Home Forums Siasi Discussion محمد زبیر نواز شریف، مریم نواز کے حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ سے دو بار ملے: آئی ایس پی آر

Viewing 7 posts - 1 through 7 (of 7 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر نے برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپنی جماعت کے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے حوالے سے دو ملاقاتیں کی تھیں۔
    نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز سے بات کرتے ہوئے فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ محمد زبیر اگست کے آخری ہفتے اور پھر رواں ماہ کی سات تاریخ کو جنرل باجوہ سے ملے تھے۔
    ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ملاقاتیں محمد زبیر کی درخواست پر ہی ہوئی تھیں اور ان میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض بھی موجود تھے۔
    میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ’دونوں ملاقاتوں میں انھوں نے میاں نواز شریف صاحب اور مریم نواز صاحبہ کے حوالے سے ہی بات چیت کی۔’ ترجمان کا مزید کہنا تھا: ‘ان ملاقاتوں میں جو بھی بات چیت ہوئی، آرمی چیف نے ان پر واضح کر دیا کہ جو بھی ان کے قانونی مسائل ہیں وہ پاکستان کی عدالتوں میں حل ہوں گے اور جو سیاسی مسائل ہیں ان کا حل پارلیمنٹ میں ہوگا، ان معاملات سے فوج کو دور رکھا جائے۔
    تاہم محمد زبیر نے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ ان کی فوج کے سربراہ سے ملاقاتوں کا مقصد نواز شریف یا مریم نواز کے لیے کسی ریلیف کے بارے میں بات کرنا تھا یا وہ جنرل باجوہ سے ان کے نمائندے کے طور پر ملے تھے۔
    خیال رہے کہ نواز شریف کے نمائندے کی فوج کے سربراہ سے ملاقات کی خبریں منگل کی شام سے گردش میں تھیں تاہم مریم نواز نے بدھ کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے والد کے کسی نمائندے نے جنرل باجوہ سے ملاقات نہیں کی۔
    ادھر فوج کے ترجمان کے بیان کے بعد آج ٹی وی پر صحافی عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ان کے جنرل قمر جاوید باجوہ سے 40 برس پرانے تعلقات ہیں۔
    محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ان کی آرمی چیف سے پہلی ملاقات چار گھنٹے طویل تھی تاہم انھوں نے میجر جنرل بابر افتخار کے اس مؤقف کی تردید کی کہ اس ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔
    انھوں نے کہا کہ انھوں نے ایک مرتبہ بھی عسکری قیادت سے اپنی قیادت کے لیے ریلیف نہیں مانگا نہ انھوں نے ان کو یہ کہا کہ انھیں نواز شریف، مریم نواز یا شہباز شریف نے بھیجا ہے۔
    محمد زبیر نے کہا کہ ان کی آرمی چیف سے ملاقات کا پہلا جملہ یہ تھا کہ ‘نہ میں اپنے لیے ریلیف لینے آیا ہوں، نہ پارٹی کے لیے ریلیف لینے آیا ہوں، نہ میاں نواز شریف کے لیے نہ مریم نواز کے لیے۔
    محمد زبیر نے مزید کہا کہ ان کی آرمی چیف سے ملاقات کے دوران ڈیڑھ گھنٹہ معیشت پر بات ہوئی۔
    انھوں نے کہا کہ ڈان لیکس، پانامہ پیپرز، نااہلیوں اور مریم نواز کے خلاف کیسز بننے کے دوران انھوں نے ایک مرتبہ بھی جنرل باجوہ سے ملاقات کی درخواست کی نہ انھیں نواز شریف یا مریم نواز کی جانب سے انھیں کہا گیا کہ وہ ان سے جا کر ملیں۔
    ڈی جی آئی ایس پی آر کے آج کے بیان کے حوالے سے محمد زبیر نے کہا کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کیوں یہ بات کہی ہے۔
    یہ طے نہیں ہوا تھا کہ یہ خفیہ ہے لیکن یہ تشہیر کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ میری طرف سے اب تک کسی کو خبر نہیں ہوئی کہ میں نے کب کس سے اور کیوں ملاقات کی ہے، اس لیے مجھے معلوم نہیں کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ کو یہ بتانے کی ضرورت کیوں پڑی۔
    فوج کے ترجمان کا بیان سامنے آتے ہی پاکستانی سوشل میڈیا پر اس بارے میں بحث ہونے لگی۔
    صحافی سرل المیڈا نے لکھا کہ اب فوج کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ سیاست دانوں سے ہونے والی تمام ملاقاتوں کو ریکارڈ پر لائے گی۔
    صحافی مظہر عباس نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ اچھا ہوا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس لیگی رہنما کا نام لیا جنھوں نے آرمی چیف سے ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ ملاقات کی اور نواز اور مریم کے مقدمات پر بات کی۔ انھوں نے کہا کہ زبیر کا مؤقف بہت کمزور ہے اور مسلم لیگ (ن) کو وضاحت کرنی پڑے گی یا این آر او کی درخواست کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
    صحافی بلال لاکھانی نے لکھا کہ محمد زبیر کی آرمی چیف کے ساتھ محمد زبیر کی درخواست پر دو ملاقاتیں ہوئیں، اور پھر مریم کہتی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا کوئی رہنما فوج سے نہیں ملا۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کھیل صرف وہی نہیں کھیل رہی۔
    صارف شہزاد خان نے لکھا کہ یہ محمد زبیر کی جانب سے غیر اطمینان بخش توجیہ ہے، واضح طور پر وہ مسلم لیگ (ن) کے لیے کسی قسم کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

    https://www.dawnnews.tv/news/1142682/

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #3

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #4

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #5

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #6

    Shirazi
    Participant
    Offline
    • Professional
    #7
    Why PMLN is defensive and Army is playing on front foot. Somebody needs to tell these morons what constitutional right COAS and DG ISI has to hold such meetings with Parliamentarians? Be it NRO or Gilgit-Baltistan or whatever military has no business talking to politicians behind closed doors.
Viewing 7 posts - 1 through 7 (of 7 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi