Home › Forums › Siasi Discussion › فوج ، اسکا جمہوری کردار اور ہم
- This topic has 5 replies, 3 voices, and was last updated 2 years, 5 months ago by
JMP. This post has been viewed 456 times
-
AuthorPosts
-
26 Dec, 2020 at 8:31 pm #1
محترم زیدی صاحب اور محترم اعوان صاحب
آپ معزز اور محترم ہستیوں سے بصد احترم ہو کر گفتگو کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں
آپ دونوں حضرات فوج کے کسی بھی مبینہ غیر آئینی کردار اور مبینہ سازباز اور سیاست میں عمل دخل کو پسند نہیں کرتے اور مجھے یہ گماں ہے کے شاید اس محفل میں ایسا کوئی بھی پسند نہیں کرتا
محترم زیدی صاحب آپ کا کہنا ہے
ہماری 70 سالہ تاریخ بہت زیادہ باعث افتخار نہیں ، اور جہاں دشمن نے کمند لگانے میں کوئ کسر نہ چھوڑی وہیں ہماری مسلح افواج کے بڑوں نے بھی دل کھول کر دل پشوری کی ہے ۔ یہ بات آپ کے نزدیک اچھنبے کی نہیں کہ جہاں ہماری مسلح افواج کے حلف میں غیر قانونی حکم کو تسلیم کرنے سے انکار فرض قرار دیا گیا ہے ، وہیں ملک کا اعلی دستور بار بار پیروں میں روند کر جنگل کے طاقت کے قانون ، جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس ، کا عملی مظاہرہ کیا گیا ہے اور ملک کا ایک سپاہی بھی اپنی پیٹی اتار کر اس کے خلاف احتجاج نہ کر سکا ہے ۔ کیا ہم اسے نظم و ضبط کی ایک اعلی مثال قرار دیں یا اپنے حلف کی بدترین خلاف ورزی ؟
یہ سوال پوچھنے والے غداری کے سرٹیفکٹ کیوں حاصل کرتے ہیں ؟محترم اعوان صاحب آپ کی تحریر سے ایک اقتباس ہے:
– کچھ لوگ اس نفرت میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ پوری فوج سے ہی نفرت کرنے لگتے ہیں ، میں بحرحال ان میں سے نہیں ہوں – ہمارا جغرافیہ ایسا ہے کہ ہمیں ایک مظبوط فوج کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے اور رہے گی – مظبوط فوج کی ضرورت نے ہی ہمیں یہاں تک پوھنچاتا ہے – جب پاکستان بنا تو شرطیں لگیں کہ یہ ملک چھ مہینے سے زیادہ نہیں چل سکتا – ایک طرف انڈیا اور دوسری طرف شورش زدہ افغانستان کے ہوتے ہوئے ہم نے اپنی قومی آمدنی یا قرض امداد وغیرہ کا ستر فیصد فوج پر لگانا شروع کر دیا – ایوب خان کے دور میں امریکہ سے زیادہ امداد بھی ہم نے جنگی ہتھیاروں کی شکل میں لی – ایک غریب اور چھوٹے ملک کی فوج اتنی طاقت ور ہو جائے تو وہ طاقت سے پھٹنا شروع ہو جاتی ہے اور اسے لگتا ہے اس کا صرف بارڈر کنٹرول کا دائرہ بہت محدود ہے اور وہ طاقت کے دوسرے مراکز میں بھی دخل اندازی شروع کر دیتی ہے – یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے – اس میں پوری فوج کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے – بحرحال موجودہ بندوبست میں فوج کے سیاسی کردار کی وجہ سے ان کی جتنی بے عزتی ہوئی ہے کم از کم اگلے دو الیکشن تک وہ سیاسی عمل میں مداخلت سے باز رہے گی
قبل اس کہ کے میں آپ سے آپکی راۓ دریافت کروں میں اپنی ادنیٰ راۓ دونگا
میں پاکستانی فوج کا ذکر نہیں کر رہا . میں عمومی طور پر فوج کی ضرورت اور کردار کو سمجھ نہیں پایا ہوں. پولیس کا سمجھ میں آتا ہے کے ملک میں عام انسانوں کے جرائم کا سدباب ضروری ہے لہٰذا پولیس اور عدلیہ ہر معاشرے کی ضرورت ہے. میرے خیال میں انسان کچھ محرکات کی بنیاد پر جرم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جرم کرتا ہے اور ان میں میں بھی شامل ہو سکتا ہوں لہذا پولیس اور عدلیہ کی ضرورت مجھ کند ذہن کو سمجھ آتی ہے
البتہ فوج کی ضرورت کی سمجھ مجھے مشکل لگتی ہے. فوج کا مقصد یا تو کشور کشائی ہے یا کشور کشائی کرنے والوں سے مقابلہ کرنا. میرے خیال میں کسی بھی ملک کی بیشتر آبادی کو اس سے سروکار نہیں ہوتا کے ان کا ملک دوسرے ملک پر حملہ کرے کیونکہ جنگ ایک تکلیف دہ عمل ہے اور اس کے مضمرات بہت سنگین ہو سکتے ہیں. اب اگر میرا مشائدہ ذرا بھی درست ہے تو وہ کون ہیں جو کشور کشائی کے شوقین ہو سکتے ہیں. میرے خیال میں راجہ مہاراجہ، بادشاہ اور حکمران کو ایسا شوق ہو سکتا ہے . اب ان کے شوق کے لئے اگر فوج رکھنا لازم ہے تو ان کو کچھ نقصانات بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ طاقت ایک بہت بڑا نشہ ہے اور یہ وہ کچھ کروا سکتا ہے جو شاید عام آدمی عام حالات میں نہ کر سکے . تاریخ پر نظر ڈالیں تو فوج کا کردار اپنی سرحدوں کو یا اپنی طاقت کو دوسروں پر مسلط کرنے کا ہی رہا ہے کبھی نظریہ کی صورت ، کبھی مذہب کے بڑھاوے کے لئے ، کبھی زیادہ سے زیادہ اراضی زمین کو اپنی سرحدوں کے اندر لانے کے لئے .
تو جناب میں تو فوج کے کردار کی ضرورت کو اپنانے کی جدوجہد کر رہا ہوں لہٰذا مجھے فوج کا ہونا کوئی خاص پسند نہیں اور یہ کسی بھی فوج کی بات ہو رہی ہے ارض پاک کی فوج کی نہیں
آپ دونوں معزز محترم ہستیوں نے اپنی تحریر میں دشمنوں، بھارت اور افغانستان کا ذکر کیا ہے
یہ دشمن کون ہیں اور کس نے کہا کے وہ ہمارے دشمن ہیں . میں اس بات سے انکاری نہیں کے کوئی دوسرا ملک اور بطور خاص بھارت ہمارا دشمن ہو سکتا ہے مگر میں اس بات کا تعیین کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کے یہ کیسے طے ہوا کے کوئی ہمارا دشمن ہے. کیا پاکستان بھارت اور افغانستان کا دشمن ہو سکتا ہے. کیا ان دونوں ممالک کو پاکستان سے خطرہ ہو سکتا ہے
اگر ہم اپنی معشیت پر توجہ دیتے تو کیا ہم اپنے دشمنوں سے بہتر ہو سکتے تھے
میرے خیال میں دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں بھی کچھ قوتوں نے مبینہ کردار ادا کر کے مسلم لیگ کو برتری دلائی . یہ میرا اندازہ ہے اور میرے پاس کوئی شواہد نہیں ہیں. اس پر محترم عمران خان صاحب نے احتجاج بھی کیا اور شاید انکو بھی کچھ حمایت کچھ اور قوتوں سے حاصل ہو. کیا آپ کے خیال میں دو ہزار تیرہ کے انتخابات شفاف تھے اور کیا ان میں کسی اور قوت کا کوئی مبینہ کردار تھا کے نہیں . میں ماضی میں دور نہیں جاؤں گا بلکہ دو ہزار تیرہ کی ہی بات کروں گا کیونکہ وہ ایک حالیہ انتخابات ہیں
کیا کسی بھی جمہوری سیاسی جماعت کے رہنما یا حمایت کرنے والے نی اپنی سیاسی جماعت کی غیر سیاسی قوتوں سے مبینہ ساز باز پر احتجاج کیا یا اپنے عہدے سے مستعفی ہوے یا اپنی جماعت کی حمایت ختم کی. کہنے والے کہتے ہیں کے مسلم لیگ ابھی چند مہینوں پہلا ہی محترم شہباز شریف صاحب کے حوالے سے کچھ قوتوں سے کچھ بات چیت کر رہی تھی. اگر یہ تھا تو کیا درست تھا . کیا محترم میاں صاحب کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے جو مبینہ ساز باز ہوئی وہ درست ہے
میرے نزدیک بہت کم سیاسی رہنماء اور ان سے بھی کم سیاسی حمایت کرنے والے ہیں جو جمہوری سوچ رکھتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں. اگر ایسا ہوتا تو ہمارے یہاں کوئی سیاسی نظریہ ہوتے اور عوام زیادہ طاقتور ہوتے. میرے خیال میں اس ملک پاک میں زبان کی بنیاد پر ہی حمایت کی جاتی ہے چاہے وو دیہی سندھ ہو، وسطی پنجاب ہو، کراچی ہو، بلوچستان ہو یا خیبر پختونخواہ ہو. اس ے زیادہ کوئی جمہوریت نہیں ہے. بس زبان کا حوالہ دیں اور لوگ حمایت کرنے لگ جاتے ہیں. اس لئے صرف فوج کو ہی الزام دینا کہ مبینہ طور ‘پر وہ آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے میری نظر میں غلط ہے
اور ہاں ملک کی بیشتر آبادی ماضی میں اور آج بھی فوج کے لئے عزت اور تکریم رکھتی ہے اور میری نظر میں اس کے پیچھے دو تین وجوہات ہیں. ایک عمومی تاثر کے فوج بدعنوان نہیں ہے اور اس میں نظم و ضبط ہے، دوئم ہر سیاسی جماعت ہر وقت فوج کی تعریفیں کرتی ہے جیس کے کچھ ہفتوں پہلے محترم میاں صاحب نے اپنی پچھلی حکومتوں کے حوالے سے فوج کی خدمت کے بارے میں بہت فخر سے کہا تھا اور تیسری وجہ میں بیان نہیں کر سکتا کے اس سے آپ سب کی دل آزاری ہو جاۓ گی
ویسے کیا محترم میاں صاحب ، مھترام خان صاحب، مرحومہ بینظیر یا زرداری نے کبھی فخریہ انداز میں کہا ہے کے انہوں نے پولیس، ڈاکٹروں ، اساتذہ، عدلیہ وغیرہ کی بہت خدمت کی ہے
- local_florist 2
- local_florist GeoG, Believer12 thanked this post
26 Dec, 2020 at 9:28 pm #3محترم جے بھیااس دھاگے پر محترم باوا بھائی کو ٹیگ نہ کرنا فوج سے زیادتی ہو گی
- thumb_up 1 mood 1
- thumb_up JMP liked this post
- mood Believer12 react this post
27 Dec, 2020 at 10:00 am #5جے پی ایم صاحب ، بہت نوازش کہ آپ نے مجھے اپنے خیالات کے اظہار کرنے کی دعوت دی ہے اور مجھے کافی خوشی ہے کہ آپ نے تھریڈ کے آغاز ہی میں اپنی رائے کا بڑی محفوظ حد تک اظہار فرما دیا ہے ۔
آپ کی بات کو مذید آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ کہنا پسند کروں گا کہ کسی بھی ملک میں فوج کی موجودگی کی وجوھات کا تعین کرنے کے لیے جو ضروری عوامل پیش نظر ہوتے ہیں ، ان عوامل کی کسی بھی ملک میں موجودگی خود اس بات کا مظہر ہوتی ہے کہ ان عوامل کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک مسلح اور نظم و ضبط قوت کی کس حد تک ضرورت ہے ۔ فوج کا ادارہ اگر نظم و ضبط کی پابندیوں سے عاری ہو تو اس کا وجود ، اسے تشکیل دینے والی قوت اور اس قوت کے اختیار سے اخذ کی ہوئ طاقت کی عائد پابندیوں سے مکمل آزاد ہوجاتا ہے اور اپنے قانونی اختیار کے دائرے سے نکل کر ، ان ہی قوتوں کو اپنے زیر اثر لے آتا ہے ۔ ہم اس کا عملی مظاہرہ اپنے ملک میں ایک مدت سے دیکھ رہے ہیں ، جب طاقتور کو اپنی طاقت کا شعور، اسے اپنے متعین کردار کے دائرے میں رکھنے سے قاصر ہوجاتا ہے تو پھر طاقت کے اپنے ڈائنمکس ہوتے ہیں جن کا ادرک طاقت کے استعمال سے فوائد حاصل کرنے والوں کو بھی نہیں ہوتا ، ادر ورڈز ، ابسلوٹ پاور ، کرپٹ ابسلوٹلی۔
آپ کا یہ کہنا درست ہے کہ بالعموم یہ قوم آج بھی اپنی فوج سے محبت کرتی ہے اور اس بات میں بھی ذرہ بھر شک نہیں ہے کہ اسی محبت کو یہ فوجی جنرل ہر طرح سے کیش کرواتے رہے ہیں ۔
آپ اپنے انٹرو میں اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ میں فوج کے جنرلوں کی سیاسی شعبدہ گری کا مخالف ہوں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ فوج کی اس مسلسل دخل اندازی نے ہمارے سیاسی حکومتی نظام پر کئ سوالات اٹھا دیے ہیں اور تقریبا ہر ہونے والے انتخاب کو متنازعہ بنا دیا ہے ۔ 2013 کا الیکشن بھی بہت ممکن ہے کہ اسی طرح رگ کیا گیا ہو جتنا 2018 کا الیکشن ، لیکن دونوں میں جو مشترکہ انگلی ہے وہ فوج کے اعلی جنریلوں پر ہی اٹھتی ہے ۔
میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیاستدانوں میں ایک بڑی تعداد ان پر مشتمل ہے جنہوں نے جی ایچ کیو میں راہ ورسم کی وجہ سے اقتدار کے ایوانوں میں رسائ پائ ۔ لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہر سیاستدان فوج کی کیاری میں سجنا پسند کرتا ہے ؟ ایسی کونسی قوت ہے جس کی وجہ سے ہر اقتدار کا راستہ جی ایچ کیو سے نکلتا ہے ؟۔
آپ نے اعتراض کیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں جمہوری روایات اور جمہوری رویوں کی کمی ہے اور تقریبا ہر سیاستدان جی ایچ کیو کے سہارے اقتدار میں آتا ہے ۔ اگر ایک ادارہ صرف اور صرف بدعنوان شخصیات کو ہی اقتدار میں لانے میں مدد کرتا ہے تو آپ خود اس ادارے میں موجود بدعنوانی کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔
جی پی ایم صاحب، رویے دنوں کی پیداوار نہیں بلکہ برسوں میں بنتے ہیں ۔ قوموں کی زندگی میں 70 سال کچھ بھی نہیں اور خصوصا” جب ان ستر سال میں 40 سال کے لگ بھگ آمریت نے حکمرانی کی ہو ۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج کے سابقہ لیڈر آج کہاں ہیں ؟ پرویز کیانی، راحیل شریف ، جنرل پاشا، جنرل مشرف ۔ ایسا کیوں ہے کہ ملک کی افواج کے اعلی عہدے دار آج اپنے ملک میں رہنا نہیں چاہتے ؟لیکن حقیقی سوال تو یہ ہے جو میرے خیال میں آپ نے اٹھایا ہے کہ کیا ہم بحیثیت قوم معائدے ، وعدے اور دعوے کرنے والوں کے اس سے انحراف کو صرف اس لیے کیوں معاف نہ کر دیں کہ یہ ہمارا اجتماعی رویہ بن چکا ہے اور چونکہ کوئ ایک بھی ایسا مسلمہ گروہ ہماری سوسائٹی میں نہیں پایا جاتا، جو اپنے دے ہوئے الفاظ سے منحرف نہ ہوا ہو لہذا اس ذمہ داری سے ہر کسی کو آزاد ہونا چاہیے ۔
یہ ایک قیمتی سوال ہے اور ایک اچھی آبزرویشن ہے جو سچائ پر مبنی ہے لیکن کیا یہ اس قدر مستحکم ہے کہ اس آبزرویشن کے عملی پہلو کے نتیجے میں ہم کسی ایسی شاہراہ پر گامزن تو نہیں ہو جاتے جو آفاقی سچائیوں کو اپنی سطحی( انسانی محدود علم) تجربے کی بنیاد پر ٹھکرا سکتی ہے ؟
-
This reply was modified 2 years, 5 months ago by
Zaidi.
30 Dec, 2020 at 9:05 pm #6Zaidi sahibمحترم زیدی صاحب
بہت بہت شکریہ . آپ کی تحریر میں بہت سچائی ہے اور بہت کچھ سوچنے پر اکساتی ہےمیں اب بھی کھلی طرح سے وہ سب کچھ نہیں کہہ سکوں گا جو میں کہنا چاہتا ہوں مگر کسی حد تک ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ :
١) تین چار وجوہات جن میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی کا میں نے ذکر کیا ہے اور اگر آخری وجوہ بھی لکھ دوں تو میرے خیال میں ایک بہت ہی لمبے عرصہ تک فوج اس معاشرے میں ایک مقدس اور عقیدت سے لبریز مقام پر ہی رہے گی . چاہے مسلم لیگ ہو، پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف ، یہ سب کم از کم ایک لمبی مدت تک نہ اس حثیت میں ہونگے نہ چاہیں گے کہ وہاں تک پہنچیں کہ اس پاک سرزمین کی عوام کو فوج اور ان جماعت میں سے کسی کا انتخاب کرنا پڑے
٢) فوج کو طاقت عوام سے ملتی ہے ہتھیاروں سے نہیں
٣) مسلم لیگ کو دوسری جماعتوں پر ایک ہی فوقوعات حاصل ہے جس کا فائدہ یہ تیس سالوں سے اٹھاتی آ رہی ہے. بینظیر کے منظر سے ہٹنے کے بعد محترم عمران خان کا منظر پر آنا اور جگہہ بنانا اس جماعت کو نہ برداشت ہے نہ قبول. اس جماعت نے کبھی بھی کسی اور جماعت کی حکمرانی کو قبول نہیں کیا ہے
٤) مسلم لیگ کی حمایت کرنے والے ہر شخص کا نظریہ مختلف ہو سکتا ہے، جمہوریت کر بارے میں راۓ مختلف ہو سکتی ہے، سوچ مخلتف ہو سکتی ہے مگر سمجھ وہی ہے جو سب کی ہے . اس جماعت کی حمایت کرنے والوں کو جن کے خیالات اور تحریر میں ان صفحات پر پڑھتا ہوں، انکو اس بات سے کم غرض ہے کہ فوج کا کردار کیا ہے جب تک وہ کردار اس جماعت کے حق میں ہے.
٥) جتنا نقصان پاکستان کی سیاست کو سیاستدانوں اور بلخصوص اس عہد کے سب سے بہترین اور کامیاب سیاستدان محترم میاں صاحب نے پہنچایا ہے اتنا فوج نے نہیں . جنرل گریسی سے باز پرس سے بھی ایک سیاستدان نے اجتناب برتا تھا
٦) جب تک پاکستان معاشی طور پر ترقی نہیں کرتا اور اس کی عوام کو عزت سے روٹی نصیب نہیں ہوتی ، ہر وہ شخص اور ادارہ جس کو طاقت حاصل ہے غیر جمہوری طریقہ اپناۓ رکھے گا چاہے وہ جرنل ہو، منصف ہو، سیاستدان ہو، بابو ہو یا ایک کلرک ہو . یہاں ہر طاقت والا دوسرے کو دبا کر رکھنا چاہتا ہے نہ کہ اس کے فرض اور منصب کو عزت دینا چاہتا ہے. اور یہی جنگ ہائی طاقتوروں کے درمیان. عوام اور جمہوریت تو زخم پر نمک پاشی کے لئے استعمال ہوتے ہیں
٧) فوج کو دو بڑی فوقیت حاصل ہیں اور محترم میاں صاحب کو بھی ان میں سے ایک اور آدھی دوسری
- thumb_up 1
- thumb_up Zaidi liked this post
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.