Home › Forums › Siasi Discussion › مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 53ویں برسی
- This topic has 12 replies, 5 voices, and was last updated 2 years, 10 months ago by
Bawa. This post has been viewed 337 times
-
AuthorPosts
-
9 Jul, 2020 at 3:00 pm #1
مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کی 53ویں برسی آج انتہائی عقیدت اور احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی چھوٹی بہن فاطمہ جناح نے نہ صرف اپنے بھائی کا بھرپور ساتھ دیا بلکہ وہ تحریک پاکستان میں بھی شانہ بشانہ کھڑی رہیں اور خواتین کو بھی بیدار کیا۔
آج محترمہ فاطمہ جناح کی 53ویں برسی کے موقع پر مختلف پارٹیوں اور خواتین ونگز کی جانب سے کانفرنسز اور سیمینار منعقد کیے گئے ہیں جس میں فاطمہ جناح کی تحریک پاکستان میں خدمات پر روشنی ڈالی جائے گی۔
محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1983 کو پیدا ہوئی اور سن 1910 میں انہوں نے میٹرک اور 1913 میں سینئر کیمرج کا امتحان پرائیویٹ طالبہ کی حیثیت سے پاس کیا اور 1919 آپ نے ڈینٹل یونیورسٹی آف کولکتہ سے ڈینٹیسٹ کی تعلیم مکمل کر لی۔
تاہم 1929 میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زوجہ کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنی زندگی بھائی کی خدمت کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس کے بعد سے محترمہ فاطمہ جناح کی زندگی کا مقصد بھائی کی خدمت اور ہر میدان میں ان کا ساتھ دینا بن گیا تھا۔
انہوں نے نہ صرف نجی زندگی میں بلکہ سیاسی زندگی میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دیتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی اور تحریک پاکستان میں اپنے بھائی محمد علی جناح کے شانہ بشانہ رہیں۔
سن 1940 میں جب قائد اعظم تقسیمِ ہند کی تاریخ ساز قرارداد میں شرکت کے لئے لاہور تشریف لائے تو محترمہ فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
محترمہ نے تحریکِ پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کا جس طرح ساتھ دیا وہ اسی کا اعجاز تھا کہ برصغیر کے گلی کوچوں اور بازاروں میں مردوں کے دوش بدوش خواتین سرگرمی سے حصہ لینے لگی تھیں۔
سات اگست 1947 کو محترمہ فاطمہ جناح 56 سال کے بعد دہلی کو الوداع کہہ کر کراچی منتقل ہو گئیں، انہوں نے بھارت سے آئی خواتین مہاجرین کی آباد کاری کے لیے پاکستان وومن ایسوسی ایشن قائم کی۔
ہماری تاریخ کی ایک ناقابل تسخیر شخصیت فاطمہ جناح کو ‘مادر ملت’ یعنی (قوم کی ماں) اور ‘خاتون پاکستان’ کے خطاب بھی ملا۔
محترمہ فاطمہ جناح خواتین کے لیے کئی سماجی اور تعلیمی کاموں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں بلکہ وہ کئی اداروں کی بانی بھی تھیں، انہوں نے خود بھی کئی ادارے قائم کیے تھے، قائد اعظم کی وفات کے بعد انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔
تاہم 1965 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی مخالف امیدوار کے طور پر بھر پور حصہ لیا۔ انتخابی مہم کے دوران محترمہ فاطمہ جناح کو عوام کی بے پناہ پذیرائی ملی، ان کے جلسوں اور ریلیوں میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتےتھے، تاہم وہ انتخابات میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
محترمہ فاطمہ جناح کئی نوجوان خواتین کے لیے ایک رول ماڈل ہے اور ان کی زندگی پر مزید تحقیق کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
آپ 9 جولائی 1967 کو 73 سال کی عمر میں کراچی میں دنیا فانی سے کوچ کرگئیں۔-
This topic was modified 2 years, 10 months ago by
حسن داور.
- local_florist 1
- local_florist Bawa thanked this post
9 Jul, 2020 at 6:01 pm #2مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ کے خلاف فوجی ملاح گٹھ جوڑ نے فتوا دیا کہ عورت اسلام کے مطابق الیکشن نہیں لڑ سکتی, اور پھر الیکشن میں ووٹ چوری کر کے شکست دی پھر بھی مرد بنے پھرنے والوں نے امریکہ + ہندستان کا ایجنڈ کہلوایا پھر آخر میں قتل کروادیا گیا,غسل دینے والی خواتین کا کہنا تھا پیٹ میں سراخ تھے جس میں سے خون نکل ریا تھا,حکومتی لوگ دل کے دورے سے وفات کا جھوٹا بیان دیتے رہے,ورثا نے جنرل ایوب کو درخواست دی کے قتل ہوا ہے چھان بین کی جاے تو جنرل قاتل ایوب نے کہا الزام بےبنیاد ہیں کو چھان بین نہیں ہوگی. آج 9 جولائی مادر ملت کی وفات کا دن ہے تاریخ فاطمہ جناح صاحبہ کو یاد رکھے ہوۓ ہے.
یہ پہلی خاتون تھی جس سے ملاح + وطن کے بہادر جنرلز ڈرے ہوۓ تھے9 Jul, 2020 at 7:12 pm #4مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ کے خلاف فوجی ملاح گٹھ جوڑ نے فتوا دیا کہ عورت اسلام کے مطابق الیکشن نہیں لڑ سکتی, اور پھر الیکشن میں ووٹ چوری کر کے شکست دی پھر بھی مرد بنے پھرنے والوں نے امریکہ + ہندستان کا ایجنڈ کہلوایا پھر آخر میں قتل کروادیا گیا,غسل دینے والی خواتین کا کہنا تھا پیٹ میں سراخ تھے جس میں سے خون نکل ریا تھا,حکومتی لوگ دل کے دورے سے وفات کا جھوٹا بیان دیتے رہے,ورثا نے جنرل ایوب کو درخواست دی کے قتل ہوا ہے چھان بین کی جاے تو جنرل قاتل ایوب نے کہا الزام بےبنیاد ہیں کو چھان بین نہیں ہوگی. آج 9 جولائی مادر ملت کی وفات کا دن ہے تاریخ فاطمہ جناح صاحبہ کو یاد رکھے ہوۓ ہے. یہ پہلی خاتون تھی جس سے ملاح + وطن کے بہادر جنرلز ڈرے ہوۓ تھےغیر محفوظ صاحب،
اس دعوی کے حق میں حوالے دے سکتے ہیں کہ وہ کون سے علما تھے جنہوں نے محترمہ کے خلاف فتوی دیا تھا؟ میری معلومات کی حد تک مولانہ موددی سمیت علما کی قابل ذکر تعداد محترمہ کے ساتھ تھی9 Jul, 2020 at 7:43 pm #5غیر محفوظ صاحب، اس دعوی کے حق میں حوالے دے سکتے ہیں کہ وہ کون سے علما تھے جنہوں نے محترمہ کے خلاف فتوی دیا تھا؟ میری معلومات کی حد تک مولانہ موددی سمیت علما کی قابل ذکر تعداد محترمہ کے ساتھ تھیمقبول جماعت ‘کنونشن مسلم لیگ’ جب ایک آمر کے لئے سیاسی جگہ بنانے میں ناکام رہی اور فاطمہ جناح کو مودودی کی جماعت اسلامی جیسی بڑی مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ توفاطمہ جناح کے خلاف پہلی بار سیاسی طور پر لوگوں ووٹ دینے سے اور فوجی کو ووٹ ڈالنے کے لئے فتوے جاری کیے گئے تھے جس کے مطابق عورت ، عورت ہونے کے ناطے ریاست کے امور نہیں چلا سکتی ..
یہ سیاسی فتوے تھے … اس لئے مجھے علما کا نہیں پتا پر یہ فتوے دیے گے تھے .. ایسی کچھ فتوے احمدیہ جماعت کے خلاف بھی دیے گے تھا .. بھتو نے ملاؤں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے ان کو کافر قرار دیا تھا … اس طرح کے فتوے بازی پھر بے نظیر کے خلاف بھی ہوئی اور یہ آج تک چل رہی ہے … جہاں فضل ور رحمان نے پی ٹی ای کو زیانسٹ پڑتی کہ کر لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے منہ کیاایسے سیاسی فتووں کا آغار ایوب نے کرایا تھا .. جس سے لوگ سیاست میں مذھب استعمال کر کے لوگوں کو جذباتی کر کے ان ووٹ حاصل کرتے ہیں ….
جڑ ا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
- thumb_up 1
- thumb_up حسن داور liked this post
10 Jul, 2020 at 2:51 am #6یہ ووٹ آپ کے ہاتھ میں امانت ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ کو اس ووٹ کو ایک امانت سمجھ کر ملک کے فائدے اور قوم کے فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے نہ کے کسی اور چیز کے لیے۔
جمعرات کو سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے ایک ’بلیک اینڈ وائٹ‘ کلپ میں سفید بالوں والی ایک سلجھی ہوئی خاتون کو یہ الفاظ اپنی تقریر کے دوران ادا کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
یہ ویڈیو پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی بہن اور سنہ 1965 کے صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب خان کا مقابلے کرنے والی فاطمہ جناح کی ہے، جنھیں پاکستانی سوشل میڈیا صارفین ان کے یومِ وفات کے موقع پر یاد کر رہے ہیں اور خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
صبح سے ہی #FatimaJinnah پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے اور اگر اس ہیش ٹیگ کے تحت کی گئی ٹویٹس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر صارفین ’مادرِ ملت‘ کو سابق فوجی آمر اور صدر جنرل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے اور ان کے خلاف ڈٹ جانے پر یاد کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی محمد علی جناح کی ہمشیرہ کا قیامِ پاکستان میں کردار ادا کرنے اور اپنے بھائی کی جدوجہد میں ان کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر صارفین نے ’مادرِ ملت‘ کے قیامِ پاکستان میں کردار کی تعریف بھی کی۔
ایک صارف سید علی ظفر نے لکھا کہ ’قیامِ پاکستان میں فاطمہ جناح کا کردار وہ تھا جو کسی ماں کا ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی اپنے بھائی محمد علی جناح کے لیے وقف کر دی تاکہ وہ مسلمانوں کو ہندو نظریے سے آزاد کروانے کے اپنے مشن پر توجہ دی سکیں۔
پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیرین مزاری نے فاطمہ جناح کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک لیڈر اور نڈر خاتون، وہ آخر تک اپنے اصولوں پر ویسے ہی قائم رہیں جس مضبوطی انھوں نے اپنے بھائی قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کے خواب کو حقیقت بنانے میں مدد کی تھی۔
مسلم لیگ ن کی رکن صوبائی اسمبلی مائزہ حمید نے بھی فاطمہ جناح سے منسوب ایک قول ٹویٹ کیا۔
اب ذکر کرتے ہیں اس کلپ کا جو سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ یہ کلپ صحافی اجمل جامی نے شیئر کیا اور ساتھی ہی تبصرہ کیا ’ان کا اندازِ بیان جناح سے کتنا ملتا ہے؟
تاہم ان پیغامات کے برعکس کئی لوگ ایسے بھی تھے جو ماضی کی غلطیوں سے پردہ اٹھا کر ان خطاؤں کی اصلاح کرنے کی کوششوں میں دیکھے گئے۔ ایک صارف نے طنزیہ انداز میں دریافت کیا ’کیا انھیں غدار نہیں قرار دیا جا چکا؟ یا ہم اپنی تاریخ کے اس باب کی تصحیح کر چکے ہیں؟
ایک اور صارف نے قوم کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’اب بھی وقت ہے کہ مادر ملت سے اجتماعی معافی مانگی جائے اور قائد اعظم کا پاکستان بنایا جائے جہاں آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہو۔
جبکہ سعد مقصود نے لکھا ’وہ عظیم خاتون جنھوں نے بھائی کا ساتھ دے کر اس ملک کی بنیاد رکھی۔ مگر افسوس اسی ملک میں فاطمہ جناح کو ایوب خان جیسے آمر کے مقابلے میں عوام نے ووٹ نہ دیا (اور) مادر ملت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔۔۔
ان صارفین کا اشارہ غالباً اسی الیکشن کی جانب ہے جس میں فاطمہ جناح اور ایوب خان مدمقابل تھے۔
صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے بی بی سی کے لیے اپنی تحریر پاکستان میں انتخابات کی کہانیاں میں اس الیکشن کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے
١٩٦٢ کے آئین کے تحت ایک سو چھپن ارکان پر مشتمل جو قومی اسمبلی تین برس کے لیے وجود میں آئی، اس کا چناؤ عوام نے نہیں بلکہ صدر ایوب کے بنیادی جمہوریتی نظام کے تحت عوامی ووٹ سے بننے والے اسی ہزار بیسک ڈیموکریٹس نے کیا۔ بعد ازاں آئین میں ترمیم کرکے اسمبلی کے ارکان کی تعداد دو سو اٹھارہ اور الیکٹورل کالج ( بیسک ڈیموکریٹس) کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک کر دی گئی۔
انھی بیسک ڈیمو کریٹس نے جنوری 1965 کے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو ایک اور مدت کے لیے صدر منتخب کیا۔ ایوب خان اس دوڑ میں مسلم لیگ کنونشن کے حمایت یافتہ تھے۔ جبکہ فاطمہ جناح کی حمایت کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز نامی پانچ جماعتی اتحاد کر رہا تھا۔الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کے لیے ایک ماہ کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی۔
لیکن جب اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ عام لوگ فاطمہ جناح کو سننے کے لیے جوق در جوق آ رہے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن نے ہر فریق کے لیے زیادہ سے زیادہ نو پروجیکشن میٹنگز منعقد کرنے کی حد لگا دی جن میں صرف الیکٹورل کالج کے بیسک ڈیموکریٹس یا صحافی شریک ہو سکتے تھے۔ عوام کو ان اجلاسوں میں آنے کی ممانعت تھی۔
عجیب بات ہے کہ ایوب خان جنہیں عام طور پر ایک لبرل اور سیکولر شخصیت سمجھا جاتا تھا انھوں نے کئی علما سے عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ لیا۔ جبکہ جماعتِ اسلامی نے کھل کر محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ ایوب خان کو یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ وہ باسٹھ کے آئین کے تحت اس وقت تک صدر رہ سکتے تھے جب تک ان کا جانشین منتخب نہ ہو جائے۔
چنانچہ ایوب خان بحثیت صدر پوری سرکاری مشینری اور ہر طرح کا دباؤ برتنے کے بعد حسبِ توقع بھاری اکثریت سے فاطمہ جناح کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی حلقوں میں جو مایوسی پھیلی اس نے تین برس بعد ایوب خان کے خلاف بھرپور ملک گیر ایجی ٹیشن کی بنیاد رکھ دی۔
یہی نہیں، وسعت اللہ خان اپنے ایک اور کالم میں اس وقت کا حوالہ دیتے ہیں جب فاطمہ جناح کی ریڈیو پاکستان پر کی جانے والی تقریر سنسر ہوئی تھی۔
جناح صاحب کی وفات کے ایک برس بعد فاطمہ جناح ریڈیو پاکستان کے لیے اس شرط پر تقریر ریکارڈ کرواتی ہیں کہ یہ تقریر سنسر نہیں ہوگی۔ لیکن جب تقریر نشر ہوتی ہے تو وہ حصہ غائب ہوتا ہے جس میں انھوں نے لیاقت علی خان کی حکومت پر تنقید کی تھی۔ یہ سنسر کسی اور نے نہیں ریڈیو پاکستان کے منتظمِ اعلی زیڈ اے بخاری کے صوابدیدی حکم پر ہوتا ہے اور فاطمہ جناح کو ذاتی طور پر احتجاج کرنا پڑتا ہے۔10 Jul, 2020 at 2:53 am #89 July 1967 Fatima Jinnah passed away. An icon, a leader, a fearless woman – stood firm on her principles till the end, just as she had stood like a rock by her brother's side, our Quaid-i-Azam, Mohammad Ali Jinnah, as Pakistan became a reality. pic.twitter.com/Mf1BKe7mod
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) July 9, 2020
10 Jul, 2020 at 2:54 am #10Mader e Millat Mohtarma Fatima Jinnah was a staunch believer of parliamentary system. Here are few words by the most trusted advisor of Jinnah SB.
Doesn't she speak like Jinnah SB? pic.twitter.com/DoumlLc5Om— Ajmal Jami (@ajmaljami) July 9, 2020
10 Jul, 2020 at 3:17 am #12محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں فتح تو درکنار سرے سے قتل ہی کردیا گیاسنا ہے قا ئداعظم کو بھی زھر سے قتل کیا گیا ۔۔۔۔
لیا قت علی خان کو بھی قتل کردیا گیا ۔۔۔۔
دوسری طرف ۔۔۔ قائد اعظم کی بیٹی اولادیں ۔۔۔ بھی ۔۔۔ بمبئی بھار ت میں مقیم ہیں ۔۔۔ پا کستان کی طرف چکر لگا نا بھی گناہ سمجھتے ہیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کبھی ۔۔۔ محب وطن پا کستانی سپوت ان کڑیوں کو ملا نے کی کوشش کریں گے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
10 Jul, 2020 at 1:30 pm #13ہم بلڈی سویلینز کی ماؤں اور بہنوں کی سرعام تذلیل کا سلسلہ ہمارے جرنیلوں نے جو فاطمہ جناح سے شروع کیا تھا ،وہ آج تک جاری و ساری ہے.آج پھر ایک سویلین ماں جو ابھی کچھ دس دن پہلے اپنے باپ کی تدفین سے فارغ ہوئی تھی ،ان جرنیلوں کے سامنے کھڑی ہوگئی.اور ثبوت دیے اpic.twitter.com/wDxX8DITMk
— Dr Farya (@Hestia2007) July 9, 2020
-
This topic was modified 2 years, 10 months ago by
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.