Home › Forums › Siasi Video › فروغ نسیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پی ٹی آئی کا داغدار چہرہ
- This topic has 36 replies, 8 voices, and was last updated 3 years ago by
Bawa. This post has been viewed 904 times
-
AuthorPosts
-
4 Jun, 2020 at 9:39 am #1
اگر پی ٹی آئی جمہوری پارٹی ہوتی تو کیا اُس کا”وزیر قانون” ایک جنرل کی وکالت کے لیئے استعفیٰ دے کر مشرف کا وکیل بن سکتا تھا؟اگر پی ٹی ائی جمہوری پارٹی ہوتی تو کیا وہ سزا یافہ جنرل کا کیس لڑنے والے وکیل کو دوبارہ اپنا “وزیر قانون”بنا سکتی تھی؟اگر پی ٹی آئی جمہوری پارٹی ہوتی تو کیا مشرف کے خلاف وفاق کے حق میں آنے والے فیصلے کے خلاف وکیل بننے والے فروغ نسیم کو اپنا وزیر قانون بنا سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پی ٹی آئی انگلی والوں کی بغل بچہ پارٹی ہے اُنہوں نے وزیر اعظم کو انگلی پر بٹھا رکھا ہے اور وزیر اعظم انگل کے مزے لے رہا ہے بس
اہلیان پی ٹی آئی کے سنجیدہ افراد کے لیئے لمحہ فکریہ اگر وہ جمہوری سوچ رکھتے ہیں۔
-
This topic was modified 3 years ago by
الشرطہ.
- local_florist 4 thumb_up 1
- local_florist Bawa, shami11, GeoG, Believer12 thanked this post
- thumb_up Zaidi liked this post
4 Jun, 2020 at 9:45 am #2اطہر بھیافروغ نسیم کا پی ٹی آئی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے
یہ فوجیوں کا بوٹ چاٹنے والا بندہ ہے اور انکی ہی نمائندگی کرتا ہے
یہ دور حاضرہ کا شریف الدین پیر زادہ ہے
اس کی پوری تاریخ بوٹ چاٹنے سے بھری پڑی یے
- local_florist 2 thumb_up 2
- local_florist Athar, shami11 thanked this post
- thumb_up GeoG, Believer12 liked this post
4 Jun, 2020 at 9:54 am #3اطہر بھیا فروغ نسیم کا پی ٹی آئی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے یہ فوجیوں کا بوٹ چاٹنے والا بندہ ہے اور انکی ہی نمائندگی کرتا ہے یہ دور حاضرہ کا شریف الدین پیر زادہ ہے اس کی پوری تاریخ بوٹ چاٹنے سے بھری پڑی یےسر جی بات تو یہ ہے کہ وہ اس وقت نیازی کی ناک کا بال ہے
نیازی قوم یوط کا سربراہ ہے
قوم یوط بغض نواز میں مبتلا ہے
اور نواز کو نیازی سے بہتر سمجھنے والے اتنی جمہوری سوچ تو رکھتے ہیں کہ جنرل کا وکیل بننے والے کے وزیر اعظم کو “دور فٹے منہ”کہہ سکیں۔
4 Jun, 2020 at 11:08 am #4سر جی بات تو یہ ہے کہ وہ اس وقت نیازی کی ناک کا بال ہے نیازی قوم یوط کا سربراہ ہے قوم یوط بغض نواز میں مبتلا ہے اور نواز کو نیازی سے بہتر سمجھنے والے اتنی جمہوری سوچ تو رکھتے ہیں کہ جنرل کا وکیل بننے والے کے وزیر اعظم کو “دور فٹے منہ”کہہ سکیں۔اطہر بھیا
ہمیں یوتھیوں اور بوٹ چاٹئیوں کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے
ہر یوتھیا بوٹ چاٹیا ہوتا ہے لیکن ہر بوٹ چاٹیا یوتھیا نہیں ہوتا ہے
اسوقت یوتھئیے اور بوٹ چاٹئیے اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت ایک ہی پیج پر ہیں اور ایک دوسرے کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں
کل جب فوج عمران خان کو حکومت سے نکالے گی تو بوٹ چاٹئیے فوج کے اشارے پر عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر اس کی مخالفت شروع کر دیں گے لیکن یوتھئیے چھتر کھا کر بھی فوج کی مخالفت نہیں کریں گے
عمران خان کو حکومت سے نکالنے کا کیس اگر عدالت میں جائے گا تو یہی فروغ نسیم عمران خان کی مخالفت میں عدالت میں پیش ہوگا
-
This reply was modified 3 years ago by
Bawa.
- thumb_up 2 mood 1
- thumb_up GeoG, Believer12 liked this post
- mood Athar react this post
4 Jun, 2020 at 12:35 pm #5یہ ایم قیو ایم کے ٹکٹ پر منتخب ہوا جبکہ ایم قیو ایم بھی اسے اون کرنے کو تیار نہیں اور انہوں نے کہا کہ یہ “ان” کے کوٹے پر وزیر ہے- thumb_up 3
- thumb_up GeoG, Bawa, Believer12 liked this post
4 Jun, 2020 at 1:21 pm #6پی ٹی آئی کے پاس کوئی بھی کام کا وکیل نہی ہے ؟کل ایک پی ٹی آئی والے بھائی سے اس کا ذکر کیا تھا ، ان کا کہنا ہے آئین میں اس کی کوئی مما نعت نہی ہے
- mood 3
- mood GeoG, Bawa, Believer12 react this post
4 Jun, 2020 at 3:44 pm #7پی ٹی آئی کے پاس کوئی بھی کام کا وکیل نہی ہے ؟ کل ایک پی ٹی آئی والے بھائی سے اس کا ذکر کیا تھا ، ان کا کہنا ہے آئین میں اس کی کوئی مما نعت نہی ہےاسی وجہ سے تو اہلیان سیاہ ست بے غیرتگی بھی کھل کر کرتے ہیں
کیونکہ “آئین میں” اس کی بھی ممانعت نہیں۔
- mood 1
- mood Believer12 react this post
4 Jun, 2020 at 3:49 pm #8اطہر بھیا ہمیں یوتھیوں اور بوٹ چاٹئیوں کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ہر یوتھیا بوٹ چاٹیا ہوتا ہے لیکن ہر بوٹ چاٹیا یوتھیا نہیں ہوتا ہے اسوقت یوتھئیے اور بوٹ چاٹئیے اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت ایک ہی پیج پر ہیں اور ایک دوسرے کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں کل جب فوج عمران خان کو حکومت سے نکالے گی تو بوٹ چاٹئیے فوج کے اشارے پر عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر اس کی مخالفت شروع کر دیں گے لیکن یوتھئیے چھتر کھا کر بھی فوج کی مخالفت نہیں کریں گے عمران خان کو حکومت سے نکالنے کا کیس اگر عدالت میں جائے گا تو یہی فروغ نسیم عمران خان کی مخالفت میں عدالت میں پیش ہوگایہ بات آپ نے خوب کی یہ نیازی کے خلاف بھی وکیل ہوگا
ہاں یہ بات بھی ہے اس وقت قوم یوط اور “اور بوٹ پنڈت”دونوں الگ الگ قسم کے پجاری ہیں
مجھے افسوس ہوتا ہےکہ جب بے نظیر صاحبہ پاکستان آئی تھیں تو میں اپنے گھر والوں کی وجہ سے اسلامی جمہوری اتحاد کا حامی تھا(ابھی دسویں پاس نہں کی تھی(۔
لیکن اگر مجھے اُس وقت زرا بی سیاسی بلوغت ہوتی تو میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حامی نہیں ہوسکتا تھا
کسی بھی جنرل کی حمائت یا اُس کی چھتری تلے کام کرنے والے فرد کو “ووٹ”کیسے دیا جاسکتا ہے؟
کاش اس سوال کا جواب اس وقت کے “باشعور”اہلیان پی ٹی آنز دے سکتے۔
- thumb_up 2
- thumb_up Believer12, shami11 liked this post
4 Jun, 2020 at 6:13 pm #9یہ بات آپ نے خوب کی یہ نیازی کے خلاف بھی وکیل ہوگا ہاں یہ بات بھی ہے اس وقت قوم یوط اور “اور بوٹ پنڈت”دونوں الگ الگ قسم کے پجاری ہیں مجھے افسوس ہوتا ہےکہ جب بے نظیر صاحبہ پاکستان آئی تھیں تو میں اپنے گھر والوں کی وجہ سے اسلامی جمہوری اتحاد کا حامی تھا(ابھی دسویں پاس نہں کی تھی(۔ لیکن اگر مجھے اُس وقت زرا بی سیاسی بلوغت ہوتی تو میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حامی نہیں ہوسکتا تھا کسی بھی جنرل کی حمائت یا اُس کی چھتری تلے کام کرنے والے فرد کو “ووٹ”کیسے دیا جاسکتا ہے؟ کاش اس سوال کا جواب اس وقت کے “باشعور”اہلیان پی ٹی آنز دے سکتے۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو سیاسی طور پر بالغ تھی؟
دو بار فوج سے ڈنگ کھانے کے بعد جب فوج نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا تو اس نے بغض نواز شریف میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کو درست قرار دیا
جن وجوہات کی بنا پر اس نے مارشل لاء کو جائز قرار دیا وہ وجوہات تو اس کے اپنے باپ کے خلاف فوج کے مارشل لاء کے نفاذ کے وقت بھی موجود تھیں گویا اس نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کی حمایت کرکے خود اپنے باپ کے منہ پر تھپڑ دے مارا
- thumb_up 3
- thumb_up Zaidi, Believer12, GeoG liked this post
4 Jun, 2020 at 7:31 pm #10کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو سیاسی طور پر بالغ تھی؟ دو بار فوج سے ڈنگ کھانے کے بعد جب فوج نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا تو اس نے بغض نواز شریف میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کو درست قرار دیا جن وجوہات کی بنا پر اس نے مارشل لاء کو جائز قرار دیا وہ وجوہات تو اس کے اپنے باپ کے خلاف فوج کے مارشل لاء کے نفاذ کے وقت بھی موجود تھیں گویا اس نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کی حمایت کرکے خود اپنے باپ کے منہ پر تھپڑ دے ماراباوہ جی، جسطرح آپ جنرلوں کی پتلون کے ٹانکوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے اسی طرح سیاستدانوں کے بڑھتے ہوئے شکم کی تہوں کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ اگر یہ بدبخت کسی قابل ہوتے تو اس طرح بوٹوں کی نوکوں پر نہ ہوتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قوم کے نصیب میں گارے کی مٹی اور جعلی سمینٹ ہی آیا ہے ، نہ انہیں شعور ہے نہ پرواہ ۔
- thumb_up 3
- thumb_up Bawa, Believer12, GeoG liked this post
4 Jun, 2020 at 9:23 pm #11باوہ جی، جسطرح آپ جنرلوں کی پتلون کے ٹانکوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے اسی طرح سیاستدانوں کے بڑھتے ہوئے شکم کی تہوں کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ اگر یہ بدبخت کسی قابل ہوتے تو اس طرح بوٹوں کی نوکوں پر نہ ہوتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قوم کے نصیب میں گارے کی مٹی اور جعلی سمینٹ ہی آیا ہے ، نہ انہیں شعور ہے نہ پرواہ ۔
زیدی بھائی، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں
ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی نہ سوچ جمہوری ہے، نہ ہی طرز عمل اور نہ ہی یہ جمہوری اداروں کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں. وہ وقت اور حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں. جب خود کو کمزور اور نرغے میں محسوس کرتے ہیں تو اسٹبلشمنٹ کے آگے جھک جاتے ہیں اور جب تھوڑی طاقت آتی ہے تو جمہوریت پسند بن جاتے ہیں. وہ اپنے ذاتی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر عوام کے حقوق، جمہوریت، پارلیمنٹ، آئین و قانون اور ووٹ کے تقدس کی بالادستی کی جنگ نہیں لڑتے ہیں. اگر کبھی کوئی سیاست دان فوج کی غلامی کا طوق گلے سے اتارنے کی کوشش کرتا ہے تو فوج کی طرف سے اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور میڈیا، عدلیہ، فوجی و سول ایجنسیوں اور دیگر تحقیقاتی و احتسابی اداروں کے ذریعے ذلیل و رسوا کرکے دوبارہ اسے بوٹ چاٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے. کسی کو حکومت میں لانے اور رخصت کرنے کے فیصلے ملک پر قابض فوج ہی کرتی ہے
ایک آزاد و خود مختار جمہوری ملک میں تو سول حکومت اچھی کارکردگی دکھا کر اور عوام کی خدمت کرکے دوبارہ حکومت میں آ سکتی ہے لیکن فوج کے زیر تسلط ملکوں میں فوج کو کسی اچھی کارکردگی دکھانے والی سول حکومت سے کھرک شروع ہو جاتی ہے. پہلے وہ سول حکومت کے خلاف پس پردہ رہ کر سازشیں کرتی ہے اور پھر موقع ملنے پر کھلم کھلا بد معاشی کرنے پر اتر آتی ہے. ایسی حکومت کو عوام کی خدمت کرنے کے باوجود مارشل لاء لگا کر رخصت کر دیا جاتا ہے یا دوبارہ حکومت میں آنے سے روکا جاتا ہے. ملک کی کسی عدالت اور کسی ادارے کی اتنی جرات نہیں ہوتی ہے جو فوجیوں کی بد معاشی کے سامنے کھڑے ہو سکیں
فوج کی بدمعاشی کی وجہ سے ملک سے نظریاتی سیاست, آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تصور ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ سیاست میں بوٹ چاٹنے کے نظریے نے لے لی ہے. حکومت حاصل کرنے کی خاطر سیاست دانوں میں بوٹ چاٹنے میں سبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے. اس وقت ملک کا ہر سیاست دان حکومت ملنے کی شرط پر بکنے اور بوٹ چاٹنے پر تیار بیٹھا ہے. ہر سیاست دان دوسرے سیاست دان سے بہتر بوٹ چاٹنے کا دعویدار ہے
فوج سیاست زدہ ہونے کی وجہ سے دفاعی لحاظ سے خصی ہو چکی ہے. فوجی بھارت کے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لینے پر کشمیر میں جا کر لڑنے مرنے کی بجائے چھاونیوں میں مجرے کروا کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور یوم سیاہ منا رہے ہیں
- thumb_up 3
- thumb_up Zaidi, GeoG, Believer12 liked this post
4 Jun, 2020 at 9:54 pm #12زیدی بھائی، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی نہ سوچ جمہوری ہے، نہ ہی طرز عمل اور نہ ہی یہ جمہوری اداروں کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں. وہ وقت اور حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں. جب خود کو کمزور اور نرغے میں محسوس کرتے ہیں تو اسٹبلشمنٹ کے آگے جھک جاتے ہیں اور جب تھوڑی طاقت آتی ہے تو جمہوریت پسند بن جاتے ہیں. وہ اپنے ذاتی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر عوام کے حقوق، جمہوریت، پارلیمنٹ، آئین و قانون اور ووٹ کے تقدس کی بالادستی کی جنگ نہیں لڑتے ہیں. اگر کبھی کوئی سیاست دان فوج کی غلامی کا طوق گلے سے اتارنے کی کوشش کرتا ہے تو فوج کی طرف سے اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور میڈیا، عدلیہ، فوجی و سول ایجنسیوں اور دیگر تحقیقاتی و احتسابی اداروں کے ذریعے ذلیل و رسوا کرکے دوبارہ اسے بوٹ چاٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے. کسی کو حکومت میں لانے اور رخصت کرنے کے فیصلے ملک پر قابض فوج ہی کرتی ہے ایک آزاد و خود مختار جمہوری ملک میں تو سول حکومت اچھی کارکردگی دکھا کر اور عوام کی خدمت کرکے دوبارہ حکومت میں آ سکتی ہے لیکن فوج کے زیر تسلط ملکوں میں فوج کو کسی اچھی کارکردگی دکھانے والی سول حکومت سے کھرک شروع ہو جاتی ہے. پہلے وہ سول حکومت کے خلاف پس پردہ رہ کر سازشیں کرتی ہے اور پھر موقع ملنے پر کھلم کھلا بد معاشی کرنے پر اتر آتی ہے. ایسی حکومت کو عوام کی خدمت کرنے کے باوجود مارشل لاء لگا کر رخصت کر دیا جاتا ہے یا دوبارہ حکومت میں آنے سے روکا جاتا ہے. ملک کی کسی عدالت اور کسی ادارے کی اتنی جرات نہیں ہوتی ہے جو فوجیوں کی بد معاشی کے سامنے کھڑے ہو سکیں فوج کی بدمعاشی کی وجہ سے ملک سے نظریاتی سیاست, آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تصور ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ سیاست میں بوٹ چاٹنے کے نظریے نے لے لی ہے. حکومت حاصل کرنے کی خاطر سیاست دانوں میں بوٹ چاٹنے میں سبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے. اس وقت ملک کا ہر سیاست دان حکومت ملنے کی شرط پر بکنے اور بوٹ چاٹنے پر تیار بیٹھا ہے. ہر سیاست دان دوسرے سیاست دان سے بہتر بوٹ چاٹنے کا دعویدار ہے فوج سیاست زدہ ہونے کی وجہ سے دفاعی لحاظ سے خصی ہو چکی ہے. فوجی بھارت کے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لینے پر کشمیر میں جا کر لڑنے مرنے کی بجائے چھاونیوں میں مجرے کروا کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور یوم سیاہ منا رہے ہیںیہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ معتدد قووتیں جو اس ملک کو مثالی ملک بنانے اور لوگوں کی زندگیاں بدلنے کی سعی کے بجائے اپنی بونوں جیسی حرکتوں سے اپنے حصے کے کیک کی کوشش میں جتے ہوئے ہیں ۔
آج اس ملک کو بنے ستر سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر جس حرص اور طمع کی لالچ جس کی بنیاد آغاز میں ہی پڑگئ تھی، اس میں رتہ برابر کمی دیکھی نہیں گئیں ۔ کونسا ایسا کام ہے جو ان سب صاحب اقتدار اور صاحب ثروت لوگوں نے اس ملک سے کھلواڑ کرنے میں بخشا ہے ۔
باوا جی، جب تک اس ملک کے لوگ ، بہت سے جنرلوں ، کچھ ججوں اور چند جدی پشتی بوٹ چوپیے سیاستدانوں کو کھلے عام لیمپ پوسٹ سے انکے خصوں کے بل نہیں لٹکاتے اور ہفتوں لٹکا نہیں رہنے دیتے ، کسی بھی بھلائ کی تمنا رکھنا فضول ہے ۔4 Jun, 2020 at 9:59 pm #13اوپر کی ساری بحث کا نچوڑ تو یہ نکلتا ہے کہ بھٹو، بے نظیر، نوازشریف،چوہردی برادران، وٹوانے، ٹوانے، نون، دولتانے اور دیوانے ، سب کے سب بوٹ چاٹ کر حکومت لے پاتے ہیں ہیں، بوٹ چاٹ کر اپنا پیریڈ بمشکل پورا کرتے ہیںاگر یہی صورتحال ہے تو پھر میں ان سیاستدانوں میں سے کسی ایک کی بھی حمایت کیوں کروں گا؟
ان سب کو سیاست میں آنا ہی نہیں چاہئے اور فوج کو کہنا چاہئے کہ خود سنبھالو یا ہمیں سنبھالنے دو
اس سارے مسئلے کا حال کوی نہیں جیسے کشمیر کا حل کوی نہیں
فوج کے پاس سیاستدانوں کی عدم دستیابی کا حل جماعت اسلامی اور دیگر مزہبی جماعتوں کی صورت موجود ہے جس کے تجربات سرحد اور بلوچستان میں ناکامیابی کے ساتھ کئے جاچکے ہیں
میرے نزدیک اس کا حل یہی ہے کہ انگریز کو دوبارہ دعوت اقتدار دی جاے
اگر سارے دوست ایگری ہوں تو لکھیں میں لندن میں ہونے کی وجہ سے زیادہ آسانی سے ملکہ کے ساتھ ڈسکس کرسکتا ہوں
نوٹ۔ شامی پر بھروسہ نہ کیا جاے وہ ملکہ کا ویسے ہی وفادار ہے جیسے ماونٹ بیٹن تھا
5 Jun, 2020 at 9:28 am #14کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو سیاسی طور پر بالغ تھی؟ دو بار فوج سے ڈنگ کھانے کے بعد جب فوج نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا تو اس نے بغض نواز شریف میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کو درست قرار دیا جن وجوہات کی بنا پر اس نے مارشل لاء کو جائز قرار دیا وہ وجوہات تو اس کے اپنے باپ کے خلاف فوج کے مارشل لاء کے نفاذ کے وقت بھی موجود تھیں گویا اس نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کی حمایت کرکے خود اپنے باپ کے منہ پر تھپڑ دے مارابھائی جی میں نے عرض کی کہ جب بی بی صاحبہ پاکستان آئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شائد 86،87کی بات ہے
جب الیکنش ہوئی 1988میں تب میں نے میٹرک بھی نہیں کیا ہوا تھا
لیکن اگر سیاسی بلوغت ہوتی تو میں جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی کی حمائت کرتا بجائے نواز شریف کے اسلامی جمہوری اتحاد کے
سو بی بی کا کیا کردار رہا وہ بعد میں کیا کرتی رہیں اس سے قطع نظر اُن حالات میں کہ جب ایک جانب پھانسی چڑھا دینے والے جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی اور دوسری جانب ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے حمائیتوں میں فیصلہ کرنا ہوتا تو
میری پہلی چوائس بی بی صاحبہ ہوتیں
لیکن آج کی قوم یوط میں نہ جمہوری سوچ ہے نہ سیاسی بلوغت جو بچونگڑے شرفو گدھے کے دور میں شعور کی منزل کو پہنچے اُن کے زہنوں میں صرف اور صرف نواز بغض پالا گیا اُن کی تربیت صرف نواز مخالفت کی گئی اُسی کے زیر اثر “زومبی”بنے عقل و شعور سے عاری ہوکر نیازی متوالے بنے پھرتے ہیں۔
- local_florist 1 thumb_up 2
- local_florist Bawa thanked this post
- thumb_up shami11, Believer12 liked this post
5 Jun, 2020 at 9:43 am #15بھائی جی میں نے عرض کی کہ جب بی بی صاحبہ پاکستان آئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شائد 86،87کی بات ہے جب الیکنش ہوئی 1988میں تب میں نے میٹرک بھی نہیں کیا ہوا تھا لیکن اگر سیاسی بلوغت ہوتی تو میں جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی کی حمائت کرتا بجائے نواز شریف کے اسلامی جمہوری اتحاد کے سو بی بی کا کیا کردار رہا وہ بعد میں کیا کرتی رہیں اس سے قطع نظر اُن حالات میں کہ جب ایک جانب پھانسی چڑھا دینے والے جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی اور دوسری جانب ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے حمائیتوں میں فیصلہ کرنا ہوتا تو میری پہلی چوائس بی بی صاحبہ ہوتیں لیکن آج کی قوم یوط میں نہ جمہوری سوچ ہے نہ سیاسی بلوغت جو بچونگڑے شرفو گدھے کے دور میں شعور کی منزل کو پہنچے اُن کے زہنوں میں صرف اور صرف نواز بغض پالا گیا اُن کی تربیت صرف نواز مخالفت کی گئی اُسی کے زیر اثر “زومبی”بنے عقل و شعور سے عاری ہوکر نیازی متوالے بنے پھرتے ہیں۔اطہر بھیا
کونسے جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی؟
ذرا میری رہنمائی فرما دیں کہ یہ جمہوری وزیر اعظم کس الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعظم منتخب ہوا تھا اور اسے اس الیکشن میں کتنی سیٹیں اور کتنے فیصد ووٹ ملے تھے؟
اس الیکشن کے نتائج کے مطابق کونسی پارٹی الیکشن جیتی تھی اور اس نام نہاد جمہوری وزیر اعظم نے کیا اس الیکشن جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے کی حمایت کی تھی یا فوجیوں سے ساز باز کرکے اسے اقتدار منتقل کرنے میں رکاوٹ بنا تھا؟
کیا آپکے اس جمہوری وزیر اعظم نے الیکشن کے نتائج کے مطابق جیتنے والی پارٹی کے لیڈر کا وزیر اعظم بننے کا حق اقتدار تسلیم کر لیا تھا یا خود وزیر اعظم بننے کی لالچ میں ملک ٹوٹنا گوارہ کر لیا تھا؟
- thumb_up 2
- thumb_up Athar, Believer12 liked this post
5 Jun, 2020 at 10:05 am #16اطہر بھیا ہمیں یوتھیوں اور بوٹ چاٹئیوں کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ہر یوتھیا بوٹ چاٹیا ہوتا ہے لیکن ہر بوٹ چاٹیا یوتھیا نہیں ہوتا ہے اسوقت یوتھئیے اور بوٹ چاٹئیے اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت ایک ہی پیج پر ہیں اور ایک دوسرے کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں کل جب فوج عمران خان کو حکومت سے نکالے گی تو بوٹ چاٹئیے فوج کے اشارے پر عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر اس کی مخالفت شروع کر دیں گے لیکن یوتھئیے چھتر کھا کر بھی فوج کی مخالفت نہیں کریں گے عمران خان کو حکومت سے نکالنے کا کیس اگر عدالت میں جائے گا تو یہی فروغ نسیم عمران خان کی مخالفت میں عدالت میں پیش ہوگاباوا بھائی اگر فوج خان کے خلاف ہوئی تو خان کے حامی دو حصوں میں بٹ جائیں گے – جو بوٹ چاٹنے والے ہیں وہ خان کو چھوڑ دیں گے مگر جو خان کے پکے حامی ہیں وہ فوج کے خلاف پوسٹیں لگانا شروع ہو جائیں گے – ایسا ہی محاملہ نون کے ساتھ بھی ہوا تھا – ابتدا میں سب بوٹ چاٹنے والے اور نواز کے جانباز نواز کے ساتھ تھے مگر نواز کے فوج کے خلاف ہوتے ہی کچھ بوٹ چاٹنے والے خان کی پارٹی میں چلے گئے – نواز کی پارٹی میں دو گروپ ہیں ایک فوج کے حق والا شہباز گروپ اور دوسرا مزاحمتی گروپ نواز والا اسلئے نون لیگ کبھی ایک چولہ پہن لیتی ہے اور کبھی دوسرا – یہ سہولت خان کو میسر نہیں ہو گی کیونکے ان کی پارٹی ون مین ہے اگر خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ سٹانز لیتا ہے تو چاہنے والوں کو اس طرف ہی جانا ہو گا اور بوٹ کے سچے پیروکار پارٹی چھوڑ دینگے – میں سمجھتا ہوں جب تک کوئی پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ لائن کم از کم ایک بار نہیں اپناتی وہ مکمل اور دیر تک چلنے والی پارٹی نہیں بن سکتی -یہ قدر دونوں لمبے عرصے تک چلنے والی نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں مشترک ہے – دونوں مختلف ادوار میں اینٹی اور پرو اسٹیبلشمنٹ رہی ہیں – یہ بھی ممکن ہے اقتدار جانے کے بحد بھی امید پر دنیا قائم ہے سوچ کر خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ لائن نہ لے – ویسے خان جتنا پھٹو ہے مجھے نہیں لگتا وہ کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو گا –
5 Jun, 2020 at 10:12 am #17زیدی بھائی، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی نہ سوچ جمہوری ہے، نہ ہی طرز عمل اور نہ ہی یہ جمہوری اداروں کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں. وہ وقت اور حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں. جب خود کو کمزور اور نرغے میں محسوس کرتے ہیں تو اسٹبلشمنٹ کے آگے جھک جاتے ہیں اور جب تھوڑی طاقت آتی ہے تو جمہوریت پسند بن جاتے ہیں. وہ اپنے ذاتی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر عوام کے حقوق، جمہوریت، پارلیمنٹ، آئین و قانون اور ووٹ کے تقدس کی بالادستی کی جنگ نہیں لڑتے ہیں. اگر کبھی کوئی سیاست دان فوج کی غلامی کا طوق گلے سے اتارنے کی کوشش کرتا ہے تو فوج کی طرف سے اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور میڈیا، عدلیہ، فوجی و سول ایجنسیوں اور دیگر تحقیقاتی و احتسابی اداروں کے ذریعے ذلیل و رسوا کرکے دوبارہ اسے بوٹ چاٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے. کسی کو حکومت میں لانے اور رخصت کرنے کے فیصلے ملک پر قابض فوج ہی کرتی ہے ایک آزاد و خود مختار جمہوری ملک میں تو سول حکومت اچھی کارکردگی دکھا کر اور عوام کی خدمت کرکے دوبارہ حکومت میں آ سکتی ہے لیکن فوج کے زیر تسلط ملکوں میں فوج کو کسی اچھی کارکردگی دکھانے والی سول حکومت سے کھرک شروع ہو جاتی ہے. پہلے وہ سول حکومت کے خلاف پس پردہ رہ کر سازشیں کرتی ہے اور پھر موقع ملنے پر کھلم کھلا بد معاشی کرنے پر اتر آتی ہے. ایسی حکومت کو عوام کی خدمت کرنے کے باوجود مارشل لاء لگا کر رخصت کر دیا جاتا ہے یا دوبارہ حکومت میں آنے سے روکا جاتا ہے. ملک کی کسی عدالت اور کسی ادارے کی اتنی جرات نہیں ہوتی ہے جو فوجیوں کی بد معاشی کے سامنے کھڑے ہو سکیں فوج کی بدمعاشی کی وجہ سے ملک سے نظریاتی سیاست, آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تصور ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ سیاست میں بوٹ چاٹنے کے نظریے نے لے لی ہے. حکومت حاصل کرنے کی خاطر سیاست دانوں میں بوٹ چاٹنے میں سبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے. اس وقت ملک کا ہر سیاست دان حکومت ملنے کی شرط پر بکنے اور بوٹ چاٹنے پر تیار بیٹھا ہے. ہر سیاست دان دوسرے سیاست دان سے بہتر بوٹ چاٹنے کا دعویدار ہے فوج سیاست زدہ ہونے کی وجہ سے دفاعی لحاظ سے خصی ہو چکی ہے. فوجی بھارت کے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لینے پر کشمیر میں جا کر لڑنے مرنے کی بجائے چھاونیوں میں مجرے کروا کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور یوم سیاہ منا رہے ہیںزیدی بھائی اور بلیور بھائی وہ مثال تو آپ نے سنی ہوگی “اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا
اس کی یک نہ شد دو شد مثالیں ہمارے سامنے ہیں
جس کا باوا بھائی نے بھی اپنی تحریر میں زکر کیا ہے
ایک ذوالفقار علی بھٹو جس نے آئیں دیا،،شرمندہ فوجیوں کی واپسی ممکن بنائی،ایٹم بم کی تیاری شروع کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن جب فوج نے چاہا اُسے پھانسی چڑھا دیا نہ عدلیہ نے اپنا کردار ادا کیا نہ سول اداروں نے نہ اپوزیشن جمہوری پارٹیوں نے ناں ہی عوام نے اور دوسری مثال نواز شریف جس نے ایٹم بم کا دھماکہ کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھنسے ہوئے فوجیوں کی واپسی ممکن بنائی ملک کو نئی ڈگر پر لے کر چلنے کی سعی کی
لیکن ہوا پھر بھی وہی جب فوج نے اُسے ملک بدر کیا نہ اُس وقت عدلیہ نے اپنا کردار ادا کیا نہ سول اداروں نے نہ عوام نے اور نہ ہی اپوزیشن جمہوری جماعتوں نے لہذا اس تناظر میں دیکھا جائے تو فوج کا بوٹ چاٹنا مجبوری ہوگیا اس تناظر میں دیکھا جائے تو “نیاز ی کی سیاست زندہ باد”
نیازی نے سیکھ لیا کہ بوٹ کے تلوے چاٹنا ہی حکمرانی ہے بوٹ صاف کرنا ہی زندگی ہے
اپنے وقت میں نواز نے بھی بوٹ چاٹے ،نیازی بھی بوٹ چاٹ رہا ہے
فرق ان دونوں میں صرف اتنا ہے کہ
نواز بوٹ کا “اپر”چاٹتا ہے اور کبھی کبھی بوٹ والے کی پنڈلی کو پڑ جاتا ہے
مگر نیازی بوٹ کا “تلوا”چاٹ رہا ہے چاٹتے چاٹے یا تو “ٹوہ پر آجات اہے یا ایڑھی کے نیچے”بس اس سے زیادہ نیازی کی دوڑ نہیں۔
- local_florist 1 thumb_up 4
- local_florist Bawa thanked this post
- thumb_up shami11, Zaidi, GeoG, Believer12 liked this post
5 Jun, 2020 at 10:15 am #18اطہر بھیا کونسے جمہوری وزیر اعظم کی بیٹی؟ ذرا میری رہنمائی فرما دیں کہ یہ جمہوری وزیر اعظم کس الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعظم منتخب ہوا تھا اور اسے اس الیکشن میں کتنی سیٹیں اور کتنے فیصد ووٹ ملے تھے؟ اس الیکشن کے نتائج کے مطابق کونسی پارٹی الیکشن جیتی تھی اور اس نام نہاد جمہوری وزیر اعظم نے کیا اس الیکشن جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے کی حمایت کی تھی یا فوجیوں سے ساز باز کرکے اسے اقتدار منتقل کرنے میں رکاوٹ بنا تھا؟ کیا آپکے اس جمہوری وزیر اعظم نے الیکشن کے نتائج کے مطابق جیتنے والی پارٹی کے لیڈر کا وزیر اعظم بننے کا حق اقتدار تسلیم کر لیا تھا یا خود وزیر اعظم بننے کی لالچ میں ملک ٹوٹنا گوارہ کر لیا تھا؟بات کو طول دینے کے لیئے چاہے جتنی مرضی طوالت دے لیں لیکن اب ہم جس پاکستان میں رہتے ہیں اُس کا وہ پہلا منتخب وزیر اعظم تھا۔
5 Jun, 2020 at 10:20 am #19بات کو طول دینے کے لیئے چاہے جتنی مرضی طوالت دے لیں لیکن اب ہم جس پاکستان میں رہتے ہیں اُس کا وہ پہلا منتخب وزیر اعظم تھا۔اطہر بھیا
یہی تو میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ اس نام نہاد جمہوری وزیر اعظم کو عوام نے کس الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعظم منتخب کیا تھا؟ اس الیکشن میں اسے کتنی سیٹیں اور کتنے فیصد ووٹ ملے تھے؟ اس الیکشن کے نتائج کے مطابق کونسی پارٹی الیکشن جیتی تھی؟
میرے سوالوں کے جواب گول نہ کریں، میں آپکی تاریخ سیدھی کر رہا ہوں
5 Jun, 2020 at 10:22 am #20یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ معتدد قووتیں جو اس ملک کو مثالی ملک بنانے اور لوگوں کی زندگیاں بدلنے کی سعی کے بجائے اپنی بونوں جیسی حرکتوں سے اپنے حصے کے کیک کی کوشش میں جتے ہوئے ہیں ۔
آج اس ملک کو بنے ستر سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر جس حرص اور طمع کی لالچ جس کی بنیاد آغاز میں ہی پڑگئ تھی، اس میں رتہ برابر کمی دیکھی نہیں گئیں ۔ کونسا ایسا کام ہے جو ان سب صاحب اقتدار اور صاحب ثروت لوگوں نے اس ملک سے کھلواڑ کرنے میں بخشا ہے ۔ باوا جی، جب تک اس ملک کے لوگ ، بہت سے جنرلوں ، کچھ ججوں اور چند جدی پشتی بوٹ چوپیے سیاستدانوں کو کھلے عام لیمپ پوسٹ سے انکے خصوں کے بل نہیں لٹکاتے اور ہفتوں لٹکا نہیں رہنے دیتے ، کسی بھی بھلائ کی تمنا رکھنا فضول ہے ۔
اوپر کی ساری بحث کا نچوڑ تو یہ نکلتا ہے کہ بھٹو، بے نظیر، نوازشریف،چوہردی برادران، وٹوانے، ٹوانے، نون، دولتانے اور دیوانے ، سب کے سب بوٹ چاٹ کر حکومت لے پاتے ہیں ہیں، بوٹ چاٹ کر اپنا پیریڈ بمشکل پورا کرتے ہیں اگر یہی صورتحال ہے تو پھر میں ان سیاستدانوں میں سے کسی ایک کی بھی حمایت کیوں کروں گا؟ ان سب کو سیاست میں آنا ہی نہیں چاہئے اور فوج کو کہنا چاہئے کہ خود سنبھالو یا ہمیں سنبھالنے دو اس سارے مسئلے کا حال کوی نہیں جیسے کشمیر کا حل کوی نہیں فوج کے پاس سیاستدانوں کی عدم دستیابی کا حل جماعت اسلامی اور دیگر مزہبی جماعتوں کی صورت موجود ہے جس کے تجربات سرحد اور بلوچستان میں ناکامیابی کے ساتھ کئے جاچکے ہیں میرے نزدیک اس کا حل یہی ہے کہ انگریز کو دوبارہ دعوت اقتدار دی جاے اگر سارے دوست ایگری ہوں تو لکھیں میں لندن میں ہونے کی وجہ سے زیادہ آسانی سے ملکہ کے ساتھ ڈسکس کرسکتا ہوںنوٹ۔ شامی پر بھروسہ نہ کیا جاے وہ ملکہ کا ویسے ہی وفادار ہے جیسے ماونٹ بیٹن تھا
آپ دونوں سیانے آدمی ہیں اور آپکی باتوں سے کافی حد تک اتفاق بھی کرتا ہوں لیکن مجھے کچھ سوالوں کا جواب دیں
اگر ہاکی کے سٹیڈیم میں دو ٹیمیں کھیل رہی ہوں اور مخالف ٹیم پر گول کرنے کیلیے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہوں. اس دوران کچھ پاگل کتے سٹیڈیم میں گھس آئیں، کھیل میں رکاوٹ ڈالنا اور کھلاڑیوں کو کاٹنا اور زخمی کرنا شروع کر دیں حتی کہ کھلاڑیوں کو سٹیڈیم سے نکال کر کھیل کو بند کر دیں تو کیا آپ کھیل خراب کرنے کا الزام کتوں کو دیں گے یا کھلاڑیوں کو؟
ممکن نے کچھ دفاعی کھلاڑی گول روکنے کی کوشش میں اور کچھ حملہ آور کھلاڑی گول کرنے کی کوشش میں فاول بھی کھیل رہے ہوں لیکن کھیل کے تو اصول واضح ہیں اور ان فاول کھیلنے والے کھلاڑیوں کو سزا دینا ریفری کا کام ہے. کیا کتوں کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ چند کھلاریوں کے فاول کھیلنے کو بہانہ بنا کر سٹیڈیم میں گھس آئیں، کھلاریوں کو کاٹنا شروع کر دیں اور کھیل کو عملا بند کر دیں؟
کیا کھیل کو جاری رکھنے اور کھلاڑیوں کی کارکردگی جانچنے کیلیے ضروری نہیں ہے کہ کتوں کو سٹیڈیم سے باہر نکالا جائے تاکہ کھلاڑی کسی پاگل کتے کے کاٹنے کے خوف سے آزاد ہو کر اپنی کارکردگی دکھا سکیں؟
- thumb_up 1
- thumb_up GeoG liked this post
-
This topic was modified 3 years ago by
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.