عہد حاضر کے سب سے بہترین اور کامیاب سیاستدان محترم نواز شریف صاحب کا ہے اور پھر کسی اور حد تک زرداری کا

    ٧) جب تک اس ملک کے عوام یہ طے نہیں کر لیں گے کے وہ کیا چاہتے ہیں اور کونسا نظام حکومت اس ملک کے لئے بہتر ہے کچھ زیادہ بہتری کی امید نہیں مجھے

    ٨) ان صحافی خواتین اور حضرات کو اگر سیاست کا اتنا ہی شوق ہے تو سیاست کریں . چنگاری لگانا، مرچ مسالا لگا کر ہلا گلا کرنا ، جذباتی اور بغیر کسی حقیقت کے باتیں بنانا اس ملک اور اس عوام کے مفاد میں نہیں

    ٩) مجھے اس تحریر کا عنوان اور مضمون سے حوالہ سمجھ نہیں آیا

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #4
    کافی دنوں بھد ایک اچھا کالم پڑھنے کو ملا تو سوچا کہ دوستوں کے ساتھ شیئر کروں – اس میں سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ مولانا نے دھرنا اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی میں دینے کی دھمکی دی ہے – میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑی دھمکی ہے اور ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا کہ جی ایچ قیو کے آگے دھرنا یا اعتجاج ہوا ہو – فلحال تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ صرف دھمکی ہی ہے اور اس پر عمل نہیں ہو گا لیکن بحرحال اس سے طاقتوروں کو خوب دباؤ میں لایا گیا ہے – Bawa Atif Qazi JMP Ghost Protocol Zaidi Believer12 PML-N GeoG BlackSheep shami11 Aamir Siddique shahidabassi کک باکسر

    میرے خیال میں اس مضمون میں اس دھمکی کے علاوہ ایک آدھ اچھی تجویز بھی دی گئی ہے اور اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ نیا گروہ بھی شاید کچھ بہتری نہ لا سکے اور فساد کی اصل جڑ کو ختم نہ کر سکے

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #5
    امتیاز عالم کا بہت اچھا کالم اور موجودہ پر پیچ سیاسی حالات پر بہت موثر تجزیہ ہے اگر کالم کے اوپر کالمسٹ کا نام بھی لکھ دیا جاے تو کوی حرج نہیں کیونکہ مجھے یہی اشتیاق سورس کی طرف لے گیا تھا

    مولانا بلکہ پی ڈی ایم نے کچھ زیادہ ہی جلسے اور ریلیاں کر ڈالی ہیں آج بھی ایک ریلی تھی ان جلسوں پر بہت زیادہ زور لگ گیا ہے اور اب عوام کی دلچسپی جلسہ جلوس سے شائد کم ہوگئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ مہنگای سے بھوک مرتی عوام اس حکومت کو خود چلتا کردے گی مولانا یا مریم  نواز کو جلسے کرنے کی بجاے ایک دھرنے کی تاریخ دینی چاہئے اور پھر دیکھیں کہ عوام کیا کرتی ہے

    دونوں پارٹیاں اور انکی اتحادی جماعتیں باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ دھرنا دیں اور ایسے کارکنوں کی لسٹ بنائیں جو ادھر مستقل بیٹھیں گے ان کی ضروریات کیسے پوری کی جائین گی اور میدان بھرا رکھنے کی پلاننگ ہو سب پارٹیاں اپنا اپنا حصہ ڈالیں تو بہت کامیاب دھرنا ہوگا ان کو صرف رات گزارنا ہوگی کیونکہ دن کے وقت عوام خود ہی ادھر کا رخ کیا کریں گے اور حکومت پر سخت دباو بڑھے گا اس حکومت نے ایک دھیلے کاکام بھی نہیں کیا اور سواے بک بک کے زیرو پرفارمنس ہے ان کے اگلے دو سال اس سے بھی برے ہونگے مجھے تو لگتا ہے کہ فصلی بٹیروں پر قایم یہ حکومت جلد فارغ ہوجاے گی

    Anjaan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #6
    Instead of these rallies and dharnas (despite corona) why can’t the PDM leaders sit face to face with the PM and resolve the Genuine Issues?
    • This reply was modified 2 years, 4 months ago by Anjaan.
    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #7
    Instead of these rallies and dharnas (despite corona) why can’t the PDM leaders sit face to face with the PM and resolve the Genuine Issues?

    Well PDM want that but PM disagree with that. PM is saying that he don’t want to sit with Chors/Dakos on any issue. PM was not willing to sit even with opposition leader Shehbaz Sharif to discuss election commission members who retired or were about to retire.

    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #8
    Awan sahib

    محترم اعوان صاحب

    بہت شکریہ

    ان سیاسی مضامین اور سیاسی حالات پر تو وہی بہتر تبصرہ کرسکتا ہے جس کو ان امور اور علوم پر مہارت ہو اور میرے اور کافی دوسرے شرکاء محفل کے خیال میں آپ اور چند اور شرکاء محفل اس لحاظ سے مجھ سے کئی درجہ بہت بہتر ہیں

    میرے خیال میں

    ١) موجودہ یا کسی بھی ایسی حکومت جو کے انتخابات کے نتیجے میں بر سر اقتدار آئی ہو اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنا، سازشیں کرنا انتہائی غلط اور غیر جمہوری عمل ہے . اس حکومت کو پانچ سال اقتدار پورا کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مسلم لیگ کی پچھلی حکومت اور بہت لوگوں کی خواھشات کے مطابق اگلی مسلم لیگ کی حکومت کو حاصل ہے

    ٢) روز اول سے اس حکومت کی ناکامی کے بارے میں باتیں کرنا، کسی بھی بہتر اقدام کی تعریف نہ کرنا اور صرف جذباتی باتیں بنانا غیر ضروری ہے

    ٣) کسی بھی سیاسی اختلاف اور احتجاج پارلیمنٹ میں ہی اٹھانا چاہیے

    ٤) غیر سیاسی عناصر کا سیاست میں بلکل عمل دخل نہیں ہونا چاہیے

    ٥)جمہوریت صرف ووٹ دینا ہی نہیں ہے اور ہمارے ملک میں صرف ووٹ دینے کو جمہوریت سمجھا جاتا ہے

    ٦) اس ملک کی سیاست کو اگر غیر سیاسی عناصر نے خراب کیا ہے تو سیاسی عناصر نے اس سے زیادہ خراب کیا ہے اور اس میں میری نظر میں سب سے بڑا ہاتھ عہد حاضر کے سب سے بہترین اور کامیاب سیاستدان محترم نواز شریف صاحب کا ہے اور پھر کسی اور حد تک زرداری کا

    ٧) جب تک اس ملک کے عوام یہ طے نہیں کر لیں گے کے وہ کیا چاہتے ہیں اور کونسا نظام حکومت اس ملک کے لئے بہتر ہے کچھ زیادہ بہتری کی امید نہیں مجھے

    ٨) ان صحافی خواتین اور حضرات کو اگر سیاست کا اتنا ہی شوق ہے تو سیاست کریں . چنگاری لگانا، مرچ مسالا لگا کر ہلا گلا کرنا ، جذباتی اور بغیر کسی حقیقت کے باتیں بنانا اس ملک اور اس عوام کے مفاد میں نہیں

    ٩) مجھے اس تحریر کا عنوان اور مضمون سے حوالہ سمجھ نہیں آیا

    جے بھائی آپ نے جو باتیں لکھی ہیں وہ حقیقت ہیں اور ان پر مجھ سمیت کسی کو بھی اعتراض نہیں ہو سکتا اور نہ ہونا چاہئے –
    کچھ باتوں پر تبصرہ کرنا چاھوں گا – ایک بار جو حکومت منتخب ہو گئی بھلے جیسے بھی ہوئی ہو اسے پانچ سال پورے کرنے کا پورا حق ہے مگر اپوزیشن اسے کیوں گرانا چاہتی ہے اس پر بھی غور ضروری ہے – خان صاحب پچھلی میاں صاحب کی حکومت گرانے کی لاجک یہ دیتے تھے کہ یہ حکومت منتخب نہیں ہوئی بلکے نون لیگ نے دھاندلی کر کے الیکشن چوری کیا جو اصل میں عمران خان (بقول انکے ) جیت جاتے اگر دھاندلی نہ ہوتی – خان صاحب اور ان کے سپورٹر اس بات پر پکا یقین رکھتے تھے اور آج بھی یقین رکھتے ہیں اور اس کے لئے بے شمار دلیلیں اور ثبوت پیش کرتے ہیں – خان صاحب دھاندلی کا کیس سپریم کورٹ کے ایک کمیشن کے روبرو لے گئے جس نے مہینوں تحقیقات کیں اور نتیجہ نکالا کہ یا تو دھاندلی ہوئی ہی نہیں اور اگرکہیں ہوئی بھی ہے تو یہ منظم دھندلی نہیں تھی –
    موجودہ اپوزیشن کا بھی بنیادی طور پر یہی کہنا ہے کہ یہ الیکشن چوری ہوا ہے اور اگر چوری نہ ہوتا تو اپوزیشن یہ الیکشن جیت جاتی – اپوزیشن کا خیال البتہ خان صاحب والے دھاندلی کے الزام سے مختلف ہے – اپوزیشن سمجھتی ہے خان صاحب کو اسٹیبلشمنٹ نے جیتایا ہے – اپوزیشن میں سے کچھ پارٹیاں سمجھتی ہیں یہ دھاندلی الیکشن والے دن ہوئی جبکے زیادہ تر پارٹیوں کا خیال ہے یہ پری پول رگنگ یا پولیٹیکل انجینرنگ تھی جس کی پلاننگ لمبے عرصے تک کی گئی اور الیکشن سے پہلے ہی موجودہ پارٹی کو سلیکٹ کر لیا گیا – اسی مناسبت سے موجودہ حکومت کو سلیکٹڈ کہا جاتا ہے – اپوزیشن یہ بھی سمجھتی ہے کہ ان کے خلاف کرپشن کیس جھوٹے ہیں اور یہ سیاسی انتقام ہے – یوں ان چیزوں کا جواز بنا کر وہ حکومت گرنا چاہتی ہے –
    پچھلے تجربات کی بنا پر اپوزیشن کو لگتا ہے دھرنا یا لونگ مارچ اتنا کامیاب نہیں ہو گا کہ حکومت گر جائے اسلئے اب وہ دھرنے کی جگہ اسلام آباد میں کرنے کی بجائے پنڈی میں جی ایچ قیو کے سامنے کرنا چاہتی ہے تا کہ حکومت کی بجائے ان پر دباؤ پڑے جو انہیں لے کر آئے ہیں – اپوزیشن چاہتی ہے جو اس حکومت کو لے کر آیا ہے وہی اس کا بستر گول کرے جو سیاسی عمل میں مداخلت کی دعوت ہے – اپوزیشن ایک طرف اسٹبلشمنٹ کو سیاسی عمل میں مداخلت سے باز رکھنا چاہتی ہے اور دوسری طرف خود مداخلت کر ا کے انہیں نئے الیکشن پر مجبور کرانا چاہتی ہے -عوام تقسیم ہے زیادہ تر عوام چاہتی ہے موجودہ حکومت مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے جانے کی مستحق ہے جبکے کافی لوگوں کا یہ خیال ہے یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے – موجودہ حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بھلے حکومت کی کارکردگی ابھی اچھی نہ ہو لیکن پانچ سال پورے ہونے کے بھد ان کی کارکردگی شاندار ہو گی اور اس وجہ سے وہ اس سے اگلا الیکشن بھی جیت جائے گی – اپوزیشن کو ڈر ہے کہ اگر پچھلی بار کی طرح اگر اسٹیبلشمنٹ نے اس حکومت کی حمایت کی تو یہ پھر منتخب ہو سکتے ہیں اور وہ حکومت سے ہمیشہ کے لئے ناک آوٹ ہو جائیںگے – یہ وہ پس منظر ہے جس پر سبھی پارٹیاں اور عوام متفق ہے اور آگے کے لئے اپنے اپنے اندازے لگا رہی ہے – اس پس منظر کے بھد اگر آپ کی طرف سے بھی اگر کوئی مستقبل کا اندازہ سامنے آئے تو بحث آگے بڑھ سکتی ہے –

    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #9
    امتیاز عالم کا بہت اچھا کالم اور موجودہ پر پیچ سیاسی حالات پر بہت موثر تجزیہ ہے اگر کالم کے اوپر کالمسٹ کا نام بھی لکھ دیا جاے تو کوی حرج نہیں کیونکہ مجھے یہی اشتیاق سورس کی طرف لے گیا تھا مولانا بلکہ پی ڈی ایم نے کچھ زیادہ ہی جلسے اور ریلیاں کر ڈالی ہیں آج بھی ایک ریلی تھی ان جلسوں پر بہت زیادہ زور لگ گیا ہے اور اب عوام کی دلچسپی جلسہ جلوس سے شائد کم ہوگئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ مہنگای سے بھوک مرتی عوام اس حکومت کو خود چلتا کردے گی مولانا یا مریم نواز کو جلسے کرنے کی بجاے ایک دھرنے کی تاریخ دینی چاہئے اور پھر دیکھیں کہ عوام کیا کرتی ہے دونوں پارٹیاں اور انکی اتحادی جماعتیں باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ دھرنا دیں اور ایسے کارکنوں کی لسٹ بنائیں جو ادھر مستقل بیٹھیں گے ان کی ضروریات کیسے پوری کی جائین گی اور میدان بھرا رکھنے کی پلاننگ ہو سب پارٹیاں اپنا اپنا حصہ ڈالیں تو بہت کامیاب دھرنا ہوگا ان کو صرف رات گزارنا ہوگی کیونکہ دن کے وقت عوام خود ہی ادھر کا رخ کیا کریں گے اور حکومت پر سخت دباو بڑھے گا اس حکومت نے ایک دھیلے کاکام بھی نہیں کیا اور سواے بک بک کے زیرو پرفارمنس ہے ان کے اگلے دو سال اس سے بھی برے ہونگے مجھے تو لگتا ہے کہ فصلی بٹیروں پر قایم یہ حکومت جلد فارغ ہوجاے گی

    بلیور بھائی کالم کا لنک اسی لئے لگایا ہے کہ نا صرف کالم کا سورس واضح ہو بلکے مصنف کی مکمل معلومات بھی حاصل کی جا سکے – مصنف کا نام کالم کے شروع میں لکھنے کا آئیڈیا اچھا ہے آیندہ نام ابتدا میں لکھنے کی کوشش کرونگا – اپوزیشن نے جلسے جلوس اور ریلیاں اسلئے کی ہیں کہ ایک مومینٹم بنایا جا سکے اور اس مومینٹم کے عروج یا پیک پر جا کہ استعفیٰ یا اسلام آباد میں دھرنا دیا جا سکے – اس میں سب سے بڑا مسلہ یہ پیش ہوا کہ پیپلز پارٹی اپنی سندھ حکومت سے استعفیٰ نہیں دینا چاہتی کیونکے ان کا خیال ہے کہ انہیں سندھ سے زیادہ کچھ مل نہیں سکتا اور سندھ پہلے ہی ان کے پاس ہے – زرداری صاحب نے بے نظیر صاحبہ کی برسی پر اپوزیشن اور خاص کر نون لیگ کو قائل کر لیا ہے کہ ضمنی اور سنیٹ کے الیکشن میں حصہ لینا چاہئے اور سارے آپشن ایک ہی بار استعمال کرنے درست نہیں کیونکے اگر حکومت وہ وقت کسی طرح گزار گئی تو اپوزیشن کے پاس آگے کے لئے کچھ ایسا کرنے کو نہیں بچے گا جس سے حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکے – اس بات پر میاں صاحب بھی متفق ہیں اور بظاھر ایسا لگتا ہے نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں ہی ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینگی – مولانا صاحب کو بھی مجبورا ان الیکشن میں حصہ لینا ہو گا جن میں ان کے لئے کچھ خاص نہیں ہے – تمام پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ دھرنا یا لونگ مارچ بہترین آپشن ہے اور یہ سب سے موثر ہو گا – مولانا صاحب نے دھرنے کی جگہ اسلام آباد کی بجائے پنڈی میں تجویز کر کے اسٹیبلشمنٹ کو پہلے ہی دباؤ میں لا دیا ہے – اگر دھرنا یا لونگ مارچ ہوا تو اس میں مولانا صاحب کی پارٹی کا رول پچھلے دھرنے کے طاہر القادری صاحب کی پارٹی جیسا ہو گا جو دھرنے میں چوبیس گھنٹے بیٹھے گی جبکے اپوزیشن کی باقی پارٹیاں روزانہ کی بنیاد پر اپنے تازہ دم کار کن وقتا فوقتا لاتی رہیں گیں – حکومتی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو لانا کچھ زیادہ مشکل نہیں البتہ وہاں مستقل بیٹھنا بہت زیادہ مشکل اور تکلیف دے ہے جو مولانا کی پارٹی کے علاوہ کسی کے بس کا روگ بھی نہیں ہے – اس دھرنے کی جگہ اور وقت کا طے کرنا بہت مشکل کام ہے البتہ لوگوں کو دھرنے کے مقام پر وقتا فوقتا لانا نسبتا آسان ہے جس کے لئے ساری پارٹیاں تیار ہیں اور مکمل تیاری تاریخ اور مقام کے طے ہونے کے بھد کر سکتی ہیں – میاں صاحب کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نام لے کر پکارنے کے بھد اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے حکومت گرانے کا دباؤ ڈالنے کی بات تقریبا نا ممکن لگتی ہے البتہ اس کا اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے جس کا کالم نگار نے ذکر کیا ہے کہ اب انہوں نے سیاست میں مداخلت سے کان پکڑ کر توبہ کی ہے – اگلا ایک مہینہ سیاسی فضا خاموش رہنے کی امید ہے لیکن فروری شروع ہوتے ہی درجہ حرارت پھر بڑھے گا جو ضمنی انتخاب سے لے کر سینیٹ کے الیکشن اور پھر گرمیوں تک جاری رہے گا – بظاھر لگتا ایسا ہے کہ اپوزیشن نے اب اگلے ڈھائی سال سڑکوں پر ہی رہنا ہے ، لوگ گرفتار ہوتے اور رہا ہوتے رہیں گے اور میاں صاحب بھی کبھی اپنا رویہ کچھ نرم اور کبھی اور سخت کر دینگے اور کبھی شاید نسبتا طویل مدت جیسے کہ کچھ مہینوں کے لئے ممکن ہے خاموش بھی ہو جائیں –

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #10
    جے بھائی آپ نے جو باتیں لکھی ہیں وہ حقیقت ہیں اور ان پر مجھ سمیت کسی کو بھی اعتراض نہیں ہو سکتا اور نہ ہونا چاہئے

    اعوان صاحب۔۔۔۔۔

    واقعی آپ کو جے ایم پی صاحب کی تحریر میں لکھی گئی باتوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔۔۔

    جے ایم پی صاحب نے تو یہ بھی لکھا ہے۔۔۔۔۔

    اس ملک کی سیاست کو اگر غیر سیاسی عناصر نے خراب کیا ہے تو سیاسی عناصر نے اس سے زیادہ خراب کیا ہے اور اس میں میری نظر میں سب سے بڑا ہاتھ عہد حاضر کے سب سے بہترین اور کامیاب سیاستدان محترم نواز شریف صاحب کا ہے

    :thinking: ;-) :thinking: ™©

    • This reply was modified 2 years, 4 months ago by BlackSheep.
Viewing 10 posts - 1 through 10 (of 10 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi