Thread:
غدار ہونا اچھی بات نہیں ہے
Home › Forums › Siasi Discussion › غدار ہونا اچھی بات نہیں ہے
- This topic has 3 replies, 3 voices, and was last updated 2 years, 7 months ago by
Anjaan. This post has been viewed 468 times
-
AuthorPosts
-
1 Nov, 2020 at 10:54 pm #1
جب ایک خصوصی عدالت نے گذشتہ برس دسمبر میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین سے غداری کے جرم میں سزائے موت سنائی تو فوج کے محکمہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس ریلیز ٹویٹ کیا۔
خصوصی عدالت کے فیصلے نے مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں کو اضطراب اور صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ ایک سابق آرمی چیف، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا چیئرمین اور صدرِ پاکستان جس نے 40 برس سے زائد ملک کی خدمت کی اور ملکی دفاع کے لیے جنگیں لڑیں ہرگز غدار نہیں ہو سکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے عمل، اپنے دفاع کے بنیادی حق، قانونی کاروائی صرف ایک شخص کی ذات کے خلاف مرتکز کرنے اور مقدمے کو عجلت میں نمٹانے کے عمل میں جائز قانونی طریقِ کار کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ افواجِ پاکستان کو توقع ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق انصاف کیا جائے گا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک ریٹائرڈ شخص کے بارے میں عدالتی فیصلے پر مسلح افواج کی جانب سے کھل کر تبصرہ کیا گیا ہو۔ حالانکہ روایتی طور پر ایسے ردِعمل کی توقع ریاست کی وزارتِ قانون یا کسی متعلقہ ذمہ دار آئینی عہدیدار سے کی جاتی ہے۔
البتہ اس تبصرے سے یہ واضح ہو گیا کہ کسی کو اگر کوئی عدالت بھی غدار قرار دے دے تو اس کے سابق ادارے یا بہی خواہوں کو کس قدر صدمہ ہوتا ہے۔
اب ذرا ان سیاستدانوں یا سویلینز کے اضطراب اور دکھ کا اندازہ لگائیے جنھیں بغیر مقدمہ چلائے تھوک کے بھاؤ غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔ راتوں رات شاہراہوں پر ان کی غداری کے بینر لگ جاتے ہیں، سوشل میڈیا کے آسمان پر ان کی غداری ٹرول کی شکل میں چھا جاتی ہے۔ غیر معروف لوگوں کی جانب سے ان کے خلاف پرچے درج ہو جاتے ہیں۔
ان غداروں کو یہ سہولت بھی حاصل نہیں ہوتی کہ کوئی ادارہ ان کے پیچھے کھڑا ہو اور پھر یہ مہم اچانک ایک دن صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے اور ہجوم کسی نئے غدار کے تعاقب میں روانہ کر دیا جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ مہم تھمنے کے بجائے اور پست ہوتی جا رہی ہے۔ جب سے حزبِ اختلاف نے حکومت کے خلاف جلسے شروع کیے ہیں۔ وزیرِ اعظم سے لے کر ان کے نائب قاصد تک سب کو پاکستانی حزبِ اختلاف انڈیا اور اسرائیل کی ایجنٹ نظر آ رہی ہے۔
کسی کو یاد نہیں کہ کل تک یہی انڈین و اسرائیلی ایجنٹ اس ملک پر منتخب نمائندوں کی صورت میں حکومت کر رہے تھے۔ ان میں سے بہت سے ایجنٹ اس وقت بھی رکنِ پارلیمان ہیں اور کل کلاں جب انتخابات ہوں گے تو ان میں سے کئی غدار دوبارہ منتخب ہو کر اسی پاکستان کے آئین کے تحت حلف اٹھا رہے ہوں گے۔
شاید اتنا کافی نہیں تھا لہٰذا آئی ایس پی آر نے بھی پارلیمانی تقریر پر یہ تبصرہ کرنا ضروری سمجھا کہ انڈین پائلٹ ابھینندن کی رہائی کی بابت جو بیان دیا گیا ہے وہ قومی سلامتی سے متعلق تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے
کہا جاتا ہے کہ ’پارلیمنٹ سپریم ہے‘ اور پارلیمانی کاروائی کے دوران ایوان میں ہونے والی تقاریر کو کسی دوسرے فورم پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اسپیکر یا سینیٹ چیئرمین فیصلہ دے سکتا ہے۔ مگر اب یہ تمیز بھی ختم ہو گئی ہے۔
رکنِ قومی اسمبلی اور سابق اسپیکر ایاز صادق کی ’ابھینندانہ تقریر‘ کے خلاف غیر معروف لوگ تھانوں میں درخواستیں دے رہے ہیں۔ ان کے خلاف نامعلوم محبانِ پاکستان کی جانب سے میر جعفر و میر صادق کے بینرز نمودار ہو گئے ہیں۔
اسی پارلیمان میں ایک وزیر پلوامہ میں ہونے والی دہشت گرد کاروائی کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے اور پھر اسے زبان کی پھسلن کہہ کر انڈین میڈیا پر بھی برس رہا ہے۔ ایاز صادق بھی انڈین میڈیا کو بیان مسخ کرنے کا الزام دے رہے ہیں۔
انڈین میڈیا پر غصہ ایسے ہی ہے جیسے چرچل جرمنی سے شکوہ کرے کہ نازی میڈیا اس کی تقاریر کو مسخ کر کے پیش کر رہا ہے یا بلی سے شکایت کی جائے کہ اس نے پرات میں پڑا دودھ بلا اجازت کیسے پی لیا۔
شاید اتنا کافی نہیں تھا لہٰذا آئی ایس پی آر نے بھی پارلیمانی تقریر پر یہ تبصرہ کرنا ضروری سمجھا کہ انڈین پائلٹ ابھینندن کی رہائی کی بابت جو بیان دیا گیا ہے وہ قومی سلامتی سے متعلق تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
یقیناً کسی ذمہ دار شخصیت کی جانب سے قومی سلامتی سے متعلق تاریخی حقائق مسخ کرنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔ مستقبل میں ایسی کسی حرکت کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ جو جنگیں اور واقعات (مثلاً اڑتالیس، پینسٹھ، اکہتر، افغانستان، کارگل، ایبٹ آباد، چار مارشل لا) اب تاریخ کا حصہ ہیں ان کے آرکائیوز کھول دیے جائیں تاکہ قومی سلامتی سے متعلق دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور آئندہ کسی بھی ہما شما کو تاریخ مسخ کرنے کی جرات نہ ہو۔بقول محشر بدایونی
دیوں کو خود بجھا کر رکھ دیا ہے
اور الزام اب ہوا پر رکھ دیا ہے- local_florist 1
- local_florist Believer12 thanked this post
2 Nov, 2020 at 1:33 am #2ISPR should be ignored and the Media should be instructed not to cover /publish any statement and/or the so called Press Conferences.Armed Forces should remain in the barracks and get themselves involved only in the job they are hired to do.
- thumb_up 1
- thumb_up Believer12 liked this post
3 Nov, 2020 at 4:13 pm #3ISPR should be ignored and the Media should be instructed not to cover /publish any statement and/or the so called Press Conferences. Armed Forces should remain in the barracks and get themselves involved only in the job they are hired to do.آپ کو نہیں لگتا کہ آرمی کو صرف سرحدوں کی حفاظت کا کہنا اب قابل عمل نہیں؟
سیلاب آئیں تو پاک فوج کو بلوا لیا جاتا ہے، کراچی میں امن و امان کا مسئلہ ہو تو پاک فوج، شہروں میں بدامنی ہو تو پاک فوج، مردم شماری پاک فوج کرے، واپڈا کے بلوں کی ادائیگی پاک فوج؟
پاک فوج اب ایک سٹیک ہولڈر ہے صرف فوج نہی سیاستدان، عدلیہ اور پاک فوج بیٹھ کر اپنے اپنے اختیارات وضع کرلیں اور پھر ان مین دخل اندازی سے باز رہا جاے تو نظام چل سکتا ہے
3 Nov, 2020 at 4:32 pm #4آپ کو نہیں لگتا کہ آرمی کو صرف سرحدوں کی حفاظت کا کہنا اب قابل عمل نہیں؟ سیلاب آئیں تو پاک فوج کو بلوا لیا جاتا ہے، کراچی میں امن و امان کا مسئلہ ہو تو پاک فوج، شہروں میں بدامنی ہو تو پاک فوج، مردم شماری پاک فوج کرے، واپڈا کے بلوں کی ادائیگی پاک فوج؟ پاک فوج اب ایک سٹیک ہولڈر ہے صرف فوج نہی سیاستدان، عدلیہ اور پاک فوج بیٹھ کر اپنے اپنے اختیارات وضع کرلیں اور پھر ان مین دخل اندازی سے باز رہا جاے تو نظام چل سکتا ہےYou have raised good points. The answer will be a long winded one. Suffice to say that Armed Forces should not be called upon to help (and not do) with the jobs which are normally police jobs.
Some one in the government should sit down with few others and establish the reasons why certain tasks cannot be performed without calling the Army to help. Remove the impediments one by one.
I will give you an example of the country you live in. There are emergencies of one type or another. It is normally the police of responsible for the city which will move in and if that is not enough the help of a neighbouring area/region will be enrolled but the army is not called in. London had had many a situations of Public Disorders but it is always the Police.
Remove the reasons/officials responsible.
-
This reply was modified 2 years, 7 months ago by
Anjaan.
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.