Home Forums Siasi Discussion عمران خان کے ’فُٹ سولجر‘ جو خواتین سے متعلق بیانات سے تنازعات کا شکار بنے

Viewing 11 posts - 1 through 11 (of 11 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کے حال ہی میں تعینات ہونے والے چیئرمین نعیم بخاری اپنے طنز و مزاح سے جہاں ادبی، علمی اور نجی محفلیں لوٹنے کی شہرت رکھتے ہیں وہیں ان پر خواتین پر متنازع جملے کسنے کے بھی الزامات کئی بار سامنے آ چکے ہیں۔
    حکمران جماعت تحریک انصاف سے وابستہ نعیم بخاری کو حال ہی میں تین سال کے لیے پاکستان ٹیلیویژن کارپوریشن کا چیئرمین نامزد کیا گیا ہے۔
    جب بی بی سی نے پی ٹی وی کے مستقبل کے لائحہ عمل، نعیم بخاری کے سیاسی کیریئر اور ماضی کے متنازع جملوں پر ان کا موقف لینے کی کوشش کی تو ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
    نعیم بخاری کا شمار پاکستان ٹیلیویژن کے 1990 کی دہائی کے مقبول ترین میزبانوں میں کیا جاتا ہے، ان کے مداح زندگی کے ہر شعبے اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں جن میں خواتین بھی شامل رہی ہیں۔
    تین سال قبل آج نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بعض خواتین کو اس وقت رنجیدہ کیا جب انھوں نے کہا کہ وہ ’دو کلومیٹر دور سے عورت کا کردار پہچان لیتے ہیں۔  اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے میزبان کو بتایا کہ ان کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا تھا انھوں نے ریسٹور لگوایا ہے اس لیے وہ دو کلومیٹر سے خاتون کا کردار پہچان لیتے ہیں۔ انھوں نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’اس عمر میں بس نظر ہی تیز ہوتی ہے۔
    نعیم بخاری کے اس جملے نے کافی لوگوں بالخصوص ان کی خواتین مداحوں کو رنج پہنچایا اور سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی گئی اور معذرت کرنے کے مطالبات ہوئے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔
    سما ٹی وی چینل پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے اس معاملے کو مزاح میں ہی ٹال دیا اور کہا کہ لوگ مزاح کی حس گنوا چکے ہیں۔ بقول ان کے خود پر بھی ہنسنا چاہیے۔
    انھوں نے وضاحت پیش کی کہ ان کی دونوں آنکھوں میں بیک وقت موتیا نکل آیا تھا وہ ڈاکٹر کے پاس گئے اس نے لینز لگایا، انھوں نے ڈاکٹر سے پوچھا کتنا دور دیکھا جا سکتا ہے، اس نے کہا تاحد نظر،  تو میں نے پوچھا کیا کردار بھی بتا سکتا ہے۔
    تو ڈاکٹر ہنسنے لگا کہ اگر آپ کے ذہن میں شرارت ہو تو یہ کردار بھی بتائے گا۔۔۔ میں نے تو مذاق کیا تھا لوگ خود پر ہنستے کیوں نہیں ہیں۔
    نعیم بخاری سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس میں تحریک انصاف کی جانب سے وکیل بھی رہے اور وہ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز پر سیاسی و ذاتی نوعیت کے حملے بھی کرتے رہے ہیں۔
    ایک انٹرویو میں انھوں نے مریم نواز کو’باربی ڈول‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ ایک مکمل طور پر ’مصنوعی شخصیت‘ ہیں۔ اس کا مقابلہ بینظیر بھٹو کے ساتھ کرتے ہیں۔ بینظیر بھٹو بھی مالی طور پر کرپٹ تھیں، اپنے شوہر کی طرح۔ لیکن دلیر عورت تھیں۔
    انھوں نے مریم نواز کو مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’آپ کون ہیں؟ ہمیں آپ کی فوٹو یاد ہے جب آپ کی شادی ہوئی تھی، کیا مجھے نہیں پتا کہ آپ نے یہ جو نئی شکل بنائی ہے، جھریاں نکال نکال کر۔۔۔
    بعض اوقات ٹی وی چینلز پر وہ چہرہ بنا کر مزاحیہ انداز میں مریم نواز کی نقل اتارتے ہوئے نظر آتے تھے۔

    جسٹس ثاقب نثار کی ایئر ہوسٹس کے ساتھ تصویر پر اعتراض

    سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی نعیم بخاری کی تنقید سے بچ نہیں سکے اور اس تنقید کی وجہ بھی خواتین تھیں۔
    کچھ سال قبل جسٹس ثاقب نثار کی پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے فضائی میزبانوں کے ساتھ ایک تصویر سامنے آئی تھی۔ یہ تصویر اس وقت لی گئی تھی جب وہ کراچی سے لاہور سفر کر رہے تھے۔
    نعیم بخاری نے کمرہ عدالت میں کہا کہ ’مجھے آپ کی اس تصویر پر اعتراض ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ حسد کر رہے ہیں۔  نعیم بخاری نے جواب دیا ’یہ وکلا کا حق مارنے والی بات ہو گئی۔
    چیف جسٹس ثاقب نثار نے انھیں کہا کہ ’بعض اوقات بیٹیوں کو انکار نہیں کیا جا سکتا۔  نعیم بخاری نے یہ سننے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار سے معذرت کی تھی اور ساتھ میں اپنے ان جملوں پر بھی معذرت کی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’مقدمہ وکیل نہیں مدعی ہارتا ہے۔
    لیکن ان متنازع بیانات اور واقعات کے باجود حکمراں جماعت تحریک انصاف اور ان کے پرستاروں میں ان کی مقبولیت کچھ کم نہیں ہوئی۔

    جسٹس افتخار چوہدری سے تکرار

    سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی سے قبل انھوں نے انھیں ایک کھلا خط تحریر کیا تھا جس میں ان پر اختیارات سے تجاوز کرنے اور ان کے بیٹے ارسلان افتخار پر غیر قانونی مالی فوائد حاصل کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
    افتخار محمد چوہدری کے خلاف بعد میں ریفرنس دائر ہوا اور انھیں معزول کیا گیا۔ وکلا کمیونٹی ان کے خط کو ریفرنس کے لیے جواز فراہم کرنا قرار دیتی تھی لیکن وہ اس کی تردید کرتے رہے۔
    عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے دوران وہ راولپنڈی میں ایک عدالت میں پیش ہونے گئے جہاں وکلا نے ان کا گھیراؤ کر لیا اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس سے قبل پنجاب بار نے ان کی رکنیت معطل کر دی تھی۔

    مقروض ملک اور قربانی

    جیو نیوز کے پروگرام ’خبرناک‘ کی میزبانی کے دوران نعیم بخاری نے عید قربان کے دوران ایک پروگرام کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں کیس نے بتایا ہے کہ جب کوئی مقروض ہو تو اس پر قربانی جائز نہیں ہے۔
    لیکن اگر پورا ملک مقروض ہو اور اتنا مقروض ہو کہ اگر مزید قرضے نہ ملیں تو اس کا سود بھی ادا نہ کر سکیں، کیا ایسے ملک میں ہم پر قربانی فرض ہے کہ نہیں، یہ ہمیں علما بتائیں گے؟
    نعیم بخاری کے اس تبصرے پر مذہبی حلقوں نے ناپسندیدگی اور ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

    ڈاکٹر اور فوجی نہ بن سکا

    نعیم بخاری کی پیدائش لاہور کے سید گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد الطاف حسین بخاری ڈاکٹر تھے۔ ان سے پہلے اس گھرانے کی وجۂ شہرت ان کے بڑے بھائی نسیم الطاف بخاری رہے جو مشہور کرکٹر تھے۔
    نعیم بخاری نے اداکارہ ریما کو اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں لیکن وہ نہیں بنے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ فوج میں جائیں لیکن فوج نے انھیں مسترد کر دیا تھا۔
    بی اے کیا تو والد کا خیال تھا کہ ماسٹرز کر کے سی ایس ایس کا امتحان دوں۔  مگر انھوں نے وہ بھی نہیں کیا۔
    جب میں نے لا (قانون کی تعلیم) کر لیا، میری وکالت نہیں چلتی تھی تو میں نے سوچا میں ایکٹر بن جاؤں اور میں چھ مہینے ایور نیو ا سٹوڈیو کے گیٹ پر کھڑا رہا جب تک میں ایس ایم ظفر کے ساتھ نہیں لگا۔ میں مسلسل والد کو مایوس کرتا رہا۔

    طاہرہ سید سے شادی اور طلاق

    جب پاکستان کی کلاسیکل گلوکارہ ملکہ پکھراج کی چھوٹی بیٹی اور گلوکارہ طاہرہ سید سے نعیم بخاری کی شادی ہوئی تو دونوں ایس ایم طفر کے پاس پریکٹس کرتے تھے۔ علم و ادب اور خوش شکل و خوش مزاج یہ جوڑی اپنے وقت کی مثالی جوڑیوں میں شمار ہوتی تھی۔
    طاہرہ سید نے ثمینہ پیرزادہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ منوج کمار، محمد علی ان کے پسندیدہ اداکار رہے جن سے بچپن سے عشق تھا۔ نعیم بخاری کی حسن و جمال اور مزاح کی حس نے انھیں متاثر کیا، لیکن یہ رشتہ 12 سال ہی برقرار رہ سکا۔ دو بچوں کی پرورش انھوں نے طاہرہ کے حوالے کر کے راہیں جدا کر لیں۔
    نعیم بخاری کہتے ہیں کہ جب انھوں نے طاہرہ بی بی سے شادی کی تو اس وقت وہ اپنے پروفیشن کے دور کی جدوجہد میں تھے۔ ان کی پیسے بنانے اور آگے بڑھنے کی بڑی خواہش تھی۔ وہ ایک ’فاسٹ لائن‘ میں تھے تاکہ جو چیزیں زندگی میں نہیں ملیں تھیں وہ حاصل کریں۔
    وہ کہتے ہیں کہ طاہرہ 1970 میں اسٹار ہو چکی تھیں اور ان کی شادی سنہ 1977میں ہوئی۔ جب ان کی بیٹی ’کرن پیدا ہوئی تو انھیں معلوم نہیں کہ وہ کب بڑی ہوئی یعنی اتنی خواہش تھی پیسے کمانے کی آگے بڑھنے کی۔
    طاہرہ سید سے طلاق کے آٹھ سال کے بعد نعیم بخاری نے دوسری شادی کر لی اور انھیں وہ ہمیشہ دلہن بیگم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔
    نعیم بخاری پی ٹی وی پر بلاتکلف سمیت کئی شوز کی میزبانی کر چکے ہیں

    ٹی وی پر میزبانی

    نعیم بخاری نے 1980 کی دہائی سے پی ٹی وی سے رشتہ جوڑا اور وہ اپنے انداز سے مختلف شخصیات کے انٹرویوز کرتے تھے۔ وہ اس کے علاوہ جہاں نما، یادش بخیر، چہرے، اسٹوڈیو ٹو، ملاقات، گیسٹ آور، بلاتکلف سے لے کر انتخابی ٹرانسمیشن میں بھی میزبان رہے۔
    پاکستان میں نجی نیوز چینلز کی آمد کے بعد وہ جیو ٹی وی، ڈان نیوز، ہم نیوز اور اے ٹی وی پر سیاسی مزاح اور شخصیات کے انٹرویوز کے پروگرامز کے میزبان رہے ہیں۔ ان کے انداز اور اسلوب دونوں کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
    نعیم بخاری کا کہنا ہے کہ ٹی وی پر آنے سے ان کی ’وکالت پر منفی اثر پڑے کیونکہ لوگ ٹی وی کو سنجیدہ نہیں لیتے اور کہتے تھے کہ یہ تو ’ٹی وی والا وکیل ہے۔  لوگ سمجھتے ہیں ٹی وی پر آنے سے فوری کیس آ جاتے ہیں یہ درست نہیں ہے اس سے صرف یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آپ کی شناخت ہو جاتی ہے، لوگ آپ کو پہچان لیتے ہیں۔

    تحریک انصاف میں شمولیت

    نعیم بخاری نے سنہ 2016 میں پاکستان تحریک انصاف میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ ان کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے میں وہ ’فُٹ سولجر‘ تھے۔
    ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے اپنی جماعت بنائی تو میں ان لوگوں میں شامل تھا جس سے انھوں نے مشورہ کیا۔ میں نے انھیں منع کیا تھا کہ یہ نہ کریں خود کو فلاح اور تعلیم کے فروغ تک محدود رکھیں۔ آپ میں وہ جراثیم ہیں کہ آپ ایدھی سے بڑے خدمت گار بن سکتے ہیں۔
    لیکن اس کا جواب تھا کہ تم اور میں ٹائی ٹینیک کے فرسٹ کلاس میں بیٹھے ہیں لیکن یہ ٹائی ٹینیک ڈوب رہا ہے جب یہ ڈوبے گا تو ہم بھی ڈوب جائیں گے۔
    نعیم بخاری کو موجودہ حکومت نے انھیں قومی احستاب بیورو کی قانونی ٹیم کا سربراہ مقرر کیا، ستارہ امتیاز سے نوازا اور اب پی ٹی وی کا چیئرمین بنایا گیا ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ تین ماہ میں وہ اس میں بہتری لائیں گے۔ ساتھ میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ اپوزیشن کو پی ٹی وی پر وقت نہیں ملے گا کیونکہ یہ سرکاری ٹی وی ہے، جو حکومت کی نمائندگی کرتا ہے۔
    نعیم بخاری کی جانب سے اپوزیشن کو سرکاری چینل سے ’بلیک آؤٹ‘ کرنے کے بیان پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صحافیوں اور سیاست دانوں کا شدید رد عمل سامنے آیا ہے جس میں نعیم بخاری کو باور کرایا گیا ہے کہ ’پی ٹی وی عوام کے ٹیکس سے چلتا ہے، نہ کے کسی جماعت کے پیسوں سے۔
    تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا انھوں نے یہ بیان پالیسی سے متعلق دیا تھا یا یہ بات محض موجودہ سیاسی سرگرمیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی تھی۔
    سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ 1960 کی دہائی میں اپنے قیام سے لے کر پی ٹی وی کو قومی چینل ہونا چاہیے تھا لیکن ’اس کو حکمرانوں نے اپنا ماؤتھ پیس بنائے رکھا۔
    حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور پی ٹی وی کو خود مختار ادارہ بنانے اور ’بی بی سی کی طرز پر‘ اس کا خود کا بورڈ آف گورننس بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
    سینیئر صحافی اور ریڈیو پاکستان کے سابق ایم ڈی مرتضیٰ سولنگی لکھتے ہیں کہ تحریک انصاف نے وعدہ کیا تھا کہ پی ٹی وی کو بی بی سی کے طرز میں ڈھالا جائے گا اور اس کو عوام کا ترجمان بنایا جائے گا۔  نعیم بخاری قانون دان ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ آئین میں ریاست کی تشریح کیا ہے۔
    صحافی اسد ہاشمی لکھتے ہیں کہ ’عمران خان کی پالیسی کے برعکس حکومت کی طرف سے تعینات پی ٹی وی کا چیئرمین کہتا ہے کہ فقط حکومت کا موقف بیان کیا جائے گا، اپوزیشن کو وقت نہیں دیا جائے گا۔
    نامور قانون دان عبداللہ نظامانی لکھتے ہیں کہ حکومت اور ریاست ایک ہی چیز ہیں۔ پی ٹی وی جلد ریاست (حکومت) کا چینل بن جائے گا جیسے نارتھ کوریا میں صرف کم جانگ کی تقریر نشر کی جاتی ہے۔
    تاہم کچھ حلقوں کی جانب سے نعیم بخاری کے بیان کی حمایت بھی کی گئی۔ پاکستان کے فلم  اسٹار شان شاہد، نعیم بخاری کی حمایت میں سامنے آئے۔ انھوں نے لکھا کہ ’عمران خان جمہوریت کی آخری امید ہیں۔ اسی طرح آپ پی ٹی وی کی آخری امید ہیں۔ پی ٹی وی ہمارا فخر ہے جس کو دوبارہ سرخرو ہونا چاہیے۔
    لوگوں کی جانب سے نعیم بخاری کے اس بیان کی تعریف کی گئی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ اس عہدے پر تعینات ہونے پر کوئی تنخواہ، گاڑی یا مراعات نہیں لیں گے۔
    گورنر پنجاب محمد سرور نے کہا ہے کہ ’امید ہے نعیم بخاری کی تخلیقی صلاحیتیں اور تجربات پی ٹی وی جیسے قومی ادارے کی بہتری کے لیے سود مند ثابت ہوں گے۔

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55082458

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #2

    پاکستان اس کے باپ کو دیے گئے جہیز کا پانڈ ، لوٹا نہیں ہے جو پی ٹی آئ کے استنجے کے لیے استعمال کیا جائے ، اس بے شرم کو تو صرف اپنے اسٹپنی والے مکالمے پر ہی شرم سے ڈوب مرنا چاھیے ۔ عمران خان کو اپنے نمائندے کنجروں میں ہی سے کیوں ملتے ہیں ؟

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3

    عمران خان کو اپنے نمائندے کنجروں میں ہی سے کیوں ملتے ہیں ؟

    زیدی صاحب،
    یہ ایک سنجیدہ سوال ہے اور سنجیدہ تحقیق و غوروفکر کا متقاضی ہے ذیل میں کچھ آپشن درج کررہا ہوں انمیں سے جو آپ کو بہتر لگے اس کو منتخب کرلیں.
    ١) عمران خان کو صرف کنجروں کی حمایت حاصل ہے
    ٢) عمران خان کو صرف کنجر ہی پسند ہیں
    ٣)معاشرے میں کنجر وافر مقدار میں مہیا ہیں
    ٤) معاشرہ کنجروں پر مشتمل ہے
    ٥)معاشرہ کنجروں کو پسند کرتا ہے
    ٦)عمران کنجر کو کنجر نہیں سمجھتا ہے
    ٧)عمران کو کنجروں کی پہچان نہیں ہے
    ٨) عمران کو کنجروں کی بہت پہچان ہے
    ٩)سیاست صرف کنجر ہی کرتے ہیں
    ١٠) کنجر صرف سیاست کرتے ہیں
    ١١)ایک عام شخص دائرۂ عمرانی میں داخل ہو کر کنجر بن جاتا ہے
    ١٢)میں نے غلط فہمی میں لفظ کنجر استعمال کرلیا تھا اور میں شرمندہ تو نہیں ہوں مگر یہ لفظ واپس لیتا ہوں

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #4

    گھوسٹ صاحب، یقین کیجئے میں نے اس نقطہ نظرپر اتنی مفصل ٹو دی پوائنٹ تحریر اس سے پہلے نہیں پڑھی ۔ جب فردوس عاشق اعوان صاحب کی دوبارہ واپسی ہوئ تھی تو میں کافی دنوں یہی سوچتا رہا کہ اس میں ایسی کیا خوبی ہے جو ایک ریاست مدینہ کی راہ ہموار کرنے کے لیے ضروری ہے ؟ پھر خیال آیا کہ عمران اپنے کرکٹ کے دور میں اس قسم کی گفتگو نہ صرف خود کرتا رہا ہے بلکہ اس طرح کے لوگوں کی صحبت کو پسند کرتا ہے ۔ جو کچھ عاشق اعوان صاحب نے لاش اور پارسل کا ذکر کیا ہےاور جس طرح ایک تدفین کی بے حرمتی کے تاثر کو ابھارا ہے ، بخدا عمران خان کو روحانی تسکین میسرہوگی کہ شریف فیملی کے نام کے ساتھ ہی ان الفاظ کی پیوند کاری کی گئ ہے ۔ ھر مقدس فریضہ کو اس طرح بے توقیر اور بے حرمت کرنے کا اعزاز اس حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے ۔ ہم پستی کے سب سے نچلے درجے میں گر گئے ہیں۔ جس طرح اخلاقیات کا جنازہ حکومتی مسخرے ہر روز نیشنل ٹی وی پر نکالتے ہیں ، اس پر لکھنے کے لیے الفاظ ممکن نہیں ۔

    • This reply was modified 2 years, 3 months ago by Zaidi.
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #5

    گھوسٹ صاحب، یقین کیجئے میں نے اس نقطہ نظرپر اتنی مفصل ٹو دی پوائنٹ تحریر اس سے پہلے نہیں پڑھی ۔ جب فردوس عاشق اعوان صاحب کی دوبارہ واپسی ہوئ تھی تو میں کافی دنوں یہی سوچتا رہا کہ اس میں ایسی کیا خوبی ہے جو ایک ریاست مدینہ کی راہ ہموار کرنے کے لیے ضروری ہے ؟ پھر خیال آیا کہ عمران اپنے کرکٹ کے دور میں اس قسم کی گفتگو نہ صرف خود کرتا رہا ہے بلکہ اس طرح کے لوگوں کی صحبت کو پسند کرتا ہے ۔ جو کچھ عاشق اعوان صاحب نے لاش اور پارسل کا ذکر کیا ہےاور جس طرح ایک تدفین کی بے حرمتی کے تاثر کو ابھارا ہے ، بخدا عمران خان کو روحانی تسکین میسرہوگی کہ شریف فیملی کے نام کے ساتھ ہی ان الفاظ کی پیوند کاری کی گئ ہے ۔ ھر مقدس فریضہ کو اس طرح بے توقیر اور بے حرمت کرنے کا اعزاز اس حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے ۔ ہم پستی کے سب سے نچلے درجے میں گر گئے ہیں۔ جس طرح اخلاقیات کا جنازہ حکومتی مسخرے ہر روز نیشنل ٹی وی پر نکالتے ہیں ، اس پر لکھنے کے لیے الفاظ ممکن نہیں ۔

    ارتکاز زیدی صاحب ارتکاز .
    کرکٹ کے کھیل میں جب بلا باز، بلے بازی کررہا ہوتا ہے تو اسکے ارتکاز میں فرق نہ آجائے اس مقصد سے امپائر کے پیچھے ایک اسکرین لگی ہوتی ہے عموما بیٹنگ کے لئے تیار بلے باز کی توجہ جب گیند باز کی اگلی گیند پر ہوتی ہے اور وہ اپنی حکمت عملی کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے تو اچانک اگر اسکرین کے آس پاس ہل جل ہو جائے تو بیٹسمین کا ارتکاز ماند پڑ جاتا ہے اور وہ بیٹنگ کرنے سے انکار کردیتا ہے یہاں تک کہ وجہ خلل ارتکاز کا مناسب بندو بست نہ ہو جائے .
    یہاں بھی وہی مسلہ ہے، کپتان کا عظیم دور اندیشی پر مبنی وژن ہے پورے دن بوٹ پالشی کر کر کے جب کپتان تھک ہار کر بستر پر آرام کی نیت سے لٹا دیا جاتا ہے تو وہ اسرار کرکے خواب میں اپنی پسندیدہ ڈی وی ڈی لگالیتا ہے رات کو شیخ چلی صاحب بستر پر لیٹ تے ہی ریاست ہائے ترکیہ و ملایشیا و چینیا و مدینہ کا ایسا ملغوبہ تیار کرنا شروع کردیتے ہیں جہاں ہر طرف اہل یوتھ کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر ہوتا ہے ابھی خان اپنی کلر اسمائیل سے ہاتھ ہلا ہلا کر انکے جواب دے ہی رہا ہوتا ہے کہ اسکی آنکھ اس شوروغوغا سے کھل جاتی ہے
    ” مجھے کیوں نکالا”
    “کیوں نکالا مجھے”
    ” کیوں بھائی ، آپ لوگوں کو کویی وجہ سمجھ آتی ہے”
    “ووٹ کو عزت دو”
    ” ووٹ کو عزت دو”
    سلیکٹر ، سلیکٹڈ ،سلیکٹر ، سلیکٹڈ،سلیکٹر ، سلیکٹڈ

    اسکے بعد خان لاکھ کوشش کرلے اسکو نیند نہیں آتی ہے
    اس مسلہ کا حل اس نے یہ نکالا ہے کہ آپا عاشق اعوان (المعروف ہیرا منڈی) ، فیاض چوہان (المعروف نر گس) ، شہباز گل (المعروف پی ایچ ڈی) ، بے روزگار یوتھیوں پر مشتمل میڈیا سیل وغیرہ بھرتی کرلئے ہیں یہ ہر خان کے ارتکاز میں مخل ہونے والی ہر آواز پر اتنا بارکنگ کرتے ہیں کہ مخالفین کی دب جاتی ہے اور خان اپنے خواب خرگوش میں ایک مرتبہ پھر مد ہوش ہوجاتا ہے
    یہ ہوتا ہے لیڈر ،
    یہ ہوتا ہے وژن

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    خالد بٹ اور مصطفی چوھدری
    کمینے

    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #7
    ارتکاز زیدی صاحب ارتکاز . کرکٹ کے کھیل میں جب بلا باز، بلے بازی کررہا ہوتا ہے تو اسکے ارتکاز میں فرق نہ آجائے اس مقصد سے امپائر کے پیچھے ایک اسکرین لگی ہوتی ہے عموما بیٹنگ کے لئے تیار بلے باز کی توجہ جب گیند باز کی اگلی گیند پر ہوتی ہے اور وہ اپنی حکمت عملی کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے تو اچانک اگر اسکرین کے آس پاس ہل جل ہو جائے تو بیٹسمین کا ارتکاز ماند پڑ جاتا ہے اور وہ بیٹنگ کرنے سے انکار کردیتا ہے یہاں تک کہ وجہ خلل ارتکاز کا مناسب بندو بست نہ ہو جائے . یہاں بھی وہی مسلہ ہے، کپتان کا عظیم دور اندیشی پر مبنی وژن ہے پورے دن بوٹ پالشی کر کر کے جب کپتان تھک ہار کر بستر پر آرام کی نیت سے لٹا دیا جاتا ہے تو وہ اسرار کرکے خواب میں اپنی پسندیدہ ڈی وی ڈی لگالیتا ہے رات کو شیخ چلی صاحب بستر پر لیٹ تے ہی ریاست ہائے ترکیہ و ملایشیا و چینیا و مدینہ کا ایسا ملغوبہ تیار کرنا شروع کردیتے ہیں جہاں ہر طرف اہل یوتھ کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر ہوتا ہے ابھی خان اپنی کلر اسمائیل سے ہاتھ ہلا ہلا کر انکے جواب دے ہی رہا ہوتا ہے کہ اسکی آنکھ اس شوروغوغا سے کھل جاتی ہے ” مجھے کیوں نکالا” “کیوں نکالا مجھے” ” کیوں بھائی ، آپ لوگوں کو کویی وجہ سمجھ آتی ہے” “ووٹ کو عزت دو” ” ووٹ کو عزت دو” سلیکٹر ، سلیکٹڈ ،سلیکٹر ، سلیکٹڈ،سلیکٹر ، سلیکٹڈ اسکے بعد خان لاکھ کوشش کرلے اسکو نیند نہیں آتی ہے اس مسلہ کا حل اس نے یہ نکالا ہے کہ آپا عاشق اعوان (المعروف ہیرا منڈی) ، فیاض چوہان (المعروف نر گس) ، شہباز گل (المعروف پی ایچ ڈی) ، بے روزگار یوتھیوں پر مشتمل میڈیا سیل وغیرہ بھرتی کرلئے ہیں یہ ہر خان کے ارتکاز میں مخل ہونے والی ہر آواز پر اتنا بارکنگ کرتے ہیں کہ مخالفین کی دب جاتی ہے اور خان اپنے خواب خرگوش میں ایک مرتبہ پھر مد ہوش ہوجاتا ہے یہ ہوتا ہے لیڈر ، یہ ہوتا ہے وژن

    چلیں چھوڑیں گھوسٹ صاحب ، کب تک آبلوں کو پھوڑتے رہیں گے ، اک عمر گزر گئ ہے ، اک عمر گزر رہی ہے ، نہ کام بدلا ، نہ حال بدلا ۔ منصور آفاق کے کچے پکے شعر ملاحظہ کیجئے ۔

    اسے بھی ربطِ رہائش تمام کرنا تھا
    مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا

    نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے
    مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کرنا تھا

    بس ایک لنچ ہی ممکن تھا اتنی جلدی میں
    اسے بھی جانا تھا میں نے بھی کام کرنا تھا

    یہ کیا کہ بہتا چلا جا رہا ہوں پلکوں پر
    کہیں تو غم کا مجھے اختتام کرنا تھا

    گزر سکی نہ وہاں ایک رات بھی منصور
    تمام عمر جہاں پر قیام کرنا تھا

    دیوان منصور آفاق

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #8

    قلب کو اطمینان ہوا
    روح سرشار ہوئی
    فاتح عالم کی سی کفیت ہے

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #9

    قلب کو اطمینان ہوا روح سرشار ہوئی فاتح عالم کی سی کفیت ہے

    اچھا !۔

    • This reply was modified 2 years, 3 months ago by Zaidi.
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10

    اچھا !۔

    زیدی صاحب،
    جے بھیا کے جملوں کا مطلب عموما وہ نہیں ہوتا جو وہ لکھ رہے ہوتے ہیں اور وہ تو بلکل بھی نہیں ہوتا جو سمجھ آرہا ہوتا ہے

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #11
    زیدی صاحب، جے بھیا کے جملوں کا مطلب عموما وہ نہیں ہوتا جو وہ لکھ رہے ہوتے ہیں اور وہ تو بلکل بھی نہیں ہوتا جو سمجھ آرہا ہوتا ہے

    قوی بھی ہے ضعیف بھی ، ہمارا حافظہ شعور
    مزے تمام یاد ہیں ، عذاب ایک بھی نہیں
    ضیافتوں میں آجکل ، رواج سرکشی کہاں
    پی رہے ہیں اور کچھ،  شراب ایک بھی نہیں

    • This reply was modified 2 years, 3 months ago by Zaidi.
Viewing 11 posts - 1 through 11 (of 11 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi